پاکستان ہمارا ہے
عثمان طفیل
رات کے اندھیرے میں اس کا گھر سے نکلنا خطرے سے خالی نہ تھا۔
”بتول…! اٹھو بتول…! آدھی رات بیت چکی ہے۔ سب تمہارا انتظار کر رہے ہوں گے۔” جاوید نے بستر پر سوئی بتول کو جھنجھوڑا۔ وہ جلدی سے اپنا دوپٹا ٹھیک کرتے ہوئے اُٹھ بیٹھی۔ پھر وہ دونوں دبے پائوں دروازے کی طرف بڑھے۔
انہیںیہ تو فکر تھی کہ بچے نہ جاگ جائیں مگر اس سے زیادہ ڈر اس بات کا تھا کہ کوئی پہرے دار انہیں گھر سے نکلتے نہ دیکھ لے۔ جاوید نے آہستہ سے دروازہ کھولا تو ہوا کا ایک سرد جھونکا ان سے ٹکرایا۔ بتول نے چپکے سے سرباہر نکالا اور خالی گلی دیکھ کر دوڑتی ہوئی کونے والے گھر کے سامنے پہنچ گئی۔ پہرے دار کسی بھی وقت آسکتے تھے۔
اس نے دروازہ دھکیلا تو وہ کھلتا چلا گیا۔ جاوید نے بتول کو اندر جاتے دیکھا تو واپس اپنے کمرے میں آگیا۔ دوسری طرف بتول کو لینے کے لیے دو لڑکیاں دروازے کے پاس ہی موجود تھیں۔ انہوں نے دروازہ بند کر کے اندر سے تالا لگا دیا۔ پھر وہ بتول کو لیے گھر کے اندرونی حصے کی طرف بڑھ گئی۔ پورے گھر میں خاموشی کا راج تھا۔
ایک کمرے میں پہنچ کر ان کے قدم رک گئے۔ فرش پر قالین بچھاہوا تھا۔ ایک لڑکی نے آگے بڑھ کر قالین ہٹایا تو وہاں ایک دروازے کے آثار نظر آئے۔
دیکھنے میںبالکل بھی اندازہ نہیںہوتا تھا کہ یہاںکوئی دروازہ ہے مگر قالین ہٹانے سے تہ خانے کا راستہ نظر آنے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ سب تہ خانے میںموجود تھیں۔ اوپر والے حصے میں گھر کے دو مرد ہی تھے جنہوں نے تمام کمروں کے دروازے اور کھڑکیاں بند کر رکھی تھیں جب کہ دروازوں کے آگے بھاری پردے لگا دیے تھے۔ پوری کوشش کی گئی تھی کہ اس گھر سے کسی بھی قسم کی آواز باہر نہ جا سکے۔ تہ خانے میں محلے بھر سے کوئی درجن بھر خواتین جمع تھیں۔
بتول کے پہنچتے ہی سب نے خوشی کا اظہار کیا اور پھر اپنے اپنے کام میں جُت گئیں۔
ان کے سامنے کپڑے کے کئی تھان تھے جو چند نوجوانوں نے اپنی جان پر کھیل کر یہاں پہنچائے تھے گو کہ کچھ روز قبل ہی فوج نے یہ سارا علاقہ چھان مارا تھا۔ ہر گھر کی تلاشی لی گئی بلکہ تلاشی کیا ہر چیز ادھیڑ کر رکھ دی تھی مگر ان کے ہاتھ یہ تھان نہ لگ سکے۔ اگر انہیں ذرا سی بھنک پڑ جاتی کہ یہ تھان اس گھر کے خفیہ تہ خانے میں ہیں تو وہ سارا فرش اکھیڑ دیتے۔
دو رنگی کپڑے کے یہ تھان انہیں زہر لگتے تھے۔ بہر حال کپڑے کے یہ تھان فوج کو ملنے تھے نہ ملے۔ اس وقت کئی خواتین بتول کی دی گئی پیمائش کے مطابق کپڑا کاٹ رہی تھیں۔ ان کے پاس صرف دوسلائی مشینیں تھیں۔
فوجیوں کا بس چلتا تو اگست کے آنے سے ایک ماہ قبل ہی ہر گھر سے سلائی مشین اٹھا لیتے لیکن وہ ایسا نہ کر سکے۔ وقت گزرتا گیا۔ بتول اور اس کی ایک سہیلی مسلسل سلائی مشین چلاتی رہیں۔ فجر کی اذان ہوتے ہی ساری خواتین ایک ایک کرکے چپکے سے واپس گھروں کو جانے لگیں۔ جس طرح ان کا آنا بہت بڑا خطرہ تھا اس طرح واپس جانا بھی خطرے سے خالی نہ تھا۔
اگر کوئی ایک لڑکی اور اس کے پاس موجود دورنگی کپڑا پکڑا جاتا تو پورا علاقہ فوجیوں کے عتاب کا شکار ہوجاتا۔ بہرحال اللہ نے ہر سال کی طرح اِس بار بھی ان کی حفاظت کی اور سب سے آخر میں بتول بھی اپنے گھر پہنچ گئی۔ 11 اگست کا سورج طلوع ہونے میں کچھ وقت باقی تھا اور ابھی مزید دو راتیں بتول نے اسی طرح گزارنی تھیں۔
کشمیر کی بیٹی بتول کو علم تھا کہ اگر وہ پکڑی گئی تو فوجی اس کے ساتھ کیا سلوک کریں گے مگر اپنے وطن کے لیے اسے اپنا آپ بہت چھوٹا محسوس ہوا ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اگلی دو راتیں بھی چھپتے چھپاتے گلی کے کونے والے گھر گئی اور فجر سے پہلے واپس آگئی۔ اب اگلی رات مردوں کے لیے آزمائش لیے ہوئے تھی۔ بتول اور باقی کئی خواتین اپنا فرض ادا کر چکی تھیں۔
13 اور 14 اگست کی درمیانی شب مردوں کی مختلف ٹولیاں بن گئیں۔ یہ سب پہلے سے طے شدہ تھا۔ انہوں نے انتہائی خاموشی سے اپنا کام کیا اور واپس گھروں کو آگئے۔ کئی جگہ فوجیوں سے ٹکرائو ہوتے ہوتے بچا۔
14اگست کا سورج طلوع ہوا تو قابض فوج سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ ان کی ہزار کوششوں کے باوجود سارے کشمیر میںسبز ہلالی پرچم لہرا رہے تھے۔ کچھ بہادر جیالوں نے تو سرکاری عمارتوں پر بھی یہ پرچم لہرا دیا تھا۔ مختلف علاقوں سے کشمیری باشندے گروہوں کی شکل میںمرکزی چوراہوں کی طرف بڑھنے لگے۔ ان کے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم تھے جو بتول جیسی کشمیری بیٹیوں نے اپنا سب کچھ دائو پر لگا کر تیار کیے تھے۔
اس پرچم کی شان اور کشمیریوں کے عزم و استقلال کے آگے ساڑھے آٹھ لاکھ قابض فوج اپنے تمام تر اسلحے اور رعونت سمیت بے بس تھی۔ پھر ایک نورانی چہرہ نمودار ہوا۔ آزادی کے سبھی متوالے اس کی طرف بڑھنے لگے۔ فضا میں مظلوم کشمیری مسلمانوں کی آواز گونج رہی تھی۔
ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے
ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے
٭…٭…٭