میں خوش نہیں ہوں
صوبیہ اطہر
اچانک میرے اوپر کوئی چیز آن گری۔ ایک قیدی کی کہانی!
میرا نام شو نا ہے اور میں سبز رنگ کا ایک طوطا ہوں۔ میں اپنے امی ابو اور بڑی بہن مونا کے ساتھ نہر کنارے ایک بڑے درخت پر رہتا تھا۔
میرے پَر ابھی چھوٹے تھے۔ میں اُڑنے کی کوشش کرتا تو گرجاتا، اس لیے امی ابو اور مونا جب بھی کہیں باہر جاتے تو مجھے تاکید کرتے کہ تم ابھی چھوٹے ہو، اُڑ نہیں سکتے، اس لیے گھونسلے سے باہر مت نکلنا۔
اُس دن جب میں گھونسلے میں اکیلا تھا۔ نہر کنارے ایک خاندان آیا، وہ شاید سیروتفریح کے لیے آئے تھے، میں انہیں دیکھتا رہا۔ درخت کے نیچے کپڑا بچھا کر انہوں نے کھانا کھایا۔ کچھ دیر بعد بچے کھیل کود میں مصروف ہوگئے جب کہ بڑے اِدھر اُدھر ٹہلنے لگے۔
کھانے کے برتنوں کے ساتھ ایک پلیٹ میں کٹے ہوئے امرود پڑے تھے۔ میرا جی للچایا کہ آس پاس کوئی بھی نہیں ہے۔ میں نے سوچا کہ آسانی سے نیچے اتر کر میں امرود اٹھالوں گا۔ ہاں! شاید نیچے سے اوپر اُڑان بھرنے کے لیے مجھے دو تین بار کوشش کرنا پڑے، لیکن میں یہ کرلوں گا۔
خود کو تسلی دے کر میں نے پرَ پھیلائے اور نیچے اتر آیا۔ بڑے دھیان سے اردگرد دیکھ کر میں امرود کی طرف بڑھا کہ اچانک کو ئی چیز میرے اوپر آن گری۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیر اچھا گیا اور دل ڈوبنے لگا!!!
اوہ! میں تو پکڑا گیا تھا۔ ہائے اللہ! اب کیا ہوگا؟ غم سے میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میرے پنجے اور پاؤں ایک جال میں پھنس گئے تھے۔
پھر کسی نے مجھے دبوچ لیا، ساتھ ہی بچوں کے شور کی آواز آنے لگی۔
”پاپا… یہ دیکھیے… پکڑ لیا ہم نے اسے۔”
ایک امید تھی کہ شاید بچوں کے ماں باپ میں سے کوئی کہے گا: ”بیٹا! اسے چھوڑ دو، پرندوں کو قید نہیں کرنا چاہیے۔” مگر بچوں کے ماں باپ بھی خوش تھے۔ ایک بچے نے آگے بڑھ کر مجھے پنجرے میں بند کردیا۔
اب میں اپنے خاندان سے دور انسانوں کی دنیا میں ہوں۔ بچے بہت خوش ہیں۔ وہ اسکول سے آکر میرے پاس بیٹھ جاتے ہیں۔ جو چیز خود کھائیں وہی مجھے بھی دیتے ہیں۔
مگر میں خوش نہیں ہوں۔ کوئی اپنے ماں باپ سے بچھڑ کر کیسے خوش رہ سکتا ہے؟ بھلا قید میں رہ کر بھی کسی کو سکون ملا؟ آزادی کے ساتھ جینا ہی تو اصل زندگی ہے۔ ہاں! میں خوش نہیں ہوں۔ بالکل بھی نہیں!
٭…٭…٭