اشتیاق احمد بچوں کے جاسوسی ناولوں کا ایک بے حد بڑا نام ہے، ان کے لکھے گئے ناول بچوں اور بڑوں دونوں میں یکساں مقبول تھے۔ انہوں نے آٹھ سو سے زائد ناول لکھے جو اردو زبان اور کسی اور زبان میں کسی مصنف کے ہاتھوں لکھے گئے ناولوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔انہوں نے اپنا تحریری سفر بچوں کے لئے کہانیاں لکھنے سے آغاز کیااور اپنا پہلا ناول ١٩٧٣ء میں لکھا۔ ان کی مشہور ترین سیریز انسپکٹر جمشید سیریز ہے ، اس کے علاوہ انہوں نے انسپکٹر کامران سیریز اور شوکی برادرز کے ناولز بھی لکھے لیکن انسپکٹر جمشید سیریز کو قارئین میں بے حد پذیرائی ملی۔
انسپکٹر جمشید سیریز ایک جاسوس انسپکٹر جمشید اور ان کے تین بچوں محمود، فاروق اور فرزانہ کے گرد
اشتیاق احمد کا انتقال ٢١٠٦ء میں ہوا اور انتقال سے کچھ عرصہ پہلے ہی ان کا آخری ناول '' عمران کی واپسی'' شائع ہوا تھا جو لوگوں میں بے حد پسند کیا گیا تھا۔
-1شہر سے پرے، ویرانے میں پراسرار مکان کی کیا حقیقت تھی؟
-2خونی سائنسدان آخر تھا کون اور اس کا ارادہ کیا تھا؟
-3موت کے ناچ کی حقیقت کیا تھی اور کسی کو مارنے سے پہلے موت کا ناچ کیوں کیا جاتا تھا؟
-4کیا کوئی انسان اتنا زہریلا بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے کاٹنے سے کسی کی موت واقعی ہو جائے؟
-5زہریلے انسان سے خونی سائنسدان کا رشتہ کیا تھا جسے سن کر سب چونک اٹھے؟
ایک ایسی خونی انتقام کی کہانی جو نسلوں سے چلی آرہی تھی۔
٭….٭….٭
انسپکٹر جمشید اپنے دفتر میں بیٹھے کام کر رہے تھے کہ خان عبدالرحمن اندر داخل ہوئے۔ وہ بہت خوشگوار موڈ میں نظر آرہے تھے۔ گرے شیڈ کے سوٹ میں کچھ زیادہ ہی بارعب لگ رہے تھے۔
”بھئی یہ بات ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔“ انہوں نے آتے ہی کہا۔
”کون سی بات؟“ انسپکٹر جمشید حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
”یہی کہ تم ہر وقت کیسوں میں الجھے رہتے ہو۔ شہر میں بھی اور شہر سے باہر بھی۔ میں دراصل ایک تجویز لے کر آیا ہوں۔“
”مگر بندئہ خدا، یہ تجویز لے کر آنے کا کون سا طریقہ ہے۔ نہ سلام نہ دعا۔ آتے ہی برس پڑے۔“
”یار سلام دعا رخصت ہوتے وقت کر لیں گے۔ اس وقت تو میری تجویز سن لو۔“
”لیکن ہمارا مذہب سب سے پہلے سلام کرنے پر زور دیتا ہے اور حکم فرمایا گیا ہے کہ آنے والا بیٹھے ہوئے شخص کو سلام کرے۔ سوار پیدل کو سلام کرے۔ چھوٹے بڑوں کو سلام کریں اور اسی طرح سلام کا جواب دینے کی تلقین فرمائی۔“ انسپکٹر جمشید مسکراتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
”کیا بات ہے، کیا آج کل تمہارے پاس کوئی مذہبی کیس آیا ہوا ہے یا تم نے دین کی کتابیں پڑھنا شروع کر رکھی ہیں۔“ خان عبدالرحمن نے حیران ہو کر کہا۔
”دین کی کتابیں تو ہمیشہ ہی پڑھتا رہتا ہوں۔ یوں بھی پانچ وقت کا نمازی ہوں۔ تم جانتے ہی ہو۔ ویسے میں نے تو ایک عام بات کہی تھی۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”اچھا بھائی، اگر یہ اتنا ہی ضروری ہے تو میں معافی چاہتا ہوں۔ بلکہ نئے سرے سے کمرے میں داخل ہوتا ہوں۔“
یہ کہہ کر خان عبدالرحمن اٹھ کھڑے ہوئے اور دروازے پر جا کر پلٹے پھر وہیں سے بولے:
”السلام علیکم۔“
اور نہ صرف انسپکٹر جمشید بلکہ کونے میں بیٹھا ہوا سب انسپکٹر اکرام بھی ہنس پڑا۔
”وعلیکم السلام۔“
”اب تو تمہاری تسلی ہو گئی ہو گی۔“ خان عبدالرحمن نے میز کی طرف آتے ہوئے کہا۔
”ہاں ہو گئی۔ اب بتاﺅ، وہ کیا تجویز ہے جو تمہیں یہاں لے آئی ہے۔“ انسپکٹر جمشید نے کہا۔
”تجویز یہ ہے کہ چند دنوں کے لیے چھٹی لی جائے اور دنیا کے تمام جھنجٹوں کو چھوڑ کر کہیں دور جایا جائے۔ جہاں نہ شہر کے ہنگامے ہوں، نہ موٹرکاروں کا دھواں ہو، نہ شورشرابا ہو۔ بس ایک پرسکون سا پہاڑی مقام ہو، جہاں آبادی بھی برائے نام ہو۔ بس چند ایک گھر ہوں ہم وہاں چل کر رہیں، خود پکائیں کھائیں، شکار کریں اور قدرت کے نظارے دیکھیں۔“
”معلوم ہوتا ہے، تم علامہ اقبال کی شاعری پڑھ کر آرہے ہو۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”کیا مطلب؟“ خان عبدالرحمن زور سے چونکے۔
”مطلب یہ کہ علامہ اقبال کی ایک نظم ہے، ’ایک آرزو‘ اس نظم میں انہوں نے کچھ ایسی ہی خواہش اور اسی قسم کی جگہ کا ذکر کیا ہے۔ مثلاً اس نظم کا ایک شعر ہے
مرتا ہوں خامشی پر، یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
”واہ۔ کیا بات کہی ہے۔“ خان عبدالرحمن کے منہ سے نکلا۔
”ویسے تم چونکے کیوں تھے۔“ انسپکٹر جمشید نے بھی چونک کر کہا۔
انہیں بعد میں خیال آیا تھا کہ خان عبدالرحمن علامہ اقبال کا نام سن کر چونکے تھے۔
”یار تم آدمی ہو یا جادوگر؟“ خان عبدالرحمن نے حیران ہو کر کہا۔
”کیا کہا؟ ارے بھون جادوگر کیا آدمی نہیں ہوتے؟“ انسپکٹر جمشید کے منہ سے نکلا۔
”میں تو انہیں شیطان سمجھتا ہوں۔“ خان عبدالرحمن مسکرائے۔
”تم نے بتایا نہیں۔ چونکے کیوں تھے؟“
”یار سچ تو یہ ہے کہ میں واقعی علامہ اقبال کی شاعری پڑھ رہا تھا کہ یہ خیال آیا۔“ انہوں نے جھینپ کر کہا۔
”کیوں پھر، کیسا پکڑا؟“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”اسی لیے تو میں نے کہا تھا کہ تم آدمی ہو یا….“
”بس بس مجھے آدمی ہی رہنے دو۔“
”اچھا تو پھر کیا خیال ہے؟“ انہوں نے بے صبری کا مظاہرہ کیا۔
”خیال تو اچھا ہے، لیکن مصروفیت کے اس دور میں کون ایسی باتیں سوچ سکتا ہے؟“
”میں۔“ خان عبدالرحمن نے بے ساختہ کہا اور انسپکٹر جمشید ہنس پڑے۔
”تمہاری کیا بات ہے۔ ریٹائرمنٹ کے مزے لے رہے ہو۔حکومت کی طرف سے زمین ملی ہوئی ہے۔ اس سے اچھی بھلی آمدنی ہو جاتی ہے، یوں بھی جدی پشتی رئیس ہو۔ بینک میں دولت موجود ہے۔ میں ٹھہرا ایک ملازم پیشہ آدمی جس کے پاس نہ زمین ہے، نہ بینک میں جمع دولت۔“ انسپکٹر جمشید کہتے چلے گئے۔
”ان باتوں کو چھوڑو اور یہ بتاﺅ کہ میری تجویز کے بارے میں کیا خیال ہے؟“
”بھائی۔ مجھے چھٹی نہیں ملے گی۔“
”میں شیخ صاحب سے خود بات کر لیتا ہوں۔“ خان عبدالرحمن بولے۔
”یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہو گا۔“ انسپکٹر جمشید نے کہا۔
”رہنے دو مناسب اور نامناسب کو۔“
یہ کہتے ہوئے خان عبدالرحمن اٹھ کھڑے ہوئے۔ انسپکٹر جمشید انہیں روکتے ہی رہ گئے۔
ڈی آئی جی شیخ نثار احمد خان عبدالرحمن کے بہت گہرے دوست تھے۔ انہیں دیکھ کر خوشی سے اچھل پڑے، پھر ایک دم چہرے پر غصے کے آثار طاری کر کے بولے:
”میں تم سے بات تک نہیں کروں گا۔“
”میں نے کیا کیا ہے؟“ خان عبدالرحمن مسکرائے۔
”یہاں آتے ہو تو جمشید سے مل کر چلے جاتے ہو۔ کیا میں تمہارا دوست نہیں؟“
”میں یہ سوچ کر آپ کے پاس نہیں آتا کہ مصروف ہوں گے۔“
”رہنے دو بس یہ باتیں۔ آج بھی ضرور کسی مطلب سے آئے ہو گے۔ کیوں ہے نا یہی بات۔ خیر کہو، کیا کام آن پڑا ہے مجھ سے؟“
”یہ آپ کے محکمے میں کیا ایک جمشید ہی انسپکٹر ہے؟“
”نہیں تو اور بھی کئی ہیں۔ جیلانی، فاضل، عبدالرحمنی وغیرہ۔“
”کیوں کیا بات ہے؟“
”آخر غریب جمشید نے کیا قصور کیا ہے کہ ہر کیس اسے سونپ دیا جاتا ہے؟“
”جب کوئی کیس حل نہیں ہوتا تو ایسا کرنا ہی پڑتا ہے۔“
”اور اس پر بھی اسے چھٹی نہیں دی جاتی۔“ خان عبدالرحمن نے شکایت کی۔
”یہ تم سے کس نے کہہ دیا؟“ شیخ صاحب نے حیران ہو کر کہا۔
”خود جمشید نے۔“ خان عبدالرحمن بولے۔
”یہ غلط ہے۔ وہ جب چاہے، چھٹی لے کر جا سکتا ہے، میں تو خود اس سے اکثر کہتا رہتا ہوں کہ چھٹی لے کر آرام کر لیا کرے یا کسی پرفضا مقام پر ہو آیا کرے، مگر وہ خدا کا بندہ بغیر اشدضرورت کے چھٹی لیتا ہی نہیں۔ دراصل اس میں ذمے داری کا احساس بہت زیادہ اور پھر اسے روزی حلال کر کے کھانے کا شوق ہے۔“ ڈی آئی جی صاحب نے بتایا۔
”لیکن چھٹیاں لینے سے روزی حرام کیسے ہو جاتی ہے؟“ خان عبدالرحمن نے آنکھیں نکالیں۔
”اس کا کہنا ہے کہ کوئی اہم ضرورت ہو، تب ہی چھٹی لینی چاہیے، یہ نہیں کہ ذرا سا نزلہ یا بخار ہوا اور چھٹی کی درخواست لکھ ماری۔“
”ہوں، تو یہ حضرت خود چھٹی نہیں لیتے اور مجھے کہہ رہا تھا کہ چھٹی نہیں ملے گی۔“
”کیا اسے کہیں لے جانا ہے؟“
”جی ہاں۔“ خان عبدالرحمن نے کہا اور اپنی تجویز کے بارے میں انہیں بتانے لگے۔ پوری بات سن کر شیخ صاحب نے خوش ہو کر کہا:
”نہایت شاندار تجویز ہے۔ میں جمشید کو پندرہ دن کی رخصت اور ایک تنخواہ بطور بونس دینے کا اعلان کرتا ہوں، لیکن وہ بونس لے گا نہیں۔“
”کیا مطلب؟“ خان عبدالرحمن چونکے۔
”اس نے کبھی بونس یا تفریح الاﺅنس نہیں لیا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ محکمے پر بوجھ بننا پسند نہیں کرتا۔“
”عجیب بے وقوف ہے یہ جمشید بھی۔“
”اس جیسے بے وقوف اگر ملک میں چند سو بھی پیدا ہو جائیں تو ملک جنت کا ایک ٹکڑا بن جائے۔“ شیخ نثار مسکرا کر بولے۔
”ہوں، خیر آپ چھٹی تو دے ہی رہے ہیں۔“
”بالکل، بالکل۔ اگر وہ اب بھی انکار کرے تو اسے کان سے پکڑ کر میرے پاس لے آنا۔“
”دونوں کانوں سے پکڑ کر لاﺅں گا۔“ یہ کہہ کر خان عبدالرحمن ہنستے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔
وہ جوں ہی دوبارہ انسپکٹر جمشید کے کمرے میں داخل ہوئے۔ فون کی گھنٹی بجنے لگی۔
٭….٭….٭
انسپکٹر جمشید نے فون اٹھا کر کان سے لگایا ہی تھا کہ پروفیسر داﺅد کی آواز سنائی دی:
”میں پروفیسر داﺅد ہوں اور تم یقینا انسپکٹر جمشید ہو گے؟“
”آپ کا خیال ٹھیک ہے۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔ اتنے میں خان عبدالرحمن ان کے سامنے کرسی پر بیٹھ چکے تھے۔
”میں چند روز کے لیے خان گڑھ جا رہا ہوں۔ میں چاہتا ہوں تم بھی وہاں چلو؟“
”جی، کیا فرمایا آپ نے۔ خان گڑھ؟“ انسپکٹر جمشید نے چونک کر کہا ۔
”ہاں، بہت پرفضا اور پرسکون ماحول ہے وہاں کا۔ میں پہلے بھی چند بار جا چکا ہوں۔ بس ایک چھوٹا سا پہاڑی مقام ہے، آبادی بھی بہت کم ہے۔ نہ ہونے کے برابر۔ وہاں چند دن خاموشی کے مزے لوٹیں گے اور واپس آجائیں گے۔“
انسپکٹر جمشید دنگ رہ گئے۔ وہ قسمت کی ستم ظریفی پر حیران رہ گئے تھے۔ ایک طرف خان عبدالرحمن انہیں اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے تو دوسری طرف پروفیسر داﺅد بھی اسی قسم کا پروگرام پیش کر رہے تھے اور مزے کی بات یہ کہ ان دونوں کو ایک ہی دن خاموشی کے مزے لوٹنے کی سوجھی تھی۔
”کیا سوچنے لگے؟“ پروفیسر کی آواز آئی۔
”میں کیا سوچوں گا۔ میری تو عقل ہی ضبط ہو گئی ہے۔ آپ ایسا کیجیے کہ فوراً یہاں میرے دفتر میں آجائیے۔“ انسپکٹر جمشید نے کہا۔
”کیا مطلب، کیا کوئی خاص بات ہے؟“
”جی ہاں، بہت ہی خاص۔“
”اچھا، میں آرہا ہوں لیکن میں کوئی بہانہ نہیں سنوں گا۔“ دوسری طرف سے آواز آئی۔
”جی بہت بہتر۔“ انسپکٹر جمشید نے مسمسی صورت بنا کر کہا اور دوسری طرف سے سلسلہ بند ہونے پر فون رکھ دیا۔
”کون تھا فون پر، کسے بلایا ہے تم نے۔ میں تمہاری ایک نہیں سنوں گا۔ شیخ صاحب نے تمہیں پندرہ دن کی رخصت دے دی ہے اور تم میرے ساتھ فوراً چل رہے ہو۔“ خان عبدالرحمن کہتے چلے گئے۔
”صبر صبر۔“ انسپکٹر جمشید ہاتھ اٹھا کر بولے: ”فون پر پروفیسر داﺅد تھے۔ ان کا خیال ہے کہ میں ان کے ساتھ کسی ایسے مقام پر چلوں جہاں خاموشی ہو، پہاڑی مقام ہو اور شہر کے ہنگامے نہ ہوں۔“
”کیا؟“ خان عبدالرحمن کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
”جی ہاں۔ میں نے اسی لیے انہیں یہاں بلا لیا ہے تاکہ آپ دونوں آپس میں فیصلہ کر لیں کہ میں کس کے ساتھ جاﺅں گا۔“
”تب ٹھیک ہے، میں پروفیسر سے نبٹ لوں گا، آ لینے دو اسے۔“ خان عبدالرحمن بولے۔
پندرہ منٹ بعد پروفیسر انسپکٹر جمشید کے دفتر میں داخل ہوئے۔
”ہیں۔ تم یہاں کس سلسلے میں تشریف فرما ہو؟“ انہوں نے خان عبدالرحمن کو دیکھتے ہی کہا۔
”جس سلسلے میں آپ آئے ہیں۔“ خان عبدالرحمن مسکرائے۔
”کیا مطلب؟“ پروفیسر اچھل پڑے۔
”جی ہاں اور چونکہ میں آپ سے پہلے پہنچا ہوں، اس لیے میرا حق بنتا ہے اور جمشید میرے ساتھ جائیں گے۔“
”یہ میں کیا سن رہا ہوں؟“ پروفیسر داﺅد نے انسپکٹر جمشید پر آنکھیں نکالیں۔
”یہ آپ دونوں کا مسئلہ ہے۔ آپ فیصلہ کر لیں، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔“ انسپکٹر جمشید نے بدستور مسکراتے ہوئے کہا۔
دونوں کئی منٹ تک جھگڑتے رہنے کے بعد بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ آخر انسپکٹر جمشید نے ہی درمیان میں دخل دیا۔
”کیوں نہ ہم تینوں ساتھ ہی چلیں۔“
”بہت خوب، بہت شاندار۔ پہلے یہ ترکیب کیوں نہ بتائی؟“ خان عبدالرحمن نے خوش ہو کر کہا۔
مجھے بھی منظور ہے۔ اب سوال یہ ہے کیا ہم بچوں کے بغیر چلیں گے؟“ پروفیسر داﺅد بولے۔
”بچوں کو ساتھ لے جانا ہی پڑے گا۔ کم از کم محمود، فاروق اور فرزانہ کے کان میں بھنک پڑ گئی تو وہ ہرگز نہیں مانیں گے۔“
”لیکن مجھے افسوس ہے۔ میں اپنے بچوں کو ساتھ نہیں لے جا سکوں گا۔“ خان عبدالرحمن نے مایوس ہو کر کہا۔
”وہ کیوں؟“ دونوں نے ایک ساتھ پوچھا۔
”اس لیے کہ وہ اپنے نانا کے ہاں گئے ہوئے ہیں اور پورے ایک ماہ بعد لوٹیں گے۔“
”تو کیا تم اسی لیے کسی پرفضا جگہ پر جانے کا پروگرام بنا کر آئے تھے۔ گھر میں اکیلے بور ہو رہے ہو گے نا؟“
”یہی سمجھ لو۔ بہر حال بچے ساتھ ہوں گے تو رونق رہے گی اور ان کی شرارتیں تفریح میں نیا رنگ بھر دیں گی۔“ خان عبدالرحمن نے کہا۔
”تو یہ طے رہا۔ ہم کل یہاں سے روانہ ہوں گے۔“
”لیکن ہم جائیں گے کیسے؟“ انسپکٹر جمشید نے پوچھا۔
”یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ ایک کار میرے پاس ہے اور ایک پروفیسر کے پاس۔“ خان عبدالرحمن نے کہا۔
”لیکن دو کاروں کی کیا ضرورت ہے؟ ایک ہی کافی رہے گی۔“
”اور چونکہ عبدالرحمن کی کار بڑی ہے، اس لیے وہی مناسب رہے گی۔“
”بالکل ٹھیک۔ میں ظہور سے کہہ دوں گا۔ وہ آج ہی کار میں تمام ضروری چیزیں رکھ دے گا۔“
٭….٭….٭
دوسرے دن وہ خان عبدالرحمن کی لمبی چوڑی کار میں خان گڑھ روانہ ہو گئے۔ اگلی سیٹ پر انسپکٹر جمشید، پروفیسر داﺅد اور خان عبدالرحمن تھے۔ گاڑی خان عبدالرحمن ہی چلا رہے تھے۔ پچھلی سیٹ پر چاروں بچے بیٹھے تھے وہ بے حد خوش تھے۔ پروفیسر داﺅد کی بیٹی شائستہ تو ہواﺅں میں اڑ رہی تھی، کیوں کہ بہت عرصے بعد اسے محمود، فاروق اور فرزانہ کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملا تھا۔ گاڑی کی ڈکی میں کھانے پینے کی بے شمار چیزیں بھری تھیں۔
”انکل، کھانے کی چیزوںمیں کیا کچھ ہے۔“ فرزانہ نے چہک کر پوچھا۔
”میرا خیال ہے بیٹی، ہر وہ چیز ملے گی جس کی تم خواہش کرو گی کیوں کہ میں نے ظہور سے کہا تھا کہ کار میں سے تمام چیزیں نکال کر اس میں صرف کھانے پینے کی چیزیں بھر دو۔“ خان عبدالرحمن نے کہا۔
”جی۔ کیا آپ نے صرف کا لفظ بھی استعمال کیا تھا؟“ محمود نے چونک کر کہا۔
”ہاں، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟“ خان عبدالرحمن نے حیران ہو کر کہا۔
”اگر آپ نے ظہور سے یہ جملہ کہا تھا کہ تمام چیزیں کار میں سے نکال کر کھانے پینے کی چیزیں بھر دو تو بہت بڑا فرق پڑتا ہے۔“ محمود نے سنجیدہ ہو کر کہا۔
فاروق اور فرزانہ اسے بری طرح گھورنے لگے تھے، کیوں کہ ابھی تک ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی تھی کہ محمود کیا کہنا چاہتا ہے، لیکن اتنی دیر میں انسپکٹر جمشید چونک اٹھے تھے۔
”اوہ، محمود ٹھیک کہہ رہا ہے۔“ انہوں نے کہا۔
”آخر کیا بات ہے۔ کچھ پتا بھی تو چلے؟“ پروفیسر داﺅد نے بھی حیران ہو کر کہا۔
”پہیلیاں کیوں بھجوا رہے ہو؟“
”محمود ہی بتائے گا۔ کیوں کہ اس بات کا خیال پہلے اسے آیا ہے۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”میرا خیال ہے، میں ظہور کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ یہ بات بھی مجھے معلوم ہے کہ آپ بات بات پر اسے کان پکڑوا دیتے ہیں۔ اس لیے وہ لفظ بہ لفظ آپ کے احکامات کی تعمیل کرتا ہے۔ اس لیے اس نے آپ کے حکم کی تعمیل میں کار کی تمام چیزیں نکال دی ہوں گی۔“ محمود بتاتا چلا گیا۔
”کیا مطلب؟“ خان عبدالرحمن چونکے۔ ”میں اب بھی نہیں سمجھا، تم کیا کہنا چاہتے ہو؟“
”میرا مطلب ہے اس نے فالتو ٹائر اور مرمت وغیرہ کا ضروری سامان بھی کار کی ڈکی میں سے نکال دیا ہو گا۔“
”اوہ نہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔“ خان عبدالرحمن نے بے یقینی کے عالم میں کہا۔
”تو پھر گاڑی روک کر ڈکی میں نظر ڈال لو۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
خان عبدالرحمن نے گاڑی روک دی۔ اتر کر پچھلے حصے کی طرف گئے اور ڈکی کھول ڈالی۔ دوسرے ہی لمحے وہ حیرت زدہ رہ گئے۔ محمود کا خیال ٹھیک تھا۔ ڈکی میں واقعی ٹائر نہیں تھا اور نہ ہی مرمت کرنے کا سامان تھا۔ وہ سرجھکائے واپس آئے اور کار میں بیٹھ گئے لیکن انہوں نے کار سٹارٹ نہ کی، آخر بڑبڑائے:
”میں ظہور کے بچے کو گھر پہنچ کر پورے دس گھنٹے تک کان پکڑواﺅں گا۔“
”ہاں، اب کیا ہو گا، اگر ٹائر پھٹ گیا تو ہم کیا کریں گے؟“
یہ سڑک سنسان ہے۔ ہم گھر سے ڈیڑھ سو میل کے فاصلے پر آچکے ہیں۔ سو میل کا سفر باقی ہے۔ اب ہم کیا کریں؟“
”ضروری تو نہیں کہ ٹائر پھٹ ہی جائے۔ سفر جاری رکھو۔ جو ہو گا، دیکھا جائے گا۔“ پروفیسر داﺅد بولے۔
”ہاں اور کیا۔ یہ تو چلتے وقت دیکھنا چاہیے تھا۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”اچھا۔“ خان عبدالرحمن نے کہا اور کار آگے بڑھا دی۔
”خدا خیر ہی کرے۔ مجھے تو ٹائر پھٹتا نظر آتا ہے۔“ فاروق نے سہمی ہوئی آواز میں کہا۔
”ایسی باتیں منہ سے نہ نکالو۔ شام کا وقت ہے۔“ محمود نے تیز لہجے میں کہا۔
”ویسے بھی تمہاری زبان کالی ہے، جو منہ سے نکالتے ہو، ہو جاتا ہے۔“ فرزانہ جھلا اٹھی۔
”پھر تو ٹائر ضرور ہی پھٹے گا۔“ فاروق مسکرایا۔
”آخر تم ٹائر پھاڑنے پر کیوں تُل گئے ہو؟“ شائستہ ہنس کر بولی۔
”کالی زبان سے کوئی تو فائدہ اٹھانا چاہیے۔“ فاروق کا انداز شریر تھا۔
”میں کہتی ہوں، بند کرو ٹائر پھٹنے کا ذکر۔“ فرزانہ چلائی۔
”تو پھر کس چیز کے پھٹنے کا ذکر کروں؟“ فاروق نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”بھئی ذرا آہستہ آواز میں باتیں کرو، کہیں تمہارے انکل کا ہاتھ نہ بہک جائے۔“ انسپکٹر جمشید نے کہا۔
”میری طرف سے بے فکر رہو۔ میں ڈرائیونگ میں اناڑی نہیں ہوں۔“ خان عبدالرحمن بھی پٹ سے بولے۔
”مگر ابا جان، اپنے منہ سے یہ کہنا کہ ٹائر پھٹتا نظر آرہا ہے، کتنی بُری بات ہے۔“ فرزانہ بول پڑی۔
”بالکل، اس کو کہتے ہیں، آ بیل مجھے مار۔“ محمود بول اٹھا۔
”اس سڑک پر بیل نہیں ہوتے۔“ فاروق نے منہ بنا کر کہا۔
”ویسے اگر تم نے آپس میں جھگڑنا بند نہ کیا تو ٹائر کی خیر نظر نہیں آتی۔“
”دھت تیرے کی۔ یہ اب نہیں مانے گا۔“ محمود نے ران پر ہاتھ مار کر کہا۔
”پڑ گیا ٹائر کے پیچھے۔“
”اور تم میرے پیچھے پڑ گئے ہو۔ لو، میں چپ ہو جاتا ہوں۔ ٹائر پھٹے، نہ پھٹے، میں نہیں بولوں گا۔“ فاروق نے غصے میں آکر کہا۔
اگلی سیٹ پر بیٹھنے والے ان کی گفتگو سنتے ہوئے برابر مسکرا رہے تھے۔ اچانک پروفیسر بول اٹھے:
”بھئی، میں ایک بات ضرور کہوں گا۔ اگر ٹائر پھٹ جائے تو تفریح کا صحیح لطف تو اسی وقت آئے گا، کیوںکہ ہمارے سامنے کئی مسائل آ کھڑے ہوں گے اور جب تک مشکلات کا سامنا نہ ہو، زندگی کا لطف نہیں آتا۔“
”تو پھر یوں کریں۔ میرا پستول لے لیں اور نیچے اُتر کر ٹائر پر ایکفائر کر دیں۔ نہایت آسانی سے ٹائر کی چیں بول جائے گی۔“ انسپکٹر جمشید نے ترکیب بتائی۔
”لو، اب بڑے بھی وہی باتیں کرنے لگے۔“ شائستہ بولی۔
”خدا خیر کرے۔“ محمود مسکرایا۔
”ہاں، ضرور کرے گا۔“ فرزانہ بولی اور فاروق کی طرف دیکھنے لگی، مگر وہ تو ہونٹ پر ہونٹ جمائے بیٹھا تھا۔
”ہاںاور کیا۔ سفر کے دوران اگر یہ باتیں نہ کی جائیں تو نیندآنے لگتی ہے، اگر ہم سو گئے تو قدرت کے نظارے کیسے دیکھ سکیں گے۔“ شائستہ نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ دراصل اسے فاروق کی باتوں پر بے تحاشا ہنسی آئی تھی اور اس کے خاموش ہونے پر کار میں سنجیدگی سی طاری ہو چلی تھی۔
”بڑی مصیبت ہے۔ بولوں تب انہیں ناگوار گزرتا ہے، خاموش ہو جاﺅں تو ان سے رہا نہیں جاتا۔ اب میں کروں تو کیا کروں؟“ فاروق نے بڑی بوڑھیوں کے جلے کٹے انداز میں کہا اور وہ مسکرانے لگے۔
”شکر ہے خدا کا۔ اس کی زبان تو کھلی۔“ محمود بولا۔
”مگر اب تم اسے کبھی بھی کالی زبان نہیں کہو گے؟“ فاروق نے اسے خبردار کیا۔
”اچھا۔ وعدہ۔“
اچانک ایک زبردست دھماکا ہوا۔ کار کا ٹائر پھٹا تھا۔ ٹائر پھٹنے کی آواز دُور دُور تک پھیل گئی۔ وہ دھک سے رہ گئے۔ آخر وہی ہو گیا جس کا ڈر تھا۔ وہ سب فاروق کو کھا جانے والی نظروں سے گھورنے لگے۔ اگر خان عبدالرحمن بروقت بریک نہ لگاتے تو کار الٹ چکی ہوتی۔
”یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا۔“ فرزانہ چلائی۔
”اب چلانے سے ٹائر مرمت تو نہیں ہو جائے گا؟“ فاروق نے مسمسی صورت بنا کر کہا۔
”فرزانہ نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔ اس کی زبان ہے ہی کالی۔“ محمود نے منہ بنا کر کہا۔
”ذرا دیکھنا شائستہ، میری زبان کا رنگ کیسا ہے؟“ فاروق نے زبان نکال کر پوچھا۔
”رنگ تو گلابی ہے، لیکن….“ شائستہ نے کہنا شروع کیا لیکن پھر رک گئی۔
”لیکن کیا؟ تم کہتی کہتی رک کیوں گئیں؟“ محمود نے پوچھا۔
”وہ سامنے کوئی بھاگا آرہا ہے۔“ شائستہ نے اشارہ کیا۔
انہوں نے دیکھا، ایک بوڑھا اِن کی طرف دوڑتا آرہا تھا۔ پھر وہ نزدیک آگیا۔
”کیا ہوا صاحب؟“ اس نے گھبرا کر پوچھا۔
”بھائی اتنے زور سے ٹائر پھٹا ہے اور پھر بھی پوچھ رہے ہو کیا ہوا؟“ خان عبدالرحمن نے مسکرا کر کہا۔
”اوہ، یہ تو بہت بُرا ہوا۔ اب آپ لوگ کیا کریں گے؟“ اس نے کہا۔
”یہی سوچ رہے ہیں۔“ انسپکٹر جمشید مسکراکر بولے:
”کیا یہاں نزدیک کوئی ٹھہرنے کی جگہ ہے۔ ہم ایک رات ٹھہر کر چلے جائیں گے۔“
”میں تو ایک گڈریا ہوں۔ ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی میں رہتا ہوں، البتہ یہاں سے کچھ فاصلے پر جنگل میں ایک سائنس دان رہتا ہے۔ لوگ اسے خونی سائنس دان کہتے ہیں۔ اس کا مکان بہت بڑا ہے، لیکن وہ بہت خطرناک آدمی ہے۔ اس کی بیٹی اس سے بھی خطرناک ہے۔“ گڈریے نے عجیب سے لہجے میں کہا۔ لڑکی کا ذکر کرتے وقت اس کی آنکھوں میں خوف کے سائے لہرائے تھے۔
”وہ کیسے؟“ فاروق نے حیران ہو کر پوچھا۔
”وہ ایسے کہ وہ زہریلی ہے، جسے کاٹ لیتی ہے، فوراً مر جاتا ہے۔ جس طرح سانپ کے کاٹنے سے لوگ مر جاتے ہیں۔“ اس نے ڈرے ڈرے لہجے میں بتایا۔
”لڑکی نہ ہوئی۔ سانپ ہو گئی۔“ فاروق کے منہ سے نکلا۔
”بتا دینا میرا فرض تھا۔ اب آپ جانیں آپ کا کام۔“
”ہاں، یہ بھی ٹھیک ہے۔ اچھا بھائی تمہارا بہت بہت شکریہ۔“ خان عبدالرحمن بولے۔
”اگر آپ وہاں ٹھہریں تو رات کو سوئیں ہرگز نہ۔“ گڈریے نے جاتے جاتے کہا۔
”اچھی بات ہے تم فکر نہ کرو۔“ فرزانہ نے پرجوش لہجے میں کہا۔
”اس سائنس دان سے تو ملنے کا شوق پیدا ہو گیا ہے۔“ پروفیسر داﺅد بولے۔ گڈریا جا چکا تھا۔
”تو پھر چلے چلتے ہیں۔ اس وقت گاڑی کا ٹائر تو بدلا نہیں جا سکے گا کیوں کہ نہ ٹائر ہے نہ ٹائر بدلنے کا سامان۔“
”ٹھیک ہے تو پھر چلو۔“ انسپکٹر جمشید نے سوچ میں گم ہوتے ہوئے کہا۔
وہ گاڑی سے نیچے اتر آئے اور جنگل میں گھس کر اس سمت میں چلنے لگے جس طرف گڈر یے نے اشارہ کیا تھا۔
محمود، فاروق اور فرزانہ بُری طرح بے چین ہو چکے تھے۔ وہ جلد از جلد اس سائنس دان اور اس کی بیٹی کو دیکھنا چاہتے تھے۔ خان گڑھ کا خیال تک ان کے ذہنوں سے نکل چکا تھا۔ اچانک پروفیسر داﺅد بولے:
”خونی سائنس دان سے میرا تعارف ایک سائنس دان کی حیثیت سے نہ کرانا۔“
انسپکٹر جمشید نے ان کی یہ بات سنی تو چونک اٹھے اور بولے:
”ہاں، آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے۔“
سورج غروب ہونے کے قریب تھا۔ جنگل میں اندھیرا پھیلتا جا رہا تھا۔ اچانک انہیں ایک مکان دکھائی دیا۔
٭….٭….٭
مکان کا دروازہ بہت بڑا تھا جیسے وہ کوئی قلعہ ہو۔ اس میں لوہے کی کیلیں جڑی ہوئی تھیں اور پہلی نظر میں اندازہ ہو جاتا تھا کہ اگر دروازہ توڑنے کی ضرورت پیش آجائے تو یہ ایک بہت مشکل کام ثابت ہو گا۔
”کہیں ہم اندر داخل ہونے پر پھنس نہ جائیں۔“ فاروق نے پریشان ہو کر کہا۔
”اگر تمہیں ڈر لگ رہا ہے، تو واپس چلے جاﺅ اور کار میں لیٹ جاﺅ۔“ محمود نے کہا۔
”یہ ایسے مواقع پر ڈرا ہی کرتا ہے۔“ فرزانہ بولی۔
”میں ڈر نہیں رہا۔“ میں نے تو ایک خیال پیش کیا تھا۔“ فاروق بولا۔
”کیا سائنس دان ہمیں کھا جائے گا؟“ محمود بولا۔
”ہشت، کھائے گا تو اس کے پیٹ میں ہی گڑبڑ ہو گی۔ ہمارا کیا بگڑے گا۔“ فاروق نے مسکرا کر کہا۔
”اور پھر گڈریا اس کی بیٹی کے متعلق بھی تو بتا رہا تھا، زہریلی لڑکی۔“
”ہاں، یہ بات بہت عجیب لگتی ہے۔“
اتنی دیر میں انسپکٹر جمشید آگے بڑھ کر دروازے پر دستک دے چکے تھے۔ چوں کہ گھنٹی کا بٹن نہیں لگا ہوا تھا، اس لیے انہوں نے وزنی کنڈی سے دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ پھر کئی منٹ گزر گئے، لیکن کوئی دروازے کی طرف آتا معلوم نہ ہوا۔ آخر انہوں نے ایک بار پھر زور سے دستک دی اور تقریباً ایک منٹ بعد قدموں کی چاپ سنائی دی۔ دروازہ زور دار چرچراہٹ کے ساتھ کھلا جیسے بہت مدت بعد اسے کھولا گیا ہو۔ انہوں نے دیکھا، دروازے میں ایک دبلا پتلا آدمی کھڑا پلکیں جھپکا جھپکا کر انہیں دیکھ رہا تھا۔
”کیا بات ہے؟ کون ہو تم لوگ؟“ اس نے کھڑکھڑ کرتی آواز میں پوچھا۔ انہیں یوں لگا جیسے یہ آواز کسی جانور کی ہو۔
”ہم مسافر ہیں۔ ہماری کار کا ٹائر پھٹ گیا۔ ایک رات یہاں ٹھہرنا چاہتے ہیں؟“
”اوہ، ٹھہرو۔ میں پروفیسر صاحب سے پوچھ کر آتا ہوں۔“ اس نے کہا۔
”اچھی بات ہے، مگر بھائی ذرا جلدی آنا۔“ خان عبدالرحمن بولے۔
”اچھا۔“ اس نے کہا اور دروازہ بند کر کے چلا گیا۔
انسپکٹر جمشید نے دروازے کو دھکیل کر دیکھا، لیکن وہ اندر سے بند تھا۔ وہ فکرمند ہو گئے۔
”مجھے خطرے کا احساس ہو رہا ہے۔“ ان کے منہ سے نکلا۔
”کیا مطلب؟“ وہ چونک اٹھے۔
”یہاں ضرور کوئی خوفناک کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ کہیں ہم بھی اندر جا کر پھنس نہ جائیں۔“
”تو پھر کیا واپس چلیں؟“ پروفیسر داﺅد بولے۔
”نہیں، میں یہ بھی تو دیکھنا چاہتا ہوں کہ یہ سائنس دان آخر یہاں کیا کر رہا ہے؟“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”ہوں، خیر جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ گھبرانے کی کیا ضرورت ہے؟“ پروفیسر داﺅد بولے۔
”مجھے تو وہ واقعہ یاد آرہا ہے، جب ہم اسی طرح ایک مرتبہ سفر کر رہے تھے اور کار خراب ہو گئی تھی تو ہم نے جنگل میں بنی ایک عمارت میں پناہ لی تھی اور پھنس گئے تھے۔“
”اوہ ہاں، وہ کتنے خوفناک حالات تھے؟“ فرزانہ بولی۔
”کہیں ایک بار پھر ہم اسی قسم کے حالات کا شکار تو نہیں ہونے والے؟“ محمود نے جیسے اپنے آپ سے کہا۔
”دیکھا جائے گا؟“
اسی وقت ایک بار پھر قدموں کی چاپ سنائی دی اور دروازہ کھلا۔ وہی پتلا دبلا آدمی نمودار ہوا اور بولا:
”اندر آجائیے۔ پروفیسر صاحب آپ سے ملاقات کریں گے۔“
”شکریہ بھائی۔“ خان عبدالرحمن بولے۔
اور وہ سب اس کے پیچھے مکان میں داخل ہوگئے لیکن انہیں اندر لے جانے سے پہلے وہ دروازہ اندر سے بند کرنا نہیں بھولا تھا۔
٭….٭….٭
ڈرائنگ روم میں انہیں ایک بوڑھا آدمی بیٹھا نظر آیا۔ اس کے چہرے کا رنگ سرخ تھا۔ چہرے پر چھوٹی سی ڈاڑھی تھی۔ ڈاڑھی اور سر کے بال بھی بالکل سرخ تھے۔ اس کے چہرے میں سب سے اہم اس کی آنکھیں تھیں۔ ان آنکھوں میں خوفناک چمک تھی۔ اتنی تیز چمک کہ محمود، فاروق اور فرزانہ ایک سیکنڈ سے زیادہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہیں دیکھ سکے۔ دوسروں نے بھی فوراً اپنی نظریں اِدھر اُدھر کر لیں۔ اس کی آنکھوں میں دیکھنے سے بجلی کا جھٹکا سا لگتا تھا۔ انہیں اپنے سانس سینے میں اٹکتے معلوم ہوئے، لیکن پروفیسر کی آواز سن کر وہ اور بھی حیران ہوئے۔ اس کی آواز بہت نرم تھی اور میٹھی تھی۔ وہ کہنے لگا:
”آئیے آئیے۔ مجھے پروفیسر ارسلان کہتے ہیں، ویسے آس پاس کے لوگوں میں خونی پروفیسر کے نام سے مشہور ہوں اور میری بیٹی کے متعلق تو لوگوں نے اور بھی عجیب و غریب کہانیاں مشہور کر رکھی ہیں۔ میں آپ لوگوں کو اس سے بھی ملواﺅں گا۔ وہ اس وقت سو رہی ہے۔ ابھی جاگ جائے گی تو آپ سے مل کر بہت خوش ہو گی۔ ہم دونوں باپ بیٹی یہاں اکیلے رہتے ہیں۔ دنیا سے الگ تھلگ۔ ہمیں دنیا کے ہنگاموں سے نفرت ہے۔ بس تین چار ملازم ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔ وہ گھر کا کام کاج، کھانا پکانا اور صفائی وغیرہ کر دیتے ہیں۔ ہمارے ساتھ ہی کھاتے پیتے ہیں۔“
”آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی پروفیسر صاحب۔ میں جمشید ہوں۔ یہ خان عبدالرحمن ہیں اور یہ داﺅد صاحب ہیں۔ یہ ہمارے بچے ہیں۔ ہم خان گڑھ جا رہے تھے کہ کار کا ٹائر برسٹ ہو گیا اور ہمیں یہاں آنا پڑا۔ ہمیں بہت افسوس ہے کہ آپ کو تکلیف دی۔ ہم صرف ایک رات یہاں ٹھہریں گے اور پھر دن میں کسی کار وغیرہ پر لفٹ لے کر ٹائر وغیرہ لے آئیں گے۔ دراصل یہ سب ہمارے ایک ملازم کی غلطی سے ہوا۔ اس نے فالتو ٹائر کار میں سے نکال دیا اور ہمیں اس مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔“ انسپکٹر جمشید نے تفصیل سے بتایا۔
”کوئی بات نہیں۔ جب بھی کوئی مہمان آتا ہے، مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔“ پروفیسر ارسلان نے مسکرا کر کہا۔
وہ سب کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے۔ پروفیسر کی باتیں سن کر ان کے ذہنوں پر جو خوف کا ہلکا سا اثر طاری ہو گیا تھا، دور ہو گیا۔ وہ محسوس کرنے لگے تھے کہ گڈریے نے یونہی گپ ماری تھی۔
”آپ لوگ کیا کام کرتے ہیں؟“ پروفیسر نے سرسری لہجے میں پوچھا۔
”میں سرکاری ملازم ہوں۔ یہ ریٹائر فوجی ہیں اور یہ پروفیسر ہیں۔“ انسپکٹر جمشید نے مسکرا کر کہا اور پروفیسر داﺅد انہیں چونک کر دیکھنے لگے، کیوں کہ انہوں نے منع کیا تھا کہ ان کا تعارف پروفیسر کی حیثیت سے نہ کرایا جائے۔ پروفیسر ارسلان بھی چونکا۔ اس نے کہا:
”پروفیسر؟ کیا مطلب۔ کس چیز کے پروفیسر ہیں یہ؟“
”کالج کے۔“ انسپکٹر جمشید نے مسکرا کر کہا اور پروفیسر داﺅد نے سکھ کا سانس لیا۔
اسی وقت ایک تیرہ چودہ سال کی لڑکی اندر داخل ہوئی۔ اس کے پیرلڑکھڑا رہے تھے۔ قدم رکھ کہیں رہی تھی، پڑ کہیں رہے تھے۔ وہ نیند میں تھی۔ شاید سو کر اٹھتے ہی ادھر آگئی تھی۔ اس کے بال بالکل سیاہ تھے۔ رنگ سرخ اور سپید تھا۔ آنکھیں بڑی بڑی تھیں۔ وہ یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ اس کی آنکھوں میں پروفیسر ارسلان کی آنکھوں سے بھی کہیں زیادہ تیز چمک تھی۔
”مجھے رمضان نے بتایا ہے بابا، کچھ مہمان آئے ہیں۔“ اس کی آواز سے خوشی جھلک رہی تھی۔
”ہاں بیٹی آﺅ۔ میں تمہیں ان سے ملواتا ہوں۔ تمہاری عمر کے بچے بھی ہیں۔ لیکن افسوس کہ یہ صرف ایک رات کے مہمان ہیں۔“ پروفیسر نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
”کیا مطلب؟ اتنے دنوں کے بعد تو ہمارے ہاں کچھ مہمان آئے ہیں اور وہ بھی صرف ایک رات کے لیے۔ یہ نہیں ہو سکتا۔“ اس نے چہکتی ہوئی آواز میں کہا اور قریب آگئی۔ پروفیسر ارسلان نے اس سے ان کا تعارف کرایا۔ پھر پروفیسر ان کی طرف مڑا۔
”یہ ہے میری بیٹی نسرین۔ اس کے سوا میرا دنیا میں کوئی نہیں۔“
”لیکن پروفیسر صاحب آپ شہر میں کیوں نہیں رہتے؟ وہاں کی رونق میں آپ دونوں کا دل بہلا رہے گا۔“انسپکٹر جمشید نے پوچھا۔
”نہیں، میں اور میری بیٹی شورشرابے کو پسند نہیں کرتے۔“
”کیا آپ دونوں کا یہاں دل نہیں گھبراتا؟“
”نہیں، اچھا آپ لوگ اب آرام کریں۔ رات کے کھانے پر دوبارہ ملاقات ہو گی۔ رمضانی آپ کو کمرا دکھا دے گا۔ کیا آپ ایک کمرے میں گزارہ کر لیں گے یا دو کمروں کا بندوبست کیا جائے؟“
”جی نہیں ایک ہی کمرا ٹھیک رہے گا۔“
”بہت اچھا۔ بیٹی رمضانی سے جا کر کہو کہ انہیں مہمانوں والے کمرے میں پہنچا دے۔“
”جی اچھا۔“ نسرین نے کہا اور چلی گئی۔
چند منٹ بعد وہ اپنے کمرے میں داخل ہوئے۔ سب کے چہروں پر اطمینان تھا۔ کوئی فکر مند تھا نہ پریشان۔ صرف انسپکٹر جمشید کسی گہری سوچ میں گم تھے۔ آخر چند منٹ گزرنے کے بعد انہوں نے سراوپر اٹھایا اور بولے:
”بہت بُرا ہوا۔“
”کیا مطلب، کیا بُرا ہوا؟“ خان عبدالرحمن چونکے۔
”یہ کہ ہم یہاں آگئے۔“ انہوں نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔
”کیوں آخر ہوا کیا ہے؟ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہی تو ہے۔“ پروفیسر داﺅد نے حیران ہو کر کہا۔
”ٹھیک ٹھاک نہیں ہے۔ ہم پھنس چکے ہیں۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟“ پروفیسر داﺅد حیران ہو کر بولے۔
”کاش، ہم باہر ہی رہ کر ارسلان کے متعلق معلومات حاصل کر لیتے۔“
”لیکن اب کیا ہو گیا ہے۔ پروفیسر ارسلان تو ہم سے بہت اچھی طرح پیش آیا ہے۔ رات کے کھانے پر اس سے پھر ملاقات ہو گی۔ آخر تم کس بنا پر یہ کہہ رہے ہو ہم پھنس گئے ہیں؟“
”اگر تمہیں یقین نہیں تو باہر نکل کر دیکھ لو۔ اس گھر سے باہر نکلنا ایک خواب نظر آئے گا اور مزے کی بات یہ کہ باہر کوئی بھی نظر نہیں آئے گا۔“ انسپکٹر جمشید نے کہا۔
”یہ کیسے ہو سکتا ہے؟“ پروفیسر داﺅد نے بے یقینی کے عالم میں کہا۔
”پہلے باہر جا کر چھان بین کر لیں۔ پھر مجھ سے آکر بات کریں۔“
وہ سب بوکھلا کر اٹھ کھڑے ہوئے البتہ انسپکٹر جمشید نے اپنی جگہ سے حرکت نہ کی۔ وہ جوں کے توں بیٹھے رہے۔ کمرے کا دروازہ کھول کر سب باہر نکل آئے۔ برآمدہ سنسنان پڑا تھا۔ وہ تیزی سے چلتے ہوئے اس کمرے میں آئے جس میں تھوڑی دیر پہلے پروفیسر ارسلان نے ان سے ملاقات کی تھی، یہاں اب کوئی نہ تھا۔ نہ ارسلان، نہ اس کی بیٹی۔ کوئی ملازم بھی نظر نہ آیا۔
پھر وہ بدحواسی کے عالم میں دوڑتے ہوئے بیرونی دروازے پر آئے دروازہ بند تھا۔ انہوں نے اسے کھینچ کر کھولنا چاہا، لیکن وہ تو باہر سے بند کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے خوب زور لگایا، لیکن دروازہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا اور اب انہیں معلوم ہوا کہ انسپکٹر جمشید کا خیال بالکل صحیح تھا۔
٭….٭….٭
وہ واپس اپنے کمرے میں آئے تو انسپکٹر جمشید ابھی تک اسی طرح بیٹھے تھے۔ ان کے لٹکے ہوئے چہرے دیکھ کر بھی کچھ نہ بولے۔آخر خان عبدالرحمن نے جھنجھلا کر کہا:
”جب تمہیں یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ ہم مصیبت میں پھنسنے والے ہیں، تو اسی وقت کیوں نہ کچھ کیا جب ملازم ہمیں لے کر اس کمرے میں آرہا تھا۔“
”ملازم کے جانے کے بعد ہی اصل بات میری سمجھ میں آئی تھی۔“ انسپکٹر جمشید نے مایوسانہ لہجے میں کہا۔
”کیا مطلب؟ ارسلان کے سامنے تم نے کوئی خطرہ محسوس نہیں کیا اور جب ملازم ہمیں کمرے میں چھوڑ کر چلا گیا تو ایکا ایکی تم نے یہ جان لیا کہ ہم پھنس گئے ہیں۔ آخر کیسے؟ یہ سب کیا چکر ہے۔“ خان عبدالرحمن حیران تھے۔ باقی بھی کچھ کم حیران نہ تھے۔
”اب میں تمہیں کیا بتاﺅں۔ میں بھی انسان ہوں، مجھ سے بھی غلطی ہوتی ہے۔ بس ہو گئی غلطی۔“
”کیا غلطی ہوئی آپ سے؟“ محمود نے بے چین ہو کر پوچھا۔
”ایک غلطی ہوئی ہو تو بتاﺅں بھی۔ مجھ سے تو غلطی پر غلطی ہوئی ہے۔“
انسپکٹر جمشید حد سے زیادہ سنجیدہ تھے۔ انہوں نے اس سے پہلے کبھی انہیں اتنا سنجیدہ نہیں دیکھا تھا۔
”خدا کے بندے کچھ بتاﺅ گے بھی یا پہیلیاں ہی بھجواتے رہو گے۔“ پروفیسر داﺅد نے جھنجھلا کر کہا۔
”مجھ سے پہلی غلطی یہ ہوئی کہ اس مکان کے دروازے پر پہنچ کر مکان کا جائزہ نہیں لیا۔ اگر باہر کھڑے ہو کر ایک نظر غور سے اس پر ڈال لیتا تو کبھی آپ لوگوں کو اندر داخل نہ ہونے دیتا۔ اب مجھے یاد آرہا ہے، مکان کا دروازہ بالکل قلعوں کے دروازوں جیسا ہے جسے توڑنے کے لیے کئی ہاتھیوں کی طاقت درکار ہو گی جب کہ ہم سب مل کر ایک ہاتھی جتنی طاقت بھی نہیں ہو سکتے۔ اس قدر مضبوط دروازے والے مکان میں رہنے والے کے ارادے کیا ہو سکتے ہیں، یہ سوچنا میرا کام تھا، لیکن میں نے نہیں سوچا۔ کیوں کہ ہمارا ذہن تو گڈریے کے الفاظ میں الجھا ہوا تھا۔ پھر اندر داخل ہونے کے بعد اس پتلے دبلے آدمی نے پہلے دروازہ اندر سے بند کیا تھا اور پھر ہمیں لے کر ڈرائنگ روم میں آیا تھا۔ آخر دروازہ اندر سے بند کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس جنگل میں کون تھا جو مکان میں گھس آتا۔“
”لیکن آپ نے اندر داخل ہونے سے پہلے خطرے کا خیال ظاہر تو کیا تھا؟“ فاروق کو اچانک یاد آیا۔
”ہاں، صرف خیال ظاہر کیا تھا، صرف اس خیال سے کہ کہیں پروفیسر کوئی خطرناک آدمی نہ ہو، لیکن یہ فیصلہ نہیں کیا کہ اندر داخل ہی نہیں ہونا چاہیے۔ پروفیسر ارسلان نے جب خود ہی یہ ذکر چھیڑا کہ اس کے بارے میں باہر کے لوگوں میں کیا باتیں مشہور ہیں۔ تو میں اس وقت بھی نہ چونکا حالاں کہ ان باتوں سے اس کا مطلب یہ تھا کہ ہمارے دلوں میں جو کھٹکا ہے وہ دور ہو جائے اور ہم آرام سے اس کمرے تک پہنچ جائیں، جونہی ہم یہاں آئے وہ مکان کا دروازہ بند کر کے غائب ہو گئے اور مجھے اس وقت خیال آیا جب معاملہ ہاتھ سے نکل چکا تھا۔“
”آخر آپ کو یکا یک کیسے خیال آ گیا؟“
”مجھے اخبار کی ایک خبر یاد آگئی تھی۔ اس سے پہلے بھی اسی قسم کی خبریں پڑھ چکا تھا، لیکن کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔“
یہ سن کر وہ اور بھی حیران ہوئے۔ پروفیسر داﺅد نے حیرت زدہ لہجے میں کہا:
”آخر وہ خبر کیا تھی؟“
”وہ خبر کچھ اس طرح تھی کہ فلاں شخص تقریباً پندرہ بیس روز پہلے غائب ہوا تھا۔ اس کا اب تک کوئی پتا نہیں چلا۔ وہ خان گڑھ کی طرف سیر کی غرض سے گیا تھا، لیکن واپس نہیں آیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ بینک میں اس کی جو دولت تھی، وہ بھی نکلوا لی گئی ہے۔ رقم کس نے نکالی ہے، کچھ پتا نہیں چل سکا۔ پولیس اس سلسلے میں مزید تحقیقات کر رہی ہے۔“
خبر سنا کر انسپکٹر جمشید خاموش ہو گئے۔ وہ از حد فکرمند لگ رہے تھے۔
”لیکن ابا جان اس خبر کا ہمارے واقعے کے ساتھ کیا تعلق ہے؟“ فرزانہ نے حیران ہو کر کہا۔
”بالکل ٹھیک سوال ہے۔ مجھے بھی کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔“ خان عبدالرحمن بولے۔
”آپ میں سے کسی کو تعلق نظر آئے گا بھی نہیں، لیکن مجھے تو سب کچھ آئینے کی طرح صاف نظر آرہا ہے۔ اس قسم کی خبر میں پہلے بھی پڑھ چکا ہوں اور یہ عجیب بات اس کمرے میں آنے کے بعد ہی مجھے یاد آئی ہے کہ جتنے لوگ بھی اس طرح لاپتا ہوئے ہیں اور جن کی دولت بینکوں سے نکلوا لی گئی ہے۔ وہ سب کے سب خان گڑھ کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔“
”کیا؟“ وہ سب ایک ساتھ چلائے۔
٭….٭….٭
حیرت، خوف اور سکتے نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ سنسنی کی لہریں ان کے جسموں میں دوڑ گئیں۔ کئی سیکنڈ تک ان میں سے کسی کے منہ سے کوئی لفظ نہ نکل سکا۔ وہ سب خاموشی سے انسپکٹر جمشید کی طرف دیکھ رہے تھے اور وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب چکے تھے۔ ان کی نظریں کمرے کے فرش پر جمی تھیں۔
”اُف خدا، کیا یہ سب سچ ہے؟“ آخر پروفیسر داﺅد کے منہ سے نکلا۔
”ہاں ایک خوفناک حقیقت ہمارا منہ چڑا رہی ہے۔ زندگی میں ہم شاید اس سے زیادہ خوفناک مصیبت میں نہیں پھنسے ہوں گے۔ آپ لوگ نہیں جانتے، لیکن مجھے اندازہ ہے کہ اب ہمارے ساتھ کیا ہو گا؟“
”کیا ہو گا؟“ خان عبدالرحمن نے بے ساختہ کہا۔ ان کے منہ پر بھی ہوائیاں اڑنے لگی تھیں جب کہ وہ بہت دلیر آدمی تھے۔
شائستہ اور پروفیسر داﺅد کا حال بھی بہت پتلا تھا۔ صرف محمود، فاروق اور فرزانہ ایسے تھے جنہوں نے ابھی حوصلہ نہیں ہارا تھا۔
”ابھی مجھ سے کچھ نہ پوچھو۔ خدا کرے میرے سارے اندازے غلط ثابت ہوں اور پروفیسر ارسلان رات کے کھانے پر ہمیں بلالے۔“
”ابا جان۔ کیا اس طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ رہنے سے ہم پر ٹوٹ پڑنے والی مصیبت دور ہو جائے گی؟“ فاروق نے مضبوط لہجے میں کہا۔
”نہیں بیٹے، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔“ وہ بولے۔
”تو پھر ہمیں کچھ کرنا چاہیے۔“
”ٹھیک ہے۔ ہم اس قلعہ نما مکان میں سے باہر نکلنے کا جائزہ ضرور لیں گے۔ میرا خیال ہے کہ ہم ضرور کامیاب بھی ہو جائیں گے۔“ فرزانہ نے کہا۔
”بالکل ٹھیک۔ میرا بھی یہی خیال ہے۔“ محمود بولا۔
”ضرور کوشش کرنی چاہیے، لیکن جہاں تک میرا خیال ہے، انہوں نے اس بات کا پورا بندوبست کر رکھا ہو گا کہ باہر جانے کا کوئی راستہ نہ رہے۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”ابا جان، کیا آپ مایوس ہو چکے ہیں؟“ فاروق نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
”نہیں بیٹے، ایسی کوئی بات نہیں۔ آﺅ ہم سب چل کر باہر نکلنے کے امکانات کا جائزہ لیں۔“ وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
اپنے کمرے سے نکل کر وہ برآمدے میں آئے۔ پھر مکان کا ہر کمرا دیکھتے پھرے۔ یوں لگتا تھا جیسے مکان پر روحوں کا قبضہ ہو۔ چند کمروں میں کھانے پینے کے کچھ برتن نظر آئے۔ یہ برتن چینی کے تھے۔ ان برتنوں کے علاوہ انہیں کہیں کوئی چیز دکھائی نہ دی، البتہ ڈرائنگ روم میں کرسیاں اور ایک میز اب بھی موجود تھیں۔ انہیں انہی کرسیوں پر بٹھایا گیا تھا۔ یہاں سے وہ پھر بیرونی دروازے پر آئے۔ سب نے مل کر دروازہ کھولنے کے لیے زور لگایا، لیکن وہ ان سے ہل بھی نہ سکا۔
”مکان کی چھت پر جانے کے لیے کوئی زینہ تو ہونا چاہیے؟“ فرزانہ نے کچھ سوچ کر کہا۔
”ہاں ہونا تو چاہیے۔“
زینے کی تلاش کوئی مشکل کام ثابت نہ ہوا۔ سیڑھیاں دیکھ کر ان کی جان میں جان آئی۔ انہوں نے سوچا مار لیا میدان۔ ایک بار وہ چھت پر پہنچ جائیں۔ پھر مکان سے باہر نکلنا کوئی مشکل کام نہیں ہو گا، مگر انسپکٹر جمشید کے چہرے پر اب بھی خوشی کی کوئی علامت نظر نہ آئی۔ وہ تقریباً دوڑتے ہوئے سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ زینے کا دروازہ کھلا تھا۔ وہ چھت پر پہنچ گئے۔ چھت کافی بڑی تھی۔ یہاں بھی کوئی چیز نہ تھی۔ چھت کے چاروں طرف بہت اونچی اونچی دیواریں تھیں۔
”ابا جان میں اس دیوارپر چڑھ کر نیچے جھانکنا چاہتا ہوں؟“ فاروق نے کہا۔
”ہوں، خیال تو اچھا ہے۔“ خان عبدالرحمن جلدی سے بولے۔
”دیواریں بہت اونچی ہیں۔ اس مکان سے باہر نکلنے کا صرف ایک طریقہ ہے۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”اور وہ طریقہ کیا ہے؟“
”یہ کہ ہمارے پاس ایک بہت لمبی اور مضبوط رسی ہو۔ ہم اس رسی کو اس زینے کے کنڈے سے باندھ کر نیچے لٹکا دیں اور رسی کے ذریعے نیچے اتریں، لیکن یہاں رسی کہاں سے مل سکتی ہے۔ یہ سب کچھ تو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے نہ جانے کتنے بدنصیب یہاں پھنس چکے ہیں۔“
”اُف اللہ! اب کیا ہو گا؟“ پروفیسر داﺅد سر پکڑ کر چھت پر اکڑوںبیٹھ گئے۔
”لیکن ابا جان سوال یہ ہے کہ اگر رسی ہمارے پاس ہو بھی تو ہم اسے چھت کی دیوار سے نیچے کس طرح لٹکائیں گے جب کہ دیواریں اتنی اونچی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم کسی گول حوض میں کھڑے ہوں۔“
”البتہ اس حوض میں پانی نہیں ہے۔“ فاروق کے منہ سے نکلا۔
اس مکان میں داخل ہونے کے بعد یہ پہلا خوش گوار جملہ تھا۔ انہوں نے چونک کر فاروق کو دیکھا۔ اس کے چہرے پر ایک غمگین سی مسکراہٹ تھی۔
”شاباش فاروق، اگر تم ان حالات میں بھی چہک سکتے ہو تو یہ دیواریں ہمارا راستہ نہیں روک سکیں گی۔“ انسپکٹر جمشید خوش ہو کر بولے۔
”اگر اس طرح کسی فائدے کا امکان ہے تو میں دیوار تک پہنچنے کے لیے ایک خیال پیش کرتی ہوں۔“
”ضرور بتاﺅ۔ ہو سکتا ہے اس طرح کوئی حل نکل ہی آئے۔“ انہوں نے کہا۔
”تو سنیے، پرائمری سکول میں ہم سے ایک مشق کرائی جاتی تھی۔ اس پر عمل کر کے میں دیوار پر چڑھ سکتی ہوں۔“
”وہ کیسے؟“ خان عبدالرحمن حیران رہ گئے۔
”پروفیسر انکل آپ اور ابا جان ایک دوسرے کے کندھوںپر ہاتھ رکھ کر اکڑوں بیٹھ جائیں۔“
”اس سے کیا ہو گا؟“ پروفیسر داﺅد بولے۔
”آپ بیٹھیں تو سہی۔“
تینوں ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد فرزانہ بولی:
”محمود، فاروق، تم دونوں ان کے کندھوں پر چڑھ جاﺅ اور انہی کی طرح ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاﺅ۔“
”اوہ ہاں، یہ مشق ہم بھی کیا کرتے تھے، یاد آگئی۔“ محمود خوش ہو کر بولا۔
دونوں ان کے کندھوں پر چڑھ گئے اور فرزانہ کی ہدایت کے مطابق ایک دوسرے کے کندھے پکڑ کر بیٹھ گئے۔
”اب میں ان دونوں کے کندھوں پر چڑھوں گی۔“
فرزانہ نے کہا۔ پھر پہلے وہ انسپکٹر جمشید کے کندھے پر پیر رکھ کر اوپر چڑھی۔ اس کے بعد محمود کے کندھے پر پیر رکھ کر اوپر چڑھ گئی۔ اب اس نے ایک پیر فاروق کے کندھے پر اور دوسرا محمود کے کندھے پر جما دیا اور ان کے سروں کو پکڑ کر بیٹھ گئی۔
”ابا جان! آپ تینوں ایک ساتھ کھڑے ہو جائیں۔“
”بہت اچھا بیٹی، اس وقت ہم تمہارے ماتحت ہیں، جو کہو گی، کریں گے۔“ انسپکٹر جمشید نے بھی مسکرا کر کہا۔
تینوں ایک ساتھ اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔
”اب اسی طرح محمود اور فاروق کھڑے ہوں گے۔“
”اچھی بات ہے۔“ محمود نے کہا اور دونوں دھیرے دھیرے اٹھنے لگے۔
جب وہ بھی سیدھے کھڑے ہو گئے تو فرزانہ نے ان کے سروں پر سے ہاتھ اٹھا لیے اور اوپر اٹھنے لگی۔ اب وہ سب ایک منار سا بن گئے تھے۔ فرزانہ سب سے اوپر تھی۔ اس نے ہاتھ اوپر اٹھائے۔ دوسرے ہی لمحے اس کے منہ سے نکلا:
”ابا جان، میرے ہاتھ منڈیر تک پہنچ گئے ہیں۔“
٭….٭….٭
”بہت خوب فرزانہ، تم نے کمال کر دیا، لیکن اب تم کیا کرو گی؟“انسپکٹر جمشید نے خوش ہو کر کہا۔
”اب میں بازوﺅں کے بل منڈیر تک پہنچوں گی۔“
”لیکن اس طرح تمہارے پاﺅں محمود اور فاروق کے کندھوں پر سے اٹھ جائیں گے۔“ انسپکٹر جمشید نے پریشان ہو کر کہا۔
”تو کیا ہوا، میں اتنی اونچائی سے چھلانگ لگا سکتی ہوں۔“
”اچھا بیٹی، اللہ تمہاری حفاظت فرمائے۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”آمین۔“ ان سب کے منہ سے نکلا۔
فرزانہ نے اپنے دونوں ہاتھ منڈیر پر جما دیے اور ان کے بل اوپر اٹھنے لگی۔ اس کام میں اس کا پورا زور صرف ہو رہا تھا۔ اس کے پاﺅں محمود اور فاروق کے کندھوں پر سے اٹھ گئے۔
”ابا جان، اب ہم کیا کریں! کیا اسی طرح کھڑے رہیں؟“ محمود نے پوچھا۔
”نہیں، تم چھلانگ لگا کر نیچے اتر آﺅ۔“
”جی اچھا۔“ دونوں نے ایک ساتھ کہا اور کود کر نیچے آگئے۔
اب وہ سب چھت پر کھڑے سر اوپر کیے فرزانہ کو دیکھ رہے تھے جو منڈیر سے لٹک رہی تھی۔ ان کے دیکھتے ہی دیکھتے اس کا آدھا دھڑ منڈیر پر پہنچ گیا اور اب اس کا سر ان کی نظرں سے اوجھل ہو گیا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ دوسری طرف دیکھنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ پھر اس کا باقی ماندہ دھڑ بھی منڈیر پر پہنچ گیا۔ دوسرے ہی لمحے انہوں نے اس کی خوف میں ڈوبی آواز سنی۔
”اُف خدا، ہم تو بہت اونچائی پر ہیں۔“
”تم نیچے کیا د یکھ رہی ہو؟“ انسپکٹر جمشید نے بے تاب ہو کر کہا۔
”صرف درخت۔ جہاں تک میری نظر جا رہی ہے۔ درخت ہی درخت نظر آرہے ہیں۔“
”اور کچھ۔ کیا منڈیر تک کسی درخت کی شاخیں نہیں پہنچ رہیں؟“ انسپکٹر جمشید نے پوچھا۔
”اوہ نہیں، درخت تو یہاں سے بہت نیچے ہیں۔“ اس نے جواب دیا۔
”یا اللہ رحم، اس صورت میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟“ پروفیسر داﺅد کے منہ سے نکلا۔
”اگر ہمارے پاس لمبی سی رسی ہوتی تو پھر ہم ضرور باہر نکل سکتے تھے۔“ محمود نے کہا۔
”جن لوگوں نے ہمیں قید کیا ہے، وہ بہت ہوشیار ہیں۔ دراصل وہ ہمیں ہر طرح سے مایوس کر دینا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے چھت کا زینہ کھلا رہنے دیا۔ حالاں کہ وہ اسے بھی بند کر سکتے تھے، لیکن وہ جانتے ہیں کہ ہم چھت پر پہنچ کر کچھ نہیں کر سکتے، اس لیے انہوں نے زینہ بند کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ فرزانہ بیٹی، تم اب کیا کرو گی۔ دیکھ لو چھلانگ لگا سکتی ہویانہیں۔ اگر نہیں لگا سکتیں تو ہم اسی طرح ایک دوسرے کے اوپر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تم لٹک کر محمود اور فاروق کے کندھوں پر پاﺅں ٹکا دینا۔“
”نہیں ابا جان، میں درختوں پر سے چھلانگ لگانے کا تجربہ کرتی رہی ہوں اور یہ اونچائی ایک چھوٹے درخت جتنی ہے۔ میں آرہی ہوں۔“
ان الفاظ کے ساتھ ہی اس نے چھلانگ لگا دی اور دھم سے نیچے آرہی۔
”تمہارے پیر میں چوٹ تو نہیں آئی؟“ پروفیسر داﺅد نے اسے سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔
”نہیں انکل، میں بالکل ٹھیک ہوں۔“
اچانک نیچے کھڑکھڑاہٹ کی آواز سنائی دی۔ ان کے کان کھڑے ہو گئے۔ پھر سب سے پہلے انسپکٹر جمشید نیچے بھاگے۔ ان کے پیچھے دوسرے بھی دوڑ پڑے۔ انہیں ایسا محسوس ہوا تھا جیسے بیرونی دروازہ کھولا گیا ہو۔
٭….٭….٭
کھڑکھڑاہٹ کی آواز نے ان سب پر جوش کی حالت طاری کر دی تھی۔ ان کے دل دھک دھک کر رہے تھے اور وہ بے تحاشا دوڑ رہے تھے۔ سیڑھیاں اترتے ہی وہ بیرونی دروازے کی طرف بھاگے اور پھر دروازے کے سامنے پہنچ کر رک گئے، لیکن دروازہ تو بدستور بند تھا۔ انسپکٹر جمشید نے بے تابی کے عالم میں دروازے کو کھینچ کر دیکھا لیکن وہ نہ کھلا۔ پھر ان کی نظرکاغذ کے ایک ٹکڑے پر پڑی۔ وہ دروازے کے بالکل ساتھ اینٹوں کے فرش پر پڑا تھا۔ شاید دروازے کے نیچے جھری میں سے اندر کھسکایا گیا تھا۔ انہوں نے تیزی سے جھک کر اسے اٹھا لیا۔ کاغذ پر چند لائنیں لکھی تھیں:
”تم ہزار کوشش کر لو، یہاں سے نکل نہیں سکتے۔ اب تم ہمارے رحم و کرم پر ہو۔ ہم چاہیں تو تمہیں اس قید سے نجات دلا سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے تمہیں ہماری ہر بات بلا چون و چرا ماننا ہو گی۔ ورنہ اس قلعہ نما مکان میں بھوکے پیاسے سسک سسک کر اور ایڑیاں رگڑرگڑ کر مر جاﺅ گے۔ کوئی تمہاری لاشوں کو اٹھانے والا بھی نہ ہو گا۔ سوچنے کے لیے تمہیں آج کی رات دی جاتی ہے۔ صبح سویرے اپنا جواب لکھ کر اس جھری میں سے باہر کھسکا دینا۔“
سب نے باری باری رقعہ پڑھا اور سکتے میں آ گئے۔ تحریر کے نیچے کسی کے دستخط نہیں تھے۔ اب انہیں اندازہ ہوا کہ انسپکٹر جمشید کے خیالات کس حد تک درست تھے۔
”اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں ان کے مطالبات ماننا ہی پڑیں گے۔“ خان عبدالرحمن بولے۔
”ظاہر ہے، ورنہ ہم یہاں بھوکوں مر جائیں گے۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”آخر یہ لوگ ہم سے کیا چاہتے ہیں۔“ پروفیسر داﺅد نے جھنجھلا کر پوچھا۔
”دولت۔ بینکوں میں ہمارے پاس جس قدر دولت ہے وہ سب حاصل کر لینا چاہتے ہیں۔“
”پھر تو یہ کوئی ایسی پریشانی والی بات نہیں ہے۔ ہم یہاں سے آزاد ہونے کی شرط پر بینک میں موجود تمام دولت دینے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔“ پروفیسر بولے۔
”اگر بات یہیں پر ختم ہو جاتی تو پھر رونا ہی کیا تھا۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”کیا مطلب؟ ساری دولت دینے کے بعد بھی بات ختم نہیں ہوتی۔“ پروفیسر نے گھبرا کر کہا۔
”نہیں، اگر وہ ہم سے دولت حاصل کر کے ہمیں چھوڑ دیتے ہیں۔ تو ظاہر ہے کہ ہم پولیس کو اطلاع دے دیں گے، پولیس یہاں چھاپہ مارے گی۔ یہ لوگ بے شک گرفتار نہ ہو سکیں گے، لیکن ان کا یہ اڈا پولیس کے ہاتھ لگ جائے گا اور اس اڈے کے ذریعے ہی تو یہ لوگ لاکھوں روپے کما رہے ہیں اور نہ جانے کب سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ان لوگوں نے اس وقت تک کتنے لوگوں کو لوٹا ہے۔“
”اُف اللہ، اس کا مطلب ہے، یہ اپنے قیدیوں کو مار ڈالتے ہیں۔“ شائستہ نے لرز کر کہا۔
”انہیں مار ڈالنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی ہو گی۔ قیدی بھوک اور تنہائی سے تنگ آکر خود ہی مر جاتا ہو گا۔“
”اوہ!“ وہ دھک سے رہ گئے۔ خوف سے ان کے چہرے زرد پڑ گئے۔
مکان کے اندر تاریکی بڑھتی جا رہی تھی۔ یہاں بجلی بھی نہیں تھی کہ روشنی ہی کر لیتے۔ آخر انسپکٹر جمشید بولے:
”وہ لوگ ہمیں رات تک کا وقت سوچنے کے لیے دے چکے ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنے کمرے میں چل کر سو جانا چاہیے۔ خدا کا شکر ادا کرو کہ وہاں چارپائیاں موجود ہیں۔ ورنہ زمین پر رات بسر کرنا پڑنی اس کمرے میں بھی چارپائیاں انہوں نے اس لیے رکھی ہیں تاکہ آنے والے شکار کو شروع میں ہی شک نہ ہو جائے۔ لوگ اطمینان سے کمرے میں آکر لیٹ جاتے ہوں گے اور ادھر یہ لوگ مکان سے نکل جاتے ہیں۔“
”اُف خدا، کس قدر خوفناک طریقہ ہے لوگوں کو لوٹنے کا۔ پروفیسر داﺅد کے منہ سے نکلا۔“
”اور یہ لوگ ان کاروں کا کیا کرتے ہوں گے جو سڑک کے کنارے…. لیکن….“ خان عبدالرحمن کچھ کہتے کہتے رک گئے۔ ان کے چہرے پر حیرت کے آثار تھے۔
”کیا ہوا؟ تم کچھ کہتے کہتے رُک کیوں گئے؟“
”اگر یہ باقاعدہ منصوبہ ہے تو پھر کاروں کے ٹائر اتفاقیہ نہیں پھٹتے ہوں گے۔“
”نہیں، یہ لوگ سڑک پر کیلیں وغیرہ بچھا دیتے ہیں۔ ورنہ ہر کار اس جگہ کیونکر بے کار ہو سکتی ہے؟“
”ہوں، ضرور یہی بات ہے۔“
وہ اپنے کمرے میں آگئے۔ یہاں کل تین چارپائیاں تھیں۔ ایک چارپائی پر پروفیسر اور شائستہ لیٹ گئے۔ دوسری پر خان عبدالرحمن اور محمود، تیسری پر انسپکٹر جمشید، فاروق اور فرزانہ کے ساتھ لیٹ گئے۔ کمرے میں اس وقت بالکل اندھیرا ہو چکا تھا اور یہ کام بھی انہوں نے ٹٹول ٹٹول کر کیا تھا۔ اگر کمرے کے ساتھ برآمدہ نہ ہوتا تو انہیں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا کیوں کہ برآمدے کے اوپر آسمان تھا اور آسمان پر تارے جگمگا رہے تھے۔
اور پھر اچانک انہیں یاد آیا۔ آج انہوں نے ابھی تک رات کا کھانا تو کھایا ہی نہیں تھا۔
”ابا جان۔“ اندھیرے میں محمود کو آواز ابھری۔
”ہاں بیٹے، کیا بات ہے؟“
”آج رات ہم کچھ کھائے پیے بغیر سو رہے ہیں۔ یہ ہماری زندگی کا پہلا اتفاق ہے۔“
”کوئی بات نہیں بیٹا۔ اللہ تعالیٰ شاید ہمارا امتحان لینا چاہتا ہے۔ صبر کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ یاد کرو اس وقت کو جب ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خندق کھود رہے تھے۔ حالاں کہ وہ بھوکے تھے۔ ان کے ساتھیوں نے بھوک کی وجہ سے ایک ایک پتھر پیٹ سے باندھ رکھا تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیٹ کے ساتھ دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔ یاد کرو اس وقت کو جب میدان کربلا میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بَہتّر (72)ساتھیوں نے تین دن تک بھوکا پیاسا رہنے کے بعد شہادت کا جام نوش فرمایا تھا۔“ انسپکٹر جمشید روانی کے عالم میں کہتے چلے گئے۔
”واقعی ابا جان، یہ باتیں یاد کرتے ہی بھوک غائب ہو گئی ہے۔“ فرزانہ بولی۔
”یہی صبر کی طاقت ہے۔“ انسپکٹر جمشید نے کہا اور چارپائی سے اٹھنے لگے۔
”آپ کہاں جا رہے ہیں ابا جان؟ اندھیرے میں کوئی کوشش کرنے کا کیا فائدہ؟“ فاروق بولا۔
”میں جو کوشش کرنے لگا ہوں، وہ اندھیرے میں زیادہ مفید ہے۔“ انسپکٹر جمشید نے کہا۔ آواز سے انہوں نے محسوس کیا کہ وہ یہ کہتے وقت مسکرائے بھی تھے۔
”کیا مطلب؟“ محمود نے چونک کر کہا۔
”میں نماز پڑھ کر دعا مانگوں گا۔“
”اوہ، واقعی ہمیں تو خیال ہی نہیں رہا۔ ابا جان ہم بھی تو نماز پڑھیں گے۔“
”کیوں نہیں بیٹا،اس سے ضروری کام تو کوئی ہے ہی نہیں۔“
انہوں نے تیمم کر کے نماز ادا کی اور ایک بار پھر لیٹ گئے۔ انسپکٹر جمشید والی چارپائی پر چونکہ تین تھے، اس لیے وہ بہت تنگ تھے لیکن صبر سے گزارا کرنے کے سوا چارہ ہی کیا تھا۔ نہ جانے کتنی دیر تک وہ کروٹیں لیتے رہے۔ انہیں یوں محسوس ہوا جیسے نیند بھی آج ان کی آنکھوں سے بہت دور چلی گئی ہے۔ بھوکے پیٹ نیند بھی تو نہیں آتی۔
پھر نہ جانے کب ان کی آنکھ لگ گئی۔ جب وہ جاگے، دن کا اجالا پھیل چکا تھا۔ فاروق اور فرزانہ نے ایک ساتھ چونک کر دیکھا۔
چارپائی پر انسپکٹر جمشید نہیں تھے۔
٭….٭….٭
”ابا جان!“ فرزانہ کے منہ سے چیخ سی نکل گئی۔
”کیا بات ہے۔ کیا ہوا فرزانہ؟“ محمود ہڑبڑا کر اٹھا۔
”ابا جان چارپائی پر نہیں ہیں۔“
”کیا کہا؟ چارپائی پر نہیں ہیں، مگر وہ کہاں جا سکتے ہیں؟“
”خدا جانے۔“
وہ بوکھلا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ انسپکٹر جمشید کمرے میں نہیں تھے۔ پھر انہوں نے پورے گھر کی تلاشی لے ڈالی۔ ایک ایک کمرے کو دیکھا۔ چھت پر بھی گئے مگر انسپکٹر جمشید کو خدا جانے زمین کھا گئی تھی یا آسمان نگل گیا تھا، ان کا دور دور تک پتا نہ تھا۔ ان کے رنگ اڑ گئے۔ ہاتھوں، پیروں سے جان سی نکلتی محسوس ہوئی۔ ابھی تک انہیں یہی تو حوصلہ تھا کہ انسپکٹر جمشید ان کے ساتھ ہیں۔ انسپکٹر جمشید جو کسی حالت میں ہمت نہیں ہارتے تھے جو مصیبتوں کے سمندر میں کود کر بھی مسکراتے تھے۔ انہوں نے اپنے اردگرد دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں خوف تھا، چہروں پر مایوسی تھی اور دل دھک دھک کر رہے تھے۔
”آخر وہ کہاں چلے گئے؟“ محمود چلایا۔
”حوصلہ رکھو، وہ خود ہرگز نہیں گئے۔ ان حالات میں اگر وہ کہیں جا سکتے تھے تو تنہا ہرگز نہ جاتے۔ ہمیں بھی ساتھ لے کر جاتے۔ اس کا مطلب صرف اور صرف یہ ہے کہ انہیں یہاں سے لے جایا گیا ہے۔ شاید مجرم سوتے میں انہیں اٹھا کر لے گئے ہیں۔“ خان عبدالرحمن بولے۔
”لیکن کیوں، انہوں نے ایسا کیوں کیا؟“ پروفیسر داﺅد نے پریشان ہو کر کہا۔
”اب یہ میں کیا بتا سکوں گا۔ یہ تو وہی لوگ بتائیں گے۔“
”اب ہم کیا کریں گے؟“ فرزانہ نے سوال کیا۔
”میرا خیال ہے، یہ بہت بہتر ہوا۔“ اچانک محمود نے مسکرا کر کہا۔
”کیا مطلب؟ کیا بہتر ہوا۔ تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا۔“ فاروق نے اسے بری طرح گھور کر کہا۔
”نہیں اگر وہ لوگ ابا جان کو خود لے گئے ہیں۔ تب تو یہاں سے رہائی کی کوئی نہ کوئی صورت ضرور نکل آئے گی۔ ظاہر ہے کہ ان تک پہنچنے کے بعد ابا جان ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھیں گے بلکہ کچھ نہ کچھ کر کے رہیں گے۔“
”اوہ، بالکل۔ دماغ تو شاید میرا چل گیا ہے۔“ فاروق نے خوش ہو کر کہا۔
”مم…. مگر ہم بھوک کا کیا علاج کریں۔“ شائستہ نے کہا اور سب کو بھوک شدت سے محسوس ہونے لگی۔ رات کے بھوکے تھے۔
”اوہ ہمیں فوراً اس رقعے کا جواب لکھ کر باہر کھسکا دینا چاہیے۔ اسی صورت میں ہمیں کھانے کے لیے کچھ مل سکے گا۔“ محمود نے تجویز پیش کی۔
”لیکن ہم لکھیں کیا؟“ خان عبدالرحمن نے پوچھا۔
”بس صرف اتنا کہ ہم آپ کی ہر بات ماننے کے لیے تیار ہیں۔“
”اچھی بات ہے۔ میں یہ جملہ اسی کاغذ کی پچھلی طرف لکھ کر باہر سرکا دیتا ہوں۔“ خان عبدالرحمن نے جیب سے قلم نکالا۔
”نہیں انکل، سارا کاغذ انہیں واپس نہ دیں۔ رقعے کے نیچے جو تھوڑا سا کاغذ بچ رہا ہے۔ اسے الگ کر لیں اور اس پر یہ جملہ لکھ کر باہر سرکا دیں۔ باقی کاغذ ہمیں اپنے پاس رکھنا چاہیے۔“ فرزانہ نے اچانک کہا۔
”کیوں؟ اس کی کیا ضرورت؟“ خان عبدالرحمن حیران ہو کر بولے۔
”ہو سکتا ہے، یہ کاغذ کام دے جائے۔ عدالت میں ثبوت پیش کرنے کے لیے بھی تو ہمارے پاس کچھ ہونا چاہیے۔ یہ مجرموں کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر ہے۔“
”اوہ، بالکل ٹھیک۔ مان گیا بھئی، تم لوگ پورے جاسوس ہو۔“
انہوں نے کاغذ کا پرزہ الگ کیا۔ اس پر جملہ لکھا اور بیرونی دروازے پر آکر باہر کھسکا دیا۔ دن نکل چکا تھا۔ مصیبت بھری پہلی رات کٹ چکی تھی، لیکن وہ نہیں جانتے تھے، ابھی کتنی راتیں اسی قیدخانے میں گزارنا ہوں گی۔ وہ دروازے کے پاس ہی دھرنا مار کر بیٹھ گئے کہ دیکھیں، دشمن ان کی تحریر کا کیا جواب دیتے ہیں۔
٭….٭….٭
انسپکٹر جمشید کی آنکھ کھلی تو انہوں نے اپنے آپ کو ایک آرام دہ بستر پر پایا۔ وہ سمجھے، شاید کوئی خواب دیکھ رہے ہیں۔ کچھ دیر پڑے آنکھیں ملتے رہے اور پھر چونک کر اٹھ بیٹھے، یہ خواب نہیں حقیقت تھی۔ وہ اس وقت ایک عالی شان کمرے میں موجود تھے۔ ان کے بستر کے ساتھ ہی میز پر پانی کا جگ اور کھانے کی کچھ چیزیں رکھی تھیں۔ فوراً ہی انہیں یاد آیا، انہوں نے رات سے کچھ نہیں کھایا ہے۔ انہوں نے کھانے کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ بچوں اور باقی لوگوں کا خیال آگیا کہ نہ جانے ان لوگوں کو کچھ کھانے پینے کو ملا ہو گا یا نہیں۔“
”رُک کیوں گئے مسٹر جمشید، یہ کھانا تمہارے ہی لیے ہے۔ ڈرو نہیں۔ اس میں زہر نہیں ہے۔“
انہوں نے چونک کر دیکھا۔ ان کے سامنے پروفیسر ارسلان کھڑا مسکرا رہا تھا، لیکن اس طرح کہ اس کے دائیں بائیں دو آدمی پستول لیے کھڑے تھے اور پستول کی نالوں کا رخ ان کی طرف تھا۔
”شکریہ پروفیسر، میں اس لیے نہیں رکا کہ اس کھانے میں زہر ہو گا، بلکہ یہ سوچ کر رک گیا ہوں کہ نہ جانے میرے ساتھیوں کو کچھ کھانے کو دیا گیا ہے یا نہیں۔“
”انہیں بھی دے دیا جائے گا، بے فکر رہو۔“
”جب دے دیا جائے گا تو میں بھی کھا لوں گا۔ ایسی کوئی جلدی نہیں ہے۔“
”تمہاری چیک بک کہاں ہے؟“ اس نے اچانک سوال کیا۔
”کیا مطلب؟“ انسپکٹر جمشید چونکے۔
”مطلب یہ کہ تم لوگ جس کار میں سوار تھے۔ اس کے خانے میں سے ہمیں وہ چیک بکس ملی ہیں، ایک پروفیسر کی اور دوسری عبدالرحمن کی، لیکن تمہاری نہیں ملی۔ اسی لیے تمہیں یہاں اٹھا کر لایا گیا ہے۔ کیا تم چیک بک ساتھ نہیں لائے؟“
”نہیں، میں بھول گیا تھا۔ یوں بھی ہمارے پاس دو چیک بکس تو تھیں ہی۔“
”ہوں، تم کہاں رہتے ہو؟ کیا گھر میں تمہاری چیک بک موجود ہے؟“ اس نے سوال کیا۔
”جی ہاں ضرور ہے۔“ انسپکٹر جمشید نے دھک دھک کرتے دل کے ساتھ کہا۔
”گھر میں کون کون ہو گا؟“
”صرف میری بیوی۔“ انہوں نے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے، تم اپنی بیوی کے نام ایک رقعہ لکھو کہ تمہیں پیسوں کی ضرورت پڑ گئی ہے، اس لیے رقعہ لانے والے کو فوراً چیک بک دے دو۔“ پروفیسر نے انہیں گویا حکم دیا۔
”بہت اچھا۔ کاغذ دے دو۔ لکھے دیتا ہوں۔“
”میں کاغذ ساتھ ہی لایا ہوں۔“ پروفیسر ارسلان نے مسکرا کر کہا۔
انہوں نے کاغذ لیا اور بیگم کے نام خط لکھنے لگے۔ تحریر مکمل کر کے انہوں نے پروفیسر ارسلان کے سامنے کر دی۔ پروفیسر ارسلان تحریر پڑھنے لگا۔ انسپکٹر جمشید نے لکھا تھا۔
”یہ رقعہ میں تمہیں خان گڑھ سے بھیج رہا ہوں۔ پیسے ختم ہو گئے ہیں۔ چیک بک کی سخت ضرورت ہے۔ رقعہ لانے والے کے ہاتھ فوراً بھیج دو۔ میں اور بچے بالکل خیریت سے ہیں۔ ان کے بارے میں فکر کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ ہم جلد واپس آنے کی کوشش کریں گے۔“
(جمشید)
”ٹھیک ہے، اس کاغذ پر اپنا مکمل پتا بھی لکھ دو۔ اس نے ایک اور کاغذ دیتے ہوئے کہا۔
انسپکٹر جمشید نے کاغذ لیا اور پتا لکھ دیا، پھر بولے:
”ہماری کار کہاں ہے؟“
”کیوں، تم نے خاص طور پر کار کے متعلق کیوں پوچھا؟“ اس نے پوچھا۔
”بس یونہی۔ اس میں کھانے پینے کی بہت سی چیزیں موجود تھیں۔“ انسپکٹر جمشید نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”فکر نہ کرو۔ ہم نے تمام چیزیں اس میں سے نکال لی ہیں اور وہی چیزیں تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو کھانے کے لیے دیتے رہیں گے، لیکن تھوڑی تھوڑی چیزیں۔ کہیں تم لوگ بدہضمی کا شکار نہ ہو جاﺅ۔ پروفیسر ارسلان نے مسکرا کر کہا۔
”تم لوگ ہم سے چیک پر دستخط لینا چاہتے ہو۔“ انسپکٹر جمشید نے سرسری سے لہجے میں پوچھا۔
”ہاں تاکہ تمہاری ساری دولت حاصل کر سکیں۔“
”اس کے بعد تمہارا کیا پروگرام ہے؟“ انسپکٹر جمشید بہت ہی احتیاط سے سوال کر رہے تھے۔
”اس کے بعد تمہیں تمہاری کار میں بٹھا کر باعزت طور پر شہر روانہ کر دیا جائے گا۔“ پروفیسر ارسلان نے عجیب سے لہجے میں کہا۔ انسپکٹر جمشید چونکے بغیر نہ رہ سکے۔
”بہت بہت شکریہ۔ ہمیں دولت کی کوئی پروا نہیں۔ جو کچھ ہے، لے سکتے ہو۔ لیکن مجھے اور میرے ساتھیوں کو کھانے پینے کی تکلیف تو نہ ہونے دو۔“ انسپکٹر جمشید کا لہجہ درخواست کرنے کا تھا۔
”بے فکر رہو۔ اگر تم لوگوں نے ہماری ہدایات پر عمل کیا، تو تم لوگوں کو بالکل کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔“ اس نے جواب دیا۔
”ہم ایسا ہی کریں گے۔ ویسے پروفیسر ایک بات بتاﺅ گے؟“
”کیوں نہیں۔ ضرور پوچھو۔“
”بند مکان سے تم لوگ مجھے کس طرح نکال لائے۔ کیا اس کام کے لیے تم نے بیرونی دروازہ ہی استعمال کیا تھا؟“
”ہاں اور کس طرح نکالتے؟“
”اور اگر ہم اس وقت دروازے کے آس پاس چھپے ہوتے تو کیا ہوتا؟“
”ہم جانتے تھے۔ تم لوگ سو چکے ہو۔“
”آخر کیسے؟ تمہیں کیسے معلوم ہو گیا تھا کہ ہم سو گئے ہیں؟“
”لیکن تم یہ باتیں کیوں پوچھ رہے ہو۔ تمہیں اس سے کیا فائدہ ہو گا؟“
”بات فائدے اور نقصان کی نہیں۔ میں الجھن سی محسوس کر رہا ہوں کیا تم میری الجھن دور نہیں کر سکتے؟“
”ہوں، سنو۔ ہم اس مکان میں موجود نہ ہوتے ہوئے بھی موجود ہوتے ہیں۔ ہمیں لاکھ ڈھونڈو ہم مکان میں ہی ہوتے ہیں اور جس وقت جہاں چاہیں جا سکتے ہیں۔ وہ مکان لوگوں کے لیے ایک بھول بھلیاں ہو سکتا ہے، ہمارے لیے نہیں۔“
”اوہ۔“ انسپکٹر جمشید چونک اٹھے۔ “ تو کیا اس وقت بھی ہم مکان میں ہی موجود ہیں؟“
”بالکل!“ پروفیسر ارسلان مسکرایا۔
” میں چاہوں تو تمہیں یہاں سے تمہارے ساتھی دکھا سکتا ہوں۔“
”کیا؟“ انسپکٹر جمشید حیران رہ گئے۔
”ہاں“ کیا تم انہیں دیکھنا پسند کرو گے؟“
”نہیں‘ وہ سب پریشان ہوں گے۔ میں انہیں نہیں دیکھوں گا۔“ انسپکٹر جمشید نے جواب دیا پھر بولے:
”ایک بات اور پوچھوں پروفیسر۔“
”نہ جانے کیا بات ہے کہ میں نے تمہاری اتنی باتوں کے جوابات دے ڈالے ہیں۔ ورنہ میں تو سوال کرنے والے کا منہ نوچ لیا کرتا ہوں۔ خیر پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو؟“
انسپکٹر جمشید اس کی بات سُن کر دل ہی دل میں مسکرائے، کیوں کہ پروفیسر نے ٹھیک ہی کہا تھا۔ ان کا باتیں کرنے کا ایک خاص انداز تھا۔ اس انداز سے سخت سے سخت لوگ بھی متاثر ہوجاتے تھے۔ اس وقت پروفیسر ارسلان کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔
”سڑک پر ہمیں ایک گڈریا ملا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ تم یہاں خونی پروفیسر کے نام سے مشہور ہو اور تمہاری بیٹی تم سے بھی زیادہ خطر ناک ہے۔ وہ زہریلی ہے، کیا اس نے سچ کہا تھا؟“
”یہ ٹھیک ہے کہ میں ایک سائنسدان تھا۔“ لیکن پھر میں نے سائنس سے توبہ کرلی، کیوں کہ تجربات کے دوران ایک روز ایک آدمی مر گیا تھا۔ اس سے سائنس سے میرا دل اچاٹ ہوگیا۔ میں نے شہر چھوڑ دیا اور یہاں آگیا۔“
”یہ مکان تمہیں کیسے مل گیا؟“ انسپکٹر جمشید نے سوال کیا۔
”میں شکار کے لیے اکثر اس طرف آیا کرتا تھا۔ اس زمانے میں مَیں نے مکان دیکھا تھا۔ یہ بے آباد پڑا تھا۔ دراصل یہ ایک ہندو راجے نے بنوایا تھا وہ مسلمانوں کو پکڑ کر اس میں قید کردیتا تھا اور وہ اس میں سسک کر تڑپ تڑپ کر اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے تھے۔“
”وہ ایسا کیوں کرتا تھا؟“ انسپکٹر جمشید نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
”وہ مسلمانوں کا خاص دشمن تھا۔ انہیں موت کے گھاٹ اتار کر خوش ہوتا تھا۔“
”اوہ….“ انسپکٹر جمشید کے منہ سے نکلا۔
”پھر مسلمانوں نے بغاوت کرکے اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور اسے اس مکان میں قید کردیا۔ وہ بھی اسی طرح بھوکا پیاسا ایڑیاں رگڑ کر مر گیا۔ اس کے بعد سے یہ مکان بے آباد پڑا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اس میں مرنے والوں کی روحیں پھرتی رہتی ہیں۔ آخر میں نے اس پر قبضہ کرلیا۔“
”ہوں، تو یہ بات ہے۔ تم نے اپنی بیٹی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا پروفیسر؟“ انسپکٹر جمشید سوچ میں کھوئے ہوئے بولے۔
”میری بیٹی؟ اس کے بارے میں کیا معلوم کرنا چاہتے ہو؟“
”کیا وہ واقعی زہریلی ہے اور اگر یہ سچ ہے تو کیسے کوئی انسان زہریلا ہوسکتا ہے؟“
”میں نے یہ….“
پروفیسر کے الفاظ درمیان میں ہی رہ گئے۔ ایک آدمی چیختا چلاتا ہوا کمرے میں آگھسا تھا۔ وہ بے تحاشا ہانپ رہا تھا۔ شاید بھاگتا ہوا آیا تھا۔ پھر وہ چھلانگیں لگاتا ہوا پروفیسر کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔ وہ تھر تھر کانپ رہا تھا۔
”کیا مصیبت آگئی ہے راجہ….“
”وہ…. وہ…. بے بی….“
اس نے خوف زدہ لہجے میں ہکلا کر کہا۔
٭….٭….٭
ان سب کے ذہن سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ چہروں پر فکر اور پریشانی کے آثار تھے۔ اس قسم کے حالات سے پہلے کبھی ان کا واسطہ نہیں پڑا تھا۔ کچھ دیر تک انتظار کرنے کے بعد دروازے میں فرش کے ساتھ …. سے ایک کاغذ سرکایا گیا اور اس کے ساتھ ہی دو چیک بھی تھے۔ کاغذ پر لکھا تھا:
”ان خالی چیکوں پر دستخط کرو۔ تمہیں کھانا بھی ملے گا اور پانی بھی۔“
پروفیسر داو¿د اور خان عبدالرحمن حیران رہ گئے۔ انسپکٹر جمشید کا ایک ایک خیال درست ثابت ہورہا تھا۔ دونوں چیک ان کی چیک بکوں سے کاٹے گئے تھے۔ ان پر کوئی رقم نہیں لکھی گئی تھی جس کا مطلب تھا کہ رقم وہ خود لکھنا چاہتے تھے اور جس قدر جی چاہتا ”لکھ سکتے تھے، لیکن ان چیکوں پر دستخط کرنے کے سوا چارہ بھی نہیں تھا۔ پروفیسر داو¿د اور خان عبدالرحمن نے بے یقینی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور چیکوں پر دستخط کر دیے۔ جونہی انہوں نے چیک باہر سرکائے ایک آواز آئی:
”اپنے کمرے میں چلو۔ کھانا وہیں پہنچایا جائے گا ،لیکن اگر یہ دستخط جو تم نے کیے ہیں، غلط ہوئے تو پھر زندگی بھر یہیں سڑتے رہو گے۔“ یہ آواز انہیں جانی پہچانی سی لگی۔
”فکر نہ کرو، دستخط بالکل اصلی ہیں، کیوں کہ ہم خود بھی اصلی ہیں۔“ خان عبدالرحمن نے غرّا کر کہا۔
”خیر معلوم ہوجائے گا۔ اب تم لوگ اپنے کمرے میں پہنچ جاو¿۔“
”بہت اچھا…. ہم بھی کہے دیتے ہیں کہ اگر ہمیں کھانا نہ ملا تو آئندہ دستخط کریں گے۔
”یہ تو ہم بھی جانتے ہیں۔“ باہر سے شاید مسکرا کر کہا گیا۔
”اور ہاں….“ محمود جلدی سے بولا: ”ہمارے ایک ساتھی گم ہیں کیا وہ آپ لوگوں کے ساتھ ہیں؟“
”ہاں، بے فکر رہو…. وہ خیریت سے ہیں۔“ جواب ملا۔
”لیکن انہیں ہم سے الگ کیوں رکھا گیا ہے؟“
”ایک خاص ضرورت کے تحت ایسا کیا گیا ہے۔ کل تک وہ پھر آپ سے آملیں گے۔“
”آخر ہم نے تم لوگوں کا کیا بگاڑا ہے؟“ فاروق بولا۔
دراصل وہ اس آواز کو بار بار سننا چاہتے تھے، کیوں کہ تینوں کو یہ آواز جانی پہچانی سی لگ رہی تھی۔ وہ برابر ذہن پر زور دے رہے تھے کہ یہ آواز کہاں سنی ہے…. لیکن زبردست زور ڈالنے پر بھی انہیں ابھی تک یاد نہیں آسکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ بار بار اس سے سوال کررہے تھے۔
”فکر نہ کرو، بہت جلد تمہیں رہا کردیا جائے گا۔“ باہر سے آواز آئی۔
”وہ لڑکی کہاں ہے…. کیا وہ واقعی زہریلی ہے؟“ محمود نے پوچھا۔
”ہاں، وہ زہریلی ہے، تمہیں بہت جلد اس کا کمال دکھایا جائے گا۔“ باہر سے ہنس کر کہا گیا۔
”کیا وہ پروفیسر ارسلان کی بیٹی ہے؟“ فرزانہ نے جلدی سے پوچھا۔ اسے ڈر تھا کہ جواب دینے والا کہیں چلا نہ جائے۔
”ہاں، وہ پروفیسر کی بیٹی ہے۔“
”آخر تم لوگ چاہتے کیا ہو؟“ خان عبدالرحمن نے سوال کیا۔
”کیا ابھی تک یہ بات تم لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئی کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟“ باہر سے مذاق اڑانے والے لہجے میں کہا گیا ۔
”اس وقت تک تو صرف یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ تم لوگ دولت سمیٹنے کے لیے یہ سب کچھ کررہے ہو۔“
”بالکل ٹھیک سمجھے۔ دولت حاصل کرلینے کے بعد تمہیں چھوڑ دیا جائے گا۔“
”شکریہ دوست تم نے ہماری معلومات میں بہت اضافہ کیا ہے۔ اب ہم اجازت چاہتے ہیں کیوں کہ کل رات تک تو ہمارے پٹیوں میں چوہے دوڑتے رہے تھے، لیکن اب بلیاں کشتی لڑتی پھررہی ہیں اور اگر کچھ دیر اور یہاں رکے رہے تو ضرور کتوں کی لڑائی شروع ہوجائے گی۔“ فاروق بولتا چلا گیا۔ دوسرے بے ساختہ مسکرا رہے تھے۔
”تمہارے پیٹ ہیں یا چڑیا گھر؟“ باہر سے ہنس کر کہا گیا۔
”اگر ہم نے جلد از جلد کچھ نہ کھایا، تو یہ عجائب گھر میں بھی تبدیل ہوسکتے ہیں۔ کیا اب ہمیں اجازت ہے؟“ فاروق نے پوچھا۔
”ہاں، اب تم جاسکتے ہو۔“ باہر سے آواز آئی۔
اور وہ اپنے کمرے کی طرف چل پڑے۔
”آواز کتنی جانی پہچانی ہے، لیکن یاد نہیں آرہا کہ کہاں سنی ہے۔“
”میں خود، حیران ہوں۔ دل اور دماغ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں۔ یہ آواز کہیں سنی ہے، لیکن کہاں سُنی ہے، اس کے جواب میں دل بھی خاموش ہے اور دماغ بھی۔“ فاروق بولا۔
”خدا کا شکر ہے کہ تمہارا دل بھی خاموش ہے اور دماغ بھی۔ اگر زبان کے ساتھ کہیں یہ بھی بولنے لگ پڑتے تو شاید ہم سب کو اپنے کان اکھڑوانے پڑتے۔“ محمود نے کہا۔
اس کی بات پر سب مسکرانے لگے۔ جب سے انسپکٹر جمشید ان سے جدا ہوئے تھے، وہ خاموش ہوگئے تھے، نہ جانے کیوں محسوس ہونے لگا تھا کہ اب یہاں سے رہائی ناممکن نہیں رہی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ چہکنے بھی لگے تھے اور ایک دوسرے پر چوٹیں بھی کرنے لگے تھے۔ ورنہ پہلے تو انہیں سانپ ہی سونگھ گیا تھا۔
پھر جونہی وہ اپنے کمرے میں داخل ہوئے، یہ دیکھ کر حیرت زدہ ہوگئے کہ میز پر کھانا تیار رکھا تھا۔ وہ ندیدوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑے۔
٭….٭….٭
انسپکٹر جمشید نے بھاگ کر آنے والے اس آدمی راجہ کو حیرت بھری نظروں سے دیکھا۔ وہ اس طرح تھر تھر کانپ رہا تھا جیسے موت اس کے پیچھے ہو۔ اس کے منہ سے ابھی لفظ ”بے بی“ نکلا ہی تھا کہ پروفیسر کی بیٹی کمرے میں آگھسی اور بے تحاشا راجہ کی طرف لپکی۔
”پروفیسر، مجھے بچاو¿…. میں…. مرا۔“ وہ چلّایا۔
انسپکٹر جمشید نے چونک کر پروفیسر کی لڑکی کو دیکھا۔ اس کا چہرہ اس وقت تمتما رہا تھا۔ آنکھیں کبوتر کے خون کی طرح سُرخ ہورہی تھیں اور منہ سے نیلے رنگ کا جھاگ نکل رہا تھا۔ انسپکٹر جمشید اس جھاگ کو دیکھ کر کانپ اُٹھے۔ انہوں نے زہر کھا کر مرنے والے لوگوں کو اکثر دیکھا تھا۔ اس وقت اُن کے ہونٹوں سے جو جھاگ نکلتی ہے انہوں نے دیکھی تھی۔ اس جھاگ میں اور اس جھاگ میں کوئی فرق نہیں تھا، تو کیا اس لڑکی نے زہر کھا لیا ہے، مگر اُسے تو خود زہریلی لڑکی کہا جاتا ہے۔ انسپکٹر جمشید ان خیالات سے اس وقت چونکے جب لڑکی راجہ پر چھلانگ لگا چکی تھی۔ راجہ کے منہ سے ایک چیخ نکلی اور وہ دیوار سے جالگا۔ لڑکی نے دوسری چھلانگ لگائی اور راجہ کا بازو اس کے قابو میں آگیا۔ فوراً ہی اس نے منہ جھکایا اور راجہ کی کلائی پر دانت جمانے کی کوشش کی۔ راجہ کے منہ سے ایک اور دل خراش چیخ نکلی۔ ساتھ ہی اس نے اپنی کلائی کو بچانے کے لیے اپنا دوسرا ہاتھ لڑکی کی ٹھوڑی کے نیچے جما دیا۔ اب وہ اپنے ہاتھ سے اوپر کی طرف زور لگا رہا تھا اور لڑکی کلائی پر کاٹنے کے لیے اپنا منہ نیچے جھکانے کے لیے زور لگا رہی تھی اور یہ سب کچھ چند سیکنڈ کے اندر اندر ہوگیا تھا۔ نہ پروفیسر ارسلان کچھ کرسکا تھا اور نہ اس کے باڈی گارڈ جن کے ہاتھوں میں پستول تھے اور جن کے ساتھ وہ کمرے میں آیا تھا۔ انسپکٹر جمشید نے موقع سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں سوچا، لیکن دونوں محافظوں کے پستول تو اب بھی انہی کی طرف اٹھے ہوئے تھے۔ لڑکی اور راجہ کی زور آزمائی کو تو وہ اس طرح بے پروائی سے دیکھ رہے تھے جیسے وہ کوئی دل چسپ کھیل کھیل رہے ہوں۔
پھر جیسے پروفیسر ارسلان کو ہوش آگیا۔ وہ بارعب آواز میں بولا:
”نسرین“ یہ کیا ہورہا ہے؟ راجہ میرا خاص آدمی ہے۔“
”لیکن بابا، اس نے میرے سالن میں مرچیں ڈال دی ہیں۔ میں آج اسے کاٹ کر رہوں گی۔“
”اچھا، یہ بات ہے…. لو میری کلائی پر کاٹ لو۔“ پروفیسر ارسلان نے اپنی کلائی اس کے منہ کے قریب کردی۔
”بابا، تم ہمیشہ درمیان میں آکر اپنے آدمیوں کو بچالیتے ہو۔ یہ بھی تو سوچو، مجھے شکار کبھی کبھار ملتا ہے۔ روز نہیں ملتا جب کہ میں روز ایک آدمی کو کاٹنا چاہتی ہوں اور تمہارے بازو پر کاٹ کر کیا ہوگا، تم کون سا مر جاو¿ گے۔ ارے نا، میں اسے کیوں نہ کاٹ لوں۔“ اچانک نسرین کی نظر انسپکٹر جمشید پر اٹک گئی۔
”ابھی نہیں بیٹی، ابھی تو ہم نے اس سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا۔ ابھی تو اس کے گھر سے اس کی چیک بک منگوائی جائے گی، پھراس پر اس کے دستخط لیے جائیں گے۔ اس کے بعد تمہیں میری طرف سے اجازت ہوگی۔“ پروفیسر کے لہجے میں پتھروں جیسی سختی آگئی۔
انسپکٹر جمشید بھی یہ الفاظ سُن کر چونک اُٹھے۔ ابھی ابھی یہ شخص کیا کہہ رہا تھا اور لہجہ کتنا نرم تھا، لیکن اب وہ ان کے انجام کا ذکراس طرح کررہاتھا جیسے کسی آدمی کی موت نہیں کسی جانور کی موت کا حکم دے رہا ہو۔ دوسری طرف راجہ اور نسرین میں زور آزمائی جاری تھی۔ ابھی تک نسرین نے پروفیسر ارسلان کے کہنے کے باوجود راجہ کو نہیں چھوڑا تھا اور لمحہ بہ لمحہ اس کا منہ راجہ کی کلائی سے نزدیک ہوتا جارہا تھا۔ وہ راجہ سے زیادہ طاقت ور ثابت ہورہی تھی۔
”چھوڑ دو بیٹی، اسے چھوڑ دو اور میری کلائی پر کاٹ لو۔“
”اونہہ…. یہ لیجیے۔“ اس نے منہ بنا کر راجہ کو چھوڑ دیا اور پروفیسر کی کلائی پر دانت جما دیے۔
انسپکٹر جمشید لرز کر رہ گئے۔ اس وقت نسرین کا چہرہ اس قدر خوف ناک ہوگیا تھا کہ اس کی طرف دیکھا نہیں جارہا تھا۔ وہ ایک ڈائن نظر آرہی تھی۔ دوسری طرف پروفیسر کی آنکھیں بند ہوچکی تھیں اور وہ یوں جھوم رہا تھا جیسے اب گرا کہ اب گرا۔ اس کے باوجود کسی نے اسے تھامنے کی کوشش نہ کی۔ دونوں محافظ بدستور انسپکٹر جمشید کی طرف پستول تانے کھڑے رہے۔ راجہ تو نسرین کے ہاتھ سے نکلتے ہی کمرے کے ایک کونے میں دبک گیا تھا۔
آخر نسرین نے اپنے دانت پروفیسر کی کلائی پر سے ہٹالیے۔ پروفیسر لڑکھڑاتا ہوا اندھوں کی طرح ایک کرسی ٹٹول کر اس پر بیٹھ گیا۔ نسرین بھی اب پرسکون ہوگئی تھی۔ اس کا چہرہ اب پھر خوب صورت ہوگیا تھا! ایسے میں اس کی نظر راجہ پر پڑ گئی جو ابھی تک بھیگی بلّی بنا کونے میں دبکا ہوا تھا۔
”ادھر آو¿۔“ نسرین نے نرم آواز میں کہا۔
”جی فرمائیے۔“ اس نے وہیں سے کہا۔
”میں کہتی ہوں، یہاں آو¿۔ اب میں کچھ نہیں کہوں گی۔ بابا کو کاٹ چکی ہوں۔“
راجہ ڈرتا ڈرتا قریب آگیا۔
”اب کبھی میرے سالن میں مرچیں نہ ڈالنا۔“
”جی اچھا۔ میں بھول گیا تھا۔“ اس نے روتی صورت بنا کر کہا۔
”اب کبھی نہ بھولنا۔“
”نہیں بھولوں گا بے بی۔“
”یہ تم ہر وقت سر پر ٹوپی کیوں پہنے رہتے ہو۔“ نسرین نے پوچھا۔
”پروفیسر کا حکم ہے کہ ہم سب ہر وقت ٹوپی پہن کر رکھیں۔“
”اچھا جاو¿، اب خیال رکھنا۔ آج تو تمہیں بابا نے بچا لیا، ورنہ اس وقت تمہاری لاش پانی بن چکی ہوتی۔“
”شش…. شکریہ بے بی۔“
راجہ نے کہا اور جانے کے لیے مڑا، لیکن پھر دھڑام سے اوندھے منہ فرش پر گرا۔ نسرین نے اس کے ساتھ شرارت کی تھی۔ جونہی اس نے قدم اٹھائے تھے ایک ٹانگ اس کی ٹانگوں میں اڑا دی تھی۔ راجہ کے گرتے ہی اس کے سر سے ٹوپی بھی اتر گئی اور انسپکٹر جمشید کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ ان کی آنکھیں حیرت کے مارے باہر کو اُبل آئیں، لیکن ان کی طرف کسی کی توجہ نہیں تھی۔
٭….٭….٭
انسپکٹر جمشید کے گھر کے دروازے کی گھنٹی بجی۔ بیگم جمشید بیگم شیرازی کے ساتھ بیٹھی شام کی چائے پی رہی تھیں۔ انسپکٹر جمشید بچوں سمیت دو دن پہلے خان گڑھ جاچکے تھے۔ اس لیے یا تو وہ بیگم شیرازی کے ہاں چلی جاتی تھیں یا وہ ان کے ہاں آجاتی تھیں۔ اس طرح دونوں کاوقت اچھاگزر جاتا تھا۔
”یہ کون آگیا؟“ بیگم جمشید چونکیں۔
”کہیں بھائی جان تو واپس نہیں آگئے۔“ بیگم شیرازی نے خیال ظاہر کیا۔
”نہیں، وہ تو نہیں ہوسکتے۔ پندرہ دن کے لیے گئے ہیں۔ خیر میں دیکھتی ہوں جاکر۔“
بیگم جمشید دروازے پر آئیں۔ انہوں نے دروازہ کھولا۔ وہاں ایک نوجوان آدمی کھڑا پلکیں جھپکا رہا تھا۔
”فرمائیے۔“ بیگم جمشید حیران ہو کر بولیں۔
”جمشید صاحب یہیں رہتے ہیں؟“ اس نے پوچھا۔
”جی….“ بیگم جمشید حیرت زدہ رہ گئیں کیوں کہ آج تک جتنے لوگ بھی انسپکٹر جمشید سے ملنے آئے تھے۔ انہوں نے کبھی یہ نہیں پوچھا تھا کہ جمشید صاحب یہیں رہتے ہیں بلکہ ہر کوئی یہی پوچھتا تھا کہ انسپکٹر جمشید یہیں رہتے ہیں۔ یہ ان کی زندگی میں پہلا موقع تھا۔
”آپ نے صاف جواب نہیں دیا۔ صرف جی کہا ہے۔“ ملاقاتی نے حیران ہوکر کہا۔
”جی ہاں، یہیں رہتے ہیں۔“
”آپ ان کی بیوی ہیں؟“ اُس نے پوچھا۔
”یہ بھی ٹھیک ہے۔“ بیگم جمشید اب بھی حیران تھیں۔
”تب…. آپ کے لیے یہ رقعہ ہے۔“
اس نے کہا اور رقعہ ان کی طرف بڑھا دیا۔ بیگم جمشید نے رقعہ لے کر پڑھا۔ وہ سوچ میں ڈوب گئیں۔ آخر بولیں:
”چیک بک تلاش کرنے میں شاید کچھ دیر لگ جائے۔ اس لیے آپ اندر تشریف رکھیں۔“
”اچھی بات ہے۔“ اُس نے کہا۔
وہ اُسے ڈرائنگ روم میں لے آئیں۔ جب وہ اندر جا کر بیٹھ گیا، تو واپس بیگم شیرازی کے پاس آئیں۔
”کیا بات ہے، کون ہے یہ؟“
”آپ کے بھائی جان نے انہیں بھیجا ہے۔ انہوں نے چیک بک منگوائی ہے۔“ یہ کہتے وقت انہوں نے بیگم شیرازی کو خاموش رہنے اور اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔
وہ انہیں لے کر اپنے کمرے میں آئیں۔
”خطرہ….“
”خطرہ؟ کیا مطلب؟“
”وہ اور بچّے مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔“
”میں کچھ سمجھی نہیں، آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟“ بیگم شیرازی نے حیران ہوکر کہا:
”بیگم جمشید نے رقعہ ان کے ہاتھ میں تھما دیا۔ انہوں نے اسے جلدی جلدی پڑھا اور حیران ہوکر بولیں:
”اس رقعے سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ وہ مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔“
”یہ بات دو طرح ثابت ہوتی ہے۔ ایک تو اس طرح کہ آنے والا ان کی اصل حیثیت سے واقف نہیں۔ اس نے آکر پوچھا تھا جمشید صاحب یہیں رہتے ہیں۔ دوسرے اس رقعے کے الفاظ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ وہ مصیبت میں ہیں اور یہ رقعہ انہوں نے خود نہیں لکھا بلکہ لکھوایا گیا ہے۔“
”آخر کیسے، رقعے کے الفاظ تو بالکل سیدھے سادھے ہیں۔“ بیگم شیرازی کا مارے حیرت کے برُا حال تھا۔
”سُنیے، پہلی بات تو انہوں نے یہ لکھی ہے کہ پیسے ختم ہوگئے ہیں، جب کہ یہ بالکل غلط ہے۔ ایک تو یہ کہ سفر پر جاتے وقت وہ ہر طرح انتظام کرکے جاتے ہیں اور دوسرے یہ کہ خان عبدالرحمن اور پروفیسر داو¿د ان کے ساتھ گئے ہیں۔ دونوں بہت دولت مند ہیں اور نقدی اور چیک بکیں ساتھ لے کر گئے ہیں۔ اِن حالات میں ان کا چیک بک کے لیے کسی کو بھیجنا بہت عجیب لگتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ہم جلد واپس آنے کی کوشش کریں گے۔ جب کہ یہاں سے چلتے وقت انہوں نے صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ پندرہ دن بعد واپس آئیں گے۔ ان حالات میں میں یقین سے کہہ سکتی ہیں کہ وہ مصیبت میں پھنس چکے ہیں بلکہ کچھ مجرموں کے قبضے میں ہیں جنہوں نے ان سے یہ رقعہ لکھوایا ہے۔“
”پھر اب آپ کیا کریں گی؟“ بیگم شیرازی نے گھبرا کر پوچھا۔
”میں ابھی آتی ہوں، آپ یہیں ٹھہریں۔ آپ کے گھر کا دروازہ کھلا ہے نا؟“
”ہاں، کیا فون کرنے کا ارادہ ہے؟“ بیگم شیرازی نے کہا۔
”ہاں، یہی کرنا ہوگا، لیکن پہلے میں اسے تسلی دوں گی۔“
انہوں نے کہا اور ڈرائنگ روم میں آئیں۔
”معاف کیجیے گا۔“ چیک بک مل نہیں رہی۔ خیال ہے کہ وہ ان کی میز کی دراز میں ہوگی، لیکن دراز کو تالا لگا ہوا ہے اور اس کی چابی وہ ساتھ لے گئے ہیں۔“
”پھر…. اب کیا کیا جائے؟“
”میں ساتھ والے گھر سے کچھ چابیاں لاتی ہوں، اگر ان سے بھی نہ کھلا تو تالا توڑ دوں گی۔“
”اچھی بات ہے۔“
بیگم جمشید اپنے گھر سے نکل کر تیز تیز چلتی ہوئیں بیگم شیرازی کے ڈرائنگ روم میں آئیں اور لرزتے ہاتھوں سے سب انسپکٹر اکرام کو فون کرنے لگیں۔ سلسلہ فوراً ہی مل گیا۔“
”ہیلو، کون صاحب؟“ دوسری طرف سے پوچھا گیا۔
”اکرام صاحب آپ ہی ہیں نا؟“ بیگم جمشید نے پوچھا۔
”اوہ بھابی آپ…. کیسے…. خیریت تو ہے؟“
”خیریت نہیں ہے۔ تمہارے افسر خطرے میں ہیں۔ ایک شخص ان کی چیک بک لینے کے لیے یہاں آیا ہے۔ آپ کو اس کا پیچھا کرنا ہے۔ آپ کتنی دیر میں یہاں پہنچ جائیں گے۔ میرا مطلب ہے، میں اسے کتنے منٹ تک روکے رکھوں؟“
”صرف دس منٹ تک اور اس کے بعد اسے چیک بک دے کر رخصت کر دیں۔“ اکرام نے بوکھلا کر کہا۔
”اچھی بات ہے۔“ بیگم جمشید نے کہا اور ریسیور رکھ دیا۔ کچھ دیر تک وہیں کھڑی رہیں، پھر اپنی جیب سے چابیوں کا ایک گچھا نکال کر اسے ہاتھ میں جھلاتی ہوئی آہستہ آہستہ اپنے گھر کی طرف چل پڑیں۔ گھر میں داخل ہونے کے بعد وہ ڈرائنگ روم کے پاس سے گزریں تو دروازے پر رک کر بولیں:
”کچھ چابیاں ملی تو ہیں۔ ان سے کوشش کرتی ہوں۔“
”جی اچھا۔“ اس نوجوان نے کہا اور بیگم جمشید آگے بڑھ گئیں۔
اندر آکر انہوں نے بیگم شیرازی کو آنکھوںہی آنکھوں میں بتایا کہ فون کر دیا ہے۔ اس کے بعد دونوں اطمینان سے ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ گئیں۔ ٹھیک نو منٹ گزرنے کے بعد وہ اٹھیں اور ایک الماری کھول کر اس میں سے چیک بک نکالی۔
”دس منٹ ہونے والے ہیں۔ اب میں چیک بک جاکر دے دیتی ہیں۔“
”کہیں اکرام کو دیر نہ ہوگئی ہو۔ کچھ دیر اور رک جائیں۔“
”کہیں اسے شک نہ ہو جائے اور وہ بھاگ جائے۔ اس طرح میں ان کے سامنے ہمیشہ شرمندہ رہوں گی۔“ بیگم جمشید نے بھرائی ہوئی آواز میں ہیں۔
”اچھی بات ہے، تو پھر اللہ کا نام لے کر دے آئیں۔ آگے اکرام کی ذمہ داری شروع ہوجاتی ہے۔“
”ہاں، ویسے بھی اب دس منٹ سے کچھ سیکنڈ زیادہ ہوچکے ہیں۔“
”ٹھیک ہے۔“
بیگم جمشید چیک بک ہاتھ میں جھلاتی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں اور اسے دیتے ہوئے بولیں:
”خدا کا شکر ہے کہ دراز کھل گئی۔“
”شکریہ۔“
”جمشید صاحب سے میرا سلام کہیے گا۔“
”جی اچھا۔“ اس نے کہا اور کمرے سے نکل کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
”بچے ٹھیک ٹھاک تھے نا؟“ بیگم جمشید نے پیچھے سے پوچھا تاکہ ایک دو سیکنڈ کی اور دیر ہوجائے۔
”جی ہاں، وہ بالکل ٹھیک ہیں۔“ اس نے مڑ کر کہا اور پھر باہر نکل گیا۔
بیگم جمشید تیزی سے آگے بڑھیں اور دروازے میں تھوڑی سی جھری رکھ کر باہر دیکھنے لگیں۔ وہ ایک کار میں بیٹھ رہا تھا۔ ان کے دیکھتے دیکھتے کار روانہ ہوئی اور سٹرک کی طرف چل پڑی۔ بیگم جمشید دعا کررہی تھیں اکرام سڑک پر پہنچ چکا ہو۔
٭….٭….٭
”یار بہت چالاک لوگ ہیں یہ۔“ فاروق نے جلدی جلدی منہ مارتے ہوئے کہا۔
”کیا مطلب؟“ محمود چونکا۔
”مطلب یہ کہ ہماری ہی لائی ہوئی چیزیں ہمیں کھلا رہے ہیں۔“ فاروق نے مسکرا کر کہا۔
”ہاں، یہ تو ہے۔ نہ جانے ابا جان کو بھی کچھ کھانے کو ملا ہو گا یا نہیں۔“ اچانک فرزانہ نے کہا اور ان کے تیزی سے چلتے ہوئے ہاتھ رک گئے۔
”واقعی ہمیں یہ تو خیال ہی نہیں آیا اور کھانے پر ٹوٹ پڑے۔“ محمود بولا۔
تینوں نے کھانا بند کر دیا تھا۔ اس لیے خان عبدالرحمن، پروفیسر داﺅد اور شائستہ نے بھی ہاتھ روک لیے۔
”بھئی سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے یقین ہے، مجرموں نے ہمارے ساتھ انہیں بھی کھانا دیا ہو گا۔ اس لیے ہمیں پیٹ بھر لینے چاہئیں۔ نہ جانے پھر کب کھانا ملے۔ اگر تم تینوں نہیں کھاﺅ گے تو ہم بھی نہیں کھائیں گے۔“ خان عبدالرحمن بولے۔
”اچھا، اگر آپ کی یہی مرضی ہے تو کھا لیتے ہیں۔“ فرزانہ نے غمگین آواز میں کہا۔
اور وہ ایک بار پھر کھانے لگے، مگر اب پہلے کی طرح تیزی سے ہاتھ نہیں چلا رہے تھے۔
”یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ لوگ جمشید کو کیوں یہاں سے لے گئے ہیں۔“
”میرا خیال ہے کہ میری سمجھ میں یہ بات آگئی ہے۔“ محمود بولا۔
”تو بتاﺅ نا، کیوں لے گئے ہیں؟“ پروفیسر داﺅد جلدی سے بولے۔
”کیا خیال ہے فاروق، کیا تم کوئی خیال ظاہر کر سکتے ہو؟“ محمود نے شریر لہجے میں کہا۔
”بھائی، اس بند مکان میں کیا خیال ظاہر کروں گا۔ اپنی تو عقل ہی ماری گئی ہے۔“
”اور فرزانہ تم کیا کہتی ہو؟“
”بس تم ہی تیر مار لو۔ میں تو لمحہ بہ لمحہ مایوس ہوتی جا رہی ہوں۔“ فرزانہ بولی۔
اللہ تم پر اپنا رحم فرمائے کیوں کہ مایوسی گناہ ہے۔“ محمود نے کہا۔
”او گناہ کے بچے، تم نے بتایا نہیں کہ وہ لوگ جمشید کو ساتھ کیوں لے گئے ہیں!“ خان عبدالرحمن جھلا اٹھے۔
”انہیں کار میں سے صرف دو چیک بکیں ملی ہیں، تیسری نہیں ملی۔ کیوں کہ ابا جان ساتھ نہیں لائے تھے اس لیے وہ ابا جان کو ساتھ لے گئے۔ اب وہ ان سے رقعہ لکھوائیں گے اور گھر سے چیک بک منگوائیں گے، لیکن۔“ محمود مسکرا کر خاموش ہو گیا۔
”لیکن کیا؟“ خان عبدالرحمن نے پوچھا۔
”انہیں کیا معلوم کہ ہماری چیک بک حاصل کرنے کے بعد وہ کوئی لمبی رقم حاصل نہیں کر سکیں گے۔“
”ہوں، میرا خیال ہے محمود ٹھیک نتیجے پر پہنچا ہے۔“ پروفیسر بولے۔
”ویسے رہے گا یہ بھی لطیفہ ہی۔ وہ جمشید سے چیک پر دستخط کرائیں گے اور رقم اپنی مرضی سے لکھیں گے۔ ظاہر ہے، وہ بڑی رقم ہو گی۔ اس لیے چیک کیش نہیں ہو گا۔“ خان عبدالرحمن بولے۔
”ہاں، کیوں کہ بڑی رقم ہمارے حساب میں ہو ہی نہیں سکتی۔“ فرزانہ بولی۔
”کمال کا منصوبہ بنایا ہے ان لوگوں نے۔“ فاروق بولا۔
”سب تمہاری طرح بے وقوف تو نہیں ہوتے۔“ محمود نے چوٹ کی مگر فاروق نے اس کے جملے کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا تھا۔
”کہاں کھو گئے؟“ اس نے کہا۔
”کوئی بات میرے دماغ میں کھلبلی مچا رہی ہے۔“ فاروق کھوئے کھوئے لہجے میں بولا۔
”لو بھئی فرزانہ، یہ تو گیا کام سے۔ اس کے دماغ میں تو مچنے لگی کھلبلی۔“ محمود مسکرایا۔
”پہلے یہ تو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کیا بات ہے؟“
”وہ بات یہ ہے کہ ہم تو دروازے پر کھڑے تھے۔ پھر یہ کھانا کمرے میں کیسے آگیا؟“
”اوہ۔ ارے۔“ ان سب کے منہ سے حیرت کی زیادتی سے نکلا۔ واقعی اس پہلو پر تو کسی کا دھیان گیا ہی نہیں تھا۔
”اور اب تو میں یہ سوچنے پر بھی مجبور ہوں کہ کیا ابان جان بھی گھر کے اندر ہی اندر کہیں غائب کیے گئے ہیں۔“
”یہ ہو سکتا ہے۔ خدا کی قسم ہو سکتا ہے۔“ خان عبدالرحمن پرجوش انداز میں بولے۔
”تو…. تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ اس گھر میں کوئی اور راستہ بھی موجود ہے۔“
”اُف خدا، ضرور یہی بات ہے۔“
”میں حیران ہوں کہ پہلے ہمارا دھیان اس طرف کیوں نہ گیا۔ اب یاد آرہا ہے، جب ہم اس کمرے میں آئے تھے تو پروفیسر اور اس کے ساتھی اسی وقت غائب ہو گئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بیرونی دروازے سے باہر نہیں نکلے تھے۔ کسی اور ہی راستے سے غائب ہوئے تھے۔“
”لیکن دروازہ تو باہر سے بند تھا۔“ پروفیسر داﺅد نے اعتراض کیا۔
”وہ انہوں نے پہلے ہی بند کر دیا ہو گا۔“
”تو پھر۔ اب ہم کیا کریں؟“
”کریں گے کیا۔ وہ راستہ تلاش کریں گے۔“
محمود نے کہا اور اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ فاروق اور فرزانہ نے بھی اٹھنے میں دیر نہ لگائی۔
٭….٭….٭
پروفیسر ارسلان نسرین اور محافظوں کو کمرے سے گئے کافی دیر ہو چکی تھی، لیکن انسپکٹر جمشید ابھی تک گہری سوچ میں غرق تھے۔ انہوں نے ایک ایسی چیز دیکھی تھی کہ اس کیس کی پوری کی پوری نوعیت ہی بدل گئی تھی۔ حالات کی بالکل کایا پلٹ ہو گئی تھی۔ جوں جوں وہ سوچتے جا رہے تھے، ان کی حیرت لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی۔ ابھی تک انہوں نے کھانے کو بھی ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ آخر پروفیسر ارسلان ایک بار پھر کمرے میں داخل ہوا۔ محافظ اب بھی اس کے ساتھ تھے۔
”تمہارے ساتھیوں کو کھانا دیا جا چکا ہے، کیوں کہ انہوں نے چیک بکس پر دستخط کر دیے ہیں۔ اب تم بھی کھانا کھا لو۔ نسرین کے آنے کے بعد میں اپنے الفاظ پر قابو نہ رکھ سکا۔ اب تم جان ہی چکے ہو گے کہ تم لوگوں کا کیا انجام ہو گا۔ تمہیں باندھ دیا جائے گا۔ نسرین موت کا ناچ ناچے گی اور ناچ کے دوران تم میں سے ایک ایک کی کلائی پر کاٹے گی اور تم پانی بن جاﺅ گے۔ وہ اتنی ہی زہریلی ہے۔“
لیکن تم پانی کیوں نہیں بنے۔ اس نے تمہاری کلائی پر بھی تو کاٹا تھا۔“ انسپکٹر جمشید نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔
”میری بات اور ہے۔ میں نے نسرین کو خود ہی تو زہریلا بنایا ہے۔ اگر میں یہ کام کر سکتا ہوں تو خود کو اس کے زہر سے محفوظ رکھنے کا طریقہ بھی تو اختیار کر سکتا ہوں۔ کیوں کیا خیال ہے؟“
”بات تو ٹھیک ہے۔ تم مجھے ڈرانے آئے ہو یا سچ مچ ہمدردی جتانے۔“
”کچھ نہیں۔ دراصل لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا جائے، ان میں کچھ جان بھی ہو تاکہ وہ کچھ تڑپ سکیں، مچل سکیں، چیخ چلا سکیں جو لوگ پہلے ہی بھوک سے بے ہوش ہوں گے وہ تو چپ چاپ مر جائیں گے۔“
”بہت خوب اور یہ سب تم صرف اس لیے کرتے ہو کہ یہاں سے کوئی واپس جا کر پولیس کی اطلاع نہ کردے۔“
”یہی سمجھ لو۔“ اس نے مسکرا کر کہا۔
”میں نے تم سے زیادہ پتھر دل انسان آج تک نہیں دیکھا۔“ انسپکٹر جمشید نے اسے خونخوار نظروں سے گھور کر کہا۔
”اور نہ دیکھو گے۔ کیوں کہ تم بھی چند دنوں کے مہمان ہو۔“
”اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ابھی میری کتنی زندگی باقی ہے۔“
”میں بھی جانتا ہوں۔“ وہ مسکرایا۔
”ہو سکتا ہے، تم غلط جانتے ہو۔“
”بکو مت، میرے غصے کو آواز نہ دو۔ کہیں ایسا نہ ہو، میں وقت سے پہلے ہی تمہیں نسرین کے حوالے کر دوں۔“
”کیا تم نہیں جانتے کہ ایک دن تم بھی مر جاﺅ گے۔“ انسپکٹر جمشید نے نفرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”لیکن تم جیسے بہت سوں کو مار کر مروں گا۔“
”تمہارا انجام بہت بھیانک ہو گا۔“ انسپکٹر جمشید چلائے۔
”چلانے کی ضرورت نہیں۔ کھانا کھانا ہے تو کھا لو۔ آدھ گھنٹے بعد میرا کوئی آدمی آئے گا اور برتن اٹھا کر لے جائے گا۔“ اس نے کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔
اس مرتبہ کمرے کا دروازہ بند نہیں کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے جب ارسلان گیا تھا تو محافظوں نے کمرے کا دروازہ بند کر دیا تھا۔ انہوں نے دروازے پر آکر دیکھا دونوں محافظ باہر موجود تھے اور بالکل چوکس تھے۔ گویا اب وہ اس کمرے میں قید کیے جا چکے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ پروفیسر ارسلان کا آدمی ان کا رقعہ لے کر جا چکا ہو گا۔ انہیں امید تھی کہ ان کی بیگم خطرے کو بھانپ لے گی اور مدد ضرور پہنچے گی مگر تب تک ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنا کسی طرح بھی مناسب نہیں تھا۔ انہیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی چاہیے تھا۔ کچھ کرنے کے لیے ضروری تھا کہ انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دشمنوں کی کل تعداد کیا ہے؟ مکان کی پوزیشن کیا ہے؟ باہر نکلنے کا راستہ کون سا ہے، لیکن ان میں سے انہیں کوئی بات بھی معلوم نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ابھی تک انہوں نے ہاتھوں پیروں کو تکلیف نہیں دی تھی۔ اس وقت تک اگر انہیں اطمینان تھا، تو صرف ایک یہ کہ ان کے ساتھیوں کو کھانا مل چکا ہے۔ اچانک انہیں خیال آیا، وہ بہت بھوکے ہیں اور چند منٹ بعد کھانے کی ٹرے اٹھانے والے بھی آنے والے ہیں، لہٰذا وہ ٹرے پر جھک گئے۔ کچھ کرنے کے لیے کھانا بہت ضروری تھا۔ کھائے پیے بغیر وہ کسی کی کیا اپنی بھی مدد نہیں کر سکتے تھے۔
کھانا کھانے کے بعد انہیں نیند آگئی۔ ان کی آنکھ اس وقت کھلی جب پروفیسر ارسلان نے آکر انہیں شانے سے پکڑ کر ہلایا۔
”ہیلو پروفیسر، خیر تو ہے۔ جگانے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟“
”یہ تمہاری چیک بک آگئی ہے۔ ایک چیک پر دستخط کر دو۔“ پروفیسر نے مسکرا کر کہا۔
”بہت خوب، بڑی تیزی سے کام کرتے ہو تم لوگ۔ لاﺅ میں دستخط کر دیتا ہوں۔“ انہوں نے کہا اور چیک اس کے ہاتھ سے لے کر اس پر دستخط کر دیے۔ چیک پر رقم نہیں لکھی ہوئی تھی۔ یہ دیکھ کر وہ مسکرا دیے۔
”اب مجھے میرے ساتھیوں کے پاس پہنچا دو۔“
”انہیں ہی کیوں نہ تمہارے پاس پہنچا دیا جائے۔“ پروفیسر ارسلان ہنسا۔
”کیا مطلب؟“ انسپکٹر جمشید چونکے۔
”مطلب یہ کہ اب ہمارا مطلب تو حل ہو ہی چکا ہے۔ کل چیک کیش کرا لیے جائیں گے۔ تم تینوں کے حساب میں چند روپے رہ جائیں گے۔ باقی ہم نکلوا لیں گے۔“
”لیکن تمہیں یہ کیسے معلوم ہو گا کہ بینک میں ہمارے حساب میں کتنی کتنی رقم ہے؟“
”جب ہم بینک والوں کو سادہ چیک دکھائیں گے جس پر تم لوگوں کے دستخط ہوں گے تو وہ رقم بتانے سے انکار نہیں کریں گے۔ ہم اپنی مرضی سے رقم لکھیں گے اور چیک کیش کرا لیں گے۔“
”اوہ۔“ انسپکٹر جمشید حیرت زدہ رہ گئے۔
”لیکن تم لوگوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ جب تم زندہ ہی نہیں رہو گے تو دولت کا کیا کرو گے؟“ پروفیسر کے چہرے پر شیطانوں والی مسکراہٹ تھی۔
”خیر، تم مجھے میرے ساتھیوں کے پاس پہنچا دو یا انہیں میرے پاس، بات ایک ہی ہے۔“
”آج تو تم الگ الگ ہی رہو گے۔ کل تمہیں ایک جگہ کر دیا جائے گا۔“
”تم چیک کیش ہونے کے بعد ہمیں اپنی بیٹی کے حوالے کرو گے یا اس سے پہلے۔“
”کیوں، تم نے یہ کیوں پوچھا؟“
”بس یونہی۔ کیا تم اس سوال کا جواب دینا پسند نہیں کرتے؟“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”نہیں، ایسی تو کوئی بات نہیں۔ ہمارا اصول ہے، چیک کیش کرانے کے بعد ہی جشن منایا جاتا ہے۔“
”جشن؟“ انسپکٹر جمشید کے منہ سے حیرت زدہ آواز نکلی۔
”ہاں، اسے باقاعدہ جشن کی شکل دی جاتی ہے۔“
”اس کا مطلب ہے، ابھی ہماری زندگی کے کم از کم دو دن باقی ہیں۔“
”دو کیوں، کل چیک کیش ہو جائیں گے تو کل رات ہی جشن ہو گا۔“
”لیکن کل تو اتوار ہے، بینک بند رہیں گے۔“ انسپکٹر جمشید نے مسکرا کر کہا۔
”اوہ۔“ پروفیسر ارسلان کے منہ سے نکلا۔
”کیوں کیا ہوا، تم چونکے کیوں؟“ انہوں نے حیران ہو کر پوچھا۔
”پیر کے روز کو ہم منحوس سمجھتے ہیں۔ اس روزجشن نہیں منایا جاتا۔“
”یہ خدا کی قدرت ہے۔ اس کا مطلب ہے۔ ہمیں ایک دن اور مل گیا۔“
”ہاں، اب منگل کو جشن ہو گا۔“
”یعنی ہماری زندگی اور موت کا فیصلہ ہو گا۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”صرف موت کا۔ زندگی کا اور اس روز کیا سوال؟“
”اوہ ہاں۔ واقعی تمہارے ہاں زندگی کا کیا سوال۔“ انسپکٹر جمشید نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
عین اسی وقت ایک آدمی بوکھلایا ہوا اندر داخل ہوا۔ اس نے گھبرا کر کہا۔
”پروفیسر۔ خطرہ۔ شیرخان کسی کو اپنے پیچھے لگا لایا ہے۔ وہ لوگ مکان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔“
”کیا مطلب؟ شیر خان کس طرح پیچھے لگا لایا ہے۔“ پروفیسر ارسلان نے جھلا کر کہا۔
”جی، وہ چیک بک لینے شہر گیا تھا نا، کوئی اس کا پیچھا کرتا ہوا یہاں تک پہنچ گیا ہے۔“
”ہوں تو کیا ہوا۔ ان لوگوں کو گھیرنا کیا مشکل ہے۔ انہیں بھی پکڑ لو۔ جشن زوردار رہے گا۔“
پروفیسر ارسلان نے کہا اور قہقہے لگانے لگا۔
٭….٭….٭
سب انسپکٹر اکرام اپنے ساتھ جیپ میں صرف چار کانسٹیبل لے کر روانہ ہوا تھا۔ انسپکٹر جمشید کے گھر سے نکلنے والے نوجوان کو اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور جب وہ کار میں بیٹھ کر سڑک پر نکل آیا تو اس نے اس کا تعاقب شروع کر دیا تھا۔
وہ حیران تھا کہ انسپکٹر جمشید کس مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔ وہ توچھٹیاں لے کر اپنے بچوں اور دوستوں کے ساتھ خان گڑھ گئے تھے۔ خان گڑھ تو ایک پرفضا اور پرسکون مقام ہے۔ وہاں مصیبت کا کیا کام۔
وہ بہت احتیاط سے پیچھا کر رہا تھا کہ کہیں آگے جانے والے کو شک نہ ہو جائے۔ کار میں اس نوجوان کے ساتھ کوئی اور نہیں تھا۔ ایک بار تو اکرام کا جی چاہا کہ آگے بڑھ کر اسے روک لے اور اس سے ساری بات معلوم کرے، لیکن پھر سوچا، کہیں اس طرح کام نہ بگڑ جائے اسے تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ بیگم جمشید کو یہ بات کس طرح معلوم ہوئی ہے کہ انسپکٹر جمشید خطرے میں ہیں۔
دونوں کاریں اب شہری حدود سے نکل چکی تھیں۔ سڑک کے دونوں طرف درختوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ سورج سر پر چمک رہا تھا۔ اگلی کار کی رفتار کافی تیز تھی۔ تعاقب کرنے کے لیے اکرام کو کافی محنت کرنا پڑ رہی تھی۔ دونوں کاروں کا درمیانی فاصلہ بھی کافی تھا تاکہ تعاقب کا شک نہ ہو جائے۔
یہ سفر تقریباً چار گھنٹے تک جاری رہا۔ پھر اگلی کار ایک کچی سڑک پر مڑ گئی۔ اکرام پریشان ہو گیا، کیوں کہ وہ بہت فاصلے پر تھا اور کچی سڑک پر پہنچنے تک اگلی کار نظروں سے اوجھل ہو سکتی تھی۔ اس لیے اس نے رفتار اور بڑھا دی۔ آخر وہ کچے راستے تک پہنچ گیا۔ کار موڑتے ہوئے اس نے دیکھا، اگلی کار کا دُور دُور تک پتا نہ تھا۔
آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ اس نے مایوسانہ لہجے میں کہا۔
”چلتے رہیے، ہو سکتا ہے، آگے جا کر کار نظر ہی آجائے۔“ ایک کانسٹیبل نے کہا۔
”ہاں، یہ تو کرنا ہی ہو گا۔“
راستہ نہ صرف کچا تھا بلکہ اونچا نیچا بھی تھا۔ بعض جگہ گڑھے بھی تھے، اس لیے کار کی رفتار بہت آہستہ کر دی گئی تھی اور کار ہچکولے کھاتی آگے بڑھ رہی تھی۔ تقریباً بیس منٹ چلتے رہنے کے بعد کچا راستہ دائیں طرف مڑ گیا۔ موڑ کاٹنے پر بھی اگلی کار اکرام کو نظر نہ آئی تو وہ مایوس ہو گیا۔
”میرا خیال ہے، وہ ہوشیار ہو گیا تھا۔“ اس نے کہا۔
”اس بات کا امکان تو نہیں ہے کیوں کہ اس کچی سڑک تک تو وہ ایک ہی رفتار سے کار چلاتا رہا ہے۔ اگر اسے شک ہو جاتا تو اپنے شک کو یقین میں بدلنے کے لیے ضرور رفتار گھٹاتا بڑھاتا۔“ ایک کانسٹیبل نے کہا۔
”تم ٹھیک کہتے ہو رحمت، پھر اب ہم کیا کریں؟“
”ہم آگے بڑھتے رہنے کے سوا کر ہی کیا سکتے ہیں۔“ رحمت بولا۔
”ٹھیک ہے۔“
اور پھر اچانک اکرام نے بریک لگائے۔ ان کی آنکھیں ایک عجیب منظر دیکھ رہی تھیں۔ ان کے سامنے ایک قلعہ نما مکان تھا جو دھوپ کی روشنی میں بھی بہت پراسرار لگ رہا تھا۔ اس کی دیواریں بہت اونچی اور ترچھی تھیں۔ دیواروں میں کہیں کوئی کھڑکی یا روشن دا ن نہیں تھا۔ مکان چوکور نہیں تھا، گول تھا۔ انہیں یوں لگا جیسے وہ زمین کی سطح پر بنے کسی کنویں کو دیکھ رہے ہوں۔ وہ بوکھلا کر کار سے اتر آئے۔ کچھ اور آگے بڑھے تو انہیں مکان کا دروازہ نظر آیا جو بند تھا۔ دروازہ دیکھ کر اکرام چونک اٹھا۔ اس کے اٹھتے قدم رک گئے۔
”اگر انسپکٹر صاحب اور ان کے ساتھی اس مکان میں ہیں تو انہیں چھڑانا آسان نہیں ہو گا۔ یہ مکان تو بالکل قلعہ معلوم ہوتا ہے اور اس قلعے کو ہم پانچ آدمی سر نہیں کر سکتے۔“
”پھر کیا کیا جائے؟“ رحمت نے پوچھا۔
”اس کی ایک ہی صورت ہے۔ اور وہ یہ کہ رحمت تم واپس جاﺅ۔ کار چلانا تو تم جانتے ہو فوراً شہر پہنچو۔ افسران کو اس صورتحال سے آگاہ کرو اور پورا ایک گارد لے کر آﺅ تاکہ اس مکان کا محاصرہ کر لیا جائے۔ اتنی دیر میں میں اندر داخل ہونے اور ان کے کام آنے کی کوشش کروں گا۔ ہو سکتا ہے، میں بھی پھنس جاﺅں لیکن میں سمجھتا ہوں، تم وقت پر مدد لے کر پہنچ جاﺅ گے۔“
”آپ بے فکر رہیں ایسا ہی ہو گا۔“ رحمت نے کہا اور ایڑیوں پر گھوم کر کار کی طرف چلا گیا۔
”تم تینوں میرے ساتھ آﺅ۔“ اکرام نے کہا اور مکان کے دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔
٭….٭….٭
ا س سے پہلے بھی وہ دو مرتبہ مکان کے کمروں کو دیکھ چکے تھے لیکن اس وقت ان کے ذہن میں یہ خیال نہیں تھا کہ مکان میں کوئی خفیہ راستہ بھی ہے۔ اس مرتبہ انہوں نے ایک ایک کمرے کی ایک ایک دیوار اور فرش کو بغور دیکھنا شروع کیا۔ خفیہ راستوں کی تلاش میں محمود سب سے زیادہ ماہر تھا۔ اس لیے وہ ان سب سے آگے تھا۔ وہ ہر دیوار اور فرش کو ٹھوک بجا کر دیکھ رہا تھا۔ کبھی دیواروں سے کان لگاتا تو کبھی فرش پر لیٹ کر دیکھتا۔ کسی کمرے میں کوئی روشن دان تھا نہ کھڑکی۔ بس دیواریں تھیں اور ایک دروازہ۔ محمود نے دروازے کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔
”مجھے تو اس پورے مکان میں کوئی خفیہ راستہ نظر نہیں آتا۔“ اس نے تنگ آکر کہا۔
”تو پھر کھانا کیا تمہارے فرشتے اندر رکھ گئے تھے۔“ فاروق نے جل کر کہا۔
”میرے فرشتے کیوں رکھ کر جاتے۔ مجرموں کے فرشتے رکھ گئے ہوں گے۔“ محمود مسکرایا۔
”ہو گیا مذاق شروع۔ اب راستہ نہیں ملے گا۔“ فرزانہ بولی۔
”کچھ تم بھی تو ہاتھ پیرمارو۔“ محمود نے بھنا کر کہا۔
”مار تو رہے ہیں۔ دروازہ نہ ملے تو کیا کریں؟“ فرزانہ تڑ سے بولی۔
”میرے ذہن میں ایک خیال سر اٹھا رہا ہے۔“ اچانک محمود نے کہا۔
”لو اب ان کے ذہن میں خیالات سر اٹھانے لگے۔ کل کو کہیں گے میرے ذہن میں کوئی ہاتھی سر اٹھا رہا ہے۔“ فاروق نے مذاق اڑانے والے لہجے میں کہا۔
”تم دونوں وقت بہت ضائع کرتے ہو۔ پہلے سن تو لو۔ اسے کیا خیال آیا ہے۔“ خان عبدالرحمن نے جھنجھلا کر کہا۔
”اچھا بھائی بتاﺅ۔ تمہارے ذہن میں کون سا خیال ہے جو سر بھی اٹھا رہا ہے۔“ فاروق نے مسمسی صورت بنا کر کہا اور سب کو ہنسی آگئی۔
”دھت تیرے کی۔“ خان عبدالرحمن نے ہنستے ہوئے کہا۔
”میرا خیال ہے کہ خفیہ راستہ ضرور زینے کے پاس ہو گا۔ وہی زینہ جس کے ذریعے ہم اوپر پہنچے تھے۔“
”تو وہاں بھی چل کر دیکھ لیتے ہیں۔ اس خیال کو ظاہر کرنے سے پہلے اس قدر سسپنس پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔“ فرزانہ نے برا سا منہ بنا کر کہا۔
”چلو چلو۔ جھگڑ بعد میں لینا۔“
وہ زینے کے پاس آئے اور سب بغور اس کا جائزہ لینے لگے۔
”ایک ایک انچ جگہ کو غور سے دیکھیں۔“ محمود نے کہا۔
”بہت اچھا کمانڈر صاحب۔“ فاروق بولا۔
”اگر مذاق کیا تو چانٹا مار دوں گا۔“ محمود نے تیز لہجے میں کہا۔
”وہ میرے گال پر تو لگے گا نہیں۔ یا تو دیوار پر پڑے گا یا پھر فرزانہ کے لگ جائے گا اور اس طرح فرزانہ تم پر جھپٹ پڑے گی اس لیے بہتر یہی ہے کہ چانٹا مارنے کے بجائے خفیہ راستہ تلاش کرو۔“ فاروق کہتا چلا گیا۔
”توبہ، حالات چاہے کچھ بھی ہوں مگر تم لوگ باز نہیں آتے۔“ پروفیسر داﺅد مسکرائے۔
”اچھا ہی ہے یہ بول رہے ہیں، ورنہ یہ مکان قبرستان نظر آئے گا۔“ شائستہ پہلی مرتبہ ان کے درمیان بولی۔
”شکر ہے شائستہ کی آواز بھی کان میں آئی۔“ فرزانہ گنگنائی۔
باتوں کے ساتھ ساتھ وہ کام بھی کر رہے تھے اور پھر محمود کے منہ سے مسرت بھری ایک چیخ نکل گئی۔ اس کے ہاتھ زینے کے دروازے میں لگی لکڑ