
اُف یہ گرمی — فہمیدہ غوری
یہ اک گمبھیر موضوع ہے یعنی موسم گرما، تو لکھنے کے لیے بھی کافی سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ موسم گرما جو اپنے ساتھ بہت سارے
![]()

یہ اک گمبھیر موضوع ہے یعنی موسم گرما، تو لکھنے کے لیے بھی کافی سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ موسم گرما جو اپنے ساتھ بہت سارے
![]()

نورالحسن دو دن کے لیے لاہور گیا تھا ۔ ولی اپنے آپ کو آزاد محسوس کر رہاتھا ۔ آج وہ دیر رات تک دوستوں میں
![]()

آخر ایک ماہ کی محنت کے بعدگُلانے کا مشن پایہ تکمیل کو پہنچا ۔ وہ بہت خوش تھی۔ نور الحسن کی سالگرہ کے دن وہ
![]()

یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب رُوفی کے دانت پر بجلی گری۔ رُوفی (جن کو بعد میں شیطان کا نام ملا)بجلی سے بہت ڈرتے
![]()

اگر کوئی دیکھ سکے تو گھٹا ٹوپ اندھیری رات کے بھی کئی روپ ہوتے ہیں جیسے اس وقت رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے ہیں۔
![]()

”باادب! باملاحظہ! ہوشیار…مس ظرافت کچن کے ہموار پختہ فرش پر قدم دکھ چکی ہیں۔ لہٰذا کوئی بڑا یابچہ آس پاس پھٹکنے نہ پائے ورنہ جنابِ
![]()

ولی کو کھانا وقت پر ملے نہ ملے ، کرکٹ وقت پر ضرور کھیلنی ہے ۔ پڑھنے کو وقت ملے نہ ملے ، کرکٹ کے
![]()

آپی کہا کرتی تھی،” سنہرے سمے سمے کی بات ہوتی ہے۔ ہر سمے کا اپنا رنگ، اپنا اثر ہوتا ہے۔ اپنا سمے پہچان، سنہرے۔ اپنے
![]()

وہ شہر کے صدر بازار میں لوہے کی منڈی تھی جو ہر وضع اور ہر قماش کے لوگوں سے بھری پڑی تھی۔ وہ صومعہ نشین
![]()

میں وہ ”موسمِ گرما” ہوں جسے بچے ‘بوڑھے’ جوان کئی مختلف صورتوں میں یاد کرتے ہیں۔ ان مختلف صورتوں میں سے ایک آئے دن ہونے
![]()