ذوالفقار — اقراء اعجاز

”مبارک ہو اماں! اللہ نے لڑکا دیا ہے۔”
میں نے جیسے ہی آنکھیں کھولیں مجھے ایک اجنبی آواز سنائی دی ۔میں اپنی ماں کو دیکھنا چاہتا تھا مگر یہ کیا؟ مجھ سے اپنی آنکھیں نہیں کھولی جا رہی تھیں ۔کیا میں اتنا کمزور تھا ؟ اس لمحے میں نے اپنے آپ کو بہت لاچار محسوس کیا ۔
اچانک مجھے اپنے گالوں پہ کسی کا لمس محسوس ہوا۔ کوئی مجھیپیار بھرا بوسہ دے رہا تھا۔ میرے اندر محبت بھری تپش اُبھر آئی اور میں اس نرماہٹ اور خوشبو سے جان گیا تھا کہ یہ میری اماں تھیں۔ پھر میری ماں نے مجھے اپنی آغوش میں بھر لیا۔ میں اپنے ابا اور باقی بہن بھائیوں سے بھی ملنا چاہتا تھا مگر میرا دماغ سو رہا تھا شائد مجھے نیند آرہی تھی۔ میری ماں نے مجھے دودھ پلایا اور میں سو گیا۔ کچھ دیر بعد میں جاگا، اب میرے حواس کچھ بحال تھے میں نے اپنے اردگرد کا جائزہ لیا۔ یہ ایک خستہ حال جھگی تھی۔ مجھے شدید گرمی کا احساس ہوا مگر وہاں کوئی پنکھا نہیں تھا لہٰذا میں اسی طرح گرمی میں پڑا رہا۔ میں نے منہ پھاڑ کر رونا شروع کر دیا کیوںکہ اپنی ماں کو متوجہ کرنے کا یہی طریقہ مجھے سمجھ میں آیا ۔اماں دوڑی آئیں اور مجھے سینے سے لگا لیا۔ اب مجھے قدرے سکون محسوس ہوا تھا۔ اس بار میرے اردگرد کافی لوگ جمع تھے۔ کچھ چھوٹے بچے بھی تھے۔ میں نے استفہامیہ نظروں سے اماں کو دیکھا اور پوچھا کہ یہ سب کون ہیں؟ میری ماں نے سب سے یہ کہہ کر میرا تعارف کروایا کہ میں ان کا چھوٹا بھائی ہوں۔





ان میں ایک میرے ابا بھی تھے۔ انہوں نے مجھے خوب بھینچ کر پیار کیا ۔بچے تعداد میں کل چار تھے، تین لڑکے اور ایک لڑکی۔ میری صورت میں ان کا پانچواں بھائی دنیا میں آیا تھا۔ ان سب سے مل کر میں بہت خوش تھا۔ سب نے مجھے باری باری گود میں لیا اور بہت پیار کیا۔
ان سب نے میرا نام ذوالفقار رکھا۔ میری اماں کو یہ نام بہت پسند تھا وہ بہت پیار سے مجھے اس نام سے پکارتی تھیں۔ ایسے ہی دن گزرتے گئے اب میں کچھ بڑا ہو رہا تھا، بہت سی چیزوں کو سمجھنے لگا تھا۔ میں غوں غاں کر کے اپنے ہونے کا احساس دلاتا۔ مجھے یہ علم ہوگیا تھا کہ میں تھر کے علاقے میں پیدا ہوا ہوں یہاں تاحدِ نگاہ صحرا ہی صحرا تھا۔ سونے کی رنگت والی ریت تھی اور کھجور کے درخت تھے۔ اب میری عمر چھے ماہ دس دن ہو چکی تھی۔ میں جان گیا تھا کہ میں ایک نہایت غریب گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ ہم سب کی خوراک کا انتظام کرنا میرے ماں باپ کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ گو کہ ابا کھیتی باڑی کرتے تھے مگر یہاں کا موسم اور حالات موافق نہ تھے کہ فصل اچھی اُگ سکے۔
میری بہن گڑیا فقط تین سال کی تھی، سارا سارا دن جب بھوک سے روتی تو میں بھی تڑپ جاتا۔ یوں تو سب ہی مجھے عزیز تھے مگر گڑیا سے کچھ خاص ہی انسیت تھی۔ اماں کو دن بھر مشقت کرتے دیکھتا۔ یہاں پانی کا انتظام بھی نہ تھا۔ میری منحنی سی اماں سر پہ گاگر اٹھائے ہمارے لئے پانی بھر کے لاتی تھیں۔ زندگی بہت دشوار تھی۔ سارا دن دھوپ میں لکڑیاں جلاتی میری اماں سِنک کر تانبے کی طرح دکھنے لگی۔ میں چوںکہ بڑا ہو رہا تھا، میری عمر اب ایک سال ہو چلی تھی مجھے زیادہ خوراک کی ضرورت تھی جو کہ پوری کرنا میرے ماں باپ کے بس کا کام نہیں تھا۔ اس لئے ہمہ وقت بھوک سے بلکتا رہتا مگر کسی کے کان پہ جوں نہ رینگتی۔ صرف میری اماں تھیں جو میری تکلیف محسوس کرتی تھیں ۔دراصل مجھے صرف اماں ہی جانتی تھیں ابھی بول نہیں سکتا تھا مگر پھر بھی ہر بات اماں سے کرتا تھا۔ وہ کبھی فارغ ہوتیں تو توجہ سے سن لیتیں ورنہ اپنے کاموں میں لگی رہتیں۔ اماں بعض دفعہ بہلانے کی کوشش کرتیں پر پیٹ کا دوزخ اور کوئی خیال آنے ہی نہ دیتا تھا۔ کبھی کبھار ہمارے علاقے میں جب خوراک سے بھرا ہوا ٹرک آتا تو ہمارے گھر میں عید جیسا سماں ہوتا۔ اماں اور ابا صبح سے ہی لائن میں لگ جاتے۔ چھینا چھپٹی میں کچھ نہ کچھ ہاتھ لگ ہی جاتا۔ اس دن میں اپنے بہن بھائیوں کو بہت خوش دیکھتا ۔ اماں اس دن مجھے بہت پیار سے چومتیں مجھے لوریاں سناتیں۔ ہم سب بہن بھائیوں کو اُس دن ماں باپ کی شفقت اور پیار میسر آتا۔ آہستہ آہستہ میں بیمار رہنے لگا میری ٹانگیں اتنی کمزور تھیں کہ میرا وزن اٹھانے کے قابل بھی نہ تھیں ۔ ہمارے اردگرد رہنے والوں کا حال بھی ہم سے مختلف نہ تھا۔
میرے کئی ہم عمر بھی ایسے ہی بھوک سے بلبلاتے۔ ان کی آواز سن کے مجھے اپنی تکلیف یاد آنے لگتی تھی۔ ایک رات میں رو رو کر بھوکا ہی سو گیا آدھی رات کو اچانک پیٹ شدید درد ہوا تکلیف کی شدت اس قدر تھی کہ میری آنکھ کھل گئی۔ میں رونا چاہتا تھا مگر اتنی ہمت بھی نہ تھی۔ پورے بدن میں نقاہت تھی جب کافی دیر تک کچھ نہ کر سکا تو دل میں دعا مانگنے لگا:
”اے میرے مولا !





میں تجھ سے دعا کرتا ہوں۔ بے شک ابھی بہت چھوٹا ہوں، مجھے مانگنے کا سلیقہ بھی نہیں آیا مگر تو تو سلیقے کے بغیر مانگنے سے بھی دیتا ہے۔ تو رحیم ہے،کریم ہے،طحٰہ ہے۔ اے میرے مالک! میرے آقا!! میری دعا سن لے میرے بہن بھائیوں اور ماں باپ پہ رحم فرما۔ میں باقی سب کا نہیں جانتا مگر اماں تیرا نام لیتی ہیں، انہیں میں نماز پڑھتے بھی دیکھتا ہوں وہ تجھے پکارتی ہیں اور تو خود فرماتا ہے کہ میں ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں۔ تو تو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ہم سب پہ رحم فرما۔ میں اپنی معصومیت کا واسطہ دے کر تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں۔میں تجھ سے تیرا پاک اور حلال رزق مانگتا ہوں۔ ہماری خوراک کی قلت کو دور فرما۔آمین ثم آمین۔”
دعا کے بعد میرے دل کو قدرے سکون ہوا مگر میری بیماری بڑھتی جا رہی تھی، اگلی صبح میں بہت تکلیف میں تھا نیم بے ہوش تھا ۔ وقفے وقفے سے میری ماں کبھی میری ہتھیلیاں سہلاتی کبھی ماتھے پہ ہاتھ پھیرتی۔ مجھے مقامی ہسپتال لایا گیا لیکن یہاں صحت عامہ سے متعلق سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر تھیں۔ بے ہوشی میں بھی مجھے اماں کی بے چینی محسوس ہو رہی تھی۔ میری طبیعت سنبھل نہیں پا رہی تھی۔ شائد مجھ میں خوراک کی بہت کمی ہو گئی تھی۔ اچانک میرا سانس اکھڑنے لگا میری ماں نے چلانا شروع کر دیا۔ ابا ڈاکٹر کو بلانے دوڑے۔ میں نے ہمت کر کے آنکھیں کھولیں اور اماں کی طرف دیکھا کیوںکہ مجھے لگ رہا تھا کہ میں یہ دنیا چھوڑ کے جا رہا ہوں۔ میں آخری بار اپنے گھر والوں کو دیکھنا چاہتا تھا۔ میری ماں مجھ پر کچھ پڑھ کے پھونک رہی تھیں۔ مگر جب دن پورے ہو جائیں تو کوئی بھی دعا یا دوا کام نہیں آتی۔ میں ابھی جینا چاہتا تھا، اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلنا چاہتا اور اپنی اماں کے پاس رہنا چاہتا تھا پر میں بے بس تھا۔ میں اماں کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھے جا رہا تھا۔ ان کاچہرہ اپنے اندر سمو لینا چاہتاتھا تاکہ جب بھی مجھے ان کی یاد آتی، میں انہیں محسوس کر پاتا۔ اچانک میرے منہ سے ہچکی نکلی اور میری روح کا جسم سے ناطہ ٹوٹ گیا۔ ڈاکٹر نے آکر میرے مرنے کی تصدیق کر دی۔
میرے سامنے بہت وسیع و عریض باغات تھے جہاں انواع و اقسام کے کھانے تھے۔ یقینا اللہ یہ تیری جنت ہو گی۔ مجھے بہت ساری چیخیں اورآہیں سنائی دے رہی تھیں۔ میں اماں کو بھی محسوس کر رہا تھا۔ میں جانتا تھا کہ اماں آپ بہت دکھی ہیں مگر میں کیا کر سکتا تھا آپ کو تسلی بھی نہیں دے سکتا۔ میری موت سب کے لئے ایک اور سوال اٹھا گئی کہ تھر کے علاقے میں کب تک موت کا رقص جاری رہے گا۔ کب تک مجھ جیسے معصوم ذوالفقار اپنی مائوں سے بچھڑتے رہیں گے؟کب تک بھوک کا عفریت ہم بچوں کو نگلتا رہے گا؟
کتنی مائیں بین کر کرکے اپنے ذوالفقار کو روتی رہیں گی۔ اے پیٹ بھر کے کھانے والو تمہیں کیا پتا بھوک کیا ہوتی ہے ؟بھوک سے تڑپنا کیسا ہے اور بھوکے مر جانا کیسا ہے؟
کیا یہ ہی دنیا ہے؟ احساس سے عاری لوگ؟ اگر ایسا ہی ہے تو میں اس دنیا سے جانے پہ خوش ہوں۔
الوداع




Loading

Read Previous

انارکلی — خالد محی الدین

Read Next

ایک رات کی بات — محمد جمیل اختر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!