حوّا کی بیٹی — سارہ عمر
”بس یہیں روک دیں۔” وہ ڈرائیور کے پیچھے سے بولی تھی۔ پرس سنبھالتی وہ اپنے اسٹاپ پر اتر گئی۔ ایک لمحے کے لیے نظر سڑک
”بس یہیں روک دیں۔” وہ ڈرائیور کے پیچھے سے بولی تھی۔ پرس سنبھالتی وہ اپنے اسٹاپ پر اتر گئی۔ ایک لمحے کے لیے نظر سڑک
بارش کب ہو گی؟ ” عمیر نے زبیر کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔ “اگر میں ہوا کی رتھ پہ سوار ہو سکتا تو اس پہ
دیوار پر جھولتی ، بہار دکھاتی پھولوں کی بیل دل موہ رہی تھی ۔ اس سے پرے کھڑکی کی آ ہنی جالی کے نقش و
جون کی گرمی۔۔۔ دوزخ کی گرمی۔۔۔لاہور شہر اور اُنتالیس نمبر بس۔یہ بس ائیر پورٹ سے شیرا کوٹ تک جاتی تھی، نہ جانے کتنی خاک، کتنے
ڈگریاں تو اخراجات کی رسیدیں ہوتی ہیں۔ مگر کبھی کبھی زندگی او ر حا لات بھی ایک خاص ڈگری پر چل پڑتے ہیں، نا جانے
درخت کے سائے میں بیٹھے بیٹھے ایک دن وہ اُکتا گیا، یہ دنیا اتنی بڑی ہے میں کب تک یہاں پڑا رہوں گامجھے ضرور یہاں
”لِکھ خالہ حبیبن مع اہل و عیال” اماں نے عینک درست کرتے ہوئے معمر کو کارڈز لکھوانے شروع کئے ”لکھ دیا اماں” اُس نے لکھا
اس کچے سے صحن میں شام اُتر رہی تھی۔ ہوا نے چلنے سے انکار کر دیا اور بڑھتی حبس نے سینوں کے اندر دھڑکتے دل
زندگی اگر بے کیف ہو تو اس میں آنے والا بدلاؤ، بھی کوئی معنی نہیں رکھتا ہے اور نہ ہی مزاج میں ارتعاش پیدا کرتا
داستان محبت مقابلے میں شامل ”سوزِ دروں” ایک ایسی کہانی ہے جس کو لکھنے سے پہلے کئی بار میرا قلم دماغی اور ارادی طور پر