چہرہ — اعتزاز سلیم وصلی
ڈھولک بج رہی تھی۔ پورے گھر میں شور مچا ہوا تھا۔ کیوں نہ ہوتا؟ آج اس کی یعنی گھر کے اکلوتے بیٹے شہزاد کی مہندی
ڈھولک بج رہی تھی۔ پورے گھر میں شور مچا ہوا تھا۔ کیوں نہ ہوتا؟ آج اس کی یعنی گھر کے اکلوتے بیٹے شہزاد کی مہندی
رات کا جانے کون سا پہر تھا حلق میں کانٹے چبھتے محسوس ہوئے۔ نیند میں سائیڈ ٹیبل پر ہاتھ مارا تو کچھ ہاتھ نہ آیا۔”آج
”انسان کو کس طرح نیند آتی ہے؟” ابھی کچھ دیر پہلے ہی وہ سونے کے لیے لیٹا تھا اور اب اچانک یہ سوال اس کے
”میں اگر قصائی خاندان کا فرد ہوں، میرا باپ قصاب ہے، تو اس میں میرا کیا قصور؟ میں تو قصائی کا کام نہیں کرتا نا؟
تیز برستی بارش میں جب کسی کی نئی ماڈل کی گاڑی ہچکولے لیتی ہوئی ایک جھٹکے سے رُک جائے تو اس کوفت کا اندازہ صرف
آسمان کی نیلگوں وسعتوں میں شفق کی سرخی پھیلی ہوئی تھی۔ پرندے چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں اپنے آشیانوں کی جانب محوِ پرواز تھے۔ ہلکی ہلکی
خشک پتوں کے ڈھیرکے پاس بیٹھی وہ ہمیشہ کی طرح گم صم تھی ۔ جگہ جگہ سے ادھڑے دھاگوں کے پھیکے پڑتے رنگوں سے سجی
وشمہ چت لیٹی خالی الذہنی کی سی کیفیت میں کمرے کی چھت کو گھور رہی تھی۔ وہ سوچوں کی اندھیر نگری میں بھٹک رہی تھی
سنہ ٢٠٠٧ء… جی ٹی روڈ قصبوں اور شہروں کو چیرتی ہوئی لاہور کی طرف بڑھ رہی تھی۔ جوں جوں لاہور کا فاصلہ کم ہوتا جاتا
وہ درد جو میں نے کل محسوس کیا…وہ پاکستان میں روز کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی خاندان محسوس کرتا ہے۔ وہ ننھی سی چڑیا…ہمارے