آدھی پوری ۔ لوک کہانی

آدھی پوری

محمد احمد رضا انصاری

کسی گاؤں میں ایک کسان اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ کسان کا نام تھا صابر اور اُس کی بیوی کا نام جنت۔ وہ گاؤں کا سب سے امیر کسان تھا۔ اُس کے پاس روپیہ پیسا تو بہت تھا لیکن گھر اور زمیوں پر کام کرنے والے آدمی کم تھے۔ اس لیے ہمیشہ وہ دوسروں سے مزدوری پر کام لیتا تھا۔ مئی کا مہینا تھا۔ صابر کے کھیتوں میں گندم کی فضل بہت اچھی ہوئی تھی۔ صابر اور اُس کے مزارع گندم کاٹ کر ایک جگہ ڈھیر لگا چکے تھے۔ بس اب تھریشر لگا کروانے کھلوانے تھے۔ صابر نے بہت چاہا کہ کوئی تھریشر والا ملے مگر سب مصروف تھے۔ ایک دن کوئی تہوار آگیا اور سب لوگوں نے کاموں سے چھٹی کرلی۔ اسی دن آسمان پر ایک دو بادل بھی نظر آنے لگے۔ صابر ڈر گیا کہ اگر بارش ہوگئی تو بہت نقصان ہوگا… ساتھ ہی پانچ چھے مہینے کی محنت بھی ضائع جائے گی۔ صابر ایک تھریشر والے کے پاس گیا۔ اور بڑی مشکل سے اُسے اپنے دانے نکلوانے پر راضی کر پایا۔ تھریشر والا اپنے مزدور لے کر صابر کے کھیتوں میں چلا گیا۔ صابر نے گھر آکر اپنی بیوی سے کہا کہ نیک بخت آج ہمارے کھیتوں پر تھریشر لگی ہے۔ دوپہر کو مزدوروں کو سوجی کا حلوہ کھلانا ہے اور ساتھ میں پوریاں بھی بنا لینا۔ یہ کہہ کر وہ اپنے کھیتوں کی طرف چل دیا…

گیارہ بجے جنت نے سوجی کا حلوہ بنایا پھر چوکھے پر کڑھائی چڑھا کر پوریاں بنانے کی تیاری کرنے لگی۔ کڑھائی میں تیل ڈالا۔ جب تیل گرم ہوگیا تو وہ پوریاں ہیل ہیل کر کڑھائی میں ڈالنے لگی کچھ پوریاں پک گئی تو جنت کا چھوٹا بیٹا بدھو کچن میں آکر شرارتیں کرنے لگا۔ جنت نے اُسے ڈانٹا اور باورچی خانے سے باہر نکلنے کو کہا… وہ برُے برُے منہ بناتا باہر نکل گیا۔ کڑھائی میں جو پوری پڑی تھی وہ اتنی دیر میں جلنے لگی تھی۔ اُسے برا لگا کہ جنت نے میرا خیال نہ کیا اور اسے اتنی دیر جلتے ہوئے تیل میں رکھ کر تکلیف دی۔ جنت نے اُسے پلٹنا چاہا تو وہ اور چڑ گئی اور جھٹ کڑھائی سے نکل کر جاگ کھڑی ہوئی۔

جنت نے بہت چاہا اُسے پکڑے۔ مگر وہ کہاں ہاتھ آتی۔ جھٹ گھر میں سے نکل کر کھیتوں کی طرف بھاگی۔ راستے میں صابر کا کھیت تھا۔ جہاں پانچ آدمی تھریشر پر کام کر رہے تھے۔ پوری اُن کے پاس سے گزری اور کہنے لگی۔ میں کڑھائی سے نکل کر، بدھو کی ماں سے بچ کر آئی ہوں۔ تم سے بھی بچ نکلوں گی۔ لو مجھے پکڑ لو۔

ان آدمیوں نے جب دیکھا کہ ایک اچھی پکی پکائی پوری یوں پاس سے بھاگی جارہی ہے تو وہ کام کرنا چھوڑ کر اُس کے پیچھے دوڑ لیے۔ مگر وہ بھلا کہاں ہاتھ آتی، وہ سب دوڑتے دوڑتے ہانپ گئے تھے۔ مجبوراً واپس لوٹ آئے۔ کھیت سے نکل کر ایک درخت کے نیچے آئے ایک خرگوش ملا۔ اُسے دیکھ کر پوری بولی:

خرگوش تم سے جی نہیں پکڑی جاؤں گی۔

خرگوش کو یہ سن کر اور ضد ہوئی اور وہ بڑی تیزی سے اُس کے پیچھے بھاگا اور سچی بات تو یہ ہے کہ بی پوری اگر ایک بھٹ میں نہ گھس گئی ہوتی تو اس دم کٹے خرگوش نے اُسے پکڑ ہی لینا تھا۔ مگر بھٹ کے اندر خرگوش لومڑی کے ڈر سے نہ گیا۔

پوری بھٹ میں جو گھسی تو اندر ایک لومڑی بیٹھی ہوئی تھی۔ اُس نے جو دیکھا کہ ایک پوری اندر گھسی آرہی ہے تو جھٹ سے اٹھ کر اُس کے استقبال کے لیے کھڑی ہوگئی۔ اب آئی ہے تو جائے گی کہاں…؟

مگر اُسے دیکھ کر پوری اُلٹے پاؤں واپس لوٹی اور یہ کہتے ہوئے باہر بھاگی۔

میں تو کڑھائی سے نکل کر، بدھو کی ماں سے بچ کر، پانچ آدمیوں کو ہرا کر اور میاں دم کٹے خرگوش کو اُلٹو بنا کر آئی ہوں بی کن کٹی لومڑی میں تمہارے بس کی نہیں…

لومڑی نے کہا:

جاتی کہاں ہے… ٹھہر تو، ابھی تیری شیخی کا مزا تجھے چکھاتی ہوں… یہ کہہ کر اُس کے پیچھے لپکی…!

مگر پوری تھی ہوشیار، بڑی چالاک، وہ جھٹ سے ایک کسان کے مکان کی طرف بھاگی اور لومڑی بھلا کتوں کے ڈر سے وہاں کیوں جاتی…؟ لاچار کھڑی اُسے دیکھتی رہی…

کسان کے مکان کے قریب ایک بھوکی کتیا اپنے سات عدد بچوں کے ساتھ اِدھر اُدھر پھر رہی تھی۔

انہوں نے بھی پوری کو چٹ کرنے کا ارادہ کیا۔ پوری نے کہا۔

میں کڑھائی سے نکل کر، بدھو کی ماں سے بچ کر، پانچ آدمیوں کو ہرا کر، میاں دم کٹے خرگوش کو اُلّو بنا کر اور بی کن کٹی لومڑی کو بیوقوف بنا کر آئی ہوں۔ ”جی بی کُتیا میں تمہارے بس کی نہیں…” کتیا بھی بڑی ہوشیار تھی۔ ایسے بن گئی جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔ آگے کو منہ کرکے کہنے لگی۔ بی پوری کیا کہتی ہو۔ میں ذرا اونچا سنتی ہوں۔

پوری ذرا قریب آئی اور کتیا نے بھی لہروں کی طرح اپنا منہ اُس کی طرف بڑھا دیا۔ پوری پھر وہی کہنے لگی۔

میں کڑھائی سے نکل کر، بدھو کی ماں سے بچ کر، پانچ جوان آدمیوں کو ہرا کر، دم کٹے خرگوش کو اُلّو بنا کر اور کن کٹی لومڑی کو بیوقوف بنا کر آئی ہوں۔ ابھی بی کتیا…

اتنا ہی کہہ پائی تھی کہ کتیا نے ہپ کرکے منہ مارا اور آدھی پوری اُس کے منہ میں آگئی۔ اب جو آدھی پوری بچی تھی وہ اتنی تیزی سے بھاگی اور آگے جاکر نہ معلوم کیسے زمین کے اندر گھس گئی۔ کتیا اور اُس کے بچے پوری کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک گئے مگر پوری کا پتا نہ چلا… وہ کتیا اور اُس کے بچے ساری عمر اُس پوری کو تلاش کرتے رہے مگر اُسے نہ ملنا تھا نہ ملی… ابھی تک سارے کُتے اُسی آدھی پوری کو تلاش میں زمین سونگھتے پھرتے ہیں۔ کہیں سے اُس کا پتا چلے تو نکالیں۔ اُس نے 

Loading

Read Previous

آگ کے جگنو ۔ لوک کہانی

Read Next

وہ کون تھا؟ ۔ نانگا پربت کی لوک کہانی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!