اشتیاق احمد بچوں کے جاسوسی ناولوں کا ایک بے حد بڑا نام ہے، ان کے لکھے گئے ناول بچوں اور بڑوں دونوں میں یکساں مقبول تھے۔ انہوں نے آٹھ سو سے زائد ناول لکھے جو اردو زبان اور کسی اور زبان میں کسی مصنف کے ہاتھوں لکھے گئے ناولوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔انہوں نے اپنا تحریری سفر بچوں کے لئے کہانیاں لکھنے سے آغاز کیااور اپنا پہلا ناول ١٩٧٣ء میں لکھا۔ ان کی مشہور ترین سیریز انسپکٹر جمشید سیریز ہے ، اس کے علاوہ انہوں نے انسپکٹر کامران سیریز اور شوکی برادرز کے ناولز بھی لکھے لیکن انسپکٹر جمشید سیریز کو قارئین میں بے حد پذیرائی ملی۔
انسپکٹر جمشید سیریز ایک جاسوس انسپکٹر جمشید اور ان کے تین بچوں محمود، فاروق اور فرزانہ کے گرد
اشتیاق احمد کا انتقال ٢١٠٦ء میں ہوا اور انتقال سے کچھ عرصہ پہلے ہی ان کا آخری ناول '' عمران کی واپسی'' شائع ہوا تھا جو لوگوں میں بے حد پسند کیا گیا تھا۔
جو ہی بن کے کنارے میں نے ایک عالی شان بنگلہ خریدا ہے، جو ہی بن کے بارے میں تم جانتے ہی ہو گے۔ یہ ایک بہت طویل جنگل ہے۔ اس جنگل میں ہر قسم کا شکار عام ملتا ہے۔ شکاری لوگ ا س میں شکارکھیل کر حد درجے خوش ہوتے ہیں اور پھر بنگلہ بھی ایک زبردست سبزہ زار میں گھرا ہوا ہے۔ایسا سبزہ زار تم نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ پوری دنیا سے پھولوں کے پودے لاکر یہاں لگائے گئے ہیں جو عجب بہار دیتے ہیں۔
تم میرا خط پاکر ضرور حیران ہوگئے کیونکہ بچپن کی زندگی کے بعد آج اتنا عرصہ گزرنے پر میں تمہیں خط لکھ رہا ہوں۔ تم سوچو گے میں نے آج سے پہلے کیوں تمہیں یا دنہیں کیا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یاد کرتا رہا ہوں، لیکن تمہارے شایان شان جگہ ملنے پر تمہیں یہاں کی سیر کرانے اور شکار کھیلانے پر بری طرح بے چین ہوگیا ہوں۔ بس تم آجاﺅ مزا رہے گا۔ بچپن کی یادیں بھی تازہ کریں گے۔ مجھے امید ہے تم خط ملتے ہی اڑ کر پہنچو گے۔
فقط تمہارا دوست
قربان بھائی
یہ خط خان رحمان نے تین بار پڑھا اور پھر پرجوش انداز میں انسپکٹر جمشید کے نمبر ڈائل کئے…. سلسلہ ملتے ہی انسپکٹر جمشید کی آواز سنائی دی تو وہ بولے۔
”ہاں جمشید! کیا حال ہے؟“
”اللہ کا شکر ہے۔“ دوسری طرف سے کہا گیا۔
”جو ہی بن کا نام سنا ہے کبھی؟“
”سنا ہے، بہت شان دار جنگل ہے اور بہترین شکار گاہ بھی ہے۔“
”کیاخیال ہے چلیں؟“ وہ ہنسے۔
”کیامطلب؟“
”بھئی بچپن کے ایک دوست نے دعوت دی ہے۔ابھی ابھی اس کا خط ملا ہے۔“
”خط سناﺅ۔“ وہ بولے۔
”خط سناﺅں؟ اچھا لو سن لو۔“
اور وہ فون پر خط سنانے لگے۔ خط مکمل ہونے پر انسپکٹر جمشید بولے:
”مجھے اس خط سے سازش کی بو آرہی ہے۔“
”یہ کیا کہہ رہے ہو جمشید مجھے تو اس سے پھولوں کی خوشبو آرہی ہے اور پھر میرا بچپن کا دوست خود بہت دولت مند آدمی ہے۔ وہ میرے خلاف کیوں کوئی سازش کرنے لگا۔“ ان کے لہجے میں حیرت تھی۔
”اچھا تم یوں کرو کہ خط لے کر یہاں آجاﺅ۔“
”ٹھیک ہے،میں آرہا ہوں۔“
وہ فوراً ہی ان کے گھر پہنچ گئے۔
”میں نے ابھی اس خط کا ذکر محمود ، فاروق اور فرزانہ سے نہیں کیا۔“انسپکٹر جمشید نے دبی دبی آواز میں کہا۔
”اچھا تو پھر؟“
”اب خط انہیں دیتے ہیں پڑھنے کے لیے ذرادیکھیں تو سہی ان کا کیا خیال ہے؟“
”اچھی بات ہے۔“
جونہی وہ اندر داخل ہوئے تینوں ایک ساتھ بولے۔
”السلام علیکم انکل! آج آپ کدھر بھول پڑے۔“
”کیا میں کئی دن بعد آیا ہوں۔“ ان کے لہجے میں حیرت تھی۔
”تو اور کیا۔“
”یہ ایک خط ملا ہے، بہت دلچسپ پروگرام رہے گا، لو پڑھ لو۔“ خان رحمان بولے۔
”خط…. کیسا خط۔“ تینوں بولے۔
”پڑھ لو بھئی۔“
اور وہ پڑھنے لگے۔یہاں تک کہ پورا خط پڑھ ڈالا۔
”کیوں ہے نا دلچسپ ترین پروگرام۔“
”جی نہیں …. خوفناک ترین۔“ محمود نے کہا۔
”کیامطلب؟“ خان رحمان حیران رہ گئے۔
”ہاں انکل! یہ خط ضرور کسی سازش کے تحت لکھا گیا ہے۔“ فاروق بولا۔
”بلکہ خوفناک ارادے کے تحت …. ہر گز نہ جائیں انکل۔“ فرزانہ نے کہا۔
”حیرت ہے…. کمال ہے…. تعجب ہے۔“ خان رحمان بولے۔
”یہ اتنی بہت سی چیزیں ایک ساتھ کیوں ہیں آپ کو۔“ فاروق بولا۔
”تمہارے ابا جان نے بھی خط کے الفاظ سن کر یہی خیال ظاہر کیا ہے کہ اس سے سازش کی بو آرہی ہے۔“
”تب تو بات مکمل ہوگئی…. آ پ نہیں جائیں گے۔“
”لیکن اگر جائیں گے نہیں تو یہ کیسے معلوم ہوگا کہ سازش کیا کی گئی ہے۔“ خان رحمان بولے۔
”یہ معلوم کرنے کی ہمیں ضرورت ہی کیا ہے۔“
”لیکن الجھن تو ہوگی۔“ خان رحمان بولے۔
”بات خان رحمان کی بھی ٹھیک ہے۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”السلام علیکم بھائی جان۔“
بیگم جمشید نے باورچی خانے سے نکل کر صحن کی طرف آتے ہوئے کہا۔ ان کے ہاتھ میں شام کے ناشتے کی ٹرے تھی۔
”وعلیکم السلام بھابی…. آپ کا بھی جواب نہیں۔ صرف تین منٹ میں اتنی بہت سی چیزیں تیار کرلائیں۔“
”یہ تو کچھ بھی نہیں…. تین منٹ میں، میں کھانے کی پوری میز بھر سکتی ہوں۔“
”آپ کے اس کمال کی داددینا پڑتی ہے۔“
”تو دے دیں…. روکا کس نے ہے۔“ انہوں نے ہنس کر کہا۔
اور وہ مسکرانے لگے۔ پھر فوراً ہی دھیان خط کی طرف چلا گیا۔
”پھر اب کیاکیا جائے؟“
”میرا خیال ہے…. چلے چلتے ہیں جو ہوگا دیکھا جائے گا۔“
”تو پھر ٹھیک ہے تیاری کرلو اور پروفیسر داﺅد کو فون کردینا تاکہ انہیں معلوم ہوکہ ہم شہر میں نہیں ہیں۔ پیچھے وہ خیال رکھیں گے۔“
”ابھی فون کردیتا ہوں۔“
خان رحمان نے ان کے نمبر ملائے۔
”السلام علیکم پرفیسر صاحب! میں اور انسپکٹر جمشید ، تینوں بچوں سمیت بلکہ میرے تینوں بچوں سمیت بھی جوہی بن جارہے ہیں شکار کا پروگرام ہے، لہٰذا آپ پیچھے خیال رکھیے گا۔“
”لیکن میں نے کیا جرم کیا ہے؟“ وہ بولے۔
”جی …. جرم ….کیسا جرم۔“
”آخر میں کیوں نہیں جاسکتا؟“
”اس کی وجہ ہے۔“ خان رحمان مسکرائے ۔
”چلو وجہ بھی بتادو۔“
”اس سفر سے انسپکٹر جمشید پارٹی کو خطرے اور سازش کی بو آرہی ہے۔ دراصل یہ سفر میرے ایک دوست کی دعوت پر ہو رہا ہے۔ اس کا خط آیا ہے…. خط کے مضمون سے انہیں سازش کی بو محسوس ہوئی ہے، لہٰذا آپ کو ساتھ لے جانا مناسب نہیں۔“
”تب پھر تم بھی نہ جاﺅ اور جانا ہے تو مجھے اور شائستہ کو بھی ساتھ لے جاﺅ۔“
”لو جی یہ تو مسئلہ ہی الٹ ہوگیا۔“ خان رحمان نے منہ بنایا۔
”کیا ہوا؟“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”پروفیسر صاحب شائستہ سمیت جانے کے لیے تیار ہیں۔“
”تب پھر میں نے کیا جرم کیا ہے؟“ بیگم جمشید نے فوراً کہا۔
”بس ٹھیک ہے…. ہوگیا کام۔“انسپکٹر جمشید نے بھنا کر کہا۔
”جی ؟ کام ہوگیا؟ کون سا کام ہوگیا؟“ فاروق مسکرایا۔
”ہم چلے تھے پروفیسر صاحب کو اطلاع دینے اور وہ بھی جانے کے لیے تیار ہوگئے بلکہ ساتھ میں شائستہ کو بھی لے جانے پر تل گئے۔ رہی سہی کسر بیگم نے نکال دی۔ اب یہ بھی جائیں گی جو کہیں نہیں جاتیں اس خطرناک جگہ پر جائیں گی۔“
”اگر وہ جگہ خطرناک ہے تو پھر آپ بھی نہ جائیں۔“
”اوہو! ہمارا جانا تو مجبوری ہے۔ چکر معلوم کرنے کے لیے جارہے ہیں۔“
”آپ چکر معلوم کرتے رہیے گا…. ہم سیر کرلیں گے میں تو کہتی ہوں شہناز بہن کو بھی ساتھ لے جائیں گے۔“ بیگم جمشید نے شوخ آوز میں کہا۔
”بس اب بالکل سیدھا ہوگیا کام، چلو جمشید تیاری کرو۔ اب یہ لوگ نہیں مانیں گے۔“
اور پھر دو دن بعد وہ سب ایک قافلے کی صورت میں روانہ ہوئے۔ انہوں نے خان رحمان کی بڑی گاڑی میں سفر کرنا طے کیا تھا۔ اس میں سب لوگ آسانی سے آجاتے تھے۔
جوہی بن دارالحکومت سے آٹھ گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ آٹھ گھنٹے کا یہ سفر باتوں میں گزر گیا اور انہیں پتا بھی نہ چلا۔ خان رحمان اور انسپکٹر جمشید نے باری باری ڈرائیونگ کی تھی۔ پھر جوہی بن کے آثار نظر آنے لگے۔
”اب یہاں سے قربان بھائی کے بنگلے کا پتا کرنا ہے۔“
”پوچھ لیتے ہیں کسی سے۔“
کچھ اور آگے جاکر انہوں نے ایک پرانی حویلی کے دروازے پر دستک دی ایک بوڑھا آدمی باہر نکلا۔
”جوہی بن کے کنارے ایک قدیم بنگلہ ہے جوقربان بھائی نامی آدمی نے حال ہی میں خریدا ہے ہمیں اس تک جانا ہے کیا آپ ہمیں راستہ بتا سکتے ہیں؟“
”یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ وہ کسی نے خریدا ہے یا نہیں خریدا بنگلہ ضرور موجود ہے اور میں راستہ بھی بتا سکتا ہوں، لیکن مشورہ یہ دوں گا کہ آپ لوگ وہاں نہ جائیں۔“
”جی کیا مطلب؟“
”اس بنگلے اور بنگلے میں رہنے والے موجودہ لوگوں کے بارے میں بہت عجیب و غریب کہانیاں سننے میں آرہی ہیں اور سب کی سب کہانیاں خطرناک ہیں۔“
”تب پھر کیا کیا جائے؟“
”واپس چلے جائیں بلاوجہ مصیبت کو کیوں آواز دیتے ہیں۔“
”اب ہم یہ بھی نہیں کرسکتے؟“
”کیامطلب کیا نہیں کرسکتے۔“
”واپس نہیں جاسکتے طویل سفر کرکے آئے ہیں۔“
”لیکن موت کے منہ میں جانے سے کیا یہ بہتر نہیں کہ آپ لوگ واپس چلے جائیں۔“ اس نے کہا۔
”تو اس بنگلے میں جانا موت کے منہ میں جانا ہے۔“
”ہاں بالکل۔“
”دیکھا جائے گا۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”مطلب یہ کہ آپ لوگ جائے بغیر نہیں رہیں گے۔“
”یہی بات ہے، آپ راستہ بتادیں اور ہاں آپ کا نام کیا ہے۔“
”کامران حمید۔“ اس نے کہا اور راستہ بتانے لگا۔ جب راستہ اچھی طرح سمجھا چکا تو ایک بار پھر اس نے کہا۔
”میں اب بھی یہی مشورہ دوں گا کہ آپ نہ جائیں۔“
”افسوس! ہم جانے پر مجبور ہیں۔“
”اچھا تو پھر میں آپ کو روکنے کی آخری کوشش کروں گا۔“
”آخر ی کوشش کیا مطلب؟“
”اند رآجائیں۔“
”ہم آپ کی آخری کوشش کا احترام ضرور کریں گے۔“ انسپکٹر جمشید مسکرا کر بولے اور پھر سب اندر داخل ہوگئے۔ وہ انہیں اپنے ڈرائنگ روم میں لے آیا۔ وہاں ایک بہت لمبے چوڑے اور دلیر صورت انسان کی قد آدم تصویر آویزاں تھی۔
”یہ تصویر دیکھ رہے ہیں آپ؟“
”ہاں ظاہر ہے دیکھ ہی رہے ہیں۔“ فاروق نے کہا۔
”یہ میرے بڑے بھائی کی تصویر ہے۔“
”اچھا تو پھر؟“
”پھر یہ کہ اسے تھوڑے دن پہلےایک خط ملا تھا قربان بھائی کی طرف سے۔“
”جی کیا فرمایا قربان بھائی کی طرف سے خط ملا تھا؟“
”ہاں! آج سے چھے ماہ پہلے کی بات ہے۔ قربان بھائی کبھی بچپن میں اس کا دوست رہا ہوگا۔ اس خط میں لکھا تھا۔ میں نے جوہی بن کے پاس ایک بنگلہ خریدا ہے۔ اس کے ساتھ جوہی بن کی عظیم شکار گاہ ہے۔ تم آجاﺅ بڑا مزا رہے گا وہ چلا گیا اور آج تک لوٹ کر نہیں آیا۔“
”کیا مطلب؟“ وہ چونکے۔
”ہم اس کا ایک ماہ تک انتظار کرتے رہے۔ جب وہ نہ آیا تو بنگلے پر اس کا پتا کرنے گئے۔ وہاں بتایا گیا…. “
وہ رک گیا اور اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
”کیا ہوا؟ آپ بتاتے کیوں نہیں؟“
”وہاں جاکر پتا چلا کہ بنگلے میں کوئی قربان بھائی نام کا آدمی نہیں رہتا اور نہ میرا بھائی کبھی وہاں گیا تھا۔“ اس نے بہت مشکل سے کہا۔
”نن نہیں۔“ وہ چلائے۔
”آپ بھی جاکر معلوم کریں۔ کیا آپ کو بھی قربان بھائی کی طرف سے خط ملا ہے؟“
”ہاں! یہی بات ہے۔“
”تب پھر وہاں کوئی قربان بھائی نام کا آدمی نہیں رہتا۔“
”حیرت ہے، کمال ہے۔“ فاروق نے کہا۔
”اب بھی کیا آپ بنگلے میں جانا پسند کریں گے۔“
”اب تو جانا اور ضروری ہوگیا ہے۔“ محمود نے مسکرا کر کہا۔
”کیا کہا اور ضروری ہوگیاہے۔“
”ہاں! آخر چکر کا پتا تو چلانا ہوگا۔“
”چکر کا پتا چلاتے چلاتے آپ خود چکر میں آجائیںگے۔“ اس نے کہا۔
”اللہ مالک ہے، دیکھا جائے گا۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔ آپ کے بھائی کا نام کیا ہے۔“
”رضوان حمید۔“ اس نے کہا اور باہر نکل آئے۔ گاڑی میں بیٹھنے کے بعد خان رحمان بولے۔
”میرا خیال ہے کہ عورتیں اور بچے یہیں سے لوٹ جائیں ۔ ہم آگے جائیں گے۔ پروفیسر صاحب ان لوگوں کو واپس لے جائیں ۔“
”نن نہیں! یہ نہیں ہوسکتا۔“ بیگم جمشید بولیں ۔
”بالکل نہیں ہوسکتا۔“ شہنا ز بیگم نے کہا۔
”اور کیا آخرہم کیوں جائیں؟“
”خطرے کے پیش نظر۔“
”تب پھر آپ لوگ بھی نہ جائیں۔“
”ہمارا جانا تو اب بہت زیادہ ضروری ہوگیاہے۔“
”تو پھرہمارا بھی ساتھ جانا اور ضروری ہوگیا ہے۔“
”حد ہوگئی، یہ لوگ تو اڑگئے۔“انسپکٹر جمشید نے خان رحمان کی طرف دیکھا۔
”مجبوری ہے پھر لے چلتے ہیں انہیں بھی، جو ہوگا دیکھا جائے گا۔“ پروفیسر داﺅد مسکرائے۔
اور پھر وہ آگے روانہ ہوئے۔ ان کے دائیں طرف جنگل تھا اور بائیں طرف جوہی بن کا شہر۔ جوں جوں وہ آگے بڑھتے گئے شہر کے آثار ختم ہونے لگے۔ یہاں تک کہ سڑک کے دونوں طرف جنگل نظر آنے لگا۔ پھر سڑک بھی ختم ہوگئی اور بنگلہ نظر آنے لگا۔ بالکل سفید رنگ کا بنگلہ دور ہی سے عظیم الشان نظر آرہا تھا۔ وسیع و عریض رقبے تک پھیلا ہوا تھا۔
اورپھر ان کی گاڑی بنگلے کے دروا زے پر آکر رک گئی۔ دروازے پر دو مسلح آدمی پہرہ دے رہے تھے۔
”صرف میں نیچے اتروں گا، باقی لوگ گاڑی میں رہیں گے۔“
”اچھی بات ہے جمشید۔“خان رحمان نے کہا۔
گاڑی سے اتر کر وہ دروازے پر پہنچے۔ دونوں مسلح پہرے دار انہی پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔
”ہمیں قربان بھائی سے ملنا ہے۔“
”حد ہوگئی پھر وہی قربان بھائی۔“ ایک نے جھلا کر کہا۔
”جی کیامطلب؟“
”پتا نہیں کون ہے یہ قربان بھائی تنگ کر مارا ہے اس نے۔ آئے دن کسی نہ کسی کو بنگلے کا مالک بن کر خط لکھتا رہتا ہے۔ آپ جاسکتے ہیں یہاں کوئی قربان بھائی نہیں رہتا۔“ اس نے چیخ کر کہا۔
”کیا بات ہے بھئی۔“
ایک نرم آواز اندر سے سنائی دی۔
٭ ٭ ٭
انہوں نے دیکھا سفید لباس میں ایک لمبے قد کا آدمی باہر آرہاتھا۔ اس کے چہرے پر پرسکون مسکراہٹ تھی۔ اس کا رنگ صاف ستھرا تھا، لیکن ہاتھ بالکل کالے تھے۔ انسپکٹر جمشید کو یہ دیکھ کر ایک جھٹکا سالگا۔ انہوں نے آج تک ایسا کوئی انسان نہیں دیکھاتھا جس کا رنگ صاف ہو اور ہاتھ بالکل سیاہ ہوں۔
اسے دیکھتے ہی دروازے پر کھڑے دونوں پہرے داروں نے اسے انگریزی انداز میں سیلوٹ کیا۔
”سر! یہ لوگ یہ بھی اسی قربان بھائی کی مہربانی سے یہاں آئے ہیں۔“
”اُف گاڈ میں پاگل ہوجاﺅں گا۔“ اس نے چلا کر کہا اور اپنے سر پر زور زور سے تین چار دو ہتڑ دے مارے۔
”سر! یہ آپ کیا کررہے ہیں؟ سزا تو اس دھوکے باز کو ملنی چاہیے۔ اب آپ پولیس کی مدد حاصل کرہی لیں۔“
”اس کا کیا فائدہ ہوگا؟ پولیس کیا کرسکے گی۔ ایک منٹ یہ آپس کی باتیں ہیں اور صرف ہم ان لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔“
ہاں جناب! بات دراصل یہ ہے کہ یہاں کوئی قربان بھائی نہیں رہتے شکریہ۔ اس بات کا علم تو ہمیں پہلے ہی ہوگیا تھا، لیکن ہم نے سوچا جب تک بنگلے میں رہنے والے خود اس بات کی تصدیق نہ کردیں گے۔ ہم واپس نہیں جائیں گے۔ اب چونکہ آپ نے تصدیق کردی ہے، لہٰذا شکریہ ہم جارہے ہیں۔“ یہ کہہ کر وہ مڑے اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔
سیاہ ہاتھوں والا اور اس کے دونوں گارڈ ان کی طرف دیکھتے رہے۔ ایسے میں سیاہ ہاتھوں والا آگے بڑھا۔
”مجھے افسوس ہے، آپ نہ جانے کتنی دور سے سفر کرکے آرہے ہوں گے۔“
”ہم دارالحکومت سے آئے ہیں۔“
”اف مالک اتنی دور سے یہ قربان بھائی بھی عجیب چیز ہے۔ ویسے آپ پسند کریں تو کچھ دیر آرام کرسکتے ہیں یا ایک دو دن ٹھہر کر چلے جایئے گا۔ جنگل میں شکار کھیلنا چاہیں، تو بھی مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔“
”تو آپ اس جنگل کے مالک ہیں؟“
”جی نہیں یہ جنگل میرے چچا کا ہے ان کا نام ہے جان بیری۔“
”اور آپ آ پ کا نام کیا ہے؟“
”میں جو ہوں جوبیری۔“
”آپ کے ہاتھ کیوں سیاہ ہیں؟“
”میں نہیں جانتا۔ میں پیدائشی طور پر ایسا ہوں۔“
”کیاصرف ہاتھ کالے ہیں یا بازو بھی ؟“
”نہیں یہ دیکھیے بازو باقی جسم کے مطابق ہیں۔“
اس نے کلائی پر سے آستین ہٹاتے ہوئے کہا۔
”اور پیر۔“ وہ بولے۔
”پیر کالے نہیں۔“
”آپ کے چچا کے ہاتھ کیسے ہیں۔“
”سیاہ۔“ اس نے مسکرا کر کہا۔
”کیا!!!“ انسپکٹر جمشید نے خوف زدہ انداز میں کہا۔
”کیا بات ہے’ آپ ڈر کیوں گئے۔“ جوبیری نے حیران ہوکر پوچھا۔
”تو کیا آپ کے سارے خاندان کے ہاتھ اسی طرح کے ہیں۔“
”ہاں۔“ اس نے کھوئے کھوئے انداز میں کہا۔
”عجیب بات ہے۔ حیرت ہے، لیکن آپ لوگ اپنے ہاتھوں پر دستانے تو پہن سکتے ہیں۔“
”سردی کے موسم میں تو دستانے پہنے جاسکتے ہیں۔ اس موسم میں کوئی کیسے پہنے؟“ اس نے کہا۔
”ٹھیک ہے، اچھا جناب آپ کا شکریہ۔ اب ہم چلیں گے۔“
”تو آپ آرام کرنا پسند نہیں کریں گے۔“
”نہیں ہم جانا پسند کریں گے۔“
یہ کہہ کر وہ پلٹ گئے۔ تینوں کھڑے ان کی طرف دیکھتے رہے۔
”چلو خان رحمان چلیں۔“
”یہ کیا بات ہوئی جمشید ہم تو چکر معلوم کرنے یہاں تک آئے تھے۔ واپس لوٹنا تھا تو پھر کامران حمید کے کہنے پر کیوں نہ مڑ گئے۔“ خان رحمان نے دبی آواز منہ سے نکالی۔
”یہ بات نہیں بھئی میں ایک اندازہ لگانا چاہتا ہوں۔“
”اور وہ کیا؟“
”یہ کہ یہ کسی طرح ہمیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں یا نہیں۔“
”اور اگر انہوں نے روکنے کی کوشش نہ کی تو؟“ خان رحمان نے منہ بنایا۔“
انسپکٹر جمشیدمسکرادیے پھر بولے۔
”اس صورت میں بھی ہم نہیں جائیںگے۔“
”پھر رکنے کا کیا بہانہ کریں گے۔“
”بس تم دیکھتے جاﺅ۔“
گاڑی میں بیٹھتے ہی خان رحمان نے گاڑی موڑنا شروع کردی۔ ایسے میں جوبیری تیزی سے آگے بڑھا۔
”اوہو! میں تو بھول گیا۔ آج رات سفر کرنا آپ لوگوں کے لیے از حد خطرناک ہوگا۔“
”وہ…. وہ کیسے؟“ پروفیسر داﺅد خوفزدہ انداز میں بولے۔
”آج رات زبردست آندھی اور طوفان کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ ابھی ابھی میں نے خبر یں سنی ہیں۔ وہ خبریں اس قدر خوفناک ہیں کہ کیا بتاﺅں۔ آپ سن لیتے تو کلیجا ہل جاتا۔“
”اچھی بات ہے۔ ہم آج رات یہاں ٹھہر جاتے ہیں۔ صبح چلے جائیں گے۔“
”میں تو کہتا ہوں صبح بھی نہ جائیں۔ جب آگئے ہیں، تو ایک دو دن سیر کرکے جائیں۔“
”لیکن اس خط نے ہمیں الجھن میں ڈال دیا ہے۔ آخر وہ کون ہے جو قربان بھائی کے نام سے خط لکھ رہا ہے۔“
”اس بارے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔“ جوبیری نے کندھے اچکائے۔
”مشکل یہ ہے نا کہ وہ میرا بچپن کا دوست ہے۔ اس کا نام قربان بھائی ہے۔“ خان رحمان بولے۔
”اوہو اچھا کمال ہے۔“
”جی نہیں قربان بھائی کے نام سے او ربھی لوگوں کو خط ملے ہیں۔ وہ یہاں کی سیر کرنے آئے اور واپس نہیں لوٹے یعنی اب ان کا کچھ پتا نہیں چل رہا کہ وہ کہاں ہیں۔“
”اوریہ با تیں آپ کو کامران حمید نے بتائی ہوں گی۔“ وہ مسکرایا۔
”یہ…. یہ آپ نے کیسے کہہ دیا۔“ انسپکٹر جمشید کے لہجے میں حیرت تھی۔
”کامران حمید یہ باتیں نہ جانے کتنے لوگوں سے کرچکا ہے۔ پتا نہیں اس کا مقصد کیا ہے۔“
”کیامطلب؟“ انسپکٹر جمشید زور سے اچھلے۔ ان کی آنکھوںمیں خوف دوڑ گیا۔
باقی لوگ حیرت زدہ رہ گئے، کیونکہ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی تھی کہ وہ کس وجہ سے خوف زدہ ہوگئے ہیں۔
”آپ کو کیا ہوا؟“ جوبیری نے حیران ہوکر پوچھا۔
”اپنے الفاظ دہرائیں ذرا۔ آپ نے کامران حمید کے بارے میں کیا کہا ہے۔“
”اس نے بے شمار لوگوں کو یہ باتیں بتائی ہیں یعنی قربانی بھائی والی۔ “
”تو کیا، قربان بھائی نے بے شمار لوگوں کو اس جیسے خط لکھے ہیں۔“ انسپکٹرجمشید بولے۔
جوبیری کے چہرے پر رنگ آکر گزر گیا۔ پھر اس نے کہا۔
”یہ مطلب نہیں تھا کہ خط بے شمار لوگوں کو ملا ہے بلکہ یہ باتیں اس نے ان گنت لوگوں سے کی ہیں۔“
”ہوں خیر ہمیں خوف محسوس ہورہا ہے۔ ہم یہاں نہیں ٹھہر سکتے، باقی رہی رات کو آندھی اور طوفان کی بات تو ہم کامران حمید کے گھر ٹھہرنا پسند کریں گے یہاں نہیں۔“
”آپ کی مرضی۔“ اس نے کندھے اچکائے۔
اور پھر ان کی گاڑی واپس روانہ ہوگئی۔
”اندازے غلط ہوگئے۔ انہوں نے ہمیں واپس جانے دیا۔“
”ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے بس دیکھتے جاﺅ۔“
”آخر آپ کے ذہن میں ہے کیا۔“
”میں بنگلے میں داخل ہونے سے پہلے تمام اندازے لگالینے چاہتا ہوں۔ واپس اس طرف آنا کیا مشکل ہے۔ ہم میک اپ میں آجائیں گے اور کہہ دیں گے ہمیں قربان بھائی کا خط ملا تھا۔
”اوہ اچھا، لیکن یہاں سے دور جاکر آپ بنگلے کے بارے میں معلومات کس طرح حاصل کریںگے۔“
”فی الحال تو ہم کامران حمید کے پاس جارہے ہیں۔“
”اوہ اچھا۔“
ایک گھنٹے بعد وہ کامران حمید کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔ محمود، فاروق اور فرزانہ کافی بو رہورہے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے بلاوجہ اتنا چکر کاٹا۔ اسی وقت بنگلے میں داخل ہوجاتے اور پھر جوہوتا اس سے نبٹ لیتے۔
کامران حمید نے انہیں پھر دروازے پر دیکھ کر حیرت زدہ انداز میں پلکیں جھپکائیں۔
”آپ نے آخر میری بات مان لی۔ اچھا کیا اس طرف نہیں گئے۔“
”یہ بات نہیں۔“ وہ مسکرائے۔
”ہم بنگلے کے دروازے تک ہو آئے ہیں۔ جوبیری سے بھی مل آئے ہیں۔“
”جو بیری یہ کون ہے؟“
”بنگلے کے مالک کا بھتیجا۔ مالک کا نام جان بیری ہے۔“
”ہوں گے، میرا ان سے کیا تعلق؟“ اس نے برا سا منہ بنایا۔
”کیا آپ نے اپنے بھائی کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی تھی؟“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”بالکل کرائی تھی۔“
”کون سے تھانے میں؟“
”یہاں ایک ہی تھانہ ہے۔“
”یہاں کسی اچھے ہوٹل کا پتا بتاسکتے ہیں۔“
”تو آپ اب ہوٹل میں ٹھہریں گے۔“ اس نے کہا۔
”ہاں! ہم نے فیصلہ کیا ہے اور وہ یہ کہ آپ کے بھائی کو تلاش کریںگے۔“
”مم میرے بھائی کو؟ آپ تلاش کریںگے لیکن کیسے؟ کیا آپ کوئی پرائیویٹ جاسوس ہیں۔“
”نہیں میں سرکاری جاسوس ہوں۔ مجھے انسپکٹر جمشید کہتے ہیں۔“
”اوہ نہیں۔“ وہ زور سے اچھلا، پھر سنبھل کر بولا۔
”تب پھر آپ یہیں میرے پاس ٹھہر جائیں۔“
”نہیں! ہم بہت سارے لوگ ہیں اور آپ پر بوجھ نہیں بن سکتے۔ ہم کسی ہوٹل میں ٹھہرنا پسند کریں گے۔“
”یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ میرے بھائی کو تلاش کریں گے اور ٹھہریں گے ہوٹل میں…. نہیں۔“
”اچھی بات ہے۔ اگر آپ مجبور کرتے ہیں تو ٹھہر جاتے ہیں، لیکن ہم اپنا کھائیں گے اور خود پکائیں گے بلکہ آپ کو بھی اپنے ساتھ کھلائیں گے۔“
”یہ آپ نے عجیب بات کہی۔ خیر آپ لوگ آئیں تو۔“
وہ گاڑی سے اتر آئے۔ تھکن سے برا حال تھا۔ سب لوگ چاہتے تھے کچھ آرام کرلیں پھر دیکھا جائے گا۔
وہ انہیں اندر لے آیا۔ یہ گھر اگر چہ پرانا تھا، لیکن بہت بڑا اور کشادہ تھا۔ بہت سے کمرے تھے۔ ایک ہال نما کمرے میں وہ انہیں لے آیا۔ اس میں شان دار قالین بچھا تھا جو بہت صاف ستھرا بھی تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے ابھی ان کے لیے بچھایا گیا ہو۔
”آپ سب اس کمرے میں آرام کریں۔ ساتھ میں غسل خانہ ہے۔ میں ایک گھنٹے بعد آﺅں گا۔“
”لیکن ہم پہلے آپ سے آپ کے بھائی کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہیں۔“
”پوچھیے کیا پوچھنا ہے۔“
”وہ کس تاریخ کو بنگلے کی طرف گئے تھے۔
”آج سے تقریباًچھے ماہ پہلے نو تاریخ تھی اس دن۔“
”اور پھر وہ لوٹ کر نہیں آئے۔“
”ہاں بالکل یہی بات ہے۔“ اس کی آواز سے غم جھانکنے لگا۔
”تو کیا قربان بھائی کی ان سے کسی زمانے میں دوستی تھی۔“
”ہاں! وہ بچپن کے دوست ہیں۔“
”کبھی قربان بھائی یہاں آیا۔“
”نہیں میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔“
”اور خان رحمان تم نے؟“
”مجھے بھی بچپن کی باتیں یاد ہیں۔“
”گویا بچپن کے بعد تم نے اسے نہیں دیکھا۔“
”نہیں۔“ وہ بولے۔
”حیرت ہے سب کے بچپن کا ایک دوست اچانک کیوں خط لکھنے لگ گیا۔“
”یہی تو میں کہتا ہوں کہ کوئی گہرا چکر ہے۔“
”ہوں ہم بھی اس چکر کو معلوم کرکے رہیں گے۔“ انسپکٹر جمشیدبولے۔
”ان شاءاللہ۔“ فرزانہ بولی۔
”اوہ ہاں فرزانہ! مجھے اپنے جملے میں ان شا اللہ کہنا چاہیے تھا۔ تمہارا شکریہ۔“
”وہ خط آپ کے پاس ہے جو ملا تھا۔“
”نہیں رضوان حمید وہ خط اپنے ساتھ لے گیا تھا۔“
”پولیس کیا کہتی ہے۔“
”اس کا کہنا ہے کہ اس نے جوبیری اور جان بیری سے پوچھ گچھ کی ہے، لیکن رضوان حمید بنگلے کی طرف گیا ہی نہیں وہ کیا بتاسکتے ہیں۔“
”کیا بنگلے کی اندر سے تلاشی لی گئی؟“ انسپکٹر جمشیدبولے۔
”نہیں۔“ اس نے کہا۔
”کیوں نہیں لی گئی۔“
”جوبیری اور جان بیری اس علاقے کے بہت اثر و رسوخ والے آدمی ہیں۔ ان کے اس بیان کو ہی کافی سمجھ لیا گیا کہ رضوان حمید اس طرف آیا ہی نہیں۔“
”لیکن ہم بنگلے کی تلاشی لیں گے۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”کیا کہا آپ تلاشی لےں گے، لیکن کیسے؟“ اس کے لہجے میں حیرت تھی۔
”آپ دیکھتے جائیں اور اب ہم ذرا آرام کریں گے۔“
”ٹھیک ہے، میں چلتا ہوں۔“
کامران حمید چلاگیا، تو فرزانہ نے دبی آواز میں کہا۔
”آپ نے تلاشی کا پروگرام بنایا ہے۔ گویا ہم خود بخود بنگلے کی طرف جارہے ہیں۔“
”اوہ۔“
وہ دھک سے رہ گئے۔
٭ ….٭….٭
چند لمحے سکتے کے عالم میں گزر گئے۔ پھر انسپکٹر جمشید نے کہا۔
”پھر تم کیا چاہتی ہو؟ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔“
”تلاشی ضرور لیں ، مگر اپنے سٹاف کے ذریعے۔“
”تمہارا مطلب ہے، اب میں دارالحکومت سے اپنے ماتحت منگواﺅں۔“
”کیوں کیا اس علاقے میں آپ کے ماتحت نہیں ہوں گے۔“
”دو چار ہوں گے اور بس۔“
”تب پھر ان سے مدد لی جاسکتی ہے۔ کم از کم وہ اس بنگلے کے بارے میں تو ہماری معلومات میں اضافہ کرسکتے ہیں۔“
”افسوس ! میں گھر سے وہ ٹرانسمیٹر نہیں لایا جس کے ذریعے ان سے رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ اب ہمیں صبح کے مقامی اخبار میں اشتہار دینا ہوگا۔“
”چلیے یونہی سہی۔“ فرزانہ نے کہا۔
”لیکن ابا جان اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم پولیس اسٹیشن انچارج سے معلومات بھی حاصل نہ کریں۔“ محمود نے منہ بنایا۔
”بالکل ٹھیک ہم اب کل کے اخبار کی اشاعت کا انتظار نہیں کریں گے۔ بے چینی ہے کہ بڑھتی جارہی ہے بلکہ میں تو کہتا ہوں ہم سیدھے یہاں سے بنگلے چلے جاتے ہیں اور جوبیری سے کہتے ہیں کہ ہمیں مہمان بنائیں۔“
”نہیں! اب یہ تو اچھا نہیں لگے گا، بہتر رہے گا کہ ہم پولیس لے کر چلے جاتے ہیں، لیکن ا پنے سادہ لباس والوں کو بھی خبردار کرجائیں گے اور اگر ہم بنگلے سے باہر نہ آئے تو وہ لوگ حرکت میں آجائیں گے۔ “
”یہ ہوئی نا بات۔“
اور پھر تھوڑی دیر بعد وہ پولیس اسٹیشن پہنچ گئے۔ وہاں کے انچارج کا نام رستم گوشی تھا۔ اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے انسپکٹر جمشید بولے۔
”السلام علیکم۔“
”وعلیکم السلام فرمایئے۔“ اس نے عجیب سے انداز میں کہا۔
”ہمیں کچھ معلومات درکار ہیں۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے ۔
”یہ معلومات کا دفتر نہیں پولیس اسٹیشن ہے۔“ اس نے خشک انداز میں کہا۔
”معلومات پولیس اسٹیشن سے متعلق ہیں۔“ انسپکٹر جمشید نے کہا۔
”لیکن ہم لوگوں کو معلومات دینے کے لیے ملازم نہیں ہیں۔“ اس نے کہا۔
”ہاں! یہ بات کہی جاسکتی ہے، لیکن ہمیں تو آپ کو معلومات دینا ہی پڑیں گی۔“ محمود مسکرایا۔
”کیامطلب کیا زبردستی ہے؟“ اس نے آنکھیں مٹکائیں۔
”اگر آپ معلومات نہیں دیں گے، تو ہم زبردستی بھی لے سکتے ہیں۔“ فاروق نے منہ بنایا۔
”ارے میاں جاﺅ بہت دیکھے ہیں۔“ اس نے ہاتھ نچایا۔
”دیکھے ہوں گے بہت، لیکن ہم سے نہیں دیکھے ہوں گے۔“فاروق بولا۔
”کیوں ! کیا آپ کوسرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں۔“
”سرخاب کے پرکیا چیز ہیں؟ ہم تو ان پر تھوکتے بھی نہیں ۔“ محمود نے جھلا کر کہا۔
”کیا کہا سرخاب کے پروںپر تھوکتے بھی نہیں۔ کبھی دیکھے بھی ہیں سرخاب کے پر؟“
”ان میں دیکھنے والی کون سی بات ہوتی ہے۔“
”حد ہوگئی۔“ اس نے تلملا کر کہا۔
”ہوگئی ہوگی۔ ہمیں اس سے کیا۔“ فرزانہ نے ہاتھ ہلایا۔
”کیا ہوگئی ہوگی۔“
”حد اور کیا۔“
”آپ لوگوں کا دماغ تو ٹھیک ہے۔“
”ہاں! اللہ کی مہربانی ہے۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”آخر آپ چاہتے کیا ہیں؟“
”معلومات۔“ انسپکٹر جمشیدمسکرائے۔
”کس بارے میں؟“
”رضوان حمید کے بارے میں جو گم ہوگیا تھا۔ گھر سے وہ سفید بنگلے کی طرف گیاتھا۔ بنگلے والوں کا کہنا ہے کہ وہ ادھر آیا ہی نہیں۔ پھر سوال یہ ہے کہ وہ کہاں گیا؟“
”اچھا! آپ اس کے بارے میں معلومات کیوں حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ یہ کون سی خاص بات ہے۔ وہ نوجوان خود کہیں غائب ہوگیا اور بس۔“
”لیکن چونکہ وہ گھر یہ کہہ کر گیا تھا کہ وہ بنگلے میں جارہا ہے۔ اس کے دوست قربان بھائی کا خط اسے ملا ہے، لہٰذا آپ نے بنگلے کی تلاشی کیوں نہیں لی۔“ انسپکٹر جمشید کے لہجے میں طنز تھا۔
”آپ مجھے یہ سکھائیں گے کہ مجھے کام کس طرح کرنا ہے۔“
”یہ تو بتاہی سکتا ہوں کہ آپ سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ آپ کو بنگلے کی تلاشی ضرور لینی چاہیے تھی۔“
بنگلہ کسی عام آدمی کا نہیں جان بیری کا ہے۔“
”تو پھر اس سے کیا ہوتا ہے۔“
”اس سے یہ ہوتا ہے کہ جان بیری بہت بڑا آدمی ہے۔ اسے بھلا کیا ضرورت ہے رضوان حمید جیسے آدمی کو غائب کرنے کی۔“
”ہوسکتا ہے، کوئی وجہ ہو ان کے پاس مثال کے طور پر آپ قربان بھائی کو ہی لے لیں۔ آخریہ قربان بھائی کون ہے، کہاں سے نکل آیا اچانک بچپن کا دوست اتنا عرصہ تو کبھی خبر تک نہ لی اور پھر اچانک خط لکھ کر پرانی دوستی کا واسطہ دے کر اس بنگلے میں آنے کی دعوت دیتا ہے، لیکن خط پانے والا جب بنگلے تک پہنچتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ وہاں تو کوئی قربان بھائی نہیں رہتا۔ اب اس کے بعد رضوان حمید صاحب کہاں گئے؟ یہ کسی کو معلوم نہیں ہوسکا اور نہ آپ نے معلوم کرنے کی کوشش کی۔ سچ تو یہ ہے۔“ وہ کہتے چلے گئے۔
”جی نہیں! میں نے کوشش کی لیکن اسے تلاش نہیں کرسکا اور بس۔ آپ ہوتے کون ہیں مجھ سے اس انداز میں بات کرنے والے۔“
”اب ہمیں بتانا ہی پڑے گا کہ ہم ہوتے کون ہیں۔“
”ہاں تو پھر بتائیں آپ کون ہیں۔“
”یار پہلے تم میری ایک بات سن لو۔“ ایسے میں خان رحمان نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا۔
”کیا ہوا خیر تو ہے۔“
”بب بس بس تم ادھر آﺅ۔“
یہ کہہ کر وہ اٹھے اور اُنہیں تھانے سے باہر لے آئے۔ ان کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار صاف نظر آرہے تھے۔ باہر آکربولے۔
”جمشید فوراً گاڑی میں بیٹھ جاﺅ اور دارالحکومت کی طرف چلو۔“
”یہ کیا بات ہوئی؟“
”مم میں شدید خوف محسوس کررہا ہوں۔ یہ خوف میں نے بنگلے کے دروازے پر بھی محسوس کیا تھا۔ مجھے یوں لگا تھا جیسے قربان بھائی ہمیں چھپ کر دیکھ رہا ہے۔ یہی بات میں نے کامران حمیدکے گھر میں بھی محسوس کی اور اب میں اس جگہ بھی یہی محسوس کررہا ہوں، لہٰذا چلو یہاں سے۔“
”افسوس خان رحمان۔ انسپکٹر جمشید بولے۔
”کیا مطلب؟ کیا کہنا چاہتے ہو۔“
”اب ہم واپس نہیں جاسکتے۔“
”سوچ لو میں کہتا ہوں ہمارے گرد جال بہت تنگ ہوتا جارہا ہے۔“
”اگر یہ جال ہے خان رحمان، تو پھر ہم اس جال میں آچکے ہیںاور چاہیں بھی تو اس سے نہیں نکل سکتے۔“
”لیکن یہ جاننے کے لیے کہ یہ جال ہے؟ کیا ہم دارالحکومت کی طرف سفر تو شروع کرسکتے ہیں۔“
”اچھا ہم ایسا کریں گے، لیکن ہم اس شخص سے تو بات پوری کرلیں۔“
”اور میں اپنے خوف کا کیا کروں جو اندر جاکر کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔“
”تو پھر باہر ٹھہرو۔“وہ مسکرائے۔
”ہاں! یہ ٹھیک رہے گا۔“ وہ خوش ہوکر بولے۔
”یہ تم کہہ رہے ہو خان رحمان۔‘ ‘ ان کے لہجے میں گلہ تھا۔
”کک کیوں کیا ہوا؟“ وہ گھبراگئے۔
”تم تو بہت ساتھ دیتے ہو جہاں میری جان کو خطرہ ہو آگے آجاتے ہو۔“
”ہاں! میرا یہ جذبہ اسی طرح قائم ہے۔ اسی لیے میں باہر رہنا چاہتاہوں۔“ وہ مسکرائے۔
”کیا مطلب میں سمجھا نہیں۔“
”بھئی میں تمہارے لیے فکر مند ہوں۔ اپنے لیے نہیں باہر رہ کر شاید میں تمہارے لیے کچھ کرسکوں۔ اندر تمہارے ساتھ رہا تو میں بھی پھنس جاﺅں گا۔“
”اوہ اچھا۔“ وہ ہنس پڑے پھر بولے۔
”خیر اب باقی تمام لوگ باہررہیں گے، صرف میں اندر جاﺅں گا۔“
سب لوگ باہر ٹھہر گئے۔ عورتوں اور بچوں کو پہلے ہی کامران حمید کے ہاں چھوڑ آئے تھے۔
انسپکٹر جمشید اندر پہنچے تو انسپکٹر کو کسی گہری سوچ میں پایا۔ انہیں دیکھ کر وہ چونکا۔
”ہاں جناب! یہ کیا چکر ہے؟ آپ لوگ کون ہیں؟“
”ہم دارالحکومت سے آئے ہیں۔ ہمیں قربان بھائی کا خط ملا تھا، بنگلے سے۔“
”پھر وہی کہانی۔“ اس نے برا سا منہ بناویا۔
”ہم جانتے ہیں کہ رضوان حمید کے سلسلے میں آپ کو بھی قربان بھائی کی کہانی سنائی گی ہے، لیکن اس سلسلے میں، میں کیا کرسکتا ہوں؟ ہماری بھی یہی کہانی ہے۔“
”تو آپ کو بھی قربان بھائی کاخط ملا تھا۔“
”مجھے نہیں، میرے دوست کو۔ وہ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے آیا، لیکن بنگلے میں رہنے والوں نے بتایا کہ وہاں کوئی قربان بھائی نہیں رہتے۔“
”اور ہے بھی یہی بات۔ بنگلے کے مالک کا نام تو جان بیری ہے۔“
”تب پھر اس خط کو کس خانے میں فٹ کریں گے آپ؟“ جمشید مسکرائے۔
”میں خود اب تک الجھن میں ہوں۔ یہ چکر میری سمجھ میں نہیں آیا۔“
”دراصل میں چاہتا ہوں کہ آپ ہمارے ساتھ چل کر بنگلے کی تلاشی لیں۔“
”اس کے لئے ہمارے پاس وارنٹ ہونے چاہئیں اور بنگلے کی تلاشی کے وارنٹ ہمیں ملیں گے نہیں۔“
”کیوں نہیں ملیں گے۔“ انسپکٹر جمشید نے منہ بنایا۔
”میں نے بتایا تو ہے کہ جان بیری اور جوبیری بہت اثر و رسوخ والے لوگ ہیں۔“
”ہوں گے، مگر قانون سب کے لیے ہے۔ اگر ان پر اور ان کے بنگلے پر شک ہے تو تلاشی ہونی چاہیے۔“
”لیکن افسر ان میری بات نہیں سنیں گے۔“
”تو مجھے ساتھ لے چلیں بلکہ آپ چاہیں تو میں بغیر وارنٹ کے تلاشی لے کر دکھاسکتا ہوں۔ شرط یہ ہے کہ آپ ساتھ چلیں۔“
”وہ کیسے؟“ اس نے حیران ہوکر کہا۔
”بس آپ تجربہ کرلیں۔“
”ٹھیک ہے، تو میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔ آپ وارنٹ کے بغیر تلاشی لے کر دکھادیں۔“ اس نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”گویا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوسکے گا۔ ہم تلاشی نہیں لے سکیں گے۔“
”ہاں! بالکل یہی بات ہے۔“
”خیر دیکھیں گے۔“ آپ میرے ساتھ تو چلیں۔
”چند منٹ انتظار کریں بلکہ آپ باہر چلیں۔ اپنے ساتھیوں کے پاس، میں بھی تیا ر ہوکر آتا ہوں۔ عملے کو بھی تیار ہونے میں چند منٹ لگیںگے۔“
”لیکن اس سے پہلے میں رجسٹردیکھنا چاہوں گا جہاں آپ نے رضوان حمید کی گم شدگی کی رپورٹ لکھی ہے۔“
”اوہ اچھا۔“ یہ کہہ کر اس نے رجسٹر کھول کر ان کے سامنے رکھ دیا۔
انہوں نے جلدی جلدی رپورٹ پڑھی۔ بالکل سادہ سے انداز میں اور سرسری انداز میں رپورٹ لکھی گئی تھی۔ وہ رپورٹ پڑھنے کے بعدباہر نکل آئے۔ انہیں آتے دیکھ کر خان رحمان کی جان میں جان آئی۔ انسپکٹر جمشید نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور بیٹھتے ہوئے بولے۔
”خان رحمان! اب تمہارے خوف کا کیا حال ہے۔“
”پہلے کی نسبت کم محسوس کررہا ہوں۔“ وہ بولے۔
”ہم بنگلے کی تلاشی لینے جارہے ہیں۔ ابھی انسپکٹر صاحب اپنے عملے کے ساتھ باہر آنے والے ہیں۔ اس سے پہلے تم مجھے قربان بھائی کے بارے میں بتاﺅ۔“
”قربان بھائی کے بارے میں کیا بتاﺅں۔“
”کیا اس نام کا کوئی دوست یا کلاس فیلو واقعی تھا؟“
”ہاں! یہ بات تو خیر مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے۔“
”اس کا حلیہ کیساتھا؟ کیا بتاسکتے ہو۔“
”میرے بچپن کے البم میں اس کی ایک تصویر میرے ساتھ ہے۔ وہ تصویر دیکھ لینا۔“
”لیکن وہ تصویر تو گھر میں ہوگی۔“
”ایک فون کرکے ابھی منگوائی جاسکتی ہے۔“
”بہت خوب! لیکن منگواﺅ گے کس پتے پر؟“
”آج کل تو ڈاک لانے، لے جانے کے اتنے پرائیویٹ ادارے کھل چکے ہیں جو چوبیس گھنٹے سے کم وقت میں ڈاک پہنچا دیتے ہیں ہم کسی ایسے ادارے کے پتے پر ہی منگوالیتے ہیں کل وہاں جاکر وصول کرلیں گے۔“
”یہ ٹھیک رہے گا۔ “انسپکٹر جمشید نے کہا اور خان رحمان کار میں نصب فون پر گھر کے نمبر ڈائل کرنے لگے۔ دوسری طرف سے ظہو رکی گڑبڑائی ہوئی آواز سنائی دی۔
”یہ ظہور صاحب کا گھر ہے۔ ان کا ملازم خان رحمان بات کررہا ہوں۔ فرمایئے آپ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں۔“
”کیا بکواس کررہے ہو۔“ خان رحمان نے جھلا کر کہا۔
”ارے یہ آپ ہیں۔ خیر میں اپنا جملہ بدل دیتا ہوں۔“ اس نے گھبرا کر کہا۔
”تو تم نے یہ جملہ جلدی میں نہیں بولا تھا۔“
”نن نہیں جان بوجھ کر بولا تھا۔ جب آپ گھر میں نہیں ہوتے تو میں خود کو اس گھر کا مالک سمجھنے لگتا ہوں۔“
”اب میں آکر تمہاری خبرلوں گا۔ فی الحال تم ایسا کرو کہ میرے بچپن والی تصاویر کا البم یہاں بھیج دو Z.C.Sکی معرفت۔“
”لیکن کہاں بھیج دوں؟ مجھے کیا معلوم آپ کہاں ہیں۔“
”قصبہ جو ہی بن Z.C.Sنوٹ کرلو۔“
”اوکے سر! لیکن مہربانی فرما کر جب آپ واپس آئیں تو یہ بات بھول جائیں کہ آپ کو میری خبر لینی ہے۔“ اس نے گھبرائی ہوئی آوا ز میں کہا۔
”کوشش کروں گا بھولنے کی اور تم بھی دعا کرو کہ بھول جاﺅں، لیکن اگر نہ بھولا تو پھر تمہاری خیر نہیں۔“
”یا اللہ رحم۔“ اور انہوں نے ہنس کر ریسیور رکھ دیا۔
”لو بھئی البم تو کل آجائے گا۔“
”لیکن کیا فائدہ۔“ فرزانہ نے برا سا منہ بنایا۔
”کیوں یہ کیا بات ہوئی۔“
”ہم اس وقت بنگلے میں جارہے ہیں۔ البم تو ہم اس صورت میں حاصل کریںگے کہ جب بنگلے سے باہر آجائیں لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ میں تو کہتی ہوں ابا جان آپ البم آنے تک بنگلے کی تلاشی نہ لیں۔ میری چھٹی حس بار بار مجھے خبردار کررہی ہے۔“
”میرا بھی یہی خیال ہے۔“محمود نے فوراً کہا۔
”اور میں تو خوف سے کانپ رہا ہوں۔“
”پتا نہیں تم لوگ اس قصبے میں آکر اس قدر بزدل کیوں ہوگئے ہو۔“ انسپکٹر جمشید نے برا سا منہ بنایا۔
”شاید یہ اس قصبے کی آب و ہوا کا اثر ہے۔“
”اچھی بات ہے۔ ہم تلاشی کا پروگرام کینسل کردیتے ہیں۔ اب ہم تلاشی کے باقاعدہ وارنٹ منگوائیں گے۔ وہ بھی دارالحکومت سے اور وہیں سے باقاعدہ فورس آئے گی۔“
”واہ! یہ ہوئی نا بات۔“
”اور آپ اپنے یہاں موجود سادہ لباس والے چار کارکنوں کو بذریعہ اخباراطلاع دینے والے تھے۔“ فاروق نے یاد دلایا۔
”انہیں بھی ہوشیار کرنا ضروری ہے۔“
اسی وقت انسپکٹر باہر آتا نظر آیا، وہ اپنی جیپ میں تھا۔
”پروگرام میں تھوڑی سی تبدیلی کرنا پڑ گئی ہے۔“ انسپکٹر جمشید نے برا سا منہ بنایا۔
”تبدیلی کیسی تبدیلی؟“
”ہم بنگلے اب کل جائیں گے، کل تک ہم وارنٹ حاصل کرلیں گے۔“
”ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ ہم آج ہی وارنٹ حاصل کرسکتے ہیں۔“
”وہ بھی کرسکتے ہیں، لیکن اب کل ہی یہ کام ہوگا۔“
”جیسے آپ کی مرضی۔“ اس نے کندھے اچکائے۔
”تو پھر ہم کل آئیں گے۔“
”آپ نے ابھی تک اپنا تعارف نہیں کرایا۔“
”یہ خان رحمان ہیں، قربان بھائی نے خط ان کے نام لکھا تھا۔ یہ بچپن میں اس کے دوست تھے اور ہم ان کے دوست ہیں۔ یہاں آنے لگے تو ہمیں بھی ساتھ لیتے آئے۔“
”اور آپ کے نام ؟“
”میں جمشید احمد ہوں۔ یہ میرے دوست داﺅد احمد ہیں۔ یہ میرے بچے ہیں۔“ انہوں نے ذرا ڈھکے چھپے انداز میں تعارف کرایا۔
”اوکے کل سہی، لیکن یہ بات میں اس وقت بھی کہہ دیتا ہوں کہ وہاں ہمیں ملے گا کچھ بھی نہیں۔“
”خیر دیکھا جائے گا۔“
اور پھر وہ وہاں سے کامران حمید کے گھر پہنچ گئے۔ انہیں صحیح سلامت واپس آتے دیکھ کر بیگم جمشید وغیرہ کے چہرے پر رونق آگئی۔
”خدا کاشکر ہے آپ آگئے۔ ورنہ ہم تو مارے خوف کے دبلے ہوئے جارہے تھے۔“
”آج تک تو بے چارے قاضی شہر کے اندیشے میں دبلے ہوتے رہے ہیں۔ اب یہ کام تم نے پکڑ لیا بیگم۔“
”پتا نہیں کیا بات ہے۔ ہم نے اس قدر خوف آج تک محسوس نہیں کیا۔“ انہوں نے کہا۔
”باقی لوگوں کا بھی یہی خیال ہے۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”اور آپ کا اپنا کیا خیال ہے یہ بھی تو بتائیں۔“
”کسی قدر خوف میں بھی محسوس کررہا ہوں۔“ وہ بولے۔
”کیا!!!‘ ‘ وہ ایک ساتھ چلائے۔
”میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ جال بچھانے والے پرسکون ہیں۔ وہ ہماری کوششوں اور حرکتوں پر مسکرارہے ہیں اور کہہ رہے ہوں گے کہ تم کچھ بھی کرلو تم ہمارے جال میں آئے بغیر نہیں رہ سکتے بلکہ اس وقت بھی ہم ان کے جال میں ہیں۔“
”تب تو یہ بہت خوفناک صورت حال ہے۔“ خان رحمان نے گھبرا کر کہا۔
”لیکن ہوسکتا ہے یہ ہمارا صرف وہم ہو۔ بہر حال اب اس کا پتا ہمیں کل چلے گا۔ ارے ہاں یاد آیا ہم نے ابھی تک اخبار کو اشتہار نہیں دیا۔“
”میںجاکر دے آتا ہوں تم اشتہا ربنا کر دے دو اور ہاں دارالحکومت پیغام کیسے دینا ہے۔“
”وہ میں فون کردیتا ہوں؟“
پہلے انہوں نے اشتہار لکھ کر خان رحمان کو دیا۔ پھر فون پر رابطہ کرنے لگے۔ پیغام نوٹ کرکے وہ اپنے ساتھیوں کی طرف آئے۔
عین اس وقت ہال کمرے کا دروازہ آہستہ آہستہ کھلنے لگا۔
٭ ….٭…. ٭
ان کی آنکھوں میں خوف اور ڈر امڈ آیا۔ سب دروازے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ایسے میں فرزانہ نے انسپکٹرجمشید کی طرف دیکھا۔ اس نے ان کی آنکھوں میں بھی خوف دیکھا۔
پھر دروازہ پوری طرح کھل گیا اور کامرا ن حمید اندر داخل ہوا۔
”معاف کیجیے گا مجھے اچانک آنا پڑا۔“
”لیکن آپ نے اس طرح آہستہ آہستہ دروازہ کیو ں کھولا۔“انسپکٹر جمشید نے سرسراتی آواز میں کہا۔
”میں نے سوچا، یک دم کھولنے پر کہیں آپ ڈر نہ جائیں۔“
”خیر فرمایئے کیا بات ہے؟“
”ہم یہاں خوف سا محسوس کررہے ہیں، پتا نہیں کیا بات ہے۔ آج تک ایسا نہیں ہوا۔“
”اللہ اپنا رحم فرمائے تو اب آپ بھی اپنے گھر میں خوف محسوس کررہے ہیں۔“
”ہاں جناب ! میں بھی اور میرے بیوی بچے بھی۔ پیچھے تو ہمارے کوئی بھی نہیں بس چھوٹا بھائی ہے۔ وہ پہلے ہی گم ہے۔“
”اور یہ آپ کے چھوٹے بھائی قربان بھائی کے بچپن کے دوست تھے؟“
”اس بارے میں وہی بتائے گا۔ قربان بھائی نام کا کوئی لڑکا اس کا دوست ہوگا۔ تبھی اس کا خط ملنے پر بنگلے کی طر ف گیا تھا۔“
”بنگلے کے بارے میں اور کیا باتیں سننے میں آئی ہیں۔“
”عجیب و غریب کہانیاں مشہور ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ اس کی تلاشی کوئی نہیں لینے دیتا۔“
”لیکن ہم نے تلاشی لینے کا انتظام کیا ہے۔“
”اچھا…. وہ کیسے؟“
”بس دیکھتے جائیں۔ اگر ہم آپ کے گھر کو پوری طرح دیکھ بھال لیں تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا۔“ انسپکٹر جمشید نے سرسری انداز میں کہا۔
”کیا مطلب…. کیا آپ ہمارے گھر کی تلاشی لینا چاہتے ہیں؟ گویا آپ ہم پر شک کررہے ہیں؟“ اس نے ڈرے ڈرے انداز میں کہا۔
”نہیں حملہ کی صور ت میں ہم اپنا بچاﺅ کس طرح کریں گے۔ ہم تو یہ جائزہ لینا چاہتے ہیں۔“
”میری بیوی پردے کی بہت پابند ہے۔“ اس نے برا سا منہ بنایا۔
”آپ انہیں ان کے کمرے میں رہنے دیں، وہ دروازہ بند کرلیں۔ اس طرح ہم باقی مکان دیکھ لیں گے۔ پھر آپ اُنہیں اس دوسرے کمرے میں لے جایئے گا۔ اس طرح ہم ان کا کمرا بھی دیکھ لیں گے۔“
”میں سمجھ گیا آپ ہمارے گھر کی تلاشی لینا چاہتے ہیں۔ آپ الٹا ہم پر شک کررہے ہیں حالانکہ میں نے آپ لوگوں کو گھر پیش کیا ہے۔“ اس نے برا مان کر کہا۔
”حیرت ہے کمال ہے، آخر آپ کو یہ کیوںمحسوس ہورہا ہے کہ ہم آپ کے گھرکی تلاشی لینا چاہتے ہیں۔“
”میری چھٹی حس کہہ رہی ہے۔“
”ارے باپ رے، تو آپ کی چھٹی حس بھی آپ کو خبردارکرتی ہے۔ ہم یہ سمجھتے تھے کہ ایسا صرف ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔“ فاروق نے ڈرے ڈرے اندا زمیں کہا۔
”اب آپ زیادہ ایکٹنگ نہ کریں۔ آپ لوگ ضرور کوئی پرائیویٹ قسم کے جاسوس ہیں۔“
”ارے نہیں یہ بات ہرگز نہیں ہے۔“ محمود ہنسا۔
”خیر اگر آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم آپ کے مکان کی تلاشی لینا چاہتے ہیں، تو آپ رہنے دیں، ہم نہیں لیتے جائزہ۔“
”تو کیا آپ کویقین ہے کہ آپ لوگوں پر حملہ ہوگا۔“ اس نے ڈرے ڈرے انداز میں کہا۔
”ہاں! اس کا زبردست امکان ہے۔“
”آپ تو مجھے بھی ڈرا رہے ہیں آخر کون لوگ آپ پر حملہ کریں گے؟“
”اس بنگلے والے۔“
”اُف اب ہم کیا کریں؟ کیوں نہ پولیس کی مدد لیں۔“
”کوئی فائدہ نہیں۔ پولیس ان کے ساتھ ہے۔“
”تب پھر آپ میرے مکان سے چلے جائیں۔ خطرہ کیوں مول لیا جائے۔“
”شاید آپ اب ہماری وجہ سے ڈر رہے ہیں۔ خود کو بھی اور اپنے مکان کو بھی خطرے میںمحسوس کررہے ہیں۔“
”ہاں ! یہی بات ہے ۔“
”اچھی بات ہے، تو ہم یہاں سے چلے ہی جاتے ہیں۔“
”شکریہ بہت بہت۔“ اس نے خوش ہوکر کہا۔
وہ حیرت زدہ رہ گئے۔ کہاں تو وہ خود انہیں اپنے گھر میں ٹھہرنے کی دعوت دے رہا تھا اور کہاںاب انہیں گھر سے نکال دیا تھا۔
”آﺅ بھئی چلیں، میںسمجھ گیا۔“ انسپکٹرجمشید بولے۔
”جی کیا مطلب؟ آپ کیا سمجھ گئے؟“
”یہ کہ آپ دراصل ہمیں تلاشی نہیں دینا چاہتے۔“
”کیا۔“ وہ دھک سے رہ گیا۔
”تو میرا اندازہ درست ہے ہے نا۔“
”نن…. نہیں اچھا یوں کریں آپ میرے گھر کی تلاشی لے لیں اور اس کے بعد چلے جائیں۔“
”ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔“
”تو پھر لے لیں تلاشی۔“
”آپ وہ کمرا بند کردیں جس میں آپ کی بیوی ہیں۔“
”اچھی بات ہے۔“
اور پھر انہوں نے اس مکان کی تلاشی شروع کی۔ مکان میں نوکمرے تھے اور سب کے سب نچلی منزل میں تھے۔ اوپر کوئی کمرا نہیں تھا۔ تین کمرے سامنے، باقی کمرے دائیں اور بائیں تھے۔ تمام کمرے ایک دوسرے سے دروازﺅں کے ذریعے ملے ہوئے تھے یعنی ایک کمرے میں داخل ہوکر نویں کمرے تک آیا جاسکتا تھا۔
انہوں نے تمام کمرے دیکھ ڈالے، لیکن کسی کمرے میں کوئی خاص بات نظر نہ آئی۔ پھر بھی وہ کوئی بات محسوس ضرور کررہے اور سوچ رہے تھے۔ آخر اس مکان میں وہ کیا بات ہے جو انہیں خوف میں مبتلاکررہی ہے۔ آخر میں ایک کمرا رہ گیا جب وہ تلاشی لے کر اس طرف آئے تو اندرونی دروازے کے ذریعے کامران حمید کی بیوی دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ اس کمرے کو بھی دیکھ کر وہ باہر نکل آئے۔
”ہم بلاوجہ خوف محسوس کررہے تھے۔ اچھا جناب! کہیں ہماری وجہ سے آپ مشکل میں نہ پھنس جائیں، لہٰذا ہم تو چلتے ہیں۔“
”بہت بہت شکریہ۔“
”ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔ اگر پسند کریں تو بتادیں۔“ایسے میں انسپکٹر جمشید نے عجیب سے انداز میں کہا۔
”وہ کیا بات ؟“
”کیا آپ کی بیوی عورتوں سے بھی پردہ کرتی ہیں۔“
”ہاں۔“ اس نے پرسکون آواز میں کہا۔
”آج ہم یہ بات زندگی میں پہلی بار سن رہے ہیں کہ کوئی عورت بھی دوسری عورت سے پردہ کرتی ہے۔“
”بس وہ پردے کی اس حد تک پابند ہے۔“
”تو کیا ہم جائیں۔“ خان رحمان بولے۔
”ہاں! آپ چلے ہی جائیں۔“
اور وہ گھر سے نکل آئے۔ مارے حیرت کے سب کا برا حال تھا۔
”ابھی تک بات سمجھ میں نہیں آئی۔ اس وقت کامران حمید کی آنکھیں بھی مجھے وہی بات کہتی نظر آئی ہیں جو انسپکٹر صاحب کی آنکھیں کہہ رہی تھیں۔“انسپکٹر جمشید بولے۔
”جی کیا بات کیا کہہ رہی تھیں انسپکٹر صاحب کی آنکھیں یعنی رستم گوشی صاحب کی آنکھیں۔“
”وہی جو جوبیری کی آنکھیں کہہ رہی تھیں۔“
”اور جوبیری کی آنکھیں کیا کہہ رہی تھیں۔“
”یہ کہ تم کچھ بھی کرلو ہمارے بچھائے ہوئے جال سے بچ کر نہیں نکل سکوگے۔“
”آپ کا مطلب ہے۔ یہ تینوں ہمارے خلاف جال بچھانے میں شریک ہیں۔“
”ہاں! کامران حمید، پولیس انسپکٹر رستم گوشی اور جو بیری یا جان بیری یہ سب ملے ہوئے ہیں۔“
”تب پھر جب ہم بنگلے کے دروازے پر پہنچ گئے تو انہوں نے ہمیں اندر کیوں داخل نہیں کرلیا۔ ہم تو اس وقت ان کے لیے اور زیادہ آسان شکار تھے۔“
”جس طرح بلی چوہے کو کھانے سے پہلے اس سے خوب کھیلتی ہے اور اچھی طرح یہ سمجھتی ہے کہ یہ اس کے پنچوں سے بچ کر کہیں نہیں جاسکتا۔ بالکل اسی طرح یہ لوگ سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہم سب ان کے جال میںمکمل طور پر آچکے ہیں۔ بچ کر جائیں گے کہاں، لہٰذا پہلے بچ کر نکلنے کے لیے بھی انہیں بھاگ دوڑ کر لینے دو۔ جب یہ ہر طرح سے اپنا زور لگالیں گے۔ اس وقت یہ ہمیں دبوچ لیں گے۔“
”آخر کیسے اور یہ چاہتے کیا ہیں؟“
”یہ دو باتیں ایسی ہیں جن کا جواب ابھی مجھے خو دبھی معلوم نہیں۔“ انسپکٹر جمشید بے چارگی سے بولے۔
”پہلے اخبار میں اشتہار دے آتے ہیں۔ پھر دارالحکومت سے رابطہ قائم کرتے ہیں۔“
”بالکل ٹھیک۔“ وہ بولے۔
وہ اخبار کے دفتر پہنچے، اشتہار دیا اور بل دے کر رسید لی اور پھر جنگل میں آگئے۔ درختوں کے درمیان آکر انہوں نے فون پر نمبر ملانے کی کوشش شروع کردی۔ اس وقت پہلی بار انہیں معلوم ہوا کہ وہ دارالحکومت سے رابطہ قائم کرنے کے قابل نہیں تھے۔ وائرلیس سیٹ ان کے پاس تھا نہیں۔
”ٹیلی فون ایکس چینج جانا پڑے گا۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”تو پھر چلو۔“ خان رحمان بولے۔
”لیکن میراخیال ہے کہ وہاں جاکر بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔“
”کک کیا مطلب۔“
”پہلے ہو آتے ہیں پھر میں وضاحت کروں گا۔“
وہ ٹیلی فون ایکس چینج پہنچے۔ انسپکٹر جمشید اور خان رحمان اندر گئے۔ جلد ہی وہ متعلقہ آدمی کی میز پر پہنچ گئے۔
”ہم دارالحکومت ایک فون کرنا چاہتے ہیں، لیکن سلسلہ نہیںمل رہا۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا آپ ہمیں بتائیں گے۔“
”جی ہاں! کیوں نہیں دارالحکومت کی لائن خراب ہے او ر تین دن سے پہلے لائن درست ہونے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔“
”اتنا لمبا عرصہ ؟“ انہوں نے جھلا کر کہا۔
”جی ہاں! خرابی ہی کچھ اس نوعیت کی ہوگئی ہے۔“
”اچھا شکریہ۔
اور وہ باہر نکل آئے۔
”کیوں بھئی میں نے کیا کہا تھا۔“
”آخر یہ ہو کیا رہا ہے یہ تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ سارا قصبہ اس شخص جان بیری کے قبضے میں ہے اور وہ اس قصبے کا حکمران ہو۔“
”ہاں! یہی معلوم ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسے ہم سے کیا دشمنی ہے۔ اس نے ہمیں یہاں کیوں بلایا ہے۔ وہ ہم سے کیا چاہتا ہے اور وہ قربان بھائی کے بارے میں کیسے جانتا تھا۔“ انسپکٹر جمشید نے الجھن کے عالم میں کہا۔
”یہی سب سوال تو ہمارے ذہنوں میں گونج رہے ہیں۔“
”آﺅ گاڑی میں بیٹھو۔ میں ایک تجربہ کرنا چاہتا ہوں۔“
”جونہی وہ سب گاڑی میں بیٹھے۔ انہوں نے گاڑی پوری رفتار پر چھوڑ دی اور ان کا رخ دارالحکومت والی سڑک کی طرف تھا۔ جلد ہی وہ اس سڑک پر پہنچ گئے اور ان کا سفر دارالحکومت کی طرف شرو ع ہوگیا۔
لیکن بہت جلد انہیں رک جانا پڑا۔
٭…. ٭…. ٭
سڑک پر آگے ایک چھوٹا سا پل تھا جوکہ ا ِس وقت اکھڑا پڑا تھا۔ جب وہ اس علاقے میں آئے تھے، اس وقت یہ پل بالکل ٹھیک تھا۔ پل کے دائیں بائیں گہری کھائیں تھیں۔ مطلب یہ کہ وہ سڑک سے اتر کر بھی نہیں گزرسکتے تھے۔ اگرچہ نیچے پانی نہیں تھا۔
”تجربہ ہوگیا ہم دارالحکومت نہیں جاسکتے۔ یہ سارا قصبہ ہمارے لیے ایک ”چوہے دان“ ہے۔“ انسپکٹر جمشید سردا ور خشک لہجے میں بولے۔
”اور نہ ہم دارالحکومت سے رابطہ کرسکتے ہیں۔ نہ اپنے چار مقامی کارکنوں کو خبر کرسکتے ہیں۔“
”کیا انہیں صرف اخبار کے ذریعے ہی خبر کی جاسکتی ہے۔“ پروفیسر داﺅد نے فکر مند ہوکر کہا۔
”ہاںاور ہمارے پاس کیا ذریعہ ہے۔ وائر لیس سیٹ تو ہم لے کر آئے نہیں۔“
”اس کا مطلب ہے کہ ہم واقعی پھنس گئے ہیں۔“
”ہاں! انہیں ہمارے مکمل طور پر پھنس جانے کا اس قدر یقین ہے کہ انہوں نے ہمارے تعاقب میں آنے کی بھی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”آخر یہ ہم سے چاہتے کیا ہیں؟“
”یہ تو ابھی اندازہ نہیں ہوسکا یا تو جان سے مار ڈالنا چاہتے ہیں یا پھر کوئی اور مقصد ہوگا۔“
”اور کیا کامران حمید بھی انہی لوگوں کا ساتھی ہے۔“
”ہاں اور کیا یہاں سب کے سب ہمارے دشمن ہیں۔ پورے قصبے میں ہمارا ایک بھی ہمدرد نہیں ملے گا۔“
”آخر یہ کیسے ممکن ہے جمشید ۔“ خان رحمان بولے۔
”پتا نہیں یہ کیسے ممکن ہے۔ بہر حال یہ جال صرف ہمارے لیے ہی نہیں بچھایا گیا ہے۔ یہ ایک مستقل جال ہے جو محب وطن لوگوں کے لیے تیارکیا گیا ہے۔ جب کوئی محب وطن زیادہ ہی ان لوگوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگتا ہے تو یہ اسے قربان بھائی جیسے جال میں پھانس لیتے ہیں۔ یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ خان رحمان کا بچپن کا دوست کون تھا۔ فلاں کا بچپن کا دوست کون تھا۔ اس طرح جس شخص کو ٹھکانے لگانا ہوتا ہے۔ اس کے بچپن کے دوست کا خط اس شخص کو مل جاتا ہے اور وہ بے چارہ جوہی بن میں شکار کھیلنے کے شوق میں یہاں چلا آتا ہے اور خود شکار ہوجاتا ہے۔“
”اوہ۔“ ان سب کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔
”لیکن جمشید! ہم سے زیادہ تو تم محب وطن ہو میرا مطلب ہے کہ مجھے یہ کہنا چاہیے تھا کہ میری نسبت تو تم وطن کے دشمنوں کے لیے زیادہ تکلیف دہ ہو پھر خط مجھے کیوں ملا۔“
”ہمارے سلسلے میں انہوں نے نفسیاتی داﺅ کھیلا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ خط خان رحمان کو لکھا جائے تو خان رحمان اکیلے یہاں نہیں آئیں گے۔ ہمارے بغیر تو وہ کہیں سیر کے لیے جانے کا سوچتے بھی نہیں۔“
”ہوں! ضرور یہی بات ہے، لیکن یا ر اب ہم کریں گے کیا؟“
”اس بار ے میں میری ایک تجویز ہے کیوں نہ ہم جو ہی بن جنگل میں گھس جائیں۔ پورے جنگل پر تو ان کا قبضہ نہیں ہوگا ۔“ فرزانہ بولی۔
”میں نے بھی یہ بات سوچی تھی بلکہ میرا خیال ہے اس وقت یہ بات ہم سب کے ذہنوں میں آچکی ہوگی، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات ان لوگوں نے نہیں سوچی ہوگی کہ ہم ہر طرف سے گھر کر کیا سوچیں گے؟“
”گویا جنگل میں بھی موت کا سا مان تیار ہوگا۔“
”ہاں بالکل اس میں کوئی شک نہیں ۔“
”اب سوچو فرزانہ ہم کیا کرسکتے ہیں؟“
”ہم اپنی گاڑی یہیں کہیں چھوڑ دیتے ہیں اور یہاں سے پیدل آگے بڑھتے ہیں۔“ فرزانہ نے کہا۔
”تمہارا مطلب ہے دارالحکومت کی طرف؟“
”ہاں! آخر ہم کسی آبادی تک پہنچ ہی جائیں گے۔“ فرزانہ نے کہا۔
”کوئی نہ کوئی ہماری نگرانی تو ضرور کررہا ہے۔ جب وہ دیکھے گا کہ ہم نے آخر یہ ترکیب کی ہے تو یہ لوگ صرف چند منٹ میں ہم سے آگے پہنچ کر ہمارا راستہ روک لیں گے کیونکہ ہم گاڑیوں سے تیز تو دوڑ نہیں سکیں گے۔“
”اُف مالک آخر اب ہم کیا کریں۔“
”اس کا صرف اور صرف ایک ہی جواب ہے۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”اور وہ کیا۔“
”مقابلہ فتح یا موت۔“
”تب پھر موت سے کیا ڈرنا۔ ہم اس کے لیے تیار ہیں۔“ خان رحمان پرجوش انداز میں بولے۔
”میں چاہتا ہوں ہم انہیں ناکوں چنے چبوائیں اور یہ کام ہم ابھی اور اسی وقت شروع کررہے ہیں۔ فاروق تم گاڑی سے اتر کر دائیں طرف اس کھائی میں اتر جاﺅ۔ سامنے کھائی کے آگے ایک اونچائی ہے اور اُس پر ایک بڑا درخت ہے، تم اس پر چڑھ جاﺅ۔ اب یہ نہ پوچھنے لگ جانا کہ اس کا کیا فائدہ ہوگا اور یہ کہ میں ایسا کیوں کروں۔ تمہیں اوپر پہنچ کر اس شخص کودیکھنا ہے جو ہماری نگرانی کررہا ہے یا کررہے ہیں۔“
”او کے ابا جان۔“ فاروق نے کہا۔ گاڑی کا دروازہ کھولا اور نہایت غیرمحسوس طریقے پر نیچے رینگ گیا۔ وہ کھڑا بھی نہیں ہوا اسی طرح کھائی میں اتر گیا اور اونچائی کی طرف بڑھنے لگا۔ سب کی نظریں اس پر جمی تھیں۔ آخر وہ درخت تک پہنچ گیا۔ جلد ہی وہ کسی بندر کی تیزی سے اوپر جارہا تھا اور پھر وہ اس حد تک اونچائی پر پہنچ گیا کہ اس سے اوپر پہنچنا ممکن نہ رہا۔ اب اس نے اس طرف نظریں دوڑائیں جس طرف سے وہ آئے تھے۔ وہ بغور دیکھتا چلا گیا۔ اک چٹان کے پیچھے اسے سیاہ رنگ کے بال نظر آگئے اور نیچے سے اس چھپے ہوئے شخص کو دیکھنا کسی طرح ممکن نہیں تھا۔ وہ اپنے والد کی ذہانت پر حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس نے کاغذ پر چند الفاظ لکھے۔ کاغذ کی گولی سی بنائی اور گاڑی کی طرف اچھال دی۔
کاغذ کی گولی گاڑی کے نزدیک آکر گری۔ دروازہ پھر غیر محسوس طور پر کھلا اور گولی اٹھا لی گئی۔ اب انہوں نے وہ الفاظ پڑھے۔ فاروق نے لکھا تھا۔
”آپ کی کمر کی طرف سڑک کے بائیں جانب ایک چٹان کے پیچھے کوئی چھپا ہے۔“
”پہلے ہم اس کا شکار کریں گے۔“
”کیا اس کا شکار آسان ہوگا جمشید۔“ خان رحمان نے فکر مندانہ انداز میں کہا۔
”کیا مطلب؟“
”میرا مطلب ہے کیا وہ اکیلا ہوگا؟ اس کے کچھ اور ساتھی بھی ہوں گے جو آس پاس چھپے ہو ں گے۔ جب تم اس کی طرف بڑھوگے تو دوسرے چھپے ہوئے ساتھی تم پر فائرنگ کریں گے۔“
”بہت خوب خان رحمان! آج تو تم نے کمال کردیا۔“
”نن نہیں تو میں نے تو کوئی کمال نہیں کیا۔ یار جمشید اب تم جھوٹ بھی بولنے لگے۔“ خان رحمان نے گھبرا کر کہا۔
”اچھا اچھا، اب ایکٹنگ نہ کرو اور یہ بتاﺅ ہم کیا کریں؟ تم ایک فوجی ہو اور بہتر جانتے ہو کہ ان حالات میں کیا کیا جاسکتا ہے۔“
”ہاں! مجھے سوچنا ہوگا۔ یہ جگہ بہت اوٹ پٹانگ سی ہے۔ ارے ہاں ٹھیک ہے جمشید! تم فاروق کو نیچے بلالو۔ ہم یہاں سے واپس چلتے ہیں اور راستے میں کوئی ایسی جگہ دیکھتے رہیں گے کہ جہاں ہم انہیں گھیر سکیں۔“
”شکریہ خان رحمان! اس کیس میں ہم دشمنوں کو تو گھیر ہی نہیں سکیں گے۔ گھیرے میں تو ہم آئے ہوئے ہیں۔ ہمیں تو بس ان کے گھیرے سے نکلنا ہے۔“
”یہ بات بھی ٹھیک ہے۔ خیر دیکھتے ہیں اب کیا کیا جاسکتا ہے۔ تو پھر واپس تو چلیں نا۔“
”ہاں ! یہ تو کرنا ہی ہوگا۔ لڑائی کے لیے یہ جگہ ارے۔“ خان رحمان کہتے کہتے رک گئے۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
”اب کیا ہوا؟“
”ایک خیال آیا ہے۔‘ ‘ وہ بولے۔
”تو بتاﺅ نا۔“
”مجھے حیر ت ہے کہ آج کہیں میں تمہارے کان نہ کاٹ جاﺅں۔“
”کوئی پروا نہیں۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”تو پھر سنو جمشید، وہ جانتے تھے ہم فرار ہونے کی کوشش کریں گے، لہٰذا انہوں نے اس پل کو اڑادیا تاکہ اس جگہ سے آگے ہم گاڑی نہ لے جاسکیں، لہٰذا نگرانی کرنے والے بھی انہوں نے بس یہاں تک ہی مقرر کیے ہوں گے کیونکہ اس جگہ سے آگے اگر ہم جائیں گے تو پیدل جائیں گے۔“
”ہم سمجھے نہیں انکل! آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔“
”یہ کہ چٹانوں میں چھپے دشمن اس پل سے پیچھے تک ہیں آگے نہیں ہیں اور ہم آگے چلے جائیں تو انہیں بھی اپنی جگہوں سے نکل کر آگے آنا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ لڑائی کے لیے انہوں نے اس مقام کا چناﺅ تو کیا نہیں ہوگا۔ اس صورت میں ہمارے لیے یہ جگہ زیادہ مناسب رہے گی کیونکہ دونوں پارٹیوں کے لیے یہ جگہ ایک جیسی ہوگی جب کہ جنگل، قصبہ، بنگلہ اور باقی جگہیں ان کے قبضے میں پہلے سے ہیں اور وہاں صورت حال ان کے کنٹرول میں ہے۔“ خان رحمان نے جلدی جلدی کہا۔
”بہت خوب خان رحمان! یہ ہے فوجی تجربے کی بات۔ مجھے تمہاری یہ تجویز پسند آئی۔ ہم گاڑی کو یہی چھوڑ کر آگے بڑھیں گے اور پھردیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے۔“
”تو پھر بسم اللہ کریں۔ اب ہم سے اور زیادہ صبر نہیں ہورہا، ہم چاہتے ہیں جو ہونا ہے جلد ہوجائے۔ جب سے اس قصبے میں آئے ہیں الجھن ہی الجھن محسوس کررہے ہیں۔“
”ٹھیک ہے آﺅ۔“
وہ گاڑی سے نکل آئے۔ بالکل پرسکون انداز میں جیسے آس پاس کا جائزہ لینا چاہتے ہوں۔ پھر گاڑی کے دائیں بائیں سے ہوکر آگے کی طر ف بڑھے اور کھائی میں اتر گئے کھائی عبور کرکے وہ پل کے دوسری طرف پہنچ گئے۔
”آگے بڑھتے رہیں، رکنے کی ضرورت نہیں۔ ہم جتنا اس مقام سے دور چلے جائیں گے اتنا ہی فائدے میں رہیں گے۔“ خان رحمان نے کہا۔
اور وہ آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے۔ اچانک انہیں رکنا پڑا۔ انہوں نے اپنے پیچھے ایک زبردست دھماکے کی آواز سنی تھی۔ مڑ کر دیکھا تو خان رحمان کی گاڑی غائب تھی، البتہ اس کے ٹکڑے بہت اونچے ہونے کے بعد نیچے آرہے تھے۔ ان کے دیکھتے ہی دیکھتے تمام ٹکڑے نیچے آگئے۔
”گاڑی تباہ کردی گئی ہے۔ خیر کوئی بات نہیں ہم پہلے ہی کون سا اس سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں تھے۔“ خان رحمان بڑبڑائے۔
”آپ فکر نہ کریں انکل !اللہ آپ کو اور گاڑی دے دیں گے۔“ فاروق نے مسکرا کر کہا۔
”لیکن مشکل یہ ہے کہ میرے تمام اندازے غلط ثابت ہوگئے۔“ خان رحمان نے خشک لہجے میں کہا۔
”کیامطلب؟“ وہ ایک ساتھ بولے۔
”مطلب یہ کہ دشمن اس طرف بھی پوری تعداد میں موجود ہے اور پوری طرح ہوشیار بھی۔“
”یہ…. یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں۔“ فاروق نے بوکھلا کر کہا۔
”میرا فوجی تجربہ یہی کہتا ہے اور یہ بات چند منٹ میں واضحہوجائے گی۔“
”اس کا مطلب ہے، ہم اپنی تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود اب تک ان کے جال سے نہیں نکل سکے۔“
”بالکل نہیں بلکہ جال تو لمحہ بہ لمحہ تنگ ہوتا جارہا ہے۔“ خان رحمان نے فوراً کہا۔
”تب پھر خان رحمان! ان لوگوں کو پہلے ہی ہدایات دے دی گئی ہیں کہ ہم بھی آسان شکار نہیں ہیں۔ ان کے جال سے نکل جائیں گے اور ان لوگوں نے جواب میں کہا ہوگا کہ کسی صورت میں نکلنے نہیں دیا جائے گا، لہٰذا انہوں نے پہلے سے سارے انتظامات کررکھے ہیں۔“
”اللہ مالک ہے۔ اب جب کہ اوکھلی میں سردیا تو موسلوں کا کیا ڈر۔“ محمود بولا۔
”لیکن آخر یہ لوگ سامنے آکر وار کیوں نہیں کرتے۔“
”میں نے کہا تھا نا بلی جس طرح چوہے سے کھیلتی ہے۔ یہ ہم سے بالکل اسی طرح کھیل رہے ہیں، لیکن یہ ایک بات نہیں جانتے۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”وہ کیا؟“
”یہ کہ کبھی کبھی اس کھیل میں چوہا نکل بھاگنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔“
”گویا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم نکل بھاگنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔“
”ہاں ! ان شاءاللہ۔
”لیکن ہم نکل کر بھاگیں گے کیوں ہم تو ان کا مقابلہ کریں گے۔“
”مقابلہ کرنا آسان کام نہیں ہوگا۔ ایک طرف پوراقصبہ ہے، تو دوسری طرف صرف ہم۔“
”اور ہم ہیں بھی بچوں اور عورتوں سمیت۔“ خان رحمان مسکرائے۔
”آپ ہماری فکر نہ کریں۔ ہم آپ کے لیے مشکلات پیدا نہیں کریں گے بلکہ معاون ثابت ہوں گے۔“
عین اسی وقت سڑک پر گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہوگئی۔
٭…. ٭…. ٭
یہ پہلا حملہ تھا جو ان پر ہوا اور وہ اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ دشمن انہیں گھیرنے کی کوشش کرے گا۔
وہ سڑک پر لوٹ لگاگئے اور دائیں بائیں لڑھکتے چلے گئے۔ کھائیوں میں دبک کر انہوں نے جائزہ لیا تو فائرنگ اسی سمت سے ہو رہی تھی جس سمت میں وہ چڑھ رہے تھے اور اس قدر تابڑ توڑ ہورہی تھی کہ اس طرف جانا قریب قریب ناممکن تھا۔ پھر فائرنگ ان کے نزدیک ہونے لگی۔ گولیاں ان کے آس پاس گزرنے لگیں اور انہیں پیچھے ہٹنا پڑا۔ یہاںتک کہ وہ اس جگہ واپس پہنچ گئے جس جگہ انہوں نے اپنی گاڑی روکی تھی۔
حیرت کی بات یہ تھی کہ اب تک انہیں فائرنگ کرنے والے نظر نہیں آئے تھے۔ یہ تو صاف ظاہر تھا کہ وہ چٹانوں کی اوٹ میں تھے، لیکن اس قدر سیدھ میں فائرنگ کرنا سامنے آئے بغیر ممکن نہیں تھا۔ انہوں نے حیران ہوکر چاروں طرف دیکھا اور پھر جان گئے کہ دشمن کہاں موجود تھا۔ دشمن بھی اس چوٹی پر ، اس ٹیلے پر موجود تھا جہاں اس کے ہونے کے کوئی امکانات نہیں تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے انہیں ہیلی کاپٹر میں بٹھاکر ان جگہوں پر اتار ا گیا تھا۔
”اُف مالک! آج سے زیادہ زبردست طریقے سے ہمیں کبھی نہیں پھانسا گیا ہوگا۔“ خان رحمان کانپ گئے۔
”لیکن ایک اور بات بھی نوٹ کرنے کے لائق ہے اور وہ یہ کہ جان بوجھ کر گولیاں ہمیں نہیں ماری جارہیں۔ ورنہ یہ لوگ چاہتے تو اب تک ہمیں بھون کر رکھ دیتے۔ یہ صرف ہمیں بنگلے کی طرف دھکیل کر لے جانا چاہتے ہیں اور ہم اس طرف سرکنے پر بری طرح مجبور ہیں۔“
”آخر کو ہمیں اس بنگلے میں جانا ہی پڑگیا۔“ پروفیسر داﺅد بولے۔
”ہاں ! اور اس بنگلے کے گرد پورا قصبہ موجو د ہوگا۔ ہماری بے بسی کا تماشا دیکھنے کے لیے۔“
”کاش۔“فاروق نے سرد آہ بھری۔
”کاش سے آگے بھی تو کچھ کہو۔“
”کاش! ہم وہ خط پڑھ کر چل نہ پڑتے وہیں غور کرلیتے۔“
”یہ بات تو میں نے وہیں کہہ دی تھی کہ اس خط سے خطرے کی بو آرہی ہے، لیکن اس وقت ہم پر سیر کرنے کا بھوت سوار تھا۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”لیکن اب یہ وقت ان باتوں کا نہیں۔“ خان رحمان بولے۔
”برستی گولیوں میں بھی آپ لوگ باتیں کرلیتے ہیں۔“شہناز بیگم بولیں۔
”بس، بھابی کیا کریں مجبوری ہے۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”مجبوری کیسی مجبوری۔“
”باتیں کرنا ہماری مجبوری ہے۔ ا س کے بغیر ہمارا وقت نہیں گزرتا۔“ فاروق مسکرایا۔
”لو اور سنو برستی گولیوں میں بھی ان کا وقت نہیں گزرتا۔“ بیگم جمشید نے برا سا منہ بنایا۔
”ہائیں تو کیا آپ کا گزر رہا ہے امی جان۔“ فاروق کے لہجے میں حیرت تھی۔
اسی وقت گولیوں کی بوچھاڑ اور نزدیک ہوگئی اور انہیں تیزی سے پیچھے ہٹنا پڑا۔
”کیا کوئی ایسی ترکیب نہیں ہوسکتی کہ ہم اس بنگلے کی طرف نہ جائیں۔“ محمود بڑبڑایا۔
”ایسی ترکیب فرزانہ بتاسکتی ہے۔“
”میری عقل آج گھاس چرنے گئی ہے۔“ فرزانہ نے گویا اعلان کیا۔
”بڑی موقع شناس ہے۔“ محمود نے منہ بنایا۔
”کون! فرزانہ ؟“ فاروق نے فوراً کہا۔
”نہیں! فرزانہ کی عقل۔“ وہ مسکرایا۔
”وہ پیچھے ہٹتے چلے گئے۔ ایسے میں انسپکٹر جمشید نے کہا۔
”فرزانہ کیا بات ہے؟ کیا آج واقعی تم سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہ گئیں۔“
”ایسی بات نہیں ابا جان! آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔“
”کوئی ترکیب جس کے ذریعے یہ ہمیں بنگلے تک نہ لے جاسکیں۔“
”اچھی بات ہے مجھے سوچنے کی مہلت دیں۔“
”اتنی مہلت تو نہیں دے سکتے کہ بنگلے تک پہنچ جائیں۔“محمود نے منہ بنایا۔
”تو پھر کتنی دے سکتے ہو۔“ فرزانہ نے گھورا۔
”سوچ کر بتاﺅں گا۔“ محمودبولا۔
”حدہوگئی۔ ایک بات فرزانہ سوچے گی اور دوسری محمودسوچے گا۔ ہمارے پاس کرنے کے لیے کیا رہ جائے گا۔“
”انتظار کرنا۔“ خان رحمان فوراً بولے۔
”ارے یار خان رحمان تم تو فوجی ہو تم ہی کوئی ترکیب سوچو۔۔“
”فوجی ترکیب سوچا نہیںکرتے ترکیب پر عمل کرتے ہیں۔ سوچتے کوئی اور ہیں یعنی ان کے بڑے۔“
”اور تم ان کے بڑے ہی تو ہو۔“ انسپکٹر جمشید نے منہ بنایا۔
”کبھی تھا اب نہیں۔“ انہوں نے سرد آہ بھری۔
”اب سرد آہ بھرنے کی کیا ضرورت، ریٹائرمنٹ تو خود لی تھی۔“
”ہاں، لیکن وہ دن یاد آتے ہیں تو سرد آہ پھر بھی نکل جاتی ہے۔ کیا کروں۔“
”کچھ نہ کرو کوئی ترکیب بتاﺅ۔“
”ترکیب یہ ہے کہ سیدھے بنگلے چلے چلو۔ ایک ہی بار دیکھ لیں گے انہیں۔ اس بلی چوہے کے کھیل سے تو نجات ملے گی۔“
”کاش ہم بچوں اور عورتوں کو ساتھ نہ لائے ہوتے۔“پروفیسر داﺅد نے سرد آہ بھری۔
”آپ ہماری وجہ سے پریشان نہ ہوں۔“بیگم جمشیدبولیں ۔
”ارے ہاں! پروفیسر انکل! کیا اس مہم پر آپ بھی کوئی چیز ساتھ نہیں لائے۔“ محمود چونکا۔
”ایک دوچیزیں ہیں تو لیکن ابھی ان کے استعمال کرنے کا موقع کب ملا ہے۔“
”ہوں خیر جب موقع مل جائے کام میں لے آیئے گا۔“فاروق بولا۔
وہ اب بہت تیزی سے جنگل کی طرف بڑھنے لگے۔ فائرنگ مسلسل ہورہی تھی۔ آخر وہ بنگلے تک پہنچ گئے۔ حیرت اس بات کی تھی کہ فائرنگ کرنے والے اب بھی نظر نہیں آئے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کے ساتھ ساتھ انہیں آگے نہیںبڑھنا پڑرہا تھا بلکہ پل سے بنگلے تک دشمن پہلے ہی مقرر تھے اور ان کے لیے خاص جگہیں پہلے سے بنائی گئی تھیں گویا صحیح معنوں میں یہ قصبہ ان کے لیے چوہے دان تھا۔
فائرنگ اب بھی ہورہی تھی اور انہیں بنگلے کے دروازے پر پہنچنے پرمجبور کررہی تھی۔
”لیکن یہ بات کس قدر عجیب ہے۔“ فاروق کی آواز سنائی دی۔
”کون سی بات کس قدر عجیب ہے؟ وضاحت کرو۔“
”یہ کہ ہم جب پہلی بار بنگلے کے دروازے پر آئے تھے۔ اس وقت تو خود ہمیں اندر داخل نہیں ہونے دیا گیا تھا۔ یہ کہہ دیا گیا تھا کہ یہاں کوئی قربان بھائی نہیں رہتا۔ اگر ان کا پروگرام ہمیں بنگلے میں داخل کرنا ہی تھا، تو پھر ہمیں یہاں سے واپس بھیجنے کی کیاضرورت تھی۔
”بھئی وہی بات یہ لوگ اس کھیل کو فوراً ختم نہیں کرنا چاہتے تھے۔ پہلے ہم سے کھیلنا چاہتے تھے اور جانتے تھے کہ بھاگ تو سکیں گے نہیں۔
”اب کیا ہوگا؟“ بیگم جمشید بولیں۔
”وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا۔“ فرزانہ نے کہا۔
”اوہو ارے ہائیں اوہ۔“ خان رحمان کے منہ سے نکلا۔ ان کے چہرے پر اچانک حیرت نظر آنے لگی۔
”کیا ہوا بھئی خیر تو ہے۔“
”مم مجھے ایک بات یاد آئی ہے خاص بات۔“
”اگرچہ یہ وقت خاص بات سننے کے لیے مناسب نہیں، لیکن اگر اس کا بتانا ضروری ہے تو ہم ضرور سن لیں گے بتا دو۔“
”مم…. میں…. وہ یار جمشید! تم نے یہ بات نوٹ کی تھی نا کہ پولیس انسپکٹر بار بار اپنے کندھے اچکا رہا تھا۔“
”ہاں! بالکل نوٹ کی تھی۔“
”اور یہ بات مجھے اب یاد آئی ہے کہ قربان بھائی بالکل اسی اندا ز میں کندھے اچکایا کرتا تھا۔“
”کیا!!!“ ان کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔
”تب تو پھر قربان بھائی وہ انسپکٹر ہے اور ان لوگوں کا آلہ کار مکمل طور پر ہے یا پھر جال بچھانے والوں میں سے ایک ہے۔ یوں ابھی اب تک یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یہ پورا قصبہ دشمن قصہ ہے اس میں شاید ایک آدمی بھی ایسا نہیں ملے گا جو ہمارا ساتھ دے سکے۔ یہ قصبہ جان بوجھ کر خاص طور پر بسایا گیا ہے۔ یہاں ہم پہلے شکار نہیں ہیں، ہم جیسے ان گنت لوگ لائے جاچکے ہیں اور شکار کیے جاچکے ہیں۔“
”اور ہم آخری شکار ہیں۔“ محمود نے فوراً کہا۔
”آخری شکار بھئی واہ یہ تو کسی ناول کا نام ہوسکتا ہے۔“ فاروق نے خوش ہوکر کہا۔
”حد ہوگئی ان حضرت کو ایسے میں بھی ناولوں کے نام سوجھ رہے ہیں۔“ فرزانہ نے بھنا کرکہا۔
”بھئی ناولوں کے نام سوچنے کا کوئی وقت تو طے ہی نہیں اور پھر یہ نام مجھے نہیں محمود کو سوجھا ہے۔“ فاروق نے برا منا کر کہا۔
عین اسی وقت بنگلے کا دروازہ کھل گیا۔ اس وقت انہیں دروازے پر نگران کھڑے نظر نہیں آئے تھے۔
انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ کیا خیال ہے اندر جائیں یا نہ جائیں۔ یہ دیکھ کر انسپکٹر جمشید بولے۔
”جانا ہی ہوگا۔“
اور وہ اندر داخل ہوگئے۔ فوراً ہی ان کے نظر پولیس انسپکٹر پرپڑی۔ اس کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ تھی۔
”قربان بھائی! مجھے تم سے ایسی امید نہیں تھی۔“ خان رحمان خشک لہجے میں بولے۔
پولیس انسپکٹر زور سے اُچھلا۔ اس کی آنکھوں میں حیرت کے دیے جل اٹھے منہ کھل گیا۔
”حیرت ہے تم نے مجھے پہچان لیا خان رحمان۔“ اس نے یہ کہتے ہوئے کندھے اچکائے۔
”ہاں! ابھی ابھی پہچانا ہے تھوڑی دیر پہلے۔“
”حیرت ہوئی مجھے۔“
”لیکن یہ چکر کیا ہے۔“
”اس ملک کے چوٹی کے لوگوں کو ختم کرنے کے لیے یہ شکار گاہ بنائی گئی ہے۔ اس میں چن چن کر لوگوں کو بھرتی کیا گیا ہے۔ ایسے لوگوں کو جن میں ذرا بھی رحم نہیں ہے۔ رحم کرنا جو جانتے تک نہیں، انسانوں کو چیونٹی کی طرح مسل دینا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ جب انسپکٹر جمشید کی باری آئی تو میں نے تجویز پیش کی کہ انہیں میں خان رحمان کے ذریعے بلاسکتا ہوں کیونکہ خان رحمان بچپن میں میرے دوست رہ چکے ہیں، چنانچہ انہیں خط لکھ دیا گیا۔ ہمیں خدشہ تھا کہ انسپکٹر جمشید خط کی تحریر سے خطرے کی بو نہ سونگھ لیں، لیکن پھر خیال آیا کہ وہ یہ جاننے کے لیے تو آئیں گے ہی کہ یہاں چکر کیا چلایا جا رہا ہے، چنانچہ تم لوگ آگئے لیکن ہم نے سوچا کھیل کو فوراً ختم نہیں کیا جائے گا۔ ذرا تم لوگوں کی حیرت ، خوف اور گھبراہٹ کا نظارہ کیا جائے گا، لہٰذا قدم قدم پر قصبے کے شکاری لوگوں کو مقرر کردیا گیا یہ پورا قصبہ ہی شکاریوں سے پر ہے۔ یہاں آباد ہی ان لوگوں کو کیا گیا ہے۔ یہ سب قاتل اور مفرور ہیں۔ انسانی خون سے ہاتھ رنگتے ہیں۔ جن لوگوں نے سب سے زیادہ بے رحمی دکھائی اُنہیں یہاں آنے کی دعوت دی گئی۔ معقول تنخواہیں اور دوسری آسائشیں ان کے لیے مقرر کی گئیں، لہٰذا ایسے لوگ دوڑے آئے۔ بظاہر یہ بستی عام سی بستی ہے اور یہاں کے لیے یہ پولیس اسٹیشن وغیرہ منظور کردیا گیا ہے تاکہ لوگ امن سے رہ سکیں۔ چوری چکاری سے بچے رہیں، لیکن پولیس اسٹیشن میں بھی اپنی مرضی کے لوگ بھرتی کرائے گئے ہیں اور یہاں آنے کے بعد ان کے وارے نیارے ہوگئے ہیں۔ ایک تو تھا عیش، کرنا ہی کچھ نہیں اور سب ہی جرائم پیشہ، تو جرم کون کرےگا کس کے خلاف کرے گا۔ یہ جو چاہتے ہیں لے سکتے ہیں۔ تنخواہ بھی اس قدر ہے کہ دن رات خرچ کرو تو بھی دوسرے مہینے میں ختم نہیں ہوتی، لہٰذا انہیں کس چیز کی ضرورت رہ جاتی ہے اور پھر شکار کا پروگرام بھی مہینے میں ایک آد ھ بار بلکہ بعض اوقات تو دو تین ماہ میں ایک آدھ بار بنتا ہے۔“
”ایک منٹ جناب! یہ کون بتاتا ہے کہ کس آدمی کو شکار کیا جانا ہے۔“
”یہ حکم باقاعدہ انشارجہ سے ملتا ہے۔“
”اوہ ! تو یہ قصبہ اس نے آباد کیا ہے۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”ہاں! یہ کام ملکی نہیں، غیر ملکی ہے۔ انشارجہ اپنے پسندیدہ،افراد کو یہاں بلوا کر مروا رہا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ سرکاری طور پر جب پولیس سے پوچھاجائے تو یہ بتادیا جاتا ہے کہ شکار کھیلنے آئے ضرور تھے، لیکن اس کے بعد ہمیں نہیں معلوم کہاں گئے۔ اس قدر طویل و عریض جنگل اور پھر اس میں اس قدر خوفناک درندے اب ہمیں کیا معلوم کہ کس درند ے کا نوالہ بن گیا۔“
”ہوں جگہ بہت سوچ سمجھ کر چنی گئی ہے، لیکن شاید تم لوگ ایک بات بھول گئے۔“
”بھول گئے ہیں کون سی بات بھول گئے ہیں؟“
”میں ابھی نہیں بتاﺅں گا کہ تم لوگ کیا بات بھول گئے ہو۔“
”خیر خیر آگے چلو۔ ابھی تمہیں باقی لوگوں سے بھی ملواتا ہوں۔“
انہوں نے دیکھا، دروازے کے فوراً بعد ایک لمبا چوڑا سرسبز و شاداب باغ تھا۔ اس میں ہزار ہا قسم کے پھول کھلے اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ درخت بھی بہت عجیب عجیب قسم کے تھے اور بہت اونچے اونچے تھے۔ زمین پر بہت گہری گھاس تھی۔ انہیں اس پر چلتے ہوئے یوں لگاجیسے کسی بہت موٹے قالین پر چل رہے ہوں۔ اس میں پاﺅں دھنس دھنس جاتے تھے۔ باغ ختم ہونے پر انہیں لمبائی کے رخ سرمئی عمارت نظر آئی یعنی کمروں کی قطار دور تک چلی گئی تھی۔
درمیانے کمرے کے دروازے کے سامنے ایک شخص کھڑا تھا۔ دور سے وہ اسے پہچان تو نہ سکے، لیکن اس کا انداز ایسا تھا کہ جانا پہچانا محسوس ہوا۔
”اپنے دوسرے میزبا ن سے ملو۔“ قربان بھائی نے کہا۔
”ملوا لو قربان بھائی جس جس سے ملوانا ہے۔ تم لوگوں کا آخری وقت ہے۔“ خان رحمان نے سرد آہ بھری۔
”ہم لوگوں کا یا تم لوگوں کا۔“
”اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا۔“
”یہ تمام حالات آنکھوں سے دیکھنے کے بعدبھی تم یہ خیال رکھتے ہو۔“ اس کے لہجے میں حیرت تھی۔
”ہاں! اس لیے کہ ہم مسلمان ہیں۔ اپنے اللہ پر بھروسا رکھتے ہیں۔“
اور پھر وہ اس آدمی کے نزدیک پہنچ گئے۔ انہوں نے دیکھا، وہ کامران حمید تھا۔
٭ ….٭ ….٭
وہ اسے دیکھ کر مسکرائے۔
”ہم تمام اندازے پہلے ہی لگا چکے ہیں۔ جان گئے تھے کہ تم بھی دشمنوں کے ساتھی ہو اور اپنے فرضی بھائی کی گم شدگی کا ڈراما کررہے ہو۔“
”ہوسکتا ہے یہی بات ہو، لیکن شروع میں تم یہ بات نہیں جان سکے تھے۔ ورنہ اپنے بیوی بچوں کو میرے گھر کیوں چھوڑ تے۔“
”ہاں! اس وقت ہم دھوکا کھا گئے تھے، تو تم ہی یہاں کے کرتا دھرتا ہو۔“
”میں قربان بھائی، جوبیری یہاں کے خاص کارکن ہیں۔“
”اور باقی لوگ عام کارکن ہیں۔“
”ہاں بالکل۔“ اس نے کہا۔
”اور جان بیری ۔‘ ‘انسپکٹر جمشید بولے۔
”جان بیری اس قصبے کے انچارج ہیں۔ انشارجہ سے براہ راست احکامات ان کے پاس آتے ہیں۔“
”بہت خوب اب ہمیں ان سے بھی ملوادیں۔“
”کیوں نہیں وہ خود تم لوگوں سے ملنا چاہتے ہیں، آﺅ میرے ساتھ۔“
اب کامران حمید ان کے آگے آگے چلا، قربان بھائی ان کے پیچھے تھا۔ آخر وہ ایک کمرے میں داخل ہوئے۔ جوبیری کمرے میں ایک آرام دہ کرسی پر ہلکورے لیتا نظر آیا۔
”یہ لوگ آگئے ہیں سر۔“
”خوش آمدید آج بہت اونچا شکار ہم نے کیا ہے۔ یہ انشارجہ کا دعویٰ تھا۔ ہم ان لوگوں کو شکار نہیں کرسکیںگے۔ اس نے کہا تھا اگر تم شکار کرنے میں کامیاب ہوگئے تو تنخواہیں دوگنا کردی جائیں گی۔ باقی عیش و آرام اور سہولتیں بڑھا دی جائیں گی۔ اس کا مطلب ہے ہم یہ انعام جیت گئے۔“ جوبیری نے خوشی کے عالم میں کہا۔
”ابھی نہیں۔“انسپکٹر جمشید خشک لہجے میں بولے۔
”ابھی نہیں…. کیامطلب؟ ابھی کیوںنہیں؟ کیا تم اب بھی کچھ کر گزرنے کی پوزیشن میں ہو؟“
”اوہ! شاید تم سوچ رہے ہو۔ اس بنگلے میں بس یا تم لوگ ہو یا ہم لوگ اور تم ہم چند افراد سے نہایت آسانی سے نبٹ سکتے ہو، لیکن میرے پیارے شکارو، تم خوش فہمی میں مبتلا ہو۔ یہ عمارت بہت بڑا پنجرہ ہے اور تم اس وقت اس پنجرے میں آچکے ہو۔ کامران حمید، ذرا ان لوگوں کو بتانا کہ یہ ہمارے خلاف کچھ بھی نہیں کرسکتے اور ہم جو چاہیں کرسکتے ہیں۔“ اس نے فخر کے عالم میں کہا۔
”اپنے چاروں طرف دیواروں کو دیکھ لو۔ فوراً بات واضح ہوجائے گی۔“
انہوں نے چاروں طرف دیکھا۔ کمرے کی دیواروں پر مختلف جگہوں پر ان گنت سوراخ نظر آرہے تھے۔ ان سوراخوں میں سے کلاشن کوفوں کی نالیں جھانک رہی تھیں یہاں تک کہ چھت میں بھی سوراخ تھے۔
”ایک آدمی فائر کرے۔“ جوبیری نے آواز نکالی۔
فوراً ہی فائرنگ ہوئی اور گولیاں سامنے والی دیوار میں پیوست ہوگئیں۔
”یہ اس لیے کہ تم لوگوں کا نشانہ نہیں لیا گیا تھا۔ ورنہ یہ گولیاں بھی تم لوگوں کو چھلنی کرنے کے لیے کافی تھیں۔“
”لیکن ہمارے ساتھ تم بھی تو چھلنی ہوگے۔“ انسپکٹر جمشید نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”یہی تومزے کی بات ہے۔ یہ گولیاں ہمارا رخ نہیں کریں گی اور اگر کریں گی بھی تو ہمارا بال تک بیکا نہیں ہوگا۔ اب ہماری طرف رخ کرکے فائر کرو بھئی۔“ جوبیری نے کہا۔
اچانک ان کے جسموں پر فائرنگ ہوئی لیکن وہ کھڑے مسکراتے رہے۔ گولیاں ان کے جسموں سے ٹکراتی رہیں۔
”اب معلوم ہوا تم کہاں کھڑے ہو۔“
”ہاں! بالکل معلوم ہوگیا، لیکن مسٹر جان بیری کہاں ہیں؟“
”کیا جان بیری واقعی آپ کے چچا ہیں مسٹر جو بیری۔“
”ہاں! ہمیں براہ راست انشارجہ سے یہاں بھیجا گیا ہے تاکہ ہر کام ہماری نگرانی میں ہو۔“
”کمرے سے باہر نکلنے کی صورت میں بھی کیا ہم گولیوں کی زد پر ہوں گے۔“
”ہاں بالکل! اس وقت میں مختلف جگہوں پر چھپے لوگ تمہیں زد پر لیے رہتے ہیں اور انہیں صرف اور صرف ایک ہی حکم ہے یہ کہ وہ اپنی چھپی جگہوں سے ہرگز نہ نکلیں، چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہوجائے۔ مطلب یہ کہ فرض کیا تم لوگ کسی طرح ہم پر قابو پالیتے ہو، تو بھی وہ ہمیں چھڑانے کے لیے باہر نہیں نکلیں گے۔ بس اندھا دھند فائرنگ کردیں گے۔ اس فائرنگ کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارے جسم چھلنی ہوجائیں گے اور ہمارے جسموں پر خراش تک نہیں آئے گی۔ ہم سر سے پیر تک بلٹ پروف لباس میں ہیں۔“
”ٹھیک ہے مہربانی فرما کر ہمیں جان بیری سے بھی ملوادو۔“
”ضرور کیوں نہیں۔“
انہیں اس کمرے سے نکال کر اس دوسرے کمرے تک لے جایا گیا۔ درمیانی راستے میں انہوں نے دیکھا کہ واقعی مختلف جگہوں سے کلاشن کوفوں کی نالیں جھانک رہی تھیں۔ اس وقت انسپکٹر جمشید نے محسوس کیا کہ وہ واقعی بہت برے پھنس چکے ہیں، لیکن اپنے چہرے سے انہوں نے کسی قسم کا خو ف ظاہر نہیں ہونے دیا۔ کیونکہ ان کے چہرے پر خوف دیکھ کر ان کے ساتھی بھی حوصلہ ہار بیٹھتے۔ اب انہیں جس کمرے میں لایا گیا وہ پہلے کی نسبت زیادہ عالی شان تھا۔ سفید بالوں والا ایک غیر ملکی اس کمرے میں بچھے بستر پر لیٹا تھا۔
”تم لوگوں سے مل کر خوشی ہوئی اور اس لحاظ سے اور بھی خوشی ہوئی کہ یہ تم سے آخری ملاقات ہے۔ تم بھی ہم سے آخری بار مل رہے ہو۔ کہو انشارجہ کا یہ انتظام کیسا لگا۔“
”اچھا ہے لیکن تم اور انشارجہ ایک بات بھول گئے۔“
”اور وہ بات کیا ہے۔“ اس نے مسکر اکر کہا۔
”میں ابھی نہیں بتاسکتا۔“
”کیا تم جانتے ہو، میں نے تمہارے لیے کیسی موت تجویز کی ہے؟“
”بتادو، سن لیتے ہیں۔“
”تمہیں شیروں کی کچھار میں چھوڑ ا جارہا ہے۔ اگر تم ان شیروں سے بچ گئے تو بھی میرے آدمیوں سے نہیں بچ سکو گے کیونکہ میرے آدمی تمہیں اس صورت میں بھی زد پر رکھیں گے۔ مطلب یہ کہ ہم نے تمہارے بچ نکلنے کے تمام امکانات ختم کردیے ہیں۔“
”اور کوئی بات۔“
”بس اور کیا بات ہوگی کوئی آخری خواہش ہو تو بتادو کیونکہ پھر یہاں سے ابھی تمہیں شیروں کی کچھار میں بھیجا جارہا ہے اور مزے کی بات یہ کہ یہ منظر پورا قصبہ دیکھے گا۔“
”بھئی پھر تومزا رہے گا۔“
”ہاں! کوئی ایسا ویسا مزہ آج جیسا شکار انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔“
”اور وہ دیکھیں گے کیسے؟ کیا شیر انہیں کچھ نہیں کہیں گے۔“
”ابھی تم کچھ نہیں جانتے۔ لے چلو انہیں۔“
”وہ آخری خواہش رہ گئی۔“
”اوہ ہاں کہو۔“
”ہم اپنے ملک کے لوگوں کو ایک پیغام دینا چاہتے ہیں۔“
”اور وہ کیا۔“
”لیکن تم ہمارا پیغام کس طرح دے سکتے ہو؟ ہماری موت کے بارے میں تم بھلا کیوں کسی کو بتانے لگے۔“
”ہوں! یہ ٹھیک ہے۔ ہم تمہاری یہ آخری خواہش پوری نہیں کرسکیں گے۔“ جان بیری نے کہا۔
”تم کتنے بے بس ہو جان بیری! اپنے منہ سے پوچھا ہے کہ کوئی آخری خواہش بتاﺅ لیکن بات پوری کرنے کے قابل نہیں ہو۔“
”میرا مطلب تھا، کوئی چیز کھانے کی خواہش ہو تو میں پوری کرسکتا ہوں۔
”مرنے والوں کو بھوک نہیں ستاتی جن کے سروں پر موت سوار ہو وہ بے چارے کیا کوئی چیز کھانے کی تمنا کرسکتے ہیں۔“
”پھر بات وہی ہے۔ میں تم لوگوں کا پیغام تمہاری قوم کو نہیں دے سکتا۔“
”اچھی بات ہے۔ اب تمہیں جوکرنا ہے کر گزرو۔“
”انہیں شیروں کی کچھار میں لے چلو۔“ جان بیری نے کہا۔
انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا لیکن کوئی راستہ نظر نہ آیا۔ کوئی بات بنتی نظر نہ آئی۔ ہر طرف سوراخ تھے اور سوراخوں میں سے رائفلوں کی نالیں جھانک رہی تھیں۔
باہر نکلے تو درختوں پر کلاشنکوف بردار نظر آئے۔ ذرا بھی حرکت کرنا ان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ ان کے ذہن بھائیں بھائیں کرنے لگے۔ ایسے میں فاروق کی آواز سنائی دی۔
”ابا جان! آپ کا خیال درست نہیںتھا۔“
”کیامطلب؟ “ وہ چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔
”مجھے بے تحاشا بھوک ستا رہی ہے۔ مرنے سے پہلے کچھ کھانا چاہتا ہوں۔“
”حیر ت ہے تم ان حالات میں کچھ کھا سکتے ہو۔“
”ہاں ! بالکل کھاسکتا ہوں۔“
”اچھی بات ہے مسٹر جان بیری میرے بیٹے کی آخری خواہش پوری کرو۔“
”تم کیا کھانا پسند کروگے۔“
”تازہ پھل…. بالکل تازہ۔“
”ابھی حاضر کیے جاتے ہیں۔ انہیں پہلے کمرے میں بٹھایا جائے۔“
”اوکے سر!“ رستم گوشی پولیس انسپکٹر نے کہا ۔
اور پھر انہیں ایک کمر ے میںلایا گیا۔ تھوڑی دیر بعد فاروق کے سامنے سیب وغیرہ لاکر رکھ دیے گئے۔
”یہ تو تازہ نہیں ہیں۔ فریج سے نکال کر لائے گئے ہیں۔“
”تو پھر اس سے کیا ہوتا ہے۔“ جان بیری نے منہ بنایا۔
”اس سے یہ ہوتا ہے کہ آپ نے میری فرمائش پوری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔“
”اور میں نے وعدہ پورا کردیا ہے۔ کھانے ہیں کھاﺅ ورنہ شیروں کی کچھار میں چلنے کے لیے کھڑے ہوجاﺅ۔“
”جیسے آپ کی مرضی! آیئے ابا جان ہم اپنی زندگی کے آخری سیب کھالےں۔“
”یار ہمارا دل نہیں کررہا، تم کھاﺅ۔“ انسپکٹر جمشید نے جھلا کر کہا۔
”کھالیں ورنہ میں بھی نہیں کھاﺅں گا۔“
”حد ہوگئی نہیں کھاﺅگے تو ہمارا کیا جاتا ہے۔ نہ کھاﺅ…. چلو اٹھو۔“
”افسوس تم تو اتنا سا وعدہ بھی پورا نہ کرسکے۔“ فاروق نے دکھ سے کہا۔
”لیکن مسٹر جان بیری! ہم تمہاری آخری خواہش ضرور پوری کریںگے۔ لیکن شرط ایک ہے۔“ ایسے میں محمود نے شوخ انداز میں کہا۔
”کیا مطلب؟ شرط کیسی اور پھر تم میری آخری خواہش پوری کروگے۔ تم ہو کس کھیت کی مولی۔ تمہارے جسم کا بال بال اس وقت ہمارے قبضے میں ہے اور ابھی ہمارے بھوکے شیر تمہاری بوٹیاں نوچ ڈالیں گے۔ تین دن سے ہم نے انہیں کچھ کھانے کو نہیں دیا۔“
”ارے تو کیا وہ جنگل میں آزاد شیر نہیں ہیں۔“
”جنگل کے ایک حصے کو ہم نے سلاخوں سے گھیرلیا ہے۔ اس میں دروازے بھی ہیں۔ جنگل کے شیروں کے لیے ہم اکثر اس میں گوشت ڈال دیتے ہیں۔ شیر آتے ہیں اور گوشت چٹ کرجاتے ہیں۔ تین دن پہلے جب وہ آئے تو ہم نے تم لوگوں کے لیے دروازے بند کردیے اور اس طرح وہ جنگل کے اندر ہی رہ گئے۔ بھوکے ہونے کی وجہ سے وہ اس وقت کس قدر خونخوار ہیں یہ تم اندازہ تک نہیں لگا سکتے۔ میرا خیال ہے صرف چند منٹ میں تمہارا اس جنگل میں نام بھی نہیں ہوگا۔“
”ہوں تم نے واقعی بہت زبردست انتظامات کیے ہیں، لیکن ایک بات پھر بھی بھول گے ہو۔“
”پہلے بھی تم یہ جملہ کہہ چکے ہو۔ آخر ہم کیا بات بھول گئے ہیں۔“
”غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”پتا نہیں تم کیا کہنا چاہتے ہو؟“
”بس معلوم ہوجائے گا۔ تم ہمیں شیروں کے جنگل میں لے چلو۔“
”چلوبھئی دیکھتے ہیں یہ کیا تیر مارتے ہیں۔“ جان بیری زور سے ہنسا۔
اور پھر انہیں باہر لایا گیا۔ سیب جوں کے توں پڑے رہ گئے۔ بنگلے سے وہ جنگل کی طرف روانہ ہوئے۔ ان کے ہر طرف کلاشن کوفیں تنی ہوئی تھیں اور مشکل یہ تھی کہ جان بیری اور اس کے نزدیکی ساتھیوں کے جسموں پر مکمل طور پر بلٹ پروف لباس تھے۔ ان لباسوں کی موجودگی میں وہ بالکل محفوظ تھے کیونکہ انسپکٹر جمشید یا خان رحمان اگر ان میں سے کسی کو دبوچ لیتے تو بھی ان پر فائرنگ کردی جاتی اور اس طرح نقصان صرف انہیں ہوتا ورنہ عام حالا ت میں وہ اس قسم کے مواقع پر سب سے بڑے پر ہاتھ ڈال کر اسے اس طرح قابو کرلیتے تھے کہ وہ ان کا حکم ماننے پر مجبور ہوجاتا اور اسے بچانے کے لیے اس کے ساتھی فائر نہیں کر سکتے تھے۔ اس وقت کلاشنکوفوں والے انہیں نظر نہیں آرہے تھے۔ وہ بدستور اوٹ میں تھے۔ ہاں نالیاں ضرور نظر آرہی تھیں۔ چلتے چلتے آخر وہ جنگل کے کنارے پہنچ گئے۔
”تھوڑ ا سا سفر او ررہ گیا ہے۔ پھر موت کی حدود شروع ہوجائیں گی۔ ان شیروں سے بچنے کے لیے ہم نے بہت مضبوط سلاخوں والا جنگلا لگوایا ہے اور اس قدر اونچا بھی کہ شیر چھلانگ لگا کر اسے پھلانگ نہیں سکتے بلکہ اس کے نصف تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔“
”آپ کا مطلب ہے کہ شیر اس جنگلے کی اونچائی کے نصف تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”ہاں بالکل۔“ جان بیری نے فوراًکہا۔
”مسٹر جان بیری! یہ بہت بڑی ناانصافی ہے۔“ انہوں نے منہ بنایا۔
”کیا مطلب؟ کیسی ناانصافی۔“
”ان شیروںکے مقابلے میں ہمارے پاس کم از کم ایک آدھ ہتھیار تو ہونا چاہیے کم از کم ایک آدھ چاقو۔“
”اوہ ضرور کیوں نہیں۔ ہم تم لوگوں کو ایک چاقو دے دیتے ہیں۔“
عین اس وقت محمود منہ کے بل گر ااور جھونک میں چلتے ہوئے اوپر ہی انسپکٹر جمشید بھی گرے۔
”ارے ارے سنبھل کر آپ کو کیا ہوگیا ہے اباجان۔“ فرزانہ نے گھبر ا کر کہا اور انہیں اٹھانے کے لیے آگے بڑھی، لیکن اتنی دیرمیں وہ اٹھ چکے اور محمود کو بھی اٹھا چکے تھے۔
”موت کے خوف نے ان کی ٹانگوں سے جان نکال لی ہے۔“ جان بیری ہنسا، تو باقی بھی مسکرانے لگے۔
”نہیں ایسی کوئی بات نہیں، لیکن ٹھوکر انسان کو لگ ہی جاتی ہے۔“ انسپکٹر جمشید نے برا سا منہ بنایا۔
یہ قافلہ چلتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد انسپکٹر جمشید کی آواز ابھری۔
”شائستہ تم تھک گئی ہو میرے کندھے پر آجاﺅ۔“
”نہیں انکل! میں نہیں تھکی۔“ شائستہ نے کہا۔
”میں نے کہا نا، تم تھک گئی ہو جلدی آﺅ۔“ انسپکٹر جمشید کا لہجہ عجیب سا تھا۔ شائستہ نے اپنے جسم میں سنسنی سی محسوس کی وہ فوراً ان کے نزدیک ہوگئی اور انہوں نے اسے اپنے کندھے پر اٹھا لیا۔ پھر بولے۔
”خان رحمان تم ناز کو کندھے پر اٹھا لو یہ بھی تھکی تھکی سی ہے۔“
”نہیں انکل میں ٹھیک ہوں۔“
”اٹھالو خان رحمان مجھے اس پر ترس آرہا ہے۔“انہوں نے سرد آواز میں کہا۔
خان رحمان نے بھی اپنے جسم میں خوف سا محسوس کیا اور سمجھ گئے۔ یہ ایک طرح کا حکم ہے۔ انہوں نے فوراً ناز کو اپنے کندھے پر اٹھالیا۔
’کوئی چال چل رہے ہو کیا۔“ جان بیری نے چونک کر کہا۔
”اگر ہم کوئی چال چلنے کے قابل ہیں، تو ہمیں ضرور چلنی چاہیے۔ کیا تمہیں اپنی تدبیروں پر بھروسا نہیں ہے۔“
”ہے کیوںنہیں ہے۔“
”تب پھر تمہیں کیا فکر ہم کچھ بھی تدبیر کرلیں۔“
”ضرور کیوں نہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔“
”شکریہ۔“ وہ مسکرائے۔
پندرہ منٹ تک گھنے جنگل میں چلتے رہنے کے بعد آخر انہیں دور سے وہ جنگلا نظر آنے لگا جس کے دوسری طرف شیر تھے اور دوسرے درندے بھی تھے۔ جنگل سے اس طرف کے حصے کو ہر قسم کے درندوں سے پاک کردیا گیا تھا۔ اس لیے انہیں یہاں تک آنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی تھی۔
”منزل قریب آگئی ہے۔“ جان بیری نے سرسراتی آوازمیں کہا۔
ان کی نظریں جنگلے پر لگی تھیں۔ سامنے جنگلے میں ایک بڑا سا دروازہ نظر آرہا تھا اور اس پر بڑا سا تالا لٹک رہا تھا۔ جنگلے کے دوسری طرف انہیں کوئی شیر نظر نہ آیا۔
”یہاں تو ایک شیر بھی نہیں ہے۔“ فاروق بولا۔
”تم لوگوں کے اس طرف جانے کی دیر ہے، پھر دیکھنا کیا ہوتا ہے۔ وہ انسان کی بو اس قدر تیزی سے محسوس کرلیں گے کہ کیا بتاﺅں۔ ایک منٹ سے بھی کم وقت لگے کا ان کے لیے یہاں آنے میں۔“
”اچھی بات ہے کیا آپ ہمیں شیروں سے بچاﺅ کی مہلت دیںگے۔“ انسپکٹر جمشید نے سرسری انداز میں کہا۔
”کیامطلب ؟“جان بیری نے چونک کر کہا۔
”مطلب یہ کہ ہم اگر شیروں سے بچاﺅ کی کوشش شروع کریں، تو آپ کیا کریںگے۔“
”کچھ نہیں کریںگے اس جنگ کا نظارہ کریںگے۔“
”مطلب یہ کہ فائرنگ تو نہیں کریں گے نا ہم پر۔“
”فائرنگ کرکے مارنا ہوتا، تو یہاں تک کیوں لاتے ۔“
”دیکھ لیں! فائرنگ کا حکم نہ دے دیجیے گا۔“
”میں ابھی یہ اعلان کردیتا ہوں۔ سن لو بھئی کوئی ان پر جنگلے کے دوسری طرف سے فائرنگ نہیں کرے گا۔ ہاں اگر یہ کسی طرح جنگلے کے اس طرف آنکلیں تو ضرورفائرنگ کی جائے گی۔ مثلاً یہ سلاخوں کو پکڑ کر اوپر چلے جائیں اور اس طرف آنے کی کوشش کریں، تو ضرور فائرنگ کی جائے۔“ اس نے بہت بلند آواز میں کہا۔ اس کی آواز نے جنگل میںگونج پیداکردی۔
”تالا کھول دوبھئی۔“
ایک شخص آگے بڑھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک بڑی سی چابی تھی۔ اس نے تالا کھول ڈالا۔ یہ دیکھ کر جان بیری نے کہا۔
”ان لوگوں کو دوسری طرف کرنے کے بعد تالا پھر سے لگا دینا اور جلدی کرو شیر دوڑ لگا چکے ہوں گے۔ دروازہ بند ہونے سے پہلے یہاںنہ پہنچ جائیں۔“
”اوکے سر! چلو بھئی۔“
یہ لوگ آگے بڑھے اور دروازہ عبور کرنے لگے آخر میں انسپکٹر جمشید گزرنے لگے تو وہ تالے والے آدمی کے پاس لڑکھڑاگئے۔ اس طرح وہ اس سے ٹکرائے کہ تالا اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ ساتھ ہی تالے کو ان کی ٹھوکر غیرمحسوس طور پر لگ گئی اور تالا اندر کی طرف چلا آیا۔
”ارے ارے تالا اندر چلا گیا ہے اسے اٹھاﺅ۔“
”مم…. میں…. سر میں اندر جاکر تالا اٹھاﺅں؟“
”ہاں تو کیا ہوا ابھی شیر نہیں آئے۔“
”ان کے آنے لیجیے وہ آگئے۔ اب وقت نہیںرہا۔ ایسے ہی بند کردیتاہوں دروازہ۔“
عین اس وقت انسپکٹر جمشید کنڈے پر محمود کے چاقو سے وار کرچکے تھے۔ اس طرح کہ وہ کچھ بھی نہیں دیکھ سکے۔ کنڈا اگرچہ اپنی جگہ پر اٹکا رہ گیا تھا، لیکن اس حد تک کٹ چکا تھا کہ ایک ذرا سا دھکا لگتے ہی دروازہ کھل جاتا۔ اندر داخل ہوتے ہی وہ چلائے۔
”سلاخوں پر چڑھ جاﺅ خان رحمان تم ناز سمیت چڑھو میں شائستہ کو لے کر چڑھتا ہوں اور دروازے کے آس پاس رہو۔“
وہ بلا کی رفتار سے سلاخوں پر چڑھتے چلے گئے بیگم جمشید شہناز بیگم حامد اور سرور بھی اس کام میں پیچھے نہ رہے۔
”اس سے کیا ہوگا جمشید تم لوگ کب تک سلاخوں سے چمٹے رہوگے اس طرف تو تم آ نہیں سکو گے آخر کو نیچے گروگے اور شیروں کی خوراک بن جاﺅگے۔“
”دیکھا جائے گا۔“ انسپکٹر جمشیدبولے۔
وہ بدستور اوپر ہوتے رہے۔ صرف انسپکٹر جمشید دروازے کے عین اوپر پہنچ کر رک گئے۔
”ابا جان! آپ رک کیوں گئے؟ اس اونچائی تک تو شیر چھلانگ لگاسکتے ہیں۔“ محمو دنے گھبرا کرکہا۔
”تم میری فکر نہ کرو شائستہ کو اوپر کھینچ لو۔“
”بہتر۔“
وہ شائستہ کو اوپر لے گئے۔ ایسے میں انہوں نے سینکڑوں شیروں کو بلا کی رفتار سے آتے دیکھا۔ دروازے کے دوسری طرف جان بیری اور اس کے ساتھی کھڑے تھے اتنے شیروں کو دیکھ کر ان کے اوسان بھی خطا ہوگئے لیکن چوں کہ وہ جنگلے کے دوسری طرف تھے اس لیے کھڑے رہے۔ پھر جونہی شیر نزدیک آئے تو انسپکٹر جمشید نے پیر کی ایک ٹھوکر دروازے پر رسید کردی اور دروازہ ایک دم کھل گیا اور کنڈا ٹوٹ کر گرا۔ یہ منظر جان بیری نے صاف دیکھا۔
”ارے! یہ کیا۔‘ ‘ وہ پوری قوت سے دہاڑا۔
ادھر شیر دروازے کے پاس آچکے تھے اور دروازہ کھل چکا تھا۔ شیروں کو بالکل سامنے زمین پر جان بیری اور اس کے ساتھی کھڑے نظر آرہے تھے، لہٰذا انہوں نے فوراً ان کا رخ کیا او ر انسپکٹر جمشید ٹھوکر مارنے کے بعد اوپر ہوتے چلے گئے انہوں نے جان بیری اور اس کے ساتھیوں کی آنکھوں میں آخری بار خوف کا بے پناہ عالم دیکھا۔ اس کے ساتھ ہی ان گنت شیر ان پر ٹوٹ پڑے دیکھتے ہی دیکھتے ان کی تکہ بوٹی ہوگئی۔ اس کے بعد شیر اِدھر اُدھر دوڑے اور وہ خوف زدہ دشمن کلاشنکوفوں سے فائر بھی نہ کرسکا۔ اپنی جگہوں سے نکل نکل کر بھاگنے لگے۔ شیر ان کے تعاقب میں دوڑے اور ان کو نوالہ بنانے لگے۔ پھر تو ہر طرف شیر ہی شیر نظر آنے لگے اور ایک ایک آدمی کو چن چن کر انہوں نے شکار کیا۔ اس قدر لمبا چوڑا شکار کب ان کے ہاتھ لگا ہوگا۔ کئی گھنٹے تک یہ خونی شکار جاری رہا۔ وہ اس منظر کو صرف تصور کی آنکھ سے دیکھ سکتے تھے کیونکہ سلاخوں سے چمٹے ہوئے تھے۔ کئی گھنٹوں بعد شیروں کی واپسی ہوئی۔ وہ آہستہ آہستہ جنگل کی طرف آرہے تھے۔ اب وہ دوڑ نہیں رہے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ خوب پیٹ بھرنے کے بعد ان میں آسانی سے چلنے کی سکت تک نہیں رہی تھی ایک ایک کرکے وہ دروازہ عبور کرنے لگے۔ انہوں نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ بھرے پیٹ انہیں دیکھنے کی ضرورت بھی کیا تھا اور پھر شیروں کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ اس کے بعد بھی کچھ دیر تک وہ احتیاطاً سلاخوں سے چمٹے رہے۔ جب دیکھا کہ اب کوئی شیر نہیں آرہا تو نیچے اتر آئے۔ انسپکٹر جمشید نے تالا اٹھا لیا اور دروازہ بند کرنے کے بعد دو سلاخوں میں تالا لگادیا۔ چابی بھی وہیں مل گئی۔ اس کے ذریعے تالا لگا دیا گیا اب یہ شیر اس طرف نہیں آسکتے تھے۔
اب وہ بنگلے کی طرف بڑھے۔ جگہ جگہ انسانی لاشیں پڑیں تھیں۔ کسی انسان کا کوئی حصہ شیروں نے کھالیا تھا اور کسی کا کوئی حصہ۔ پورے کے پورے انسان بہت کم شیروں نے کھائے تھے۔ اس قدر بڑی مقدار میں انہیں کب شکار ملا تھا، لہٰذا وہ ایک حصہ پر حملہ کرتے رہے۔ انہیں بھنبھوڑتے رہے، نوچتے رہے اور آگے بڑھتے رہے۔ جب خوب پیٹ بھر گیا تو واپس لوٹ گئے۔ کچھ لوگ اگر بچ گئے تھے، تو بند گھروں میں اور وہ بھی اپنے گھروں کے دروازے بند کیے بیٹھے تھے انہیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ شیر جاچکے ہیں یا نہیں۔ ان میں دراوزے کھولنے کی اور باہر آنے کی جرا¿ت کہاں تھی۔ ان حالات میں وہ بنگلے تک پہنچ گئے۔ جان بیری اور جو بیری کی گاڑیوں میں بیٹھ کر وہ دارالحکومت کی طرف روانہ ہوئے۔ پل کے پاس انہیں گاڑیاں چھوڑنا پڑیں اور اس جگہ سے پیدل سفر کرنا پڑا۔ کئی گھنٹے پیدل چلے کے بعد کہیں جاکر انہیں ایک ٹرک پر لفٹ مل گئی اور پھر ایک قصبے سے انہیں کرائے کی گاڑیاں ملیں۔ اس طرح وہ دارالحکومت کی طرف تیز رفتار سے سفر کرنے کے قابل ہوسکے۔
دارالحکومت پہنچ کر انہوں نے جب یہ خبر اخبارات کو دی اور دوسرے دن کے اخبارات میں خبر شائع ہوئی تو پورے ملک میں ہلچل مچ گئی۔ ان کے گھروں کے گرد میلے کا سماں ہوگیا۔ ہر طرف سے مبارکبا د انہیں موصول ہونے لگی اور فاروق کو آخر کار کہنا پڑا۔
”یہ ساری مبارکباد تو ہماری آئندہ مہمات کے لیے بھی کافی ہوجائیں گی۔“
اور سب فاروق کے جملے پر مسکرانے لگے۔
٭…. ٭…. ٭
2 Comments
کیا انکی پی ڈی ایف مل سکتی ہے۔اپکی کویٰ ایپ ہے
PDF please