حضرت ایوب علیہ السلام
عمیرا علیم
سورۃ الانعام آیت نمبر 84,85 میں ارشاد ہوتا ہے:
’’پھر ہم نے ابراہیم ؑ کو اسحاقؑ اور یعقوبؑ جیسی اولاد دی اور ہر ایک کو راہِ راست دکھائی۔ (وہی راہِ راست جو) اس سے پہلے نوحؑ کو دکھائی تھی اور اُس کی نسل سے ہم نے داؤدؑ ، سلیمانؑ ، ایوبؑ ، یوسفؑ ، موسیٰؑ اور ہارونؑ کو (ہدایت بخشی)۔ اسی طرح ہم نیکوکاروں کو ان کی نیکی کا بدلہ دیتے ہیں۔ (اُسی کی اولاد سے) زکریاؑ ، یحییٰؑ ، عیسیٰؑ اور الیاسؑ کو (راہِ یاب کیا۔)‘‘
اس آیتِ کریمہ میں ربِ کریم نے اپنے مشہور و معروف اور برگزیدہ بندوں کا تذکرہ فرمایا ہے۔ جن میں حضرت ایوبؑ وہ ہستی ہیں جن کا ’’صبر‘‘ ضرب المثل ہے۔ تمام انبیاءِ کرام اعلیٰ خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ لڑی میں موتیوں کی طرح جُڑے ہوئے ہیں۔ مختلف مفسرین آپ کے شجرۂ نسب سے متعلق مختلف آراء رکھتے ہیں، لیکن زیادہ درست یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ حضرت ابراہیمؑ کے نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیوں کہ سورۂ النساء میں اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اے نبیﷺ! ہم نے تمہاری طرف اُسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوحؑ اور اس کے بعد کے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔ ہم نے ابراہیمؑ ، اسماعیلؑ ، اسحاقؑ ، یعقوبؑ اور اولادِ یعقوبؑ ، عیسیٰؑ ، ایوبؑ ، یونسؑ ، ہارونؑ اور سلیمانؑ کی طرف وحی بھیجی۔‘‘ (سورۂ النساء آیت نمبر ۱۶۳)۔
ابنِ عساکر کے مطابق آپ کی والدہ ماجدہ حضرت لوطؑ کی بیٹی تھیں۔ قرآن مجید میں حضرت ایوبؑ کا تذکرہ چار مقامات سورۂ النساء، سورۂ الانبیاء، سورۂ ص، سورۂ الانعام میں ملتا ہے۔
حضرت ایوبؑ ایک مال دار آدمی تھے۔آپ کی ملکیت میں وسیع و عریض کھیت، باغات، مویشی، غلام غرض ہر چیز شامل تھی۔ آپؑ ان تمام کے بلاشرکت غیرمالک تھے۔ وسیع مال و دولت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت سی ازدواج، بیٹے اور بیٹیاں عطا فرمائے تھے، لیکن جب آزمائش کا وقت آیا تو ربِ کعبہ کی مرضی سے ہر چیز چھن گئی۔ سارا خاندان تباہ وبرباد ہو گیا۔ مال و دولت، کھیت کھلیان سب کچھ ختم ہو گیا۔ آپؑ پر شدید قسم کی جِلدی بیماری نے حملہ کر دیا۔ بس دل، زبان اور آنکھیں محفوظ رہیں، لیکن آپؑ یادِ الٰہی سے غافل نہ ہوئے۔ اس تکلیف میں بھی ذکرِ الٰہی زبان سے جاری رہتا اور ربِ تعالیٰ کی تسبیح کرتے رہتے۔ بیماری طویل ہوتی گئی۔ دوست رشتہ دار سب پیچھے ہٹ گئے۔ ایک وفا شعار بیوی کا ساتھ تھا، جو اس لمحۂ فکر و غربت میں آپ کی دیکھ بھال کرتیں۔ مزدوری کرتیں، تاکہ ضروریاتِ زندگی کا سامان میسر ہو۔
مدتِ بیماری بڑھتی گئی۔ تکالیف و اذیت میں اضافہ ہوتا گیا لیکن صبر و استقامت بھی بڑھتا گیا۔ حضور نبی کریمؐ کا ارشاد ہے:
’’بلاؤں میں سب سے زیادہ سخت امتحان انبیاء ؑ کا ہوتا ہے، اس کے بعد صلحاء، (نیک لوگوں کا) پھر درجہ بہ درجہ مراتب کے اعتبار سے۔‘‘ پھر نبی پاکؐ نے فرمایا:
’’ہر شخص کی آزمائش اس کے دین کے درجات کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ جو شخص دین میں جتنا پختہ ہو گا اس کا امتحان بھی زیادہ سخت ہو گا۔‘‘
حضرت ایوبؑ اللہ کے پسندیدہ بندے تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کو خاص چیز کے لیے خالص کر لیتے ہیں۔ وہ خالص چیز ہے کیا۔۔۔؟ وہ ہے ’’آخرت!‘‘ اسی طرح حضرت ایوبؑ بھی خالص ہوئے۔ آخروی کامیابی و کامرانی کے لیے دنیاوی آزمائش سے گزارے گئے۔
حضرت ایوبؑ کی مدتِ بیماری کے متعلق علماء مختلف آراء رکھتے ہیں۔ کچھ علماء کے مطابق آپؑ تین سال یا سات سال یا اٹھارہ سال اس تکلیف دہ بیماری میں مبتلا رہے۔
آپؑ کی قومیت، زمانہ، شخصیت بلکہ ہر چیز کے بارے میں مختلف آراء ہیں۔ کسی کے خیال میں آپ بنی اسرائیل میں سے تھے کوئی آپ کو مصری قرار دیتا ہے اور کسی کے مطابق آپ عربی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔
کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ حضرت ایوبؑ ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہو گئے تھے جس کی وجہ سے آپؑ کے جسم مبارک میں کیڑے پڑ گئے اور لوگ آپؑ سے کراہت محسوس کرنے لگے۔ درحقیقت جس دور میں بھی انبیاءِ کرام مبعوث ہوئے کوئی بھی کسی ادنیٰ قبیلے یا خاندان کا فرد نہ تھا، بلکہ ان کا تو یہ کیوں کر ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوبؑ کو ایسے مرض میں مبتلا کیا ہو جس کی وجہ سے لوگ آپ سے اظہارِ نفرت کریں یہ ناقابلِ اعتبار باتیں ہیں۔ نبی کی طرف ایسی بیماری نسبت کرنا نبی کے شایانِ شان نہیں ہے۔ آپؑ بیمار تو ہوئے مگر کیڑے پڑنے والی بات بالکل غلط ہے۔ قرآن و حدیث میں کہیں بھی یہ ثابت نہیں اور قرآن کی شہادت ہی بے شک سچی ہے۔ انبیاء کی نسبت کوئی بھی بات احتیاط سے کرنے کی ضرورت ہے۔
کچھ روایات میں آیا ہے کہ حضرت ایوبؑ کی آل اولاد کو نیست و نابود کرنے میں اور آپؑ کو طرح طرح کے مصائب پہنچانے میں ابلیس کا ہاتھ ہے۔ جیسا کہ سورۂ ص ، آیت نمبر۴۱ میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں:
’’اور ہمارے بندے ایوبؑ کا ذکر کرو۔جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ شیطان نے مجھے تکلیف اور عذاب میں ڈال دیا ہے۔‘‘
کیا شیطان مردود میں اتنی طاقت و ہمت ہے کہ وہ اللہ کے صالح انبیاء پر اپنا تسلط قائم کر کے ان پر قابض ہو جائے؟ یا ان کو جو چاہے نفع و نقصان پہنچا سکے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں بیان کرتے ہیں کہ جب شیطان مردود نے حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تو حکمِ خداوندی ہوا:
’’جا نکل جا یہاں سے! بے شک تو مردود ہے اور بے شک تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت رہے گی۔‘‘
ابلیس نے رب تعالیٰ کا حکم سنا تو بولا:
’’اے پروردگار! مجھے اس دن تک مہلت دے دے جس دن مردے قبروں سے اٹھائے جائیں گے۔‘‘ حکم نازل ہوا:
’’بلاشبہ تجھ کو مہلت دی گئی اس مقررہ دن تک۔‘‘
تو آگے سے ابلیس نے کہا:
’’تیری عزت کی قسم! میں تمام اولادِ آدم کو گمراہ کروں گا۔ مگر ہاں اولادِ آدم میں سے تیرے وہ بندے محفوظ رہیں گے جو چیدہ اور مخلص ہوں گے۔‘‘
اللہ تبارک تعالیٰ کی جا نب سے شیطان کو لوگوں کے دلوں میں گھس کر وسوسے ڈالنے، خون تک گھس کر ان کو بہکانے کا اختیار دیا گیا، لیکن چیدہ لوگ مستثنیٰ قرار پائے۔ تو حضرت ایوبؑ کے بارے میں کیسے یقین ہو کہ ابلیس کو اتنے تصرفات حاصل ہوئے کہ اس نے آپؑ کا مال و متاع تباہ وبرباد کر دیا، جسمِ مبارک کو بیماری میں مبتلا کر دیا، لوگ ساتھ چھوڑ گئے۔ درحقیقت یہ امتحانات قدرت کی طرف سے تھے جو اپنے برگزیدہ بندے پر آزمائش کے لیے اتارے گئے، تاکہ لوگوں کو دکھائیں کہ ربِ تعالیٰ کے پیارے بندے کتنے صابر و شاکر ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کی سورۂ الانبیاء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور ہم تمہارے آزمانے کو تمہیں خیر کے ساتھ اور شر کے ساتھ جانچا کرتے ہیں، اور تم سب ہماری طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ دنیا کی سختی و نرمی، بیماری و تندرستی، خوشی اور غمی درحقیقت کھوٹا اور کھرا الگ الگ کرنے کے لیے ہے، اور جو تمام مصائب پر صبر کا دامن نہیں چھوڑتے ان کے لیے قرآن خوش خبری سناتا ہے:
’’اور البتہ ہم تمہیں قدرے خوف اور بھوک اور مال و جان کے نقصان اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور آپ اُن صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیجئے کہ جب اُن پر کسی قسم کی کوئی مصیبت بھی آتی ہے تو وہ یوں کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کی ملک ہیں اور ہم سب کو اسی کی طرف واپس جانا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی جانب سے خاص عنایتیں بھی ہوں گی، اور عام رحمت بھی ہو گی اور یہی لوگ صحیح راہ یافتہ ہیں۔‘‘ (سورۂ البقرہ)
اوپر بیان کردہ آیتِ کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ بیماری کی طوالت، مال و دولت کے ضیاع اور عزیز و رشتہ داروں کے منہ پھیر لینے سے میں جس تکلیف اور مشکل میں مبتلا ہوا ہوں، اس سے بڑھ کر تکلیف دہ امر یہ ہے کہ میں شیطان کے اوچھے ہتھکنڈوں سے پریشان ہوں جو مجھے اور میری زوجہ کو رب سے مایوس کرنا چاہتا ہے اور ناشکرا بنانا چاہتا ہے لیکن میں دامنِ صبر نہیں چھوڑوں گا۔
حضرت قتادہؓ فرماتے ہیں کہ حضرت انشؓ نے یہ حدیث سنائی کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:
قیامت کے دن میزانِ عدل قائم کی جائے گی، اہلِ صدقہ آئیں گے تو ان کے صدقات کو تول کر اس کے حساب سے پورا پورا اجر دے دیا جائے گا۔ پھر جب بلا اور مصیبت پر صبر کرنے والے آئیں گے تو ان کے لیے کوئی کیل اور وزن نہیں ہو گا بلکہ بغیر حساب کتاب کے ان کی طرف اجر و ثواب بہا دیا جائے گا یہاں تک کہ وہ لوگ جن کی دنیاوی زندگی عافیت میں گزری ہو گی، وہ صابرین کے اجر کو دیکھ کر تمنا کرنے لگیں گے کہ کاش! دنیا میں ان کے بدن قینچیوں کے ذریعہ کاٹے جاتے تو ہمیں بھی صبر کا ایسا ہی صلہ ملتا۔
وقت گزرتا جا رہا ہے، بیماری کی مدت طویل ہوتی جا رہی ہے۔ اللہ کے پیارے نبی سخت مصیبت اور تکلیف دہ بیماری سے گزر رہے ہیں۔ کسی بندے سے شکوہ، نہ کوئی شکایت! اپنے رب کو پکارتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے:
’’ربہ انی مسنی الفر و انت ارحم الرحمینo
ترجمہ: جب کہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے۔
نہ کوئی شکوہ، نہ کوئی شکایت۔ اس جاننے والے رب کو بتایا جا رہا ہے کہ میں بیمار ہوں اور حمد و ثناء تیرے ہی لیے ہے۔۔۔ ایسا صابر بندہ ربِ کائنات کا۔ ایسی قناعت، ایسی محبت، ایسی خودداری، ایسی ہمت، ایسی برداشت اور پکار سننے والا نہ صرف دیکھ رہا ہے بلکہ دل کے حال سے بھی باخبر ہے۔
سورۂ الزمر میں اس کیفیت کو اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
’’انسان پر جب کوئی آفت آتی ہے تو وہ اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اُسے پکارتا ہے۔ پھر جب اس کا رب اسے اپنی نعمت سے نواز دیتا ہے تو وہ اس مصیبت کو بھول جاتا ہے جس پر وہ پہلے پکار رہا تھا اور دوسروں کو اس کا ہم سر ٹھہراتا ہے۔‘‘
پھر اسی سورۃ میں ایک مقام پر حضرت محمدﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’(اے نبیؐ) کہو کہ اے میرے بندو! جو ایمان لائے ہو اپنے رب سے ڈرو۔ جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک رویہ اختیار کیا ہے ان کے لیے بھلائی ہے اور خدا کی زمین وسیع ہے۔ صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے ہاتھوں سے تخلیق کیا اور بہت پیار سے بنایا۔ ربِ تعالیٰ نے تین چیزوں کو اپنے ہاتھوں سے تخلیق فرمایا ہے۔ جن میں انسان، قلم اور جنت۔ رب کریم جب اپنے بندے سے بے حد محبت رکھتے ہیں تو حضرت ایوبؑ کی تکلیف کو کیسے برداشت کرتے ہوں گے۔ ایک ماں بچے کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ اُٹھتی ہے تو سترماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا کیوں کر ایوبؑ کی پکار نہ سنتا۔ اگرچہ ربِ تعالیٰ نے بیماری صبر آزما دی تھی لیکن جب ٹھیک کرنے پر آیا تو لمحوں میں تکلیف بھی دور کر دی۔ آزمائش کا خاتمہ کردیا۔ سورۂ ص میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’ہم نے اس کی دعا قبول کی اور جو تکلیف اسے تھی اس کو دور کر دیا۔‘‘ حکم ہوا:
’’اپنا پاؤں زمین پر مار، یہ ہے ٹھنڈا پانی نہانے کے لیے اور پینے کے لیے۔‘‘ ایک قدرتی چشمہ جاری ہو گیا۔ آپؑ نے اس سے غسل فرمایا، اس کا پانی نوش فرمایا اور رحمتِ خداوندی سے بالکل صحت یاب ہو گئے۔ یعنی آپ کو کوئی جلدی بیماری تھی جو غسل کرنے سے ٹھیک ہو گئی۔ ظاہری اور باطنی تمام مصیبتیں جاتی رہیں اور کامل تندرستی حاصل ہوئی۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوبؑ کو جنتی خلعت پہنایا اور آپ قدرے ہٹ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ آپ کی زوجہ محترمہ تشریف لائیں لیکن آپ کو پہچان نہ سکیں: کہنے لگیں اے اللہ کے بندے! وہ بیمار شخص کہاں گیا جو یہاں رہا کرتا تھا۔ کچھ دیر وہ آپ سے باتیں کرتی رہیں۔ آپؑ نے فرمایا: میں ایوب ہی تو ہوں!
کہنے لگیں: اے بندۂ خدا! کیا آپ مجھ سے مذاق کرتے ہیں؟