ثمرہ کا کمرا ۔ الف نگر

ثمرہ کا کمرا

نادیہ ناز غوری

میری کہانی تو تم سے بھی زیادہ دکھ بھری ہے۔ بھالو میاں یہ کہتے ہوئے رو پڑے۔

ِْْ”ہائے… ہائے میں مر گیا! ثمرہ نے اسکول سے واپس آکر مجھے ایسا پٹخا کہ میری کمر ہی ٹوٹ گئی، پورے جسم سے درد کی ٹیسیں اٹھ رہی ہیں۔” بستے نے درد سے کراہتے ہوئے دہا ئی دی۔ 

”ارے بھائی! ثمرہ نے تو ہاتھوں سے تسمے کھول کر مجھے اتارنا سیکھا ہی نہیں، ٹانگیں جھٹک جھٹک کر ہوا میں اڑاتی ہے۔” بستے کی فریاد سن کر جوتے میاں نے اپنے دل کی بات کی۔ آج ثمرہ کے کمرے کی تمام چیزیں باری باری دکھ بیان کر رہی تھیں۔

”ارے بھئی کوئی میرا حال بھی تو دیکھے۔” اوندھے پڑے ہوئے تھرماس نے درد بھری التجا کی۔

”تھرماس بھائی! آپ بھی اپنا دل ہلکا کرلیں۔” بکھرے ہوئے یونیفارم نے یہ کہہ کر تھرماس کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔

تھرماس بھائی بھڑک کر بولے: ”کیا بتائوں بھائیو! مجھے تو ثمرہ ایسی بے دردی سے پٹختی ہے جیسے ڈسٹ بن میں کچرا پھینکتے ہیں، حالاں کہ میں اس کا کتنا خیال رکھتا ہوں، جب اسکول میں وہ مرچ مسالوں والے پاپڑ کھا کر ‘سی سی’ کرتی ہے تو میں ہی اُس کے کام آتا ہوں اور جب اُسے پیاس لگتی ہے تب بھی میں ہی پانی پلاتا ہوں پھر بھی میرے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے”۔ تھرماس بھائی نے دل کی بھڑاس نکالی۔ 

”میں آپ کا دکھ سمجھتی ہوں بھائی!” رنگین اور خوب صورت کتاب نے تھرماس کو دلاسا دیا۔

”بھائی! میں ثمرہ کو اچھی اچھی باتیں سکھاتی ہوں،مزے مزے کی کہانیاں سناتی ہوں،پھر بھی اِدھر اُدھر ٹھکانہ ڈھونڈتی پھرتی ہوں،وہ دیکھو! وہ کتابوں کی الماری میرا کتنا خوب صورت گھر ہے مگر مجال ہے جو ثمرہ نے کبھی مجھے میرے گھر میں رکھا ہو۔” کتاب نے اپنی بپتا سنائی۔

”بالکل ٹھیک کہتی ہوکتاب بہن! ثمرہ بہت بد تمیز ہے، مجھے دیکھو! میں نے ثمرہ کو لکھنا پڑھنا سکھایا، روزانہ ہوم ورک کرواکر ٹیچر کی ڈانٹ سے بچایا، مگر میں بھی کبھی یہاں تو کبھی وہاں پڑی رہتی ہوں۔” پنسل کی آنکھ سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے۔

بھالو میاں کونے میں کب سے چپ چاپ سب کی باتیں سُن رہے تھے۔ پنسل کو روتا دیکھ کر بول ہی پڑے: ”پنسل بہن! میری کہانی تو تم سے بھی زیادہ درد ناک ہے کیوں کہ مجھے ثمرہ فٹ بال کی طرح لڑھکاتی رہتی ہے اور جب اُسے غصّہ آتا ہے تو مجھ پر ہی نکالتی ہے، میں اس لڑکی سے تنگ آگیا ہوں۔” بھالو میاں نے دہائی دی۔

وہ چپ ہوئے تو بی بطخ بولیں: ”بھائی بھالو! میرا دل چاہتا ہے کہ میں کھلونوں والی الماری میں رہوں، اپنی بہن ٹویٹی کی یاد مجھے ہر پل تڑپاتی ہے مگر یہ ثمرہ بہت بے پروا ہے۔” بی بطخ نے اپنا رونا رویا تو پنک پینتھر بول پڑا:

”بھائیو بہنو! میں تم سب کا دکھ درد سمجھتا ہوں اس لیے کہ میں بھی اسی اذیت سے گزر رہا ہوں۔ آہ!مجھے کھلونوں کی دُکان پر سجا کر شیشے کے خوب صورت گھر میں رکھا جاتا تھا، بچے مجھے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے مگر جب سے ثمرہ کے کمرے میں آیا ہوں، میری قدر ہی ختم ہوگئی، کبھی میری نازک سی دُم کھینچ لیتی ہے تو کبھی بازو گھما دیتی ہے۔ اف! درد سے بے حال ہو رہا ہوں۔” بھائی پنک پینتھر نے روتے ہوئے کہا۔

”بھائی! ہم سب کا غصّہ بجا ہے، بس بہت ظلم ہوچکا، اب ہم مزید برداشت نہیں کریں گے۔” خالو ہاتھی نے پُرجوش انداز میں کہا۔

”بالکل ٹھیک کہا خالو ہاتھی! اب فیصلے کا وقت ہے۔” بی چوہیا نے بھی خالو ہاتھی کا ساتھ دیا تو سب نے مِل کر نعرہ لگایا: ”احتجاج! احتجاج! احتجاج! اب ہم مزید ظلم برداشت نہیں کریں گے۔”

نعروں اور شور کی آواز سے ثمرہ کی آنکھ کھل گئی۔ وہ بستر سے چھلانگ لگا کر نیچے اتری تو دیکھا کہ کھلونے اور تمام بکھری چیزیں خاموش پڑی تھیں۔

اوہ! تو یہ خواب تھا؟ ثمرہ سوچنے لگی کہ واقعی وہ کسی چیز کی قدر نہیں کرتی، اس کا کمرا کتنا گندا اور بے ترتیب رہتا ہے۔ ثمرہ نے شرمندگی سے بستہ اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھا، تھرماس کھونٹی پر ٹانگا، تمام کھلونے الماری میں ترتیب سے سجائے، نیچے گری ہوئی بھالو میاں کی عینک اٹھا کر اُن کی ناک پر ٹکائی، کتابیں سمیٹ کر میز پر رکھیں، پنسلیں اٹھا کر جیومیٹری بکس میں رکھیں۔ تھوڑی ہی دیر میں ثمرہ کا کمرا صاف ستھرا، نکھرا نکھراسا دکھائی دینے لگا۔ ہر چیز اپنی جگہ پر سجی ہوئی خوب صورت لگنے لگی۔ ثمرہ نے کتاب اٹھائی اور بلند آواز سے کہانی پڑھنے لگی۔ اُسے محسوس ہوا کہ جیسے تمام کھلونے توجہ سے کہانی سن رہے اور مسکرا رہے ہیں۔ آج سے پہلے ثمرہ کو کہانی پڑھنے میں اتنا لطف کبھی نہ آیا تھا۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

شرارتی چیمپی ۔ الف نگر

Read Next

چھین لیا ہے پاکستان ۔ الف نگر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!