خالو — فیضان قادری

دوران گفت گو ہمارے ایک خالو کا ذکر آیا، تو سوچا کچھ باتیں ان کی شخصیت پر بھی کرلی جائیں۔ ایسے خالو کسی کے بھی ہوسکتے ہیں کہ خالو پر کسی کا زور نہیں چلتا اور ہمارے خالو پر تو خالہ کا بھی نہیں چلتا۔
خالو کے والد صاحب جوکہ شاید مغل بادشاہوں کے بہت بڑے فین تھے۔ ان کا نام سید جلال الدین محمد اکبر رکھا اور دوسرے بیٹے کا نام جہانگیر رکھا گیا۔ مزید کوئی بیٹا نہ ہوا ورنہ یہ سلسلہ یقینا بہادر شاہ تک جاتا۔
بیٹیوں میں البتہ انہوں نے اردو نثر سے متاثرہ ناموں کی ترویج کی۔ نجم السحر خاتون، رفعت جہاں، شوکت آرا سنجیدہ، عشرت آرا، جمیلہ، شکیلہ، نزہت پروین، انجم آرا، صاحب زادی، کلثوم بیگم اور دیگر کسی اورنگزیب عالمگیر کو دنیا میں لانے کی کوشش میں پیدا ہوگئیں۔
بات یہاں وہاں ہواس سے پہلے اسے واپس خالو کی طرف موڑنا ضروری ہے۔ خیر اپنے نام کی طرح خالو بہت جلالی واقع ہوئے اتنے کہ غصہ ہر دم ناک پر رہتا ہے اور اللہ میاں نے ان کو ناک بھی بہت لمبی عطا کی ہے، تو تادیر وہاں ٹکا رہتا ہے۔ بہت اصولی آدمی ہیں کوئی بات مزاج کے خلاف یا کوئی چیز اس جگہ نہ ملے جہاں وہ ہونی چاہیے، تو بس غصہ چڑھنا شروع اور بات چیت بند۔
عادات کے اتنے پکے ہیں کہ جیسے وہ صبح ناشتے میں رات کی باسی روٹی چائے میں ڈبو کر کھاتے ہیں اور ایسا بچپن سے کرتے آرہے ہیں تو اپنی شادی کی اگلی صبح بھی انہوں نے یہی ناشتا کیا تھا۔


صبح پانچ بجے اٹھتے ہیں چاہے دنیا اِدھر سے اُدھر ہوجائے۔ گرمیوں میں جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو چوں کہ سورج جلدی نکل آتا ہے اور اُن کے اٹھنے کا وقت نہیں ہوا ہوتا، تو سحری نہیں کرتے۔ پتا نہیں روزہ کیسے رکھ لیتے ہیں کیوں کہ دوپہر بارہ بجے ان کے کھانے کا وقت طے ہے۔
رات آٹھ بجے وہ گھر سے نکل جاتے ہیں اور گھر سے کچھ دور چوک پر بیٹھ جاتے ہیں کیوں کہ وہ بچپن سے وہاں بیٹھتے رہے ہیں۔ شروع میں ان کے کچھ دوست وغیرہ بھی بیٹھا کرتے تھے، لیکن وقت کے ساتھ سب ہی مصروف ہوتے گئے۔ سنا ہے کہ اب اکیلے ہی بیٹھتے ہیں اور ایک گھنٹا وہاں گزار کر ہی گھر واپس آتے ہیں۔ چاہے بارش ہو یا طوفان اس ایک گھنٹے کے دوران اگر کسی کو ان سے ملنا ہو، تو وہیں ملیں گے۔
ہمیشہ اپنے بسترپر ہی سوئیں گے۔ لڑکپن میں ان کی چھوٹی بہن شوکت آرا سنجیدہ غلطی سے اُن کے بستر پر سوگئیں یہ انتظار کرتے رہے کہ اُن کے سونے کا وقت ہو وہ خود اٹھ جائیں یا کوئی اُن کو اٹھا کر ان کی جگہ تبدیل کردے، لیکن جب یہ نہ ہوا اور ان کے سونے کا وقت قریب ہونے لگا، تو بہن کو گود میں اٹھا کر دوسرے کمرے میں فرش پر پھینک آئے۔شادی کے موقع پر جب خاندان کے ایک بزرگ ان کے بستر پر سوگئے تو پوری رات چھت پر کرسی ڈال کر بیٹھے رہے کہ ان کو اٹھا کر پھینک نہیں سکتے تھے حالاں کہ دل تو یہی چاہتا ہوگا یہاں تک کہ ان کے اُٹھنے کا وقت ہوگیا۔
گھر میں استعمال کی کوئی بھی چیز جیسے گرائنڈر، جوسر اور پانی کی موٹر وغیرہ خراب ہوجائے تو خود ہی ٹھیک کریں گے۔ چاہے وہ کتنی ہی ضروری استعمال کی چیز ہو اور ان کو وقت نہ مل پارہا ہو۔ اگر کسی میکینک سے مرمت کرالی گئی تو حرام ہے کہ اس کا خود استعمال کریں یا اس کے استعمال سے کسی قسم کا فائدہ اٹھا لیں۔ سالوں پرانی بات ہے کہ پانی کی موٹر خراب ہوگئی تو گھر والوں نے اس کی مرمت کسی مستری کو بلا کر کروا لی۔ کئی سال تک ٹینکی میں ڈول ڈال کر پانی نکالتے اور استعمال کرتے رہے۔ سالوں ایسا ہی کرتے رہے۔ جب عمر کے ساتھ ہڈیوں میں جان کم ہونے لگی اور بالٹی بھرنا دوبھر ہونے لگا تو اپنی ضد سے باز آئے۔
جب بچے چھوٹے تھے تو اکثر رات کو کسی ضرورت سے خالہ کمرے کی بتی جلاتیں جس سے ان کی نیند میں خلل پڑتا۔ روز خالہ سے تلخ کلامی ہوتی کہ ان کی نیند خراب ہورہی ہے اور ان کو خیال نہیں۔ کسی روز خالہ نے جواباً شاید کہہ دیا کہ آپ کیسے باپ ہیں اپنے بچے کے لیے تھوڑی سی نیند خراب کرنا گوارا نہیں کرتے، آخر کیسے وہ اندھیرے میں تمام کام انجام دیں؟ اس بات سے ان کو اتنا غصہ چڑھا کہ آج تک رات میں آنکھوں پر پٹی چڑھا کر اور بتی جلا کر سوتے ہیں۔ شروع شروع میں جب خالہ اپنے کام ختم کرکے بتی بجھا دیتیں تو اٹھ کر دوبارہ جلادیا کرتے آہستہ آہستہ کئی سالوں بعد یہ عادت چھوٹی۔


شروع میں سگریٹ نوشی کے عادی تھے اور روزانہ ایک ڈبیا سگریٹ پینا لازم تھا۔ اگر دن بھر میں پورا پیکٹ ختم نہ ہوتا تو رات سونے سے پہلے پے درپے سگریٹ پھونکتے اور سونے سے پہلے پورا پیکٹ ختم کرتے۔ اصولی آدمی ہیں ایک دن سوچ لیا کہ کل سے سگریٹ نہیں پئیں گے بس جس دن یہ سوچا اس دن اتنی تبدیلی آئی کہ رات سونے سے پہلے تک انہوں نے سگریٹ کے دو پیکٹ ختم کیے اور اس کے بعد آج تک دوبارہ کبھی ہاتھ نہیں لگایا۔
خالو کا اصول ہے کہ چاہے کتنے بھی بیمار ہوں کبھی ڈاکٹر کے پاس نہیں جائیں گے۔ دیسی طریقے سے اپنا علاج خود کریں گے۔ ایک مرتبہ گرمی میں عین دوپہر کے وقت چھت پر کسی کام میں لگے ہوئے تھے کہ لو لگنے سے بے ہوش ہوگئے۔ گھر والے اٹھا کر اسپتال لے گئے جوں ہی ہوش میں آئے اور خود کو وہاں پایا تو غصے میں ڈرپ کھینچ کر نکالی اورپیدل ہی گھر روانہ ہوگئے۔
ہمیشہ ایک ہی درزی سے کپڑے سلواتے اور ایک ہی ڈیزائن کی چپل پہنتے ہیں۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ان سب کی خریداری ایک ہی دکان سے نہ کرتے ہوں جی ہاں بالکل ممکن نہیں ہے۔
پوری زندگی استرے سے شیو بناتے آئے ہیں کہ جب شیو بنانا شروع کیا تھا اس وقت یہ ہی اوزار استعمال کیا تھا۔
یہ تو کچھ باتیں ہوگئیں پختہ عادات کی اس کے علادہ کچھ اور باتیں بھی ان کی شخصیت میں قابل ذکر ہیں۔
پرانی چیزوں سے لگاؤ اس قدر ہے کہ کوئی بھی چیز استعمال کے بعد پھینکنے کے قائل نہیں ہیں۔ ان کا یقین ہے کہ :
؎نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
شاعر نے تو یہ بات بس یوں ہی کہہ دی، لیکن اس کا عملی مظاہرہ اگر وہ خود دیکھ لیتے تو اپنے اس شعر سے دست برداری کا اعلان باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے کرتے کہ خدا کی قسم میرا اس شعر سے وہ مطلب نہیں تھا جو انہوں نے لے لیا ہے۔
خالوکے گھر کی چھت پر ایک کمرا ہے۔ اس میں داخلے کی جگہ ختم ہوچکی ہے۔ اس میں ہر وہ چیز جس کے دوبارہ استعمال ہونے کے بارے میں ایک فیصد بھی شک ہو۔ سینت کر رکھی ہوئی ہے۔ بعض چیزیں دیکھ کر سوال خود بہ خود پیدا ہوتا ہے کہ ان کا آخر کیاکام ہے۔ مثلاً دیوار پر چابیوں کا ایک بڑا گچھا ٹنگا ہوا ہے جس میں تقسیم ہند سے قبل بننے والے تالے کی جو اپنی زندگیاں پوری کرکے کب کے مٹی میں مل چکے ہیں ان کی بھی چابیاں محفوظ ہیں۔ اس گچھے میں کم از کم ایک ہزار زنگ آلود چابیاں لٹکی ہوئی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں اگر سڑک پر چلتے ہوئے انہیں کوئی چابی گری ہوئی مل جاتی تو اٹھا کر گھر لے آتے اور لاکر اسی گچھے کا حصہ بنا دیتے کہ شاید کبھی کام آجائے لیکن کبھی گھر کا کوئی تالا کھلوانا ہو تو باہر سے تالے چابی والے کو بلایا جاتا ہے مبادہ استعمال سے کوئی چابی ٹوٹ جائے اور اس خزانے میں سے ایک چابی کم ہوجائے۔ ایک کونے میں ایک ریک رکھا ہے اس پر اوپر نیچے تمام جگہ شیشے کی خالی بوتلیں اور مرتبان رکھے ہیں جو اپنی قسمت کو رو رہے ہیں۔ ان میں بہت سوں کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہے یہ تو ایک طرف رہی ان کی ایک بہن کینیڈا مقیم ہیں۔ بہت سال پہلے جب وہ پاکستان آئیں تو پینے کے لیے منرل واٹر کی بوتلیں استعمال کرتی رہیں اور یہ ان بوتلوں کو جمع کرتے رہے یہاں تک کہ تمام بوتلیں اوپر کمرے میں پہنچ گئیں۔ ان کی بہن کے جانے کے بعد یہ خبر ان تک پہنچی تو اب وہ یہ کرتی ہیں کہ جب بھی آتی ہیں خالی ہوجانے والی بوتلوں کو ہاتھ کے ہاتھ ٹھکانے لگاتی رہتی ہیں اور جمع کرنے کا موقع نہیں دیتیں۔


ایک ٹرنک میں گھر کے تمام پرانے لحاف، گدے اور تکیے موجود ہیں۔ گھر میں سالوں پہلے جو فریج آیا تھا اس کا ڈبا بھی سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ زمانے کی ہوا اور دھوپ لگنے سے وہ تقریباً برادہ بن چکا ہے کہ ہاتھ لگانے سے جھڑنے لگتا ہے۔ اس لیے اسے اب کوئی ہاتھ ہی نہیں لگاتا۔
گھر کی پرانی چوکھٹیں جو دیمک لگنے کہ وجہ سے نکال دی گئی تھیں آج بھی چھت پر رکھی ہوئی ہیں۔ سال چھے مہینے میں ان پر دیمک مار سپرے کرتے ہیں کہ شاید اس طرح وہ قابل استعمال ہوجائیں۔
بڑے بیٹے کی شادی پر جو پھول کمرا سجانے کے لیے استعمال کیے گئے تھے۔ وہ ایک ٹوکرے میں ڈال کر اسی کمرے میں رکھ آئے تھے۔ آج بھی اسی طرح رکھا ہوا ہے۔ پھول مرجھاگئے اور اس حجلہ عروسی میں ہونے والے واقعات کے نتیجے میں جنم لینے والے بچے اب بستے لٹکا کر اسکول جانے کی عمر کو پہنچے۔ حال یہ ہے کہ ٹوکرے کے پھول اب بھی رکھے ہوئے ہیں بالکل برادہ ہوچکے ہیں اور کمرے کا دروازہ کھولنے پر ہوا کے دباؤ کے باعث اڑتے رہتے ہیں، لیکن وہ پھینکنے پر رضامند نہیں ہیں۔
اسی کمرے میں ایک سیمنٹ کی بوری میں استعمال شدہ سکرو اور کیلیں جمع ہیں جو نصف صدی سے جمع ہوتے ہوتے اب بوری کے منہ تک آچکے ہیں۔ اُس کمرے میں سیمنٹ کی وہ خالی بوریاں بھی موجود ہیں جو عرصہ بیس سال قبل گھر کا فر ش پکاّ کرانے میں استعمال ہوئی تھیں۔
خالو کی عادات اور ان کی شخصیت پر بات تو بہت ہوسکتی ہے، لیکن وقت اجازت نہیں دیتا۔
سوچتا ہوں کہ اگر وہ ایک عام سی زندگی گزار رہے ہوتے تو کچھ بھی ایسا دل چسپ وجود میں نہ آتا۔ اللہ خالو کی عمر دراز کرے کبھی دوبارہ باقی بچ جانے والے واقعات ذکر کروں گا۔
آخر میں بس اتنا ہی کہ اگر کسی اور کے پاس بھی ایسے خالو ہیں تومجھے ضرور مطلع کریں۔ مجھے ایسے دوسرے انسان کو دیکھنے کابچپن سے اشتیاق ہے۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

چاند پر پاکستانی — ارم سرفراز

Read Next

کوئی بتلاوؑ کہ ہم بتلائیں کیا — صائمہ اقبال

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!