میٹھی یاد — لعل خان
میں پل کے نیچے لگے ہوئے سبزی کے ٹھیلوں کے پاس کھڑا ٹریفک دیکھ رہا تھا،جب میں نے سڑک کے کنارے چودہ یا پندرہ سال
میں پل کے نیچے لگے ہوئے سبزی کے ٹھیلوں کے پاس کھڑا ٹریفک دیکھ رہا تھا،جب میں نے سڑک کے کنارے چودہ یا پندرہ سال
مہمان آنے والے تھے میں ڈرائنگ روم کی صفائی اور جھاڑ پونچھ میں مصروف تھی کہ مجھے کھڑکی کے بالکل قریب ایک عورت کی سسکیوں
”سنو سنوسب لوگ سن لو۔میں لکھاری ہوں،لکھاری ہوں میں۔میرے قلم کی کاٹ نے دنیا کو ادھیڑ دیا تھا۔میرے الفاظ کے جادو نے کئی لوگوں کو
ایک تھا فلسفی۔ پڑھتاکم، لکھتا زیادہ تھا بلکہ لکھنے پڑھنے سے بھی بڑھ کر وہ سوچنے کا زیادہ شوقین تھا۔ ایک دفعہ اس شخص کے
جان ڈریک نے اپنی گھڑی دیکھتے ہوئے مردم بیزار اور دل آزار لہجے میں کہا: ”دیکھو آنٹی! جو کچھ بھی کہنا ہے، جلدی سے کہہ
الیاس اس قریے میں آخری آدمی تھا۔ اس نے عہد کیا تھا کہ معبود کی سوگند میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا ہوں اور
یہ اک گمبھیر موضوع ہے یعنی موسم گرما، تو لکھنے کے لیے بھی کافی سنجیدہ ہونا پڑے گا۔ موسم گرما جو اپنے ساتھ بہت سارے
نورالحسن دو دن کے لیے لاہور گیا تھا ۔ ولی اپنے آپ کو آزاد محسوس کر رہاتھا ۔ آج وہ دیر رات تک دوستوں میں
آخر ایک ماہ کی محنت کے بعدگُلانے کا مشن پایہ تکمیل کو پہنچا ۔ وہ بہت خوش تھی۔ نور الحسن کی سالگرہ کے دن وہ
یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب رُوفی کے دانت پر بجلی گری۔ رُوفی (جن کو بعد میں شیطان کا نام ملا)بجلی سے بہت ڈرتے