وادان — خدیجہ شہوار
’’تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘وہ درخت کے موٹے تنے سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا کہ ایک دم سے چونک کر اٹھ بیٹھا۔گھبرا کر چاروں
’’تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘وہ درخت کے موٹے تنے سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا کہ ایک دم سے چونک کر اٹھ بیٹھا۔گھبرا کر چاروں
ہوا کی سرسراہٹ اور وحشت زدہ سناٹے کو چیرتے ہوئے گھوڑے کے قدموں کی ٹاپ دور دور تک گونج رہی تھی۔ وہ ہر شے بے
”نل میں پانی نہیں آ رہا۔ کیا مصیبت ہے؟ اب منہ کیسے دھوؤں؟” ریحان نے سنک پر کھڑے ہو کر شور مچایا تھا۔چہرے پر صابن
سات بج کر پچپن منٹپر اس کی آنکھ کھل گئی ۔ سستی سے انگڑائی لیتی وہ اٹھ بیٹھی تھی ۔ بالوں کو پونی ٹیل میں
”پیارے بچے! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو پھر وہ خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں ہو
”ناظرین! سازشیں اپنے عروج پر ہیں۔ نانا جان کی جائیداد میں سے کس کو کیا کیا ملے گا، یہ فیصلہ سب سے پہلے سیفی نیوز
جمال یار سے آنکھوں میں عکس بنتا ہے عکس جب روح میں اترے تو نقش بنتا ہے واعظ ! آئو میں سمجھائوں رقص کی تشکیل
وہ سب سے بے خبر خود کو دیکھے جارہی تھی اور پھر اس نے جیسے سبھی سے نظریں چرا کر اپنے اندر جھانکا تھا۔ یہ
کانپتے وجود کے ساتھ اُس نے شہر بانو کے خط کی آخری سطر پڑھی، اُس نے بہت مضبوطی سے اُس کاغذ کو تھاما ہوا تھا،
گاڑی کے ٹائر چرچرائے اور زور دار دھماکے کی آواز آئی۔ شاید ٹائر پھٹ گیا تھا اور گاڑی سنبھالتے سنبھالتے بھی سامنے والے پر چڑھ