ادھورا پن —- منیر احمد فردوس
ادھیڑ عمراجوکے لئے ستار ہوٹل اندھیرے میں جلتا ایک ایسا دیا تھا جس کی پھوٹتی روشنی میں وہ اپنے جینے کے راستے تلاش کیا کرتا
ادھیڑ عمراجوکے لئے ستار ہوٹل اندھیرے میں جلتا ایک ایسا دیا تھا جس کی پھوٹتی روشنی میں وہ اپنے جینے کے راستے تلاش کیا کرتا
گو کہ امریکا آنے سے پہلے ہی ہمیں اچھی طرح اندازہ تھا کہ اس حسین دیار کے دلکش باشندے ہمیں ہمیشہ غیر ہی سمجھیں گے،
ہوا میں تازگی قدرے کم تھی، اب تک لوگ شاید اِس سوکھی ہوا کے عادی ہوچکے تھے ۔سورج نے بھی اپنی فوج میں چند ہزار
چھم چھم بادل برس رہا ہے۔ ٹین کی چھتوں پر ساز بُنتا، کہیں درختوں سے چھیڑ چھاڑ کرتا، پھولوں کے رنگ نکھارتا، دورکہیں پربتوں پر
”فراز اُٹھ جا! پانی ختم ہو گیا ہے جا کے بالٹی بھر لا۔” پروین نے ہاتھ میں پکڑی بالٹی زمین پر رکھی اور خود بھی
”پتھر کا دور واپس آگیا ہے.. اور اب کی بار سب کچھ پتھر کا بنا کر دم لے گا۔” وہ کمرے میں بیٹھے ہم کلامی
یہ شاید 1988ء کے آس پاس کی بات ہے، یاد نہیں کیوں میں ان دنوں گائوں گیا ہوا تھا۔ باہر زمینوں میں ہریالی تھی، یعنی
نہ جانے اس سے پہلے کا موسم کیسا تھا۔ کسی بہار کسی خزاں کا کچھ پتہ نہیں تھا آگاہی کو صرف کچھ نقوش چھوڑے تھے۔
آم پھلوں کا بادشاہ ہے اسی لیے سب کا راج دلارا ہے۔ امیر، غریب سب کی آنکھوں کا تارا ہے۔ اسی لئے سخن کے بادشاہ
امی امی! مجھے علی نے مارا، زویا روتی ہوئی مسز کمال کے پاس آئی۔” نہیں امی! زویا جھوٹ بول رہی، امی میں نے نہیں مارا۔”
Alif Kitab Publications Dismiss