بارِ گراں — افشاں علی

آسمان کی نیلگوں وسعتوں میں شفق کی سرخی پھیلی ہوئی تھی۔ پرندے چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں اپنے آشیانوں کی جانب محوِ پرواز تھے۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا نے اس ڈھلتی شام کو اور بھی دل فریب بنا دیا تھا۔ غروب آفتاب کا منظر دیکھ کر یوں محسوس ہورہا تھا گویا انڈے کو کسی نیلے برتن میں توڑ کر ہولے ہولے پھینٹ دیا گیا ہو۔ ٹیوشن کے بعد شام کی چائے وہ اکثر اپنی چھت سے نظر آتے ڈوبتے سورج کے منظر میں ڈوب کر ہی پیتی تھی۔ کچھ عرصے سے یہ اس کا مشغلہ بن چکا تھا۔ اب بھی وہ چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے رخصت ہوتے سورج اور اس کی بکھری زرد کرنوں کو دیکھنے میں محو تھی، جب نیچے سے مسلسل آتی اپنے نام کی پکار نے اس سحر کو توڑ دیا اور وہ نیچے جاتی سیڑھیوں کی جانب بڑھی۔
”بیٹا! کتنی بار کہا ہے جب دو وقت آپس میں مل رہے ہوں تو یوں چھت پر نہیں جاتے، مگر تم ہو کہ سنتی ہی نہیں۔” لاؤنج میں رضیہ بیگم نے نماز سے فراغت کے بعد جا نماز تہ کرتے ہوئے سیڑھیاں اترتی اپنی اکلوتی نورِ نظر انفال کو ڈپٹا۔
”امی! آپ تو جانتی ہیں مجھے ٹیوشن کے بعد ایک یہ ہی وقت تو ملتا ہے۔” چائے کا خالی مگ ڈائننگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس نے کہا۔
”تو بیٹا! کیا اس وقت چھت پر جانا ضروری ہے؟ اس وقت کھلے آسمان تلے جانے سے بزرگ منع کرتے ہیں۔” انہوں نے ہنوز خفگی دکھائی۔
”میری پیاری سی امی! نارنجی شفق پر ڈوبتے سورج کو دیکھنا’ اف! کتنا حسین منظر ہوتا ہے۔ اگر میں آرٹسٹ ہوتی تو ڈوبتے سورج کی اس دلکشی کو کینوس پر اتار کر اپنے کمرے میں ہی سجا دیتی۔” انفال نے آنکھیں میچ کر جذب کے عالم میں کہا۔
”اچھا چلو اپنے خوابوں اور خیالوں کی دنیا سے باہر آ کر نماز پڑھ لو، وقت نکلا جارہا ہے۔” رضیہ بیگم نے قدرے نرم لہجے میں کہا اور ڈائننگ ٹیبل پر موجود خالی مگ اٹھائے کچن کی جانب چل دیں، جب کہ انفال وضو کرنے چلی گئی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
کھلے صحن سے ملحق کمرا، جو گیسٹ روم کے طور پر استعمال ہوتا تھا، اب گزشتہ کچھ ماہ سے ٹیوشن روم بن چکا تھا ۔
”بیٹا! صائمہ آئی ہیں’ تمہارا پوچھ رہی ہیں۔” انفال جو دل جمعی سے آٹھویں جماعت کی اسٹوڈنٹ کو maths سمجھانے میں مصروف تھی’ اچانک رضیہ بیگم کی آواز پر چونکی۔
”خیریت؟” بال پین رجسٹر پر رکھتے ہوئے اس نے گردن گھما کر امی کی جانب دیکھا۔
”ہاں! شاید اپنی بیٹی کے لیے ٹیوشن کی بات کرنی ہے۔” رضیہ بیگم نے اندازہ لگایا۔
”فلک! بیٹا آپ ذرا باقی بچوں کو دیکھ لیجیے، میں کچھ دیر میں آتی ہوں۔” انفال میٹرک کی ایک اسٹوڈنٹ کو اپنے پیچھے باقی بچوں کی ذمے داری سونپ کر امی کے ہم راہ کمرے سے باہر نکلی اور سٹنگ روم کی جانب بڑھی، جہاں صائمہ باجی اپنی بیٹی کے ہم راہ اس کی منتظر تھیں۔ وہ واقعی اپنی بیٹی کے ٹیوشن کے لیے ہی آئیں تھیں۔
صائمہ باجی ان کے پڑوس میں نئی نئی آئی تھیں۔ اپنی اسٹڈیز اور پھر ٹیوشنز کی مصروفیات کی وجہ سے اسے کافی مشکلات کا سامنا تھا جس کے سبب اس نئی پڑوسن سے ملاقات نہ ہوپائی تھی۔ امی سے ہی اس نے وقتاً فوقتاً صائمہ باجی ذکر سُنا تھا۔ کچھ ماہ پہلے انفال کے گھر کے بالکل ساتھ تین منزلہ اپارٹمنٹ بنا تھا جس کے گراؤنڈ فلور پر صائمہ باجی رہنے آئی تھیں۔ اٹھائیس سالہ صائمہ باجی اپنی سات سالہ بیٹی اور والدہ نصرت خالہ کے ساتھ رہتی تھیں۔ صائمہ باجی جب چھوٹی تھیں، تب ہی ان کی امی نے اپنے شوہر سے طلاق لے لی اور پھر اپنے چار بھائیوں کے تعاون سے اپنی بیٹی کو ناصرف پالا پوسا بلکہ تعلیم بھی دلوائی اور اپنے بھتیجے کی پسند کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس کے بے حد اصرار پر صائمہ کو اس سے بیاہ دیا۔ مگر افسوس، بیٹی نے بھی ماں جیسی قسمت پائی تھی ۔ وہ بھی شادی کے محض ڈھائی سال بعد طلاق کے کاغذ اور ایک سالہ بسمہ کو گود میں لیے پھر سے ماں کے پاس چلی آئی جسے اب دونوں ماں بیٹی مل کر پال رہے تھے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جہاں زخم لگا ہو’ نادانستہ طور پر چوٹ بھی بار بار اسی جگہ لگتی ہے۔
٭…٭…٭
بسمہ بھی اس کے پاس ٹیوشن آنے لگی۔ وہ ذہین بچی تھی۔ سات سال کی عمر میں کلاس ون کی اسٹوڈنٹ تھی۔ کلاس ورک، ہوم ورک، ٹیوشن ورک یہاں تک کہ ٹیسٹ بھی اتنی صفائی و مہارت سے کرتی کہ کبھی کبھی انفال بھی حیران رہ جاتی۔ اسے ہمیشہ سے ایسے ہی بچے متاثر کرتے تھے اور بسمہ کی صورت اس کے اسٹوڈنٹس میں ایک اچھا اضافہ ہوا تھا۔
ماہانہ ٹیسٹ ختم ہونے کے بعد اسکولوں میں تین روزہ چھٹی ہونے پر انفال نے بھی ٹیوشن سے چھٹیاں دے دیں تھیں تاکہ بچوں کے ساتھ ساتھ اسے بھی تھوڑا ذہنی سکون مل جائے۔اِس نے آج صبح ہی سے گھر کی مکمل صفائی کی مہم شروع کر رکھی تھی جب کہ رضیہ بیگم اپنی لاڈلی بیٹی کے لیے نہاری بنانے میں مصروف تھیں۔ پورے گھر میں اُڑتی مٹی کے ہم راہ نہاری کی خوشبو بھی پھیلی ہوئی تھی۔ دروازے پر بجتی مسلسل گھنٹی کی آواز پر وہ اپنا حلیہ درست کرتی گیٹ کی طرف بڑھی جہاں صائمہ باجی کھڑی تھیں۔
”ارے آپ؟ آئیے آئیے۔” اس نے خوش دلی سے انہیں اندر آنے کی دعوت دی۔
”لگتا ہے گھر کی صفائی میں مصروف تھی’ سوری انفال تمہیں ڈسڑب کیا۔ دراصل مجھے کچھ ضروری بات کرنی تھی’ اسی لیے اس وقت چلی آئی۔” صائمہ باجی نے اندر آتے ہوئے کہا۔
”نہیں نہیں! کوئی بات نہیں، آپ اندر آئیے۔” وہ صائمہ باجی کو اپنے ہم راہ اندر لے آئی اور صوفے پر بیٹھنے کو کہا۔ رضیہ بیگم بھی کچن سے آ گئیں ۔
”آؤ بیٹا! خیریت تو ہے؟”
”جی آنٹی! سب خیریت ہے۔ بس انفال سے تھوڑی بات کرنی تھی۔”
”سب ٹھیک تو ہے نا؟ کوئی مسئلہ ہورہا ہے میرے پڑھانے میں؟” انفال نے یک دم پریشانی سے پوچھا جب کہ یہ ہی سوال رضیہ بیگم کے چہرے پر بھی رقم تھا۔ حالاں کہ بسمہ کو ٹیوشن آتے ابھی محض پندرہ دن ہی ہوئے تھے۔
”ارے نہیں نہیں یار ماشا اللہ تمہاری ٹیوشن سے تو میں بہت مطمئن ہوں۔ وہ دراصل کل سے اسکول میں چھٹیاں ہیں اور تم نے بھی ٹیوشن سے چھٹیاں دے دی ہیں۔ اب بسمہ سارا دن گھر میں تنگ کرتی رہے گی تو میں سوچ رہی تھی کہ تم چاہے صبح کے وقت تھوڑا سا ٹائم نکال کر اسے پڑھا دیا کرو۔” صائمہ باجی کی آمد سے زیادہ ان کی بات خلافِ توقع تھی۔
”مگر اسکول بھی بند ہے’ کوئی ہوم ورک بھی نہیں ہوگا تو پھر یہ کیا کرے گی؟” انفال نے آہستگی سے کہا۔
”ہاں وہ تو ہے’ مگر جب اسکول کھلے گا تو نیا ٹرم شروع ہوجائے گا۔ تب تک تم پچھلے کام کی دہرائی کروا دو تاکہ اسے یہ پکا یاد ہوجائے۔”
مگر بسمہ کو تو ماشاء اللہ سب کچھ فرفر یاد ہے اور ویسے بھی نئے ٹرم کے پیپرز میں پچھلا توکچھ بھی نہیں آتا۔ پھر بچی پر خوامخواہ بوجھ پڑے گا۔” انفال نے انہیں سمجھایا ۔
”ہاں بسمہ بہت ہوشیار ہے، یہ کور کرلے گی۔ تم بس کسی بھی ٹائم ایک گھنٹا ہی نکال کر پڑھا دو، باقی میں خود دیکھ لوں گی۔” وہ انفال کی طرف سے دی جانے والی ٹیوشن کی چھٹیوں کو بحال کرنے پر بہ ضد تھیں۔
”چلیں ٹھیک ہے۔ آپ ساڑھے تین بجے تک بھیج دیجیے گا۔”
”نہیں! تب تو بسمہ سوئی ہوئی ہوتی میں ایسا کروں گی ٹیوشن کے ٹائم پر ہی بھیج دیا کروں گی۔”
”جی ٹھیک ہے۔”
بالآخر انفال نے ہتھیار ڈال دیے۔
”کیا ضرورت تھی ہامی بھرنے کی؟ جب سکول سے چھٹیاں ہوئیں ہیں تب انہیں مسئلہ نہیں ہوا اور تم نے جو دو تین دن کی چھٹیاں دے دی ہیں، وہ انہیں ہضم نہیں ہو رہیں۔” صائمہ باجی کے جانے کے بعد رضیہ بیگم کے چہرے پر خفگی نمایاں تھی۔
”کوئی بات نہیں امی! وہ ابھی نئی ہیں، ایسے منع کرنا اچھا نہیں لگتا اور پھر ہماری پڑوسن بھی ہیں۔” انفال نے پھر سے ڈسٹنگ شروع کرتے ہوئے جواب دیا۔
”لیکن سوچنے والی بات تو ہے کہ میں نے ٹیوشن کی چھٹی تو سب کو دی ہے اور ان کے سوا کسی کو بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔” انفال نے بھی کب سے ذہن میں مچلتے ہوئے سوال کو زبان دی۔
”بس بیٹا! وہ تھوڑی سی بے صبری اور جذباتی ہے۔ تمہاری بات بھی اپنی جگہ صحیح ہے۔ ابھی نئی ہے اور پھر پڑوسن بھی، تم انکار کردیتیں تو بلاوجہ بدزن ہوجاتی۔” رضیہ بیگم نے بھی بالاخر انفال کی بات سے اتفاق کیا جب کہ انفال بھی پر سوچ انداز میں پھر سے صفائی میں مشغول ہوگئی۔
٭…٭…٭
انفال نے جس بات کو معمولی سمجھ کر درگزر کیا تھا، وہ صرف آغاز تھا۔ اس دن کے بعد سے تو صائمہ باجی نے گویا ان کے گھر پر ڈیرے ہی ڈال لیے۔ کبھی اسکول سے فوراً ہی واپسی پر اسکول ڈائری لیے چلی آتیں، تو کبھی ٹیوشن یا اسکول میں ہوئے کسی ٹیسٹ کی کاپی تھامے کچھ پوچھنے کی غرض سے۔ اب ایسا بھی نہیں تھا کہ انفال صحیح سے ٹیوشن نہیں پڑھاتی بلکہ وہ تو بہت محنت اور توجہ کے ساتھ دل لگا کر پڑھاتی تھی مگر معلوم نہیں صائمہ باجی ازل سے بے صبری تھیں یا بیٹی کی پڑھائی کو لے کر اتنی پوزیسیو ہوجاتی تھیں۔ ہر وہ کام جو بسمہ اسکول میں کرکے آتی یا پھر ٹیوشن میں انفال کرواتی، وہ سب صائمہ باجی کو ناصرف تفصیلاً معلوم کرنا ہوتا بلکہ سمجھنا بھی لازمی ہوتا۔ گویا بیٹی کے ساتھ ساتھ ازسر نو وہ خود بھی پڑھائی کررہی تھیں۔ گزشتہ ایک ماہ میں تو صائمہ باجی کے معمولی و غیر معمولی باتوں پر کوئی بیس چکر لگ چکے تھے اور اُس دن تو حد ہی ہوگئی۔ انفال کا موڈ بہت خوش گوار تھا اور وہ اسی خوش گوار موڈ کے ساتھ ٹیوشن پڑھا رہی تھی۔
”انفال باجی! کل اسکول میں اردو قواعد کی ٹیچر ضرب الامثال اور محاورات کا ٹیسٹ لیں گی۔”
”ٹھیک ہے! آپ یاد کرلو اور ان کے مطلب سمجھ لو، پھر میں ٹیسٹ لوں گی۔” انفال نے ڈائری دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
”انفال باجی! مجھے یاد ہے، آپ ٹیسٹ لے لیجیے۔” انیس الرحمان نے اپنی ٹیسٹ کاپی انفال کی سمت بڑھائی۔ انفال نے ٹیسٹ لکھ کر اس کے حوالے کیا اور بسمہ کو verb کی تعریف سمجھاکر یاد کروانے لگی۔ خلاف معمول، دس منٹ بعد ہی بسمہ کو verb نہ صرف سمجھ آچکا تھا بلکہ تعریف بھی یاد ہوچکی تھی۔ وہ اب باقی بچوں کو پڑھانے میں مشغول تھی جب انیس الرحمان بھی اپنی ٹیسٹ کاپی لے کر چلا آیا۔ انفال نے چیک کرنے کی غرض سے اس کے ہاتھ سے ٹیسٹ کاپی لی اور اگلے ہی لمحے نہ چاہتے ہوئے بھی ہنسی کے فوارے اس کے منہ سے پھوٹ پڑے۔
”انیس! یہ کیا لکھا ہے؟” ہنسی کو کنٹرول کرتے ہوئے اس نے کچھ لائنز کو ہائی لائیٹ کرتے ہوئے انیس سے پوچھا۔
”انفال باجی! محاورے اور ضرب الامثال۔” معصومیت سے جو جواب ملا، اس کا نظارہ ٹیسٹ کاپی پر بھی نظر آرہا تھا۔ انفال نے نظرِثانی کی۔ محاورہ تھا،”تارے توڑنا۔” جس کا جواب کچھ یوں تھا۔
”سُپرمین مون کے پاس جاکے تارے توڑ کر لاسکتا ہے۔”
”دھوبی کا کتا، نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔” اس کا مطلب ہے وہ کتا جو دھوبی کے گھر یا گھاٹ کے باہر ہوتا ہے۔”
”اُف! آج کل کے بچے بھی نا۔” انفال نے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے پہلے انیس الرحمان کو ڈپٹا اور پھر جملے صحیح کرکے لکھوانے لگی۔ تب ہی صائمہ باجی کی آمد ہوئی۔ رضیہ بیگم شاید نمازِ مغرب پڑھنے میں مصروف تھیں، اس لیے انفال نے ٹیوشن کے بچے کو ہی گیٹ کھولنے کے لیے بھیجا جو اپنے ساتھ صائمہ باجی کو لیے ٹیوشن روم میں چلا آیا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

مٹی کے پتلے — قرۃ العین خرم ہاشمی

Read Next

رین کوٹ — ہاشم ندیم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!