سلیم ناصر
لعل خان
یہ 1982/83ء کی بات ہے ،انور مقصود صاحب نے اپنے مشہورِ زمانہ شو ‘‘سلور جوبلی ’’ میں آنے والے مہمان کا تالیوں کی گونج میں استقبال کیا۔ آپ اگر انور مقصود صاحب کو پانچ منٹ کے لیے بھی جانتے ہیں تو آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ وہ برِصغیر کے مایہ ناز رائٹر ہونے کے باوجود ‘‘ان اسکرپٹڈ ’’ باتیں کرنا بہت پسند کرتے ہیں۔ اب ان کی بذلہ سنج طبیعت اور برجستگی کی تعریف کرنا بھی جان جوکھوں کا کام ہے، بس آپ اتنا جان لیجیے کہ وہ معین اختر صاحب کے‘‘خوفناک’’ سینس آف ہیومرکے سامنے بھی ٹک جایا کرتے تھے۔ انور مقصود صاحب نے آنے والے مہمان کو منی بیگم کے برابر میں بٹھایا اور مسکراتے ہوئے پوچھا۔
‘‘آپ سنجیدہ اداکاری کے لیے کافی مشہور ہیں؟’’ مہمان کے چہرے پر سادہ سی مسکراہٹ بکھر گئی۔
‘‘صاحب پرانی بات ہے…تب پی ٹی وی بھی سنجیدہ ہوا کرتا تھا۔’’
انور مقصود صاحب نے موقع پا لیا۔ ترنت بولے۔
‘‘تو کیا آج ایسا نہیں ہے؟’’
مہمان کی مسکراہٹ رخصت ہو گئی اور اس نے گہری سنجیدگی سے کہا۔
‘‘نہیں صاحب …آج تو باہر کافی گرمی ہے۔’’
ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔ انور مقصود صاحب بھی خود کو روک نہیں پائے۔ بات چیت دوبارہ شروع ہوئی۔ ایک موقع پر انور صاحب بولے۔ ‘‘آپ کی بیوی بھی آرٹسٹ ہیں، تو آپ میں اور ان میں کافی کچھ مشترک ہو گا؟’’
مہمان نے پھر سادگی سے مسکرا کر انور صاحب کی طر ف دیکھا۔
‘‘بجا فرمایا صاحب …بہت کچھ مشترک ہے ہم دونوں میں …میں گاڑی چلاتا ہوں، وہ زبان چلاتی ہیں …میں جاگتا ہوں، وہ سوتی ہیں…میں کھاتا ہوں ،وہ پانی پیتی ہیں …اور بھی بہت کچھ مشترک ہے۔’’
اس مرتبہ ہال میں پہلے سے زیادہ گونجدار قہقہے پڑتے رہے۔
ان دنوں ہر طرف ‘‘ان کہی’’ ڈرامہ چھایا ہوا تھا۔ انور صاحب کے مہمان اس ڈرامے میں اداکارہ شہناز شیخ کے ‘‘ماموں’’ کا رول کر رہے تھے۔ انور صاحب نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈرامے کی سچوئیشنز کے مطابق سوال کیا۔
‘‘آپ کے خیال میں شہناز شیخ کی شادی شکیل اور جاوید شیخ میں سے کس کے ساتھ ہونی چاہیے تھی؟’’
مہمان نے اس مرتبہ نہایت سنجیدگی سے قدرے خائف ہو کر انور صاحب کی طرف دیکھا اور کہا۔
‘‘کمال کرتے ہیں صاحب ….ہم کوئی اصلی والے ماموں تھوڑی ہیں!’’
اگلے دو منٹ تک ‘‘سلور جوبلی’’ کے سیٹ پر ہر کونے سے قہقہے فواروں کی طرح ابلتے رہے۔ میرا خیا ل میں آپ سمجھ ہی چکے ہوں گے کہ انور صاحب کے یہ مہمان کون تھے؟
جی ہاں، آپ بالکل ٹھیک سمجھے ،یہ سلیم ناصر تھے۔ وہی سلیم ناصر جنہیں آپ یقینا ‘‘اکبر’’ کے نام سے بھی جانتے ہوں گے۔ آنگن ٹیڑھا کے ‘‘اکبر’’ جنہیں انور مقصود صاحب نے ہی تخلیق کیا تھا۔
سلیم ناصر 15نومبر 1944ء کو ناگپور (برٹش انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ نسلاً پٹھان تھے، مردان کے سید گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ پیدائشی نام سید شیر خان تھا۔ بچپن کے واقعات بہت کم ملتے ہیں۔ کہیں کہیں پڑھنے کو ملا ہے کہ انتہائی شریف النفس قسم کے بچے تھے ۔کم گو انسان تھے اور اپنے کام سے کام رکھنے کو انسانوں کی سب سے بڑی خوبی گردانتے تھے۔ ان کی فیملی پڑھی لکھی اور روشن خیال تھی۔ پارٹیشن کے بعد 1948ء میں یہ لوگ ناگپور سے کراچی شفٹ ہوئے۔ گریجوایشن کے بعد ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کراچی کے شعبہء تعلقاتِ عامہ میں بحیثت افسر تعینات ہوئے۔ مگر یہ ان کی منزل نہیں تھی، چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے اس جاب کو خیرباد کہہ دیا۔
اس کے بعد انہوں نے ریڈیو پاکستان میں قسمت آزمائی شروع کر دی۔ سلیم ناصر صاحب کی فنکارانہ صلاحیتیں ریڈیو کے زمانے سے ہی کھل کر سامنے آنے لگی تھیں۔ ریڈیو پر حالاتِ حاضرہ کے پروگرام میں ان کے تبصروں نے ان کے اندر چھپے ہوئے اس فنکار کو باہر نکالا جس نے بعد ازاں اپنی ڈائیلاگ ڈیلیوری سے ٹی وی اور فلم کے منجھے ہوئے اداکاروں کو حیران کر دیا تھا۔
سال 1976ء سلیم ناصر کے اداکارانہ کیرئیر کی شروعات بتایا جاتا ہے۔ اس سال لاہور کی ایک فلم کمپنی ‘‘نور محل پکچرز’’ کے تحت ‘‘زیب النساء’’ کے ٹائٹل سے ایک فلم بنائی گئی جس میں شمیم آراء اور وحید مراد نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔اس فلم کو فرید احمد نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ جب کہ پروڈیوسر محمد اکرم چوہدری تھے ۔اس فلم کے لیے اس وقت کی مشہور گلوکارہ ارونا لیلیٰ اور مہدی حسن صاحب نے گانے بھی گائے تھے۔ سلیم ناصر پہلی مرتبہ بڑی اسکرین پر ‘‘بہادر شاہ ظفر’’ کے روپ میں سامنے آئے تھے۔ فلم باکس آفس پر کوئی کمال نہ دکھا سکی مگر سلیم ناصراپنی منفرد اور جاندار اداکاری کی وجہ سے پاکستان ٹیلی ویژن کی نظروں میں آ گئے۔
یہاں میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس زمانے میں ہماری ڈرامہ انڈسٹری کو ہندوستان میں فلمی اداکاروں سے زیادہ جانا جاتا تھا۔ ستر اور اسی کی دہائی میں ہمارے ڈراموں کا معیار یہ تھا کہ بھارت کے ‘‘پونا انسٹیٹیوٹ’’ میں وہاں کے نئے ٹی وی اداکاروں کو ہمارے ڈرامے دکھائے جاتے تھے اور ہمارے ٹی وی اداکاروں کو بھارت سے باقاعدہ دعوتیں موصول ہوا کرتی تھیں اور یہ وہاں جا کر نئے اداکاروں کو سکھایا بھی کرتے تھے۔
کنور آفتاب، قنبر علی شاہ، نصرت ٹھاکر، قاسم جلالی، شہزاد خلیل، راشد ڈار اور محمد نثار حسین جیسے لوگ ڈراموں کی ڈائریکشن کرتے تھے اور قوی خان، علی اعجاز، قمر چوہدری، ظفر مسعود، قاضی واجد، محمود علی، اطہر شاہ خان، روحی بانو، خالدہ ریاست، ذہین طاہرہ، عرس منیر، شہنازشیخ، مرینہ خان، راحت کاظمی، عثمان پیرذادہ، نوید شہزاد، ظہور احمد، محمد یوسف، نیلوفر عباسی، شکیل، محمود صدیقی، سبحانی بایونس، رفیع خاور (ننھا)، کمال احمد رضوی، بشریٰ انصاری، اسماعیل تارا، زیباشہناز، جمشید انصاری، خورشید شاہد، سلمان شاہد، خیام سرحدی، بندیا، روبینہ اشرف، شجاعت ہاشمی، محبوب عالم، فردوس جمال، ایوب خان، اورنگزیب لغاری اور نثار قادری جیسے بلند فنکارانہ قد رکھنے والے لوگ پرفارم کیا کرتے تھے۔
پورا برِصغیر اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنے ابتدائی دور میں جو اداکار پیدا کیے ہیں ان کا آج بھی کوئی ثانی پیدا نہیں ہو سکا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن کے اس عروج کے زمانے میں کسی نئے اداکار کے لیے جگہ بنانا اور وہ بھی اس طرح کہ پوری انڈسٹری کے دل میں گھر کر جانا ۔۔۔ یہ صر ف سلیم ناصر کا ہی کمال تھا۔ اس دور میں ڈائریکٹرز اداکار کی معمولی غلطیوں پر انہیں سیٹ پر ہی کان پکڑوا دیا کرتے تھے۔ اداکاری جیسے شعبے میں جگہ بنانا نئے لوگوں کے لیے تقریباً ناممکن تھا مگر سلیم ناصر صاحب نے ریڈیو پر صداکاری کے بعد ‘‘بہادر شاہ ظفر’’ بن کر اس ناممکن کو ممکن کر دکھایا تھا۔
اور یہاں سے سلیم ناصر صاحب کا جادو چلنا شروع ہو جاتا ہے۔ ان کی فنکارانہ زندگی کا مکمل احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے، انہوں نے کم و بیش 400 کے قریب ڈراموں،27 سیریلز اور کم و بیش 10 فلموں میں کام کیا ہے اور اداکاری کے ہر میدا ن میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ مگر ان کے چند ڈرامے در اصل ایسے ہیں کہ جن کا ذکر کیے بنا انہیں خراجِ تحسین پیش کرنا ممکن ہی نہیں۔ ان ڈراموں میں سرِ فہرست انور مقصود صاحب کا تحریر کردہ ‘‘آنگن ٹیڑھا’’ ہے۔
یہ1980ء کا ڈرامہ ہے۔ آپ اگر پچاس سال سے زائد عمر کے ہیں تب شائد آپ نے اس ڈرامے کا صحیح معنوں میں لطف اٹھایا ہو گا کیونکہ آپ ہی ہو سکتے ہیں جنہوں نے شکیل اوربشریٰ انصاری جیسے اداکاروں کے ساتھ سلیم ناصر کے طلسمی فن کو اپنے آنکھوں سے پہلی مرتبہ دیکھا ہوگا۔ اس کے بعد یہ کتنی مرتبہ کون کون سے چینل سے آن ائیر ہوا اس کا مجھے علم نہیں مگر میں نے بہرحال اسے یوٹیوب پر دیکھا ہے۔ اس ڈرامے کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا نام ذہن میں آتے ہی ‘‘اکبر’’ نامی کردار ہماری آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے اور پھر ہم مسکرائے چلے جاتے ہیں۔
شکیل اور بشریٰ انصاری نے بلاشبہ اس ڈرامہ میں پائے کی اداکاری کی ہے مگر سلیم ناصر کے سامنے ان کا چراغ بھی مدھم ہوا ہے اور اس کا ثبوت ہم یوں دے سکتے ہیں کہ شکیل صاحب کو پھر کسی نے ‘‘محبوب احمد’’ کے نام سے یاد نہیں کیا، بشریٰ انصاری بھی ‘‘جہاں آراء بیگم ’’ کو اپنی شناخت نہیں بنا سکیں مگر سلیم ناصر صاحب نے ‘‘اکبر ’’ کو اپنی زندگی کا سچ مان کر نبھایا تھا جبھی تو آج اتنے برسوں بعد بھی ہم ‘‘اکبر’’ کے سحر سے آزاد نہیں ہو سکے۔ سلیم ناصر نے کئی مواقع پر اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ یہ ان کی زندگی کا سب سے مشکل مگر دلچسپ کردار تھا جو ان کے دل کے بہت قریب ہے ہاں یہ الگ بات ہے کہ ‘‘اکبر’’ کو شناخت بنانے کے لیے انہیں بہت محنت کرنی پڑی تھی اور بڑے پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔‘‘اکبر’’ کے روپ میں انہوں نے ایسے کلاسک ڈانس کے دلدادہ گھریلو ملازم کا رول نبھایا تھا جس کی ہر حرکت اور ہر بات میں ہنسی، لطف اور تفریح ہوا کرتی تھی۔
اس یادگار ڈرامے کے ساتھ ایک بد قسمتی بھی جڑی ہوئی ہے۔ یہ ڈرامہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں آن ائیر ہوا تھا۔ اس زمانے میں انور مقصود صاحب اپنے قلم کو مارشل لاء اور جنرل ضیا ۔۔۔ دونوں کے خلاف کھل کر استعمال کر رہے تھے جس کی سزا اس ڈرامے کو بھگتنا پڑی، اسے جنر ل ضیاء الحق کے حکم پر بند کر دیا گیا تھا۔ یہ ڈرامہ 12 اقساط پر مشتمل ہے۔
سلیم ناصر صاحب کی دوسری شناخت ان کا ایک اور کردار ‘‘ماموں’’ بنا۔ یہ کردار انہوں نے ڈرامہ سیریل ‘‘ان کہی’’ میں نبھایا تھا جو پاکستان کی معروف ڈرامہ نگار حسینہ معین کے زورِ قلم کا نتیجہ تھا۔ اس ڈرامے میں انہوں نے شہناز شیخ کے ماموں کا کردار ادا کیا تھا۔ انور مقصود صاحب نے اپنے شو میں ان سے پوچھا تھا۔
‘‘سلیم …آپ کو کبھی کسی پر شدید قسم کا غصہ آیا؟’’
تو سلیم ناصر نے بڑے سنجیدہ انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا ۔‘‘جی ہاں، ایک مرتبہ حسینہ معین پر آیا تھا ….انہوں نے پہلے پہل مجھے صرف ‘‘ماموں’’ بنایا مگر بعد میں پتا چلا کہ میرے دو نوجوان بھانجے بھی ہیں …بس اسی وجہ سے ان پر بہت غصہ آیا تھا۔’’
اس ڈرامہ میں ان کے ساتھ شہناز شیخ، جاوید شیخ، قاضی واجد، شکیل، جمشید انصاری، بدر خلیل اور بہروز سبز واری صاحب جیسے ورسٹائل ادااکاروں نے کام کیا تھا۔ ان کہی میں سلیم ناصر صاحب کے کردار کی خاص بات یہ ہے کہ یہ خاص نہ ہو کر بھی سب کے لیے بہت خاص بن گیا تھا اور اس کا کریڈٹ صرف سلیم ناصر صاحب کو ہی جاتا ہے جنہوں نے اپنی عادت کے مطابق اپنے ‘‘ماموں’’ کے کردار کواپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر ہی نبھایا تھا۔
‘‘دستک’’ ان کا ایک اور منی سیریل تھا جس میں انہوں ایک وکیل کا کردار نبھایا۔ یہ ایک انتہائی سنجیدہ کردار تھا جس کے لیے انہیں بہت سراہا گیا تھا ۔اس ڈرامے میں ان کے ساتھ ایاز نائیک، شازیہ اختر اور قاضی واجد صاحب تھے۔ انہوں نے ‘‘نشانِ حیدر’’ کے نام سے کیپٹن سرور شہید پر بنائے جانے والے ڈرامہ میں مرکزی کردار ‘‘کیپٹن سرور’’ کو بے حد عمدگی سے نبھایا۔ ‘‘آخری چٹان’’ ان کا ایک اور بہترین ڈرامہ ہے جس میں انہوں نے سلطان جلال الدین منگو بیروی کا یادگار کردار ادا کیا۔ اس کردار کو نبھاتے وقت بھی انہیں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ ڈرامہ چونکہ تاریخ پر مبنی تھا لہٰذا شوٹنگ کافی سخت اور کٹھن مراحل سے گزرنے کے بعد مکمل ہوتی تھی۔ ان کٹھنائیوں کا سلیم ناصر اپنے مخصوص مزاحیہ مگر بظاہر سنجیدہ اندازسے کیسے ذکر کرتے ہیں ۔۔۔ ملاحظہ کیجیے:
انور مقصود صاحب نے جب ‘‘آخری چٹان’’ کا ذکر کرتے ہوئے سلیم ناصر صاحب کی تعریف کی تو انہوں نے جواب کچھ اس طرح دیا۔
‘‘جانے دیجیے صاحب …اب ہم نے تاریخی ڈراموں میں کام ہی نہیں کرنا تو پھر ذکر کرنے سے کیا فائدہ۔ ’’
انور مقصود صاحب نے حیرت سے وجہ پوچھی۔ کہنے لگے:
‘‘صاحب، بات کچھ اس طرح سے ہے کہ چنگیز خان کے دور میں مسلمانوں پر اتنے ظلم نہیں توڑے گئے ہوں گے جتنے ‘‘آخری چٹان’’ کی شوٹنگ کے زمانے میں کراچی کے فنکاروں پر توڑے گئے ہیں۔’’
انور مقصود صاحب کے مزید استفسار پر فرماتے ہیں۔
‘‘دراصل ڈائریکٹر صاحب کے پاس دو طرح کے گھوڑے تھے، ایک پولیس والے اور دوسرے ریس والے ….اب صاحب پولیس والے کا گھوڑا تب تک نہیں بھاگتا جب تک کہ اس کے پیچھے چور کا گھوڑا نہ لگا ہو….اور ریس والے گھوڑے کو نوٹ دکھانے پڑتے ہیں…تو جناب میرے حصے میں جو گھوڑا آیا وہ ریس کا تھا …میں اسے دس کا نوٹ دکھاتا تو تیز چلنے لگتا اور سو کا نوٹ دکھاتا تب جا کر وہ بھاگتا تھا۔’’
ان کا ایک اور بہترین شاہکار ‘‘یانصیب کلینک’’ تھا جس میں انہوں نے ایک ڈاکٹر کا رول بہترین انداز میں نبھایا۔ ‘‘جانگلوس’’ ان کی زندگی کا آخری ڈرامہ تھا۔ اس میں انہوں نے ایک سخت گیر بھائی کا انتہائی سنجیدہ رول نبھایا تھا جسے برسوں تک دیکھنے والوں نے یاد رکھا۔ شوبز کے ناقدین کے مطابق 1976ء سے 1989ء تک پاکستان ٹیلی ویژن میں سلیم ناصر صاحب کا کوئی جوڑ نہیں تھا۔ یہ فن کا ایک ایسا دریا تھا جو تیرہ سال تک بڑی روانی سے بہتا رہا اور ہماری ٹی وی انڈسٹری کو سیراب کرتا رہا۔ ان کے کریڈٹ پر دس فلمیں بھی ہیں جن میں سے ایک پنجابی فلم تھی ۔
سلیم ناصر صاحب کی فیملی میں ان کی بیگم کے علاوہ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔ شخصی اعتبار سے وہ بہت خوبصورت انسان تھے۔ ماضی کی معروف اداکارہ ‘‘صابرہ سلطانہ’’ ان سے کافی قریب رہی ہیں۔ ان کے مطابق سلیم ناصر صاحب ان کے لیے چھوٹے بھائی کی طرح تھے اور انہیں دل سے بڑی بہن کا درجہ دیتے تھے۔ صابرہ سلطانہ کہتی ہیں کہ سلیم ناصر صاحب ایک مؤدب انسان تھے۔ اپنے سینئرز کے ساتھ ہمیشہ بے حد احترام اور تمیز سے بات کرتے تھے۔ پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کے بھی فیورٹ ہوا کرتے تھے کیونکہ یہ بہت جلد ان کی مرضی اور منشاء کو نہ صرف سمجھ لیتے تھے بلکہ خود کو بہت آسانی سے اس شکل میں ڈھال بھی لیتے تھے۔ کبھی کسی جھگڑے یا تلخ کلامی تک کی نوبت نہیں آئی۔ غصے کی حالت میں چپ رہتے اور منظر سے غائب ہو جایا کرتے تھے۔ سلیم ناصر صاحب نے اپنی پوری زندگی میں خود کو ایک اچھا اداکار تسلیم نہیں کیا۔ جب بھی ساتھی اداکاروں یا دوستوں کی محفل میں بیٹھتے تو ان کی تعریفیں شروع ہو جایا کرتیں تھیں جن کے جواب میں یہ بڑی سنجیدگی سے کہا کرتے ۔۔۔
‘‘نہیں بھائی ….میرے اندر وہ بات نہیں جو فلاں اداکار میں ہے۔’’
اور اس فلاں کے بعد اداکاروں کی ایک طویل لسٹ ہوا کرتی تھی جس میں تقریباً پوری ٹی وی انڈسٹری ہی آجایا کرتی تھی۔ ہمیشہ اپنی تعریف پر کہا کرتے، ‘‘ابھی میں اچھے اداکاروں میں شامل نہیں ہوتا مگر میں دن رات محنت کر کے ایک نہ ایک دن ضرور اس قطار میں شامل ہو جاؤں گا۔’’
آپ اسے سلیم ناصر صاحب کی اعلیٰ ظرفی سمجھ لیجیے یا ان کا بڑا پن کہ وہ اپنے جونیئرز کی کھل کر تعریف کیا کرتے اور جوابی تعریف کو یکسر مسترد کر دیا کرتے تھے۔
ان کے حوالے سے ایک اور دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ ماضی کے معروف فلمی ہیرو محمد علی صاحب کے بہت بڑے پرستار تھے اور اکثر ان کی نقل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ خاص کر عدالتی مناظر میں ان کی پوری کوشش ہوا کرتی تھی کہ وہ محمد علی بن جائیں۔ کچھ لوگوں کے مطابق ان کی یہ خواہش اس لیے تھی کیونکہ وہ چہرے مہرے سے محمد علی صاحب کی طرح دکھتے تھے مگر حقیقت میں وہ بس محمد علی صاحب کی اداکاری پر فدا تھے اور ان جیسا پرفارم کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔
اکتوبر 1989ء میں سلیم ناصر صاحب دل کی تکلیف میں مبتلا ہوئے، دل کا پہلا دورہ برداشت کرنے کے چند ہی دن بعد 19 اکتوبر 1989ء کو انہیں دوسرا شدید دورہ پڑا۔ انہیں ہاسپٹل لے جایا جا رہا تھا مگر وہ راستے میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت مختصر وقت کے لئے اس دنیا میں بھیجا تھا ۔سلیم ناصر صاحب نے 45 برس کی عمر پائی۔
انہیں بعد از مرگ پرائیڈ آ ف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا گیا۔
انور مقصود صاحب نے اپنے شو میں ان سے ایوارڈ کے متعلق بھی پوچھا تھا اور جواباً سلیم ناصر صاحب نے کہا تھا۔
‘‘ایوارڈ تو صاحب …جب تک نہیں ملے گا کام کرتے رہیں گے مگر میری اس معاملے میں اوپر والے سے بات ہو گئی ہے …بس اب ملنے ہی والاہے۔’’
اور جب ان سے ‘اوپر والے’ کے بارے میں پوچھا گیا تو کہتے ہیں ۔‘‘اوپر …بہت اوپر، ہماری اللہ میاں سے بات ہوئی ہے …ہمیں ایوارڈ ضرور ملے گا۔’’
مجھے آنگن ٹیڑھا کا ایک سین یاد آ رہا ہے۔
اکبر کچن میں ایک اسٹول پر بیٹھا ہوا ہے، اس کی آنکھوں میں آنسو ہیں جنہیں وہ قمیص کے دامن سے صاف کررہا ہے۔ جہاں آراء بیگم کچن میں آتی ہیں تو اکبر خفگی اور ناراضی سے ان کی طرف دیکھتا ہے اور کہتا ہے۔
‘‘آپ دیکھنا، ہم ایک دن یہاں سے چلے جائیں گے …ہاں بس ذرا جلدی چلے جائیں گے۔’’
جہاں آرا بیگم کے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ اکبر جو کہہ رہا ہے وہ سچ کر دکھائے گا۔
سلیم ناصر جیسے لوگ دنیا میں ایک مثال بن کر اترتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے ذریعے ہم عام انسانوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ جس نے کرنا ہے اس کے لیے زندگی کی لمبائی چوڑائی کی کوئی اہمیت نہیں، وہ صرف چند برسوں میں اتنا کام کر جاتا ہے جتنا لوگ ایک صدی جی کر بھی نہیں کر پاتے ۔سلیم ناصر صاحب ہماری ٹی وی کی تاریخ کی سب سے خوبصورت، دلکش اور اثر انگیز یاد ہیں۔ یہ وہ تابندہ ستارے ہیں جن کی چمک تاریخ کے صفحوں پر کبھی ماند نہیں پڑے گی۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔۔۔ آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ