آگ کے جگنو ۔ لوک کہانی

آگ کے جگنو

جاوید بسام

سردی زوروں پر تھی اور ان دنوں سورج بابا کا قیام ایک اونچے پہاڑ پر تھا۔ چترال کی قریبی وادی میں ایک گاؤں تھا جہاں آمنہ نامی ایک بڑھیا اپنے گھر کھانا پکا رہی تھی۔ اچانک چولہے سے ایک چنگاری اُڑی اور کسی کپڑے پر جاگری۔ اُس نے خیال نہ کیا۔ چنگاری شعلہ بن گئی اور جب اس نے آس پاس چیزوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو بڑھیا کو ہوش آیا۔ اس نے آگ بجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ بڑھتی ہی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے جھونپڑی دیکھتے ہی دیکھتے جل کر راکھ ہوگئی۔

بڑھیا بہت پریشان تھی کیوں کہ اس کے پاس دوبارہ جھونپڑی بنانے کے لیے پیسے نہ تھے۔ مجبوراً وہ اپنے کسی رشتے دار کے ساتھ رہنے لگی۔ جوں جوں دن گزرتے رہے۔ اُس کا غم و غصہ بڑھتا گیا۔ وہ آگ کو برا کہنے لگی۔ وہ کہتی یہ آگ بڑی ظالم ہے۔ میرا بس چلے تو اسے ختم کردوں۔

ایک دن جب اسے پتا چلا کے پہاڑ پر سورج بابا نے قیام کررکھا ہے تو اس نے ایک بورے میں اپنی جھونپڑی کی راکھ ڈالی اور سورج بابا سے آگ کی شکایت کرنے پہاڑ پر چڑھنے لگی۔

سارا دن چلنے کے بعد وہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچی۔ اسے وہاں روشنی کا بڑا سا گولا نظر آیا۔ ایک بہت بوڑھا آدمی تھا جس کا چہرہ خوب روشن تھا۔ بڑھیا نے اسے سلام کیا اور بوری پر بیٹھ کر ہانپتے ہوئے بولی: ”سورج بابا! میں آپ کے پاس ایک ضروری کام سے آئی ہوں۔ آگ نے میرا گھر جلا ڈالا ہے۔ آپ اسے سزا دیں۔”

سورج بابا نے اس کی بات سن کر آگ کو بلوایا۔ جلد ہی وہ وہاں آگئی۔ وہ بھی ایک عورت کے روپ میں تھی۔ بڑھیا آمنہ غصّے سے چلّائی: ”ہاں یہی ہے جس نے مجھے برباد کردیا۔”

آگ اس کی بات سن کر حیران ہوئی پھربولی: ”اس میں میرا کوئی قصور نہیں تھا۔ تم نے بے احتیاطی کی تھی، اس دن ہوا بھی تیز تھی۔”

سورج بابا نے سوالیہ نظروں سے آمنہ کی طرف دیکھا تو وہ جھینپ کر بولی:

”ہاں! اس دن شاید ایسا ہی ہوا تھا مگر یہ بہت ظالم ہے۔ اکثر انسانوں کے لیے مصیبت بن جاتی ہے۔”

”میں انسانوں کے لیے رحمت اور زندگی سے جڑے رہنے کا ذریعہ بھی تو ہوں۔” آگ جلدی سے بولی۔

”نہیں تم نے ہمیشہ ہمیں نقصان پہنچایا ہے۔” بڑھیا برہمی سے بولی۔

”اچھا! اگر تم نے میری اہمیت دیکھنی ہے تو میرے ساتھ چلو۔” آگ کو بھی غصہ آگیا۔ بڑھیا نے حیرت سے اسے دیکھا تو آگ دوبارہ بولی: ”میرا ہاتھ پکڑ کر آنکھیں بند کر لو، ہم کچھ دیر میں واپس آجائیں گے۔”

بڑھیا نے ڈرتے ڈرتے آگ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ آگ نے منہ میں کچھ پڑھا اور پھر دونوں وہاں سے غائب ہوگئیں۔

”لو! اب آنکھیں کھولو۔” کچھ دیر بعد آگ کی آواز سنائی دی۔

بڑھیا نے آنکھیں کھولیں تو حیران رہ گئی۔ وہ دونوں ایک سرد علاقے میں کھڑی تھیں۔ جہاں برف کا طوفان آیا ہوا تھا۔ سب درخت اور میدان برف کی چادر میں ڈھکے ہوئے تھے، مگر بڑھیا کو سردی محسوس نہیں ہورہی تھی۔ آگ نے دھیرے سے کہا: ”جب تک تم میرا ہاتھ پکڑے رہو گی تمہیں سردی نہیں لگے گی۔”

پھر وہ آگے بڑھیں۔ کچھ دور انہیں ایک غار کا دہانہ نظر آیا۔ دونوں غار میں داخل ہوگئیں۔ انہیں وہاں دو کسان دکھائی دیے۔ وہ اپنے کام سے فارغ ہوکر گھر لوٹ رہے تھے کہ طوفان نے آلیا۔ سردی سے بچنے کے لیے دونوں نے غار میں پناہ لے لی تھی۔ سخت سردی سے ان کا برا حال تھا۔

ایک کسان تو گٹھڑی بنا پڑا تھا، ایسا لگتا تھا کہ بے ہوش ہوگیا ہے۔ دوسرا ابھی اپنے حواس قائم رکھے ہوئے تھا، مگر دانت اُس کے بھی بج رہے تھے۔ اس نے کچھ گھاس پھوس اور لکڑیاں جمع کررکھی تھیں اور دو پتھروں کو آپس میں رگڑ کر آگ جلانے کی کوشش کررہا تھا۔ دونوں خاموش کھڑی انہیں دیکھتی رہیں۔

وہ انہیں دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ آخر پتھروں کو رگڑنے سے چنگاریاں اڑیں اور گھاس پر جاگریں۔ آدمی جلدی جلدی پھونکیں مارنے لگا۔ پہلے سوکھی گھاس جلی پھر لکڑیاں بھی جل اٹھیں۔ غار اچانک روشن ہوگیا۔ آدمی نے اپنے ساتھی کو آواز دی اور اسے آگ کے قریب کردیا۔ آگ کی تپش سے جلد ہی اس کے حواس بحال ہوگئے اور آگ کی گرمی سے سکون محسوس کرنے لگا۔

باہر سخت طوفان تھا۔ برف کے گالے اِدھر اُدھر اڑتے پھررہے تھے، مگر غار گرم تھا اور اس کے مکین آرام سے بیٹھے تھے۔ آگ نے سوالیہ نظروں سے بڑھیا کی طرف دیکھا توبڑھیا نے اُس کی تائید میں گردن ہلادی پھر دونوں باہر نکل گئیں۔

کچھ دیر بعد وہ دوبارہ سورج بابا کے پاس جاپہنچیں۔ آگ بولی: ”تم نے دیکھا میں نے کس طرح اللہ کے حکم سے ان مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کی۔ ورنہ شاید وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔”

”ہاں میں سمجھ گئی، اللہ نے ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے بنائی ہے۔ نقصان ہماری بے احتیاطی سے ہوتا ہے۔” بڑھیا نے کہا۔

پھر اس نے سورج بابا اور آگ کا شکریہ ادا کیا اور واپس گاؤں کی طرف چل دی۔ آگ بھی اس کے ساتھ تھی۔ دونوں پہاڑی ڈھلوان سے اتر رہی تھیں۔ آگ نے بڑھیا سے پوچھا: ”تم نے بوری کیوں اٹھا رکھی ہے؟” اس پر بڑھیا ایک دم چونک اُٹھی۔

”اوہ! اسے تو میں بھول ہی گئی، خیر اب یہ میرے کس کام کی۔” یہ کہہ کر بڑھیا نے بوری کو اسی جگہ پھینک دیا۔

”اس میں کیا تھا؟” آگ نے حیرت سے پوچھا۔

”میری جھونپڑی کی راکھ تھی۔” بڑھیا افسردگی سے بولی۔

کچھ دور چل کر آگ نے خدا حافظ کہا اور ایک پہاڑی کے پیچھے غائب ہوگئی۔ بڑھیا اپنے گاؤں کی طرف بڑھ گئی۔

جب وہ گاؤں کے باہر پہنچی تو اسے ایک درخت کے نیچے اپنی بوری رکھی نظر آئی۔ وہ بہت حیران ہوئی۔ بوری بھاری محسوس ہورہی تھی۔

”ارے! یہ یہاں کیسے؟” وہ سوچنے لگی۔ پھر آگے بڑھ کر اس نے بوری کا منہ کھولا تو اس کی آنکیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ بوری میں سونے کی اشرفیاں بھری تھیں۔ بڑھیا خوشی خوشی اسے اپنے ساتھ لے گئی۔ پھر اس نے اپنا گھر بنوایا اور گزر بسر کے لیے جانوروں کا فارم خرید لیا۔ پھر جو اشرفیاں بچیں وہ گاؤں والوں میں تقسیم کردیں۔ انہوں نے بھی اپنے گھروں کو پکا کروا لیا۔ سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ مگر بڑھیا اکثر سوچتی کہ وہ اشرفیاں کہاں سے آئی تھیں؟

ایک دن وہ اپنے بیٹے کے لیے کھانا پکا رہی تھی۔ آگ تیزی سے جل رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے چولہے کی دیوار کے ساتھ چھوٹی چھوٹی اشرفیاں چمک رہی ہوں۔ وہ غور سے آگ کو دیکھنے لگی۔ ننھے منے ٹمٹماتے آگ کے جگنو بہت بھلے لگ رہے تھے۔ اسے لگا آگ اس سے کچھ کہہ رہی ہے۔ وہ دیکھتی رہی پھر اچانک اس کی سمجھ میں آگیا۔ وہ مسکرا کر بولی:

”میں سمجھ گئی تم نے ہی اللہ کے حکم سے میری مدد کی تھی۔ بے شک تم ہمارے لیے رحمت بھی ہو۔”

اسے لگا ننھے منے بھڑکتے شعلے اس کی بات سن کر ایک دم مسکرا دیے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آج بھی چولہے کی دیواروں کے ساتھ آگ کے جگنو شعلے جگمگاتے ہیں تو یہ اسی بڑھیا کی یاد دلاتے ہیں۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

والٹ ڈزنی ۔ شاہکار سے پہلے

Read Next

آدھی پوری ۔ لوک کہانی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!