یوں بھی ہوتا ہے
ماہ جبیں تاج ارزانی
کچھ چیزوں کی وضاحت کے لیے ایک دوسرے کو ڈیمو دینا ضروری ہوتا ہے۔
”میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ ہر عمل کا ردِ عمل کیسے ہو سکتا ہے؟” علینہ نے اسکول کے بستے کو کندھے پر لادتے ہوئے عالیان سے پوچھا۔ عالیان جھنجھلا گیا کیوں کہ وہ پچھلے پندرہ منٹ سے ایک ہی سوال پوچھے جا رہی تھی اور عالیان اسے سر آئزک نیوٹن کا یہ اصول بار بار سمجھا کر تھک چکا تھا۔
”میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ جو بھی عمل کیا جائے اس کا ردِ عمل ہوتا ہے۔” اس نے ایک بار پھر دہرایا۔
”وہی تو پوچھ رہی ہوں کہ کیسے؟” علینہ نے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر دائیں ہاتھ کی انگلیوں کی پشت ماری اور ایک مرتبہ پھر سے وہی سوال پوچھا۔
عالیان لنچ میں سے بچ جانے والا برگر کھا رہا تھا۔ اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ”ٹھہرو! میں تمہیں ڈیمو دیتا ہوں۔”
”نہیں نہیں، مجھے ڈیمو نہیں چاہئے۔” علینہ نے جلدی سے کہا۔
اتنی دیر میں عالیان ہاتھ میں پکڑا برگر سڑک کے کنارے بیٹھے کتے کے سامنے ڈال چکا تھا۔ کتے نے مزے لے لے کر برگر کھایا اور دم ہلاتا ان دونوں کے پیچھے چلنے لگا۔
”دیکھو! یہ ہے عمل کا ردِعمل۔” وہ ڈیمو دینے کے بعد بے حد خوش تھا۔ علینہ نے بھی سکھ کا سانس لیا کہ چلو سستے میں جان چھوٹی۔ مگر اس بے چاری کو کیاخبر تھی کہ ابھی ڈیمو کا دوسرا حصہ باقی ہے۔ اچانک عالیان نے پتھر اٹھا کر کتے کو دے مارا۔ وہ بے چارہ چیاؤں چیاؤں چیختا ہوا بھاگا۔علینہ ڈر کر بھائی کے قریب ہو گئی۔ اس سے پہلے کہ وہ اس حرکت پر عالیان کو کچھ کہتی وہ چہک کر بولا: ”یہ بھی عمل کا ردِ عمل ہے۔ پہلے برگر دیا تو کتے نے اس کا مثبت جواب دیا اور محبت سے دم ہلاتا پیچھے آنے لگا اور جب پتھر مارا تو وہ ڈر کر بھاگ گیا۔ یعنی اس کا ردِ عمل بھی بدل گیا۔” علینہ نے ایک ٹھنڈی سانس بھری کیوں کہ اسے سر آئزک نیوٹن کا اصول اچھی طرح سمجھ میں آچکا تھا۔
عالیان اور علینہ جڑواں بہن بھائی تھے اور ایک ہی جماعت میں پڑھتے تھے۔ آج سائنس کے استاد نے ”عمل اور ردِعمل” کے بارے میں سر آئزک نیوٹن کا جو اصول پڑھایا وہ علینہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ اس نے عالیان سے پوچھا تو اس نے اسے ڈیمو دے کر سمجھادیا۔
ڈیمو دینا عالیان کا پسندیدہ کام تھا۔ بعض اوقات یہ بہت مفید ثابت ہوتا مگر کبھی کبھی شرمندگی، خوف یا بے عزتی کا باعث بھی بن جاتا تھا۔ اسی لیے سب گھر والے اس کی اس عادت سے تنگ رہتے تھے۔
وہ دونوں جیسے ہی اسکول سے گھر پہنچے امی عالیان پر برس پڑیں: ”تمہیں سادو کی صفائی کا خیال ہے اور نہ ہی اس کے کھانے پینے کا دھیان۔ میرے پاس پہلے کیا کم کام تھے جو ایک اور کا اضافہ کر دیا ہے؟” امی سخت غصے میں تھیں۔ عالیان میں یہی ایک برائی تھی کہ وہ جانور تو پال لیتا مگر اس کے کھانے پینے، رہنے سہنے کا مناسب خیال نہیں رکھتا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے اس نے طوطے پالے تھے۔ اس وقت بھی طوطوں کے سارے کام امی کے ذمے تھے۔ ابو نے تنگ آکر وہ طوطے تایا کے بچوں کو دے دیئے۔ اب سادو کی باری تھی ۔ سادو اس کے بکرے کا نام تھا۔ اس کے ساتھ بھی یہی سلوک ہورہا تھا۔ علینہ، امی اور فواد ہی اس کا خیال رکھتے۔ مگر وہ کہتا: ”سادو صرف میرا ہے کیوں کہ میں اسے لے کر آیا تھا۔”
امی سے ڈانٹ سننے کے بعد وہ کھانے کی میزپر آگیا کیوں کہ وہ بھوک کا بہت کچا تھا اور ذرا سی بھوک بھی اس سے برداشت نہ ہوتی تھی۔ کھانے کی میز پر صرف وہ اور ایمن ہی بیٹھے تھے۔ ایمن نے گرما گرم چاول پلیٹ میں نکالے، جن سے بھاپ نکل رہی تھی۔ اس نے پہلا لقمہ لینے کی کوشش کی تو اس کا ہاتھ جل گیا۔ اس نے جلدی سے لقمہ پلیٹ میں واپس رکھا اور اپنی انگلیوں پر پھونک مارتے ہوئے منہ بنا کر کہنے لگی: ”گرم چیزوں کا رنگ لال ہونا چاہئے تا کہ ہم پہچان سکیں کہ یہ گرم ہیں۔”
”بہت ساری چیزیں ہمیں نظر نہیں آتیں، جیسے ٹھنڈا، گرم، درد، تکلیف، چوٹ وغیرہ۔ اس میں اللہ کی مصلحت چھپی ہوتی ہے۔” عالیان نے چھوٹی بہن ایمن کو سمجھایا۔
”اگر چیزوں کے رنگ نظر آجائیں تو فائدہ ہی ہوگا نا!” وہ ابھی بھی اپنی بات پر بہ ضد تھی۔ اتنے میں عالیان نے اس کے بازو پر کس کر چٹکی بھری اور وہ چیخ اٹھی۔
”دیکھو! تکلیف اور چوٹ کا بھی رنگ نہیں ہوتا ورنہ تمہارا ہاتھ یہاں سے ہرے رنگ کا ہو جاتا۔” اس نے بازو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”تم جو روز کھیل میں چوٹ لگا کر آتی ہو نا! پوری کی پوری ہری نظر آتی۔”
”ہیں واقعی؟” ایمن سوچ میں پڑ گئی۔ کل ہی برف پانی کھیلتے ہوئے اُسے منہ پر چار جگہ چوٹ لگی تھی۔ تصور میں پورا چہرہ ہرے رنگ کا نظر آیا۔ اس نے سر جھٹک کر جھر جھری لی اور سوچا اللہ کا شکر ہے کچھ چیزوں کے رنگ نہیں ہوتے۔ ابو، امی، علینہ اور فواد میز پر آچکے تھے۔
”عالیان تمہیں شکر کرنا چاہئے کہ ڈیمو کا رنگ نہیں ہوتا ورنہ اب تک تم مکمل طور پر پیلے ہو چکے ہوتے۔” علینہ نے اُس کا مذاق اڑایا۔
”شکر کرو ظلم کا رنگ نہیں ہوتا۔ ورنہ سادو پر کیے گئے ظلم کی وجہ سے تم کالے رنگ کے نظر آتے۔” امی کا غصّہ ابھی بھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا لیکن عالیان پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا ۔ اپنی پلیٹ میں چاول نکالتے ہوئے وہ بے پروائی سے بولا: ”اسے بعد میں گھاس ڈال دوں گا۔ پہلے خود تو پیٹ پوجا کر لوں۔” فواد خاموشی سے اٹھ کر سادو کو گھاس ڈالنے چلا گیا۔ وہ چھوٹا ضرور تھا مگر بے حد سمجھ دار بچہ تھا۔
کھانے سے فارغ ہوکر عالیان جاسوسی ناول پڑھ رہا تھا اور علینہ امی کے موبائل پر فیس بک کھولے اپنی دوستوں سے باتیں کررہی تھی۔ علینہ کی بار بار ہنسی سے تنگ آکر اوندھا لیٹا عالیان میز پر ناول پٹختا ہوا بولا: ”ایسا بھی کیا ہے فون میں جو تمہاری ہنسی ہی نہیں رک رہی؟”
”آج میں نے فیس بک پر ایک نئی دوست بنائی ہے۔ بہت مزے کے لطیفے بھیج رہی ہے وہ۔” اس نے مزے لیتے ہوئے جواب دیا۔
”اوہ… کیا تم اسے جانتی ہو؟” اس نے چونک کر دوبارہ ناول اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
نہیں، وہ فیس بک پر دوبارہ مصروف ہو چکی تھی، اس لیے اُس نے بے حد مختصر جواب دیا۔
”سوشل میڈیا پر کسی بھی ایسے شخص کو دوست نہیں بنانا چاہئے جسے ہم نہیں جاتے۔ کیا پتا وہ کون ہے ؟ اس کے کیاارادے ہیں ؟ ہوسکتا ہے کہ وہ مجرموں کے گروہ سے تعلق رکھتا ہو۔” اس نے بہن کوسمجھایا۔
”ارے چھوڑو! کچھ نہیں ہوتا۔ یہ موبائل کی اسکرین سے نکل کر مجھے کیا نقصان پہنچائے گی!” اس نے عالیا ن کا مذاق اُڑاتے ہوئے ہاتھ ہلایا۔
”میں اب یہاں سکون سے بیٹھ نہیں پڑھ سکتا۔” یہ کہتے ہوئے عالیان اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ علینہ کا مکمل دھیان فیس بک کی طرف تھا۔
کچھ دیر بعد اسے پری نام کی لڑکی کی فرینڈ ریکویسٹ آئی۔ علینہ نے اس کی آئی ڈی کھولی۔ وہ لڑکی بے چاری اپاہج تھی۔ ڈی پی میں موجود تصویر میں وہ وہیل چیئر پر بیٹھی تھی۔ علینہ کو ترس آگیا۔ اس نے اسے ایڈ کر لیا اور دونوں میں گفتگو ہونے لگی۔ پری مسلسل اپنی معذوری کا رونارورہی تھی اور علینہ افسوس سے سر ہلاتی اسے تسلیاں دے رہی تھی۔ کچھ دیر بعد پری نے اجازت چاہی اور آف لائن ہو گئی کیونکہ اسے دوا کھانی تھی ۔دکھی دکھی سی علینہ نے بھی موبائل فون میز پر رکھ دیا۔ وہ سب کو بتانے لگی کہ آج اس کی ایک معذور لڑکی دوست بنی ہے۔ ”بے چاری! اپنی معذوری کی وجہ سے بہت اداس رہتی ہے۔”
یہ سب سن کر ابو سے رہا نہ گیا تو اسے سمجھانے لگے۔
”بیٹا! عالیان ٹھیک کہتا ہے کسی اجنبی سے اتنی دوستی اچھی نہیں۔”
”کیا ہے ابو! آپ بھی اس کی طرف داری کرنے لگے۔ یہ لوگ تو باہر جاکر کھیل لیتے ہیں مگر میں فیس بک استعمال نہ کروں تو کیا کروں؟” وہ غصے سے پیر پٹختی وہاں سے چلی گئی اور سب خاموش بیٹھے رہ گئے۔
(اس کے بعد کیا ہوا؟ ”ڈیمو” کی دوسری قسط پڑھنا مت بھولیے)
٭…٭…٭