وقت کی ریت پہ — فوزیہ یاسمین
اگر کوئی دیکھ سکے تو گھٹا ٹوپ اندھیری رات کے بھی کئی روپ ہوتے ہیں جیسے اس وقت رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے ہیں۔
اگر کوئی دیکھ سکے تو گھٹا ٹوپ اندھیری رات کے بھی کئی روپ ہوتے ہیں جیسے اس وقت رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے ہیں۔
”باادب! باملاحظہ! ہوشیار…مس ظرافت کچن کے ہموار پختہ فرش پر قدم دکھ چکی ہیں۔ لہٰذا کوئی بڑا یابچہ آس پاس پھٹکنے نہ پائے ورنہ جنابِ
ولی کو کھانا وقت پر ملے نہ ملے ، کرکٹ وقت پر ضرور کھیلنی ہے ۔ پڑھنے کو وقت ملے نہ ملے ، کرکٹ کے
آپی کہا کرتی تھی،” سنہرے سمے سمے کی بات ہوتی ہے۔ ہر سمے کا اپنا رنگ، اپنا اثر ہوتا ہے۔ اپنا سمے پہچان، سنہرے۔ اپنے
وہ شہر کے صدر بازار میں لوہے کی منڈی تھی جو ہر وضع اور ہر قماش کے لوگوں سے بھری پڑی تھی۔ وہ صومعہ نشین
میں وہ ”موسمِ گرما” ہوں جسے بچے ‘بوڑھے’ جوان کئی مختلف صورتوں میں یاد کرتے ہیں۔ ان مختلف صورتوں میں سے ایک آئے دن ہونے
رات نے ہاتھ میں سیاہ دوات لے کر ہر سو اندھیرا چھڑک رکھا تھا ۔ کچھ ایسی ہی تاریک اس شخص کی زندگی بھی تھی
رجونے چولہے میں مزید لکڑیاں جھونکیں اور جلدی جلدی پیڑے بنانے لگی ۔ چونکی اُس وقت جب بارش کی کن من اس کے کانوں سے
عشق تے آتش سیک برابر سانوں عشق دا سیک چنگیرا اگ تے ساڑھے ککھ تے کانے عشق ساڑے تن میرا اگ دا دارو مینہ تے
اس کے چاروں طرف خوبصورت سبزہ تھا۔ شیشم اور چیڑ کے درخت، نرم ملائم سر سبز گھاس…. اوپر آسمان پہ کالے بادل چھانے لگے تھے۔