حضرت لقمان حکیم علیہ السلام ۔ قرآن کہانی


حضرت لقمان حکیم علیہ السلام

عمیرہ علیم

اسلامی دعوت و تبلیغ کو روکنے کے لیے مشرکینِ مکہ ظلم و ستم کے ہتھکنڈے استعمال کرتے تھے۔ لیکن رسالتِ محمدیۖ کا سورج پوری تاب ناکی سے طلوع ہوچکا تھا۔ آپۖ کے جواں مرد،خوددار، روشن ضمیر اور حوصلہ مند صحابہ کرام آپۖ کے ساتھ کھڑے ہر گھناؤنے وار کو صبر سے برداشت کررہے تھے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ساحرو جادوگر پکارا گیا۔ نَضْربن حارث، ارحم الراحمین کی عظیم الشان کتاب کا مقابلہ کرنے کے لیے رستم و اسفند کے قصے اور شاہانِ عجم کی داستانیں لاکر قِصّہ گوئی کی محفلیں منعقد کرواتا ہے۔ تو کبھی گانے والی لونڈیاں خریدلاتا ہے اور جب کوئی اللہ کی طرف راغب ہوتا تو ایک لونڈی اس پر مسلّط کردی جاتی ہے تاکہ غافل انسان اللہ تعالیٰ اور حضرت محمدۖ کی باتوں میں کھو کر اپنی حقیقت کی شناخت نہ کرلیں۔
توحید و رسالت کی گونج اہلِ عرب نے پہلی مرتبہ نہ سُنی تھی بلکہ حضرت محمدۖ سے پہلے بھی جن لوگوں کو علم و حکمت اور عقل و دانش عطا فرمائی گئی، وہ بھی اس بات کی تقلید کرتے تھے جو محمدۖ فرماتے تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورئہ لقمان میں لقمان حکیم کی حکمت و دانائی کا ذکر فرمایا اور بتایا کہ محمدۖ دیارِ عرب کو کچھ نیا یا انوکھا پیغام نہیں پہنچا رہے بلکہ اس ملک میں اللہ کا بھیجا ہوا بندہ لقمان حکیم گزر چکا ہے۔ جن کی حکمت بھری باتیں بہ طورِ ضرب الامثال بیان کی جاتی ہیں۔
”حکمت” اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت ہے جو صالحین اور پسندیدہ ہستیوں کو عنایت ہوئی۔ حکمت کے لفظی معنی ہیں ”عقل مندی، ذہانت، شعور، دانائی، فہم و فراست۔” اللہ تبارک و تعالیٰ کی صفاتِ حمیدہ میں ایک اَلْحَکِیمْ بڑی حکمت والا، دانا اور بینا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو ”حکمت والی کتاب” کہا ہے، جو محسنین کے لیے نہ صرف رہبری اور حکمت کا ذریعہ ہے بلکہ اس میں شعور، دانائی اور حکمت کے بیش بہا خزانے ہیں، جو چاہے سمیٹ لے۔
حکمت و معرفت دو ایسے مقام ہیں جہاں بغیر کسی نبی کے پیغام کے انسان رحمتِ خداوندی کی بہ دولت ہی پہنچ سکتا ہے اور رحمت کا یہ اَبر حضرت لقمان پر ایسا کھل کر برسا کہ ربِ کعبہ نے سورئہ لقمان آپ کے نام سے اُتاری اور آپ کا مرتبہ اور زیادہ بڑھا دیا۔
اہلِ عرب کے کچھ پڑھے لکھے لوگوں کے پاس صحیفۂ لقمان موجود تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ مدینہ کا ایک شخص حج کرنے کے لیے مکہ آیا۔ اس کا نام سوید بن صامت تھا۔ ایسے موقعوں پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم مختلف علاقوں سے آئے ہوئے حاجیوں کے پاس دعوتِ تبلیغ کے لیے جاتے۔ آپۖ بیان فرما رہے تھے تو سوید بن صامت بولا جو آپۖ فرما رہے ہیں اُس سے ملتی جلتی ایک چیز میرے پاس بھی ہے، تو اُس نے مجلّۂ لقمان آپۖ کو سُنایا۔ حضرت محمدۖ نے فرمایا: میرے پاس اس کلام سے بہتر کلام موجود ہے۔ پھر نبی پاکۖ نے قرآن مجید کی تلاوت فرمائی تو وہ کہہ اُٹھا:
بے شک یہ کلام بہترین ہے۔ سوید بن صامت اپنی بہادری اور عمدہ شعر گوئی کی بناء پر ”کامل” کے لقب سے جانا جاتا تھا۔ آپۖ سے ملاقات کے بعد وہ مدینہ واپس ہوا اور جنگِ بُعاث میں مارا گیا۔ قبیلے والوں کا خیال تھا کہ اس نے آپۖ سے ملاقات کے بعد اسلام قبول کرلیا تھا۔
حضرت لقمان ایک حبشی غلام تھے۔ وہ نوبہ کے رہائشی تھے۔ نوبہ کا علاقہ مصر کے جنوب اور سوڈان کے شمال میں واقع ہے۔ آپ پیشے کے اعتبار سے بڑھئی تھے۔ حضرت جابر کے فرمان کے مطابق ”آپ پستہ قد اونچی ناک والے، موٹے ہونٹ والے نوبی تھے۔”
ابو داؤد بیان کرتے ہیں:
”حضرت لقمان کسی بڑے گھرانے کے امیر اور بہت زیادہ کنبے والے نہ تھے۔ ہاں ان میں بہت سی بھلی عادتیں تھی۔ وہ خوش اخلاق، خاموش، غوروفکر کرنے والے اور گہری نظر والے، دن کو نہ سونے والے تھے۔ لوگوں کے سامنے تھوکتے نہ تھے۔ نہ پاخانہ پیشاب اور نہ غسل کرتے تھے۔ لغو کاموں سے دور رہتے تھے، ہنستے نہ تھے، جو کلام کرتے تھے وہ حکمت سے خالی نہ ہوتا تھا۔ جس وقت ان کی اولاد فوت ہوئی، یہ بالکل نہیں روئے۔ وہ بادشاہوں اور امیروں کے پاس اس لیے جاتے تھے کہ غوروفکر اور عبرت و نصیحت حاصل کریں۔ اسی وجہ سے انہیں بزرگی ملی۔”
سعید بن مسیب نے ایک مرتبہ ایک سیاہ حبشی غلام کو نصیحت فرمائی کہ اپنی رنگت کو حقیر نہ جان۔ تین لوگ جو تمام لوگوں سے اچھے تھے وہ تینوں سیاہ رنگ کے حامل تھے۔ حضورۖ کے غلام حضرت بلال، فاروقِ اعظم کے غلام حضرت مہجع اور حضرت لقمان حکیم جو نوبی تھے۔
اکثر علماء اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حضرت لقمان نبی نہ تھے بلکہ ولی اور اللہ کے نیک بندے تھے۔ اس لیے وحی کا سلسلہ بھی نہ تھا۔ غلامی، نبوت کی ضد ہے کیوں کہ انبیاء کرام عالی مرتبہ خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ جب کہ آپ کے متعلق ایک عجیب و غریب روایت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت لقمان کو اختیار دیا کہ حکمت و نبوت میں سے جس کو چاہیں قبول کرلیں، آپ علیہ السلام نے حکمت کو پسند فرمایا۔ جب آپ سے پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ نے نبوت اختیار نہیں فرمائی تو آپ نے فرمایا:
”اگر رب تعالیٰ مجھے نبوت عطا فرماتے تو ہوسکتا تھا میں نبھا جاتا۔ لیکن جب اختیار ملا تو میں نے حکمت کو چُنا۔ میں ڈر گیا کہ اگر میں نے نبوت اختیار کی تو شاید میں اُس کو پورا نہ کر پاؤں۔” (واللہ اعلم)
ایک مرتبہ حضرت لقمان مجلس میں وعظ فرما رہے تھے۔ ایک چرواہا آپ کو دیکھتا ہے تو حیرت زدہ ہوجاتا ہے۔ کہتا ہے: ”کیا تو وہی نہیں جو میرے ساتھ بکریاں چراتا تھا؟” ”آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ”وہاں میں وہی ہوں۔”
چرواہا کہتا ہے تو نے یہ مرتبہ کیسے حاصل کیا؟” آپ علیہ السلام نے فرمایا: ”سچ بولنے پر اور بے کار کلام نہ کرنے پر۔”
اللہ سبحان و تعالیٰ نے حضرت لقمان کو نعمتِ حکمت (اسلام کا فہم) کی خوش خبری سُناتے ہوئے سورئہ لقمان میں فرمایا کہ ”اللہ کا شکر ہے۔” بلکہ انسان کو عملی طور پر یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ جن بھی نعمتوں سے نوازا گیا ہے وہ ان پر اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے۔ ذہنی پاکیزگی اختیار کرنا، ذہن کو پراگندہ سوچوں سے بچانا، معبودِ کبریائی کا احسان مند ہونا، کفرانِ نعمت سے بچنا اور انسان کا چھوٹے سے چھوٹا عمل اللہ تبارک و تعالیٰ کی تعلیمات کا مکمل عکاس ہونا ہی درحقیقت شکر گزاری ہے۔ انسان اگر شکر گزار ہے تو اپنے ہی فائدے کے لیے، رب کی ہستی بے نیاز ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں:
”جو کوئی شکر کرے تو اُس کا شکر اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے اور جو کوئی کفر کرے تو حقیقت میں اللہ بے نیاز اور آپ ہی آپ محمود ہے۔”
سبحان اللہ! یہ شان، یہ بے نیازی اس حقیقی معبود کو جچتی ہے۔ کائنات کی ہر چیز، ہر ذرّہ اس کی حمد و ثناء بیان کررہا ہے۔ لیکن اگر کوئی نافرمان ہے تو وہ ہیں جن وانس۔
اولاد وہ نعمتِ خداوندی ہے جو انسان کو دنیا بھر کی تمام نعمتوں سے زیادہ محبوب ہوتی ہے۔ انسان سب سے بہترین چیز اپنی اولاد کو ہی دیتا ہے۔ کیوں کہ والدین اور اولاد کا رشتہ بہت خالص ہے۔ حضرت لقمان کا ذکرِ خیر قرآن مجید میں ایک ناصح کے طور پر آیا ہے اور جو وعظ و نصیحت آپ علیہ السلام نے اپنے بیٹے کوکی، وہ سب سے بہترین تحفہ تھا اور ممکن ہے کہ آپ نے یہ نصیحتیں اپنے بیٹے کو وصال سے پہلے کی ہوں۔
حضرت لقمان علیہ السلام نے جو پہلی نصیحت اپنے بیٹے کو کی وہ ہے،
”بیٹا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔”
اللہ رَبُّ العزت خالق ہے اور باقی سب مخلوق۔ خالق کی شان ہے کہ اس کی بڑائی بیان کی جائے۔ اس کی تخلیق کی ہوئی چیزوں کو اس کے مَدِّ مقابل لاکر ان کی پرستش کرنا انسانی پستی کا شاخسانہ ہے۔ یہ اکبر الکبائر ہے اور بڑی نا انصافی ہے۔ رب تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔
کسی شخص نے اللہ کے رسولۖ سے پوچھا: عند اللہ بڑے سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپۖ نے فرمایا:
”تم کسی کو اللہ کی مثل و مانند گردانوں حالاں کہ تم کو اللہ نے پیدا کیا ہے۔”
اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جس دین حنیف کی پیروی کا حکم اپنے بندوں کو دیتا ہے اس کے مطابق بندئہ خدا کا قول، فعل، ارادہ، نیت، سجدہ، تسبیح و تکبر، خاکساری، توکل، انابتِ تقویٰ، نذرونیاز، توبہ، استغفار ذاتِ الٰہی کے علاوہ کسی اور کے لیے ہونا اس کو دشمنِ خدا کی صف میں شامل کرتا ہے۔ کیا کوئی بندہ یہ پسند کرتا ہے کہ اللہ رب العالمین، احکم الحاکمین اور اعلم العالمین نے جو رزق اس کو دیا ہے وہ اس میں اپنے ملازم کو شریک گردانے؟ تو اللہ کی خالص الوہیبت میں کسی کو شریک کرنا زیب نہیں دیتا۔ سورئہ روم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایک مثال خود تمہاری ہی ذات سے بیان فرمائی کہ جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے کیا اس میں تمہارے غلاموں میں سے کوئی بھی تمہارا شریک ہے؟”

Loading

Read Previous

حضرت مریم علیہ السلام ۔ قرآن کہانی

Read Next

بلیو مَنڈے ۔ الف نگر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!