غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (دوسرا اور آخری حصّہ)

۱۱۔ گٹھڑی

سنا ہے دنیا کا ہر شخص اپنے ساتھ ایک گٹھڑی اٹھائے پھرتا ہے۔ اعمال کی گٹھڑی۔ گناہوں کی گٹھڑی، دکھوں کی گٹھڑی۔ پتا نہیں کوئی خوشیوں کی گٹھڑی کیوں نہیں اٹھاتا۔ شاید اس لیے کہ خوشیاں بوجھ نہیں ہوتیں، اٹھانی نہیں پڑتیں۔ اپنا حق سمجھ کر وصول کی جاتی ہیں اور بے قدری سے ضائع کردی جاتی ہیں۔ یا شاید اس لیے کہ خوشیاں بانٹ دی جاتی ہیں، باندھ کر نہیں رکھی جاتیں جبکہ دکھ سینت سینت کررکھے جاتے ہیں اور اکیلے ہی اٹھانے پڑتے ہیں۔ یہ بھی سنا ہے کہ اگر لوگوں کو اپنی گٹھڑیاں دوسروں سے بدل لینے کا موقع ملا تو ہر کوئی اپنی ہی گٹھڑی اٹھانا پسند کرے گا۔ لیکن یہ کبھی نہیں سنا کہ اگر کوئی زبردستی اپنی گٹھڑی کسی دوسرے پر لاد دے تو کیا ہوتا ہے۔
اسمارہ اور شہیر کی شادی ہوگئی۔ ایک کے سر پر عذابوں کی گٹھڑی لدی تھی، دوسرے کے سر پر پچھتاوؤں کی۔ اس کے باوجود انجام بخیر ہوسکتا تھا اگر ان دونوں کے بیچ تیسری گٹھڑی نہ ہوتی۔ دلاور حسین کے لالچ کی گٹھڑی۔
اس شادی پر نہ بی بی جان کو اعتراض تھا نہ زرینہ کو۔ محی الدین کو صرف ایک اعتراض تھا اور اس اعتراض کا نام تھا دلاورحسین۔ انہوں نے نہ صرف شہیر کو بلوا کر اس سے بات کی بلکہ اپنے طور پر پتا بھی کروایا۔ دونوں طرح سے ایک ہی اطلاع ملی کہ وہ گھر نہیں آتے۔ باہر ہی کہیں اپنی رنگ رلیوں میں محو رہتے ہیں۔ گھر اور شہیر سے ان کا واسطہ برائے نام ہے۔ محی الدین نے اس طرف سے اطمینان ہوجانے کے بعد اسمارہ کو بلا بھیجا۔ وہ آئی اور ان کے پاس بیٹھ گئی۔ اس کی صحت پہلے سے کچھ بہتر ہوگئی تھی مگر اب بھی چہرے پر آنکھیں ہی آنکھیں تھیں۔ بجھی ہوئی، مردہ آنکھیں۔
”میں تم سے جو باتیں کرنا چاہتا ہوں، شاید عام طور پر باپ نہیں کرتے مگر ہمارا تعلق باپ بیٹی سے بڑھ کر دوست کا ہے۔” انہیں یہ باتیں کہنا ہی تھیں، وہ دل پر بوجھ لے کر اسے رخصت نہیں کرنا چاہتے تھے۔
”کیوں کررہی ہو یہ؟” انہوں نے نرمی سے پوچھا۔
اسمارہ حیرت سے انہیں دیکھنے لگی ۔”کیا کررہی ہوں؟”
”اس شادی کے لیے ہاں کیوں کی ہے تم نے؟” انہوں کھوجتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
وہ کچھ دیر خاموش رہی۔ ”کیونکہ ابو آپ ٹھیک کہتے تھے۔ جو ہوا وہ ٹریجک تھا۔ But I need to move on۔ میں کب تک ٹریجڈی میں رہوں گی؟ مجھے زندگی کو جینا چاہیے۔”وہ روانی سے محی الدین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بغیر بولتی رہی۔
محی الدین کتنی ہی دیر اس کا چہرہ دیکھتے رہے۔ وہ کمزور ہوچکی تھی۔ چہرے پر زردی کھنڈی تھی اور آنکھوں میں ایسا خالی پن تھا کہ ہزار کوشش کے باوجود وہ یہ نہیں جان پائے کہ وہ ٹھیک کہہ رہی تھی یا غلط۔ وہ واقعی اپنی خوشی سے یہ شادی کررہی تھی یا خود پر جبر کررہی تھی۔
”اصل بات کیسے بتاؤں آپ کو ابو۔ میں اس ٹریجڈی سے کبھی نہیں نکل سکتی۔ دن رات آپ کے سامنے رہوں گی تو خوش رہنے کا ناٹک نہیں کرپاؤں گی۔ مجھے آپ کے سامنے سے چلے جانا چاہیے۔ میں کبھی کبھی آپ سے ملوں اور آپ سے سمجھیں کہ میں خوش ہوں تو آپ زندہ رہیں گے۔ مجھے آپ کی زندگی عزیز ہے۔”اُس نے دل میں سوچا۔
”تم ایک مرتبہ پھر سوچ لو۔ میں تمہاری…”محی الدین کے جملے نے اُس کو سوچوں سے نکال کر حال میں کھڑا کردیا۔
”میں نے سوچ لیا ہے ابو!” اس نے بات کاٹ دی۔ ”بہت اچھی طرح سوچ لیا ہے۔ آپ فکر مت کریں۔”
گہرا سانس لے کر انہوں نے اس کا سر تھپکا ۔”تمہیں کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو بس مجھ سے کہتا۔”
”کسی چیز کی ضرورت؟” اس نے سادگی سے پوچھا۔
”زیور، کپڑے، فرنیچر، کچھ بھی جو تم اپنی مرضی سے لینا چاہو۔” انہوں نے شفقت سے کہا۔ وہ بڑی کوشش سے ہلکا سا مسکرائی۔ ”نہیں۔ مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔” اُس نے نرمی سے کہا اور پھر یکدم سوچنے لگی۔”مجھے جس کی ضرورت ہے، وہ آپ مجھے نہیں دے سکتے، کوئی بھی نہیں دے سکتا۔”
وہ کتنی ہی دیر اس کا جھکا ہوا سر دیکھتے رہے۔
بی بی جان اور زرینہ اس کی خریداری میں مصروف ہوگئیں۔ اس نے تھکن کا بہانہ کرکے جانے سے صاف انکار کردیا۔ کس بھی معاملے میں اس نے اپنی رائے یا پسند دینے سے یہ کہہ کر کنارہ کرلیا کہ مجھے آپ کی پسند پر بھروسہ ہے۔ واحد فرمائش جو اس نے کی وہ یہ تھی کہ شادی کا جوڑا سرخ نہ بنایا جائے۔
بی بی جانے شہیر کو بلا کر اس کی جائیداد کے کاغذات اور عالم آراء کے زیور اس کے حوالے کیے۔
”یہ چیزیں میں تب ہی دینا چاہتی تھی جب تم نوکری سے لگے تھے۔ مگر خیر یہ زیادہ بہتر موقع ہے۔ آج میں اپنا فرض اور قرض دونوں ادا کررہی ہوں۔ گواہ رہنا شہیر حسین، تمہاری امانت تم تک پہنچ گئی۔”
کاغذات اور زیور تحویل میں لیتے وقت بی بی جان نے تین وکیلوں کے بطور گواہ دستخط لیے تھے۔ اب حوالگی کے موقع پر بھی وہ موجود تھے تاکہ امانت میں کسی کمی بیشی کے نہ ہونے کی گواہی دے سکیں۔ شہیر نے تمام چیزیں دیکھ کر بی بی جان کے سامنے ڈال دیں۔
”یہ سب اسمارہ کو دے دیجئے۔” اس نے کہا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”نہ بیٹا۔ تم شادی کے بعد دنیا چاہو تو تمہاری مرضی مگر ابھی میں تمہیں لوٹا رہی ہوں۔”
شہیر نے پھر بھی اصرار کرکے سارا زیور اسمارہ کے لیے رکھوایا۔ اس کا تھا ہی کون جو اس کی شادی کی تیاریاں کرتا، اس کی دلہن کے لیے زیور کپڑے بنواتا۔
شادی ہوئی، شہیر دھوم دھام سے بارات لے کر آیا۔ اسمارہ نے کانپتی ہاتھوں سے نکاح نامے پر دستخط کیے اور شہیر کے ساتھ رخصت ہوگئی۔ رخصت ہوتے سمے اس کی نظر آرائشی آئینے پر پڑی اور اس کی نظروں میں وہ تمام دلہنیں گھوم گئیں جو حویلی کی پچھلی گلی سے گزرا کرتی تھیں اور جنہیں وہ بڑے شوق سے اپنی کھڑکی میں سے دیکھتے ہوئے اپنی شادی کے خواب دیکھا کرتی تھی۔ آج اس کی آنکھیں خوابوں سے عاری تھیں اور دل جذبوں سے خالی۔ وہ انہی دلہنوں کی طرح سرنیہوڑائے ہوئے تھی کیونکہ اس میں سر اٹھانے کی سکت نہ رہی تھی۔
اسمارہ شہیر کے گھر آئی تو دلاور حسین اس سے ملنے آئے۔ رسمی طور پر اس کے سر پر ہاتھ رکھا، اس کے ہاتھ پر سلامی رکھی، چند ایک دعائیں بڑبڑائیں اور کہیں چلے گئے۔ اسمارہ کو ساتھ آئی چند کزنز اور گھر کی ملازماؤں نے شہیر کے کمرے میں پہنچایا۔ وہ بچپن میں کئی مرتبہ اس کمرے میں آچکی تھی۔ اسے شہیر سے ہمدردی کا سبق دیا گیا تھا اس لیے وہ اس ہمیشہ اچھے طریقے سے پیش آنے کی کوشش کیاکرتی تھی۔ مگر شہیر اسے پسند کبھی نہ رہا تھا۔ نہ بچپن میں نہ اب۔ لیکن کیا فرق پڑتا تھا؟ بدر نہیں تو پھر کوئی بھی ہو، کیا فرق پڑتا تھا؟
شہیر کمرے میں آیا اور ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔ وہ گھونگھٹ کے نیچے سے اس کے قدم دیکھتی رہی۔ آخروں قدم تھم گئے۔
”آج تو بڑا یاد آرہا ہوگا وہ تمہیں؟” اس نے زہر خند آواز میں پوچھا۔
”ہاں!” اس کے دل نے کہا۔ مگر زبان خاموش رہی۔
”تھاکیا اس میں جو تم مرمٹی تھیں اس پر؟” نیا سوال آیا۔ وہ اب بھی خاموش رہی۔
”مجھے تو کبھی پسند نہیں رہا۔ اچھا ہوا مر گیا۔”
اسمارہ نے ہاتھ ایک دوسرے میں بھینچ لیے۔ شہیر اس کے سامنے آکر بیٹھ گیا اور اس کا گھونگھٹ الٹ دیا۔ اسمارہ سرد نگاہوں سے اسے دیکھے گئی۔ شاید وہ اس کے چہرے پر خوف، التجا اور پچھتاوہ دیکھناچاہتا تھا۔ اسمارہ کے تاثرات دیکھ کر اسے غصہ آگیا۔
”الٹیاں کیوں آتی تھیں تمہیں؟ صرف منگنی ہوئی تھی یا نکاح بھی کر لیا تھا؟ یا اس کے تعبیر ہی…” اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔ اسمارہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سرد تاثرات کے ساتھ دیکھتی رہی۔ وہ بچپن سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کی ہر کیفیت سے واقف تھا۔ تو آج اگر یہ سوال پوچھ رہاتھا تو اس لیے نہیں کہ اسے جواب چاہیے تھا بلکہ اس لیے کہ وہ اسے اذیت پہنچانا چاہتا تھا۔ شاید خود کو ٹھکرائے جانے کا بدلہ لے رہا تھا۔ اسمارہ نے خود کو کوئی تسلی نہ دی۔ جو ہو رہا تھا وہ اسے صاف طور پر سمجھ آرہا تھا۔ تو پھر ٹھیک ہے۔ میرے ساتھ یہی ہونا چاہیے۔ میں یہی ڈیزرو کرتی ہوں۔ اس نے خود اذیتی سے سوچا۔
”اب بھی اس کے خیالوں میں ہوگی تم؟” شہیر کی تفتیش جاری تھی۔
”نہیں۔” اب کے اسمارہ نے جواب دیا۔ وہ واقعی بدر کے خیالوں میں نہیں تھی۔ اس کا خیال اسے اس قدر تکلیف دیتا تھا کہ وہ ہزار کوشش سے اس کے خیال سے نظر چرا جاتی تھی۔
”بھول گئی ہو تم اسے؟” شہیر نے چیلنج کرنے والے انداز میں پوچھا۔
”نہیں۔” اسمارہ نے بے ساختہ جواب دیا۔
شہیر کا تھپڑ اس کے گال پر اس زور سے پڑا کہ وہ الٹ کر پیچھے جاپڑی۔ فوراً ہی شہیر نے دونوں بازوؤں سے پکڑ کر اسے اٹھا لیا۔
”I am sorry…I am sorryمیری جان۔ دیکھو تم نے یہ مجھے کیا کرنے پر مجبور کردیا۔ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔ تمہارے ساتھ شراکت منظور نہیں مجھے۔ میں خود پر قابو نہیں رکھ سکا۔I am sorry۔ پلیز آئندہ میرے سامنے اس کا ذکر مت کرنا۔”
اسمارہ نے دیکھا وہ رو رہا تھا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں سے بڑے بڑے آنسو بہہ رہے تھے۔ اس نے اسمارہ کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے اورپھر بے قراری سے اسے سینے سے لگا لیا۔ اس کے سینے سے لگے، اس کی معافیاں سنتے اسمارہ کو متلی ہونے لگی۔ اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر ابکائی روک لی۔
٭…٭…٭
وہ ماں باپ کے گھر جاتی تو خوب تیار ہوکرجاتی۔ وہ اسے دیکھ کر خوش ہوتے۔ ڈھیرے سارا میک اپ، بھاری جوڑے۔ سجی بنی، زیوروں میں لدی۔ نہیں جانتے تھے کہ میک اپ چہرے کے نیل چھپانے کے لیے ہے اور زیور گردن اور بازوؤں پر پڑے داغ۔ پھر یہ نیل، یہ داغ اتنے بڑھنے لگے کہ نہ میک اپ سے چھپتے نہ زیوروں سے۔ اس نے گھر جانا چھوڑ دیا۔ بے حسی کی جس انتہا پر وہ پہنچ چکی تھی، اسے اب کچھ محسوس نہ ہوتا تھا۔ نہ کسی کا غم نہ کسی کی یاد۔ نہ کوئی دکھ نہ چوٹ کا کوئی احساس۔ صرف ایک پچھتا وہ تھا جو ہر احساس پر حاوی تھا۔
ایک دن بی بی جان اور زرینہ اس سے لنے آگئیں۔ پھلوں کی پٹیاں، جوس کے ڈبے، کیک، مٹھائی، بہت کچھ اٹھائے ہوئے۔
”اتنے تکلف کے ساتھ کیوں آئیں آپ؟” اسمارہ نے ان سے گلے ملتے ہوئے پوچھا۔
”پہلی مرتبہ تمہارے گھر آئی ہوں، خالی ہاتھ آئی کیا؟ تم تو بھول ہی گئی ہو ہمیں۔ آج تمہاری یاد سے مجبور ہوکر آئی ہوں۔” انہوں نے شکوہ کیا۔
زرینہ نے بھی اتفاق کیا ْ۔”تین مہینوں میں تم بمشکل چھے سات مرتبہ ملنے آئی ہو۔ آنا کیوں چھوڑ دیا بیٹا؟”
”بس امی ہر وقت کوئی نہ کوئی دعوت ہوتی ہے یا ہم ویسے ہی گھومنے پھرنے چلے جاتے ہیں۔ بالکل وقت نہیں ملتا۔” اس نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ مصنوعی مسکراہٹ سے وہ انہیں دھوکہ دے سکتی تھی مگر آنکھوں کا جھوٹ نہیں چھپا سکتی تھی، اسے ان سے نظریں چرانی ہی تھیں۔
وہ ان کے لیے چائے کا انتظام کرنے کے بہانے اٹھ گئی۔ چائے لے کر واپس آئی تو شہیر آچکا تھا۔ بی بی جان نے اسمارہ کو اپنے پاس بٹھا لیا۔ باتیں کرتے کرتے انہوں نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا ۔”یہ کیا ہوا یہاں؟” انہوں نے اس کے ہونٹ کے کنارے کے زخم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ انہوں نے اسمارہ کو پالا تھا، وہ کبھی ان کی نظروں سے کچھ نہیں چھپا سکتی تھی۔
”گر گئی تھی!” شہیر نے فوراً جواب دیا۔
مگر بی بی جان کی نظریں اس کا چہرہ ٹٹول رہی تھیں۔ انہیں concealer سے چھپائے ہوئے حلقے بھی دکھائی دے رہے تھے اور جبڑے پر پڑا نیل بھی۔
”کہاں سے گری تھیں کہ اتنی چوٹیں لگ گئیں؟” انہوں نے ماتھے پر بل ڈال کر پوچھا۔
”ڈرائیووے میں چند پتھراکھڑے ہوئے تھے، وہیں پہ ٹھوکر لگ گئی۔” اب بھی شہیر نے جوا ب دیا۔ بی بی جان خاموش ہوگئیں۔ مگر ان کی آنکھوں میں سوچ کی گہرائی کم نہ ہوئی۔
جاتے جاتے انہوں نے تبنیہی انداز میں شہیر سے کہا ۔”میری بیٹی کا خیال رکھنا شہیر حسین۔ اسے دوسری عالم آراء نہ بننے دینا۔”
اس رات شہیر نے گالیوں، تھپڑوں اور ٹھوکروں کا طوفان اٹھا دیا۔
”میرے ہی گھر آکر مجھے ہی حکم دیتی ہے بڑھیا!” وہ چلاتا رہا۔
”تم نے بلایا تھا اسے؟ تم سناتی ہو اسے جھوٹی سچی داستانیں؟ اپنی بدکار بیٹی میرے متھے ماردی اور اسے میری ماں سے ملاتی ہے؟ اپنی آنکھوں سے دیکھتا تھا میں تمہیں الٹیاں آتے۔ کس ڈاکٹرسے کروایا تھا تم نے ابارشن؟ مجھے اس کا نام بتاؤ میں اس سے سرٹیفکیٹ لاکر تمہاری دادی کے منہ پر ماروں۔” وہ اس کا گلا دبوچ کر چیختا رہا۔
”میری ماں کی جائیداد کھا گئی۔ مجھے چند زیور اور پرانے کاغذ پکڑا کر بڑا احسان کیا مجھ پر۔ مجھے کیا پتا اس میں سے کیا کچھ غائب کردیا اس نے؟” وہ غصے میں چیزیں اٹھا کر پھینکنے لگا۔
آدھے گھنٹے بعد وہ اسمارہ کے پیر پکڑے معافیاں مانگ رہا تھا۔” مجھے معاف کردو۔ میں الوکا پٹھا ہوں، جانور ہوں۔ پر تمہارا غلام ہوں۔ مجھے معاف کردو میری جان۔ میرا سب کچھ تمہارا ہے۔ نہیں چاہیے مجھے یہ جائیداد، یہ زیور، سب میں نے تمہاری سر سے صدقہ کیے۔ یہ سب تمہارا ہے، میں بھی تمہارا ہوں۔ اپنے گناہ گار کو معاف کردو۔ بس مجھے غصہ نہ دلایا کرو۔ دیکھو میں نے بھی تو تمہارے گناہ معاف کیے ہیں۔ تم بھی مجھے معاف کردو۔”
٭…٭…٭
اسمارہ اپنے پچھتاووں کی گٹھڑی میں بند ھی تھی شہیر اپنے عذابوں کی گٹھڑی میں بندھاتھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ اسمارہ نے اپنی گٹھڑی کا بوجھ تن تنہا اٹھا رکھا تھا۔ نہ اس میں ماں باپ کو شریک کیا تھا نہ شوہر کو۔ مگر شہیر نے کوڑے بھرے لفافے کی طرح اپنی گٹھڑی کھول کر اسمارہ کے سر پر انڈیل دی تھی۔ اسمارہ بے حسی کے ساتھ ان عذابوں کے بوجھ تلے پس رہی تھی۔ اسے ان سے نجات کی نہ کوئی خواہش تھی، نہ آس۔ لیکن تقدیر کی پلاننگ کسی کی خواہش کے تابع نہیں ہوتی۔ اسمارہ کی نجات بھی اسی گھر کے ایک فرد کے ذریعے لکھی تھی۔
چند دنوں سے دلاور حسین ہر روز گھر آنے لگے تھے۔ شہیر کے ساتھ ان کے تعلقات سرد مہری اور بے اعتنائی کے تھے۔ یوں لگتا تھا دونوں ہی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے روا دار نہیں۔ مگراسمارہ کے ساتھ ان کا رویہ یکدم بہت اچھا ہوگیاتھا۔ وہ بیٹھ کر اس سے باتیں کرتے اوربے حد پیار سے پیش آتے۔ اس اچانک امنڈ پڑی محبت کی وجہ جلد ہی سامنے آگئی۔
اس دن اسمارہ گھر میں اکیلی تھی۔ شہیر کسی کام سے کہیں گیا ہوا تھا اور اسمارہ کی ملازمہ چھٹی پر تھی۔ وہ لان میں بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی کہ دلاور حسین آگئے۔ اسمارہ نے خانساماں کو فون کرکے چائے لانے کا کہا مگر جلد ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ وہ پٹے ہوئے ہیں۔ وہ کچھ دیر ان کی لن ترانیاں برداشت کرتی رہی پھر معذرت کرکے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ دس منٹ بعد ہی اس کے دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ سمجھی شاید خانساماں اس کی چائے کمرے میں لے آیا ہے۔
”آجائیں۔” اس نے اجازت دی۔
دروازہ کھلا اور دلاور حسین اندر داخل ہوئے۔ وہ انہیں دیکھ کر حیران ہوئی مگر شائستگی سے انہیںصوفے پر بٹھایا۔
”بڑی اچھی لڑکی ہو تم۔ تمہارے ماں باپ بھی بڑے اچھے ہیں۔ تمہاری دادی بھی بہت نیک ہیں۔” وہ جھوم جھوم کر عقیدت سے کہتے رہے۔ وہ خاموش بیٹھی انہیں دیکھتی رہی۔ جلد ہی وہ مطلب پر آگئے۔
”سنا ہے شہیر کو اس کی ماں کی جائیداد مل گئی ہے؟” انہوں نے اپنی آنکھیں اس پر گاڑ کر پوچھا۔
”میں نہیں جانتی۔” اسمارہ نے پہلو بچانے کی کوشش کی۔
”جانتی تو خیر تم ہو!” وہ ہنسے۔ ”خیر عورتوں کو عادت ہوتی ہے جھوٹ بولنے کی۔ سنا ہے عالم آراء کا زیور بھی مل گیا ہے اسے؟”
”جی!” اب کے اسمارہ انکار نہ کرسکی۔ ان زیوروں میں سے ایک بھاری چین، چند کنگن اور انگوٹھیاں تو وہ اس وقت بھی پہنے ہوئے تھی۔ وہ یقینا پہچان گئے ہوں گے۔
”بہت قیمتی زیور تھا عالم آراء کا۔ جائیداد بھی بہت قیمتی تھی۔” دلاور حسین کہہ رہے تھے۔ ”لیکن دیکھو مجھے اس میں سے کچھ نہیں ملا۔ کیسی تنگ دستی میں زندگی گزاری میں نے۔ نہ میری بیوی کو خیال آیا کہ کچھ میرے نام چھوڑ جاتی، نہ اب بیٹے کو خیال ہے۔”
وہ خاموش سے سنتی رہی۔ یہ باتیں وہ اسے کیوں بتا رہے تھے، اس کو سمجھ نہیں آیا۔
”تم شہیر سے کہو کہ جائیداد میں سے میرا حصہ مجھے دے دے۔” آخر انہوں نے کہا۔
”میں نہیں کہہ سکتی انکل۔ وہ میری بات نہیں سنیں گے۔” اسمارہ نے صاف گوئی سے کہا۔
”سنے گا کیوں نہیں؟ اسے کہہ دو کہ اگر معاملہ شرافت، کورٹ کچہری سے باہر نمٹ سکتا ہے تو نمٹا دے۔ مجھے انگلیاں ٹیڑھی کرنے پر مجبور نہ کرے۔” انہوں نے غصے سے کہا۔
”کہہ دوں گی۔” اسمارہ نے جان چھڑانے کی کوشش کی۔
”کب؟” انہوں نے جلدی سے پوچھا۔
”جلد ہی” اسمارہ اکتا گئی تھی۔
”مجھے کب جواب دوگی؟” وہ جان کے موڈ میں نہیں تھے۔
اسمارہ خاموش رہی۔ اس سوال کا جواب شہیر کس زبان میں دیتا، یہ وہ اچھی طرح جانتی تھی۔
”تم نہیں کہو گی شہیر سے۔” دلاور حسین نے مایوسی سے کہا۔
کچھ دیر خاموشی رہی۔ دونوں اپنی سوچوں میں گم بیٹھے رہے۔
”یا پھر ایک اور کام بھی ہوسکتا ہے” دلاور حسین نے اچانک کہا۔ ان کا انداز پر جوش تھا۔ ”تم تو جانتی ہوگی کہ کاغذات اور زیور کہاں پڑا ہے۔ مجھے بتا دو میں خود ہی اپنا حصہ لے لیتاہوں۔ خاندان کی عزت کو کورٹ کچہری میں لے جانے کی کیا ضرورت ہے۔”
اسمارہ نے بے یقینی سے انہیں دیکھا۔ جیسے ان کا ذہنی توزن خراب ہوگیا ہو۔
”میں نہیں جانتی۔ اب آپ جائیے۔ شہیر آئیں گے تو ان سے خود بات کر لیجیے گا۔” اس نے کھڑے ہوتے ہوئے مرد مہری سے کہا۔
دلاور حسین بھی کھڑے ہوگئے۔ ان کا چہرہ جو شراب کے نشے میں پہلے ہی سرخ تھا، اب مزید لال بھبھوکا ہوچکا تھا۔ آنکھوں میں شرارے لپک رہے تھے۔
”تم بھی بالکل عالم آراء جیسی ہو۔ خود غرض۔” انہوں نے نفرت سے کہا۔
خود غرض۔ اسمارہ کو یہ لفظ تازیانے کی طرح لگا۔ وہ پہلے ہی اس لفظ کی خود ساختہ سولی پر ٹنگی تھی۔ وہ جتنا اسے بھلانے کی کوشش کرتی، یہ لفظ اتنا ہی اس کے آگے آکر کھڑا ہوجاتا تھا۔
”ٹھیک ہے کاغذات نہیں دے سکتی، نہ سہی۔ زیور نہیں دے سکتی کوئی بات نہیں۔ تو پھر کچھ تو وصول کروں گا میں۔”
اس سے پہلے کہ وہ ان کی بات کا مطلب سمجھتی، وہ آگے بڑھ کر اسے دبوچ چکے تھے۔ وہ کیا وصول کرنا چاہتے تھے، اس میں انہیں کوئی شک و شبہ نہ رہا۔
”میں آپ کے بیٹے کی بیوی ہوں!” اسمارہ نے خود کو چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے چلا کر کہا۔
”بھاڑ میں جائے۔ جس نے مجھے باپ نہیں سمجھا، میں اسے کیا بیٹا سمجھوں؟” وہ اسے قابو کرنیکی کوشش میں ہانپ رہے تھے۔
اسمارہ کو بے اختیار محی الدین کی وہ بات یاد آئی جو انہوں نے دلاور حسین کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہی تھی۔ ”شرابی بیوی اور بیٹی میں تمیز نہیں کرسکتا۔” انہوں نے کہا تھا اور کتنا سچ کہا تھا۔
اسمارہ نے زور سے دلاور حسین دھکا دیا۔ وہ لڑکھڑا کر گرتے گرتے بچے۔ زخمی شیر کی طرح وہ اس پر جھپٹے اور اس کا گلا پکڑ لیا۔ اور یہ تھا وہ وقت جب وہ اسمارہ اس خول کو توڑ کر باہر نکل آئی جس میں اسے دکھوں اور پچھتاؤوں نے بند کر دیا تھا۔ وہ مضبوط، دلیر، کسی سے نہ ڈرنے والی اسمارہ جو بھائیوں کے ساتھ ریسلنگ کرتی تھی اور ناپا کے خونخوار کتوں کو قابو کرلیتی تھی۔ آج بھی اس کے سامنے ایک باؤ لاکتا کھڑا تھا جو اس کی عزت کے درپے تھا۔ اس نے پوری قوت سے ایک گھٹنا دلاور حسین کے پیٹ میں مارا اور ہاتھوں سے ان کا چہرہ نوچ لیا۔ وہ ایک ہاتھ سے پیٹ اور دوسرے سے چہرہ پکڑ کر دوہرے ہوگئے۔ اسمارہ تیزی سے پیچھے ہٹ کر دیوار سے جالگی۔ پاس پڑی میز سے اس نے بھاری بھرکم لیمپ اٹھا لیا۔ دلاور حسین سیدھے ہوئے تو سانپ کی طرح پھنکار رہے تھے۔ ان کے چہرے پر خراشیں پڑ چکی تھیں اور ان سے خون رس رہا تھا۔
”تم…” انہوں نے ہذیانی انداز میں چلاتے ہوئے گالی دی۔ ”میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔”
”میں عالم آراء نہیں ہوں دلاور انکل۔ میں خود کو نہیں آپ کو مار ڈالوں گی۔” اس نے چیخ کرکہا۔ دلاور حسین نے اپنی بیلٹ اتاری اور اسے کوڑے کی طرح لہراتے ہوئے اسمارہ کی طرف بڑھے۔ اسی وقت دروازہ کھلا اور شہیر اندر داخل ہوا۔ اس کے پیچھے شجاع بھائی تھے۔ کمرے کا سین دیکھ کر وہ چند سیکنڈ کے لیے بھونچکارہ گئے۔ اسمارہ کونے میں لیمپ ہاتھ میں پکڑے کھڑے تھی۔ اس کی ایک آستین کندھے سے ادھڑ کر لٹک رہی تھی اور ہونٹ سے خون رس رہا تھا۔ دلاور حسین اس کے سامنے بیلٹ لہراتے ہوئے ہانپ رہے تھے۔ یہ منظر سمجھنے میں شجاع بھائی کو ایک سیکنڈ لگا۔ بجلی کی سی تیزی سے آگے بڑھ کر انہوں نے دلاور حسین کو ایک گھونسا جڑا اور اسمارہ کے آگے ڈھال بن کر کھڑے ہوگئے۔ دلاور حسین گھونسا کھا کر صوفے پر گر پڑے۔
”پوچھو… پوچھو اس سے اس نے مجھے یہاں کیوں بلایا تھا؟ مجھے ہنس ہنس کر دیکھتی تھی، روز دعوت دیتی تھی۔ کہتی تھی شہیر نہیں ہوتا، آپ آجایا کیجیے۔ آج آیاہوں تو یہ ڈرامہ کررہی ہے۔” دلاور حسین چلائے۔
کوئی بچہ بھی ہوتا تو اس منظر میں کھڑے ہوئے اس طفلانہ کہانی کا یقین نہ کرتا۔ مگر شہیر بچہ نہیں تھا۔ وہ اپنے عوامل میں کھڑاہوا ایک بے بس آدمی تھا جو نفرت اور محبت کے درمیان پنڈولم کی طرح جھول رہا تھا۔ اس عورت سے محبت جو اس کی ماں تھی، اس عورت سے نفرت جس نے اس کے سامنے خود کو گولی مار کر اپنا خون اس کی کتاب پر بکھیر دیا تھا۔ اس عورت سے محبت جسے وہ بچپن سے چاہتا تھا، اس عورت سے نفرت جس نے اس کی چاہت ٹھکرا کر کسی اور کی محبت قبول کرلی تھی۔
”بدکار عورت” وہ چلایا۔ شجاع بے یقینی سے اسے دیکھا۔
”دو سے دل نہیں بھرا تھا کہ اب تیسرا بھی چاہیے؟”
اسمارہ وہاں کھڑے کھڑے مر گئی۔ اپنے بھائی کے سامنے یہ جملہ سن کر شرم کے ہاتھوں، غیرت کے ہاتھوں جیتے جی مر گئی۔
شجاع بھائی نے بے حد بے یقینی سے اسے دیکھا۔ ”یہ ہوتا ہے تمہارے ساتھ یہاں؟” انہوں نے ٹوٹے لہجے میں پوچھا۔
اسمارہ نے اپنی مردہ آنکھیں اٹھا کر اپنے بھائی کو دیکھا۔
”ہاں!” اس نے فریاد کرتی آواز میں کہا۔ اب کوئی فائدہ نہیں تھا چھپانے کا۔ جن لوگوں کی خاطر وہ سب کچھ سہہ رہی تھی، آج سب کچھ ان کے سامنے کھل گیا تھا۔
اس نے شجاع کی آنکھوں کو آنسوؤں سے بھرتے دیکھا۔ انہوں نے کچھ بھی کہے بغیر اس کاہاتھ پکڑا اور اسے لے کر دروازے کی طرف بڑھے۔ شہیر نے لپک کر اس کا بازو پکڑ لیا۔
”یہاں سے جاؤ گی تو واپس نہیں آسکو گی” اس نے غرا کر کہا۔
اسے کے کھینچنے سے اسمارہ لڑکھڑا گئی۔ بے اختیار شجاع نے اسے سہارا دیا۔
”دروازہ پار کرو گی تو طلاق دے دوں گا۔” شہیر نے پھنکار کر کہا۔
شجاع بھائی نے تیزی سے آگے بڑھ کر شہیر کو پیچھے دھکا دیا۔
”اسمارہ کاغذ پین لاؤ۔” انہوں نے اسمارہ سے کہا۔
”اسمارہ کاغذ پین لاؤ۔” انہوں نے اسمارہ سے کہا۔
اسمارہ نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا لیٹر پیڈ اور پین اٹھا کر انہیں دیا۔ شجاع بھائی نے دونوں چیزیں شہیر کے ہاتھ میں تھما دیں۔
”لکھو۔ ابھی ابھی طلاق لکھو۔” انہوں نے غصے سے پر قابو پاتے ہوئے شہیر کو حکم دیا۔
شہیر نے اسمارہ کو دیکھا جو شجاع کے پیچھے کھڑی خشک آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ آج بھی اس کے چہرے پردکھ، التجا اور آنسو دیکھ چاہتا تھا۔ آج بھی اس کے چہرے پر ان میں سے کچھ نہیں تھا۔ اس نے دانت بھینچ کر پین کھولا۔ ایک ایک لفظ اونچی آواز میں بولتے ہوئے اس نے لکھنا شروع کیا ۔”میں شہیر حسین اپنی بیوی اسمارہ محی الدین کو بوجہ بدکاری طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں۔”
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (پہلا حصّہ)

Read Next

تہذیب کے دائرے — عبدالباسط ذوالفقار

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!