تم اچھی ہو! ۔ الف نگر

تم اچھی ہو!

ترجمہ: گلِ رعنا صدیقی

کیا تم اپنے گھر میں بھی ایسی حرکتیں کرتی ہو؟ آنٹی غصے میں تھیں۔

”مینی! میں اور تمہارے ابو ضروری کام کے سلسلے میں شہر سے باہر جارہے ہیں۔ ہم تمہیں آنٹی سوسن کے گھر چھوڑ جائیں گے۔” مینی کی امی نے اُسے بتایا۔

”نہیں! نہیں! میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ جاؤں گی۔ مجھے آنٹی سوسن اچھی نہیں لگتیں۔” مینی نے پاؤں پٹخے۔ وہ اپنے ماں، باپ کی اکلوتی اولاد ہونے کے ناتے خاصی بدتمیز اور بگڑی ہوئی بچی تھی۔

”نہیں بیٹا! آنٹی سوسن تو بہت اچھی ہیں۔” امی نے سمجھایا۔ آخر مینی کے امی ابو اسے آنٹی سوسن کے پاس چھوڑ گئے۔

”مجھے اُمید ہے کہ تم گھر کے کاموں میں میری مدد کرو گی اور میرے بنائے ہوئے کھانے پسند کرو گی۔” آنٹی سوسن نے مینی سے کہا لیکن مینی نے تو ٹھان لی تھی کہ وہ آنٹی کے کسی کام میں اُن کی مدد نہیں کرے گی۔ وہ بات بات پر پاؤں پٹختی رہتی۔ اصل میں تو اُسے پٹائی کی ضرورت تھی۔

”مینی! کیا تم اپنے گھر میں بھی ایسی ہی حرکتیں کرتی ہو؟” آنٹی سوسن نے پوچھا۔

”بالکل، جب میرا دل چاہے گا، میں سونے جاؤں گی، جب دل چاہے گا، میں سوکر اُٹھوں گی، جو دل چاہے وہ پہنوں گی اور بس وہی کروں گی جو میرے دل میں آئے گا۔” مینی نے غصیلی لہجے میں کہا۔ آنٹی یہ سُن کر ہنس پڑیں اور بولیں: ”بہت خوب! اگر تم ایسے رہنا چاہتی ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ جو دل میں آئے، کرتی رہو۔” مینی یہ سُن کر خوش ہوگئی۔

اُس رات مینی رات دیر تک ٹی وی دیکھتی رہی آنٹی سوسن نے کوئی نوٹس نہیں لیا بلکہ وہ چپکے سے مینی کو شب بہ خیر کہہ کر اُوپر اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ رات دیر سے سونے کی وجہ سے صبح ساڑھے نو بجے اُس کی آنکھ کھلی۔ وہ ہاتھ دھوکر جب ناشتا کرنے آئی تو میز پر ناشتا موجود نہیں تھا۔

”میں نے ناشتا کرلیا ہے۔” آنٹی سوسن نے اطلاع دی۔ ”میں روز جلدی ناشتا کرلیتی ہوں۔” مینی کو ناشتا نہیں ملا۔ اُسے بہت غصّہ آیا۔ آنٹی بازار چلی گئیں۔ مینی نے فریج کھولنا چاہا مگر وہ لاک تھا چناں چہ سارا دن اُسے بُھوکا رہنا پڑا۔

دوپہر کو کھانا کھاتے وقت اُس نے سالن اپنے کپڑوں پر گِرا لیا۔ ”مینی! تمہیں اپیرن پہن کر کھانا چاہیے تھا۔” آنٹی سوسن نے کہا۔

”کوئی بات نہیں! میں کپڑے بدل لوں گی۔ آپ میرے یہ والے کپڑے دھو دیجیے گا۔” مینی نے بے فکری سے کہا۔

”سوری! میرے پاس کپڑے دھونے کا وقت نہیں ہے۔” مینی نے اپنا نیا سُوٹ نکال کر پہن لیا اور پھر پینٹ برش سے کھیلنے لگی۔

”تمہیں معلوم ہے نا کہ اس طرح کے کھیل ایپرن باندھ کر کھیلنے چاہئیں؟” آنٹی نے پوچھا۔

”ہاں! مُجھے معلوم ہے لیکن میں ایسے ہی کھیلنا چاہتی ہوں۔” مینی نے فوری جواب دی۔ شام تک اُس کا پورا لباس داغ دھبّوں سے بھرچکا تھا۔ آنٹی نے اُسے چائے پینے کے لیے آواز دی۔ مینی نے چیخ کر کہا: ”میں اپنی پینٹنگ مکمل کرکے آؤں گی۔” جب وہ چائے پینے گئی تو برتن بھی سمیٹے جاچکے تھے۔ مینی نے پاؤں پٹخے اور چیخی، چلّائی لیکن آنٹی نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ ”تم وہی کرتی ہو جو تمہارا دل چاہے، لہٰذا میں بھی وہی کروںگی جو میرا چاہتا ہے۔” آنٹی نے سوئیٹر بُنتے ہوئے کہا۔

شام سات بجے آنٹی نے گھڑی کی طرف دیکھا اور بولیں: ”مینی! کیا تم کچن میں جاکر پتیلی کے نیچے چُولہا جلا دوگی؟”

”نہیں!” مینی نے غصے سے جواب دیا۔ آنٹی سوسن اُٹھ کر خود کچن میں گئیں۔ ”مجھے بھوک لگ رہی ہے، میں نے شام کی چائے بھی نہیں پی تھی۔ مجھے کچھ کھانے کو دیں۔” مینی نے کچھ دیر بعد آنٹی سے کہا۔

”میں تمہارے لیے جارہی تھی، اسی لیے تم سے چولہا جلانے کہا تھا لیکن کیوں کہ تمہیں کوئی پروا نہیں لہٰذا مجھے بھی نہیں ہے۔” آنٹی نے کندھے اُچکائے۔

”مجھے پروا ہے۔” مینی بھُوک سے چلّائی پھر اُس نے اپنے لیے خود آملیٹ بنایا اور ڈبل روٹی کے ساتھ کھالیا۔ رات کو وہ سونے کے لیے اپنے کمرے میں گئی لیکن اُس کا کمرا ویسے ہی تھا جیسا وہ صبح چھوڑ کر گئی تھی۔ وہ بھاگ کر نیچے گئی: ”آنٹی! آپ میرا کمرا صاف کرنا بھُول گئیں، بہت گندا ہوا پڑا ہے۔”

”تو تم خود صاف کرلو!” آنٹی مسکرائیں۔

یہ سنتے ہی مینی غُصّے سے چلّانے لگی مگر آنٹی پر اُس کے چیخنے چلّانے کا کوئی اثر نہیں ہوا۔

اگلی صُبح وہ آٹھ بجے ناشتے کی میز پر پہنچ گئی۔ اُس نے اپنا آخری صاف لباس پہنا ہوا تھا کیوں کہ وہ صرف تین جوڑے لے کر یہاں آئی تھی۔

”کیا یہ بہتر نہیں کہ تم ایپرن پہن کر ناشتا کرو؟”

”میں کوئی چھوٹی بچّی نہیں ہوں۔” مینی نے سخت جواب دیا لیکن دس منٹ بعد ہی اُس نے چائے اپنے کپڑوں پر گِرالی۔ اب دل ہی دل میں وہ افسوس کرنے گی۔

کچھ دیر بعد پڑوس کی لڑکی مینی کو شام چائے کی دعوت پر بُلانے آئی۔ ”اوہ ضرور! مجھے دعوت میں جانا بہت پسند ہے۔” مینی کِھل اُٹھی۔ جب پڑوسی لڑکی چلی گئی تو مینی نے نسبتاً دھیمی آواز میں اپنی آنٹی سے کہا: ”آنٹی! میرے سارے کپڑے میلے ہوگئے ہیں۔ میں آج شام دعوت میں کیا پہن کر جاؤں؟ کیا آپ میرا ایک جوڑا دھودیں گی؟”

”بھئی! میری طرف سے معذرت! میں آج خود بہت مصروف ہوں۔” آنٹی نے بے ساختہ جواب دیا۔

”لیکن آنٹی! میں میلے کپڑے پہن کر دعوت میں نہیں جاسکتی۔” مینی نے تقریباً روتے ہوئے کہا۔

”ہاں! یہ تو ہے!” آنٹی نے اتفاق کیا۔ ”ایسا کرو تم میلے کپڑوں کے اوپر ایپرن پہن کر چلی جاؤ۔” آنٹی نے مسکراتے ہوئے کہا۔

”لیکن میں ایپرن پہن کر دعوت میں نہیں جاسکتی، سب میرا مذاق اُڑائیں گے۔” مینی چلّائی۔

اُس روز مینی دعوت میں نہیں گئی اور پڑوس سے آنے والے قہقہوں اور بچّوں کے کھیل کُود کی آوازیں سُن کر روتی رہی اور سوچتی رہی کہ اپنی مَن مانی کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔” مینی نے اکتاہٹ سے بھرپور انگڑائی لی اور اپنا کمرہ صاف کرنا شروع کردیا۔

پھر اُس نے باغ سے کچھ پھُول توڑ کر اپنے کمرے کے گُل دان میں سجائے۔ اپنی آنٹی کے کمرے کے لیے بھی ایک گُل دستہ بنایا۔ شاید وہ چاہتی تھی کہ آنٹی کبھی تو اس کی تعریف کریں۔

”شکریہ مینی! یہ بہت خوب صورت گُل دستہ ہے۔ پرسوں شہر میں ایک سرکس آرہا ہے۔ میں اس کے ٹکٹ خریدوں گی پھر ہم دونوں مل کر سرکس دیکھنے چلیں گے۔”

اگلے دن مینی باہر گھومنے نکلی لیکن نہ تو اُس نے سوئیٹر پہنا اور نہ ہی ٹوپی۔ آنٹی نے اُسے پیچھے سے آواز دی: ”بارش ہونے والی ہے۔ مینی! تم اپنا سوئیٹر، ٹوپی تو پہن لو۔”

”آنٹی! آپ پریشان مت ہوں۔ میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔” مینی نے کہا کچھ دیر بعد تیز بارش شروع ہوگئی۔ مینی بارش میں بھیگتی ہوئی وہ گھر کی جانب دوڑی۔

”مینی! جلدی سے کپڑے بدل کر بستر میں لیٹ جاؤ، ورنہ بیمار پڑ جاؤ گی۔” اُس کی آنٹی نے کہا لیکن مینی نے ان کی بات نہ مانی۔ اگلے دن صُبح تک اُسے تیز بُخار ہوگیا۔ اب وہ بستر سے اُٹھنے کے بھی قابل نہیں تھی۔ وہ سوچنے لگی، ایسا نہ ہو کہ آنٹی اُسے سوتا ہوا سمجھ کر خود ناشتہ کرلیں۔ اب تو وہ سرکس میں بھی نہیں جاسکے گی۔” مینی تکیے میں مُنہ چُھپا کر رونے لگی۔

اتنے میں آنٹی سوسُن ناشتے کی ٹرے لے کر کمرے میں داخل ہوئیں۔ اُنہوں نے مینی کا ہاتھ مُنہ دُھلوایا، بال برش کیے، بستر دُرست کرکے اُس کے سامنے ناشتے کی ٹرے رکھ دی۔

”آنٹی! میں بیمار پڑگئی ہوں۔ اب ہم سرکس میں تو نہیں جاسکتے نا؟ کیا سرکس کے ٹکٹ ضائع ہوجائیں گے؟” مینی نے دھیمی آواز میں کہا۔

”میری پیاری بچّی! جب کل تم سوئیٹر اور ٹوپی کے بغیر گھر سے باہر جارہی تھی تو مجھے معلوم تھا کہ تم بارش میں بھیگ کر ضرور بیمار ہوجاؤ گی۔ اس لیے میں نے ٹکٹ خریدے ہی نہیں تھے۔ میں تمہاری طرح نادان نہیں ہوں۔ اگر تم وعدہ کرو کہ میری بات مانو گی تو میں تمہارا خیال رکھوں گی۔” آنٹی سوسن نے کہا۔

”جی آنٹی! میں وعدہ کرتی ہوں کہ اب وہی کروں گی جو آپ کہیں گی۔” مینی نے آنٹی کا ہاتھ پکڑ کر شرمندگی سے کہا۔

”بہت خوب! مُجھے یقین تھا کہ تم اچھی بچی بن سکتی ہو۔”

شکریہ آنٹی! اب میں وہ نہیں کرنا چاہتی جو میرے دل میں آئے بلکہ وہ کرنا چاہتی ہوں جو آپ کو پسند ہو۔” مینی نے کہا تو آنٹی مسکرا دیں۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

ٹیپو کا روزہ ۔ الف نگر

Read Next

جِیا اور ڈبّو ۔ الف نگر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!