الف لیلہ ۲۰۱۸ء داستان
قسط نمبر۲
دوسری رات
جاگنا حسن بدرالدین کا ماڈل ٹاون میں، چکرانا، ملنا زلیخا سے
دن کو جب وزیر ارسطو تدبیر درِ دولتِ سلطانی پر حاضر ہوا اور بادشاہ کی زبانی اپنی دختر نیک اختر کے قتل کا حکم نہ سنا تو بڑی حیرت ہوئی اور مسرت بھی ہوئی کہ اللہ نے بچایا۔ بیٹی کا صدمہ نہ دکھایا۔ جناب باری کا شکر ادا کیا۔ جب شب ہوئی تو بادشاہ نے ملکہ شہرزاد سے کہا اب وہ کہانی سناؤ، حسن بدر الدین کا حال بتاؤ، تب شہرزاد نے یوں کہانی سنائی۔
حسن بدر الدین کہ ایک مکارہ ساحرہ کے ہاتھوں وقت کی گردش میں پھینکا گیا تھا۔ اس سفر کی تیزی کی تاب نہ لا کر بے ہوش ہوگیا۔ آنکھ کھلی تو خود کو ایک ایسے کمرے میں پایا جو اس نے کبھی خواب و خیال میں بھی نہ سوچا تھا۔ وہ ایک مسہری پر پڑا تھا اور جو لحاف اوڑھے ہوئے تھا، پھول کے مانند ہلکا لیکن گرم تھا۔ حسن نے اردگرد نظر دوڑائی۔ کھڑکی سے تیز دھوپ اندر آرہی تھی اور اس کی روشنی میں کمرے کی سفید دیواریں چمک رہی تھیں۔ ایک دیوار کے ساتھ میز رکھی تھی جس کے ساتھ ایک بغیر پٹ کی الماری میں کتابیں تھیں۔ دوسری دیوار پر ایک جہاز قامت تصویر تھی جس میں چند چست و چالاک نوجوان عجیب قسم کے پوشاک پہنے ایک گیند کو ٹھوکر لگاتے نظر آرہے تھے۔ نیچے کسی جناتی زبان میں کچھ لکھا تھا۔ حسن اس تصویر کو دیکھ کر حیران ہوا اور دل میں کہنے لگا یااللہ یہ کیابوالعجبی ہے؟ میں کہاں ہوں؟ یہ کیا ہے؟ ان نوجوانوں کے پاجامے آدھے کسی نے کاٹ دیے؟ اور یہ تصویر کس مصور کے زورِ قلم کا شاہ کار ہے، یہ کون فن کار ہے جس نے ایسی تصویر بنائی کہ ہو بہ ہو نقل بہ مطابق اصل معلوم ہوتی ہے۔ اوپر چھت پر جو نگاہ گئی تو ایک عجیب سی چیز الٹی لٹکی نظر آئی۔ دل میں سوچا یہ کیا چیز ہے؟ جھاڑ ہے یا فانوس؟ اگر وہی ہے تو اس میں شمعیں لگانے کی جگہ کہاں ہے؟ اور اس کے مرکز سے یہ تین پتریاں سی کیوں نکلی ہوئی ہیں؟ ابھی دم بہ خود لیٹا اسی ادھیڑ بن میں مصروف تھا کہ اچانک دروازہ کھلا اور ایک نوخیز مہ پارہ اندر آئی۔ آتے ہی ڈپٹ کر بولی: ’’اُف تم ابھی تک سو رہے ہو؟ ماما نے کہا ہے فوراً اٹھو ورنہ ناشتا نہیں ملے گا۔‘‘
حسن نے اسے دیکھا تو دیکھتا رہ گیا۔ بوٹاسا قد، بھرا بھرا بدن، چہرے پر وہ ملاحت، وہ نمک کہ کانِ نمک بھی شرمائے، مقابلے کو نہ آئے۔ اتنے میں وہ پری وش بد دماغ ہو کر بولی: اب گھور کیا رہے ہو؟ اٹھتے ہو یا نہیں؟ گیارہ بج گئے، تمہاری سواری کمرے سے ہی نہیں نکلی۔ اٹھو ماما ناراض ہورہی ہیں۔‘‘
حسن نے کہا ’’اے پری پیکر، نازک کمر، بلبلِ شاخسارِ رعنائی، ندوہِ کوہسارِ برنائی، ستم کوش، نسترن بناگوش تو کون ہے؟‘‘
حیرت سے اس نازنین کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ گھبرا کر چلائی، ’’کیا بکواس کررہے ہو؟ کون سی زبان بول رہے ہو؟ بھنگ پی کر سوئے تھے کیا؟ ہائے اللہ، ماما کو تو ویسے ہی شک ہے کہ تم سگریٹ پینے لگے ہو۔ کہیں چرس تو نہیں شروع کردی ؟‘‘
حسن نے گڑ گڑا کر کہا،’’واللہ بندہ بے قصور ہے، ہر قسم کے نشے سے طبیعت نفور ہے، مگر یہ تو بتائیے آپ کون ہیں؟ یہ کون سی جگہ ہے؟ اتنا تو میں سمجھا ہوں کہ یہ مقام آباد ہے مگر آدمی رہتے ہیں یا مسکنِ دیوزاد ہے؟‘‘
اب کے اس پری پیکر نے ناک چڑھائی اور تنک کر بولی، ’’ویری فنی، خوامخواہ میں انجینئر بن رہے ہو، تمہیں تو ایکٹر بننا چاہیے۔ بھائی جان، یہ آپ کے ماموں کا گھر ہے۔ 420۔ ڈی ماڈل ٹاؤن لاہور۔ اور میں آپ کے ماموں کی بیٹی زلیخا ہوں۔ اب اگر ہوش سنبھل گئے ہوں تو باہر تشریف لائیے ورنہ باقی کا دماغ آپ کا ماما درست کریں گی۔‘‘
یہ کہہ کر وہ زہرہ جمال پری تمثال دروازے سے نکل گئی۔ حسن بدر الدین جی میں حیران ہوا کہ یہ کون سی بستی ہے، کون سا دیار ہے؟ یہ کون سے ماموں ہیں جن کا یہ مسکن رود بار ہے؟ میرے تو کوئی ماموں ہی نہیں۔