کہانی کار کی منفرد آواز
سکرپٹ لکھنے بلکہ سرے سے لکھنے ہی کے کوئی خاص قواعد و ضوابط مروج نہیں ہوتے۔ لکھتے ہوئے نہ ہی لگے بندھے اصول مدِ نظر رکھنا پڑتے ہیں اور نہ ہی کسی خاص ترکیب پر عمل کرنا ہوتا ہے۔لیکن ہر اچھے مصنف یا کہانی کار کی اپنی ایک الگ، منفرد آواز ہوتی ہے، جس کی وجہ سے آپ چاہے کتاب پر ان کا نام نہ بھی پڑھیں تو بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کس نے لکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی میگزین کی ورق گردانی کرتے ہوئے قارئین اولین صفحات پر موجود ایک لکھاری کی تحریر کو نظر انداز کرتے ہوئے اندرونی صفحات پر موجود دوسرے رائٹر کی کہانی پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ آخر تحریر میں یہ سحر کیسے پیدا کیا جائے کہ قارئین یا ناظرین آپ کی کہانی کی جانب کھنچے چلے آئیں، اور آپ اپنا ایک منفرد اسلوب یا اپنی ایک منفرد آواز یا طرز قارئین تک پہنچا سکیں؟
١۔زبان و بیاں
سکرپٹ کو جان دار بنانے کے لیے جان دار زبان و بیاں بنیادی شرط ہے اور زبان و بیاں بہتر کرنا کوئی سہل کام نہیں۔ایک سکرین رائٹر کے طور پر آپ نے کردار کا ہر عمل بیان کرنا ہوتا ہے، لیکن اگر آپ اپنے الفاظ میں بیان کریں گے تو کردار کا اپنا تشخص مٹ جائے گا، ہر ڈرامے کے کردار میں ایک ہی شخص کا عکس دکھائی دے گا جو کہ خود سکرین رائٹر ہوتا ہے۔ چناں چہ آپ کو ہر کردار کی گہرائی میں جا کر اسی کے لب و لہجے کے مطابق مکالمے لکھنے ہیں وگرنہ کردار اپنی اصل شناخت کھو دے گا۔ سکرپٹ میں مکالموں کی زبان و بیان بہتر کرنے کا اس سے بہتر اور کوئی طریقہ نہیں کہ انہیں حقیقت کے قریب تر کر دیا جائے۔ کنفیوشش کا ایک مشہور قول ہے کہ:
”الفاظ دل کی آواز ہوتے ہیں۔”
ہر کردار کا جداگانہ طرزِ گفتگو ہوتا ہے۔ کسی بھی کردارکا لب و لہجہ، تلفظ اور ذخیرۂ الفاظ باقی تمام کرداروں سے یقینی طور پر مختلف ہوتا ہے ۔ اس لیے سکرین رائٹر کے لیے مشکل ترین مرحلہ تب ہوتا ہے جب اسے بہ یک وقت بہت سے کرداروں کو متعارف کروانا ہوتا ہے اور ہر کردار کی شخصیت کو ملاوٹ سے بچانا ہوتا ہے۔اگر سکرین رائٹر اس فن میں کمال حاصل کر لے تو اس کے لیے اپنے قارئین سے کنکشن قائم کرنا چنداں مشکل نہیں رہتا۔ لیکن یہ فن کتابوں یا استاد سے سیکھا نہیں جا سکتا۔ اس فن میں مہارت حاصل کرنے کا صرف ایک ہی کلیہ ہے جسے ”مشق” کہتے ہیں۔ مشق کرتے رہیں، رفتہ رفتہ یہ آپ کے لیے بہت آسان ہو جائے گا۔
٢۔ناظرین سے تعلق
قدیم یونانی قول ہے:
”ظاہری کنکشن کی نسبت خُفیہ کنکشن مضبوط ہوتا ہے۔”
سکرپٹ رائٹنگ کے معاملے میں یہ قول بے حد مستند سمجھا جاتا ہے۔ کوئی بھی ڈرامہ شاید کسی اداکار کی بے ہودہ اداکاری سے اس قدرفلاپ نہیں ہوتا جتنا وہ ایک بے کار سکرپٹ سے ہوتا ہے۔ جس قدر جہاں دیدہ سکرپٹ رائٹر ہو گا، اسی قدر بہترین انداز میں وہ ناظرین کو مائل کرنے میں کامیاب رہے گااور کسی بھی ڈرامے میں ناظرین کی دلچسپی ہی اس کی کامیابی کی ضمانت ہے۔آپ کے ناظرین دراصل آپ کے گاہک ہیں، آپ نے انہیں ان کے مزاج کے مطابق بہترین ڈرامہ فراہم کرنا ہے۔ آپ کے سکرپٹ میں ایسا سحر ہونا چاہیے کہ ناظرین محض مشاہدہ کرنے تک محدود نہ رہیں بلکہ وہ بھی خود کو کہانی کا ہی حصہ سمجھیں۔ اگر کسی کردار کو تکلیف پہنچنے پر ناظرین کے آنسو ابل پڑیں اور کسی شر انگیز طاقت کی شکست پر ناظرین خوشی سے بے قابو ہوتے نظر آئیں تو سمجھ جایئے کہ آپ اپنے مقصد میں کامیاب ٹھہرے ہیں۔ یہی کسی رائٹر کے اپنے قارئین اور ناظرین سے کنکشن کی انتہا ہے۔
یہ یاد رکھیے کہ آپ سکرپٹ کسی فرد واحد کے لیے نہیں لکھ رہے کہ بلکہ مجموعی طور پر آپ کے ناظرین کا تعلق پورے معاشرے ہی سے ہے۔ سکرپٹ نگاری کو اگررائٹر، ناظرین اور فلم پر مشتمل ایک تکون کے طور پر لیا جائے تو مضائقہ نہیں۔ان تین میں سے جو کو نا جتنا مضبوط ہوگا، وہ دیگر اجزا کو اتنی ہی تقویت بخشے گا۔
٣۔قوتِ تخلیق:
سکرین رائٹنگ کے لیے یہ ضروری نہیں کہ آپ کا آئیڈیا بالکل ہی منفرد ہو۔ سو فیصد نیا پن تقریباً ناممکن ہے۔ کتنی ہی بار آپ نے لیلیٰ مجنوں کی کہانی سنی ہو گی، کبھی سسی پنوں کے نام سے ،کبھی ہیر رانجھا کے عنوان سے تو کبھی رومیو جولیٹ کے ناموں سے۔ کہانی ایک ہے، بس رنگ مختلف ہیں۔ انہی رنگوں کو آپ نے پہچاننا ہے۔ ہر کہانی کا بنیادی ڈھانچا ایک ہی ہے۔ مگر اس بنیادی ڈھانچے میں رہتے ہوئے آپ کتنے نئے رنگ متعارف کرواتے ہیں، یہ آپ پر منحصر ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ کسی بھی داستانِ محبت میں ایک لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو جائیں گے، حب الوطنی پر مبنی کہانی میںکچھ لوگ غازی بنیں گے اور کچھ شہید کہلائیں گے، کامیڈی فلم کا اختتام کبھی المیاتی نہیں ہو سکتا، اسی طرح کبھی کسی کہانی میں ایسا نہیں ہو گا کہ مرکزی کرداریا ہیرو ہار جائے۔ یہ سب طے شدہ باتیں ہیں اور ان حقائق سے سب ہی واقف ہیں۔ مگر ایک سکرپٹ رائٹر کا کمال یہ ہے کہ اسے کہانی کے اندر ڈرامائی رخ دینے میں کس قدر مہارت حاصل ہے۔قارئین کے ذوق کے مطابق لکھیے مگر کہانی میںاپنی اصلیت ، انفرادیت قائم رکھیے۔ کبھی کسی دوسرے رائٹر کے رنگ میں ڈھلنے کی کوشش مت کیجیے وگرنہ آپ کی کہانی اپنا اصل پن کھو دے گی۔