اشتیاق احمد بچوں کے جاسوسی ناولوں کا ایک بے حد بڑا نام ہے، ان کے لکھے گئے ناول بچوں اور بڑوں دونوں میں یکساں مقبول تھے۔ انہوں نے آٹھ سو سے زائد ناول لکھے جو اردو زبان اور کسی اور زبان میں کسی مصنف کے ہاتھوں لکھے گئے ناولوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔انہوں نے اپنا تحریری سفر بچوں کے لئے کہانیاں لکھنے سے آغاز کیااور اپنا پہلا ناول ١٩٧٣ء میں لکھا۔ ان کی مشہور ترین سیریز انسپکٹر جمشید سیریز ہے ، اس کے علاوہ انہوں نے انسپکٹر کامران سیریز اور شوکی برادرز کے ناولز بھی لکھے لیکن انسپکٹر جمشید سیریز کو قارئین میں بے حد پذیرائی ملی۔
انسپکٹر جمشید سیریز ایک جاسوس انسپکٹر جمشید اور ان کے تین بچوں محمود، فاروق اور فرزانہ کے گرد
اشتیاق احمد کا انتقال ٢١٠٦ء میں ہوا اور انتقال سے کچھ عرصہ پہلے ہی ان کا آخری ناول '' عمران کی واپسی'' شائع ہوا تھا جو لوگوں میں بے حد پسند کیا گیا تھا۔
”ابا جان! گاڑی روکیے ذرا۔“ فرزانہ کی آواز گاڑی میں گونج گئی۔
انسپکٹر جمشید نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا:
”نہیں فرزانہ! گاڑی نہیں رُک سکتی۔ تمہیں معلوم ہے آئی جی صاحب نے فوراً دارالحکومت پہنچنے کا حکم دیا ہے۔“
”لیکن ابا جان! اس وقت ہم جس جگہ سے گزر رہے ہیں، اس جگہ ضرور کوئی بات ہے۔ میرے کان مجھے خبردار کررہے ہیں اور آپ جانتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے مجھے کیسے کان عطا فرمائے ہیں۔ آپ بس ایک آدھ منٹ کے لیے گاڑی روک دیں۔ میں ذرا کان لگا کر غور کرلوں۔ اگر یہ میرا وہم ہوا تو ہم فوراً آگے روانہ ہو جائیں گے۔“
”اور اگر یہ تمہارا وہم نہ ہوا تو تب بھی ہم نہیں رُک سکیں گے فرزانہ! اس لیے کہ….“
”جی ہاں! میں جانتی ہوں، اس صورت میں بھی آپ نہیں رکیں گے۔ آئی جی صاحب کو شہر میں آپ کی اچانک ضرورت آگئی ہے، لیکن میں اپنے کان کا کیا کروں؟“
”ان میں اُنگلیاں دے لو۔“ فاروق نے مشورہ دیا۔
”تم چپ رہو ورنہ میں اُنگلیاں تمہارے کانوں میں دے دوں گی۔“ فرزانہ کی آواز میں جھنجھلاہٹ تھی۔
”لیکن اس سے کیا ہوگا؟“ محمود نے حیران ہوکر کہا۔
”اچھا بابا! میں گاڑی روک رہا ہوں، لیکن صرف تیس سیکنڈ کے لیے۔“ انسپکٹر جمشید نے جھلّا کر کہا۔
”بہت بہت شکریہ ابا جان! ابا جان ہوں تو آپ جیسے۔“
”حد ہوگئی! یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی۔“ انہوں نے منہ بنایا۔
گاڑی کے رُکتے ہی فرزانہ نے کان لگا دیے، پھر بُری طرح اُچھلی۔
”میرے کانوں کو وہم نہیںہوا تھا۔“
”دھت تیرے کی!“ محمود نے جھلّا کر اپنی ران پر ہاتھ مارا۔
”کیا ہے فرزانہ! جلدی بتاﺅ، تیس سیکنڈ کے بجائے ایک منٹ ہو چلا ہے۔“
”یہاں…. ابا جہاں! یہاں کوئی عورت بہت درد بھرے انداز میں رو رہی ہے۔“
”اوہ!“ ان سب کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔
”اور تم اب اس عورت سے ملے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ تب پھر تم اُتر جاﺅ۔ دارالحکومت یہاں سے صرف ڈیڑھ گھنٹے کے راستے پر ہے۔ فارغ ہوتے ہی مجھے فون کردینا، اکرام کے کسی ماتحت کو بھیج دوں گا۔“
”جی بہت بہت شکریہ!“ فرزانہ نے خوش ہوکر کہا اور گاڑی کا دروازہ کھولتے ہی اُتر گئی۔
”آﺅ! کیا تم نہیں اُترو گے؟“ فرزانہ جھلّا اُٹھی کیوں کہ محمود اور فاروق ٹس سے مس نہیں ہوئے تھے۔
”رونے کی آواز تمہارے کانوں نے سنی ہے، ہمارے کانوں نے نہیں۔ ہم کیوں اُتریں؟“
”کوئی پروا نہیں۔ تم نہیں اُترنا چاہتے، نہ اُترو۔“
”بری بات ہے محمود! فاروق! اب یہ بے چاری اکیلی یہاں ٹھہرے گی؟“
”تو اسے چاہیے نا ابا جان اپنے کانوں سے اتنا کام نہ لیا کرے۔ نہ راستہ دیکھتی ہے، نہ محل۔“
”لیجیے! محاورے کی بھی ٹانگ توڑ دی۔ نہ موقع دیکھتی ہے نہ محل۔“ فاروق ہنسا۔
”وہ تم جو دیکھ لیتے ہو۔“ فرزانہ بھی ہنسی۔
”اچھا بابا!“ محمود نے جل کر کہا اور دوسری طرف کا دروازہ کھول کر کار سے اُتر گیا۔ ساتھ ہی فاروق بھی اُترا۔
”اچھا بھئی! اللہ حافظ۔ موبائل آن رکھنا۔“ انسپکٹر جمشید نے کہا اور کار آگے بڑھا دی۔
”ضرور! ان شاءاللہ ابا جان!“
وہ کار کو نظروں سے اوجھل ہوتے دیکھتے رہے۔ تین دن پہلے وہ ایک پُرفضا مقام کی سیر کے لیے گھر سے نکلے تھے۔ ابھی ایک دن ہی ہوا تھا کہ آئی جی صاحب کی طرف سے طلبی ہوگئی اور راستے میں فرزانہ کے کانوں نے پروگرام ہی بدل کر رکھ دیا۔
”آواز اس طرف سے آرہی ہے۔“ فرزانہ نے اشارہ کیا۔ اس طرف کچے پکے بہت سے گھر نظر آرہے تھے۔
”اس طرف سے آرہی ہے تو اسی طرف جائیں گے۔“ فاروق نے کندھے اُچکائے۔
اب تینوں اس سمت میں چلے۔ گویا آبادی سڑک کے کنارے ہی واقع تھی۔ آگے بڑھنے پر انہوں نے محسوس کیا وہ کوئی صاف ستھرا اور مارڈرن سا قصبہ تھا کیوں کہ زیادہ تر گھر اچھے اور خوب صورت تھے۔ کچے گھر بہت کم تھے۔
وہ صبح سویرے کا وقت تھا۔ ابھی تو وہ ناشتا بھی نہیں کرسکے تھے۔ سورج بھی لمحہ بہ لمحہ اوپر ہورہا تھا۔ موسم حد درجے خوش گوار تھا، نہ گرمی تھی نہ سردی۔ اکتوبر کا موسم ایسا ہی ہوتا ہے۔
”تت…. تو کیا تمہیں اب بھی آواز آرہی ہے فرزانہ؟“ محمود نے پوچھا۔
”بالکل آرہی ہے۔“
”اللہ تعالیٰ نے تمہیں حیرت انگیز کان دیے ہیں۔“
”شکر ہے اس کا۔“ فرزانہ بھرپور انداز میں مسکرائی، پھر اس نے چونک کر کہا۔
”آواز نزدیک آتی جارہی ہے۔ گویا ہم اس خاتون تک پہنچنے ہی والے ہیں، لیکن حیرت ہے۔“
”حیرت کس بات پر؟“ فاروق نے اس کی طرف دیکھا۔
”اس پر کہ قصبے کے لوگ، آس پاس کے لوگ اس کے دکھ کا علاج کیوں نہیں کررہے۔ ہم نے تو سُنا ہے قصبوں اور دیہاتوں کے لوگ ایک دُوسرے کے دکھ درد میں خوب شریک ہوتے ہیں۔“
”ہاں! یہ بات تو حیرت انگیز ہے۔ خیر معلوم ہو جاتا ہے۔“
جلد ہی اُانہوں نے جان لیا آواز کس گھر سے آرہی تھی۔ وہ ایک چھوٹا کچا گھر تھا، شاید ایک کمرے کا۔ کھلے دروازے سے صحن صاف نظر آرہا تھا اور اس صحن میں ایک چھوٹی سی چارپائی پر لیٹی ایک بوڑھی عورت رو رہی تھی۔ تینوں دروازے کے باہر رُک گئے۔
”السلام علیکم اماں!“ فاروق نے نرم اور محبت بھری آواز میں کہا۔
اچانک وہ چپ ہوگئی۔ وہ ایک جھٹکے سے اُٹھ بیٹھی اور پھر اس نے چلّانے کے انداز میں کہا:
”میرا بیٹا آگیا…. میرا بیٹا گیا۔“
دوسرے ہی لمحے وہ چارپائی سے اُٹھی اور ننگے پیروں دروازے کی طرف بڑھی، پھر اس نے فاروق کو بازوﺅں سے پکڑ کر جھنجھوڑ ڈالا:
”میرا بیٹا…. میرا بیٹا! تو کہاں چلا گیا تھا؟ دیکھ میں رو رو کر پاگل ہوگئی ہوں۔“
٭….٭….٭
پھر اس کی نظر فاروق کے چہرے پر پڑی۔ اس نے اپنے آنسو پونچھ کر فاروق کو دیکھا اور مایوسی سے بولی:
”نن…. نہیں…. تم میرے بیٹے نہیں ہو، لیکن آواز تو بالکل وہی تھی۔ لل…. لیکن تم ہو کون؟“
”اماں! ہم اِدھر سے گزر رہے تھے، آپ کے رونے کی آواز سُنی تو اِدھر آگئے۔ ہم معافی چاہتے ہیں۔“ محمود نے پُرسکون آواز منہ سے نکالی۔
”معافی! معافی کیسی بیٹے؟ ارے ہاں…. تم بھی تو میرے حماد نہیں ہو اور نہ تم….“ یہ کہتے ہی وہ واپس مُڑی اور چارپائی پر بے دم سی ہوکر گر پڑی۔
وہ چند لمحے تک باہر ہی دروازے پر کھڑے ہوکر اسے دیکھتے رہے۔ آس پاس کوئی آتا جاتا نظر نہیں آرہا تھا۔ شاید سب لوگ اپنے کھیتوں کا یا کام کاج کا رُخ کرچکے تھے۔ قصبوں اور دیہاتوں کی عورتیں بھی کھیتوں میں کام کرتی ہیں، اسی لیے آس پاس سناٹا تھا۔
”کیا ہم اندر آسکتے ہیں ماں جی!“
”ماں جی! یہ ماں جی تو تم نے بالکل میرے حماد کی طرح کہا ہے۔ تم لوگ کون ہو؟ خیر! پہلے اندر آجاﺅ۔“
وہ اندر چلے آئے اور پھر اس کی چارپائی پر بیٹھ گئے کیوں کہ وہاں بیٹھنے کی اور کوئی چیز نظر نہیں آرہی تھی۔ سامنے ایک کمرا تھا اور بائیں طرف اینٹوں کا بنا ہوا چولہا، اس میں تو اب راکھ بھی نہیں تھی۔ نہ جانے کب سے اس میں آگ نہیں جلائی گئی تھی۔
”آپ کے بیٹے حماد کو کیا ہوا ماں جی؟ وہ کہاں چلا گیا؟ اپنی ماں کو چھوڑ کر بھی بھلا کوئی جاتا ہے۔“ فرزانہ نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔
”وہ کہیں نہیں گیا، وہ مجھے چھوڑ کر جا ہی نہیں سکتا۔ وہ مجھ سے اس قدر محبت کرتا ہے کہ میرے بغیر ایک دن بھی نہیں رہ سکتا، پھر بھلا وہ مجھے چھوڑ کر کیوں جاتا۔ اُسے تو کسی نے اغوا کیا ہے۔ سارے قصبے والے یہی بات کہتے ہیں۔“
”کیا کہتے ہیں؟“
”یہی کہ حماد اس طرح کہیںنہیں جا سکتا۔ وہ تو ان سب کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ انتہائی محنتی تھا بلکہ دُوسروں کے حصے کا کام بھی کردیتا تھا۔ اگر کسی کا کام ختم نہ ہوا ہو اور وہ اپنے کام سے فارغ ہو چکا ہوتا تو اس کا کام ختم کرنے میں فوراً مدد دیتا تھا۔ بہت ہنس مکھ، خوش رہنے والا، دوسروں کے ساتھ خوب گھل مل کر رہنے والا تھا۔ تم چاہو تو آس پاس کے لوگوں سے پوچھ لو۔ سب یہی بتائیں گے۔“
”تو آپ کا خیال ہے اسے کسی نے اغوا کیا ہے؟“
”یہ میرا خیال نہیں، یقین ہے۔“
”اور اس بات کو کتنے دن ہوگئے؟“
”کیا کہا؟ کتنے دن؟ دن نہیں، مہینے نہیں…. تین سال…. تین سال دو مہینے اور گیارہ دن ہوگئے ہیں۔“
”تین سال دو مہینے اور گیارہ دن؟“ فرزانہ نے مارے حیرت کے کہا۔ اس کی آواز میں اب گہرا دکھ بھی شامل ہوگیا تھا۔
”ہاں….!“ اس نے کہا اور خلا میں تکنے لگی۔
”یہاں تھانہ پولیس چوکی ہے؟ آپ نے اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی تھی؟“ فرزانہ نے پوچھا۔
”ہاں! کیوں نہیں…. رپورٹ درج کرانے کے بعد میں روز تھانے کے چکر لگاتی رہی۔ تھانے دار بس تسلیاں دیتا رہا۔ کیا اس نے کچھ بھی نہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ مائی بگو، وہ کوئی بچہ نہیں تھا کہ کوئی اسے اٹھاکے لے جاتا۔ تیرا حماد تو بہت کڑیل نوجوان تھا، طاقتور، قد آور۔ اسے کون اغوا کرسکتا تھا۔ وہ تو اپنی مرضی سے تجھے چھوڑ کر کہیں چلا گیا۔ آ جائے گا کسی دن تھک ہار کر۔ تُو فکر نہ کر۔ اب تم لوگ بتاﺅ، ماں کو کیسے چین آسکتا ہے؟ جب میں چکر لگا کر تھک گئی تو جانا چھوڑ دیا۔ اب جب بھی حماد کا خیال آتا ہے، رونے بیٹھ جاتی ہوں۔ روتے روتے تھک جاتی ہوں تو سو جاتی ہوں۔ پڑوسی دودھ، دہی، روٹی اور سالن روزانہ دے دیتے ہیں۔ خاص طور پر فیروز کے گھر والے میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ کھانے پینے کی اور دوسری ضروریات کی کوئی تنگی نہیں ہونے دیتے، لیکن میں کیا کروں۔ حماد کے بغیر کیسے زندگی گزاروں۔ اب تو روتے روتے میری آنکھیں کم زور ہوگئی ہیں، لگتا ہے…. حماد نہیں آئے گا۔“
”نااُمید نہ ہوں ما جی! اللہ تعالیٰ کو آپ پر رحم آگیا، اس نے آپ کی مدد کے لیے ہمیں بھیج دیا ہے۔ اب ہم آپ کے بیٹے کو تلاش کرکے رہیں گے۔“
”تت…. تم تلاش کرو گے؟ یہ…. یہ کیسے ممکن ہے بھلا؟ تم تو خود کم عمر ہو۔“
”ہاں ماں جی! ہم کم عمر ضرور ہیں، لیکن بالکل بچے نہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہم اللہ کی مہربانی سے عام بچے بھی نہیں ہے۔“
”پھرتم کیسے بچے ہو؟“ اس نے قدرے حیران ہوکر کہا۔
”یہ ہم پھر بتائیں گے، پہلے تو ہم ذرا تھانے ہو آئیں۔ آپ کے پاس اس کی کوئی تصویر ہے تو دے دیں۔“
اس نے اندر رکھا ٹرنک کھولا اور تصویر نکال کر ان کی طرف بڑھا دی۔ اُنہوں نے دیکھا، وہ کڑیل جوان تھا۔ ایک اُنگلی میں انگوٹھی بھی تھی، بہت خوب صورت انگوٹھی۔
”لیکن تھانے دار تو تم سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرے گا۔“
”ہمیں امید ہے ایسا نہیں ہوگا۔ آپ ہمارے لیے دُعا کریں۔“
”میری دعاﺅں میں اثر ہوتا تو میرا بیٹا نہ مل جاتا؟“
”یہ تو خیر آپ کو نہیں کہنا چاہیے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی مرضیٰ ہے کب دُعا قبول کرتا ہے۔ اب یہ جو ہم یہاں تک آگئے ہیں، یہ آپ کی دُعائیں ہی تو ہمیں لائی ہیں۔ لہٰذا آپ بس دُعا کریں۔“
”اچھا بچو!“ اس نے کہا اور دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھا دیے۔
وہ گھر سے نکل آئے۔ اب اِکاّ دُکاّ لوگ نظر آنے لگے تھے۔ انہوں نے ایک سے پوچھا۔
”بھائی صاحب! تھانہ کس طرف ہے؟“
”تھانہ؟“ اس نے چونک کر کہا۔
”جی تھانہ۔“ محمود مسکرایا۔
اس نے ایک نظر عجیب سی ان پر ڈالی جیسے کہہ رہا ہو، یہاں تو آج تک کسی کو تھانے کا راستہ پوچھنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ تم کیا کرو گے تھانے کا راستہ پوچھ کر۔ پھر اُس نے کہا:
”بائیں طرف سیدھا راستہ تھانے کو جاتا ہے۔“
”شکریہ! آپ مائی بگّو کو جانتے ہیں؟“
”حماد کی ماں کو؟“ اس نے پوچھا۔
”ہاں!“ محمود نے سر ہلایا۔
”ہاں! جانتا ہوں…. کیوں؟“
”حماد کے بارے میں لوگوں کا کیا خال ہے۔“
”وہ اپنی ماں کو چھوڑ کر خود سے جانے والا تو تھا نہیں۔ وہ تو ماں پر جان دیتا تھا۔ اس لیے سب کا خیال یہی ہے کہ اُسے کسی نے غائب کردیا ہے یا جان سے مار کر کہیں دفن کردیا ہے۔ قصبوں اور دیہات میں ایسی وارداتیں ہو جاتی ہیں۔ یہاں کب پولیس چھان بین کرتی ہے۔“
”ہوں! آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ اچھا شکریہ۔“
”لیکن آپ حماد کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہیں؟ کیا اس کا کوئی سراغ ملا ہے آپ کو؟“
”ملا نہیں، ہم اس کی تلاش میں جارہے ہیں۔“
”بہت مشکل ہے، تین سال ہوگئے ہیں۔ اب تو اس کی ہڈیاں بھی گل سڑ گئی ہوں گی۔ زیادہ تر خیال یہی ہے کہ حماد اب زندہ نہیں، لیکن یہ بات کہنے کی کوئی بھی جرا¿ت نہیں کرتا۔ حماد کی ماں ایسا کہنے والے کی جان کو آجاتی ہے۔“
”ہاں! ماں جو ہوئی۔“
یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گئے۔ راستے میں ملنے والے لوگ انہیں حیرت بھری نظروں سے دیکھنے لگتے۔ وہ اپنا راستہ طے کرتے رہے، آخر تھانہ نظر آگیا۔ تھانے کی عمارت پختہ اور سُرخ اینٹوں کی بنی ہوئی تھی۔ دروازے پر ایک کانسٹیبل بھی نظر آیا لیکن وہ بہت ڈھیلے ڈھالے انداز میں کھڑا تھا۔ وہ نزدیک پہنچے تو وہ انہیں گھورنے لگا۔ وہ اور آگے بڑھے۔ اس کے قریب پہنچے تو کانسٹیبل کے نتھنے پھولنے پچکنے لگے۔ بڑی بڑی اور خوف ناک مونچھیں بھی ساتھ میں حرکت کرتی نظر آئیں۔ آخر اس نے پُھنکار کر کہا:
”کہاں چلے آرہے ہو؟ نظر نہیں آتا، یہ تھانہ ہے۔“
٭….٭….٭
”تب تو ہم بالکل درست جگہ آئے ہیں۔“ محمود مسکرایا۔
”اوہو! اچھا کیا کام ہے؟“
”تھانے دار صاحب کے بتانے کے لائق ہے۔“
”جاﺅ جاﺅ! اندر جا کر بتاﺅ لیکن میرا حصہ پہلے!“
”کیا مطلب؟“
”ارے بھئی! تم اسے داخلہ فیس کہہ لو۔“
”اوہ اچھا! تھانے میں داخلہ فیس کتنی ہے؟“
”بس پانچ سو روپے دے دو۔“
”چوں کہ یہ ہم واپس لے لیں گے، اس لیے دے دیتے ہیں۔“ یہ کہہ کر محمود نے پانچ سو روپے کا نوٹ جیب سے نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔ ایسے میں کانسٹیبل یہ دیکھ چکا تھا کہ اس کی جیب میں اور بھی ہزار اور پانچ سو روپے کے بہت سے نوٹ ہیں۔ اس کی آنکھوں میں چمک لہرائی۔ وہ بول اُٹھا:
”اتنے نوٹ! کہیں ڈاکا ڈالا ہے کیا؟“
”ارے نہیں! یہ خالص میرے اپنے ہیں۔ خالص میرے اپنے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں کے پاس اپنے اپنے ہیں۔“
”کیا؟ اس کا مطلب ہے کوئی لمبا ہاتھ مارا ہے تم تینوں نے؟“
”بتایا نا، یہ ہمارے اپنے ہیں۔“
”اندر جاﺅ! پتا چل جائے گا۔“
”کیا پتا چل جائے گا؟“
”یہی کہ یہ نوٹ تمہارے ہیں یا کہیں واردات کرکے حاصل کیے گئے ہیں۔“
”اچھی بات ہے۔ جب پتا چل جائے تو ہمیں بھی بتا دیئے گا۔“
”تمہیں تو ایسا بتائیں گے کہ زندگی بھر یاد رکھو گے۔“
”اچھی بات ہے۔ دیکھا جائے گا۔ آﺅ بھئی!“
اور پھر وہ اندر کی طرف چل پڑے۔ پہلے ایک بہت کھلا صحن آیا۔ صحن کے سامنے تین کمرے تھے۔ تینوں پر چق ڈالی گئی تھی۔ ایک دروازے پر لکھا تھا: ”سب انسپکٹر عامی خان۔“ وہ چق اُٹھا کر اندر داخل ہوگئے۔ تھانے دار کرسی کی پشت پر سر رکھے گہری نیند کے مزے لے رہا تھا۔
انہوں نے کھنکار کر اسے جگانا چاہا لیکن ان کھنکاروں سے جاگنے والا وہ کہاں تھا۔
”السلام علیکم جناب!“ محمود نے ہانک لگائی۔ وہ اب بھی ٹس سے مس نہ ہوا۔
”سنیے انسپکٹر صاحب!“ فاروق بولا۔
”بلکہ اُٹھیے! جاگ جائیے! آپ کا سونے کا وقت پورا ہوچکا۔ اب آپ کے جاگنے کے دن آگئے۔ اب آپ ایسے جاگیں گے کہ نیند آپ سے کوسوں دُور بھاگ جائے گی۔“ کانسٹیبل ان کے عقب میں نمودار ہوا۔
”اے بدتمیزو! یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ انسپکٹر صاحب کی شان میں گستاخی پر گستاخی….“
ایسے میں سب انسپکٹر عامی خان کا جسم ایک جھٹکے سے ہلا۔ پھر اس نے آنکھیں کھول دیں اور چِلّا کر بولا: یہ شور کیسا ہے؟“
”سر! شور یہ لوگ کررہے ہیں۔ میں انہیں سمجھا رہا تھا لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔“
”تو اب سمجھ جائیں گے۔“
”اور سر! ان کے پاس بڑے کرنسی نوٹ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ لگتا ہے کہیں لمبا ہاتھ مار کر آئے ہیں۔“
”کیا؟ ارے تو ان کے ہاتھوں میں اب تک ہتھکڑیاں کیوں نہیں لگائی گئیں؟“
”آپ کی طرح یہ دُوسروں کے بھی آرام کا وقت ہے نا سر!“ اس نے فوراً کہا۔
”اوہ! جاﺅ، جگاﺅ انہیں۔“
وہ فوراً مُڑا اور کمرے سے نکل گیا۔ اب انسپکٹر عامی خان ان کا جائزہ لینے لگا۔ کافی دیر تک گھورتے رہنے کے بعد بھی اس نے کچھ نہ کہا، بس گھورتا ہی رہا۔ یہاں تک کہ عملے کے تین آدمی اور اندر آگئے۔ اب انہوں نے بھی ان تینوں کو گھورنا شروع کیا۔
”آخر گھورنے کا سلسلہ کب ختم ہوگا؟“
”ہتھکڑیاں لگا دو انہیں!“
”کس جرم میں؟“ محمود نے حیران ہوکر کہا۔
”تم لمبی چوڑی واردات کرکے آرہے ہو۔ غلام خان کی بات نہیں سُنی تم نے؟ یہ کہ تم لمبا چوڑا ہاتھ مار کر آرہے ہو اور تمہارے پاس لوٹی ہوئی بڑی رقم بھی موجود ہے۔“
”اوہ! اچھا یہ بات ہے۔ تو پھر پہلے تفصیل سُن لو، بعد میں ہمیں گرفتار کرلینا۔ ہم بھاگے نہیں جارہے۔ ہم سے بات چیت کرنے میں آپ کاہی فائدہ ہے۔“
”اچھا کہو! کیا بات ہے؟“
”تین سال پہلے حماد نامی ایک نوجوان قصبے سے غائب ہوگیا تھا۔ اس کا آج تک کوئی پتا نہیں چلا۔ اس کی ماں رو رو کر پاگل ہوگئی ہے۔ اُس کی تلاش کے سلسلے میں تم لوگوں نے اب تک کیا کیا؟ اس کی فائل نکال کر لے آﺅ اور تفصیل بھی سناﺅ۔“
”ہائیں ہائیں! تم لوگوں نے سُنا یہ لڑکا کس طرح باتیں کررہا ہے۔ جیسے یہ ہم پر افسر لگا ہوا ہے؟“
”ہاں سر! یہ تو بالکل ایسے انداز میں باتیں کررہا ہے۔“ ایک نے کہا۔
”تو کوئی بات نہیں، اس کو ابھی ہوش میں لے آتے ہیں۔“
”میں نے کہا حماد کی فائل نکلواﺅ۔ اس وقت تم لوگوں کے سامنے دارالحکومت سے آئے محکمہ سراغ رسانی کے لوگ بیٹھے ہیں۔ زیادہ آئیں بائیں شائیں کی تو انجام اور بھیانک ہوگا۔“
”کیا کہا؟ محکمہ سراغ رسانی کے لوگ؟“ عامی خان نے کہا اور قہقہے لگانے لگا۔ اس کے ساتھی بھی قہقہے لگانے لگے۔
وہ سب بُرے بُرے منہ بنانے لگے۔ محمود نے کہا:
”اچھی بات ہے۔ خوب قہقہے لگا لو، جب تھک جاﺅ تو بتا دینا۔“
ان کے قہقہے ایک دم رُک گئے، پھر عامی خان نے کہا:
”تو تم محکمہ سراغ رسانی کے افراد ہو؟“
”تم نہیں، آپ۔ تمیز سے بات کرو۔“ محمود نے منہ بنایا۔
”اپنے کاغذات دکھاﺅ۔“ عامی خان نے جھلّا کر کہا۔
”ہاں! اب بات کی ہے قاعدے کی۔“ محمود نے کہا اور اپنے خصوصی کاغذات نکال کر سامنے رکھ دیے۔
اب تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ بدن تھر تھر کانپنے لگے، آنکھوں میں خوف سما گیا، آخر عامی خان نے کہا:
”آپ…. آپ…. انسپکٹر جمشید کے بچے ہیں؟“
”جی جناب!“
”مم…. معافی…. معافی چاہتے ہیں۔ آپ کو آتے ہی یہ کاغذات دکھا دینے چاہئیں تھے۔“
”آپ نے یہ موقع دیا ہی کب؟ آپ کو تو قہقہے لگانے سے فرصت نہیں تھی۔“
”ہم…. ہم سب معافی چاہتے ہیں۔ آپ ہمارے مہمان ہیں۔ میں ابھی حماد کی فائل نکال کر لاتا ہوں۔ غلام خان! تم باہر ٹھہرو گیٹ پر۔ عاقل میاں! آپ میرے ساتھ آئیں۔ بہادر علی! ان معزز مہمانوں کے پاس ٹھہرو۔“ اس نے ایک ہی سانس میں سب کو ہدایات دے ڈالیں اور پھر عاقل خان کو ساتھ لے کر تیزی سے باہر نکل گیا۔ انہوں نے ایک دُوسرے کی طرف دیکھا۔
”کیا خیال ہے؟“ محمود نے سرسری انداز میں کہا کیوں کہ ایک کانسٹیبل بہادر علی وہیں موجود تھا۔
”تیل دیکھتے ہیں، تیل کی دھار دیکھتے ہیں…. پھر جیسے کو تیسا۔“
”بالکل ٹھیک!“
اچانک ایک سخت آواز گونجی:
”خبردار! ہاتھ اوپر اُٹھا دو۔“
انہوں نے دیکھا، سب انسپکٹر عامی خان ان پر پستول تانے کھڑا تھا۔ جب کہ عاقل خان کے ہاتھ میں بندوق تھی اور اس کا رُخ بھی ان کی طرف تھا۔
”تم تینوں نے ہاتھ نہیں اُٹھایا۔ ہم فائر کریں گے، پھر نہ کہنا۔“
”اس کی کیا ضرورت ہے۔ پہلے تو اس بات کی وضاحت کردیں؟“
”ہاتھ آئے شکار کو کیوں جانے دیں؟ تم تینوں کے پاس کافی نقدی ہے۔“
”بس! تم صرف اس نقدی کی وجہ سے ہمیںجان سے مارو گے؟ قتل کے مجرم بنو گے؟ کیا یہ بے وقوفی نہیں؟ آخر ہمارے والد صاحب یہاں پہنچ جائیں گے اور تم لوگ قانون کے شکنجے میں آجاﺅ گے۔ پھر کیا فائدہ ہوگا اس بات کا؟ نقدی ہم تم لوگوں کو ویسے ہی دے دیتے ہیں۔ بس تم فائل نکال لاﺅ۔“
”کیا مطلب؟ یعنی ہم نے اس وقت جو کچھ کیا؟ آپ لوگ اسے بھول جائیں گے؟“ عامی خان نے حیران ہوکر پوچھا۔
”ہاں! تاکہ آپ لوگ جرائم سے توبہ کرلیں۔ ساری عمر کے لیے جیل نہ جائیں۔ ایسا ہم انسانیت کے ناطے کریں گے کیوں کہ ابھی تک آپ نے سنگین جرم نہیں کیا۔ اگرچہ ارادہ کرچکے تھے، قتل کا ارادہ۔ یہ بھی کچھ کم خوف ناک نہیں۔ ہم آپ کے لیے کہہ رہے ہیں۔ آپ بہت بُرے پھنس جائیں گے۔ اب بھی وقت ہے، یہ پستول اور رائفل گرا دیں۔ حماد کی فائل نکال کر لے آئیں۔ اگر آپ نے ایسا کرلیا اور سچے دل سے توبہ کرلی تو ہم اس بات کو نظرانداز کردیں گے ورنہ جیل تو آپ کے لیے تیار ہے ہی۔“
”لیکن آپ تین بچے ہی تو ہیں، ہمارے مقابلے میں آپ کر کیا لیں گے؟ ہم یہ سنہری موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ ہم یہ داﺅ ضرور کھیلیں گے، آر یا پار!“
”آپ کی مرضی! اب تمام تر ذمہ داری آپ کے سر ہوگی۔ اب جو کرنا ہے، کرلو۔ خود کو بچا سکتے ہیں تو بچالیں۔“
”عاقل خان! نشانہ لے لو اور تینوں پر ایک ہی وقت میں گولی چلا دو، میں بھی تمہارے ساتھ ہی فائر کروں گا۔“
”اوکے سر!“ عاقل خان نے کہا اور ان کا نشانہ لے لیا، اس کی اُنگلی ٹریگر پر جم گئی۔ عامی خان بھی اسی پوزیشن میں آچکا تھا۔ عین اس وقت دو فائر ہوئے۔
٭….٭….٭
عامی خان کے ہاتھ سے پستول اور عاقل خان کے ہاتھ سے رائفل نکل گئی۔ محمود اور فاروق کے ہاتھوں میں پستول تھے۔ انہوں نے بجلی کی تیزی سے پستول نکال کر فائر کیے تھے۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ محمود اور فاروق اس طرح حرکت میں آئیں گے۔ ایسے میں انہوں نے فرزانہ کی چہکتی آواز سُنی:
”اور ابھی تو میرے ہاتھ میں بھی پستول تھا، لیکن میں نے فائر نہیں کیا۔ میں موقع اور محل کی منتظر تھی۔“
”اب تم ہاتھ اوپر اُٹھا دو۔ فرزانہ! ان کا پستول اور رائفل اُٹھا لو، باقی دونوں بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو جاﺅ اور غلام خان، تم بھی!“ یہ کہتے ہوئے انہوں نے کمرے کے دروازے کی طرف دیکھا۔ وہاں اندر کا منظر دیکھ کر غلام خان تھر تھر کانپ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں اگرچہ رائفل تھی، لیکن رائفل چلانے کی اس میں ہمت نہیں تھی۔
جلد ہی اُنہوں نے سب کو رسیوں سے جکڑ لیا لیکن پھر کچھ خیال آنے پر عاقل خان کے ہاتھ پیر کھول دیے۔
”تم حماد کی فائل نکال کر لے آﺅ۔ فاروق! تم اس کے ساتھ جاﺅ۔ اسے پوری طرح زد میں رکھنا۔“
”فکر نہ کرو۔“ فاروق مُسکرایا۔
پستول کی زد پر رکھتے ہوئے فاروق اسے ریکارڈ روم میں لے گیا۔ جلد ہی وہ فائل سمیت واپس لوٹے۔ فائل آتے ہی محمود نے سب انسپکٹر اکرام کا نمبر ڈائل کیا۔
”ہاں محمود! کیا حال ہے! سُنا ہے، تفریحی دورے سے واپسی ہے آج۔“
”واپسی میں ذرا بھنگ پڑ گئی۔“ محمود ہنسا۔
”ارے نہیں بھئی! وہ رنگ میں بھنگ ہوتی ہے۔“ اکرام ہنسا۔
”چلیے! پھر یونہی سہی۔ انکل! پہلے حالات سُن لیں۔ اس کے بعد حرکت میں آجائیں۔“
”اچھی بات ہے۔ تم کہتے ہو تو کرلیتا ہوں ایسا، ورنہ میں پہلے حرکت میں آنا پسند کرتا ہوں۔“ سب انسپکٹر اکرام مسکرایا۔
محمود نے تمام حالات سُنا دیے۔ اس کے خاموش ہونے پر اکرام نے کہا:
”اس کا مطلب ہے اس تھانے کا سارا عملہ ہی غلط کام کررہا تھا۔ اچھا ہوا تم لوگ اس طرف آگئے ورنہ یہ لوگ بے چارے قصبے کے لوگوں کے ساتھ تو نہ جانے کیا کیا ناجائز کام کرتے ہوں گے۔ انہیں کس کس طرح لوٹتے ہوں گے۔ خیر! ہم ان سب سے اُگلوا لیں گے اور انہیں قرار واقعی سزا دلوائیں گے۔ جو انہوں نے کیا، اب ویسا ہی بھریں گے اور اب اس سلسلے میں فوری طور پر دارالحکومت سے نیا عملہ بھی لانا ہوگا۔ آخر کو یہ تھانہ ہے، خالی تو نہیں چھوڑا جاسکتا۔ میں سر جمشید سے بات کرتا ہوں۔ وہ آئی جی صاحب سے بات کریں گے اور ان شاءاللہ آج ہی یہاں نیا عملہ آ جائے گا اور اُمید ہے عوام سکھ کا سانس لیں گے۔ انہیں انصاف ملے گا، ظلم و ستم کا بازار بند ہوگا۔“
”واقعی انکل! اس لحاظ سے تو ہمارا یہاں آنا بہت بہتر رہا۔ لیکن ابھی ہمارا اصل کام باقی ہے اور وہ ہے حماد کا سراغ لگانا۔ آخر وہ کہاں ہے۔ زندہ ہے یا کسی نے اسے مار دیا ہے۔ بہرحال جو بھی ہے، ہمیں اس معاملے کی تہ تک پہنچنا ہوگا۔ ابھی سب انسپکٹر عامی خان اور اس کے ماتحتوں کو فی الحال یہیں، یعنی انہی کے تھانے میں بند رکھا جائے گا کیوں کہ حماد کے سلسلے میں کسی وقت بھی ان سے سوالات پوچھنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔“
”ٹھیک ہے! فی الحال یہ لوگ یہیں رہیں گے۔ نیا عملہ آنے تک یہ یہاں ٹھہریں گے لیکن تم لوگوں کا اب کیا پروگرام ہے؟“
’فی الحال تو ہم کسی ہوٹل میں کمرا کرایے پر لے رہے ہیں۔ اب یہاں ٹھہرنا جو پڑ گیا ہے۔“
”اس کی ضرورت نہیں۔“ اکرام مسکرایا۔
”جی! کیا کہا؟ کس کی ضرورت نہیں؟“ محمود نے حیران ہوکر پوچھا۔
”اس لیے کہ اس قصبے میں ایک سرکاری ریسٹ ہاﺅس ہے۔ تم لوگ وہاں ٹھہرو۔ وہاں ملازم بھی ہے اور میرے ایک دو ماتحت بھی وہاں تم لوگوں کے ساتھ رہیں گے۔ اس طرح تم آرام سے حماد والے معاملے کو دیکھ سکو گے۔ ویسے میرا خیال ہے کہحماد کا سراغ انہی دنوں زیادہ آسانی سے لگ سکتا تھا لیکن ان دنوں تو پولیس نے شاید کچھ بھی کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔“
”ایسا ہی لگتا ہے، اسی لیے بے چارے کا کچھ پتا نہیں لگا۔ یہ بھی ان کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے ہوا ہے۔“
”خیر! کوئی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اِدھر بھیج دیا ہے۔ اب ہم ان شاءاللہ حماد کا سراغ لگا لیں گے۔“
”ان شاءاللہ!“
اکرام اپنے انتظامات میں مصروف ہوگیا۔ یہ لوگ حماد کی فائل کھول کر اس کا مطالعہ کرنے لگے۔ فائل کے مطالعے سے جو باتیں ان کے سامنے آئیں، وہ یہ تھیں:
”حماد تین سال پہلے ۹ اپریل کو صبح سویرے کھیتوں میں کام کرنے گیا۔ ان دنوں وہ زمیندار احمد نواز خان کے کھیتوں میں کام کررہا تھا۔ قصبے کے زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ ¿ معاش یہی تھا کہ سارا سال مختلف لوگوں کے کھیتوں میں کام کرتے رہتے تھے۔ اس طرح انہیں سارا سال ہی کام ملتا رہتا تھا۔ یہ سارا قصبہ ہی زرعی تھا۔ قصبے کے لوگ کبھی کسی زمیندار کے کھیتوں میں کام کرتے تو کبھی کسی کی زمینوں پر۔ حماد صبح کھیتوں پر گیا، شام کو معمول کے مطابق واپس آیا اور روزمرہ کے کام کاج اور کھانے وغیرہ کے بعد سو گیا۔ دوسری صبح وہ گھر میں نہیں تھا۔ اس کا بستر خالی پڑا تھا۔ ماں نے اسے آوازیں دیں لیکن اس کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔ اس نے گھر سے باہر نکل کر آس پاس کے پڑوسیوں سے پوچھا۔ حماد کی ماں اس لیے پوچھ رہی تھی کہ اس کا ایک معمول تھا۔ وہ صبح سو کر اُٹھتا تو گھر کے کام کاج میں لگ جاتا۔ اپنی والدہ کو کم سے کم کام کرنے دیتا تھا۔ جو کام بھی وہ ماں کی مدد کے طور پر کرسکتا تھا، کرنے لگ جاتا تھا۔ تمام کاموں سے فارغ ہوکر وہ کھیتوں پر کام کرنے پر چلا جاتا۔ بس یہ تھا اس کا معمول۔ بہرحال اس روز صبح سے شام ہوگئی لیکن حماد کے بارے میں کچھ پتا نہ چلا۔ حماد کی والدہ تو صبح سے ہی بے چین تھی لیکن شام ہوتے ہوتے تو آس پاس کے لوگ بھی گھبرا گئے اور حماد کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ قصبے اور دیہات کے لوگ ایک دوسرے کے بہت قریب ہوتے ہیں دکھ درد میں اور خوشی میں برابر شریک رہتے ہیں اس لیے سب لوگ حماد کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ انہوں نے سارے کھیت چھان مارے۔ گاﺅںسے باہر بھی کافی دُور تک دیکھ آئے لیکن حماد تو اس طرح غائب تھا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ دُوسرے دن تلاش کا دائرہ اور بڑا کردیا گیا۔ لوگ موٹرسائیکلوں اور سائیکلوں پر تلاش میں نکل کھڑے ہوئے، لیکن ان کی ہر کوشش ہی بے کار گئی۔ اس طرح تلاش جاری رہی۔ لوگ تھانے بھی جاتے رہے، لیکن تھانے دار عامی خان بھی کوئی کام نہ دکھا سکا۔ اس طرح آہستہ آہستہ معاملہ پُرانا ہوتا گیا۔ مایوسی کے بادل گہرے ہوتے چلے گئے۔ لوگ یہ خیال کرنے لگے کہ کسی نے اسے قتل کردیا اور کہیں دفن کردیا۔ ایک بس مائی بگّو تھی جو یہ بات ماننے پر کسی صورت تیار نہیں تھی۔ اس کا بس ایک ہی جملہ تھا:
”میرا بیٹا زندہ ہے۔ وہ ایک دن ضرور لوٹ کر آئے گا۔“
تین سال ضرور گزر گئے، لیکن مائی بگّو کے آنسو ختم نہ ہوسکے۔ وہ بلاناغہ دن میں اور رات میں کئی بار روتی۔ آس پاس کے لوگ اس کے رونے کی آواز سنتے۔ ان کی بھی آنکھوں میں آنسو آجاتے لیکن وہ اس کے لیے کر کچھ نہیں سکتے تھے، وہ بالکل بے بس تھے۔ “
وہ فائل پڑھ کر فارغ ہوئے تو ان کی آنکھوں میں بھی آنسو آچکے تھے اور وہ بُری طرح بے چین ہورہے تھے۔ یوں محسوس ہورہا تھا جیسے مائی بگّو کی ساری بے چینی اُن میں منتقل ہوگئی ہو۔ ان حالات میں محمود نے سب انسپکٹر اکرام کو فون کیا۔
”انکل! حسبِ عادت ہم ابھی اور اسی وقت اس کیس پر کام شروع کررہے ہیں۔ اب ہم آرام نہیں کرسکتے۔“ اکرام نے کہا:
”اچھی بات ہے۔“
”بلکہ اس سے بھی پہلے انکل ہم مائی بگّو سے بات کریں گے۔ اس روز جب حماد کام سے واپس آیا تھاتو اس کا مزاج کیسا تھا، وہ کسی سے لڑ بھڑ کر تو نہیں آیا تھا۔“
”ایسی کوئی بات ہوتی تو قصبے میں یہ بات اس کے غائب ہوتے ہی سامنے آجاتی۔“ اکرام نے کہا۔ محمود نے بات جاری رکھی۔
”پھر بھی انکل! بعض باتیں سامنے نہیں آ پاتیں لیکن اندر کے لوگوں کو معلوم ہوتی ہیں۔“ اکرام نے کہا:
”خیر! ٹھیک ہے۔ تم آغاز کرو۔ میں اِدھر کے کام مکمل کرتا ہوں۔ نیا عملہ آنے پر میں تو واپس چلا جاﺅں گا اور تم رات کو کہاں ٹھہرو گے؟“ محمود نے کہا:
”وہیں! ریسٹ ہاﺅس میں۔“
”احتیاط کی ضرورت ہے۔ اگر یہ قتل کا کیس ہے تو قاتل کے کان کھڑے ہوچکے ہیں کہ تین سال بعد کچھ لوگ گڑے مردے اُکھاڑنے کے لیے آچکے ہیں یا اغوا کا کیس ہے، تب بھی اغوا کرنے والا خبردار ہوچکا ہوگا، نہیں ہوا تو ہو جائے گا۔“
”ہوں! اللہ مالک ہے۔ ہم احتیاط کریں گے۔ اب ہم چلتے ہیں۔“ وہ وہاں سے سیدھے مائی بگّو کے گھر آئے۔
”کچھ ہوا میرے بچوں؟“
”ماں جی! ہم نے کام شروع کردیا ہے اور کام کی ابتدا آپ سے ہورہی ہے۔“
”مجھ سے! کیا مطلب؟“
”جس رات حماد غائب ہوا، اس روز اس نے کھیتوں میں اپنا کام کیا تھا۔ پھر گھر آیا تھا اور اپنے سارے کام معمول کے مطابق کیے تھے۔ پھر سو گیا تھا اور دوسری صبح بستر پر نہیں ملا تھا۔ آپ یہ بتائیں اس روز جب وہ کام سے واپس آیا تھا تو اس کا مزاج کیسا تھا، غصے میں تو نہیں لگتا تھا؟“
”مزاج…. غصّے میں….؟“ مارے حیرت کے مائی بگّو بول اُٹھی۔
”ہاں! سوچ کر بتائیں؟“
”بات دراصل یہ ہے بچو! وہ بہت خوش مزاج ہے۔ ہر وقت چہکنا، مسکرانا اور دوسروں سے ہنس ہنس کر باتیں کرنا اس کی عادت ہے۔ لیکن اس روز واقعی اب تم نے پوچھا ہے تو یاد آیا، وہ چپ چپ تھا۔ لیکن سچ تو یہی ہے کہ اس بات کا خیال تمہارے پوچھنے پر آیا ورنہ میں خود سے اس روز یہ بات محسوس نہیں کرسکی تھی۔“
”جب آپ نے محسوس ہی نہیں کیا تو یہ پوچھنے کا سوال ہی کب پیدا ہوا تھا کہ بیٹے تم چپ چپ کیوں ہو۔“
”ہاں بالکل! جب میں نے محسوس ہی نہیں کیا تو پوچھ کیسے سکتی تھی۔“
”آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ اب آپ بتائیں یہ زمیندار نواز احمد خان کیسا آدمی ہے؟“
”اچھا آدمی ہے۔ اس کے خلاف کبھی کوئی بات سننے میں نہیں آئی۔ کام کے پورے پیسے شام ہوتے ہی دے دیتا ہے۔“
”ہوں! حماد نے کبھی کوئی شکایت تو نہیں کی؟“
”نہیں!“ اس نے انکار میں سر ہلایا۔
”اچھی بات ہے ماں جی!“ محمود نے کہا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔
”اب کہاں چلے، ابھی تو آئے ہو؟“
”اب ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک کہ آپ کے بیٹے کا سراغ نہیں لگا لیتے۔ اس وقت ہم احمد نواز خان سے ملنے جارہے ہیں۔“
”اوہ! تو کیا تم یہ خیال کررہے ہو کہ حماد کی گمشدگی کا تعلق اس سے ہے؟“
”ماں جی! ابھی ہم کچھ بھی خیال نہیں کررہے، بس آپ ہمارے لیے دُعا کریں۔“
”میں تمہارے لیے دُعا نہیں کروں گی تو کس کے لیے کروں گی۔ تم تو میری آخری اُمید ہو۔“
”کک…. کیا کہا آپ نے؟“ فاروق چونکا۔
”میں نے کہا تم تو میری آخری اُمید ہو۔“
محمود نے جلدی سے فاروق کو گھورا کہ کہیں وہ یہ نہ کہہ دے کہ آخری اُمید تو کسی ناول کا نام ہوسکتا ہے۔ اب اُس بے چاری کی سمجھ میں یہ بات کیا خاک آتی۔ فاروق نے فوراً یہ بات بھانپ لی اور یہ جملہ نہ کہا۔
”اچھا ماں جی! ہم چلے۔“
”اللہ کام یاب کرے۔“ اس نے فوراً کہا۔
”آمین!“ ان کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔
اب وہ باہر کی طرف چلے۔ ایک گزرتے ہوئے شخص سے نواز احمد خان کے گھر کا راستہ پوچھا۔ اس نے فوراً بتا دیا۔ تینوں تیز تیز قدم اُٹھانے لگے۔ یہاں تک کہ صرف دس منٹ بعد وہ ایک بڑے مکان کے سامنے کھڑے تھے۔ انہوں نے دیکھا، وہ کوٹھی نما مکان تھا اور بہت لمبا چوڑا بھی تھا۔ اس کا دروازہ بھی بہت بڑا اور پرانی سیاہ لکڑی کا تھا۔ باہر کوئی چوکیدار وغیرہ نہیں تھا۔ محمودنے آگے بڑھ کر دروازے کی گھنٹی بجا دی۔ اس نے ایسا ایک بار نہیں، تین بار کیا تھا۔ فوراً ہی دروازہ کھلا اور سخت لہجے میں کہا گیا:
”تین بار گھنٹی کیوں بجائی؟ کیا آپ کے خیال میں اندر سب بہرے بستے ہیں؟“
انہوں نے دیکھا، وہ بڑی بڑی خوف ناک مونچھوں والا شخص تھا اور دیہاتی لباس میں تھا۔
”اوہ! معاف کیجیے گا، ہم ذرا غلط سمجھ گئے تھے۔ ہمیں محترم احمد نواز خان صاحب سے ملنا ہے۔“
”کیوں ملنا ہے؟“ اس کے لہجے میں اکھڑ پن تھا۔
”ان سے ضروری کام ہے۔“
”تم اس قصبے کے تو نہیں لگتے؟“ اس نے انہیں غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں! ہیں بھی نہیں۔“
”میں بتا دیتا ہوں۔ اب معلوم نہیں وہ ملنا پسند کرتے ہیں یا نہیں۔“
”اگر وہ ملنا پسند نہیں کریں گے تو پھر یہاں پولیس آئے گی اور وہ ہماری ان سے ملاقات کا بندوبست کرے گی۔“
”کیا کہا؟یہ کیا بات ہوئی؟“
”جوکہا ہے، وہی بات ہوئی۔ اندر جا کر بتا دیں۔ دارالحکومت سے تفتیشی ٹیم آئی ہے۔“
”تفتیشی ٹیم!“ اس نے انہیں تیز نظروں سے گھورا، پھر بولا:
”تم پاگل لگتے ہو۔ تم تو بچے ہو، تمہارا کسی محکمے سے کیا تعلق؟“
”تعلق ہے، تمہیں اس سے کیا مطلب؟ اگر تم نے اور دیر لگائی تو ہوسکتا ہے، خان صاحب تم پر بگڑیں۔“
”جارہا ہوں، وہ مجھ پر نہیں، تم پر بگڑیں گے۔“
”کوئی پروا نہیں، ہمیں اپنا کام کرنا ہے۔ کوئی بگڑے یا سنورے۔“
اس نے انہیں تیز نظروں سے گھورا، پھر ایڑیوں پر گھوم گیا۔ وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا چلا جارہا تھا۔ تین منٹ بعد اس کی واپسی ہوئی۔
”چلو! خان صاحب بلا رہے ہیں۔“ اس نے کافی نفرت سے کہا۔
وہ مسکرا کر رہ گئے۔ ایسی باتوں پر وہ کبھی غصّے میں نہیں آتے تھے، دماغ ہمیشہ ٹھنڈا رکھتے تھے۔ ملازم انہیں ساتھ لے کر چلا۔ پہلے ایک بہت بڑا صحن عبور کرنا پڑا، پھر کہیں جا کر کمرے نظر آئے۔ ڈرائنگ روم میں انہیں بٹھا کر ملازم چلا گیا۔ جلد ہی وہ پھر اندر آیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھی۔ اس میں لسی کا جگ اور تین گلاس تھے۔
”یہ آپ کیا کرنے لگے ہیں؟ آپ خان صاحب کو بھیجیں، ہم یہاں کچھ کھانے پینے نہیں آئے۔“
”لیکن بچو! یہ ہمارے ہاں کی روایت ہے۔ گھر آنے والوں کو لسی پانی کے بغیر نہیں جانے دیتے۔“
یہ بھاری بھر آواز سُن کر وہ چونک گئے۔ اندر داخل ہونے والا شخص بہت لمبا چوڑا تھا۔ اس کی سرخ سرخ آنکھیں باہر کو اُبلی ہوئی تھیں اور اس وجہ سے اس کا چہرہ خوف ناک لگتا تھا۔
”السلام علیکم! آپ ہیں احمد نواز خان؟“
”ہاں! لیکن یہ لسی تو آپ کو پینی پڑے گی۔“
”پہلے سُن لیں، ہم دارالحکومت سے آئے ہیں، ہمارا تعلق پولیس سے ہے اور ہم حماد کے سلسلے میں آئے ہیں۔“
”حماد! کون حماد؟“اس نے حیران ہوکر کہا۔
وہ اس وقت اس کی طرف غور سے دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے صاف محسوس کرلیا کہ وہ حماد کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے، پھر بھی انجان بن رہا ہے۔
”مائی بگّو کا بیٹا، جو تین سال پہلے آپ کے کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ ایک روز وہ اپنے گھر سے غائب ہوگیا۔“
”اچھا وہ…. ہاں! میں اس کے بارے میں جانتا ہوں، لیکن آپ اس کے سلسلے میں میرے پاس کیوں آئے ہیں؟“
”جس سے اس کا تعلق رہا ہے، اس سے تو ہمیں ملنا ہی ہوتا ہے۔ وہ آپ کے کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ اس روز اس نے تمام دن کام کیا۔ شام کو گھر واپس آیا تھا۔ گھر میں اس نے اپنے سب کام معمول کے مطابق کیے۔ البتہ اس روز وہ قدرے چپ چپ تھا۔ اس کا مطلب ہے دن میں کوئی بات ہوئی تھی۔ وہ کیا بات تھی، ہمیں پتا لگانا ہوگا اور یہ ہمیں آپ ہی بتا سکتے ہیں کہ اس روز کیا ناخوش گوار واقعہ پیش آیا تھا؟“
”تم لوگوں کا دماغ درست نہیں۔ میں کھیتوں میں ان کام کرنے والوں کے ساتھ نہیں ہوتا۔ ہاں! کبھی کبھار چکر لگا لیتا ہوں۔ اس روز حماد کے ساتھ کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔ آیا ہوگا تو میرے کھیتوں سے باہر۔ ہوسکتا ہے، اس کا کسی سے جھگڑا ہوا ہو۔“
”مطلب یہ کہ آپ کی اس سے کوئی اَن بَن یا کوئی ناراضی والی بات نہیں ہوئی؟“
”بالکل نہیں!“
”اچھا چودھری صاحب! ہم لسی پیتے ہی نہیں، چائے پیتے ہیں اور وہ بھی اپنے وقت پر۔ ہمارے چائے کے اوقات مقرر ہیں۔ ان اوقات کے بغیر ہم چائے بھی نہیں پیتے لہٰذا اللہ حافظ۔“ یہ کہتے ہوئے وہ اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اسی وقت غلام شاہ اندر داخل ہوا۔
”میرا ملازم تمہارے ساتھ جائے گا۔“ احمد نواز خان کا لہجہ ناخوش گوار تھا۔ ایسے میں فرزانہ کے جسم کو ایک جھٹکا لگا۔ انہوں نے دیکھا اس کے چہرے پر خوف دوڑ گیا۔
٭….٭….٭
محمود اور فاروق نے یہ بات فوراً محسوس کرلی۔ انہوں نے اس کی طرف دیکھا اور پریشان ہوگئے کیوں کہ اس کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا تو دوسرا جارہا تھا۔
”خیر تو ہے فرزانہ؟“
وہ چونک اُٹھی، جیسے اسے آس پاس کا ہوش ہی نہیں رہا تھا۔ محمود کے پکارنے پر وہ ہوش میں آگئی۔
”میں الحمد للہ! ٹھیک ہوں۔“
”ان لوگوں کو دروازے تک چھوڑ آﺅ۔ چوکس رہنا، یہ کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کرنے پائیں۔“
”ایسی ویسی حرکت سے کیا مراد چودھری صاحب؟“
”پہلی بات یہ کہ میں چودھری نہیں کہلاتا، خان صاحب کہلاتا ہوں۔ دوسری بات تم لوگ کوئی نہ کوئی ایسی ویسی حرکت کرسکتے ہو، اس لیے میں نے یہ بات احتیاطً کہی ہے۔“ اس نے جلدی جلدی کہا۔
”اچھا کیا۔ کوئی پروا نہیں۔ ویسے آپ کے ملازم کا کیا نام ہے؟“
”غلام شاہ! یہی نام ہے نا تمہارا غلام شاہ؟“ احمد نواز خان یہ کہتے ہوئے ہنسا۔
”جی ہاں سر!“ اس نے دانت نکال دیے، پھر ان کی طرف مُڑا۔
”آئیے چلیں۔“
وہ اس کے ساتھ باہر نکل آئے اور صحن عبور کرنے لگے۔ محمود اور فاروق اس وقت شدید بے چین تھے۔ وہ جلد از جلد جان لینا چاہتے تھے کہ فرزانہ کو کس بات پر جھٹکا لگا تھا۔ وہ اچانک خوف زدہ کیوں ہوگئی تھی۔ آخر دروازے پر پہنچ کر غلام شاہ نے کہا:
”اچھا جی!“
”شکریہ جناب!“ محمود نے کہا اور غلام شاہ نے دروازہ بند کردیا۔
”آﺅ جلدی! میں خوف محسوس کررہی ہوں۔“
”اللہ اپنا رحم فرمائے۔ ہوا کیا ہے؟“
”تم آﺅ تو۔“
اس نے کہا اور تیز چلتے ہوئے ان سے آگے نکل گئی۔ انہیں بھی رفتار بڑھانی پڑی۔
”ہم کہاں جارہے ہیں؟“
”پہلے ہمیں مائی بگّو کے گھر جانا ہے۔ پھر انہیں ساتھ لے کر تھانے جائیں گے۔ میں خوف محسوس کررہی ہوں۔ شاید خطرات ہماری طرف منہ کھولے بڑھ رہے ہیں اور ہم ان کی لپیٹ میں آسکتے ہیں، لیکن اس سے پہلے کہ ہم خطرات کی لپیٹ میں آئیں، ہمیں مائی بگّو سے ملاقات کرنی ہے اور انہیں تھانے لے جانا ہے تاکہ ان کی حفاظت کا انتظام کرسکیں۔“
”اچھی بات ہے، رفتار تیز کردو، لیکن یہ بتا دو تم چونکی کیوں تھیں؟“
”غلام شاہ جب ہمیں باہر ملا تھا، یعنی جب ہم نے گھنٹی بجائی تھی اور اس نے دروازہ کھولا تھا، اس وقت….“ فرزانہ کہتے کہتے رُک گئی۔ اس نے خوف زدہ نظروں سے چاروں طرف دیکھا لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔
”آس پاس کوئی نہیں ہے جو تمہاری باتیں سُن لے۔ کہہ ڈالو کیا کہنا چاہتی ہو۔“
”غلام شاہ جب پہلی بار ہمیں نظر آیا، اس کی بائیں ہاتھ کی اُنگلی میں ایک انگوٹھی تھی لیکن بعد میں جب وہ کچھ دیر پہلے ڈرائنگ روم میں نظر آیا، وہ انگوٹھی اس کی اُنگلی میں نہیں تھی۔“
”لیکن اس میں عجیب بات کیا ہوگئی؟ بھئی نکال دی ہوگی اس نے۔“ فاروق نے بُرا سا منہ بنایا۔
”لیکن کیوں نکال دی ہوگی؟“
”بس ہم وہ وجہ جاننا چاہتے ہیں کیوں کہ ویسی ہی انگوٹھی حماد نے بھی پہن رکھی ہے۔“ فرزانہ مسکرائی۔
”اوہ!“ ان دونوں کے منہ سے نکلا۔
آخر وہ مائی بگّو کے گھر پہنچ گئے۔ وہ اندر موجود تھی۔ اسے دیکھ کر انہوں نے اطمینان کا سانس لیا۔
”ماں جی! آپ کو ابھی اور اسی وقت ہمارے ساتھ چلنا ہے۔ آپ بس کھڑی ہوجائیں۔ ہم خطرہ محسوس کررہے ہیں۔“
”خطرہ!“ مارے گھبراہٹ کے اس نے کہا۔
”جی ہاں! خطرہ…. آئیے، چلیں۔“
”چلو بیٹا!“
وہ اسے ساتھ لے کر تھانے کی طرف روانہ ہوئے۔ نہ جانے کیوں ان کے دل زور سے دھڑک رہے تھے۔ اصل میں یہاں اُن کے پاس کوئی گاڑی نہیں تھی اور غلطی اُن سے یہ ہوئی تھی کہ سب انسپکٹر اکرام کو فون کرکے گاڑی کے لیے نہیں کہا تھا۔
تیز تیز چلتے وہ خیریت سے تھانے پہنچ گئے۔ یہ دیکھ کر ان کی جان میں جان آئی۔ تھانے میں بھی ہر طرح خیریت تھی۔ اکرام اور اس کے ماتحت وہاں موجود تھے۔ سب ان کی طرف متوجہ ہوگئے۔
”کیا رہا بھئی!“ اکرام نے بے تابی کے عالم میں کہا۔
”انکل! لگتا ہے ہم درست سمت میں جارہے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہم خطرہ بھی محسوس کررہے ہیں۔“
”کیا یہاں پہنچ کر بھی خطرہ بدستور محسوس کررہے ہو؟“ اکرام نے پوچھا۔
”ہاں انکل! یہاں پہنچ کر بھی۔ اور پہلی فرصت میں ماں جی سے ایک ضروری بات پوچھ لینا چاہتے ہیں۔“
”تو پوچھ لو! انتظار کس بات کا ہے؟“
”ماں جی! کیا آپ کے بیٹے حماد….“
عین اسی لمحے ایک زور دار دھماکا ہوا۔ یوں لگا جیسے بم پھٹا ہو اور پھر ان سب کے ذہن تاریکی میں ڈوب گئے۔
انہیں ہوش آیا تو اکرام اور ان کے ماتحتوں سمیت وہ سب رسیوں سے بندھے ہوئے تھے اور کسی تہ خانے میں تھے۔ ان کے سروں پر رائفلیں لیے عامی خان، غلام خان اور عاقل خان کھڑے تھے۔ ان کے چہروں پر شیطانی مسکراہٹیں تھیں۔
”تو ہوش آگیا تمہیں!“
”ہاں! اللہ کی مہربانی سے، لیکن یہ سب چکر کیا ہے؟“
”چکر…. ہاں! چکر کی وضاحت تو خیر ہم کریں گے۔ تمہیں موت کے گھاٹ اُتارنے سے پہلے تمہیں حماد کی کہانی سنائیں گے۔ اسی کی تلاش میں نکلے تھے نا تم لوگ۔ اب خود بھی پھنس گئے۔“
”حماد! کہاں ہے حماد؟“ مائی بگّو چلّائی۔
”فکر نہ کرو، تمہیں اس کے ساتھ ہی آخرت کے سفر پر بھیج رہے ہیں۔“
”تت…. تو میراد حماد زندہ ہے۔ آپ نے سُنا، میرا حماد زندہ ہے۔ میں نے کہا تھا نا، میرا دل کہتا ہے حماد زندہ ہے۔“ مائی بگّو بے تابی سے کہتی چلی گئی۔
”لیکن اب کیا فائدہ؟ اب تو تمہیں خود بھی اس کے ساتھ مرنا پڑے گا۔“
”ان لوگوں کی دخل اندازی کی وجہ سے تمہیں یہ دن دیکھنا پڑا۔ ورنہ تم رو دھو لیتی تھیں، ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔“
”کہاں ہے میرا حماد؟“
”گھبراﺅ نہیں! آجاتا ہے ابھی، مل لینا اس سے پہلے باس کو آلینے دو۔“
”باس! کیا مطلب؟“ وہ سب چونکے۔
اسی لمحے بھاری قدموں کی آواز سنائی دی۔ انہوں نے دیکھا، احمد نواز چلا آرہا تھا۔ اس کے چہرے پر غرور ہی غرور تھا۔
”یہ لوگ حماد کو تلاش کرنے نکلے تھے۔ اب خود بھی پھنس گئے ہیں۔ بڑے بنے پھرتے ہیں جاسوس۔ چلے آئے دارالحکومت سے۔ ہے کوئی تُک! اپنا اپنا کام کرو اور خوش رہو۔ دوسروں کے کام میں کیوں ٹانگ اڑاتے ہو۔ جس طرح حماد پھنس گیا، اسی طرح یہ بھی پھنس گئے۔“ احمد نواز خان فخر اور غرور کے عالم میں کہتا چلا گیا۔
”وہ کیسے پھنس گیا؟“ محمود نے جلدی سے کہا، کیوں کہ یہ بات جاننے کے لیے وہ بہت بے چین تھے۔
”اس کی قسمت خراب تھی۔ ہم سے کچھ کہنے کے لیے کھیتوں سے میرے گھر چلا آیا۔ میرا بڑا بیٹا کہیں دروازہ اندر سے بند کرنا بھول گیا تھا۔ اس نے پوچھا نہ ہی دستک دی، بس اجڈوں کی طرح اندر چلا آیا۔ اِدھر میں عامی خان سے لوٹ مار کی وارداتوں کا حساب کتاب کررہا تھا۔ ہمیں اس کے اندر تک آجانے کا پتا ہی نہ چلا۔ ہم اس وقت برآمدے میں بیٹھے تھے لیکن ہمارے منہ دروازے کی طرف نہیں تھے۔ وہ نزدیک آگیا اور ہماری بہت سی باتیں اس نے سُن لیں۔ اس نے جان لیا کہ ہم لوگ لوٹ مار کا کام کرتے ہیں، یعنی پورا تھانہ میرے ساتھ ملا ہوا ہے۔ یہ خاموشی سے واپس لوٹ گیا لیکن باہر جاتے وقت اسے عامی خان نے دیکھ لیا۔ وہ فوراً سمجھ گیا کہ حماد نے ہماری باتیں سُن لی ہیں۔ باتیں نہ سُنی ہوتیں تو وہ اپنی بات کرتا۔ لیکن اس کے خاموشی سے لوٹ جانے کا مطلب یہی تھا کہ اس نے باتیں سُن لی ہیں۔ اب ہم پریشان ہوگئے کیوں کہ حماد کے ذریعے یہ باتیں سارے قصبے میں پھیل سکتی تھیں۔ اسی وقت ہم نے اسے اُٹھانے کا پروگرام بنالیا اور رات کے وقت اسے اُٹھا لائے۔ میں تو اسے قتل کرنا چاہتا تھا لیکن یہ ہے نا عامی، یہ قتل کے حق میں نہیں تھا۔ اس لیے اسے مکان کے تہ خانے میں قید کردیا۔ بس دو وقت روٹی دے دیتے تھے اور پانی۔“
”وہ ہے کہاں؟“
”ابھی ملوا دیتے ہیں۔“ احمد نواز خان ہنسا، پھر اپنے ساتھیوں سے بولا:
”جاﺅ! اس گنوار کو لے آﺅ۔ کم بخت تین سالوں میں ذرا بھی نہیں بدلا۔ اسی طرح ہے جیسا پہلے تھا۔“
”مم…. میرا فرماں بردار بیٹا جو ہوا۔“ مائی بگّو کے منہ سے نکل گیا۔
ان میں سے دو تہ خانے کے ایک تاریک گوشے میں چلے گئے۔ جلد ہی وہ حماد کو دونوں طرف بازوﺅں سے پکڑ کر لاتے نظر آئے۔ اس وقت انہوں نے حماد کو دیکھا۔ وہ بہت لمبا چوڑا اور خوب صورت جوان تھا۔ پھر جونہی ان کی نظر اپنی ماں پر پڑی، وہ پوری قوت سے چلّا اُٹھا:
”ماں!“
ساتھ ہی اس نے دونوں کو زور دار جھٹکا دیا۔ اس طرح اس کے ہاتھ چھوٹ گئے اور وہ اپنی ماں کی طرف دوڑ پڑا۔ وہ جو اسے پکڑ کر لا رہے تھے، اس کی طرف دوڑے لیکن نواز خان نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روک لیا۔
”مل لینے دو بھئی اُسے اپنی ماں سے، ہمارا کیا جاتا ہے۔“
حماد اپنی ماں سے لپٹ گیا۔ دونوں رونے لگے۔ ان کے رونے کی آوازوں سے تہ خانہ گونجنے لگا۔
”میرا بیٹا! میرا بچہ!“
”میری ماں…. ماں!“
”اب بس کرو! بہت مل لیے۔ ہمیں اپنا کام بھی کرنا ہے۔ عامی خان! اب تو انہیں ٹھکانے لگانا ہوگا۔ ایک گہرے گڑھے میں ان سب کو دبانا ہوگا کیوں کہ یہ لوگ آخر دارالحکومت کے ہیں۔ ان کی تلاش میں ان کے بڑے تو آئیں گے۔ سنا ہے ان کے بڑے کا نام انسپکٹر جمشید ہے۔ بہت نامی گرامی آدمی ہے۔ وہ یہاں آکر بہت ہل چل مچائے گا۔ لہٰذا ہمیں ان کے دبانے کا کوئی سراغ نہیں چھوڑنا چاہیے ورنہ ہم سب بھی مارے جائیں گے۔ غلام شاہ جیسی کوئی غلطی اگر ہم نے کی تو پھر ہم گئے کام سے۔“
اس کے ایک ساتھی نے پوچھا:
”کیا مطلب باس! آپ کے غلام شاہ سے کیا غلطی ہوئی؟“
”اس کم بخت کو میں نے پہلے دن ہی منع کیا تھا کہ حماد کی کوئی چیز استعمال نہ کرو کہ کوئی پہچان نہ لے۔ پھر بھی اس نے اس کی انگوٹھی اُتار کر خود پہن لی۔ اب جب یہ لوگ مجھ سے ملنے آئے تو وہ انگوٹھی اس کے ہاتھ میں تھی۔ میں نے جو اس کے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا تو یہ گھبرا کر کمرے سے باہر گیا اور انگوٹھی اُنگلی سے نکال دی۔ اب جب یہ واپس کمرے میں آیا تو یہ لوگ اس کی اُنگلی میں انگوٹھی نہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔ خاص طور پر یہ چالاک لڑکی تو چونک اُٹھی۔ میں نے اسے چونکتے دیکھ لیا اور اسی وقت میں نے سمجھ لیا کہ کام خراب ہوگیا۔ اب یہ لوگ پولیس کی بھاری نفری لے کر آئیں گے اور میرا گھر چھان ماریں گے۔ تہ خانہ تلاش کرلینا بھی ان کے لیے مشکل نہیں ہوگا۔ بس اسی وقت آناً فاناً مجھے ان پر وار کرنے کا پروگرام بنانا پڑا اور شکر ہے کہ یہ ابھی سنبھل نہیں پائے تھے کہ ہم نے انہیں جالیا۔ اب فکر ہے تو اس بات کی کہ ان کے بڑے آئیں گے، ان سے کیسے نمٹا جائے۔“
”اس کی ترکیب میں بتا دیتا ہوں۔“ محمود کی آواز تہہ خانے میں گونج اٹھی۔
٭….٭….٭
وہ چونک کر اس کی طرف مُڑے۔ نواز خان نے ہنس کر کہا:
”لو! اپنے بڑے سے نمٹنے کی ترکیب بھی خود ہی بتا رہا ہے۔ اس سے بڑا بے وقوف کون ہوگا۔“
”تم!“ فاروق مسکرایا۔
”کیا؟“ وہ چیخا۔
”ہاں! تم سے بڑا بے وقوف کون ہوگا جو اتنا بھی نہیں جانتاکہ جرم چھپا نہیں رہتا۔ کبھی نہ کبھی ظاہر ہوکر رہتا ہے اور ایک نہ ایک دن انسان کی جیل سلاخوں کے پیچھے ہوتا ہے، جیسا کہ تم ہو گے۔ اب ترکیب سنو! تم خود کو قانون کے حوالے کردو اور ہمیں کھول دو۔ اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔“
”سُنا تم نے، یہ لوگ نہ جانے خود کو سمجھتے کیا ہیں۔ حالاں کہ ہم نے ان پر نہایت آسانی سے قابو پالیا ہے۔“
”اس کی وجہ ہے۔ ہم تم لوگوں کو سیدھے سادے بے وقوف قسم کے مجرم خیال کر بیٹھے تھے۔ اس بات کا تو ہمیں گمان بھی نہیں تھا کہ تم بھی تجربے کار مجرم ہوسکتے ہو اور تمہارے پاس بھی دھماکا خیز مواد ہوسکتا ہے۔ بہرحال! یہ ہماری بے وقوفی تھی۔ دشمن کیسا ہی ہو، اسے کم زور اور بے وقوف نہیں خیال کرنا چاہیے۔ اب تو ہوگئی غلطی۔“
”عامی خان! کیا خیال ہے؟ اب ہمیں ان لوگوں سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کرلینا چاہیے۔“
”میں ایک بار پھر کہتا ہوں باس! ہمیں قتل جیسے بھیانک جرم سے بچنا چاہیے ورنہ ہم ان لوگوں کے بڑوں سے بچ نہیں سکیں گے۔ لہٰذا انہیں بندھا چھوڑ کر یہاں سے بھاگ نکلتے ہیں۔ ابھی ہمارے پاس بھاگنے کے لیے بہت وقت ہے۔ ہم یہاں سے بہت دُور پہنچ جائیں گے۔“
”باس! انسپکٹر صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ قتل زیادہ خوف ناک جرم ہے۔ اگر پکڑے گئے تو سزا ہو جائے گی۔ اس جرم میں تو عام طور پر پھانسی یا عمر قید ہوتی ہے۔“
”اچھی بات ہے۔ یہ تو پہلے ہی بندھے ہوئے ہیں۔ بس حماد کو باندھ دیتے ہیں۔“
”ٹھیک ہے۔“
”تب پھر غلام شاہ! جلدی کرو۔“ انہوں نے حماد کو جکڑ دیا۔
”آﺅ چلیں! اب ان کی قسمت۔ کیسے یہاں سے نکل پاتے ہیں یا یہیں مر کھپ جاتے ہیں۔“ عامی خان نے کہا۔
”ہمارا مقصد تو دولت سے ہے باس! وہ ہم سمیٹ لے جارہے ہیں! صبح کا سورج نکلنے سے پہلے ہم نہ جانے کہاں کے کہاں پہنچ چکے ہوں۔“
وہ منہ سے کچھ نہ بولے۔ انہیں جاتا دیکھتے رہے۔
”اب ہماری باری ہے۔“ محمود کی آواز سنائی دی۔ ان سب نے چونک کر محمود کی طرف دیکھا۔ حماد کی ماں نے کہا:
”کیا مطلب بیٹے! تم کیا کہنا چاہتے ہو؟“
”ہم ابھی ان رسیوں سے آزاد ہو جاتے ہیں، آپ فکر نہ کریں۔ یہ ہمارا روز کا کام ہے۔ چلو فاروق! میری کلائی پر بندھی رسی پر اپنے تیز دانت آزماﺅ۔“
فاروق نے اپنا کام شروع کردیا۔ جلد ہی محمود کے ہاتھ کھل گئے۔ اب اس نے اپنے جوتے کی ایڑی سرکائی اور اس میں سے ننھا سا چاقو نکالا۔
”ارے اتنا ننھا سا چاقو، وہ بھی جوتے کی ایڑی میں!“ مارے حیرت کے حماد کے منہ سے نکلا۔
”جی ہاں! ایسے حالات میں یہ ہمارا بہترین ہتھیار ہے۔“
محمود نے کہا اور چاقو سے ان سب کی رسیاں کاٹ دیں۔
”انکل! آپ حماد اور ان کی والدہ کو محفوظ مقام پر پہنچا دیں۔ دارالحکومت سے فوراً فورس منگوا لیں تاکہ ہم بغیر کسی خون خرابے کے ان سب کو گرفتار کرسکیں۔ ورنہ یہ لوگ گرفتاری سے بچنے کے لیے ہاتھ پاﺅں بہت ماریں گے۔ ہر ممکن حد تک جان لڑائیں گے۔“
”ٹھیک ہے محمود میاں!“
سب انسپکٹر اکرام، انسپکٹر جمشید کو فون پر حالات بتانے لگا۔ باقی سب وہاں چھپتے چھپاتے نکلنے لگے۔ محمود، فاروق اور فرزانہ آگے تھے، باقی لوگ پیچھے۔ اب ظاہر ہے، یہ تہ خانہ نواز خان کے گھر کا تہ خانہ تھا۔ جب وہ اس سے نکل کر اوپر آتے تو گھر ہی میں آتے اور وہاں نواز خان اور عامی خان سے ملاقات ہوسکتی تھی۔ لیکن ملاقات سے پہلے وہ حماد اور اس کی والدہ کو محفوظ مقام پر پہنچا دینا چاہتے تھے اور انہوں نے یہی کیا۔ اوپر آکر اکرام نے اپنے چار ماتحتوں کو اشارہ کیا۔ وہ ان دونوں کو لے کر نکل گئے۔ اب انہوںنے گھر سے باہر نکل کر چاروں طرف پوزیشن لے لی۔ گھر میں روشنی تھی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ لوگ ابھی اندر ہی ہیں۔ فرار ہونے میں کچھ تو وقت لگنا ہی تھا۔
پھر تھوڑی دیر بعد وہ گھر کے دروازے سے باہر نکلے۔ انہوں نے بھاری بھر کم بیگ ہاتھ میں اُٹھا رکھے تھے۔ گویا وہ ان کی طرف سے بالکل بے فکر تھے اور اس خیال میں تھے کہ وہ اس قدر جلد تہ خانے سے باہر آہی نہیں سکتے۔ جب وہ سب ان کی زد پر آگئے تو محمود نے بلند آواز میں کہا:
”خبردار! تم لوگ اس وقت پوری طرح ہماری زد میں ہو۔ سامان نیچے گرا دو اور ہاتھ اوپر اُٹھا دو۔“
وہ بُری طرح اُچھلے۔ ان کی آنکھوں میں خوف دوڑ گیا اور چہروں پر بے تحاشا دہشت دیکھنے میں آئی۔ ان سب کے ہاتھوں سے سامان چھوٹ کر گر گیا اور ان کے ہاتھ اوپر اُٹھ گئے۔
”اب اس سامان سے دس قدم پیچھے ہٹ جاﺅ۔“ اکرام بولا۔
انہوں نے اس پر بھی عمل کیا۔
”کیوں نواز خان اور انسپکٹر عامی خان! کیسی رہی؟“
انسپکٹر عامی نے کہا:
”تم حیرت انگیز لوگ ہو۔ کیوں نہ ہم اندر بیٹھ کر بات کرلیں۔ تم لوگ ضرور کچھ سوال کرو گے، ہم جواب دیں گے۔ ہم کچھ اور بھی کام کی باتیں بتائیں گے اگر تم لوگ سننا پسند کرو۔“
”ہم سُن لیں گے، لیکن ایک خیال رہے!“ محمود نے منہ بنایا۔
”وہ کیا؟“
”ہم سے کوئی چالاکی کرنے کی کوشش نہ کرنا۔“ فاروق مسکرایا۔
”ٹھیک ہے! اس کا خیال رکھیں گے۔“
اب وہ سب اندر آگئے۔ نواز خان انہیں اس کمرے میں لے آیا جس میں پہلے بھی وہ اس سے ملاقات کرچکے تھے۔ جب سب اطمینان سے بیٹھ گئے، تب نواز خان نے کہا:
”ایک تجویز ہے، اس میں آپ کا بھی فائدہ ہے اور ہمارا بھی۔“
”کیا مطلب؟“ تینوں نے چونک کر ایک ساتھ کہا۔
”ان بیگوں میں بے شمار دولت ہے۔ ہم لوگ نہ جانے کب سے یہ کھیل کھیل رہے ہیں۔ یہ ساری دولت خاموشی سے تم لوگ لے لو۔ بس ہمیں جیل نہ بھیجو، معاملہ یہیں ختم کردو۔ معاملہ عدالت میں گیا تو یہ دولت تو پھر سرکاری خزانے میں جمع ہوگی۔ نہ تمہارے ہاتھ کچھ آئے گا نہ ہمارے لیکن ہماری تجویز کے مطابق آپ لوگ اس ساری دولت کے مالک بن جائیں گے اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوگی۔“
”یعنی تم رشوت میں یہ ساری دولت ہمیں دینا چاہتے ہو؟“
”ہاں بالکل!“
”اس میں ایک مشکل ہے، یہ کہ ہم نے یہ کام زندگی میں کبھی کیا ہی نہیں۔“
”تو اب کرلیں!“
”یہ کام ہمیں کسی نے سکھایا ہی نہیںاور نہ ہم نے خود سیکھنے کی کوشش کی ہے، اس لیے کیسے کرلیں؟“
”یہ بہت آسان کام ہے، بہت آسان ہے۔“
”یہ آسان ترین کام بھی ہمارے لیے مشکل ترین بلکہ ناممکن ہے۔ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، حلال روزی ہی کمائی ہے۔ حرام روزی کے نزدیک بھی نہیں گئے۔ لہٰذا تمہاری پیش کش کو ہم تمہارے منہ پر مارتے ہیں اور تم پُرسکون انداز میں جیل جاﺅ۔ جیل تو اب تمہیں جانا ہوگا لیکن یہ تو بتاﺅ، تمہارا گٹھ جوڑ کیسے ہوا؟“
”عامی خا ن اور اس کے ماتحت یہاں نئے نئے لگے تھے۔ انہی دنوں میں نے واردات کی تو جناب جن کے ہاں واردات کی تھی، انہوں نے مجھ پر شک ظاہر کردیا۔ عامی خان پوچھ گچھ کے لیے میرے پاس آیا۔ میں نے پہلی نظر میں ہی پہچان لیا کہ رشوت کھانے والا ہے، لہٰذا اسے بڑی رقم کی پیش کش کردی۔ اس نے خوشی سے رقم قبول کرلی۔ اس کے بعد ہم دوست بن گئے اور مل جل کر یہ کام کرنے لگے۔اب جب پولیس ہی وارداتیں کرنے والوں کی ساتھی بن جائے تو پھر ڈر کیسا….! بس حماد تو بلاوجہ ہمارے درمیان میں آگیا ورنہ یہاں تو کسی کو کانوں کان پتا نہیں تھا کہ ہم یہ کام کرتے ہیں۔“
”ہوں! تو تم ہمیں بھی عامی خان سمجھ رہے ہو؟“
”نہیں! تم لوگوں کے چہروں سے صاف ظاہر ہے کہ تم نے زندگی میں کبھی رشوت نہیں لی، نہ لوٹ مار کی ہے۔“ اس نے کھلے دل سے اعتراف کیا۔
”بس تو پھر ہم یہ کام کریں گے بھی نہیں تم جتنا جی چاہے زور لگا لو۔ لہٰذا جیل تو اب تمہیں جانا ہوگا۔“
اکرام کے ماتحت انہیں لے جانے کے لیے پہلے ہی تیار کھڑے تھے۔ ان کے اشارے پر حرکت میں آگئے۔
”اب…. اب ہمیں کیا کرنا ہے؟“ محمود نے ان سے کہا۔
”اب ہمیں کیا کرنا ہے ، بس دارالحکومت چلتے ہیں۔ امی جان ہمارے انتظار میں بیٹھی ہوں گی۔ ان کی بھی دو چار سننی پڑیں گی لیکن اس سے پہلے ہم مائی بگّو سے ملاقات کریں گے۔“
”اوہ ہاں! یہ بہت ضروری ہے، ورنہ انہیں شکایت ہوگی کہ ہم ملے بغیر ہی چلے گئے۔“
”بس تو پھر چلتے ہیں۔“
جلد ہی وہ مائی بگّو کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔ پھر جونہی دروازہ کھلا، مائی بگّو مارے خوشی کے چلّائی:
”آگئے! فرشتے آگئے، آجائیں، اندر آجائیں۔ میں تم لوگوں ہی کا انتظار کررہی تھی۔ میں نے تمہارے لیے کھانے کی طرح طرح کی چیزیں تیار کی ہیں۔ میں کہتی تھی، تم جانے سے پہلے مجھ سے اور حماد سے ضرور ملنے آﺅ گے۔ کیوں حماد!“
”ہاں ماں جی!“
”آپ نے کیا کہاں ماں جی! فرشتے؟ لیکن ہم تو انسان ہیں۔“
”میرے اور حماد کے لیے تو فرشتے ہی ثابت ہوئے ہو۔“
”تم جو بھی ہو، بہت عظیم ہو۔ دوسروں کے لیے اپنی جانوں کی بازی لگا دینے والے، اپنا وقت اور اپنی ہر چیز قربان کردینے والے، اپنے آپ کو خطرات میں ڈال دینے والے۔“
”بس ماں جی! ورنہ ہم مارے گھبراہٹ کے یہاں سے دوڑ لگا جائیں گے۔“ محمود نے واقعی گھبرا کر کہا۔
”ارے نہیں! یہ کھانے کون کھائے گا۔ میں نے ساگ پکایا ہے، قیمہ کریلے اور مونگ کی دال تیار کی ہے، اندر آجاﺅ۔“
وہ دونوں انہیں کھینچ کر اندر لے آئے۔ اندر واقعی کھانا تیار تھا۔ اب جو انہوں نے وہ کھانے کھائے تو انہیں مزہ ہی آگیا۔ ان میں اس قدر مرچیں تھیں کہ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
”یہ…. یہ کیا؟! تم تو رونے لگے میرے بچے!“
”یہ…. یہ تو خوشی کے آنسو ہیں ماں جی!“ فاروق نے بہت مشکل سے کہا۔
”ویسے ماں جی! کھانا ہے واقعی بہت مزے کا۔“
”سچ!“ اس نے خوش ہوکر کہا۔
”ہاں بالکل سچ! اصل مزے تو ان ہی کھانوں میں ہوتے ہیں جو خلوص سے تیار کیے جائیں۔“
”جیتے رہو میرے بچو! ہم اپنی زندگی کی آخری سانس تک تمہیں بھلا نہیں پائیں گے۔“
پھر وہ اُٹھ کھڑے ہوئے۔ حماد، محمود اور فاروق سے گرم جوشی سے ملا اور فرزانہ کو مائی بگّو نے سینے سے لگا کر رخصت کیا۔ وہ دروازے پر کھڑے ہوکر الوداعی انداز میں ہاتھ ہلاتے رہے، یہاں تک کہ وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔
جونہی انہوں نے اپنے گھر کے دروازے پر دستک دی۔ ان کی والدہ کی چہکتی ہوئی آواز نے ان کا استقبال کیا:
”لیجیے! آگئے میرے سپوت! انہیں تو ہر قدم پر کیس مل جاتے ہیں اور گھر میں کھانے ٹھنڈے ہوتے رہتے ہیں۔ کیا خیال ہے آپ کا؟“
”وہی جو آپ کا خیال ہے۔“ انسپکٹر جمشید نے ہنس کر کہا۔
دروازہ کھلنے پر وہ اندر داخل ہوئے تو گھر کا صحن مزے مزے کے کھانوں کی خوش بو سے مہک رہا تھا اور بیگم جمشید انہیں دیکھ دیکھ کر بُرے بُرے منہ بنا رہی تھیں۔ اب یہ اور بات ہے کہ ان کے اس انداز سے بھی محبت ہی جھلک رہی تھی۔
٭….٭….٭
Alif Kitab Publications Dismiss
2 Comments
کیا انکی پی ڈی ایف مل سکتی ہے۔اپکی کویٰ ایپ ہے
PDF please