جِیا اور ڈبّو ۔ الف نگر

جِیا اور ڈبّو

گلِ ارباب

ہوٹل سے کھانا چُراتے ہوئے وہ پکڑا گیا۔ ایک وفادار جانور کی سبق آموز کہانی!

ڈبو کچی بستی کا آوارہ کتا تھا۔ سارا محلہ اسے دھتکار تا رہتا، وہ جس گھر کے سامنے جاتا، بچے لات یا پتھر مار کر بھگا دیتے۔ محلے کے بچوں میں واحد جیا تھی جس نے ڈبو کو کبھی مارا نہ دھتکارا تھا بلکہ سخت گرمی میں جب ڈبو سائے کی تلاش میں ہوتا جیا گھر کا دروازہ کھول دیتی اور ڈبو مٹی کے برتن میں رکھے ہوئے ٹھنڈے پانی سے پیاس بجھاتا اور شکر گزار نظروں سے جیا کو دیکھتا پھر دن بھر جیا کے گھر ایک کونے میں آرام کرکے کھانے کی تلاش میں نکل جاتا۔ کبھی کبھار جیا کے پاس کھانے کو کچھ ہوتا تو ڈبو کو بھی کھلا دیتی، وہ محبت سے دُم ہلاتا اور مزے سے دعوت اُڑاتا لیکن آج کل تو گھر میں فاقے تھے۔

ڈبو بے چارا کچھ دیر گھر کے کونے میں بیٹھ کر ٹھنڈے چولہے کو دیکھتا رہتا، جیا اور اس کی ماں کھانے کو ترس رہی ہوتیں۔ وہ پاس بیٹھا غور سے ان کی باتیں سنتا رہتا۔

آج جیا کو بہت بھوک لگی تھی۔ اس نے دو دن سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ بھوکی تو اس کی امّاں بھی تھی مگر وہ ہمت والی خاتون تھیں۔ جب بھی بھوک ستاتی تو وہ صحن میں رکھے مٹی کے گھڑے سے کٹورے میں پانی لیتیں پہلے جیا کو پلاتیں اور پھر خود پی کر اللہ کا شکر ادا کرتیں۔ اس طرح بھوک کا احساس ذرا کم ہو جاتا مگر جیا ہر دفعہ پانی دیکھ کر فریاد کرتی: ”امّاں! پانی پی پی کر میرا پیٹ پھول گیا ہے۔ مجھے روٹی چاہیے۔”

وہ منت کرتی تو امّاں رونے لگ جاتی مگر رونے سے اگر بھوک مٹتی تو کوئی غریب بھوکا نہ سوتا۔ چند ماہ قبل جیا کا ابّا ریڑھی پر کیلے بیچتا تھا۔ روزانہ اتنی کمائی ہو جاتی کہ روکھی سوکھی روٹی بیوی اور بچی کے لیے گھر لے آتا مگر اس کمائی سے صرف پیٹ ہی بھرتا، کبھی بچت نہ ہو سکی تھی۔ دراصل اُس کچی بستی میں رہنے والے سبھی لوگ غریب تھے۔ وہ ایک وقت اگر پیٹ بھر کر کھا لیتے تو دوسرے وقت کا کچھ پتا نہ ہوتا۔

ایک دن جیا کا ابّا رمضان صبح سویرے فروٹ منڈی سے کیلے خرید کر ریڑھی پر رکھ رہا تھا کہ اچانک اسے سینے میں شدید درد ہوئی اور ساتھ ہی دم گھٹنے لگا۔ آس پاس کے لوگوں نے اٹھا کر اُسے سرکاری اسپتال پہنچایا لیکن دل کے دورے سے اس کی موت واقع ہوچکی تھی۔ جیا اور اس کی امّاں کا واحد سہارا ہی رمضان تھا۔ اُن کی تو دنیا ہی اُجڑ گئی۔

کچھ روز تک تو اِدھر اُدھر سے لوگوں کے گھروں سے کھانے پینے کے لیے کچھ آتا رہا پھر گھر میں آٹا دال اور دیگر اشیا ایک ایک کرکے ختم ہونے لگیں۔ یوں ماں بیٹی کے سخت دن شروع ہو گئے۔ رفتہ رفتہ اسی طرح کچھ ماہ گزر گئے۔

آج دو دن سے جیا اور اس کی امّاں نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ محلے والوں سے انہوں نے آٹا مانگا مگر انکار ہی ہوا۔ وجہ یہ کہ وہاں سبھی غریب تھے۔ بھلا دوسروں کی مدد کیا کرتے؟

جیا کی امّاں ایک دو گھروں میں کام کی تلاش میں گئی لیکن سب نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جب ضرورت پڑی تو ہم تمہیں بلا لیں گے۔ محلے کا دکان دار قرض زیادہ ہونے پر سودا دینے سے انکار کر چکا تھا۔

اس دن بھوک کی وجہ سے جیا کی حالت خراب تھی۔ ڈبو نے گھر میں اداسی اور جیا کی حالت دیکھی تو باہر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد گھرکے دروازے پر ہلکی سی آہٹ ہوئی۔ جیا نے دیکھا کہ ڈبو اپنے منہ میں روسٹ چکن کا کچھ حصہ دبائے دروازے کے باہر کھڑا تھا۔ اس نے چکن کا ٹکڑا لا کر جیا کے سامنے رکھ دیا۔ جیا کی آنکھیں چمک اٹھیں وہ اسے اٹھانے کے لیے آگے بڑھی مگر ماں نے اسے پکڑ لیا: ”نہیں بیٹا! ڈبو کے منہ کا نوالہ ہمارے لیے حرام ہے۔” جیا بے چاری تڑپ کر رہ گئی۔

”ڈبو! اسے لے جائو۔” امّاں نے کہا تو جیا للچائی ہوئی نظروں سے چکن کے ٹکڑے کو دیکھنے لگی۔ اسی دوران ڈبو چکن کا ٹکڑا منہ میں لیے تیزی سے باہر چلا گیا۔

”امّاں! نہ جانے کہاں سے ڈبو بے چارا ہمارے لیے لایا تھا۔” جیا نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔

”تم اللہ پر یقین رکھو بیٹا! وہ حلال رزق عطا کرے گا۔ اس کا فرمان اور ہمارا ایمان ہے کہ وہی رازق ہے۔” امّاں اپنے آنسو دوپٹے میں جذب کرتی کمرے میں چلی گئیں۔ دوپہر کے وقت دوبارہ دروازے پر آہٹ ہوئی۔ اب کی بار ڈبو نے منہ میں کالے رنگ کا ایک شاپر پکڑا ہوا تھا۔ اُس نے وہ شاپر ماں بیٹی کے آگے رکھا اور خود ایک طرف بیٹھ گیا۔ امّاں نے شاپر کھولا تو اس میں ڈھکن لگا ایک سفید ڈبّا موجود تھا۔ ڈبّے کے اندر بریانی کے ساتھ چکن پیس رکھے ہوئے تھے۔ بریانی سے گرم گرم بھاپ اُٹھ رہی تھی۔ جیسے ہی بریانی کی خوش بُو جیا تک پہنچی وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ ”امّاں! یہ تو پیک ہے نا! مطلب کہ حلال ہے۔”

امّاں نے اثبات میں سر ہلایا پھر دونوں نے مل کر بریانی کھائی اور پانی پی کر ہڈیاں ڈبو کے سامنے رکھ دیں۔ ڈبو اطمینان سے ایک کونے میں بیٹھ کر ہڈیاں چبانے لگا۔

اگلے دن جیا کے چچا آگئے جو کسی وجہ سے روٹھ کر کئی سال قبل کراچی چلے گئے تھے۔ وہ بہت مال دار تھے۔ اپنے بھائی کی موت کا سن کر انہیں یہاں آنا پڑا۔

”بھابی! میں آپ دونوں کو لینے آیا ہوں۔” چچا نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تو جیا اور اس کی امّاں حیران رہ گئیں۔ اُن کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ چچا نے مکان کرایہ پر دے کر ٹوٹا پھوٹا سامان محلے کے لوگوں میں بانٹ دیا کیوں کہ ان کے پاس کسی چیز کی کمی نہ تھی ۔

جیا بہت خوش تھی، اُس نے گھر چھوڑنے سے پہلے ڈبو کو پورے محلے میں ڈھونڈا مگر وہ کہیں نہیں ملا۔ آخر کار وہ ڈبو سے ملے بغیر ہی اُداس دل لیے چچا کے ساتھ کراچی جانے کے لیے تیار ہوگئی۔ ابھی وہ محلے سے باہر نکلے ہی تھے کہ سڑک پر انہیں ہجوم نظر آیا۔

”کیا ہوا بھائی صاحب؟ راستہ کیوں بند ہے؟” چچا نے گاڑی سے سر نکال کر ایک آدمی سے پوچھا۔

”بھائی جی! اُس ہوٹل کے مالک نے ایک کتے کو گولی مار کر ہلاک کردیا ہے۔” آدمی نے ہوٹل کی طرف اشارہ کیا۔

”ارے وہ کیوں؟” چچا نے حیرانی سے پوچھا۔

”وہ کتا ہوٹل سے کھانا چرا کر بھاگ رہا تھا۔ کل بھی ایک گاہک کے ہاتھ سے بریانی کا ڈبّا چھین کر لے گیا تھا۔ آج کھانا چراتے ہوئے ہوٹل کے مالک نے اُسے رنگے ہاتھوں پکڑا ہے۔” آدمی نے تفصیل بتائی تو جیا اور اس کی ماں ایک دم تڑپ اُٹھیں۔ جیا نے جلدی سے گاڑی کے شیشے سے منہ نکال کر باہر دیکھا تو اُس کا پیارا ڈبّو سڑک کنارے خون میں لت پت پڑا تھا۔ اس کے منہ میں بریانی کا شاپر تھا۔ یہ منظر دیکھتے ہی جیا نے اپنا چہرہ گود میں چھپایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

تم اچھی ہو! ۔ الف نگر

Read Next

گیہوں ۔ الف نگر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!