بن مانگے ۔ گل رانا

بن مانگے

گل رانا

“نی ماں اٹھ آج فیر جانا نی” رانی نے چڑھتے سورج کی دھوپ سے خود کو بچاتی اپنی ماں کو آواز دی۔ “جا تو چلی جا.. آج تاپ چڑھ گیا نی مینوں۔”

اپنے الجھتے بالوں کو اس نے گچھا بناتے رانی سے کہا اور جھگی نما “کمرے” کا کپڑا گرا دیا۔

رانو نے اپنا پیالا اٹھایاور چل پڑی۔ اسے مانگنا برُا لگتا تھا۔ ماں تو پھر بھی منتیں ترلوں سے دو چار جمع کر لیتی تھی وہ ایسے ہی بیٹھی رہتی۔ پیالا رکھ کے وہ آج بھی بیٹھی تھی۔ مانگے بنا کون دیتا ہے۔ اس نے خالی پیالے کو دیکھتے ہوئے سوچا..

“پر ماں بیمار ہے۔ مجھے اس بابو سے مانگنا چاہیے وہ بھلا لگتا ہے دو چار پیسے دے گا۔”

اس نے سامنے گاڑی کے پاس کھڑے بابو اور اس کے پیارے سے بیٹے کو دیکھتے ہوئے سوچا۔

اس کا بھائی بھی بڑا پیارا تھا۔ تین دن کھانے کو کچھ نہ ملا تو چل بسا۔ سر جھٹکا اور بابو کے پاس آئی۔

بنا کچھ کہے پیالہ آگے کیا اور اس نے نظر اٹھا کے اس پیاری سی بچی کو دیکھا جو مانگنے والی نہ لگتی تھی۔ پھر دوسری نظر اس کے پرانے کپڑے، گھسے جوتے اور الجھتے بالوں پہ، تیسری نظر میں حقارت جھلکنے لگی۔

ہاتھ سے جانے کا اشارہ کیا پر وہ ٹھہری رہی۔ بابو کو غصہ آنے لگا۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہتا، رانو بھاگی اور سڑک سے اس کے پیارے سے بچے کو پکڑ کے پیچھے کی طرف دھکیلا اور پھرتی سے ہٹنے ہی لگی تھی کہ ایک اور بابو کی گاڑی نے اس کے وجود کو اٹھا کے پٹخ دیا۔

اماں کہتی تھی اسے مانگنا نہیں آتا تھا۔ ایسے کوئی کچھ نہیں دیتا۔ وہ سوچتی تھی کہ کوئی تو ایسا ہو گا اللہ کا بندہ جو بن مانگے بھی دیتا ہوگا۔

وہ وہی اللہ کی بندی تھی۔ جو خون میں لت پت ساکت پڑی تھی۔ گاڑی والا بابو اپنے بچے کی چوٹ کا اندازہ لگا رہا تھا اور اماں ابھی تک بخار میں پڑی سوچ رہی تھی۔

جھلّی آج خالی ہاتھ ہی آئے گی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

وعدہ ۔ نیکی سیریز

Read Next

بھیڑ چال – انعم سجیل

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!