رول ماڈل — ماہم علی
پرانی کتابیں گود میں رکھے نادیہ کسی گہری سوچ میں گم بیٹھی تھی ۔ ڈھلتے سورج کی مدھم شعاعیں اس کے چہرے پر پڑ رہی
پرانی کتابیں گود میں رکھے نادیہ کسی گہری سوچ میں گم بیٹھی تھی ۔ ڈھلتے سورج کی مدھم شعاعیں اس کے چہرے پر پڑ رہی
”دیکھو بہن آپ کا بیٹا چودہ پاس ہو یا سولہ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ہمیں تو بس اس کی کمائی سے مطلب ہے
میں پل کے نیچے لگے ہوئے سبزی کے ٹھیلوں کے پاس کھڑا ٹریفک دیکھ رہا تھا،جب میں نے سڑک کے کنارے چودہ یا پندرہ سال
مہمان آنے والے تھے میں ڈرائنگ روم کی صفائی اور جھاڑ پونچھ میں مصروف تھی کہ مجھے کھڑکی کے بالکل قریب ایک عورت کی سسکیوں
”سنو سنوسب لوگ سن لو۔میں لکھاری ہوں،لکھاری ہوں میں۔میرے قلم کی کاٹ نے دنیا کو ادھیڑ دیا تھا۔میرے الفاظ کے جادو نے کئی لوگوں کو
ایک تھا فلسفی۔ پڑھتاکم، لکھتا زیادہ تھا بلکہ لکھنے پڑھنے سے بھی بڑھ کر وہ سوچنے کا زیادہ شوقین تھا۔ ایک دفعہ اس شخص کے
جان ڈریک نے اپنی گھڑی دیکھتے ہوئے مردم بیزار اور دل آزار لہجے میں کہا: ”دیکھو آنٹی! جو کچھ بھی کہنا ہے، جلدی سے کہہ
الیاس اس قریے میں آخری آدمی تھا۔ اس نے عہد کیا تھا کہ معبود کی سوگند میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا ہوں اور
یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب رُوفی کے دانت پر بجلی گری۔ رُوفی (جن کو بعد میں شیطان کا نام ملا)بجلی سے بہت ڈرتے
اگر کوئی دیکھ سکے تو گھٹا ٹوپ اندھیری رات کے بھی کئی روپ ہوتے ہیں جیسے اس وقت رات کے ساڑھے گیارہ بج رہے ہیں۔
Alif Kitab Publications Dismiss