
وقت کی ریت پہ — فوزیہ یاسمین
اگر کوئی دیکھ سکے تو گھٹا ٹوپ اندھیری رات کے بھی کئی روپ ہوتے ہیں جیسے اس وقت رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے ہیں۔
![]()

اگر کوئی دیکھ سکے تو گھٹا ٹوپ اندھیری رات کے بھی کئی روپ ہوتے ہیں جیسے اس وقت رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے ہیں۔
![]()

آپی کہا کرتی تھی،” سنہرے سمے سمے کی بات ہوتی ہے۔ ہر سمے کا اپنا رنگ، اپنا اثر ہوتا ہے۔ اپنا سمے پہچان، سنہرے۔ اپنے
![]()

وہ شہر کے صدر بازار میں لوہے کی منڈی تھی جو ہر وضع اور ہر قماش کے لوگوں سے بھری پڑی تھی۔ وہ صومعہ نشین
![]()

اس کے چاروں طرف خوبصورت سبزہ تھا۔ شیشم اور چیڑ کے درخت، نرم ملائم سر سبز گھاس…. اوپر آسمان پہ کالے بادل چھانے لگے تھے۔
![]()

وہ عجیب کیفیت میں تھی ….. ناک کے نتھنوں سے، سانس کے نام پر خارج ہونے والی ہوا تپش لیے ہوئے تھی۔ وہ کہاں تھی،
![]()

ساجد تھکا ہارا گھر لوٹا جمیلہ نے اسے دیکھتے ہی آڑے ہاتھوں لیا:”اتنی رات گئے تک باہر کیا جھک مارتے رہتے ہو ۔تنخواہ تو تم
![]()

وہ بہت دنوں سے باتیں سن رہا تھا ۔۔ بابا کی ۔۔ اماں کی ۔۔ بہن بھائیوں کی! اٹھتے بیٹھتے آتے جاتے سب کے پاس
![]()

وہ موسمِ زرد کی ایک شام تھی! اس دن بھی وہ ریسٹورنٹ کی اسی نشست پراُداس بیٹھا تھا، جہاں وہ اپنی مرحومہ بیوی روزینہ کے
![]()

بس نے مجھے گاؤں کے اسٹاپ پر اُتارا ۔میں نے اپنا سفری بیگ اُٹھایا اور اپنے گاؤں کی فضا کو محسوس کرتے ہوئے ایک لمبا
![]()

وہ ساگ کا تڑکا تیار کرتے ہوئے مسکرائی…. اور پھر منہ ہی منہ میں بڑبڑائی!!! ”ایمان آج میرا پکایا ہوا ساگ تمہارے چہرے سے شرافت
![]()