حضرت مریم علیہ السلام
عمیرا علیم
حضرت مریمؑ وہ پاکیزہ اور راست باز ہستی ہیں جن کا تذکرہ قرآن مجید میں کیا گیا ہے اور جن کی پاکیزگی کی گواہی قرآن خود دیتا ہے۔ آپؑ اللہ کے محبوب رسول حضرت عیسیٰؑ کی والدہ ماجدہ ہیں۔ آپ کے نام پر قرآن مجید میں ایک پوری سورت اتاری گئی اور قرآن آپ کی پیدائش، پرورش، کفالت اور آپ کے ہاں حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کے واقعات کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ لوگ اللہ تبارک تعالیٰ کی محبوب بندی کے بارے میں کوئی الہام نہ رکھیں۔
حضرت مریمؑ ، حضرت داؤدؑ کی نسل سے تعلق رکھتی ہیں آپ کے والد محترم اس دور میں بنی اسرائیل کے امام نماز تھے اور آپ کی والدہ محترمہ بھی عابدہ و زاہدہ خاتون تھیں۔ اس دور میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر حضرت ذکریاؑ کو مبعوث فرمایا تھا۔ حضرت ذکریاؑ کی بیوی اور حضرت مریمؑ آپس میں بہنیں تھیں کچھ لوگوں کے خیال میں حضرت ذکریاؑ کی بیوی حضرت مریمؑ کی خالہ تھیں۔ آپ کی والدہ کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی۔ آپ کی والدہ رب تعالیٰ کے حضورت گڑگڑاتی تھیں کہ رب کریم نیک اور صالح اولاد سے نواز اور انہوں نے نذرمانی کہ اگر ان کے ہاں اولاد متولد ہوئی تو وہ اس کو بیت المقدس کے لیے وقف کر دیں گی۔ ان کی دعا مقبول ہوئی اور انہوں نے حضرت مریمؑ کو جنم دیا تو وہ پریشان ہو جاتی ہیں اور فرماتی ہیں: ’’اے اللہ! میں نے تو جنم دیا ایک لڑکی کو۔‘‘ پھر فرماتی ہیں: ’’اور میں تیری پناہ میں دیتی ہوں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود (کے شر) سے۔‘‘
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ جب بھی کوئی آدمی پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس کو چھوتا ہے اور شیطان کے چھونے کی وجہ سے وہ چیختا چلاتا ہے ماسوائے مریم اور ان کے صاحبزادے کے۔ پھر حضرت ابوہریرہؓ یہ آیت پڑھا کرتے۔ جس کا ترجمہ یوں ہے
ترجمہ: میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے بچا کر تیری پناہ میں دیتی ہوں۔
(آل عمران۔۳۶)
امام احمد روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمؐ فرماتے ہیں: ’’نسلِ آدم کے ہر بچے کو شیطان اپنی انگلی سے مس کرتا ہے سوائے مریمؑ بنت عمران اور ان کے بیٹے حضرت عیسیٰؑ کے۔‘‘
جیسا کہ سورۂ آل عمران میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں۔
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے چن لیا آدمؑ اور نوحؑ اور ابراہیمؑ کے گھرانے کو اور عمران کے گھرانے کو سارے جہاں والوں پر ایک نسل ہے بعض ان میں سے بعض کی اولاد ہیں اور اللہ سب کچھ سننے والا ہے۔ جب عرض کیا عمران کی بیوی نے اے میرے رب! میں نذر مانتی ہوں تیرے لیے جو میرے شکم میں ہے (سب کاموں سے) آزاد ہو کے، سو قبول فرما لے (یہ نذرانہ) مجھ سے پھر جب اس نے جنا اسے بولی: اے اللہ! اس نے جنم دیا ایک لڑکی کو اور اللہ خوب جانتا ہے جو اس نے جنا، اور نہیں تھا لڑکا (جس کا وہ سوال کرتی تھی) مانند اس لڑکی کے اور (ماں نے کہا) میں نے نام رکھا اس کا مریم اور میں تیری پناہ میں دیتی ہوں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود (کے شر)سے۔‘‘ (آیات: ۳۶۔۳۳)۔
حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کے والد کا نام ’’عمران‘‘ تھا۔ جس کو بائیبل میں ’’عمرام‘‘ لکھا گیا۔ سورۂ آل عمران کی آیات میں جن عمران کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کے والد محترم نہیں ہیں کیوں کہ حضرت مریم کا دور اور حضرت موسیٰؑ کے دور کے بعد کا ہے۔ اس طرح عمران کی بیوی یا عورت سے مراد ہے کہ حضرت مریم کی والدہ اس قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں۔ سورۂ مریم میں ’’یآخت ہارون‘‘ یعنی (اے ہارون کی بہن) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ یہ فہم رکھتے ہیں کہ حضرت مریمؑ ، حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کی بہن تھیں۔ یہ سراسر غلط فہمی ہے۔ اس بارے میں امام احمد فرماتے ہیں کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمؐ نے مجھے نجران بھیجا، وہاں کے لوگ مجھ سے کہنے لگے یہ جو آپ پڑھتے ہیں۔ ’’یااخت ہارون‘‘ جب کہ حضرت موسیٰؑ تو اتنا عرصہ حضرت عیسیٰؑ سے پہلے ہیں اس کے بارے میں تیری کیا رائے ہے؟ حضرت مغیرہ ان کے اعتراض پر چپ رہے اور جواب نہ دے پائے اور انہوں نے آکر نبیؐ کے سامنے یہ ماجرا عرض کیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’آپ نے انہیں یہ کیوں نہیں بتایا کہ وہ لوگ انبیاء اور ان صالحین کے نام پر اپنے نام رکھتے تھے۔‘‘
مفسرین کے مطابق ان الفاظ کے دومعنی ہو سکتے ہیں ایک ظاہری ہو سکتا ہے کہ حضرت مریمؑ کا کوئی ہارون نامی بھائی ہو اور دوسرے عربی محاورے میں ’’اختِ ہارون‘‘ کے معنی ہوں گے۔ ’’ہارون کے خاندان کی لڑکی۔‘‘ یہ عربی زبان کا ایک مشہور طرزِ بیان ہے۔
بنی اسرائیل نے جب فلسطین پر قبضہ کیا تو ملک کے انتظامی امور چلانے کیلئے حضرت یعقوبؑ کی اولاد کے بارے قبائل میں تو تمام طرح کے نظم و نسق کو تقسیم کیا گیا جبکہ تیرہواں قبیلہ جو کہ لاوی بن یعقوب کا گھرانا تھا وہ مذہبی خدمات کیلئے مخصوص رہا۔ بیت المقدس میں بخود جلانے اور پاک چیزوں کی تقدیس کا کام جس خاندان کے سپرد تھا وہ دراصل حضرت ہارونؑ کا خاندان تھا۔ دوسرے نبی لاوی بیت المقدس کے اندر نہیں جا سکتے تھے اور صرف کوٹھڑیوں اور صحنوں تک ہی کام کرتے تھے اور بنی ہارون کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ بنی ہارون کے چوبیس خاندان تھے جو اپنی اپنی باری پر بیت المقدس کی خدمت پر مقرر تھے۔ ان میں سے ایک ابیاہ کا خاندان تھا۔ جس کی سرداری اللہ کے بنی حضرت ذکریاؑ کے سپرد تھی۔ جس دن آپ کے خاندان کی باری ہوتی آپؑ خدا کے حضور بخود جلانے کا فریضہ انجام دیتے تھے۔
حضرت مریمؑ کی پیدائش ہو جاتی ہے اور مدتِ رضاعت ختم ہوتی ہے تو آپؑ کی والدہ محترمہ آپ کو مقدس لے جاتی ہیں۔ تاکہ مجاوروں کے سپرد کریں اور اپنی منت پوری کریں۔ مجاور جھگڑنے لگتے ہیں ہر کوئی یہ چاہ رکھتا ہے کہ حضرت مریمؑ کی کفالت اس کے سپرد کی جائے۔ حضرت ذکریاؑ کا دورِ نبوت ہے طے پاتا ہے کہ قرعہ اندازی کی جائے اور جس کا نام قرعہ کے ذریعے نکلے وہ اصلی حقدار ہو۔ مجاوروں نے اپنے اپنے قلم ایک مخصوص جگہ رکھ دیئے اور ایک بچے سے کہا گیا کہ وہ ان میں سے ایک قلم اٹھا لائے۔ رب کریم کی قدرت سے وہ بچہ جو قلم لایا وہ حضرت ذکریاؑ کا نکلتا ہے۔ تمام مجاور ماننے سے انکاری ہو جاتے ہیں اور دوبارہ قرعہ اندازی کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ تمام مجاور اپنا اپنا قلم نہر میں پھینکتے ہیں اور خیال کرتے ہیں جس کا قلم بہاؤ کے خلاف بہے گا وہی کفالت کا حقدار ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی شان سے حضرت ذکریاؑ کا قلم مخالف سمت بہہ نکلا اور باقی پانی کے ساتھ چلے۔ اب کی بار پھر مجاور ماننے سے انکاری ہیں۔ تیسری مرتبہ قرعہ اندازی کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور طے پاتا ہے کہ جس کا قلم پانی کے بہاؤ کے ساتھ چلا وہی ہی غالب ہے۔ قلم پھینکے جاتے ہیں تو سب کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بار پھر حضرت ذکریاؑ ہی غالب آجاتے ہیں کیوں کہ ان کا قلم پانی کے بہاؤ کے ساتھ چلنے لگتا ہے۔ اس طرح مجاور ہار گئے اور مصلحتِ خداوندی سے شرعاً اور حقیقتاً آپؑ ہی اصل حقدار تھے۔ ایک تو اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی والدہ کی محبت اور قربت سے دور نہ کرنا چاہتا تھا دوسرا حضرت ذکریاؑ کی بیوی، حضرت مریمؑ کی بہن تھیں۔
اس قرعہ اندازی کا مقصد بھی یہ تھا کہ ان کی والدہ نے آپ کو اللہ تبارک تعالیٰ کی نذر کر دیا تھا اور آپؑ چونکہ لڑکی تھیں اس لیے آپ کی سرپرستی ایک نازُک مرحلہ تھا۔
سورۂ آل عمران میں رب تعالیٰ حضرت مریمؑ کی کفالت کے واقعہ کو اس طرح بیان فرماتے ہیں: ’’یہ غیب کی خبروں میں ہیں، ہم وحی کرتے ہیں ان کی آپ کی طرف اور نہ تھے آپ ان کے پاس جب پھینک رہے تھے وہ (مجاور) اپنی قلمیں (یہ فیصلہ کرنے کیلئے کہ) کون ان میں سے سرپرستی کرے مریم کی اور نہ تھے آپ ان کے پاس جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے۔‘‘ (آیت: ۴۴)
حضرت مریمؑ بیت المقدس رہائش پذیر ہو گئیں۔ آپ کے لیے ایک کمرہ مخصوص کر دیا گیا۔ جہاں حضرت ذکریاؑ کے علاوہ اور کوئی نہیں جا سکتا تھا۔ آپؑ دن رات اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتیں۔ جب بھی حضرت ذکریاؑ آپ کے پاس آئے تو حیران ہوتے کیوں کہ آپؑ کے پاس بے موسمی پھل موجود ہوتے۔ گرمیوں کے پھل سردیوں کے موسم میں اور سردیوں کے پھل گرمیوں کے موسم میں آپؑ کے حجرے میں موجود ہوتے۔ حضرت ذکریاؑ کی حیرت بجا تھی تبھی حضرت مریمؑ سے پوچھتے کہ یہ پھل کدھر سے آتے ہیں؟ کون دے جاتا ہے؟ حضرت مریم سکون سے فرماتیں: ’’اللہ کے پاس سے‘‘ تبھی حضرت ذکریاؑ نے اللہ تبارک تعالیٰ سے وارث کے لیے دعا فرمائی۔ آپ کی بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود معجزۂ خداوندی سے آپ کے ہاں حضرت یحییٰؑ کی ولادت ہوئی۔
حضرت مریمؑ کی عظمت و فضیلت کو رب کریم نے بار بار قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے اور اپنی مومنہ بندی کی پاکیزگی اور برأت کا اعلان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے پسندیدہ لوگوں میں شمار کرتے ہیں۔ جیسا کہ سورۂ آل عمران میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
’’اور جب کہا فرشتوں نے اے مریم! بے شک اللہ تعالیٰ نے چن لیا ہے تمہیں اور خوب پاک کر دیا ہے تمہیں اور پسند کیا ہے تجھے سارے جہان کی عورتوں سے۔ اے مریم! خلوص سے عبادت کرتی رہ اپنے رب کی اور سجدہ کر اور رکوع کر رکوع کرنے والوں کے ساتھ۔‘‘ (آیات: ۴۳۔۴۲) پھر آگے سورۂ المائدہ میں ارشاد فرمایا: ’’نہیں ہیں مسیح ابنِ مریم مگر ایک رسول گزر چکے ہیں اس سے پہلے بھی کئی رسول اور ان کی ماں بڑی راست باز تھیں۔‘‘ (آیت: ۷۵)
حضرت ابو موسیٰ الاشعریؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا: ’’مردوں میں کئی کامل ہو گزرے ہیں مگر عورتوں میں کوئی کامل نہیں ہوئی سوائے فرعون کی بیوی آسیہ اور عمران کی بیٹی مریم کے۔ اور عائشہ کو عورتوں پر ایسے فضیلت ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر۔‘‘
حضرت عبداللہ بن جعفر نے حضرت علیؓ ابن ابی طالب سے روایت کی ہے کہ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا اپنے دور کی بہترین خاتون مریم حضرت مریمؑ بڑے مقام کی حامل خاتون تھیں۔ آپ کی اہمیت کے بارے میں روایت ہے کہ حضور نبی کریمؐ ایک مرتبہ حضرت خدیجہؓ کے پاس تشریف لے گئے۔ آپؓ بیمار تھیں اور اسی بیماری میں آپؓ کا انتقال بھی ہوا۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’اے خدیجہ! تجھے تکلیف میں دیکھ کر مجھے سخت تکلیف ہو رہی ہے لیکن کبھی کبھی اللہ تعالیٰ تکلیف میں بڑی بھلائی رکھ دیتا ہے۔ کیا تو نہیں جانتی کہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں تیرے ساتھ مریم بنتِ عمران، کلثم حضرت موسیٰؑ کی بہن اور فرعون کی بیوی آسیہ کے ساتھ میرا رشتہ ازواج منعقد کر دیا ہے۔ حضرت خدیجہؓ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہؐ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ ایسا کر دیا ہے؟
آپؐ نے ارشاد فرمایا:ہاں۔ حضرت خدیجہؓ نے (مبارکباد دیتے ہوئے)
عرض کیا: آپؐ کے اور ان کے درمیان اتحاد و اتفاق رہے اور اولاد نصیب ہو۔‘‘
حضرت مریمؑ کی والدہ ان کو اپنی نذر کو پورا کرنے کیلئے بیت المقدس میں عبادت کیلئے بٹھا دیتی ہیں۔ اللہ تبارک تعالیٰ ان کی حفاظت و کفالت کیلئے حضرت ذکریاؑ کو ان کا نگہبان مقرر فرما دیتے ہیں۔ آپؑ بیت المقدس کے جس محراب میں معتکف ہوئیں وہ مقدس کے شرقی حصے میں واقع تھی۔ اس پر معتکفین ہوئیں وہ مقدس کے شرقی حصے میں واقع تھی۔ اس پر معتکفین کے طریقہ کار کے مطابق پردہ لٹکا ہوا ہوتا اس طرح آپؑ نے خود کو دیکھنے والوں کی نگاہوں سے محفوظ فرما لیا۔ سورۂ مریم میں اللہ تعالیٰ اپنے پیارے نبی کو حضرت مریمؑ کا قصہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اور اے نبیؐ! اس کتاب میں مریم کا حال بیان کرو، جب کہ وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر مشرقی جانب گوشہ نشین ہو گئی تھی اور پردہ ڈال کر ان سے چھپ بیٹھی تھی۔‘‘ (آیت: ۱۷۔۱۶)
حضرت مریمؑ جس مقصد کیلئے چنی گئی تھیں وہ ابھی باقی تھا۔ آپؑ دن رات رب العالمین کی عبادت و ریاضت میں مشغول رہتی تھیں۔ حتیٰ کہ آپ کی عبادت ضرب المثل بن گئی۔ پھر وہ وقت آتا ہے کہ حضرت جبرائیلؑ آپ کے پاس تشریف لاتے ہیں۔ آپؑ ایک غیرمرد کو اپنے حجرے میں دیکھ کر پریشان ہو جاتی ہیں۔ حضرت جبرائیل انسانی شکل میں تشریف لاتے ہیں۔ حضرت مریمؑ آپ کو دیکھ کر بول اٹھتی ہیں: ’’اگر تو کوئی خداترس آدمی ہے تو میں تجھ سے خدائے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں۔‘‘ وہ آپ کو تسلی دیتے ہیں اور پیغامِ الٰہی سے باخبر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’میں تو تیرے رب کا فرستادہ ہوں اور اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دوں۔‘‘ حضرت مریمؑ کی حالت دیدنی ہے۔ ایک غیرمحرم شخص ان کے پاس موجود ہے وہ خداوند تعالیٰ کا پیغام لایا ہے اور ان کی اولاد کی خوشخبری سنا رہا ہے آپؑ حیرت و پریشانی کے ملے جلے جذبات سے فرماتی ہیں: ’’میرے ہاں لڑکا کیسے ہو گا جب کہ مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں اور میں کوئی بدکار عورت نہیں۔‘‘ حضرت جبرائیلؑ فرماتے ہیں: ’’ایسا ہی ہو گا تیرا رب فرماتا ہے کہ ایسا کرنا میرے لیے بہت آسان ہے اور ہم ایسا اس لیے کریں گے کہ اس لڑکے کو لوگوں کیلئے ایک نشانی بنائیں اور اپنی طرف سے ایک رحمت اور یہ کام ہو کر رہنا ہے۔‘‘
سورۂ تحریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے: ’’اور (دوسری مثال) مریم بنتِ عمران کی ہے جس نے اپنے گوہر عصمت کو محفوظ رکھا تو ہم نے پھونک دی اس کے اندر اپنی طرف سے روح۔‘‘ (آیت: ۱۲)