بیگم شرف النساء

بیگم شرف النساء
  خالد محی الدین

 

شرف النسا بیگم ناظم لاہور خواب عبدالصمد خاں کی دوسری بیوی اور اِس کے دوسرے فرزند نواب عبداللہ خاں کی والدہ تھی۔ نواب صاحب کی پہلی بیوی بیگم جان ہی نے محلہ بیگم پورہ کی بنیاد رکھی۔ بیگم شرف النسا متقی پرہیزگار اور عبادت گزار خاتون تھی۔ خداداد صلاحیتیں اُس کے وقار میں مزید اضافہ کرچکی تھیں۔ تلوار زنی میں وہ مردوں کو پیچھے چھوڑتی تھیں۔ اُن کا مقبرہ اور تزئین کاری اُن کی شاندار انجینئرنگ اور فنکارانہ صلاحیتوں کا غماز ہے جو انہوں نے اپنی زندگی میں تعمیر کرایا اگر انہیں مغلوں کی آخری انجینئر خاتون کہا جائے تو غلط نہ ہوگا دونوں بیگمات الگ الگ محلوں میں مقیم تھیں۔ اپنے محل کے ایک گوشے میں شرف النسا بیگم نے خواتین کی درس و تدریس کا سلسلہ جاری کررکھا تھا۔ وہ موت کو یاد رکھنے کے لیے خاص ترغیب دیتیں اور مرنے سے قبل اپنا مقبرہ تیار کرنا اِسی بات کی تصدیق کرتا ہے۔ نواب زکریا خاں بیگم جان کا چہیتا اور عبدالصمد خاں کا لاڈلا بیٹا تھا۔ زکریا خاں کو بھی لاہور کا ناظم بننے کا شرف حاصل ہوا۔
عبدالصمد خاں اور نواب کا زکریا خاں کے تانے بانے بیگم شرف النسا سے کچھ اس طرح ملے ہوئے ہیں کہ اِن کا احوال بیان کیے بنا معاملہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ بندہ بیراگی ایک سکھ سردار جو ظلم و بربریت میں ہلاکو خاں اور چنگیز خاں کو بھی پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ اُس کا ذکر بھی آپ کو انہی کی داستان میں ملے گا۔ شرف النسا بیگم سلطنت کے معاملات میں عبدالصمد خاں کی معاون رہیں۔ ان کے مشوروں سے نواب عبدالصمد خاں نے شان دار فتوحات اپنے نام کیں۔
جی ٹی روڈ انجینئرنگ یونیورسٹی سے ملحق علاقہ بیگم پورہ مغلیہ دور کی عمارتوں اور نامی گرامی ہستیوں کی آما جگاہ میرے بچپن کی بہت سی یادیں اس علاقے سے وابستہ ہیں کیوں کہ میرے تایا جان کا گھر بیگم پورہ میں تھا اور میں اکثر اُن کے ہاں جاتا رہتا۔ کھیل کُود کے دوران ہم بچے اکثر مغلیہ دور کی عمارتوں، باغات، محلات اور مقابر میں چھپن چھپائی کھیلتے۔ اُن دنوں آبادی برائے نام تھی اور یہ عمارتیں گردش دوراں کے باوجود اُسی طمطراق سے استادہ تھیں۔ مجھے یاد ہے میں جس عجیب دہشت کی عمارت کو دیکھ کر حیران ہوا تھا وہ بلند وبالا ایک مقبرہ تھا جس پر سرو کے بوٹے بنے ہوئے تھے۔ لحد تک جانے کے لیے سیڑھی استعمال کی جاتی تھی اور جس باغ میں یہ مقبرہ واقع تھا اُس کی شادابی اور خوبصورتی دیکھنے کے لائق تھی۔ ایک تالاب بھی اس باغ کا حصہ تھا۔

میں جب بھی کوئی مغلیہ کی دور کی عمارت یا کسی ہستی کی کھوج میں نکلتا ہوں تو مطلوبہ جگہ پہنچ کر گردوپیش کے مناظر مجھے دل گرفتہ کردیتے ہیں۔ اِس نشست میں میرا ہدف شرف النساء بیگم کا مقبرہ تھا۔ جی ٹی روڈ پر لب سڑک واقع گلابی باغ کے درودیوار اُسی شان و شوکت سے استادہ ہیں جس کے عقب میں دائی رنگا کا شاندار مقبرہ الٰہی کسمپرسی کی منہ بولتی تصویر ہے۔ اس سے ملحق علاقہ بیگم پورہ کے نام سے منسوب ہے۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے وہاں سب کچھ بدلا بدلا محسوس کیا۔
حضرت ایشاں کا بلند اور دیوہیکل مقبرہ اُن کے عقیدت مندوں کے باعث اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ باقی اکثر یادگاریں محکمہ آثار قدیمہ کی غفلت یا ملی بھگت کے باعث اپنا وجود کھوچکی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ سکھوں کو مسلمانوں سے خدا واسطے کا بیر تھا، لیکن درحقیقت انہوں نے یہ اُکھیڑ پچھاڑ محض اینٹیں حاصل کرنے کے لیے گیں یہ سمجھ لیں بیگم پورہ میںانہیں اینٹوں کی کان مل گئی تھی۔ شرف النسا بیگم کا مقبرہ بھی اُن سے محفوظ نہ رہا۔
سکھوں کو یہی گمان گزرا کہ اس بلند مقبرے میں ضرور کوئی خزانہ دفن ہے۔ اسی لالچ میں انہوں نے کُھدائی شروع کی تو ایک تلوار، قرآن مجید کا نسخہ اور مکین کے سوا اُن کے ہاتھ کچھ نہ لگا۔ تلوار اپنے ساتھ لے گئے اور قرآن کے ساتھ نہ جانے انہوں نے کیا سلوک کیا۔ یہ وہی تلوار تھی جو شرف النسا بیگم ہر وقت اپنے پاس رکھتی تھیں اور اُن کے وصیت کے مطابق اُن کی میت کے ساتھ ہی دفن کی گئی۔ بعد میں انگریزوں نے مقبرے کی تعمیر و مرمت کروائی۔
شرف النسا بیگم کا مقبرہ بھی اپنی بلندی اور جسامت کے باعث باقی شہزادیوں کے مقابر سے منفرد ہے۔ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ لاہور میں مغل دور کی یہ آخری عمارت تھی جسے شرف النسا بیگم نے اپنی زندگی ہی میں تعمیر کرایا تھا۔

Loading

Read Previous

عبداللہ – دوسری اور آخری قسط

Read Next

باجی ارشاد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!