تانیہ نے انگلش لڑیچرمیں ماسٹرز کررکھا تھا اور وہ ٹالسٹائی ، تھامس ہارڈی اور ورجینا وولف کے ناولز کی شیدائی تھی۔ دانش کو ایسے لگا کہ یہی ہے وہ چہرہ ، یہی ہے وہ لڑکی کہ جس کے لیے وہ تیس سالوں سے منتظر تھا ۔ اُسے ایسی ہی کسی لڑکی کی تلاش تھی۔ اب اُس کے دن رات بدل گئے، اُسے اب ٹائپنگ کی ٹھک ٹھک سے چِڑ بھی نہ ہوتی تھی۔ وہ اپنے افسر کا کام خوشی خوشی کرنے لگا تھا اور اب اُسے ناولز میں لکھی کہانیاں سچ لگنے لگی تھیں۔ اُسے تانیہ سے محبت ہوگئی تھی جس کا وہ سالوں سے منتظر تھا اُس نے نئے سرے سے اینا کرینینا ، ٹو دی لائٹ ہاوس، دی مئیر آف کاسٹر برج وغیرہ کو پڑھا۔اب وہ ہر شام چائے پر تانیہ سے مختلف کتابوں پر گفتگو کرتا۔ اُسے لگتا کہ تانیہ کو بھی اُس سے محبت سی ہوگئی ہے کہ وہ جب بھی شام کو پہنچتا تو وہ ایک نئی کتاب پر گفتگو کے لیے اس کی منتظر ہوتی ،دانش کا خیال تھا کہ بغیر محبت کے بھلا آپ کسی کے منتظر کیسے ہوسکتے ہیں؟ سو تانیہ کو بھی اُس سے محبت ہوگی۔اور یہ خیال اسے مسرور کردیتا۔
جوںجوں تانیہ صاحبہ کی واپسی کے دن قریب آتے جارہے تھے، وہ پریشان سا رہنے لگا ،وہ سوچتا کہ اُسے اپنی محبت کا اظہار کردینا چاہیے، وہ ساری ساری رات سوچتا رہتا آخر وہ ہی کیوں نہیں کہہ دیتی، لیکن پھر وہ کہتا ایسا بھلا کیسے ممکن ہے، وہ لڑکی ہے اور مشرق میں لڑکیاں اظہارمیں پہل نہیں کرتیں۔ وہ سوچتا کہ وہ ضرور اُس کے اظہارکی منتظرہوگی ۔
پھر وہ دن آگیا کہ جب تانیہ نے واپس جانا تھا۔ جونیئر کلرک اپنے کمرے میں شیشے کے سامنے کھڑا ہوکر اظہارِمحبت کے لیے الفاظ تلاش کررہاتھا۔ اُسے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اس کے پاس سارے الفاظ ختم ہوگئے ہیں اور اسے اظہار کے لیے نئے الفاظ ایجاد کرنا پڑیں گے۔ اُس نے کمرے میں پڑی بے شمارکتابوں کی جانب دیکھا کہ شاید وہ کسی کتاب کے الفاظ دہرا سکے۔
” نہیں! یہ ٹھیک نہیں آخر اس میں اتنی پریشانی کی کیا بات ہے؟ اُس نے سوچا وہ جاکرکہہ دیتا ہے مجھے تم سے محبت ہے اور میں تم سے شادی کرناچاہتاہوں، بس اتنی سی بات ہے۔ اُس نے خود کو حوصلہ دیا اور سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گیا۔تانیہ سامان پیک ہوچکا تھااور منصور بھائی ٹیکسی لانے گئے ہوئے تھے جب کہ بھابی کچن میں تھیں۔
” تو آپ جارہی ہیں ؟“اس نے ڈرتے ڈرتے بات کا آغاز کیا۔
”جی دانش صاحب! جانے کا وقت ہوگیا ، یقینا آپ جیسے ادبی دوست کی کمی محسوس ہوگی وہ ٹالسٹائی اور ورجینیا وولف کے ناولز پر کی گئی ساری باتیں بہت یاد آئیں گی، بلاشبہ بہت اچھا وقت گزرا یہاں “۔ تانیہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے بڑے دوستانہ لہجے میں اس سے بات کررہی تھی۔
” بہت شکریہ ! اور وہ، وہ“ الفاظ گلے میں اٹک گئے۔
” جی کہیے! “تانیہ نے کہا۔
”وہ منصور بھائی کہاں ہیں ؟“ معلوم نہیں اُس نے یہ بات کیوں پوچھی تھی حالاں کہ اُسے معلوم تھا کہ وہ ٹیکسی لینے گئے ہیں ۔
” وہ ٹیکسی لینے گئے ہیں “تانیہ نے اسے بتایا۔
” ہاںوہ تو ٹیکسی لینے گئے ہیں۔ “ اُس نے لفظ دہرائے۔
” وہ میں کہنا چاہتا تھا کہ ۔۔۔کہ۔“ جونیئر کلرک کی Vocabularyختم ہوچکی تھی اور ذہن میں ٹھک ٹھک ٹھک کی آواز گونج رہی تھی۔
اُسے شدت سے احساس ہوا کہ اگر آج وہ کچھ نہ کہہ سکا تو تمام عُمر خود کو کبھی معاف نہیں کرسکے گا۔اُس نے الفاظ کو پھرسے ترتیب دیا اور ایک لمبا سانس لیا۔ ابھی اُس نے ایک لفظ بھی ادا نہ کیا تھا کہ تانیہ بول پڑی:
”مجھے بھی آپ سے کچھ کہنا تھا، دسمبر میں منصور بھائی اور ثانیہ آپی میری شادی پر بہاول پور آئیں گے تو آپ بھی ضرور آئیے گا؟“معلوم نہیں وہ اور کیا کیا کہہ رہی تھی، دانش کے دماغ میں تو بس ٹھک ٹھک ٹھک کی آواز چل رہی تھی۔
” آپ آئیں گے نا؟“تانیہ نے قدرے اونچی آواز میں پوچھا
اور وہ کچھ کہے بغیر وہاں سے نکل آیا اور سڑکوں پر بے مقصد دوڑنے لگا۔ وہ پرندوں کیسا تھ اڑنا چاہتا تھا ، اُسے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے وہ اب بھی گاوں میں نہر کنارے بیٹھا ہے اورسوچ رہا ہے کہ کاش! وہ پرندہ ہوتا۔۔۔۔
ختم شُد
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ