حضرت موسیٰ علیہ السلام ۔ قرآن کہانی

حضرت موسیٰ علیہ السلام
عمیرہ علیم

حضرت یوسف  کا دور گزرنے کے کافی عرصہ بعد جب مصر کا اقتدار قبطیوں کے پاس آیا تو انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں بنی اسرائیل کا زور توڑنے کے لیے ہر حربہ آزمایا۔ اسرائیلیوں کو نہ صرف ذلیل و خوار کیا جاتا بلکہ ان سے ادنیٰ درجے کی خدمات لی جاتیں۔ انہوں نے یہ پالیسی بھی اختیار کی کہ کسی طرح بنی اسرائیل کی بڑھتی ہوئی آبادی کو کم کیا جائے۔ وہ بنی اسرائیل کے لڑکوں کو پیدائش کے وقت قتل کرنے لگے۔ صرف ان کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جاتا تاکہ رفتہ رفتہ بنی اسرائیل کی عورتیں اُن کے تصرف میں آجائیں اور ان سے قبطی نسل پیدا ہو۔ قبطی، بنی اسرائیل کی اہمیت سمجھتے اور خود کو ان سے زیادہ طاقت ور خیال کرتے تھے۔ اس دور میں مصر کا بادشاہ فرعون کہلاتا تھا۔ وہ ناصرف بادشاہی کے زعم میں مبتلا تھا بلکہ نعوذباللہ خدائی کا بھی دعویٰ دار تھا۔ اس نے معاشرے کو مختلف طبقات میں تقسیم کردیا۔
اللہ تبارک تعالیٰ، فرعون کی سرکشی اور ہٹ دھرمی کی روش کا ذکر فرماتے ہوئے سورة القصص میں بیان کرتے ہیں:
”واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کردیا۔ ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا۔ فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا۔”
فرعون نے نہ صرف طاغوتی روش اپنا ئی بلکہ وہ جابر و سرکش بھی ہوگیا تھا۔ وہ باغی یہ بھول گیا تھا کہ بنی اسرائیل کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے، حضرت اسحاق علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل سے اور اپنے دور کے بہترین لوگوں میں سے ہیں۔ وہ ظالم اور کافر بادشاہ، بنی اسرائیل کی نسل کشی پر اتر آیا اور یہ  بھول گیا کہ یہ قوم، ربِ کریم کی پسندیدہ ترین قوم ہے۔
کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ فرعونِ مصر کو کاہنوں نے بتایا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جو اس کی ہلاکت و تباہی کا باعث بنے گا۔ کچھ کا گمان ہے کہ فرعون کو اس قبیح فعل پر ابھارنے والے خود بنی اسرائیل کے لوگ تھے جو اپنا کلام دہراتے رہتے جس میں ایک بچے کی بشارت کا ذکر تھا، جو بنی اسرائیل کو فرعون کے تسلط سے آزاد کروائے گا۔ جب کہ ایک روایت کے مطابق، فرعون نے ایک خواب دیکھا جس کا بیان کچھ یوں ہے کہ بیت المقدس کی طرف سے ایک آگ مصر کی جانب بڑھ رہی ہے جس سے تمام شہر اور قبطی نسل کے لوگ جل جاتے ہیں، مگر وہ آگ بنی اسرائیل پر بے اثر رہتی ہے۔ 
فرعون نے جب اس خواب کی تعبیر پوچھی تو اس کو ایک بچے کی پیدائش کے بارے میں بتایا گیا جو اس کو تخت و تاج سے بے دخل  کرنے والا ہے۔ تب ہی اس نے بنی اسرائیل کے لڑکوں کے قتل اور لڑکیوں کے زندہ رہنے کا حکم صادر کیا۔ 
اللہ تبارک تعالیٰ کو خدائی کا دعویٰ کرنے والے اس سرکش شخص کی یہ ظالمانہ روش پسند نہ آئی۔ اس لیے ارشاد ہوا:
”اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر، جو زمین میں ذلیل کرکے رکھے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنا دیں اور انہی کو وارث بنائیں اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامون اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دکھلا دیں، جس کا انہیں ڈر تھا۔” (سورة القصص)
اللہ رب العزت نے بنی اسرائیل کو قیادت اور رہ نمائی عطا کرنے کا ارادہ فرمایا تاکہ وہ زمین پر حکمران اور فرماں روا ہوں۔ تب ہی اس بچے نے دریا میں آنکھ کھولی، جس کو لوگ موسیٰ علیہ السلام کے نام سے جانتے ہیں۔ قرآن پاک میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام عمران بتایا جاتا ہے۔ مفسرین، آپ علیہ السلام کا شجرہ ِ نسب یوں بیان کرتے ہیں۔
”حضرت موسیٰ بن عمران بن قاہث بن عاذر بن لاوی بن یعقوب بن اسحق بن ابراہیم علیہ السلام۔”
اپنے پیارے بندے کا ذکر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
”اور ذکر فرمائیے کتاب میں موسیٰ کا۔ بے شک وہ (اللہ کے) چنے ہوئے تھے اور رسول و نبی تھے۔” (سورة المریم)
قرآن مجید میں آپ کا نام تقریباً ایک سو تیس  مقامات پر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کی وجہ سے آپ کو ”کلیم اللہ” بھی کہا جاتا ہے۔
حضرت ابنِ عباس سے روایت ہے کہ ایک دن حضورِ کریمۖ اپنے حجرہ سے باہر تشریف لائے۔ آپۖ نے فرمایا:
”میرے سامنے ساری امتیں پیش کی گئیں تو ایک امت میں نے اتنی کثیر تعداد میں دیکھی کہ اس نے تمام افق گھیر رکھا تھا۔ پھر مجھے بتایا گیا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی امت ہے۔” (بخاری)
قرآن مجید میں آپ علیہ السلام کا زیادہ تذکرہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ علیہ السلام کے بیشتر حالات آنحضورۖ سے ملتے تھے اور یہ کہ ان کے تذکرے سے  رسولۖ اللہ اور صحابہ کرام کو تقویت دینا تھاکہ وہ مصائب و آلام سے  گھبرائیں نہیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو ”اسرائیل” بھی کہتے ہیں۔ اسی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت یعنی اولادِ یعقوب ”بنی اسرائیل” کہلاتی ہے۔ لغت کے مطابق موسیٰ، عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ”پانی سے نکالا ہوا” کے ہیں۔
فرعونِ مصر نے چوں کہ بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل کا حکم صادر کیا تھا، اس لیے مردوں کی تعداد کم ہونے لگی۔ قبطیوں کو پریشانی نے آگھیرا۔ ان سب نے ارادہ کیا کہ فرعون سے شکایت کی جائے کہ اگراسی طرح چلتا رہا تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ سارے زور آور کام ہمیں کرنے پڑیں گے اور مفت کے مزدور بھی ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ وہ سب فرعون کے پاس جا پہنچے اور اس مسئلے کا ذکر کیا۔ بہرحال فرعون نے نیا حکم صادر کردیا کہ ایک سال لڑکوں کا قتل کیا جائے گا اور ایک سال انہیں چھوڑ دیا جائے گا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی، حضرت ہارون علیہ السلام جو نبی ہوئے ہیں، معافی کے سال پیدا ہوئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام قتل کے سال دنیا میں تشریف لائے۔
حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی والدہ کو جب حمل کی گرانی محسوس ہوئی تو آپ پریشان ہوگئیں کہ آنے والا بچہ تو قتل کے سال دنیا میں آئے گا۔ تب ہی انہوں نے حمل کو چھپا لیا اور ربِ تعالیٰ کی قدرت کہ ان کو دیکھ کر کسی کو احساس بھی نہیں ہوا کہ وہ حاملہ ہیں۔ آخر کار اللہ کے پیارے نبی نے دنیا میں آنکھ کھولی۔ تب اللہ رب العزت نے ان کی والدہ کو حکم دیا کہ وہ اپنے لختِ جگر کو اس وقت تک دودھ پلاتی رہیں، جب تک خطرہ محسوس نہ کریں۔ درحقیقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے پاس باقاعدہ فرشتہ، اللہ تعالیٰ کا پیغام نہیں لایا تھا بلکہ ان کے دل میں یہ بات ڈالی گئی تھی اور ان کا دل اس پر مطمئن کر دیا گیا تھا کہ حزن و ملال کی بات نہیں، بلکہ اگر یہ تجھ سے بچھڑ بھی گیا تو ہم اس کو تیرے پاس لوٹا دیں گے اور وہ نبوت کے بلند مرتبے کو حاصل کرے گا۔ جیسا کہ سورة القصص میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
”ہم نے موسیٰ کی ماں کو اشارہ کیا کہ اس کو دودھ پلا، پھر جب تجھے اس کی جان کا خطرہ ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور کچھ خوف اور غم نہ کر، ہم اسے تیرے ہی پاس لے آئیں گے اور اس کو پیغمبروں میں شامل کریں گے۔”

Loading

Read Previous

حضرت شعیب علیہ السلام ۔ قرآن کہانی

Read Next

حضرت مریم علیہ السلام ۔ قرآن کہانی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!