آبادیوں کی ادل بدل نے ایک دن ایک اجنبی شہر میں چارحجاموں کو اکھٹا کردیا۔ وہ ایک چھوٹی سی دکان پر چائے پینے آئے۔ جیسا کہ قاعدہ ہے ہم پیشہ لوگ جلد ہی ایک دوسرے کو پہچان لیتے ہیں۔ یہ لوگ بھی جلد ایک دوسرے کو جان گئے۔ چاروں وطن سے لٹ لٹاکر آئے تھے۔ جب اپنی بپتا سناچکے تو سوچنے لگے کہ اب کریں تو کیا کریں؟ تھوڑی تھوڑی سی پونجی اور اپنی اپنی کسبت ہر ایک پاس تھی ہی۔ صلاح ٹھہری کہ چاروں مل کر ایک دکان لیں۔ اور ساجھے میں کام شروع کریں۔
یہ تقسیم کے آغاز کا زمانہ تھا۔ شہروں میں افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔ لوگ دل جمعی سے کوئی کام نہ کرپاتے تھے۔ تمام کاروبار سرد پڑے ہوئے تھے۔ پھر بھی ان حجاموں کو دکان کے لیے کافی دوڑ دھوپ کرنی پڑی۔ وہ کئی دن تک سرکاری دفتروں کے چکر کاٹتے رہے اور چھوٹے چھوٹے افسروں، کلرکوں اور چپراسیوں تک کو اپنی دکھ بھری کہانی بڑھا چڑھا کر سناتے رہے۔ آخر کار ایک افسر کا دل پسیج گیا اور اس نے ان چاروں کو شہر کے ایک اہم چوک میں ایک حجام ہی کی دکان دلادی جو ہنگامہ کے دنوں میں تالا ڈال بھاگ گیا تھا۔
یہ دکان زیادہ بڑی تو نہ تھی پر اس کے مالک نے اس میں اچھا خاصا سیلونوں کا سا ٹھاٹھ باٹھ کر رکھا تھا۔ دیواروں کے ساتھ ساتھ لکڑی کے تختے جوڑ اوپر سنگ مرمر کی لمبی لمبی سلیں جما، ٹیبل سے بنا لیے تھے۔ تین ایک طرف اور دو ایک طرف۔ ہر ایک ٹیبل کے ساتھ دیوار میں جڑا ہوا ایک بڑا آئینہ تھا اور ایک اونچے پایوں کی کرسی جس کے پیچھے لکڑی کا گدی دار اسٹینڈ لگا ہوا تھا۔ گاہک ٹھنگنے قد کا ہوا تو اسٹینڈ کو نیچے سرکا لیا۔ لمبے قد کا ہوا تو اونچا کرلیا اور گدی پر اس کے سر کو ٹکا، مزے سے داڑھی مونڈنے لگے۔
ضرورت کی یہ سب چیزیں مہیا تو تھیں مگر ذرا پرانے فیشن کی اور ٹوٹی پھوٹی۔ سنگ مرمر کی سلوں کے کنارے اور کونے جگہ جگہ سے شکستہ تھے، آئینے تھے تو بڑے بڑے مگر ذرا پتلے۔ اس کی وجہ سے گاہکوں کو اپنی صورتیں چپٹی چپٹی سی نظر آتی تھیں۔ ایک آئینے کے بیچ میں کچھ اس طرح کا بال پڑگیا تھا کہ دیکھنے والے کواس میں بیک وقت ایک کے دو چہرے نظر آتے مگر دونوں ادھورے جو ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوکرمضحکہ خیز صورتیں پیدا کرتے۔ چنانچہ اس آئینے کے سامنے بیٹھنے والا اپنی گردن کو تین چار مرتبہ مختلف زاویوں پر اونچا نیچا کیے بغیر نہ رہ سکتا۔ علاوہ ازیں اس دکان میں شیمپو کا بھی کوئی انتظام نہ تھا۔
لیکن ان حجاموں نے ان خامیوں کا زیادہ خیال نہ کیا۔ سچ یہ ہے، یہ بات ان کے وہم و خیال میں بھی نہ آسکتی تھی کہ ایک دن انہیں یہ سب سامان بنابنایا مفت مل جائے گا۔ اپنے وطن میں وہ اب تک بڑی گمنامی کی زندگی بسر کرتے رہے تھے۔ ان میں سے ایک جو عمر میں سب سے بڑا تھا اور استاد کہلاتا تھا، اس نے کچھ مستقل گاہک باندھ رکھے تھے جن کے گھر وہ ہر روز یا ایک دن چھوڑ کر ڈاڑھی مونڈنے جایا کرتا تھا۔ اس سے عمر میں دوسرے درجے پر جو حجام تھا اس نے ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم اور لاریوں کے اڈے سنبھال رکھے تھے۔ دن بھر کسبت گلے میں ڈالے ڈاڑھی بڑھوں کی ٹوہ میں رہا کرتا تھا۔ اور دوسرے دو حجام جو نوعمر تھے، ڈیڑھ ڈیڑھ روپے یومیہ پر کبھی کسی دکان میں تو کبھی کسی دکان میں کام کیا کرتے تھے۔ اب اچانک قسمت نے ان لوگوں کو زندگی میں پہلی مرتبہ آزادی اور خودمختاری کا یہ موقع جو بخشا تو وہ بہت خوش ہوئے اور دکان کو اور زیادہ ترقی دینے اور اپنی حالت کو سنوارنے پر کمر بستہ ہوگئے۔
سب سے پہلے ان لوگوں نے بازار سے ایک کوچی اور چونا لاکر خود ہی دکان میں سفیدی کی اور اس کے فرش کو خوب دھویا پونچھا۔ اس کے بعد نیلام گھر سے پرانے انگریزی کپڑوں کے دو تین گٹھر سستے داموں خریدے، ان میں سے قمیضوں اور پتلونوں کو چھانٹ کر الگ کیا۔ پھٹے کپڑوں کو سیا۔ جہاں جہاں پیوند لگانے کی ضرورت تھی وہاں پیوند لگائے۔ جن حصوں کو چھوٹا کرنا تھا ان کو چھوٹا کیا اور یوں ہر ایک نے اپنے لیے دو دو تین تین جوڑے تیار کرلیے۔ اس کے علاوہ ہر ایک کو ایک ایک چادر کی بھی ضرورت تھی۔ جسے بال کاٹنے کے وقت گاہک کے جسم پر گردن سے نیچے نیچے لپیٹنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ ذرا مشکل کام تھا مگر ان لوگوں نے سایوں، جمپروں، کوٹوں اور پتلونوں کو پھاڑ کر جیسے تیسے دوچادریں بناہی لیں۔ کپڑوں کے اسی ڈھیر میں انہیں ریشم کا ایک سیاہ پردہ بھی ملا جس میں سنہرے رنگ میں تتلیاں بنی ہوئی تھیں۔ کپڑا تھا تو بوسیدہ مگر ابھی تک اس میں چمک دمک باقی تھی۔ اسے احتیاط سے دھو کر دکان کے دروازے پر لٹکادیا۔
اپنے اپنے اوزار سب کے پاس تھے ہی، ان کی تو فکر نہ تھی۔ البتہ تھوڑے تھوڑے داموں والی کئی چیزیں خریدی گئیں۔ مثلا سلولائڈ کے پیالے صابن کے لیے، داڑھی کے برش، پھٹکری، چھوٹی بڑی کنگھیاں، تولیے، دو تین تیز خوشبووالے دیسی تیلوں کی شیشیاں، ایک گھٹیا درجہ کے کریم کی شیشی، ایک سستا سا پاؤڈر کا ڈبہ۔ علاوہ ازیں کباڑیوں کی دکانوں سے ولایتی لونڈر کی ٹیڑھی ترچھی خالی شیشیاں خرید ان میں سرسو ں کا تیل بھر دیا۔
دکان کی آرائش کی طرف سے بھی یہ لوگ غافل نہیں رہے۔ دکان کے پہلے مالک نے اس میں نہ جانے کس زمانے کی دقیانوسی تصویریں لٹکا رکھی تھیں ان کو اتار ڈالا، اور ان کی جگہ دو ایک پرانے امریکن فلموں کے بڑے بڑے رنگ دار پوسٹر جو ایک کباڑیے کے ہاں سے لے آئے تھے، دکان کے اندر دیواروں پر چسپاں کردیے۔ علاوہ ازیں دو تین قطعات اور ایک کیلنڈر جس میں ملک کے بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کے فوٹو تھے، دیوار پر ٹانگ دیے۔
دکان کو جلد چلانے کے خیال سے انہوں نے اجرتیں بہت کم رکھیں۔ مروجہ اجرتوں سے نصف سے بھی کم۔ چنانچہ ایک گتے پر سیاہ روشنائی سے حجامت کی مختلف قسموں کی اجرتیں لکھواکر اسے دیوار پر ایسی جگہ لٹکا دیا کہ گاہک جیسے ہی دکان میں داخل ہو، اس کی نظر سب سے پہلے اسی پر پڑے۔ پہلے حجام نے اس دکان کا نام فینسی ہیر کٹنگ سیلون رکھا تھا۔ یہ نام دکان کی پیشانی پر بہت جلی حروف میں انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھا ہوا تھا۔ ایک بابو سے فینسی کا مطلب معلوم کرکے بہت خوش ہوئے۔ اور فیصلہ کیا کہ فی الحال اسی سے کام لیا جائے۔ کوئی نیا نام رکھتے تو اس کو مٹانے اور اس کو لکھوانے پر خاصی رقم خرچ کرنی پڑتی۔
جس روز باقاعدہ طور پر دکان کا افتتاح ہونا تھا، انہوں نے دوپہر کو بڑی محنت سے ایک دوسرے کی حجامتیں بنائیں۔ لمبی لمبی قلمیں رکھیں۔ گرم پانی سے خوب مل مل کر نہائے، صاف ستھری قمیضیں اور پتلونیں پہنیں، جن کو انہوں نے قریب کی ایک لانڈری سے دھوالیا تھا۔ بالوں میں تیل ڈالا، پٹیاں جمائیں، گردن اور چہرے پر ہلکا ہلکا پاؤڈر ملا اور یوں چاق و چوبند ہوئے۔ اگربتیوں کی بھینی بھینی خوشبو میں استروں کو جن کی دھار رات بھر سلوں پر تیز کرتے رہے تھے، ہتھیلی پر ہلکاہلکا پٹکتے ہوئے خود کو خدمت خلق کے لیے پیش کردیا۔
پہلی شام کچھ زیادہ کامیاب ثابت نہ ہوئی۔ کل پانچ گاہک آئے۔ تین شیو اور دو بال کٹائی کے اور وہ بھی آدھ آدھ پا پا گھنٹے کے وقفے پر۔ مگر یہ لوگ ذرا مایوس نہ ہوئے۔ ہر گاہک کا پرجوش خیرمقدم کیا۔ اس کو بٹھانے سے پہلے کرسی کو دوبارہ جھاڑا پونچھا۔ اس کی ٹوپی پگڑی یا کوٹ لے کر احتیاط سے کھونٹی پر ٹانگ دیا۔ ڈاڑھی کے بال نرم کرنے کے لیے دیر تک برش سے جھاگ کو پھینٹا۔ بڑے نرم ہاتھ سے استرا چلایا، اور اگر احتیاط کے باوجود کہیں ہلکا سا چرکا لگ بھی گیا تو بڑی چابک دستی سے خون کو صابن کے جھاگ میں چھپائے رکھا۔ تاوقتیکہ پوری ڈاڑھی نہ مونڈ لی اور پھر اطمینان سے پھٹکری پھیر کر زخم کو نیست و نابود کردیا۔
ایک حجام نے اس خیال سے کہ بال کاٹنے میں زیادہ وقت لگایا جائے، تو گاہک خوش ہوتا ہے۔ ایک دفعہ بال تراش کر دوبارہ پھر تراشنے شروع کردیے۔ آخر میں اس نے گاہک کے سر میں تیل ڈال یوں ہلکے ہلکے مزے مزے ملنا شروع کیا کہ گاہک کی آنکھوں میں سرور کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ اس کو اپنی محنت کا صلہ جلد ہی مل گیا۔ گاہک نے اجرت کے علاوہ ایک آنہ اسے بخشش کے طور پر بھی دیا۔ اس شام کام کی کمی کے باوجود ان لوگوں نے دیر تک دکان کھلی رکھی۔ پھر دکان بڑھانے کے بعد بھی وہ دیر تک جاگتے رہے اور ہنسی مذاق کی باتیں کرتے رہے۔
دوسرے دن دفتروں میں کوئی تعطیل تھی۔ صبح کو آٹھ بجے ہی سے گاہک آنے شروع ہوگئے۔ دس بجے کے بعد تو یہ کیفیت ہوگئی کہ ایک گیا نہیں کہ دوسرا آگیا۔ پھر بعض دفعہ تو تین تین کار یگر بیک وقت کام میں مصروف رہے۔ رات کو دکان بڑھاکر حساب کیا تو ہر ایک کے حصے میں تقریبا چار چار روپے آئے۔ تیسرے روز پھر مندہ رہا۔ مگر چوتھے روز پھر گاہکوں کی گہماگہمی دیکھ کر چاروں کو یقین ہوگیا کہ دکان قطعی طور پر چل نکلی ہے۔
یہ لوگ اس اجنبی شہر میں اکیلے ہی آئے تھے۔ لہذا رات کو فرش پر بستر جما دکان ہی میں پڑ رہتے۔ ایک چھوٹی سی انگیٹھی، ایک کیتلی اور دو تین روغنی پرچ پیالیاں خریدلیں۔ صبح کو دکان ہی میں چائے بناتے اور ناشتہ کرتے۔ دوپہر کو تنور سے دو ایک قسم کے سالن اور روٹیاں لے آتے اور چاروں مل کر پیٹ بھر لیتے۔
دکان کو قائم ہوئے ابھی آٹھ دن ہی ہوئے تھے کہ ایک دن سہ پہر کو ایک ادھیڑ عمر دبلا پتلا شریف صورت آدمی دکان میں داخل ہوا۔ اس کے کپڑے میلے تھے مگر پھٹے ہوئے نہ تھے۔ سر پر اس وضع کی پگڑی جیسے منشی لوگ باندھا کرتے ہیں۔ پاؤں میں نری کا جوتا، ڈاڑھی بڑھی ہوئی۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ اس میں سفید بال زیادہ ہیں یا کالے۔ ایک گھٹیا درجہ کی عینک لگائے تھا جس کی ایک کمانی ٹوٹی ہوئی تھی اور اسے دھاگے سے جوڑ رکھا تھا۔ ان لوگوں نیاسے کرسی پربیٹھنے کو کہا۔ پہلے تو وہ جھجکا مگر پھر بیٹھ گیا۔
ایک حجام نے پوچھا” شیو؟”
اس نے کہا:” نہیں۔”
”بال؟”
”نہیں۔”
”او پھر کیا چاہتے ہو؟ ”استاد نے پوچھا۔
”مہربانی کرکے میرے ناخن کاٹ دو۔” اُس نے کہا۔
ناخن کٹوانے کے بعد بھی وہ شخص وہیں بیٹھا رہا۔ آخر جب ان لوگوں نے بار بار اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اس نے کہنا شروع کیا:
” صاحب میں ایک غریب مہاجر ہوں۔ میں اپنے وطن میں ایک بنئے کا منشی تھا۔ اس کے ہاں راشن کارڈوں کی پرچیاں لکھا کرتا تھا اور حساب کتاب کا کام بھی کیا کرتا تھا۔ وطن چھوٹا تو یہ روزگار بھی چھوٹ گیا۔ اس شہر میں کئی دن سے بیکار پھر رہا ہوں۔ کئی جگہ نوکری کی تلاش میں گیا مگر ہرجگہ پہلے ہی سے منشی موجود تھے۔ اگر آپ مجھے کوئی کام دلوادیں تو عمر بھر احسان نہ بھولوں گا میں۔ اس بیکاری سے ایسا تنگ آگیا ہوں کہ جو کام بھی مجھے بتائیں گے، دل و جان سے کروں گا۔ حساب کتاب کے کام کے علاوہ میں کھانا پکانا بھی جانتا ہوں۔”
اس کی بات سن کر یہ لوگ تھوڑی دیر خاموش رہے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے صلاح مشورہ کرتے رہے۔ آخر استاد نے زبان کھولی:
”دیکھو میاں ہم خود مہاجر ہیں اور نیا نیا کام شروع کیا ہے۔ تنخواہ تو ہم تم کو دینے کے نہیں۔ ہاں کھانا دونوں وقت ہمارے ساتھ کھاؤ۔ بلکہ خود ہی پکاؤ۔ کیونکہ تم ہمارے بھائی ہو۔ بس اپنی دکان کو جھاڑ پونچھ دیا کرنا۔ پھر جب کہیں تمہارا کام بن جائے تو شوق سے چلے جانا، ہم روکیں گے نہیں۔” اس شخص نے بڑی خوشی سے ان کی یہ شرط منظور کرلی۔ شکریہ ادا کیا اور وہیں رہ پڑا۔
دوسرے دن بازار سے ایلومینیم کی ایک دیگچی اور کچھ برتن خریدے گئے اور دکان میں ہنڈیا پکنے کا سامان ہونے لگا۔ مگر پہلے ہی روز ان پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ یہ شخص کھانا پکانا کچھ واجبی ہی جانتا ہے۔ تاہم اسے نکالا نہیں گیا۔ جھاڑنے پونچھنے میں وہ کافی چست تھا۔ بازار سے سودا بھی دوڑ کر لے آتا تھا۔ سچ یہ کہ ایک شخص جو آٹھ پہر غلامی کرنے کو تیار تھا۔ خط پتر لکھ سکتا تھا۔ حساب کتاب جانتا تھا۔ آقاؤں سے ادب سے پیش آتا تھا دو وقت کی روٹی پر کچھ مہنگا نہ تھا۔
یوں ہی دن گزرتے گئے۔ یہاں تک کہ دکان کھلے دو مہینے ہوگئے۔ اس عرصے میں دکان نے خاصی ترقی کرلی تھی۔ ان لوگوں نے اس کے لیے کچھ نیا فرنیچر بھی خریدلیا تھا۔ شیمپو کے لیے بیسن وغیرہ بھی لگوا لیا تھا اور تھوڑی تھوڑی رقم ہر ایک نے بچا بھی لی تھی۔
تیسرا مہینہ ابھی آدھا ہی گزرا تھا کہ ایک دن صبح ہی صبح استادکو اپنے بیوی بچوں کی یاد بے طرح ستانے لگی۔ دوپہر ہوتے ہوتے وہ ٹھنڈے ٹھنڈے سانس لینے لگا۔ تیسرے پہر اس کی اداسی اور بھی بڑھ گئی۔ شام ہونے سے پہلے ہی اس نے اپنے ساتھیوں سے چار دن کی چھٹی لی اور بیوی بچوں کو لے آنے کے لیے روانہ ہوگیا۔ جو کوئی دو سو میل دور کسی شہر میں اپنے کسی رشتہ دار کے دروازے پر ناخواندہ مہمان بنے پڑے تھے۔
استاد نے چار دن میں لوٹ آنے کا پکا وعدہ کیا تھا اور بڑی بڑی قسمیں کھائی تھیں۔ مگر واپسی میں پورے پندرہ دن لگ گئے۔ بیوی بچوں کو تو اسٹیشن کے مسافرخانے ہی میں چھوڑا، اور خود دوکان پر پہنچا۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو بیماریوں کی ایک طویل داستان سنائی جن میں اس کی بیوی اور چار بچے مبتلا تھے اور وہ تکلیفیں بھی بیان کیں جو بیوی بچوں کو یہاں تک لانے میں اسے اٹھانی پڑیں۔ آخر میں اس نے خرچ کی تنگی کا ذکر کیا اور روپیہ قرض مانگا۔
یہ بات تو ظاہر ہی تھی کہ جتنے روز استاد نے دکان میں کام نہیں کیا تھا اتنے روز کی آمدنی میں اس کا کوئی حصہ نہ تھا۔ اور پھر ایک کاریگر کے کم ہوجانے سے آمدنی بھی نسبتا کم ہی ہوئی تھی۔ مگر کچھ تو بزرگی کا لحاظ کرتے ہوئے اور کچھ مروت کی وجہ سے اس کے ساتھیوں نے اسے یہ بات نہ جتائی بلکہ ہر ایک نے اپنی اپنی جیب سے پانچ پانچ روپے نکال کر اس کے حوالے کردیے۔ پندرہ روپے استاد کی ضرورتوں کے مقابلے میں بہت ہی کم تھے۔ مگر وہ چپ چاپ یہ رقم لے کر چلا گیا۔
دوسرے دن سے پھر چاروں آدمی کام کرنے لگے۔ اب تک تو ان کا یہ قاعدہ رہا تھا کہ گاہکوں سے اجرتیں لے لے کر اپنے پاس ہی جمع کرتے رہتے۔ اور رات کو دکان بڑھاتے وقت ساری رقم اکٹھی کرکے آپس میں برابر برابر تقسیم کرلیتے۔ دکان کے رکھ رکھاؤ، ٹوٹ پھوٹ اور اپنے اور نوکر کے کھانے پینے پر جو رقم خرچ ہوتی اس میں وہ چاروں برابر کے ساتھی تھے۔ مگر استاد نے دوسرے ہی دن باتوں باتوں میں اپنے ساتھیوں سے کہہ دیا کہ بھئی میں بیوی بچوں والا ہوں۔ پردیس کا معاملہ ہے، ان کو اکیلا کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔ اس لیے رات کومیں ان کے پاس سویا کروں گا دوسرے یہ کہ کھانا بھی میں ان کے ساتھ ہی کھایا کروں گا۔ آج سے تم کھانے پینے کے خرچ میں سے میرا نام نکال دو۔۔۔ اور بھائیوں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں تو تمہارے ساتھ خرچ کروں اور ادھر گھر پر بھی۔ اس کے ساتھی یہ بات سن کر خاموش ہو رہے۔ اب استاد دوپہر کو کھانا کھانے گھر چلا جاتا۔ جو اس نے قریب ہی کہیں لے لیا تھا۔ دو گھنٹے بعد لوٹتا۔ رات کو وہ جلد ہی دوکان بڑھوا، اپنا حصہ لے چلتا بنتا۔