ایک خط
وردہ فاروق
”یو وِن” کمپیوٹر اسکرین پر جگمگایا۔ اُس کے ساتھ ہی عبداللہ نے اپنی انگلیوں سے وِکٹری کا نشان بنا کر ہاتھ ہوا میں لہرایا پھر وہ اگلے رائونڈ کے لیے مختلف بٹن دبا نے لگا۔ اتنے میں اُس کی امّی نے کچن سے آواز دی: ”چلو عبداللہ! بیٹااب ا ٹھ جائو۔ پچھلے دو گھنٹوں سے تم کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے ہو۔”
امّی کا حکم نامہ سن کر عبداللہ جھنجھلایا : ”جی! امّی بس پانچ منٹ اور…”
”ارے کیا ہوگیا ہے تمہیں! آدھے گھنٹے سے تم یہی کہہ رہے ہو۔ عصر کی نماز کا وقت نکلا جا رہا ہے۔” امّی نے اُسے ڈانٹا۔ عبداللہ کو امّی کا یوں بار بار ٹوکنا برا لگا۔ ”کیا مصیبت ہے! پلیز تھوڑا صبر کریں ناامّی! میں عصر کی نماز ادا کر لوں گا۔” یہ کہہ کرعبداللہ اپنی گیم میں ایسا مشغول ہوا کہ اِسے وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔ عصر کی نماز قضا ہوگئی لیکن اُسے کوئی افسوس نہ ہوا۔
”عبداللہ ! کیا تم نے عصر کی نماز ادا کرلی تھی؟” رات کھانے کی میز پر امّی نے اس سے پوچھا۔ عبداللہ نے اپنی کم بختی دیکھی تو فوراً جھوٹ کہہ دیا: ”جی امّی! میں نے نماز ادا کرلی تھی۔” یہ روز ہوتا تھا۔ عبداللہ کھیل کود کے دوران نمازکا وقت ضائع کر دیتا پھر امّی کے پوچھنے پر جھوٹ بول دیتا کہ نماز ادا کرلی ہے۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد اور ایک ضدّی بچہ تھا۔
وہ جب بھی کمپیوٹر کے سامنے بیٹھتا توگیمزکے علاوہ سب کچھ بھول جاتا۔ نہ اسے وقت کا احساس رہتا اور نہ ہی نماز کی فکر۔ اُس کی امّی اسے سمجھاتیں کہ نماز بہ حیثیت مسلمان ہم پر فرض ہے اور یہ حدیث بھی سناتیں کہ آپۖ نے فرمایا: ”نماز بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے۔” لیکن عبداللہ اُن کی نصیحتوں کو ایک کان سے سنتا اور دوسرے سے نکال دیتا۔ جب اُنہوں نے اِس پر سختی کرنا شروع کی تو وہ جھوٹ بولنے لگا۔ عبداللہ گھر سے یہ کہہ کر نکلتا کہ وہ نماز کے لیے مسجد جا رہا ہے لیکن مسجد جانے کے بجائے گلی میں ہی بچوں کے ساتھ کھیلنے لگتا۔
اُس رات وہ دیر تک کمپیوٹر پر گیمز کھیلتا رہا پھر عشا کی نماز ادا کیے بغیر ہی سوگیا۔ رات کے پچھلے پہر تیز ہوا چلنے سے عبداللہ کی آنکھ کھل گئی۔ وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھا اور کھڑکی بند کرنے کے لیے بستر سے اُترا۔ اچانک کھڑکی سے ایک خاکی لفافہ اندر آگرا۔ عبداللہ نے کھڑکی بند کر کے لفافہ اُٹھایا لیکن اُس پر اپنا نام لکھا دیکھ کر اُس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ وہ پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا اور خط پڑھنے لگا۔
پیارے عبداللہ!
امّید ہے کہ تم خیریت سے ہوگے۔ ہمیشہ کی طرح تم نے آج بھی مجھے خوش کردیا۔ مجھے تم جیسے ہی بچے چاہئیں۔ سنو! میں ابلیس ہوں۔ دنیا مجھے شیطان کے نام سے بھی جانتی ہے۔ میں جنت سے نکال دیا گیا تھا۔ اس دن سے میں نے یہ طے کرلیا کہ میں اب اللہ کے بندوں کو بہکائوں گا۔ انہیں اللہ کے حضور سجدہ کرنے سے روکوں گا۔ آخر میں بس میں یہی کہنا چاہوں گا کہ تم ہمیشہ ایسے ہی رہنا۔ کبھی بھی نماز کی پابندی نہ کرنا اور جب تمہاری امّی تم سے پوچھیں تو اُن سے یونہی جھوٹ کہہ دیا کرنا۔
فقط: تمہارا دوست ابلیس
خط پڑھتے ہی عبداللہ کی آنکھ کھل گئی۔ اِسے پسینہ آنے لگا۔ ساتھ ہی آنکھوں سے آنسو نکل کر اِس کا چہرہ تر کرنے لگے۔ وہ برُی طرح شرمندہ تھا کیوں کہ اُس نے اپنے رب کو ناراض کرکے شیطان کو خوش کیا تھا۔ اتنے میں اذانِ فجر کی آواز گونجی۔ اُس نے فوراً وضو کیا، فجر کی دوسنتیں گھر پر ادا کیں اور فرض کے لیے مسجد روانہ ہوگیا۔ اُس نے اللہ سے گڑگڑا کے معافی مانگی اور عہد کیا کہ اب وہ کبھی بھی اپنے سوہنے ربّ کی نافرمانی نہیں کرے گا۔ ہمیشہ وقت پر نماز ادا کرے گا اور کبھی بھی اپنی امّی سے جھوٹ نہیں بولے گا۔
٭…٭…٭
2 Comments
ایک خط کہانی پڑھی بہت اچھی لگی۔اگر میں کہانی لکھ کر بھیجوں تو کیا وہ شاٸع ہو جاۓ گی
Aik khat Kahani Pari mujay bhot achi lagi