عیدی
(عید سپیشل افسانہ)
صبغہ احمد
گھر کے مختصر سے صحن کی کیاریوں میں جا بجا لگے موتیے اور گلابوں نے اپنی خوشبو رچا رکھی تھی۔ صحن کے دائیں جانب ایک عدد جھولا لٹکایا گیا تھا جبکہ بائیں جانب اطراف میں بانس کے ڈنڈوں پر چڑھی انگوروں کی پھیلی ہوئی لمبی بیل اپنے قدرے پرانے ہونے کا احساس دلاتی تھی۔ موٹے موٹے سرخ انگوروں کے چند ایک گچھے پر پرندوں کی چونچوں کے نشان ثبت تھے جبکہ باقی ماندہ گچھوں پر کپڑا لپیٹ کر انہیں پرندوں سے بچانے کی کوشش کی گئی تھی ۔ معلوم پڑتا تھا یہ گھر کے افراد کے اپنے کھانے کے لئے حفاظتی تدبیر ہے۔ وسیع بیل کی چھاﺅں تلے وہ ایک ہاتھ سے فون تھامے، دوسرا ہاتھ ڈنڈے کے گرد جمائے گھوم گھوم جاتی تو کبھی جوش سے اس کی چھاﺅں میں بیٹھ جاتی۔ وہ اپنی عزیز از جان سہیلی طیبہ سے بات کر رہی تھی۔ طیبہ عرف طبو کا گھر اس کے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر ہی تھا، تاہم ماہ ِرمضان کی وجہ سے آنا جانا کم ہی ہوتا تھا اس لیے دونوں اپنے احساسات کے اظہار کا شوق فون پر ہی پورا فرما رہی تھیں۔ طیبہ چہک چہک کر اپنے سسرال سے آنے والی عیدی کے متعلق اسے بتا رہی تھی۔ اس کی آواز میں چڑیا کی سی چہچہاہٹ تھی۔بغیر دیکھے اس کی آواز سے شہلا پہچان گئی تھی کہ وہ کتنی خوش ہے۔
”ہاں شہلا!کیا بتاﺅں یار، اس بار تو رنگ بھی میری پسند کے ہیں۔ ہاں! وہ میں نے ارسل کو بتایا تھا فون پر ایک دن اپنے پسندیدہ رنگوں کے بارے میں۔“
”ہیں ں ں! کیا واقعی؟“ شہلا خفیف سے انداز میں بولی۔
”میں نے اپنی مرضی سے تھوڑا بتایا تھا۔ اور نہیں تو کیا، اس نے خود ہی پوچھا تھا۔“طیبہ فون کان سے لگائے اس کے ”ہیں ں ں“ کہنے کے انداز کو پہچان گئی تھی۔ اس لیے فوراً سے پہلے وضاحت دینے لگی۔
”اچھا!“ شہلا نے صرف اچھا کہنے پر اکتفا کیا۔
”ہیں! کیا اچھا۔“ طیبہ پھر سے شروع ہوگئی تھی۔
“تم سناﺅ! تمہاری عیدی آگئی کیا؟ سچی! میں تو بہت اکسائیٹڈ ہوں۔ دونوں عید کے پہلے دن عیدی میں آیا جوڑا ہی پہنیں گے۔ کیوں؟کیسا لگا میرا آئیڈیا۔“ طیبہ اپنی ہی دھن میں بولے جا رہی تھی۔
”میری تو عیدی آئی ہی نہیں طبو! اور دور دور تک کوئی امکان بھی نہیں ۔“ شہلا رونی صورت بنا کر بولی۔
”ہیں کیا! ابھی تک نہیں آئی۔ اچھا کوئی بات نہیں میری جان، آجائے گی اور اگر نہ آئی تو میں بھی گھر والا جوڑا ہی پہنوں گی سچی۔“ طیبہ بہن جیسا پیار جتا کر بولی۔ شہلا کو اور رونا آیا۔
”کیا مطلب نہیں آئی تو۔“ شہلا غم و غصے کی ملی جلی کیفیت میں منمنائی۔
”اری او شہلا!“ کچن سے اماں کی آواز برآمد ہوئی۔ شہلا فوراً سے غم بھلائے مخاطب ہوئی۔
”طبو!میں فون رکھتی ہوں۔ اماں بلا رہی ہیں۔“
”جی اماں!“ شہلا کچن میں آتے ہی بولی۔
”دیکھ سورج سوا نیزے پہ آگیا ہے، اور سہری کے پانڈے تو نے ابھی تک نہیں دھوئے۔“
”وہ اماں آج دو سپارے ختم کیے میں نے فجر کے بعد، پھر ایسی نیند آئی کہ پھر جلدی جاگ ہی نہیں آئی۔“
”شہلا!کنی وری آکھیا اے فجر کے بعد نہ سویا کر نہوست ہوتی ہے۔“
”لیکن اماں! میں فجر کے فوراً بعد نہیں سوئی۔ میں تو فجر سے پورے دو گھنٹے بعد سوئی تھی۔“
اماں نے ایک گھوری شہلا کے سرخ و سپید چہرے پہ ڈالی اور اس کی عقل پر ماتم کا سلسلہ ملتوی کرتے ہوئے باورچی خانے سے نکلیں۔
اماں عصر کی نماز سے فارغ ہوئیں تو شہلا کو خیالوں میں گم پایا۔
”شہلا!نماز پڑھ لی نہ تو نے؟“ اماں نے جیسے جانتے ہوئے بھی سوال کیا۔
”ہاں اماں!“ شہلا اداس سی بولی۔
”چل پھر کچن میں چل کے تیاری کریں افطار کی۔“
”اماں دل نہیں کر رہا۔“
”ہیں!“
”کیوں نہیں کر رہا دل؟ تیرے دل کو نہیں دماغ کو کچھ ہو گیا صبح سے الٹی سیدھی مار رہی ہے۔“
”پتا نہیں اماں بس دل نہیں لگ رہا؟“
”ویکھ نی شہلا!تجھے پتا ہے نا یہ مرزا کی چپل کیوں پہنتی ہوں میں، ایک تو چلنے میں آسانی اور دوسرا۔“اماں کا ہاتھ چپل کی طرف جاتے جاتے رک گیا۔
”اماں چھوڑو نا، میں جا ہی رہی تھی۔“ شہلا اماں کا مطلب سمجھتے ہوئے بولی۔ شہلا کچن میں جانے کے لیے چپل اڑسنے لگی۔ اماں اسے پیچھے سے جاتا ہوا دیکھ رہی تھیں۔ وہ ماں تھی، بیٹی کے دل و دماغ سے بخوبی واقف تھی ، وہ طیبہ کی عیدی کے متعلق جانتی تھیں۔ طیبہ کی منگنی اپنے ماموں زاد سے ہوئی تھی۔ اس کی منگنی کو سال ہونے والا تھا جبکہ شہلا کی منگنی چھے ماہ قبل غیروں میں ہوئی تھی۔ دونوں اپنی عیدی کی منتظر تھیں۔ یہ احساس ہی ایسا سہانا تھا ان دونوں کے لیے اور بلاشبہ ہر لڑکی کے لیے ہی دل آویز ہوتا ہے۔ پیا گھر سے آئی دھنک رنگ اوڑھنی اوڑھنا، سبز کھنکتی چوڑیاں اور مہندی کا گہرا رنگ۔ ہر احساس ہی دل میں جل تھل کر دینے والا تھا۔ ہر لڑکی کو ہی ارمان ہوتا ہے اور غالباً شہلا بھی انہیں میں سے ایک تھی۔
رمضان کا تیسرا عشرہ اختتام پذیر ہوا چاہتا تھا۔ یہ آخری روزہ تھا۔ گرمی حد سے سوا تھی۔ شہلا عصر کی نماز خشوع و خضوع سے ادا کر رہی تھی۔ یہ اس کی طبیعت کا خاصا تھا کہ وہ نماز بڑے ہی خشوع سے ادا کرتی تھی۔ یہ اماں کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ شہلا اللہ کی بندگی کے بعد کے ماں باپ کی فرمانبرداری کو اہم جانتی تھی۔ باقی چیزوں کی باری بعد میں آتی تھی۔ دروازے پر دستک ہوئی تو شہلا جائے نماز سمیٹتے ہوئے دروازہ کھولنے چل دی اور پھر ۔۔۔۔پھر دروازہ وا ہوتے ہی دنیا کی ساری تتلیوں کے رنگ جیسے اس کے چہرے پہ سج گئے تھے۔
”نی کون ہے کڑیے!“اماں کمرے سے نکلتے ہوئے پوچھنے لگیں۔
”ارے صالحہ آپا آپ!“شہلا کی ساس اور نند شہلا کی عیدی لے کر آئی تھیں۔
”شہلا جا! اپنے ابا کو فون کر مسجد سے آتے ہوئے افطار کے لوازمات لے آئیں۔“ اماں انہیں لے کر کمرے میں چل دیں۔
”دراصل ہم پہلے ہی آنا چاہ رہے تھے لیکن احسن نہیں مان رہا تھا۔ کہہ رہا تھا امی عیدی میری تنخواہ سے ہی لے کر جائیں۔ مانے نہیں مان رہا تھا وہ لڑکا۔ اب کل اس کی تنخواہ آئی تو ہم شہلا بیٹی کی عیدی لے کر آ گئے۔“
شہلا صحن میں لگے ٹیلی فون سے ابا کو فون کرنے کے بعدکمرے کی طرف بڑھ رہی تھی، جب اپنے منگیتر کے اپنے لیے احساسات جان کر خوشی سے سرشار ہو گئی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے صحن میں لگے لال گلابوں کا رنگ اس کے چہرے نے چرا لیا ہو۔
عشا کی نماز سے فارغ ہو کر اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے شہلا فون کرنے چل دی۔ طیبہ کو اپنی عیدی کا بتاتے ہوئے اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا۔
٭….٭….٭