بے عقل ہے انسان وہ عشق کی قیمت کیا جانے
اس راز کو بس خدا جانے یا محبت کا طلب گار جانے
بے ذوق کہیں سودا نہ کر بیٹھی عشقِ کامل کا
نہ قیمت ادا وہ کر پائے گا، نہ خزانہ تجھ سے سنبھل پائے گا۔
تیری عقل کی چادر سے پردہ اُٹھا دے گا وہ
کہ ہر عشق میں اپنا آپ دکھا دے گا وہ
یہی تو راز تھا تجھے محبتوں میں گھیرایا اُسنے
پھر لوٹ کر اپنا آپ ہی دکھا اُسنے
وقا کے راز ہیں یہ تو کیا جانے گا اے غافل
وقت کو روک کر اسنے بھی بلایا اپنا محبوب پھر آخر
وہی تو ابتدا تھی، اُسی پر انتہا ہوگی
بے نام و نشان کو ہی تو درویشیاں عطا ہونگی
…٭…
سعدیہ بالکل خاموش ہوچکی تھی اور سب کچھ بھول کر بس اپنے رب کی عبادت میں لگی رہتی۔ محبت کی منزل صرف خدا ہی ہوتا ہے، پھر چاہے وہ انسان کی محبت ہی کیوں نہ ہو بس محبت کا جذبہ سچا ہونا چاہیے، محبت کا ہر راستہ بندے کو آخر اللہ سے ہی ملواتا ہے۔
سعدیہ نے بھی حاشر سے سچی محبت کی تھی جس نے اُسے اُس کے اللہ کے ساتھ جوڑ دیا۔
عشقِ مجازی سے وہ عشقِ حقیقی تک جا پہنچی۔
…٭…
اب اُس کی نماز بہت خوبصورت ہوچکی تھی کسی چیز کی چاہ نہیں بچی تھی، وہ اب بس دُنیا اور آخرت کی بھلائی مانگا کرتی تھی۔۔۔ روح پرُسکون اور دل بے ذوق ہوچکا تھا۔۔۔ وہ کئی گئی گھنٹے قرآنِ پاک پڑھتی، قرآنِ پاک کی خوشبو اُس کی روح کو مہکا دیتی۔۔۔ جب وہ قرآنِ پاک کا ترجمہ پڑھتی تو ایسے لگتا جیسے وہ پاک ذات سامنے بیٹھی ہے اور اُسے اس کے ماضی کی غلطیاں گنوا رہی ہے ایک، ایک لفظ اُس کی روح کو تروتازہ کردیتا، وہ اچھی اور سچی مسلمان بن چکی تھی۔۔۔ اس طرح ایک مہینہ بھی نہیں گزرا ہوگا کہ اُس کو خواب آنے لگے، کبھی اُسکے ہاتھ میں پھولوں کی ٹوکری ہوتی، کبھی کوئی میٹھی چیز اور کبھی وہ اُڑنے والے گھوڑے پر کسی خوبصورت جگہ کی سیر کرتی۔۔۔
اُسے اکثر آنے والے دِن کی پیش گوئی بھی ہوتی شاید خدا نے اُسکی توبہ قبول کرلی تھی۔
…٭…
مریم چونکہ ہوسٹل میں رہتی تھی وہ اکثر اکیلی شاپنگ کرنے جاتی، ایک دن اُس نے راستے میں ایک سڑک کے کنارے حاشر کو دو لڑکوں سے مار کھاتے دیکھا اور پاس ایک لڑکی بھی موجود تھی، مریم حیران پریشان گاڑی کا شیشہ کھول کر دیکھنے لگی۔
”کیا یہ حاشر ہے؟ نہیں یہ حاشر کیسے ہوسکتا ہے” وہ منہ میں بلبلائی۔
اُس نے فوراً سعدیہ کے نمبر پر فون کیا۔
”سعدیہ” وہ خوفزدہ تھی۔
”ہاں بولو” سعدیہ نے حیرانگی سے کہا۔
”نہیں کچھ نہیں۔۔۔” مریم نے فون بند کردیا۔
سعدیہ فون کان سے ہٹا کر حیران ہوئی اور پھر کا کرنے لگی۔
فون بند کرنے کے بعد مریم کو ملامت ہونے لگی وہ دراصل یقین نہیں کر پارہی تھی کہ یہ حاشر ہی ہے۔
…٭…
صبح صبح سعدیہ یونیورسٹی کی بس سے اُتری اُس نے اپنے سامنے مریم کو پایا۔
”تم اتنی صبح کیا کررہی ہو؟” اُس نے حیرانگی سے پوچھا۔
”کچھ نہیں۔۔۔ بس آج جلدی آگئی” وہ ہچکچاتے ہوئے بولی۔
سعدیہ مسکرائی۔۔۔
”لائبریری چلیں؟” سعدیہ نے سوال پوچھا۔
”نہیں سعدیہ۔۔۔ مجھے تم سے کچھ بات کرنی تھی۔”
”ہاں بولو!۔۔۔ کوئی پریشانی کی بات ہے مریم؟” سعدیہ نے اُس کا چہرہ غور سے دیکھا۔
”دراصل سعدیہ۔۔۔ مجھے تم سے پوچھنا تھا کہ تم مجھے حاشر کی تصویر دِکھا سکتی ہو؟” وہ ڈرتے ڈرتے بولی۔
”ہاں۔۔۔ کیوں نہیں” سعدیہ نے بیزاری سے جواب دیا۔
وہ اپنے موبائل کے کونے کھدڑے سے اُس کی تصویر ڈھونڈنے لگی، موبائل کی ساری گیلری نوس سے بھری ہوتی۔۔۔ کچھ دیر بعد آخر ایک تصویر مل ہی گئی۔
”یہ لو مریم!” اُس نے بیزاری سے موبائل پکڑایا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگی، جیسے کہ وہ ایک نظر بھی اُس تصویر پر نہ ڈالنا چاہ رہی ہو۔۔۔
”ہاں وہ حاشر ہی تھا۔۔۔” مریم تصویر دیکھتے ہی چلائی۔
”کون؟” سعدیہ نے حیرانگی سے پوچھا۔
مریم نے اُسے گزرے دن کا قصہ سُنایا۔
”یہ کیسے ہوسکتا ہے؟” اُس نے اچانک سے پوچھا۔
اُس کے چہرے سے رنگ اُڑ چکا تھا مگر وہ اپنے جذبات پر قابو پانا سیکھ چکی تھی۔
”سعدیہ میں نے خود دیکھا تھا وہ حاشر ہی تھا” مریم نے پھر سے کہا۔
”تو میں کیا کروں؟ میرا اُس سے اب کوئی لینا دینا نہیں” وہ غصے میں چلائی، موبائل اُس کے ہاتھ سے چھینا اور لائبریری چلی گئی۔
مریم وہاں کھڑی اپنے آپ کو کوسنے لگی۔
”شاید مجھے سعدیہ کو نہیں بتانا چاہیے تھا” وہ پریشانی میں بلبلائی۔
…٭…
لائبریری میں سعدیہ کے علاوہ کوئی اور مطالعہ کرنے والا نہ تھا، وہ اکیلی کتاب اپنے سامنے رکھے ناجانے کہاں ٹِکٹِکی لگائے بیٹھی تھی۔
آخر حاشر کیساتھ ہوکیا رہا ہے؟ اُس نے اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے اور اب یہ سب۔۔۔ نہیں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا” وہ منہ میں بلبلائی۔
بار بار اُسے حاشر کی فکر ہونے لگتی مگر وہ سر ہلاتے ہوئے اپنے آپ کو چونکاتی اور مطالعہ کرنے کی ناکام کوشش کرتی۔
وہ دِل سے ضرور نکل چکا تھا مگر ابھی بھی اُس کے وجود کا حصہ تھا۔
دِن بھر اُس کی فکر میں آنکھیں نم ہوتی رہیں۔
…٭…
اُس نے اپنی پرانی سِم موبائل میں ڈالی اور تیز تیز سعدیہ کا نمبر ڈھونڈنے لگا، نمبر ملتے ہی اُس نے سعدیہ کو فون ملایا ”کیا تم مجھ سے کل میری یونیورسٹی میں مِل سکتی ہو؟” اُس نے ہکلاتے ہوئے پوچھا اُس کی آواز سنتے ہی جسم لرز گیا، وہ ہکی بھکی فون کان سے لگائے کھڑی تھی۔
”مگر کیوں؟” اُس نے لرزتی ہوئی آواز سے پوچھا ”یہ میں تمہیں کل بتاؤں گا۔”
اُس کی انّا گوارہ نہیں کررہی تھی کہ وہ ہاں کردے اور انکا کرنا اُس کے دل اور دماغ دونوں کو منظور نہ تھا۔
وہ خاموسی سے اُس کے جواب کا انتظار کررہا تھا۔
دل نے آج پھر بازی مار لی اور اُس نے ملنے کا فیصلہ کیا۔
”ٹھیک ہے میں آجاؤں گی” کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اُس نے جواب دیا۔
حاشر نے فوراً فون بند کیا۔
وہ کافی دیر فون ہاتھ میں پکڑے یقین کرنے کی کوشش کرتی رہی۔
وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ حاشر اب اُس سے کیوں ملنا چاہتا ہے۔
”کیا وہ پھر سے میری عزتِ نفس کی دھجیاں اُڑائے گا؟” اپنے آپ سے سوال کرتے ہوئے اُس نے ماتھے پر بَل ڈالے۔
”مگر اب میں بہت بدل چکی ہوں حاشر علی” اپنے آپ پر فخر کرتے ہوئے وہ مسکرائی۔
…٭…
جب تک وہ یونیورسٹی پہنچتی وہ پہلے سے اُس کا انتظار کررہا تھا۔
”ہاں بولو؟ کیوں بلایا ہے مجھے؟” اپنی چادر ذرا سی چہرے سے پرے کرتے ہوئے اُس نے غصے سے پوچھا، وہ اُس سے نظریں نہیں ملا رہی تھی۔ وہ جانتی تھی ایک بار ٹکراؤ ہوا تو آنکھیں جھپکنا مشکل ہوگا۔
”سعدیہ مجھے کچھ پیسے چاہیے” وہ شرمندگی سے بولا۔
سعدیہ نے حیرانگی سے اُس کا چہرہ دیکھا اور پھر رُخ بدل لیا۔
”لیکن تمہیں پیسے کیوں چاہیے؟ تمہیں پیسوں کی کیا کمی ہے؟” اُس نے حیرانگی سے پوچھا۔
”میں بہت مشکل میں ہوں سعدیہ، پلیز میری مدد کرو” اُس نے التجا کی۔
”کیا تم نے کسی سے شادی کررکھی ہے؟” سعدیہ نے بڑی نفرت سے بھنویں اچکائیں۔
”نہیں! میں نے کسی سے شادی نہیں کی اور نہ میں کسی اور میں Interested ہوں” وہ چلایا۔
”تو پھر کیا وجہ ہے جو تم نے مجھ سے شادی سے انکار کیا؟ اگر تم مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتے تو نہ کرو مگر اپنے گھر والوں سے اس طرح لاتعلق ہونا غلط ہے۔” وہ بھی چلائی۔
”اِس کی وجہ کچھ اور ہے، اور وہ میں کسی کو نہیں بتا سکتا” اُس نے شرمندگی سے کہا۔
”میں جانتی ہو تم مجھ کبھی پسند نہیں کرتے تھے میں تمہاری ٹائپ نہیں ہوں مگر اس طرح اپنی زندگی خراب نہ کرو خدا کے لیے” اُس نے ہاتھ جوڑے۔
”میں نے تمہیں یہاں اس لیے نہیں بلایا” وہ غصے سے مرا۔
”مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے کیا تم میری مدد کرسکتی ہو؟ یا میں جاؤں؟”
”کس لیے چاہیے پیسے؟” اُس نے تجسس سے پوچھا۔ ”میں بہت مشکل میں ہوں سعدیہ! میری مدد کرو” وہ آنسوؤں سے بھری ہوئی آنکھوں کے ساتھ بولا سعدیہ اُس کی بے بسی پر حیران تھی، اُس کے آنسوؤں کی چمک اُسے خوفزدہ کررہی تھی، آخر اُس نے بے رخی کا نقاب اُتار دیا۔
”کیا مشکل ہے حاشر؟ مجھے بتاؤ؟
تم کچھ بتاتے کیوں نہیں” اپنے آنسوؤں کو قابو کرتے ہوئے وہ پوچھتی رہی۔ حاشر نے نظریں چرائیں۔
‘دبتاؤ حاشر؟ میں تمہاری مدد کروں گی۔ بھروسہ کرو مجھ پر” بے چینی کے عالم میں التجا کرتی رہی۔ ”سعدیہ میں ایک Drug Addicted ہوں اور کچھ دیر ہی زندہ رہ پاؤں گا۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی برباد کردی، سب کچھ تباہ کردیا میں نے۔ اپنی ساری جائیداد بیچ ڈالی۔
مگر اب تمہاری زندگی برباد نہیں کروں گا” وہ شرمندگی سے بولتا رہا ”یہ سب کیسے ہوگیا حاشر؟” سعدیہ ہکی بھکی رہ گئی، کچھ لمحوں کے لیے اُس کے دِل کی دھڑکن رُوک سی گئی۔
”ایک تمنا نامی لڑکی نے مجھ سے دوستی کی اور مجھے ایک چھوٹی سی آئس کریم کی دُوکان سے ڈر گز کے ساتھ جوس پلاتی رہی۔ اُس نے مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا” وہ گہری سوچ میں گُھم تھا۔
”اس سب میں تمہارا دوست عثمان بھی شامل ہے” سعدیہ نے بات کاٹی۔
”نہیں! وہ تو اُن لوگوں کو جانتا بھی نہیں”
”حاشر وہ لڑکا اس سب میں شامل ہے” اُس نے بات کو زور دیا۔
تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو؟” حاشر نے تجسس سے پوچھا۔
”مجھے نہیں پتہ مگر وہی ہے تمہاری بربادی کی اصل وجہ۔۔۔ وہ ایک گھٹیا اور جھوٹا انسان ہے اُس نے مجھ سے، ماموں سے تمہارے بارے میں جھوٹ بولا کہ تم بالکل ٹھیک ہو” وہ حیران ہوکر اُسے دیکھنے لگا۔
”حاشر تم میرے ساتھ چلو۔۔۔ میں تمہاری مدد کروں گی” اُس کی آنکھوں میں محبت صاف جھلک رہی تھی۔
”نہیں میں کہیں نہیں جاؤں گا۔ سعدیہ بس تم کچھ پیسوں کا انتظام کردو۔”
”کتنے پیسے چاہیے تمہیں حاشر؟”
”2,000,000” وہ شرمندگی سے بولا۔
سعدیہ گھبرائی مگر اُس نے پیسوں کا انتظام کرنے کی حامی بھرلی۔