اشتیاق احمد بچوں کے جاسوسی ناولوں کا ایک بے حد بڑا نام ہے. انہوں نے آٹھ سو سے زائد ناول لکھے جو اردو زبان اور کسی اور زبان میں کسی مصنف کے ہاتھوں لکھے گئے ناولوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
ان کی مشہور ترین سیریز انسپکٹر جمشید سیریز ہے ، اس کے علاوہ انہوں نے انسپکٹر کامران سیریز اور شوکی برادرز کے ناولز بھی لکھے لیکن انسپکٹر جمشید سیریز کو قارئین میں بے حد پذیرائی ملی۔
پروفیسر داﺅد اور ان کی بیٹی شائستہ ایک دکان سے نکلے۔ ان کے ہاتھوں میں خریدی ہوئی چیزوں کے بنڈل تھے۔ سڑک کے کنارے ان کی نیلے رنگ کی کار کھڑی تھی۔ دونوں کار میں بیٹھ گئے پھر انہوں نے کار موڑ لی اور گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ اچانک شائستہ چونک اٹھی۔
”ابا جان! ایک سرخ کار ہمارے پیچھے آرہی ہے۔“ شائستہ نے بیک ویو آئینے میں دیکھتے ہوئے کہا۔
”تو کیا ہوا۔ ہمارے پیچھے تو بہت سی کاریں ہیں۔“
”ابا جان! جب ہم گھر سے چلے تھے تو اس وقت بھی یہ کار ہمارے پیچھے تھی۔“
”یہ اتفاق بھی ہو سکتا ہے۔“
”اور سیاہ کپڑوں میں جو شخص کار چلا رہا ہے، میں نے اسے دکان کے اندر بھی دیکھا تھا کیا یہ بھی اتفاق ہے۔“
”کیا۔ یہ شخص دکان میں بھی ہمارے پیچھے تھا؟“
”ہاں!“
”اوہ! پھر تو بات خطرے والی ہے۔“
”جی ہاں۔ کار میں پچھلی سیٹ پر تین آدمی اور بھی ہیں۔“
”ہوں! تم ٹھیک کہتی ہو۔“
”اور آگے جا کر ہو سکتا ہے یہ اپنی کار کو آگے نکال لیں اور پھر ہمیں کار روکنے پر مجبور کر دیں۔“
”ہاں! ایسا ہو سکتا ہے۔“
”تو پھر۔ کیا یہ بہتر نہیں رہے گا کہ آپ کوٹھی کی طرف جائیں ہی نہ۔“
”تو پھر۔ کسی پولیس اسٹیشن چلوں؟“
”ہاں! یہ ٹھیک رہے گا۔“ شائستہ نے ان کی بات مانتے ہوئے کہا۔
پروفیسر داﺅد نے تیزی سے اپنی کار ایک دوسری سڑک پر موڑ لی اور پوری رفتار پر چھوڑ دی لیکن یہ دیکھ کر ان کی پریشانی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ سرخ کار نے بھی اتنی ہی تیزی سے موڑ کاٹا تھا اور اب وہ پھر ان کے پیچھے تھی۔
”اب کوئی شک نہیں رہا۔ یہ ضرور ہمارا تعاقب کر رہے ہیں اور ان کے ارادے بھی نیک نہیں ہیں۔“
”ہاں! آپ کا خیال ٹھیک ہے۔ کیا اس سڑک پر کوئی پولیس اسٹیشن ہے؟“
”معلوم نہیں۔ مجھے بھلا پورے شہر کے پولیس اسٹیشنوں کے بارے میں کیسے معلوم ہو سکتا ہے۔“
”آپ رفتار کیوں نہیں بڑھاتے؟“ شائستہ نے کہا۔ ”انہیں آگے نہ نکلنے دیجئے گا۔“
”ابھی تو انہوں نے آگے نکلنے کی کوشش کی نہیں۔“
”سڑک خالی دیکھ کر نکلیں گے۔ آپ یوں کریں، سڑک پر کوئی موڑ آئے تو گاڑی ایک دم اس پر موڑ دیں۔“
”کیوں؟ اس سے کیا ہو گا؟“
”ہو سکتا ہے اس سڑک پر کوئی پولیس اسٹیشن ہو یا کوئی پولیس والا نظر آجائے۔“
”اب تو مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ ہم کون سی سڑک پر ہیں۔“ پروفیسر نے گھبرا کر کہا۔
”رفتار تیز کر دیں۔ دیکھا جائے گا۔“ شائستہ نے کہا۔
پروفیسر داﺅد نے ایک بار پھر رفتار بڑھائی۔ اسی وقت سڑک آگے سے ایک طرف مڑتی نظر آئی۔ انہوں نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ، کار اس سڑک پر موڑ دی۔
”ارے! اس سڑک پر تو انکل جمشید کا گھر ہے۔“ شائستہ چلائی۔
”ہاں! یہ سڑک وہی ہے۔“
”تو پھر آپ سیدھے ان کے گھر کی طرف چلیں۔“
”ٹھیک ہے۔ تم فکر نہ کرو۔ اس سے پہلے کہ سرخ کار ہمارے پاس پہنچے ہم انسپکٹر جمشید کے گھر میں پناہ لے چکے ہوں گے۔“
”گڈ!“ شائستہ کے منہ سے نکلا۔
جونہی انسپکٹر جمشید کا گھر قریب آیا، پروفیسر داﺅد نے کار سڑک سے نیچے اتارتے ہوئے ایک دم بریک لگائے اور ساتھ ہی انہوں نے کار کا دروازہ کھول دیا۔ دوسری طرف شائستہ بھی دروازہ کھول چکی تھی۔ دونوں تیزی سے انسپکٹر جمشید کے گھر کی طرف دوڑے۔
ادھر وہ دروازے پرپہنچے ادھر سرخ کار ان کی کار سے تھوڑے فاصلے پر آکر رکی۔ وہ چاروں کار سے اتر کر ان کی طرف دوڑے۔
”ابا جان! دروازہ بند ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم گھنٹی بجا کر دروازہ کھلوائیں وہ لوگ یہاں پہنچ جائیں گے۔“ شائستہ بوکھلا گئی۔
”پھر کیا کریں۔“ پروفیسر کے منہ سے نکلا۔
”آئیے۔ پائیں باغ میں رینگ جائیں۔ اس وقت وہ لوگ ہمیں نظر نہیں آرہے ہیں۔“
”ٹھیک ہے۔“
دونوں تیزی سے جھکے اور جھکے جھکے پائیں باغ میں داخل ہو گئے۔
اس کے تقریباً تیس سیکنڈ بعد دوڑتے قدموں کی آواز آئی اور وہ چاروں دروازے پر پہنچ گئے۔
باڑھ کے پیچھے چھپے ہوئے پروفیسر داﺅد اور شائستہ نے دیکھا وہ دروازے کی گھنٹی بجا رہے تھے۔ سورج غروب ہو چکا تھا اور تاریکی پھیلتی جا رہی تھی۔
٭……..٭
شام کی چائے آج انہوں نے دیر سے پی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انسپکٹر جمشید دفتر سے ابھی تک نہیں لوٹے تھے۔ پہلے تو وہ چائے کی میز پر ان کا انتظار کرتے رہے اور جب وہ نہ آئے تو محمود نے شیرازی صاحب کے ہاں جا کر فون پر معلوم کیا کہ اس کے والد دفتر سے ایک چوری کے کیس کی تحقیقات کرنے چلے گئے ہیں اور آج دیر سے لوٹیں گے۔
چنانچہ انہوں نے چائے پی لی اور اب وہ ناشتے کی میز پر ہی بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔
”آج کل چوروں کو بھی آرام نہیں۔ چوریوں پر چوریاں ہو رہی ہیں۔“ فرزانہ کہہ رہی تھی۔
”وہ تمہاری طرح کام چور تو نہیں ہیں۔“ فاروق نے فوراً کہا۔
”اگر مجھے کام چور کہا تو اچھا نہ ہو گا۔“ فرزانہ کو غصہ آگیا۔
”تو پھر تمہیں کیا کہا جائے تاکہ اچھا ہو سکے۔“ فاروق شریر انداز میں مسکرایا۔
”بس بس! مجھ سے بات نہ کرو۔“
”کیوں! تم سے بات کرنا جرم ہے؟“ فاروق بھی اس کے پیچھے پڑ گیا تھا۔
”اُف! کس سے پالا پڑا ہے۔“ فرزانہ نے دونوں کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔
”فاروق سے۔“
”سمجھوں گی تم سے۔“ فرزانہ نے جل کر کہا۔
”جو سمجھنا ہے، ابھی سمجھ لینا ورنہ ابا جان آجائیں گے اور اگر انہوں نے تمہیں کچھ سمجھتے دیکھ لیا تو پھر وہ بھی تمہیں وہی کہیں گے۔“
”وہی کیا؟“
”کام چور!“
”معلوم ہوتا ہے امی، یہ دونوں آج لڑے بغیر نہیں رہیں۔“ محمود نے دخل دیا۔
”تمہارا بھی جی چاہ رہا ہے کیا؟“ فرزانہ اس پر الٹ پڑی۔
”لو۔ اب مجھ پر برس پڑیں۔“ محمود نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
”کیا بات ہے فرزانہ آج تمہارا موڈ کیوں خراب ہے؟ ان دونوں سے اگر ٹھنڈے دماغ سے لڑو گی تو اچھی رہو گی۔“ بیگم جمشید نے مسکرا کر کہا۔
”امی جان۔ آپ نے سنا نہیں۔ فاروق نے مجھے کام چور کہا ہے۔ وہ بھی ایک بار نہیں۔ دوبار۔“
”دوبار؟ نہیں تو ایک بار ہی تو کہا ہے۔“ فاروق نے حیرت سے کہا۔
”ہاں! دوسری بار تو اس نے ابا جان کی طرف سے کہا تھا۔“ محمود پھر ہنسا۔
”دیکھا۔ میں نے کہا تھا نا۔ ٹھنڈے دل سے کام لو۔“ بیگم جمشید پھر مسکرائیں۔
”آپ بھی ان ہی کی طرف داری کر رہی ہیں۔“ فرزانہ جھنجھلا گئی۔
”آج تمہیں ہوا کیا ہے؟“ انہوں نے پوچھا۔
”میں ابا جان کی وجہ سے پریشان ہوں۔ نہ جانے کس وقت آئیں۔“
”وہ دیر سے آئیں گے۔“
”اسی لیے تو پریشان ہوں۔“
”معلوم ہوتا ہے، کوئی بڑی واردات ہو گئی ہے۔“ فاروق نے کہا۔
”ہوں! ایسا ہی ہو گا۔“ محمود نے تائید کی۔
”کیا باہر کا دروازہ بند ہے۔“ بیگم جمشید نے پوچھا۔
”جی ہاں! میں نے بند کیا تھا۔“ محمود نے بتایا۔
”تو ٹھیک ہے۔“
”کیوں نہ کیرم کی بازی لگائی جائے۔“ فاروق نے تجویز پیش کی۔
”خیال بُرا نہیں ہے۔“ محمود نے کہا۔
”تو میں لاتی ہوں۔“ فرزانہ اٹھتی ہوئی بولی۔
عین اسی وقت دروازے کی گھنٹی بجی۔
”شاید ابا جان آگئے۔“
”ہوں! میں دیکھتا ہوں۔“ محمود دروازہ کی طرف بڑھا۔
اس نے دروازہ کھول دیا پھر بری طرح چونکا۔ دروازے میں چار لمبے تڑنگے بدمعاش کھڑے تھے۔
”کیوں؟ کیا بات ہے؟“ محمود نے ناگواری سے کہا۔
”اس گھر میں ابھی ابھی ایک بوڑھا شخص اور ایک بچی داخل ہوئے ہیں۔ ہمیں ان سے کچھ کام ہے۔“
”لیکن یہاں تو کوئی بھی نہیں گھسا۔“ محمود نے حیران ہو کر کہا۔
”تم جھوٹ بولتے ہو۔ وہ دونوں ہمارے سامنے اس دروازے پر آئے تھے۔“
”کیا بات ہے محمود؟“ اندر سے بیگم جمشید نے پوچھا۔
”ہٹو! ہم مکان کی تلاشی لیں گے۔“ ان میں سے ایک نے محمود کو دھکیلتے ہوئے کہا۔
”تم تلاشی نہیں لے سکتے۔ تمہیں کیا حق ہے۔“ محمود بھی تن کر کھڑا ہو گیا۔
دوسرے ہی لمحے بیگم جمشید، فاروق اور فرزانہ بھی وہاں پہنچ گئے۔
”کیا بات ہے؟ کون ہو تم لوگ؟“ بیگم جمشید نے جھلا کر کہا۔
”آپ کے مکان میں ایک بوڑھا اور ایک لڑکی داخل ہوئے ہیں۔ ہمیں ان سے کچھ کام ہے۔ انہیں باہر بھیج دیں۔“
”تم غلط کہتے ہو۔ مکان میں ہم چاروں کے سوا کوئی نہیں ہے۔“
”اگر یہ سچ ہے تو ہمیں مکان کی تلاشی لے لینے دیں۔“
”تم کون ہوتے ہو تلاشی لینے والے۔“ بیگم جمشید نے تنک کر کہا۔
”ہمیں کون روک سکتا ہے۔“
”اگر تم مکان میں داخل ہوئے تو تمہار اانجام اچھا نہیں ہوگا۔“ محمود نے کہا۔
”ہٹو پیچھے۔ اسرار تم دروازے پر ہی ٹھہرو۔“ ان میں سے ایک نے کہا اور وہ تینوں انہیں دھکیلتے ہوئے اندر داخل ہو گئے۔
”تم بھگتو گے۔“
”بھگت لیں گے۔“ اسی نے کہا جس نے اسرار کو باہر ٹھہرنے کے لیے کہا تھا۔ پھر وہ اپنے دونوں ساتھیوں سے بولا۔ ”پرویز، وزیر سارے گھر کی تلاشی لو۔ میں ان چاروں کے پاس ٹھہروں گا۔“
”بہت اچھا استاد۔“ ان میں سے ایک نے کہا اور مکان کے ایک کمرے میں گھس گئے۔
”تمہاری بھلائی اسی میں ہے ان دونوں کو خود ہی ہمارے حوالے کر دو۔“
”اس گھر میں کوئی بوڑھا اور لڑکی داخل ہی نہیں ہوئے تو حوالے کہاں سے کر دیں۔“ بیگم جمشید نے جھنجھلا کر کہا۔
”ہم نے اپنی آنکھوں سے انہیں اس مکان میں داخل ہوتے دیکھا ہے۔“
’خیر۔ تمہیں معلوم ہو ہی جائے گا۔ ویسے وہ دونوں کون ہیں اور تم انہیں کیوں پکڑنا چاہتے ہو۔“ محمود نے پرسکون آواز میں کہا۔
”یہ ہمارا کاروباری معاملہ ہے۔ ہم اس کے متعلق تمہیں کچھ نہیں بتائیں گے۔“
”تمہاری مرضی۔“ محمود نے شانے جھٹکے۔
”تم لوگ کیا کام کرتے ہو؟“ بدمعاشوں کے استاد نے پوچھا۔ اس کا منہ محمود کی طرف تھا۔
”پڑھتے ہیں۔“ محمود کے بجائے فاروق نے جواب دیا۔
”میر امطلب تھا، تمہارے والد کیا کام کرتے ہیں۔“
”وہ سرکاری ملازم ہیں۔“ محمود نے گول مول جواب دیا۔
”خود تم لوگ کیا کیا کرتے ہو۔“ فرزانہ نے نفرت سے منہ بناتے ہوئے کہا۔
”ہم؟ ننھی لڑکی۔ کیا کرو گی معلوم کر کے؟ یہ تمہارے جاننے کی باتیں نہیں ہیں۔“
”اچھا۔“ فرزانہ نے حیرت کا اظہار کیا۔
”ہاں۔ اس مکان میں کتنے کمرے ہیں؟“ استاد نے پوچھا۔
”چھ کمرے۔“ فاروق بولا۔
”ہوں! تمہارے والد کہاں گئے ہیں؟“
”کسی کام سے گئے ہیں۔ آتے ہی ہوں گے۔“ فاروق نے گویا انہیں دھمکی دی۔
”ان کے آنے سے پہلے ہمارا کام ختم ہو جائے گا۔“
”آخر وہ دونوں کون ہیں اور تم ان سے کیا چاہتے ہو؟“
فاروق نے پیچ و تاب کھاتے ہوئے کہا۔
”میں نے کہا نا۔ یہ نہیں بتا سکتا۔“
اسی وقت اس کے دونوں ساتھی وہاں پہنچ گئے۔
”وہ دونوں مکان میں نہیں ہیں۔“ ان میں سے ایک بولا۔
”کیا بکتے ہو۔“
”وزیر ٹھیک کہتا ہے استاد۔ ہم نے مکان کا چپہ چپہ چھان مارا لیکن ان دونوں کا کہیں پتا نہیں چلا۔“ پرویز بولا۔ ”حیرت ہے۔ ہم نے خود مکان کے پھاٹک میں انہیں داخل ہوتے دیکھا ہے۔“ استاد نے کہا۔
”استاد۔“ پرویز چونکا۔
”کیا بات ہے؟“
”کہیں وہ دونوں بائیں ہاتھ کے باغ میں نہ گھس گئے ہوں۔“
”اوہ! تم ٹھیک کہتے ہو۔ ہم سے غلطی ہو گئی جو پہلے وہاں نہیں دیکھا۔“ استاد بولا۔
”تو کیا ہوا استاد۔ اسرار دروازے پر موجود ہے۔ وہ نکل کر نہیں جا سکے ہوں گے۔ ضرور وہ دونوں باغ میں چھپے ہوں گے۔“
”تو آﺅ۔ جلدی کرو۔“
تینوں تقریباً دوڑتے ہوئے باہر نکل گئے۔
٭……..٭
ان کے باہر نکلتے ہی محمود اور فاروق اپنے کمرے کی طرف لپکے۔
”کیوں تم کہاں جا رہے ہو؟“
”ہم دیکھنا چاہتے ہیں، وہ دونوں بدنصیب کہیں سچ مچ باغ میں چھپے تو نہیں ہیں۔“
”میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں۔“ فرزانہ نے کہا۔
”اور میں دروازہ اندر سے بند کر کے تمہارے پاس آتی ہوں۔“ بیگم جمشید بولیں۔
محمود اور فاروق نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولتے ہی کھڑکی تک پہنچنے میں پھرتی دکھائی۔ دوسرے ہی لمحے انہوں نے کھڑکی کھول دی۔ عین اسی وقت تینوں بدمعاش مکان سے باہر نکل کر دروازے پر پہنچ چکے تھے اور اپنے ساتھی اسرار سے پوچھ رہے تھے۔
”اس باغ میں سے کوئی نکلا تو نہیں۔“
”باغ میں سے کیا مطلب؟“ اس نے حیران ہو کر پوچھا۔
”وہ دونوں اندر نہیں ہیں۔“
”تو کیا وہ دونوں باغ میں ہیں؟“
”خیال تو یہی ہے۔“
”لیکن اندر تو اندھیرا ہے۔ وہ ہمیں نظر نہیں آئیں گے۔“ اسرار نے کہا۔
”تم تینوں دروازے پر ہی ڈٹے رہو۔ میں کار میں سے ٹارچ نکال لاتا ہوں۔“ استاد نے کہا اور وہاں سے چلا گیا۔
”کہیں باغ میں سے نکلنے کا کوئی راستہ دوسری طرف نہ ہو۔“ اسرار نے کہا۔
”اگر کوئی دوسرا راستہ ہو گا تو وہ کب کے جا چکے ہوں گے۔“ وزیر بولا۔
”ہاں یہ تو ہے۔“
”اور اگر ایسا ہوا تو آج ہماری بھی شامت آجائے گی۔“
”دیکھا جائے گا۔“ استاد بھی تو ہمارے ساتھ ہے۔ وہ خود ہی جواب دے دے گا۔“
اسی وقت محمود نے دو سایوں کو کھڑکی کی طرف بڑھتے دیکھا۔
”فاروق! ان دو سایوں کو دیکھ رہے ہو۔ یہ ضرور وہی دونوں ہیں۔“
”شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔“
”اگر یہ دونوں پکڑے گئے تو نا جانے یہ لوگ ان کے ساتھ کیا سلوک کریں۔“
”تو پھر؟“ فاروق نے پوچھا۔
”ہمیں ان کی مدد کرنی چاہیے۔“
”لیکن ان کی مدد کرتے کرتے ہم خود مصیبت میں نہ پھنس جائیں۔“ فاروق نے خدشہ ظاہر کیا۔
”پھنستے ہیں تو پھنس جائیں۔ لیکن مصیبت زدوں کی مدد تو کرنی ہی چاہیے۔“
”تو ٹھیک ہے۔ اس سے پہلے کہ ان کا ساتھی ٹارچ لے کر آئے، ان دونوں کو اوپر چڑھا لو۔“
”اور اوپر چڑھاتے ہی دروازہ بند کر دو۔“
”ٹھیک ہے۔“
عین اسی وقت وہ دونوں کھڑکی کے نیچے پہنچ گئے۔
”اِدھر آجائیے۔“ محمود نے سرگوشی کی۔ اندر اسی وقت بیگم جمشید بھی داخل ہو گئیں۔
محمود نے ہاتھ نیچے لٹکا دیا تھا۔ دوسرے ہی لمحے ایک ننھا منا سا ہاتھ اس کے ہاتھ میں آگیا۔ اس نے اسے اوپر کھینچ لیا۔ کمرے میں بھی اندھیرا تھا اور انہوں نے بجلی کا بلب احتیاطاً روشن نہیں کیا تھا۔ اندھیرے میں انہوں نے دیکھا کہ یہ کوئی لڑکی تھی۔
اس کے بعد محمود اور فاروق دونوں نے اپنا اپنا ہاتھ نیچے لٹکا دیا۔ ان دونوں کے ہاتھوں کو دو ہاتھوں نے مضبوطی سے پکڑ لیا۔ ساتھ ہی دروازے کی طرف سے آواز آئی۔
”میں ٹارچ لے آیا ہوں۔ آﺅ اندر دیکھیں۔“ یہ استاد کی آواز تھی۔
”کیوں نہ ہم میں سے ایک دروازے پر ہی ٹھہرے۔“ اسرار نے پوچھا۔
اس سے پہلے کہ وہ تینوں ٹارچ لیے باغ میں داخل ہوتے، محمود اور فاروق بوڑھے آدمی کو کھینچ کر کھڑکی بند کر چکے تھے۔
٭……..٭
وہ تینوں باغ میں داخل ہوئے۔ استاد سب سے آگے تھا۔ ٹارچ اس کے ہاتھ میں تھی۔ یہ ایک چھوٹا سا پائیں باغ تھا۔ اس میں پھولوں اور پھلوں کے بے شمار پودے تھے۔ ٹارچ کی روشنی درختوں، پودوں اور باڑھ پر رینگنے لگی۔
”ہم سے ایک غلطی ہو گئی ہے۔“ پرویز کو اچانک خیال آیا۔
”وہ کیا؟“ وہ ٹھٹک کر رک گئے۔
”ہمیںچاہیے تھا کہ اسرار کو پروفیسر کی کار کے پاس کھڑا کر دیتے۔ ہو سکتا ہے وہ دونوں کسی طرف سے نکل کر کار تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں۔“
”ہوں! بات تو ٹھیک ہے۔ اچھا۔ تو تم جا کر اسرار سے کہہ دو۔“ استاد نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ پھر بولا۔
”اور تم خود دروازے پر ٹھہرنا۔“
”اچھا۔“ پرویز چلا گیا۔
وزیر استاد کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے لگا۔ انہوں نے پوری باڑھ اور تمام درخت دیکھ ڈالے لیکن پروفیسر اور ان کی بیٹی کا کہیں پتا نہ چلا۔
”حیرت ہے۔ انہیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔ آخر وہ کہاں چلے گئے۔“
”اور پھر ان کی کار باہر ہی موجود ہے۔“
”خیر! وہ یہاں سے کچھ فاصلے پر جا کر ٹیکسی لے کر جا سکتے ہیں۔ کار، جان سے زیادہ پیاری تو نہیں ہو سکتی نا۔“
”ہوں! پھر کیا کیا جائے؟“
”ایک چکر اور لگا کر دیکھ لیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ کسی درخت یا پودے کے پیچھے چھپے ہوئے ہوں اور ہمیں نظر نہ آئے ہوں۔“
”مجھے امید نہیں۔ ہم نے بہت غور سے دیکھا تھا۔“
”پھر بھی کیا حرج ہے۔“
”چلو۔ دیکھ لیتے ہیں۔“
ایک بار پھر پائیں باغ کی تلاشی کا کام شروع ہوا۔ انہوں نے اس مرتبہ اور بھی زیادہ احتیاط سے دیکھا۔ پوری باڑھ چھان ماری۔ ایک ایک درخت اور پودا دیکھ ڈالا۔ اچانک ٹارچ کی روشنی بند کھڑکی پر پڑی۔ وہ دونوں چونک اٹھے۔
”تم اس کھڑکی کو دیکھ رہے ہو؟“ استاد نے کہا۔
”ہاں! استاد دیکھ رہا ہوں۔“ وزیر بولا۔
”کیا خیال ہے۔“ استاد نے عجیب لہجے میں کہا۔
”آپ یہی سوچ رہے ہیں نا کہ کہیں وہ دونوں اس کھڑکی کے ذریعے اندر نہ پہنچ گئے ہوں۔“
”ہاں! تمہارا خیال ٹھیک ہے۔“ استاد نے کہا۔
”لیکن۔ ہم تو مکان کی اندر سے تلاشی لے چکے ہیں۔“
”تم نہیں سمجھے۔ وہ دونوں تلاشی کے بعد اندر داخل ہوئے ہوں گے۔“
”تو پھر ہم کیا کریں؟“ وزیر نے پوچھا۔
”ہم ایک بار پھر مکان کی تلاشی لیں گے۔“
”یہ ٹھیک ہے۔“
”تو آﺅ چلیں۔“
دونوں باغ سے نکل کر دروازے کی طرف بڑھے۔ یہاں وزیر موجود تھا۔
”کیوں۔ کیا رہا؟“
”وہ دونوں باغ میں نہیں ہیں۔ اسرار کہا ہے؟“
”پروفیسر کی کار کے پاس۔“
”ہم ایک بار پھر مکان کی تلاشی لیں گے۔ اس لیے تم اسرار سے کہہ آﺅ کہ وہ کار اور دروازے دونوں پر نظر رکھے۔ ہم تینوں اندر چلیں گے۔“
”اچھا۔“
پرویز کار کی طرف چلا گیا۔ دونوں اس کی واپسی کا انتظار کرنے لگے۔ جونہی وہ واپس آیا، استاد نے ایک بار پھر دستک دی۔
٭……..٭
”کمرے کی بتی نہ جلانا۔“ بیگم جمشید نے دھیمے لہجے میں کہا۔
”ہاں۔ ان دونوں کو دوسرے کمرے میں لے چلتے ہیں۔“
دوسرے کمرے میں پہنچتے ہی انہوں نے بجلی کا بلب روشن کر دیا۔ دوسرے ہی لمحے ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
”آپ!“ چاروں کے منہ سے حیرت اور خوف کی زیادتی سے نکلا۔
ان کے سامنے پروفیسر داﺅد اور شائستہ کھڑے تھے۔
”یہ سب کیا ہے۔ یہ کون ہیں جو آپ کا پیچھا کر رہے ہیں؟“
”معلوم نہیں کون لوگ ہیں۔ ہم دونوں شاپنگ کے لیے گھر سے نکلے تھے واپسی پر ان کے تعاقب کا پتا چلا۔ ہم اندھا دھند بھاگ کھڑے ہوئے۔ پھر اس سڑک پر مڑ گئے۔ تمہارے گھر کے پاس پہنچ کر یہ خیال آیا کہ ہم یہاں زیادہ محفوظ رہیں گے۔ اس خیال کے آتے ہی ہم کار سے اتر کر تمہارے دروازے کی طرف دوڑے۔ عین اسی وقت ان کی کار آکر رکی۔ دروازہ اندر سے بند تھا۔ اس لیے اتنا وقت نہیں تھا کہ دستک دے کر دروازہ کھلوایا جا سکتا۔ چنانچہ ہم دونوں پائیں باغ میں گھس گئے۔“
”ہوں۔ وہ لوگ ایک بار اندر کی تلاشی لے چکے ہیں۔“
”میں جانتا ہوں۔“ پروفیسر بولے۔ ”جمشید کہاں ہے؟“
”وہ ابھی تک واپس نہیں لوٹے۔ کوئی بڑی چوری ہو گئی ہے۔ موقع واردات پر گئے ہیں۔“
”اوہ! یہ تو بہت بُرا ہوا۔“
”کیوں۔ بُرا کیا ہوا۔ اب تو وہ لوگ باغ کی تلاشی کے بعد چلے ہی جائیں گے۔“ محمود نے کہا۔
”شاید وہ اتنی آسانی سے نہ جائیں۔ ان کی نظر پائیں باغ والی کھڑکی پر ضرور پڑے گی اور پھر باہر میری کار موجود ہے۔“
”ہوں! امی آپ دروازہ بند کر چکی ہیں نا۔“
”ہاں!“
”اور کھڑکی بھی اندر سے بند کر دی گئی ہے۔“ فاروق نے بتایا۔
”بس پھر۔ فی الحال گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اطمینان سے بیٹھیں۔“ بیگم جمشید نے کہا۔
”نہیں امی۔ ہمیں آئندہ کے لیے سوچ لینا چاہیے۔ فرض کیجئے، وہ لوگ پھر تلاشی لینے آجاتے ہیں تو اس صورت میں ہمیں کیا کرنا ہو گا۔“ محمود نے کہا۔
”سوچو۔ ذہن پر زور دو۔“ فاروق نے کہا۔
”کچھ تم بھی اپنے ذہن کو کام میں لاﺅ۔“ فرزانہ بولی۔
”ترکیبیں سوچنے میں تمہارا جواب نہیں ہے۔ اس لیے میں یہ ذمے داری تمہی کو سونپتا ہوں۔“
”سب لوگ سوچیں۔“ بیگم جمشید بولیں۔ ”یہ وقت مذاق کا نہیں ہے۔ اگر تمہارے ابا جان گھر میں ہوتے تو کوئی پریشانی والی بات نہیں تھی۔“
”ہاں۔ یہ تو ٹھیک ہے۔“
پھر سب ہی گہری سوچ میں کھو گئے۔ چند سیکنڈ بھی نہ گزرے ہوں گے کہ فرزانہ نے پرجوش انداز میں چٹکی بجائی۔
”وہ مارا۔“
”میں جانتا تھا۔ تم ہی مارو گی۔“ فاروق نے مسکرا کر کہا۔
”جلدی بتاﺅ۔ کیا سوچا ہے تم نے۔“ بیگم جمشید نے کہا۔
”انکل اور شائستہ کو ایک کمرے میں بند کر دیتے ہیں اور دروازے پر تالا لگا دیتے ہیں۔“
”گڈ!“ محمود کے منہ سے نکلا۔
”ترکیب تو….“
اسی وقت دروازے پر زور سے دستک دی گئی۔
’دلو وہ لوگ آگئے۔“ بیگم جمشید گھبرا گئیں۔
”گھبرائیے نہیں امی۔“ محمود بولا۔
”اب کیا کریں؟“ فاروق نے کہا۔
”گھر میں جو سب سے اچھا تالا ہے، وہ جلدی سے لے آئیں امی۔“
”اچھا۔ ابھی لائی۔“ بیگم جمشید دوڑی گئیں۔
اسی وقت دوبارہ دستک دی گئی۔
”ہو سکتا ہے، یہ ابا جان ہوں۔“ فاروق نے خیال ظاہر کیا۔
”ابا جان اتنی زور سے دستک نہیں دے سکتے۔“
”ہوں! ٹھیک ہے۔ یہ ضرور وہ لوگ ہیں۔“
تیسری مرتبہ پھر دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔
”کیسے جاہل لوگ ہیں۔ دروازے پر کال بیل کا بٹن لگا ہوا ہے پھر بھی دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔“ پروفیسر بولے۔
”رعب ڈالنے کے لیے۔“
”ہوں!“
اسی وقت بیگم جمشید تالا لیے اندر داخل ہوئیں۔
”جائیے امی۔ آپ دروازہ کھول دیں لیکن کھولنے سے پہلے ایک آدھ منٹ ضائع کرنا نہ بھولیں۔“ محمود نے کہا۔
”اچھا۔“ بیگم جمشید دروازے کی طرف چلی گئیں۔
”انکل۔ آپ اور شائستہ اس کمرے میں بے فکر رہیں۔ کمرے کی کھڑکیاں بند ہیں۔ اگر کسی کھڑکی پر تین بار انگلی سے دستک دی جائے تو آپ وہ کھڑکی کھول دیجئے گا۔“
”یہ کیوں؟“ پروفیسر حیران رہ گئے۔
”شاید ایسا کرنا پڑے۔ اب آپ بے فکر رہیں۔“
محمود نے کہا اور تینوں کمرے سے نکل آئے۔ اس کے بعد محمود نے کمرے کے دروازے پر تالا لگا دیا اور تیزی سے اس کمرے سے ہٹ آئے۔ پھر وہ اپنے کمرے میں چلے آئے۔
”اب اس چابی کا کیا کریں؟“ محمود نے پوچھا۔
”لاﺅ میں اسے پائیں باغ میں کہیں چھپا آﺅں۔“ فرزنہ بولی۔
”اچھا۔ یہ لو۔“
فرزانہ نے چابی لی، کھڑکی کھولی اور آواز پیدا کیے بغیر باغ میں اتر گئی۔اس نے جلدی سے ایک درخت کے نیچے ایک خشک شاخ کی مدد سے گڑھا کھودا اور چابی اس میں دفن کر دی۔ دوسرے ہی لمحے وہ دوبارہ کمرے میں تھی۔ اسی وقت بیرونی دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔
٭……..٭
بیگم جمشید نے دروازے پر پہنچ کر پوچھا۔
”کون ہے؟“
”ہم ہیں۔ دروازہ کھولو۔“ باہر سے رعب دار آواز آئی۔
”ہم کون؟“ انہوں نے کہا۔
”وہی۔ جنہوں نے ابھی ابھی مکان کی تلاشی لی تھی۔“
”اب کیا چاہتے ہو؟“
”ہم ایک بار پھر تلاشی لینا چاہتے ہیں۔“
”ہرگز نہیں۔ تم تلاشی نہیں لے سکتے۔“
”ہم لے سکتے ہیں۔ دروازہ کھولو۔“
”دروازہ نہیں کھلے گا۔“
”تو ہم دروازہ توڑ دیں گے۔ دروازہ کھولتی ہو یا ہم توڑنا شروع کریں۔“
”ٹھہرو۔ میں کھولتی ہوں۔“ بیگم جمشید نے کہا اور دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئیں۔ کئی سیکنڈ اسی طرح گزر گئے۔
”کیا بات ہے۔ تم نے دروازہ نہیں کھولا۔“
بیگم جمشید نے کوئی جواب نہیں دیا۔ انہوں نے پھر دروازہ کھٹکھٹایا۔ بیگم جمشید مسکرائیں اور قدموں کی آواز پیدا کرتے ہوئے دروازہ کھول دیا۔
”میں ذرا چابی لینے گئی تھی۔“
”چابی؟“ ان کے استاد نے حیران ہو کر کہا۔
”کہاں ہے تالا۔“ استاد نے پوچھا۔
”تالا! ارے تالا کہاں گیا۔“ بیگم جمشید نے بھی حیرت کا مظاہرہ کیا۔
”بتاﺅ۔ کہاں ہے تالا؟“
”دراصل اس مکان پر آسیب کا سایہ ہے۔“
”یہ کیا بکواس ہے۔“ پرویز چلایا۔
”ہاں! یہ مکان آسیب زدہ ہے۔ ابھی ابھی تالا اور چابی میرے ہاتھ میں تھے اور اب غائب ہیں۔“
”ہمیں تمہاری کسی بات پر یقین نہیں۔ ہم جانتے ہیں وہ دونوں مکان کے اندر موجود ہیں۔“
”کون دونوں؟“ بیگم جمشید نے انجان بن کر کہا۔
”وہی دونوں۔ جن کی تلاش میں ہم ہیں۔“
”ابھی چند منٹ پہلے تو تم نے تلاشی لی ہے۔“
”اب پھر لیں گے۔“
”جیسے تمہاری مرضی۔ لیکن کہے دیتی ہوں تم ایک غیرقانونی کام کر رہے ہو جس کے لیے تمہیں بھگتنا پڑے گا۔“
”ہم جانتے ہیں۔ تم فکر نہ کرو۔“ وزیر بولا۔
”بہتری اسی میں ہے کہ اسی جگہ سے لوٹ جاﺅ۔“
”تو تم یہ چاہتی ہو کہ ہم تلاشی نہ لیں۔“ استاد نے کہا۔
”ہاں! کیوں کہ تمہاری بچت اسی میں ہے۔ کیوں کہ اگر تم یہاں سے نہ گئے اور میرے شوہر آگئے تو پھر تم بچ کر نہیں جا سکو گے۔“
”بس بس! تقریر ختم۔ چلو آگے بڑھو۔ تمہارے بچے کہاں ہیں۔“
”وہ اپنے کمرے میں ہوں گے۔“
”چلو۔ پہلے انہی کے کمرے میں چلو۔“
”تم لوگ پچھتاﺅ گے۔“ بیگم جمشید زیادہ سے زیادہ وقت گزار دینا چاہتی تھیں۔
”اگر ہم نے اس شخص کو نہ پکڑا تو بھی پچھتانا تو پڑے گا ہی۔“
”کون ہے وہ؟“
”ہے ایک مشہور آدمی۔ چلو ہمیں اپنے بچوں کے کمرے میں لے چلو۔“
”اچھا۔ آﺅ۔“
بیگم جمشید انہیں لیے پائیں باغ والے کمرے میں آئیں۔ یہاں تینوں موجود تھے۔ ان بدمعاشوں کو دیکھ کر انہوں نے چونکنے کی ایکٹنگ کی۔
”ارے! تم لوگ پھر آگئے۔“ محمود بول اٹھا۔
”ہاں! ہم ایک بار پھر تلاشی لیں گے۔“ استاد نے کہا۔
”کیوں۔ اب کیا ہوا؟“
”ہمارا خیال ہے کہ وہ دونوں اسی مکان میں کہیں چھپے ہوئے ہیں۔“
”تو دیکھ لو۔وہ یہاں نہیں ہیں۔“
”جاﺅ تم دونوں مکان کا چپہ چپہ چھان مارو۔ کوئی کونا رہ نہ جائے۔“ استاد نے اپنے دونوں ساتھیوں کو حکم دیا۔
دونوں چلے گئے۔
”تمہارے والد ابھی تک نہیں آئے۔“
”آنے ہی والے ہیں اور آتے ہی تم سے نبٹ لیں گے۔“
”ہم سے!“ استاد ہنسا۔
”کیوں۔ تم ہنسے کیوں۔ کیا تم سے نبٹا نہیں جا سکتا؟“ محمود نے پوچھا۔
”ہمارا نام ہی سن کر ان کا دم نکل جائے گا۔“
”اچھا! کیا نام ہے تمہارا۔ ذرا ہم بھی تو سنیں، دیکھتے ہیں ہمارا دم نکلتا ہے یا نہیں۔“
”کیا کرو گے جان کر۔ میں بچوں کو اپنا نام بتاتا نہیں پھرتا۔“
”ارے! کہیں تمہارا نام سلطانہ ڈاکو تو نہیں ہے۔“ فاروق نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
’دتم بھول رہے ہو فاروق۔ وہ تو مر چکا ہے۔“ فرزانہ بولی۔
”تو پھر یہ بادل ڈاکو ہوں گے۔“ فاروق پھر ہنسا۔
”اگر یہ بادل ڈاکو ہیں تو زمین پر کیوں پھر رہے ہیں۔“ محمود نے حیران ہو کر کہا۔
”بہت بدتمیز ہو تم تینوں۔“
”یہ ہمارے لیے ایک نئی خبر ہے۔“ فاروق نے اعلان کیا۔
”تم چپ نہیں رہو گے؟“ استاد جھلا اٹھا۔
”تم نے اپنا نام نہیں بتایا۔“
”تو تم میرا نام ضرور جاننا چاہتے ہو۔“
”ہاں! ہمارا بے ہوش ہونے کا پروگرام ہے۔“ فاروق نے خوش ہو کر کہا۔ ”دراصل ہم آج تک بے ہوش نہیں ہوئے۔ ذرا دیکھیں تو سہی بے ہوش ہونے پر کیسا محسوس ہوتا ہے۔“
”اگر تم اب بولے تو میں تمہیں مار بیٹھوں گا۔“ استاد نے غرّا کر کہا۔
”یہ پابندی صرف مجھ پر لگا رہے ہو یا ہم سب پر۔“ فاروق نے پوچھا۔
”تم یوں نہیں مانو گے۔ تمہارے ایک آدھ ہاتھ رسید کرنا ہی پڑے گا۔“ وہ فاروق کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔
”کیا تم آدھا ہاتھ بھی رکھتے ہو۔ گویا تمہارے اڑھائی ہاتھ ہیں۔“
”ابھی بتاتا ہوں۔“ استاد نے اپنا بھاری بھرکم ہاتھ فاروق کو مارنے کے لیے اٹھایا۔
”ٹھہرو دوست۔ یہ تو زیادتی ہے۔“ محمود نے پرسکون آواز میں کہا۔
”کیا مطلب؟“ استاد کا اٹھا ہوا ہاتھ رُک گیا۔
”اس نے صرف تمہارا نام ہی تو پوچھا تھا۔ کیا تمہارا نام معلوم کرنے کی سزا مقرر ہے۔“ محمود نے کہا۔
”میرا نام جاننا چاہتے ہو؟“
”جی ہاں!“ محمود نے ادب سے کہا۔
”مجھے بہزاد ڈاکو کہتے ہیں۔“
”کیا!“ ان چاروں کے منہ سے نکلا، کیوں کہ وہ سچ مچ حیران رہ گئے تھے۔
٭……..٭
۱
باقر گنج جانے سے پہلے انہوں نے بہزاد ڈاکو کا نام اپنے والد کی زبان سے کئی بار سنا تھا۔ ان دنوں اس نے شہر میں ہل چل مچائی ہوئی تھی۔ پھر کچھ دنوں بعد وہ بالکل ہی غائب ہو گیا تھا اور کسی واردات کے سلسلے میں اس کا نام سننے میں نہیں آیا تھا۔ آج بہزاد ڈاکو ان کے سامنے موجود تھا۔
”ارے۔ کیا واقعی تم بہزاد ڈاکو ہو؟“
”ہاں!“
”لیکن تم تو غائب ہو گئے تھے۔“
”میں دوسرے شہروں میں ہاتھ مارنے گیا ہوا تھا۔“ بہزاد ڈاکو نے بتایا۔
”بھئی واہ! بڑا نیک کام ہے۔“ فاروق نے خوش ہو کر کہا۔
”مسٹر بہزاد! بڑی خوشی ہوئی تم سے مل کر۔ واہ۔ ڈاکو ہو تو ایسا ہو۔“ محمود بولا۔
”بڑا نام پیدا کیا ہے آپ نے تو۔“ فرزانہ بھلا کب چپ رہنے والی تھی۔
بہزاد تینوں بچوں کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔
”آپ بیٹھ جائیں ڈاکو بھائی۔ تھک جائیں گے۔“ فرزانہ نے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کیا۔
”ہاں ہاں! تشریف رکھیں۔ امی جان ڈاکو صاحب کے لیے چائے تیار کر دیں۔ یہ ہمارے مہمان ہیں۔“ محمود بولا۔
”خالی چائے سے کام نہیں چلے گا امی! کچھ کیک پیسٹریز بھی ہوں۔“ فاروق چہکا۔
”یہ سب کیا ہے۔ تم کس قسم کے بچے ہو؟“ بہزاد نے جھنجھلا کر کہا۔
”بچے کس قسم کے ہوتے ہیں۔ پہلے تو یہ بتائیں؟“ فرزانہ نے پوچھا۔
”اے۔ تم کہاں جا رہی ہو؟“ بہزاد ڈاکو نے دروازے کی طرف بڑھتی ہوئی بیگم جمشید سے کہا۔
”آپ کے لیے چائے بنانے۔“ بیگم جمشید نے مسکرا کر کہا۔
”خبردار! تم میں سے کوئی کمرے سے باہر قدم نہ رکھے۔“
”کیوں۔ کیا چائے پینے کا موڈ نہیں ہے۔“ فرزانہ نے پوچھا۔
”خاموش رہو۔ عجیب آدمی ہو تم۔“
”آدمی کہاں۔ بچے ہیں۔“ فاروق بولا۔
”اگر اب تم میں سے کوئی بولا تو میں برداشت نہیں کروں گا۔“
”شکریہ! آپ نے ہمیں بتا تو دیا کہ آپ کب تک برداشت کر سکتے ہیں۔“
اسی وقت بہزاد ڈاکو کے دونوں ساتھی وہاں آ دھمکے۔
”وہ دونوں پورے مکان میں کہیں نہیں ہیں استاد۔ البتہ۔“ پرویز کچھ کہتے کہتے رک گیا۔
”البتہ ایک کمرے کو تالا لگا ہوا ہے۔“
”کیا مطلب؟“
”پورے مکان میں صرف ایک کمرے کو تالا لگا ہوا ہے۔ ہم اس کی تلاشی نہیں لے سکے۔“
”اس کمرے کے تالے کی چابی کہاں ہے؟“ بہزاد ڈاکو نے پوچھا۔
”ابا جان کے پاس۔“ محمود نے تیزی سے کہا۔
”کیا مطلب؟“ اس نے غصے سے کہا۔
”کس بات کا مطلب پوچھ رہے ہیں آپ۔ ابا جان کے پاس کا؟“ محمود نے مذاق اڑانے والے لہجے میں کہا۔
”خاموش۔“
”جی بہتر۔“ اس نے ڈر کر کہا۔
”جس وقت پہلے تلاشی لی گئی تھی۔ اس وقت بھی کمرے کو تالا لگا ہوا تھا؟“ بہزاد ڈاکو نے اپنے دونوں ساتھیوں سے پوچھا۔
”جی نہیں۔ اس وقت ہم نے کسی کمرے کو تالا لگا ہوا نہیں دیکھا تھا اور تمام کمروں کی تلاشی لی تھی۔“ پرویز نے کہا۔
”تو پھر۔ اب یہ تالا کیسے لگ گیا؟“ بہزاد ڈاکو نے ان چاروں کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں واقعی۔ یہ سوال تو بہت اہم ہے۔ آخر تالا کیسے لگ گیا۔“ فاروق بولا۔
”بات بہت عجیب ہے۔“ فرزانہ نے خوفزدہ ہو کر کہا۔
”ہمیں چل کر دیکھنا چاہیے۔ کس کمرے کو تالا لگا ہے اور کیسے لگ گیا ہے۔“
”یا الٰہی خیر۔“ بیگم جمشید نے کہا۔
”ڈاکو صاحب! ہمیں اجازت ہے۔“ محمود نے پوچھا۔
”ہم سب چل رہے ہیں۔“ بہزاد ڈاکو نے کہا۔
”تو بسم اللہ کیجئے۔ قدم رنجا فرمائیے۔“
”تم لوگ عجیب ہو۔“ بہزاد ڈاکو نے انہیں گھورتے ہوئے کہا۔
”یہ جملہ کتنی مرتبہ کسنے کا ارادہ ہے۔“ فاروق نے معصومیت سے پوچھا۔
”کیوں۔ یہ کیوں کہا تم نے؟“
”اس لیے کہ اس وقت تک آپ تین مرتبہ تو کہہ چکے ہیں۔“
”بکومت۔ چلو دکھاﺅ وہ کون سا کمرہ ہے؟“
سب باہر نکل کر بند کمرے کے دروازے پر آئے۔
”کیا وہ دونوں اس کمرے میں ہیں؟“ بہزاد ڈاکو نے اچانک سوال کیا۔
”کون دونوں؟“ فرزانہ تیزی سے بولی۔
”ہاں۔ کون دونوں؟“ محمود نے بھی کہا۔
”وہی بڑے میاں اور لڑکی۔“
”اگر وہ اس کمرے میں ہیں تو ہمارے لیے اس سے زیادہ حیرت کی بات نہیں ہو سکتی، کیوں کہ یہ ہمارے والد کا کمرہ ہے اور وہ اسے مقفل رکھتے ہیں لیکن اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ وہ اس میں اپنی تمام نقدی رکھتے ہوں گے اس لیے قفل لگا کر رکھتے ہیں۔ دراصل یہ بات نہیں ہے۔ اس کمرے میں وہ اپنے کاغذات رکھتے ہیں اس لیے ہمیشہ قفل لگا کر رکھتے ہیں۔“
”لیکن تھوڑی دیر پہلے تو تالا لگا ہوا نہیں تھا۔“ وزیر نے کہا۔
”تب پھریہ ضرور بھوت پریت کی شرارت ہو گی۔“ بیگم جمشید نے کہا۔
”کیا مطلب؟“
”میں نے بتایا تھا نا کہ مکان آسیب زدہ ہے۔ ہو سکتا ہے جس وقت آپ نے پہلے تلاشی لی تھی، اس وقت بھوتوں نے آپ کے احترام میں تالا کھول دیا ہو۔ ورنہ اس کمرے کو تو ہر وقت تالا لگا رہتا ہے۔ صرف میرے شوہر ضرورت پڑنے پر اسے کھولتے ہیں۔“
”لیکن ہم اس کمرے کو کھول کر ضرور دیکھیں گے۔“ بہزاد ڈاکو نے ضد پر اڑتے ہوئے کہا۔
”آپ اسے کیسے کھولیں گے؟“ محمود نے معصومیت سے پوچھا۔ ”اس پر تو تالا لگا ہوا ہے۔“
”ہم تالا کھول لیں گے اور اگر تالا نہ کھلا تو اسے توڑ دیں گے۔“
”ہاں۔ ڈاکو ہی ٹھہرے۔ دن رات یہی کام تو کرتے ہیں۔“ فاروق نے طنزیہ کہا۔
”بالکل! تم ٹھیک سمجھے۔ وزیر چابیوں کا گچھا مجھے دو۔“
”مگر استاد وہ تو کار میں ہے۔ کیا معلوم تھا کہ اس کی ضرورت پڑے گی۔“
”تو کیا ہوا۔ جا کر لے آﺅ۔“
”جی بہتر۔“
وزیر چابیوں کا گچھا لینے کے لیے چلا گیا۔
”تمہارے گھر میں بھی تو چابیوں کا گچھا ہو گا۔“ بہزاد ڈاکو نے بیگم جمشید سے پوچھا۔
”ہم ڈاکو نہیں ہیں۔“ ان کے بجائے فاروق نے کہا۔
”ہاں بالکل۔ چابیوں کا گچھا تو ڈاکوﺅں اور چوروں کے پاس ہوتا ہے۔“ محمود بولا۔
”ہر گھر میں چابیوں کا ایک گچھا ہوتا ہے۔“ بہزاد ڈاکو نے آنکھیں نکالیں۔
”اچھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا۔“ فاروق نے حیرت کا اظہار کیا۔
”کمال ہے۔ یہ بات تو مجھے بھی معلوم نہیں تھی۔“ محمود بولا۔
”کیوں امی، کیا ہمارے گھر میں کوئی چابیوں کا گچھا ہے؟“
”ہاں۔ ایک ہے تو سہی۔“
”تب تو ڈاکو میاں ٹھیک ہی کہتے ہیں۔“
”ذرا وہ گچھا تو لاﺅ۔“ بہزاد نے کہا۔
”اچھا۔“ بیگم جمشید جانے کے لیے مڑیں۔
”ٹھہرو۔“ بہزاد ڈاکو نے سخت لہجے میں کہا۔
”تم عجیب ڈاکو ہو۔“ فاروق نے چیں بچیں ہو کر کہا۔
”کیوں؟“
”خود ہی تو کہا ہے کہ چابیوں کا گچھا لاﺅ۔ اب اگر وہ جانے لگیں تو کہتے ہو ٹھہرو۔“
”ہاں۔ میرا ساتھی ساتھ جائے گا۔“ بہزاد ڈاکو نے کہا۔
”بالکل۔ وہ تو جائے گا ہی۔ ساتھیوں کا کام ہی ساتھ جانا ہوتا ہے۔“ فرزانہ نے کہا۔
”میرا ساتھی تمہاری امی کے ساتھ جائے گا۔“
”کیوں۔ اس کی کیا ضرورت ہے؟“
”تاکہ یہ پولیس کو فون نہ کر دیں۔“
”لیکن ہمارے گھر میں تو فون ہے ہی نہیں۔“ محمود نے بتایا۔
”اچھا۔ فون نہیں ہے؟“
”نہیں۔“
”پھر بھی یہ ساتھ جائے گا۔ احتیاط کا تقاضا یہی ہے۔“
”ٹھیک۔ ساتھی صاحب ہماری امی کے ساتھ جاﺅ۔“
محمود نے گویا حکم دیا۔
وہ دونوں چلے گئے۔
”تم تینوں کی زبان بہت تیزی سے چلتی ہے۔“
”کیا آپ کو بُرا لگا ہے؟“
”ہاں!“
”اچھا تو ہم اب خاموش رہیں گے۔“
”تم پڑھتے ہو۔“
تینوں خاموش رہے۔
”جواب کیوں نہیں دیتے؟“
”کیا تمہیں سانپ سونگھ گیا ہے؟“
”عجیب ڈاکو ہو۔ خود ہی کہتے ہو ہمارا بولنا تمہیں ناگوار گزرتا ہے۔ اب ہم خاموش ہو گئے ہیں تو کہتے ہو بولو۔“ فاروق نے بُرا سا منہ بنایا۔
”بتاﺅ۔ کیا تم پڑھتے ہو؟“
”ہاں۔“ محمود نے ایسے لہجے میں کہا جیسے یہ بتا کر ڈاکو پر احسان کیا ہو۔
”تم تینوں کو میں اپنا ساتھی بناﺅں تو کیسا ہے؟“ بہزاد نے ہنس کر کہا۔
”کیا مطلب؟“ تینوں بری طرح چونکے۔
”تم تینوں کافی تیز طرار ہو۔ میں تمہیں جاتے وقت اپنے ساتھ لے جاﺅں گا اور پھر تم بھی ایک دن میرے ساتھی بن جاﺅ گے۔ نامی گرامی ڈاکو کہلاﺅ گے۔ تم تینوں مجھے بہت پسند آئے ہو۔“
”شکریہ! ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔“ محمود نے کندھے جھٹکے۔
”ہو نہ ہو۔ میں تمہیں لے جاﺅں گا۔“
اسی وقت اس کا ساتھی چابیوں کا گچھا لے کر آگیا۔
”پرویز کہاں گیا؟“ اس نے پوچھا۔
”وہ ان کی ماں کے ساتھ گھر کا چابیوں کا گچھا لینے گیا ہے۔“
”ہاں! یہ ٹھیک ہے۔“
جونہی بہزاد ڈاکو چابیوں کا گچھا لیے تالے کی طرف بڑھا، ان کے دل اس ڈر سے دھڑک اٹھے کہ کہیں تالا کھل نہ جائے۔
اسی وقت ان کی امی بھی پرویز کے ساتھ وہاں پہنچ گئیں۔
”کیوں استاد۔ کوئی چابی لگی؟“ پرویز نے پوچھا۔
”ابھی تو شروع ہی کرنے لگا ہوں۔“ اس نے کہا اور پہلی چابی تالے کو لگائی۔
پہلی چابی تالے میں گھوم کر رہ گئی۔ اس کے بعد اس نے اپنے گچھے کی سب چابیاں لگا کر دیکھ لیں لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ اس کے بعد اس نے پرویز کے ہاتھ سے بیگم جمشید والا چابیوں کا گچھا لیا اور اس کی چابیاں آزمانے لگا۔ اب بیگم جمشید اور تینوں بچوں کے چہر پرسکون تھے کیوں کہ وہ جانتے تھے اس گچھے کی کوئی چابی تالے کو نہیں لگے گی۔
”حیرت ہے۔ میری زندگی میں یہ پہلا تالا ہے جو اتنی چابیوں سے بھی نہیں کھلا۔“
”کیا تم سب چابیاں لگا چکے ہو۔“ وزیر نے پوچھا۔
”ہاں! اب ہمیں دروازے کو توڑنا ہی پڑے گا۔“ بہزاد ڈاکو نے کہا۔
”یہ کون سا مشکل کام ہے۔ ابھی توڑے ڈالتے ہیں۔“ پرویز نے کہا۔
”لیکن اس طرح شور پیدا ہو گا۔“ بہزاد نے کہا۔
”پھر کیا کیا جائے؟“
”ہم بھول رہے ہیں۔“ بہزاد ڈاکو مسکرایا۔
”کیا مطلب!“ نہ صرف بہزاد کے ساتھی بلکہ وہ چاروں بھی چونکے۔
”دروازے کو تالا انہوں نے ہی لگایا ہے اور اس تالے کی چابی بھی ضرور انہی کے پاس ہے۔“
”اوہ۔ بات تو ٹھیک ہے۔“
”بس تو پھر ان سے معلوم کرو کہ چابی کہاں ہے اور اگر یہ نہ بتائیں تو انہیں گولیاں مار دو اور ان کے پائیں باغ میں ہی دفن کر دو۔“ بہزاد نے سخت لہجے میں کہا۔
”کہاں ہے چابی؟“ پرویز غرّایا۔
”ابا جان کے پاس۔“ محمود نے جواب دیا۔
”بکو مت۔ تمہیں بتانا پڑے گا۔ ورنہ ہم تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے جیب سے پستول نکال لیا۔
”بہزاد ڈاکو تمہیں حکم دیتا ہے کہ فوراً سے پہلے بتا دو۔ ورنہ میرے اشارہ کرتے ہی تم خون میں تڑپتے نظر آﺅ گے۔“ بہزاد نے قہرآلود آواز میں کہا۔
”ٹھہرو۔ میں بتاتی ہوں۔ چابی پائیں باغ میں ہے۔“ فرزانہ بولی۔
”کیا بکتی ہو۔ چابی کا باغ میں کیا کام؟“ بیگم جمشید غصے سے چلائیں۔
”میں نے وہاں چھپائی تھی۔“
”تو وہ دونوں اس کمرے میں بند ہیں۔“
”ہاں!“ فرزانہ کے منہ سے نکلا اور وہ تینوں فرزانہ کو بُری طرح گھورنے لگے کہ یہ اس نے کیا کیا۔
”یہ تم نے کیا کیا۔ میں تمہیں اپنا دودھ نہیں بخشوں گی۔ تم نے گھر میں پناہ لینے والوں کی حفاظت نہیں کی۔“ بیگم جمشید چلائیں۔
فرزانہ جواب میں خاموش رہی۔ اس کا سرشرم سے جھک گیا تھا۔
”جاﺅ۔ چابی لے کر آﺅ۔ وزیر تم اس کے ساتھ جاﺅ۔“ بہزاد نے کہا۔
”اچھا استاد۔“ وزیر نے فرزانہ کو بازو سے پکڑتے ہوئے کہا۔
فرزانہ نے محمود کی طرف دیکھا اور وزیر کے ساتھ باہر چلی گئی۔
”ہم بازی ہار چکے ہیں امی۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم ان دونوں کو ان کے حوالے کر دیں۔“ محمود نے کہا۔
”تم ٹھیک کہتے ہو۔“ بیگم جمشید بولیں۔
”مسٹر ڈاکو۔ کیا میں پیشاب کر سکتا ہوں؟“
”ہاں ہاں۔ کیوں نہیں۔“ بہزاد نے اپنی کامیابی پر خوش ہوتے ہوئے کہا۔
محمود تیزی سے مڑا اور کمرے کے دوسری طرف آیا۔ اس نے کھڑکی پر تین بار آہستہ آہستہ انگلی ماری۔ کھڑکی فوراً ہی کھل گئی۔ محمود نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر ان کو خاموش رہنے اور باہر آنے کا اشارہ کیا۔ دونوں آواز پیدا کیے بغیر کھڑکی سے باہر آگئے۔ محمود انہیں اپنے کمرے میں لے آیا۔
”آپ دونوں باتھ روم میں چلے جائیں۔ دروازہ اندر سے بند کر لیں۔ اگر دروازہ توڑا جانے لگے تو باتھ روم کا دروازہ دوسرے کمرے میں بھی کھلتا ہے۔ آپ خاموشی سے پہلے کمرے میں جا کر دروازہ اندر سے بند کر دیں۔ ایک بار پھر آپ اسی کمرے میں پہنچ جائیں گے اور باہر پھر سے تالا لگ چکا ہو گا۔“
یہ باتیں اس نے دھیمے لہجے میں کہی تھیں۔ ان کے غسل خانے میں جانے کے بعد وہ کمرے سے باہر نکل آیا اور بہزاد ڈاکو کی طرف بڑھا۔ اسی وقت فرزانہ بھی دوسرے ڈاکو کے ساتھ مکان میں داخل ہوئی۔
”کیوں۔ مل گئی چابی؟“
”ہاں استاد مل گئی۔ کام بن گیا۔“
”بہت خوب۔ لاﺅ چابی مجھے دو۔“
بہزاد نے چابی لی۔ تالے میں لگائی۔ دوسرے ہی لمحے کھٹاک کی آواز کے ساتھ تالا کھل گیا۔ اس نے بے تابی سے دروازہ کھول دیا۔ دروازے میں داخل ہوتے ہی وہ دھک سے رہ گئے۔ کمرہ خالی پڑا ان کا منہ چڑا رہا تھا۔
”یہ کیا۔ کمرہ تو خالی ہے۔“ بہزاد نے کہا۔ وہ سخت حیران تھا۔
”تو آپ کا کیا خیال تھا۔ اس کمرے میں دولت کے انبار لگے ہوں گے۔“
”بکو مت۔ وہ دونوں کہاں ہیں جن کو تم نے پناہ دی تھی؟“
”ہم نے کسی کو بھی پناہ نہیں دی تھی۔“
”تو پھر اس کمرے کو تالا کیوں لگایا تھا؟ چابی پائیں باغ میں کیوں چھپائی تھی؟“
”ہمارے ابا جان کا حکم ہے کہ کمرہ کسی کو نہ دیکھنے دیا جائے۔“ محمود نے بات بنائی۔
”تم جھوٹ بولتے ہو۔ وہ دونوں ضرور اس کمرے میں تھے۔“
”تو پھر ڈھونڈ لو۔ کہاں گئے وہ دونوں۔“ فاروق نے تنگ آکر کہا۔
تینوں بدمعاشوں نے ایک بار پھر غصے کے عالم میں تلاشی شروع کی یہاں تک کہ وہ ان کے کمرے میں داخل ہوئے۔ وزیر نے آگے بڑھ کر باتھ روم کا دروازہ دھکیلا۔ دروازہ ٹس سے مس نہ ہوا تو وہ چونک اٹھا۔
”غسل خانے کا دروازہ اندر سے بند ہے۔“ اس نے کہا۔
”کیا؟ بند ہے۔ کون ہے اندر؟ یہ چاروں تو ہمارے پاس کھڑے ہیں۔“
”میں کہہ چکی ہوں۔ مکان آسیب زدہ ہے۔ ضرور کسی آسیب نے دروازہ اندر سے بند کر لیا ہو گا۔“
”نہیں۔ اندر وہی دونوں ہیں۔ دروازہ توڑ دو۔“ بہزاد ڈاکو نے کہا۔
”تم کیسے ڈاکو ہو۔ جو موت کی بجائے دو انسانوں کو پکڑنا چاہتا ہے۔ آخر کیا کرو گے تم ان دونوں کو پکڑ کر۔“ محمود نے کہا۔
”چلو۔ دروازہ توڑو۔“
وزیر نے پیچھے ہٹ کر دروازے پر کندھا مارا۔ ایک زوردار آواز کمرے میں گونجی۔ اسی طرح اس نے دس بارہ مرتبہ کندھا دروازے پر مارا۔ جب دروازہ نہ ٹوٹا تو اس کے ساتھ پرویز بھی شامل ہو گیا۔ اب بیک وقت دو آدمی دروازے پر ٹکریں مار رہے تھے۔ آخر کب تک۔ دروازہ ٹوٹ کر اندر کی طرف جا گرا۔
تینوں بدمعاش ایک ساتھ اندر داخل ہوئے۔ یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ اندر کوئی نہیں تھا۔
”کمال ہے۔ یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے۔“ وزیر نے حیرت کے عالم میں کہا۔
”تو پھر دروازہ اندر سے کس نے بند کیا۔“ بہزاد نے پوچھا۔
”کہیں واقعی یہ مکان آسیب زدہ تو نہیں ہے۔“ پرویز بولا۔
”کیا بکتے ہو؟“ ارے۔ اس دوسرے دروازے کو دیکھو۔“
پرویز اور وزیر دوسرے دروازے کی طرف جھپٹے۔ یہ دروازہ بھی دوسری طرف سے بند تھا۔ تینوں چکرا کر رہ گئے۔ دوڑتے ہوئے باہر نکلے اور اس کمرے کے دروازے کی طرف آئے جس میں تھوڑی دیر پہلے پروفیسر داﺅد اور ان کی بیٹی بند تھے اور جس کے دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔
یہ دیکھ کر ان کی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا کہ دروازہ اس مرتبہ اندر سے بند تھا۔
٭……..٭
”اور اب وہ دونوں بچ کر کہاں جائیں گے؟“ بہزاد نے ہنس کر کہا۔ ”اب ہم اس کمرے کا دروازہ توڑیں گے۔ پھر تم انہیں کیسے بچاﺅ گے؟“
چاروں چکرا گئے کیوں کہ اب پروفیسر اور شائستہ کو بچانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔
”وزیر تم غسل خانے کے دروازے پر پہنچ جاﺅ۔ پستول ہاتھ میں رکھنا۔ پروفیسر نکل کر بھاگنے نہ پائے۔ ہم ادھر سے دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوں گے۔“
”اچھا استاد۔“ وزیر نے کہا اور محمود، فاروق کے کمرے کی طرف چلا گیا۔
”استاد۔ دروازہ بہت مضبوط ہے۔“ پرویز بولا۔
”پروا نہیں۔ میں نے بھی بڑے بڑے دروازے توڑ ڈالے ہیں۔“ بہزاد نے کہا اور دونوں مل کر دروازے پر ٹکریں مارنے لگے۔
چاروں حد درجے فکر مند نظر آرہے تھے۔ ان کے ذہنوں میں اس وقت بار بار یہی سوال گونج رہا تھا۔ کیا دروازہ ٹوٹ جائے گا اور یہ لوگ پروفیسر کو پکڑ کر لے جائیں گے۔ اگر ایسا ہو گیا تو ہم ابا جان کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔“
ان خیالات کے ساتھ ہی انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ محمود نے فاروق کی طرف دیکھا اور اس نے محمود کی طرف۔ دونوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک انوکھا پروگرام بنایا۔
بہزاد ڈاکو اور پرویز دروازے پر ٹکر مارنے کے لیے پیچھے ہٹ رہے تھے۔ محمود اور فاروق ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ ان کے درمیان میں سے بہزاد اور پرویز کو دوڑتے ہوئے دروازے تک جانا تھا۔ جونہی انہوں نے دوڑنا شروع کیا۔ محمود اور فاروق تیار ہو گئے۔ دونوں ان کے پاس پہنچے تو اچانک انہوں نے اپنی ایک ٹانگ آگے نکال دی۔ بہزاد اور پرویز منہ کے بل زمین پر آرہے۔ اسی وقت فرزانہ نے بجلی کی سی پھرتی سے گرے ہوئے بہزاد کی جیب میں سے پستول نکال لیا۔
”خبردار! اپنی جگہ لیٹے رہو۔ حرکت نہ کرنا۔ محمود تم دوسرے کا پستول بھی نکال لو۔“ وہ بولی۔
محمود نے دوسرے ساتھی کا پستول نکالنے میں دیر نہیں لگائی۔ جونہی وہ پستول نکال کر پیچھے ہٹا، بہزاد اور اس کا ساتھی اٹھ کھڑے ہوئے۔
”میں نے تم سے کہا تھا کہ اپنی جگہ سے حرکت نہ کرنا۔“ فرزانہ بولی۔
”تم۔ تم ننھے بچے پستول چلانا کیا جانو۔ لاﺅ پستول ہمارے حوالے کر دو۔“ بہزاد بے خوفی سے فرزانہ کی طرف قدم اٹھاتا ہوا بولا۔ اس کا ساتھی محمود کی طرف بڑھ رہا تھا۔
”خبردار۔ آگے نہ بڑھنا۔ ورنہ ہم گولی چلا دیں گے۔“ محمود نے گھبرا کر کہا۔
”تم گولی چلاﺅ گے۔ کبھی خواب میں بھی گولی چلائی ہے۔“ بہزاد ڈاکو ہنسا۔
”ہم گولی چلا سکتے ہیں۔“ فرزانہ نے اکڑ کر کہا۔
”تو پھر چلاﺅ۔ چلاتے کیوں نہیں؟“
”تم پر رحم آرہا ہے۔ اتنا بڑا ڈاکو اور چھوٹے چھوٹے بچے اسے ہلاک کر دیں۔“ فاروق ہنسا۔
”تم ننھے منے کیڑے مجھے ہلاک نہیں کر سکتے۔“ بہزاد برابر آگے بڑھا آرہا تھا۔
”اللہ تعالیٰ چاہے تو چیونٹی سے ہاتھی کو ہلاک کرا دے۔“فرزانہ بولی۔
”بہت خوب۔ تو تم چیونٹیاں ہو۔“
”ہم انسان ہیں۔“ فاروق نے بُرا سا منہ بنا کر کہا۔
اب بہزاد اور اس کا ساتھی ان دونوں سے تین چار قدم کے فاصلے پر رہ گئے تھے۔ محمود اور فرزانہ کی انگلیاں اپنے اپنے پستول کے ٹرائیگر پر تھیں۔ دونوں پستول کی نالیں ان کی طرف اٹھی ہوئی تھیں۔ اب محمود اور فرزانہ کے پاس دو راستے تھے۔ ایک تو یہ کہ وہ ان دونوں پر گولی چلا دیں کیوں کہ اسی صورت میں پروفیسر بچ سکتے تھے۔ دوسرے یہ کہ وہ ان دونوں کو یہ یقین دلا دیں کہ وہ پستول چلانا جانتے ہیں۔ اس صورت میں ڈاکوﺅں کے اٹھتے قدم رک جاتے۔ اس کا ایک فائدہ اور بھی ہوتا۔ لہٰذا محمود نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ وہ اچانک بولا۔
”ٹھہرو۔ شاید تم یہ سمجھ رہے ہو کہ ہم دونوں پستول چلانا نہیں جانتے ہوں گے۔“
”ہاں۔ اس میں کیا شک ہے۔“
”لیکن ہمیں پستول چلانا آتا ہے۔“
”یہ بکواس ہم ماننے کو تیار نہیں۔ تم ہمیں ڈرانا چاہتے ہو۔“
”اچھا تو سنو۔ یہ انسپکٹر جمشید کا گھر ہے۔“ محمود نے پُرسکون آواز میں کہا۔
”کیا کہا۔ انسپکٹر جمشید کا۔“ بہزاد اور اس کا ساتھی حیران رہ گئے۔
”ہاں! ہم انسپکٹر جمشید کے بچے ہیں۔ تمہیں بتا دوں۔ میرا نام محمود ہے، یہ فرزانہ ہے اور یہ صاحب فاروق ہیں، یہ ہماری امی ہیں۔ اب اگر تم نے ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو بغیر جھجک کے گولی مار دیں گے۔“
دونوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ انہوں نے انسپکٹر جمشید کے ساتھ ساتھ ان کے بچوں کے کارناموں کا حال اکثر اخبارات میں پڑھا تھا۔ دوسری طرف محمود نے انہیں ڈرا کر دوہرا فائدہ اٹھایا تھا۔ اگر وہ ان پر فائر کر دیتے تو بہزاد ڈاکو کے دوسرے دو ساتھیوں کو علم ہو جانا لازمی تھا اور پھر صورتِ حال اور بھی خطرناک ہو جاتی۔ اچانک فاروق کو ایک خیال آیا۔ اس نے بیگم جمشید سے کہا۔
”امی! آپ میرے ساتھ آئیے۔ یہاں کے لیے محمود اور فرزانہ ہی کافی ہیں۔
٭……..٭
پروفیسر داﺅد اور ڈاکوﺅں کی کار سے تھوڑے فاصلے پر ایک سفید رنگ کی کار کھڑی تھی۔ اس کا دروازہ کھلا۔ اس میں سے سیاہ کپڑوں میں ملبوس ایک شخص نکلا اور سڑک پر چلنے لگا۔ یہاں تک کہ وہ ایک پبلک فون بوتھ میں داخل ہوا۔ اس نے کسی کے نمبر ملائے اور انگریزی زبان میں کہا۔
”ہیلو! کون صاحب؟“
”تم کون ہو؟“ دوسری طرف سے پوچھا گیا۔
”جیری۔“
”تب تم نے ٹھیک نمبر پر فون کیا ہے۔ کیا رپورٹ ہے؟“
”بہزاد نے پروفیسر کا تعاقب گھر سے نکلتے ہی شروع کر دیا تھا۔ پروفیسر اپنی بیٹی کے ساتھ بازار گیا۔ وہاں اس نے کچھ چیزیں خریدیں۔ واپسی پر اسے تعاقب کا علم ہو گیا۔ وہ اندھا دھند بھاگ کھڑا ہوا۔ بہزاد کی کار بدستور اس کے تعاقب میں رہی۔ پروگرام یہی تھا کہ پروفیسر کو گھر سے باہر نکل جانے پر مجبور کیا جائے لیکن اچانک پروفیسر نے کار ایک سڑک پر موڑ دی۔ میں بہزاد کی کار کے پیچھے رہا جیسا کہ حکم دیا گیا تھا۔“
”تم نے ٹھیک کیا۔ آگے بتاﺅ۔ پھر کیا ہوا؟“ دوسری طرف سے بے چینی سے پوچھا گیا۔
”پروفیسر نے اچانک اپنی کار سڑک سے اتار کر کھڑی کر دی اور ایک طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کی بیٹی اس کے ساتھ تھی۔ پھر بہزاد اور اس کے ساتھی بھی کار سے اترے اور اس کے پیچھے بھاگے۔ میں نے ان دونوں کو ایک بڑے سے مکان کے بیرونی دروازے میں داخل ہوتے دیکھا تھا۔ پھر بہزاد اور اس کے ساتھی بھی اس میں داخل ہو گئے اور۔“
”اور کیا؟“
”اور اب انہیں اندر گئے تقریباً آدھ گھنٹہ ہو گیا ہے، وہ باہر نہیں نکلے۔“
”کیا مطلب؟“
”بہزاد اور اس کے ساتھی مکان سے باہر نکلتے ہوئے نہیں دیکھے گئے۔“
”اور پروفیسر۔“
”وہ بھی نہیں نکلے۔“
”کمال ہے۔ یہ لوگ اندر کیا کر رہے ہیں؟ اور دونوں کاریں؟“
”وہ اسی طرح سڑک کے کنارے کھڑی ہیں۔“
”ہوں! تو تم اندر جا کر حالات کا جائزہ لے سکتے ہو۔“
دوسری طرف سے کہا گیا۔
”جی بہتر۔ لیکن میں آپ کو ایک بات اور بتانا چاہتا ہوں۔“
”کیا؟“
”جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے۔ یہ مکان انسپکٹر جمشید کا ہے۔“
”کیا!“ دوسری طرف سے حلق پھاڑ کر پوچھا گیا۔
”جی ہاں!“
”کیا بہزاد کو اس بات کا علم نہیں تھا۔“
”میرا خیال ہے وہ نہیں جانتا تھا۔“
”یہ تو بہت بُرا ہوا۔ اگر بہزاد کو پکڑا گیا تو ہمارا راز فاش ہو جائے گا۔ اب تم اندر مت جانا۔ اسی جگہ ہمارا انتظار کرو ہم پہنچ رہے ہیں۔“
٭……..٭
فاروق اپنے کمرے میں داخل ہوا۔ یہاں وزیر غسل خانے کے دروازے پر موجود تھا۔ وہ اسے اندر داخل ہوتے دیکھ کر چونکا۔ اس کا پستول فاروق پر تن گیا۔
”کیوں۔ تم یہاں کیوں آئے ہو۔ کیا بات ہے؟“
”بہزاد نے تمہیں بلایا ہے۔ انہوں نے پروفیسر اور اس کی لڑکی کو پکڑ لیا ہے۔“
”کیا۔ پکڑ لیا ہے؟“
”ہاں۔“
”کیا دروازہ ٹوٹ گیا تھا۔“
”ہاں!“
”چلو۔ تم نے بہت بڑی خوشخبری سنائی ہے۔ اس کام کے بدلے میں ہمیں ہزاروں روپے ملیں گے۔“ وزیر خوش ہو کر بولا۔
دونوں کمرے کے دروازے کی طرف چلے فاروق اس کے پیچھے تھا۔
”میرے آگے چلو۔“ وزیر نے کہا۔
”مجھے تمہارے اس پستول سے ڈر لگتا ہے۔ کہیں چل گیا تو؟“
”ارے! اب اس کی ضرورت نہیں۔ میں اسے جیب میں رکھ لیتا ہوں۔“ وزیر نے کہا اور پستول جیب میں رکھ لیا۔
فاروق اس کے آگے آگیا اور چلتا ہوا کمرے سے باہر نکل آیا۔ باہر نکلنے سے پہلے وہ کھانسا بھی تھا۔ اس کے پیچھے وزیر باہر نکلا۔ ساتھ ہی اس کے سرپر کوئی چیز پورے زور سے مار دی گئی۔ وہ تیورا کر گرا۔ اس کے حلق سے آواز تک نہ نکل سکی۔
”بہت خوب امی۔ آپ نے بہت شاندار ہاتھ مارا۔“ فاروق نے دیوار کے ساتھ لگی کھڑی اپنی امی سے کہا۔ ان کے ہاتھ میں ہاکی سٹک تھی۔
”میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ کسی کو اس طرح زخمی کیا ہے۔“ بیگم جمشید نے گھبرا کر کہا۔
”لیکن یہ بہت ضروری تھا امی۔“
”ہاں! اب کیا کرنا چاہیے۔“
”پہلے اسے رسی سے باندھ دینا چاہیے۔“
”اچھا۔ میں رسی لاتی ہوں۔“
دونوں نے مل کر اس کے ہاتھوں او رپیروں کو رسی سے جکڑ دیا۔ اس کے بعد وہ بیرونی دروازے کی طرف بڑھے۔ یہاں اسرار موجود تھا۔ فاروق باہر نکل آیا۔
”تمہیں بہزاد نے بلایا ہے۔“
”اچھا۔“
وہ پوچھے تاچھے بغیر ہی اندر گھس گیا۔ اسے تو اندر پیش آنے والے واقعات کی خبر ہی نہیں تھی۔ جونہی وہ اندر داخل ہوا، ہاکی سٹک نے اس کا مزاج پوچھا اور وہ بھی فرش پر ڈھیر ہو گیا۔ انہوں نے مل کر اسے بھی باندھا اور گھسیٹ کر ایک طرف ڈال دیا۔
”اب آپ یہیں ٹھہریں۔ میں بھی اپنے کمرے سے ہاکی سٹک لے آﺅں۔“ فاروق نے کہا۔
٭……..٭
محمود اور فرزانہ الجھن میں تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کب تک ان دونوں پر پستول اٹھائے کھڑے رہیں گے۔ وہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہے تھے کہ فاروق اور امی کہاں چلے گئے۔ نہ جانے ان کے ساتھ کیا بیتی۔ اچانک ان دونوں نے دیکھا کہ بہزاد ڈاکو اور اس کا ساتھی پرویز آہستہ آہستہ سرکتے ہوئے ان سے کافی نزدیک آچکے تھے۔ یہ سب کچھ بے خبری میں ہوا تھا لیکن خطرے سے پہلے ہی وہ سنبھل گئے۔
”آگے مت بڑھو۔ تم جانتے ہی ہو، تمہاری گرفتاری پہلے ہی پولیس والوں کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔“محمود نے انہیں روکنے کے لیے کہا۔
”ہم تمہارے ساتھ ایک سوا کرنے کے لیے تیار ہیں۔“ بہزاد ڈاکو نے کہا۔
”کیسا سودا؟“
”تم ہمیں یہاں سے جانے دو۔ ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے، اور تم اگر ان دونوں باپ بیٹی کو ہمارے حوالے کر دو تو ہم تم کو نقدی کی صورت میں کئی ہزار روپے پیش کرسکتے ہیں۔“
”بہت خوب! شاید تم نہیں جانتے، وہ باپ بیٹی کون ہیں۔“ فرزانہ نے کہا۔
”جانتے ہیں۔ وہ ایک پروفیسر ہے۔“
”پروفیسر داﺅد؟“ فرزانہ نے مسکرا کر کہا۔
”ارے! تم اسے جانتے ہو؟“
”ہم تینوں انہیں انکل کہتے ہیں۔ وہ ہمارے والد کے دوست ہیں۔“
”اوہ!“ بہزاد حیران رہ گیا۔
”اس صورت میں تم سوچ سکتے ہو کہ ہم انہیں کسی قیمت پر تمہارے حوالے نہیں کرسکتے۔“
”تو ہمیں جانے دو۔“
”کیوں؟ اب حالات ہمارے قابو میں ہیں۔“
”ابھی میرے دو ساتھی باہر موجود ہیں۔ وہ ادھر نکل آئے تو تمہارا بچنا مشکل ہو جائے گا۔“
”وہ ادھر آئیں گے تو ہم ان سے بھی سمجھ لیں گے۔ تم فکر نہ کرو۔“
”تمہاری مرضی۔“ بہزاد ڈاکو نے شانے اُچکائے۔
اسی وقت محمود اور فرزانہ نے فاروق اور امی کو دبے پاﺅں بہزاد اور اس کے ساتھی کی طرف بڑھتے دیکھا۔ وہ گھبرا گئے۔ ان دونوں کے ہاتھوں میں ہاکی سٹکیں تھیں۔ ان کے دل دھک دھک کرنے لگے۔ ایسے میں فرزانہ نے سوچا کہ انہیں باتوں میں لگائے رکھنا چاہیے تاکہ یہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھنے پائیں۔ وہ فوراً بولی۔
”ویسے محمود! اگر ہم ان کی پہلی بات مان لیں تو۔“
”کیا مطلب؟“ محمود نے غصے سے کہا۔ وہ فرزانہ کا مطلب سمجھ گیا تھا۔
”میرا مطلب یہ ہے کہ ہم انہیں جانے دیں تو اس کے بدلے میں یہ ہمیں کیا دیں گے؟“
”اس کے بدلے میں ہم تمہیں کچھ نہیں دے سکتے۔ البتہ اگر تم پروفیسر داﺅد کو ہمارے حوالے کردو تو ہم تمہیں پانچ ہزار روپے اسی وقت دے سکتے ہیں۔“
”ارے! بس صرف پانچ ہزار؟“ فرزانہ نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
”چلو سات ہزار لے لو۔“
”میں تو تھوکتی ہوں ایسے سات ہزار پر۔ محمود تم کیا کہتے ہو۔“ فرزانہ نے کہا۔
”میں تو تھوکنا بھی پسند نہیں کرتا۔“
”دس ہزار؟“ بہزاد نے بولی دینے والے انداز میں کہا۔
”ناممکن!“ محمود کے منہ سے نکلا۔
”بیس ہزار؟“
”توبہ کرو۔“ فرزانہ بولی۔
”ایک لاکھ کھرب کی بات کرو تو ہم یہ سوچیں گے کہ۔“محمود کہتے کہتے رک گیا۔
”کیا سوچو گے تم؟“ فرزانہ نے غصیلے لہجے میں کہا۔
”کہ ہمارے چچا کی اس قدر کم قیمت لگانے پر ان دونوں کو کیا سزا دی جائے۔“ محمود نے مسکرا کر بات مکمل کی۔
”بہت خوب۔ یہ ہوئی نہ بات۔ بھلا کوئی چچا کو بھی بیچتا ہے۔“
”ڈاکو لوگ بیچتے ہوں گے؟“
”بکو مت۔“ بہزاد غصے سے چلایا۔
”بہت اچھا۔ آپ ہی سودا کرنے کے لیے کہہ رہے تھے۔“
”میں جانتا ہوں۔ تم سودا دو۔“
اس کے الفاظ درمیان میں ہی رہ گئے۔ اسی وقت دونوں کے سروں پر ہاکی سٹکیں پوری قوت سے پڑی تھیں۔
”خس کم جہاں پاک۔“ فاروق نے ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا۔
٭……..٭
سخت سردیوں کے موسم میں شام کے آٹھ بجے ہی یوں لگنے لگتا ہے جیسے رات آدھی سے زیادہ بیت گئی ہو۔ انسپکٹر جمشید کو تفتیش کے کام سے فارغ ہونے کے بعد کچھ ایسا ہی محسوس ہوا۔ وہ اپنی موٹرسائیکل پر سوار ہوتے وقت سوچ رہے تھے کہ شاید سب بچے سوچکے ہوں اور صرف ان کی بیگم انتظار کررہی ہوں گی۔ جونہی انہوں نے موٹرسائیکل سٹارٹ کی، تیز ہوا ان کے جسم سے ٹکرائی، وہ کپکپا اُٹھے۔ انہوں نے بائیں ہاتھ سے کوٹ کے کالر کھڑے کرلیے۔
اب وہ پوری رفتار سے گھر کی طرف اڑے جارہے تھے۔ وہ بھوکے بھی تھے اور جلد سے جلد گھر پہنچ جانا چاہتے تھے۔ گھر کی سڑک پر مڑتے ہی انہیں اپنے گھرسے چند قدم کے فاصلے پر دو کاریں نظر آئیں۔ انہوں نے پہلے تو ان کی طرف کوئی دھیان نہ دیا لیکن قریب پہنچنے پر وہ پروفیسر داﺅد کی کار دیکھ کر کھٹکے۔ پھر ان کی نظر کار کے نمبر پر پڑی تو انہیں معلوم ہوگیا کہ کار پروفیسر کی ہی ہے۔ وہ سوچ میں پڑ گئے کہ اس وقت پروفیسر داﺅد کا یہاں کیا کام۔
وہ موٹر سائیکل مکان کے بیرونی دروازے تک لیتے چلے گئے۔ انہوں نے موٹر سائیکل کا انجن بند کیا اور نیچے اتر آئے۔ دروازہ دھکیل کر دیکھا تو وہ کھلا ہوا تھا۔ وہ دبے پاﺅں اندر داخل ہوگئے۔ چند قدم آگے بڑھے ہوں گے کہ چونک اٹھے۔ کوئی شخص رسیوں سے بندھا فرش پر پڑا تھا۔ انہوں نے جھک کر اسے دیکھا، وہ ہوش میں تھا۔ اس کے منہ پر بھی ایک کپڑا بندھا تھا۔ انہوں نے منہ سے کپڑا ہٹایا اور پوچھا۔
”کون ہو تم اور یہاں کیوں بندھے پڑے ہو؟“ وہ حیران تھے۔
”میں…. مم…. میں۔“ وہ ہکلایا۔
”ہاں! کون ہوتم اور یہاں کیسے پہنچے؟“
بندھا ہوا شخص خاموش رہا۔ شاید وہ اپنے بارے میں کچھ بتانا نہیں چاہتا تھا۔ انسپکٹر جمشید نے وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور اس کے منہ پر کپڑا باندھ کر آگے بڑھے۔ ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب انہوں نے ایک اور آدمی کو بندھا ہوا پایا۔
”یا الٰہی خیر! یہ کیا ماجرا ہے۔ یہ میرا گھر ہے یا کوئی غنڈوں کا اکھاڑہ۔“ وہ دل ہی دل میں بڑبڑائے۔
آگے جانے سے پہلے وہ محمود اور فاروق کے کمرے میں گھس گئے۔ ایک بار پھر انہیں زبردست جھٹکا لگا۔ ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ غسل خانے کا دروازہ ٹوٹا پڑا تھا۔
”یا اللہ! یہ سب کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے یہاں باقاعدہ جنگ ہوئی ہے۔“
اب وہ کمرے سے نکل کر اندرونی حصے کی طرف بڑھے۔ ایک کمرے سے انہیں باتیں کرنے کی آواز آئی۔ کمرے کا دروازہ بند نہیں تھا۔ ایک طرف کھڑے ہوکر غور سے اندر ہونے والی گفتگو سننے لگے۔
”بھئی میں تو مان گیا۔ آج تک ان کے کارناموں کے متعلق سنا یا پڑھا تھا۔ آج سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔“ یہ پروفیسر داﺅد کی آواز تھی۔ انسپکٹر جمشید سمجھ گئے محمود فاروق اور فرزانہ نے آج پھر کوئی معرکہ مارا ہے۔
”اب ہمیں اور شرمندہ نہ کریں انکل۔“ محمود کی آواز آئی۔
”تم شرمندہ ہونا بھی جانتے ہو؟“ فرزانہ نے حیران ہوکر کہا۔
”جی نہیں۔ وہ تو بس تمہیں ہی آتا ہے۔“
”تمہارا آج کا کارنامہ سنہری لفظوں میں لکھنے کے قابل ہے۔“
”لیکن انکل سنہری روشنائی کہاں سے آئے گی؟“ فاروق نے مذاق میں کہا۔
”میں بناﺅں گا تمہارے لیے سنہری روشنائی۔“ پروفیسر کے ہنسنے کی آواز آئی۔
”ویری گڈ انکل۔ اچھا اس خوشی کے موقع پر آپ ہمیں کوئی ننھا منا ہتھیار بھی بنا کر دیں گے یا نہیں۔“
”کیوں نہیں۔ میں تم تینوں کو تین حیرت انگیز چیزیں بنا کر دوں گا۔“
”بھئی واہ! خدا ایسے انکل ہر ایک کو دے۔“ فرزانہ نے غیرارادی طور پر کہا۔
”ایسی دعا نہ مانگو۔“ فاروق بولا۔
”کیوں؟“ محمود اور فرمانہ نے بیک وقت حیران ہوکر پوچھا۔
”ملک میں سائنس دان ہی سائنس دان ہو جائیں۔“
”ہاں! یہ بھی ٹھیک ہے۔“ وہ سب ہنس پڑے۔
”اچھا فرزانہ پہلے یہ بتاﺅ۔ تم نے ایک دم چابی کے متعلق کیوں بتا دیا تھا۔“ بیگم جمشید نے کہا۔
”ہاں! ہمیں تم پر بہت غصہ آیا تھا۔“ محمود بول اُٹھا۔
”اس وقت بہزاد نے ہمیں قتل کرنے کی دھمکی دی تھی اور میں نے اس کی آنکھوں میں ایک خوف ناک چمک دیکھی تھی۔ اس چمک نے مجھے فوراً یہ کہا کہ یہ شخص اپنے حکم کی فوراً تعمیل کرانے والا ہے۔ اس لیے میں نے جھٹ چابی کا پتا بتا دیا۔ کیوں کہ چابی ان کے حوالے کر دینے کے بعد بھی کچھ کرنے کے بہت مواقع تھے۔“
”بہت خوب۔ میرا خیال ہے اس نے ٹھیک ہی کیا۔“ انسپکٹر جمشید نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
وہ سب انہیں دیکھ کر چونک اُٹھے۔
”ارے! تم کب آئے۔“ پروفیسر بولے۔
”ابھی تھوڑی دیر پہلے۔ میں تم لوگوں کی باتیں سن چکا ہوں۔ پہلے یہ بتاﺅ۔ تم کس بہزاد کا ذکر کررہے تھے۔“ انہوں نے پوچھا۔
”بہزاد ڈاکو کا۔“
”کیا کہا۔ بہزاد ڈاکو۔“
”جی ہاں! وہ انکل کو اغوا کرکے لے جانا چاہتا تھا۔“
”اوہ!“
پھر پروفیسر نے پوری تفصیل سے انہیں بتایا کہ کیسے وہ یہاں تک پہنچے۔ اسی کے بعد کی کہانی کا کچھ حصہ محمود اور فرزانہ نے سنایا اور کچھ حصہ فاروق اور بیگم جمشید نے۔
”وہ دونوں اب کہاں ہیں؟“ انسپکٹر جمشید نے ساری کہانی سننے کے بعد پوچھا۔
”آپ کے کمرے میں بندھے پڑے ہیں۔“ بیگم جمشید نے بتایا۔
”مجھے یقین نہیں آتا کہ بہزاد ڈاکو کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”کیا آپ اسے پہچانتے ہیں؟“ محمود نے پوچھا۔
”نہیں۔ یہی تو مصیبت ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کا آمنا سامنا کسی پولیس افسر سے نہیں ہو سکا۔ ہمارے ریکارڈ میں بھی اس کی کوئی تصویر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج تک پکڑا نہیں جا سکا اور آج تم کہہ رہے ہو کہ تم نے بہزاد ڈاکو کو پکڑ لیا ہے۔“
”تو پھر چل کر دیکھ لیں۔ اس کے ساتھیوں سے سوالات کرنے سے سب کچھ معلوم ہوسکتا ہے۔“
”ہاں ٹھیک ہے۔ چلو۔ لیکن نہیں۔ ٹھہرو۔ ہم ایک ضروری کام تو بھول ہی گئے۔“انسپکٹر جمشید نے کہا۔
”وہ کیا؟“ پروفیسر داﺅد بولے۔
”کیا کسی نے پولیس کو فون کیا ہے۔“
”اوہ! نہیں۔“ محمود کے منہ سے نکلا۔
”حالاں کہ یہ سب سے ضروری تھا۔“
”تو میں ابھی فون کر دیتا ہوں جا کر۔“ محمود نے کہا۔
”ہاں! تم جاﺅ جا کر فون کر آﺅ۔ ہم بہزاد ڈاکو سے بات کرتے ہیں۔“ محمود گھر سے باہر نکل کر شیرازی صاحب کے گھر چلا گیا اور انسپکٹر جمشید دوسرے لوگوں کے ساتھ اس کمرے میں داخل ہوئے جس میں بہزاد ڈاکو موجود تھا۔ وہ اور اس کا ساتھی رسیوں سے بندھے پڑے تھے۔ ان کے سروں سے خون بہہ کر چہرے پر جم گیا تھا۔
”کیا تم بہزاد ڈاکو ہو؟“
بہزاد ڈاکو خاموش رہا۔ اگر وہ اقرار کرلیتا تو ساری عمر کے لیے جیل چلا جاتا۔ اس لیے وہ کیسے اپنے منہ سے کہہ سکتا تھا۔ اس کے خاموش رہنے پر انسپکٹر جمشید نے پرویز سے سوال کیا۔
”کیا تمہارا یہ ساتھی بہزاد ڈاکو ہے۔“
وہ بھی خاموش رہا۔ انسپکٹر جمشید تھوڑی دیر تک کچھ سوچتے رہے پھر کمرے سے نکل آئے۔ ان کے پیچھے دوسرے بھی نکل آئے۔
”یہ تو مشکل ہی اقرار کرے گا۔“ فرزانہ بولی۔
”ہاں! لیکن یہ ہے بہزاد ڈاکو ہی۔“ انسپکٹر جمشید نے کہا۔
”یہ کیسے کہہ سکتے ہیں آپ؟“ بیگم جمشید نے پوچھا۔ دوسرے بھی انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
”اگر یہ بہزاد ڈاکو نہ ہوتا تو فوراً کہتا۔ میں بہزاد ڈاکو نہیں ہوں۔ لیکن یہ میرے سوال کے جواب میں خاموش رہا، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بہزاد ڈاکو ہی ہے۔“
”لیکن سوال یہ ہے کہ تم اسے کیسے ثابت کرو گے۔“ پروفیسر داﺅد نے سوال کیا۔
”ابھی ثابت کیے دیتا ہوں۔ یہ کون سا مشکل کام ہے۔“
”آخر کیسے؟“ فاروق نے پوچھا۔
”بس دیکھتے جاﺅ۔“
وہ سب بہزاد ڈاکو کے اس ساتھی کے پاس آئے جو دروازے پر بندھا پڑا تھا۔ انسپکٹر جمشید نے اس کے منہ سے کپڑا ہٹایا۔
”تم کس کے ساتھ ہو؟“
”کیا مطلب؟“ اس نے حیران ہوکر پوچھا۔
”تمہارے گروہ کے سردار کا کیا نام ہے؟“
”کیوں؟ آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟“ اس نے پوچھا۔
”اس لیے کہ تمہارے تینوں ساتھی مارے جاچکے ہیں۔“ انسپکٹر جمشید نے اچانک کہا۔
”کیا کہا۔ مارے جاچکے ہیں؟“ اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
”ہاں! صرف تم ہی بچے ہو۔ تمہارے سامنے اس وقت انسپکٹر جمشید کھڑا ہے۔ یہ میرا ہی مکان ہے۔ تم نے کسی عام آدمی کے مکان پر چڑھائی نہیں کی تھی۔ مکان اس وقت پولیس کے گھیرے میں ہے۔ تمہارے تینوں ساتھی فرار کی کوشش کرتے ہوئے ہلاک ہوچکے ہیں۔ لہٰذا تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ سچ سچ بتا دو کہ تمہارے گروہ کا سردار کون تھا۔“
”بہزاد ڈاکو۔“ اس نے پریشان ہوکر کہا۔
انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”اسے میرے کمرے میں بند کردینا چاہیے۔“ انہو ںنے کہا۔
پروفیسر داﺅداور انسپکٹر جمشید نے مل کر اسے اٹھایا اور کمرے میں ڈال کر دروازہ بند کردیا۔
اب وہ دوسرے قیدی کی طرف بڑھے جو محمود اور فاروق کے کمرے کے دروازے کے پاس بندھا پڑا تھا۔ جلد ہی اس نے بھی یہ اقرار کرلیا کہ وہ بہزاد ڈاکو کا ساتھی ہے۔
٭….٭….٭
محمود نے شیرازی صاحب کے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ بیگم شیرازی نے کھولا۔
”السلام علیکم آنٹی!“
”وعلیکم السلام۔ آﺅ محمود کیا بات ہے؟“
”مجھے ذرا پولیس اسٹیشن فون کرنا ہے۔“
”اچھا آﺅ۔“
”شیرازی صاحب کہاں ہیں؟“
”اپنے کمرے میںآرام کررہے ہیں۔“
”اچھا!“
دونوں فون والے کمرے میں آئے۔ محمود نے فون پر نمبر ملائے اور ریسیور کان سے لگاتے ہوئے بولا۔
”ہیلو۔“
”پولیس اسٹیشن۔“ دوسری طرف سے کہا گیا۔
”کون صاحب؟“
”میں سب انسپکٹر ابراہیم بول رہا ہوں۔ آپ کون ہیں؟“
”محمود! انسپکٹر جمشید کا لڑکا۔ آپ فوراً کچھ کانسٹیبل لے کر یہاں پہنچ جائیں۔“
”کیوں۔ خیر تو ہے؟“
”ہاں! سب خیریت ہے لیکن ذرا جلدی کیجیے۔“
”کیا انسپکٹر صاحب گھر میں موجود ہیں؟“
”ہاں! وہ بھی ہیں۔“
”کیا یہ انہی کا حکم ہے؟“
”ہاں!“
”اچھا! میں آرہا ہوں۔“
”جلدی آئیے۔“ محمودنے کہا اور ریسیور رکھ دیا۔
”کیا بات ہے محمود۔ تم نے پولیس کو کیوں بلایا ہے۔“
”ہمارے ہاں اس وقت کچھ مجرم بندھے پڑے ہیں۔“
”ارے!“ وہ حیران رہ گئیں۔
”جی ہاں! بہزاد ڈاکو اور اس کے تین ساتھی۔“
”ان لوگوں کا تمہارے گھر میں کیا کام؟“
”وہ پروفیسر داﺅد کو اغوا کرنا چاہتے تھے۔“
”تو کیا پروفیسر داﺅد تمہارے ہاں موجود تھے۔“
”جی ہاں!“
”انہیں تمہارے والد نے پکڑا؟“
”نہیں وہ گھر میں موجود نہیں تھے۔“
”تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان چاروں کو تم نے پکڑا ہے۔“
”جی ہاں!“
”بھئی واہ! کمال کیا تم نے۔“
”اچھا آنٹی میں چلتا ہوں۔“
”اچھا۔“
محمود ان کے مکان سے نکل کر اپنے دروازے کی طرف بڑھا ہی تھا کہ ٹھٹک کر رک گیا۔ تین غیرملکی ان کے مکان میں داخل ہورہے تھے۔
٭……..٭
”بہت خوب! اسے بھی ایک کمرے میں بند کرنا چاہیے۔“ انسپکٹر جمشید نے کہا۔
دوسرے کمرے میں اسے ڈال کر دروازہ بند کردیا گیا۔ اب وہ ڈرائنگ روم میں آکر بیٹھ گئے۔
”میری سمجھ میں ابھی تک یہ بات نہیں آئی کہ بہزاد ڈاکو کو مجھ سے کیا دشمنی ہے۔ آخر وہ مجھے کیوں پکڑنا چاہتا تھا۔“ پروفیسر داﺅد نے آرام سے بیٹھنے کے بعد کہا۔
”ہم اس سے یہ بات اگلوا لیں گے۔ آپ فکر نہ کریں۔“
”ابا جان! ہو سکتا ہے کوئی اور بہزاد ڈاکو کے ذریعے انکل کو پکڑوانا چاہتا ہو۔“ فرزانہ نے خیال ظاہر کیا۔
”ہاں! یہ بھی ممکن ہے۔ بہزاد ڈاکو کو بھاری رقم کے لالچ میں ایسے کام پر آمادہ کرنا کچھ مشکل بھی نہیں۔“
”اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون ہے جو ایسا چاہتا ہے۔“
”آپ لوگ ٹھہریں۔ میں بہزاد سے معلوم کرکے آتا ہوں۔“
انسپکٹر جمشید نے کہا اور کمرے سے نکل کر بہزاد ڈاکو والے کمرے میں پہنچے۔
”یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ تم بہزاد ڈاکو ہو۔ تمہارے دوسرے دو ساتھیوں نے اس بات کا اقرار کرلیا ہے۔“ انہوں نے کہا۔
”کسی کے کوئی بات کہنے سے کیا بنتا ہے۔“
”تو کیا تم بہزاد ڈاکو نہیں ہو؟“
”نہیں!“ اس نے جواب دیا۔
”بہت دیر بعد عقل آئی۔“ انسپکٹر جمشید مسکرائے۔
”کیا مطلب؟“
”مطلب یہ کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے جب میں نے آکر پوچھا تھا تو تم نے کوئی جواب نہیں دیا تھا بلکہ خاموش ہو گئے تھے۔ تم نے اس وقت کیوں نہ کہہ دیا کہ تم بہزاد نہیں ہو۔“
”تم کہنا کیا چاہتے ہو؟“
”یہی کہ تم بہزاد ہو۔“
”لیکن میں بہزاد نہیں ہوں۔“
”خیر! ہم ثابت کردیں گے۔ تم یہ بتاﺅ کہ پروفیسر کو اغوا کرنے سے تمہارا کیا مقصد تھا۔“
”کوئی پروفیسر کو اغوا کرانا چاہتا ہے۔ پچیس ہزار روپے کے بدلے میں نے اس کام کو کرنے کا وعدہ کیا ہے۔“
”بہت خوب۔ کیا تمہیںرقم مل چکی ہے؟“
”نہیں۔ کام کے بعد ملے گی۔“
”کون پروفیسر کو اغوا کرانے کا خواہش مند ہے۔“
”یہ میں تمہیں نہیں بتا سکتا۔“
”کیوں؟“ انسپکٹر جمشید نے تیز لہجے میں کہا۔
”اس لیے کہ یہ میرا کاروباری معاملہ ہے۔“
”ہمیں اگلوانا آتا ہے۔“
”مجھ سے اگلواﺅ گے…. یعنی….“ وہ کچھ کہتے کہتے رُک گیا۔
”ہاں ہاںکہو۔ رک کیوں گئے۔ کہتے کیوں نہیں۔ تم یہی کہنے والے تھے نا۔ مجھ سے اگلواﺅ گے۔ یعنی بہزاد ڈاکو سے۔“
بہزاد خاموش رہا۔
”تو تم اس کا نام نہیں بتاﺅ گے؟“
”نہیں۔“
”اب تم یہاں سے بچ کر نہیں جاسکو گے۔“ انسپکٹر جمشید نے کہا۔
”میں صاف بچ کر نکل جاﺅں گا اور تم دیکھتے رہ جاﺅ گے۔“
بہزاد ہنسا۔
”ابھی میرے ساتھی یہاں پہنچ جائیں گے۔“
”کن ساتھیوں کی بات کررہے ہو۔ جنہوں نے تمہیں اس کام پر مامور کیا ہے؟“
”نہیں۔ میرے اپنے ساتھی۔“
”تمہارا ایک ساتھی تو تمہارے پاس موجود ہے۔“ انسپکٹر جمشید نے ہنس کر کہا۔
”دو دوسرے کمرے میں بندھے پڑے ہیں اور ساتھی کہاں سے آئیں گے۔ کیا پروگرام بنا کر آئے تھے کہ پروفیسر داﺅد کو گھیر کر انسپکٹر جمشید کے گھر میں لے جایا جائے گا اور پھر وہاں جب ہم پھنس جائیں تو دوسرے ساتھی بھی وہاں پہنچ جائیں۔“
بہزاد ڈاکو کے پاس اُن کی اس بات کا کوئی جواب نہ تھا۔ اس لیے وہ خاموش رہا۔
”بہت اچھا۔ تم نہیں بتاتے نہ بتاﺅ۔ اب سب کچھ معلوم کرنا میرا کام ہے۔“
انہوں نے کہا اور کمرے سے نکل آئے۔
٭……..٭
سڑک کے کنارے کھڑی سفید کار کے پاس ایک اور چھوٹی سی سبز کار آکر رُکی۔ اس میں سے تین غیرملکی نیچے اُترے۔ سفید کار میں بیٹھا ہوا آدمی انہیں دیکھ کر کار سے نکل آیا۔
”کیا حالات بدستور ہیں؟“ ان میں سے ایک نے انگریزی میں پوچھا۔
”جی ہاں!“ سفید کار والے نے جواب دیا۔
”تو آﺅ۔ اندر چل کر دیکھیں تو سہی ماجرا کیا ہے۔“ ایک بولا پھر اس نے اپنے ساتھی سے کہاجو ڈرائیور تھا۔ تم باہر ہی ٹھہرو گے۔“
”کیا آپ کے پاس پستول موجود ہیں؟“ سفید کار والے نے پوچھا۔
”ہاں! کیوں۔ تم نے یہ کیوں پوچھا؟“
”یہ انسپکٹر جمشید کا گھر ہے۔“
”اوہ! کیا فضول بات کہی تم نے۔ چلو اندر۔“
تینوں دروازے کی طرف بڑھے۔
”یاد رہے۔ کسی کی زبان پر ایک دوسرے کا نام نہ آئے ورنہ ملکی حالات بگڑ جائیں گے۔ دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات ٹوٹ جائیں گے۔“ سبز کار والوں میں سے ایک بولا۔
”ٹھیک ہے۔ ہم سمجھتے ہیں۔“
”لیکن ہم اندر جائیں گے کیسے؟ دروازہ تو اندر سے بند ہوگا؟“
”نہیں۔ دروازہ اندر سے بند نہیں ہے۔“ سفید کار والے نے کہا۔
”کیوں؟ تمہیں کیسے معلوم؟ کہیں ہم سے پہلے اندر تو نہیںہو آئے؟“
”نہیں! ابھی ابھی ایک لڑکا گھر سے نکل کر ساتھ والے مکان میں گیا تھا۔“
”سوال یہ ہے کہ وہ دوسرے مکان میں کس لیے گیا ہے؟“
”یہ مجھے کیا معلوم۔“
”مجھے تو خطرے کی بو آرہی ہے۔“
”تم آﺅ تو سہی۔ اگر ضرورت پڑی تو ہم بلا جھجک اپنے پستول استعمال کریں گے اور کسی کو زندہ نہ چھوڑیں گے تاکہ کسی کو شک کرنے کا موقع نہ ملے۔“
انہوں نے آواز پیدا کیے بغیر دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوگئے۔ سب سے پہلے وہ ایک کمرے کے دروازے پر پہنچے۔ اس کا دروازہ باہر سے بندھ تھا۔ ان میں سے ایک نے آہستہ سے دروازہ کھولا اور اندر جھانک کر دیکھا۔ دوسرے ہی لمحے وہ چونک اٹھے۔ اندر کوئی بندھا پڑا تھا۔
”یہ کون ہے؟“ سبز کار والے نے پوچھا۔
”بہزاد کا ساتھی۔“
”اوہ! تو یہ لوگ پکڑے جاچکے ہیں۔“
”آﺅ۔ پہلے آگے چل کر دیکھ لیں۔“
وہ تینوں آگے بڑھے۔ اس مرتبہ انہوں نے محمود اور فاروق کے کمرے کا دروازہ کھول کر دیکھا۔ یہاں بھی انہیں بہزاد کا ایک ساتھی بندھا ملا۔
”یہ کیا ماجرا ہے؟ انہیں الگ الگ کمرے میں کیوں رکھا گیا ہے؟“
”خدا جانے کیا چکر ہے۔“
وہ آگے بڑھے تو ایک کمرے سے انہیں کئی آدمیوں کے باتیں کرنے کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ دبے پاﺅں آگے بڑھنے لگے۔
٭……..٭
محمود ٹھٹک کر رہ گیا۔ اس نے سڑک پر چار کاریں کھڑی دیکھیں جن میں سے ایک پروفیسر کی تھی۔ دوسری یقینا بہزادڈاکو کی تھی۔ باقی دو کاریں؟ اس نے سوچا۔ ضرور ان غیرملکیوں کی ہیں۔ اس خیال کے آتے ہی اس نے اپنی جیب کو ٹٹولا لیکن جیب خالی تھی۔
وہ ایک بار پھر شیرازی صاحب کے مکان میں گھس گیا۔ بیگم شیرازی اسے دیکھ کر چونک اُٹھیں۔
”خیر تو ہے۔ تم واپس آگئے؟“
”ایک پنسل اور کاغذ کی ضرورت ہے۔ جلدی کریں۔“
”اچھا۔ لیکن بات تو بتاﺅ۔“ بیگم شیرازی اُٹھتے ہوئے بولیں۔
”بہزاد ڈاکو کے کچھ ساتھی ہمارے مکان میں داخل ہوئے ہیں۔ ان کی کاریں سڑک پر کھڑی ہیں۔ ان کے نمبر نوٹ کرنا چاہتا ہوں۔“
”اوہ!“ بیگم شیرازی گھبرائیں۔ جلدی سے انہوں نے کاغذ اور پنسل محمود کے ہاتھوں میں پکڑا دیے۔ محمود باہر کی طرف لپکا تو وہ بھی اس کے پیچھے چلی آئیں۔
محمود سڑک کے کنارے کھڑی کاروں کے پاس پہنچا اور جھک کر ان کے نمبر نوٹ کرنے لگا۔ ایک کار کے نمبر نوٹ کرنے کے بعد دوسری کار کی طرف بڑھا۔ یہ سبز رنگ کی کار تھی۔ وہ جھکا اور نمبر نوٹ کرنے ہی والا تھا کہ ایک تیز آواز نے اسے بوکھلا دیا۔
”کیا بات ہے صاحبزادے۔ یہ نمبر کس خوشی میں نوٹ ہورہے ہیں؟“
محمود ایک دم سیدھا کھڑا ہوگیا۔ اس نے دیکھا کہ وہ سبز کار کا ڈرائیور تھا جو کار سے باہر بجلی کے ایک کھمبے سے لگا اسے گھور رہا تھا۔
”تم نے کار کے نمبر کیوں نوٹ کیے ہیں؟“ اس نے دوبارہ سخت لہجے میں پوچھا۔
”جی…. جی….“ محمود سے کوئی بات نہ بن سکی۔
”بتاﺅ؟“
”جی…. جی دراصل یہ میرا شوق ہے۔“ اس نے بات بنا ہی ڈالی۔
”یہ تمہارا شوق ہے؟“ کار کے ڈرائیور نے حیران ہوکر کہا۔
”جی ہاں!“
”تو تم نے اپنے گھر کے سامنے کھڑی دو کاروں کے نمبر کیوں نوٹ نہیں کیے؟“ ڈرائیور نے پوچھا۔
”کون سی دو کاروں کے؟“ محمود نے یونہی پوچھا۔
”وہ جو کھڑی ہیں۔“ اس نے پروفیسر داﺅد اور بہزاد کی کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جو شیرازی صاحب کے گھر کے سامنے کھڑی تھیں۔
محمود سمجھ گیا کہ چوں کہ اس نے اسے شیرازی صاحب کے گھر سے نکلتے دیکھا ہے اس لیے یہ سمجھا ہے کہ یہی اس کا گھر ہے۔ اب وہ جواب دینے کے لیے تیار تھا۔
”ان دونوں کے نمبر تو میں پہلے ہی نوٹ کرچکا ہوں۔“
”ذرا دکھانا تو کاغذ۔“
مجبوری کے عالم میں اس نے کاغذ ڈرائیور کی طرف بڑھا دیا۔
”لیکن اس پر تو صرف ایک کار کا نمبر درج ہے۔“
”ان دو کاروں کے نمبر دوسرے کاغذ پر درج کیے تھے۔وہ گھر میں رکھا ہے۔“
”ہوں۔ بھاگ جاﺅ۔ اس کار کا نمبر نوٹ کرو۔“
”میرا کاغذ تو مجھے دے دیں۔ میں آپ کی کار نمبر نہیں نوٹ کرتا۔“
”دوڑ جاﺅ۔“
محمود نے مڑتے مڑتے سبز کار کے نمبر پر نظر ڈالی۔ اس کا نمبر ذہن میں محفوظ ہوچکا تھا۔
٭……..٭
انسکپٹر جمشید بہزاد ڈاکو کے کمرے سے نکل کر ڈرائنگ روم کی طرف بڑھے ہی تھے کہ چونک کر رُک گئے۔ تین غیرملکی ڈرائنگ روم کے دروازے پر کھڑے اندر ہونے والی گفت گو سن رہے تھے۔ انہوں نے سوچا کیا یہی لوگ پروفیسر کو اغوا کروانا چاہتے ہیں؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ خود ہی آگئے۔“ یہ خیال آتے ہی انہوں نے جیب سے پستول نکال لیا۔
”اپنے ہاتھ اوپر اٹھا دو۔ خبردار تم میں سے کوئی حرکت نہ کرے۔“ انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے انہیں للکارا۔
وہ بھڑک کر مڑے۔ دوسرے ہی لمحے ان کے ہاتھ اوپر اُٹھ گئے۔ انسپکٹر جمشید کی آواز ڈرائنگ روم کے اندر بھی پہنچ گئی۔ فاروق اور فرزانہ صورتِ حال معلوم کرنے کے لیے دروازے کی طرف دوڑے۔ فاروق نے دروازے پر پہنچتے ہی پوچھا۔
”کیا بات ہے ابا جان؟“
انسپکٹر جمشید نے جونہی فاروق کی طرف دیکھا۔ ان تینوں میں سے ایک نے بجلی کی سی پھرتی سے ہاتھ گرا دیا۔ دوسرے ہی لمحے اس کے ہاتھ میں پستول تھا۔ ساتھ ہی پستول سے فائر ہوا اور انسپکٹر جمشید کے ہاتھ سے پستول نکل کر فضا میں اچھلا پھر فرش پر گر گیا۔
”اب تم سب ہاتھ اوپر اٹھا دو۔“ پستول والے نے کہا۔ فاروق کا رنگ زرد پڑ گیا کیوں کہ یہ اچانک تبدیلی اس کی وجہ سے آئی تھی۔ اس کا سر شرم سے جھک گیا۔
”کوئی بات نہیں۔“ انسپکٹر جمشید نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
”ایسا بھی ہوتا ہے۔“
اور ان سب کے ہاتھ اوپر اُٹھ گئے۔
”جلدی کرو۔ بہزاد اور اس کے ساتھیوں کو کھول دو۔ اس کے بعد ہمیں یہاں سے پروفیسر سمیت جانا ہے۔ اس کام میں دو منٹ سے زیادہ نہیں لگنے چاہئیں۔“ پستول والے غیرملکی نے کہا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے دونوں ساتھیوں نے بھی پستول نکال لیے تھے۔ وہ دونوں بہزاد ڈاکو والے کمرے کی طرف دوڑے گئے۔ انہوں نے پہلے بہزاد اور اس کے پاس پڑے ساتھی کی رسیاں کاٹیں پھر بہزاد کا ساتھی اپنے دونوں ساتھیوں کو آزاد کرنے کے لیے دوڑا گیا۔
ایک منٹ کے اندر اندر وہ سب ڈرائنگ روم میں جمع تھے۔ ان کی طرف بیک وقت چھے پستول اُٹھے ہوئے تھے۔
”اور اب پروفیسر صاحب آپ ہمارے ساتھ چلیں گے۔ باقی سب لوگ یہیں رہیں گے۔“ایک غیرملکی نے کہا۔
”سب لوگ دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑے ہو جائیں۔ پروفیسر صاحب آپ ہمارے پاس چلے آئیں۔“
تعمیل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ وہ سب دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوگئے۔ پروفیسر بے بسی کی حالت میں ان کی طرف بڑھتے چلے گئے۔
”پروفیسر کو مکان سے باہر نکال کر کار میں بٹھا دو۔ ہم بھی پہنچ رہے ہیں۔“ غیرملکی نے بہزاد اور اس کے ساتھیوں سے کہا۔
”جی بہت اچھا۔“ بہزاد ڈاکو نے کہا اور وہ پروفیسر داﺅد کو لے کر نکل گئے۔
”انسپکٹر جمشید! اس سے بڑی شکست آج تک تم نے نہیں کھائی ہوگی۔ آج کی شکست تمہیں ساری عمر یاد رہے گی۔ دیوار کے ساتھ لگے کھڑے رہو۔ اگر کسی نے پلٹ کر دیکھنے کی کوشش کی تو کامیابی کے اس مقام پر ہم فوراً گولی مارنے کے سوا کچھ نہیں کریں گے۔“ غیرملکی نے کہا۔
وہ سب خاموش کھڑے رہے۔ انسپکٹر جمشید جانتے تھے کہ اس وقت کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ذرا بھی حرکت کرنے کا مطلب موت کے سوا کچھ نہیں تھا۔ پھر انہوں نے دروازہ بند ہونے اور چٹخنی لگنے کی آواز سنی۔
وہ پلٹے۔ دروازہ بند ہوچکا تھا۔ فاروق اور فرزانہ دروازے کی طرف دوڑے۔
”کوئی فائدہ نہیں۔ دروازے باہر سے بند کیا جا چکا ہے۔“ انسپکٹر جمشید نے انہیں روکنے کے لیے کہا۔
لیکن اتنی دیر میں وہ دونوں دروازے تک پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے دروازے کا ہینڈل پکڑ کر کھینچا۔ لیکن وہ باہر سے بند کیا جاچکا تھا۔
٭……..٭
محمود شیرازی صاحب کے دروازے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ وہ سیدھا اپنے گھر میں نہیں گھس سکتا تھا کیوں کہ سبز کار کا ڈرائیور ابھی تک اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ دروازے کے پاس پہنچ کر اس نے سب سے پہلے سبز کار کے نمبر کاغذ پر لکھ لیے۔
”کیا بات ہے محمود؟ تم پھر واپس آرہے ہو؟“ دروازے کے اندر کھڑی بیگم شیرازی نے پوچھا۔
”کار کا ڈرائیور سڑک پر موجود تھا۔ اس نے مجھے نمبر نوٹ کرتے دیکھ لیا ہے۔ اب میں اپنے گھر میں جانا چاہتا ہوں۔ کیوں کہ خدا جانے وہاں کیا حالات پیش آئے ہوں۔ ڈرائیور مجھے آپ کے گھر سے نکلتے دیکھ چکا ہے۔ اس کے ساتھی ہمارے مکان میں داخل ہوچکے ہیں۔ اب اگر میں اس طرف جاتا ہوں تو وہ ضرور مجھے ٹوکے گا۔“
”پھر کیا کیا جائے؟“
”خطرہ بہت بڑھ گیا ہے اور میں کچھ سوچ نہیں پا رہا ہوں۔“
”کیا میں شیرازی صاحب کو بلا لاﺅں؟“ انہوں نے پوچھا۔
”نہیں۔ ان کی ضرورت نہیں۔“
اسی وقت محمود نے اپنے گھر کا دروازہ کھلتے دیکھا۔ دوسرے ہی لمحے اس کی آنکھیں حیرت کی وجہ سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ بہزاد ڈاکو کا ایک ساتھی باہر نکل رہا تھا اور اس کے پیچھے باہر نکلنے والے شخص پر نظر پڑنے پر تو اس کا رنگ ہی اُڑ گیا۔ یہ پروفیسر داﺅد تھے۔ ان کے پیچھے بہزاد ڈاکو اور اس کے دو ساتھی برآمد ہوئے۔
یہ پانچوں پروفیسر داﺅد کے برابر کھڑی کار میں بیٹھ گئے۔ فوراً ہی کار کا انجن سٹارٹ ہوگیا لیکن وہ اپنی جگہ کھڑی رہی۔ ابھی محمود اپنے ہوش و حواس درست بھی نہیں کر پایا تھا کہ اسے ایک شدید جھٹکا لگا۔ وہ حد درجے پریشان ہوگیا۔
تینوں غیرملکی اندر سے نکل کر سبز کار کی طرف بڑھ رہے تھے۔ جیسے ہی کار میں بیٹھے کار سٹارٹ ہوگئی۔ اس کے پیچھے بہزاد ڈاکو کی کار چل پڑی۔ ان دونوں کے بعد سفید کار والا بیٹھا اور ان کے پیچھے روانہ ہوگیا۔
محمود اچھل کر اپنے گھر کی طرف دوڑا۔ وہ اندھا دھند اندر داخل ہوا اور چلایا۔
”ابا جان! آپ کہاں ہیں؟“
”ہم ڈرائنگ روم میں ہیں۔“ انسپکٹر جمشید کی آواز آئی۔
وہ بے تحاشہ ڈرائنگ روم کی طرف بھاگا اور فوراً دروازہ کھول دیا۔
”آپ سب ٹھیک تو ہیں؟“ اس نے پوچھا۔
”ہاں! ہم سب ٹھیک ہیں مگر۔“ بیگم جمشید کے منہ سے نکلا۔
”میں جانتا ہوں۔ وہ لوگ انکل کو لے گئے۔“ یہ کہتے وقت اس نے شائستہ کو دیکھا وہ بری طرح سسک رہی تھی۔
”شائستہ! میری بچی نہ رو۔ میں صبح ہونے سے پہلے ان لوگوں سے پروفیسر کو واپس حاصل کرکے رہوں گا۔“ انسپکٹر جمشید نے اس کا شانہ تھپکتے ہوئے کہا۔ پھر بولے۔
”تم میرے ساتھ آﺅ۔ میں شہر کے تمام پولیس اسٹیشنوں کو باخبر کرنا چاہتا ہوں۔“
”چلیے۔“
دونوں گھر سے نکلے۔ دوسری طرف سے بیگم شیرازی حالات جاننے کے لیے آرہی تھیں۔
”واپس چلیے۔ مجھے کچھ فون کرنا ہیں۔“
”اچھا!“
تینوں فون والے کمرے میں آئے۔ انہوں نے سب سے پہلے اکرام کو وہاں پہنچنے کے لیے فون پر کسی سپاہی کو حکم دیا۔ پھر انہوں نے مختلف سمتوں میں فون کے گھوڑے دوڑائے۔ جب وہ اس کام سے فارغ ہوچکے تو محمود نے کہا۔
”ابا جان میرے پاس دو کاروں کے نمبر ہیں۔ مجرم انہی دو کاروں میں فرار ہوئے ہیں۔“
”کیا؟ یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟“ انسپکٹر جمشید خوشی سے چلائے۔
”جی ہاں! جب تینوں غیرملکی اندر داخل ہوئے تو میں نے ان دونوں کاروں کے نمبر نوٹ کر لیے تھے۔“ اس نے پُرجوش لہجے میں نمبر بتائے۔ انسپکٹر جمشید نے نوٹ بک میں دونوں نمبر نوٹ کرلیے۔
انہوں نے کئی بار بے چینی کے عالم میں ان نمبروں کو پڑھا۔ پھر فون پر رجسٹریشن آفس کے نمبر ڈائل کرنے لگے لیکن دوسری طرف سے کسی نے فون کا ریسیور نہیں اٹھایا۔ انہیں یاد آگیا کہ رات کا وقت ہے۔ اس وقت دفتر میں کوئی نہیں ہوگا۔ اس پر انہوں نے ڈی آئی جی کے گھر نمبر ڈائل کیے۔ دوسری طرف سے فوراً ہی جواب دیا گیا۔
”جی! میں انسپکٹر جمشید ہوں۔ حالات بہت نازک ہیں۔ مجھے اسی وقت دو کاروں کے بارے میں معلوم کرانا ہے کہ وہ کس کی ہیں۔“ انہوں نے گھبرا کر کہا۔
”اس وقت! آخر بات کیا ہے؟“ ڈی آئی جی نے حیران ہوکر پوچھا۔
”ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ کاروں کے نمبر سنیے اور رجسٹریشن آفس کے کسی افسر کو فوراً معلومات بہم پہنچانے کے لیے وہاں بھیج دیں۔ پھر میں آپ کو تمام حالات فون پر بتا دوں گا۔“
”اچھا!“ دوسری طرف سے کہا گیا۔
”تمہارا نمبر کیا ہے؟ میں تمہیں ابھی آدھ گھنٹے کے اندر معلوم کرکے فون کروں گا۔“
انسپکٹر جمشید نے نمبر بتا دیے۔دوسری طرف سے ریسیور رکھ دیا گیا۔ انہوں نے بھی ریسیور رکھ کر بیگم شیرازی سے کہا۔
”ہم ابھی آدھ گھنٹے بعد آئیں گے۔“
”اچھا!“
جونہی وہ باہر نکلے، سب انسپکٹر ابراہیم کچھ کانسٹیبل کے ساتھ جیپ سے اترا۔
”انسپکٹر صاحب! آپ بہت جلدی آئے۔ اب آپ ان دونوں کاروں کی تلاش میں روانہ ہوجائیں۔ وہ اس سڑک پر گئے ہیں۔ خیال رہے کہ وہ پروفیسر داﺅد کو اغوا کرکے لیے جارہے ہیں۔ صرف تعاقب کریں اور وائرلیس پر اطلاع دیتے رہیں۔“
´´”جی بہتر۔“ انسپکٹر ابراہیم نے دونوں کاروں کے نمبر نوٹ کیے اور دوبارہ جیپ میں بیٹھ کر چلا گیا۔
چھت پر
آدھ گھنٹے بعد وہ پھر بیگم شیرازی کے گھر میں موجود تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ انسپکٹر جمشید نے ریسیور کان سے لگاتے ہوئے کہا۔
”یس سر!“
”جمشید۔ میں نے ان دونوں کاروں کے متعلق معلوم کرلیا ہے۔“ دوسری طرف سے ڈی آئی جی کی آواز آئی۔
”بہت بہت شکریہ! وہ کاریں کن کی ہیں؟“
”تمہیں یہ سن کر حیرت ہوگی کہ وہ ہمارے ایک دوست ملک کے سفارت خانے کی کاریں ہیں۔“
”کیا؟“ انسپکٹر جمشید کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔
”ہاں!“
”کاریں کن آفیسروں کے نام ہیں؟“ انسپکٹر جمشید نے حیران ہوکر پوچھا۔
دوسری طرف سے ڈی آئی جی صاحب نے نام بتاتے ہوئے پوچھا۔
”اب تم بتاﺅ۔ بات کیا ہے؟“
”ان لوگوں نے پروفیسر داﺅد کو اغوا کرلیا ہے۔“
”کیا؟“ ڈی آئی جی پریشان کن لہجے میں حیران ہوکر بولے۔
”جی ہاں! یہ ابھی ابھی تقریباً پینتالیس منٹ پہلے کا واقعہ ہے۔“
”اوہ! پھر۔ تمہیں ان دونوں کاروں کے نمبر کیسے معلوم ہوگئے؟“ انہوں نے پوچھا۔
جواب میں انسپکٹر جمشید نے انہیں پوری تفصیل سنا دی۔
”اوہ! تو بہزاد ڈاکو بھی ان کے لیے کام کررہا ہے؟“
”جی ہاں!“
”اب تم کیا چاہتے ہو؟“
”میں چاہتا ہوں۔ سفارت خانے کی عمارت کو مکمل طور پر گھیرے میں لے لیا جائے۔ ابھی ان لوگوں کو خیال بھی نہیں گزر سکتا کہ ہم ان تک پہنچ جائیں گے۔
”ٹھیک ہے۔ میں احکامات جاری کررہا ہوں۔ تم کتنی دیر میں وہاں پہنچ رہے ہو؟“
”میں پندرہ منٹ بعد وہاں پہنچ جاﺅں گا لیکن عمارت کو صرف حصار میں لیا جائے۔ کوئی قدم نہ اٹھایا جائے تو بہتر ہے۔“
”ٹھیک ہے، میں سمجھتاہوں۔ ایک دوست ملک کا معاملہ ہے۔ اگر ہمارا اقدام غلط ہوا تو اس سے تعلقات خراب ہو جائیں گے۔“
”تعلقات تو ویسے بھی خراب ہوں گے۔ اگر پروفیسر داﺅد وہاں سے برآمد کرلیے گئے۔“
”ہاں! اس صورت میں تو ہم خود اس ملک سے اپنے تعلقات ختم کرلیں گے۔“
”بس تو پھر آپ عمارت کو گھیرے میں لے لینے کے احکامات صادر فرمادیں۔“
”اچھا ٹھیک ہے۔“
دوسری طرف سے فون کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ انسپکٹر جمشید اور سب انسپکٹر اکرام واپس آئے تو فرزانہ نے پوچھا۔
”کیا رہا ابا جان؟“
”کاروں کے مالکان کے نام معلوم ہوگئے ہیں۔“
”کون ہیں وہ؟“
”بیٹی معاملہ اتنا معمولی نہیں ہے۔ جتنا ہم سمجھ بیٹھے تھے۔ یہ ایک دوست ملک کی کارستانی ہے۔ جو ظاہر میں تو ہمارا دوست ہے لیکن درحقیقت وہ بدترین دشمن ہے۔ میں تمہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں بتا سکتا۔ اچھا۔ اب ہم جارہے ہیں۔ تم لوگ دعا کرنا کہ ہم پروفیسر صاحب کو ساتھ لے کر لوٹیں۔“
”تو آپ ہمیں ساتھ نہیں لے جائیں گے؟“
”نہیں! معاملہ اپنے ملک کا نہیں ہے۔“
”پھر کیا ہوا؟ آپ ہمیں ساتھ لے جائیں۔“
”اچھا آﺅ۔“
وہ جیپ میں سوار ہوکر سفارت خانے کی طرف روانہ ہوگئے۔
٭……..٭
تینوں کاریں برق رفتاری سے دوڑ رہی تھیں۔
”تم لوگ مجھے کہاں لے جانا چاہتے ہو؟“ پروفیسر داﺅد نے پریشان ہوکر پوچھا۔
”ہم تمہیں اس ملک سے باہر لے جانا چاہتے ہیں۔“ بہزاد ڈاکو نے کہا۔
”کس لیے؟“
”یہ میں نہیں جانتا، یہ غیرملکی جانتے ہیں۔“
”تم اس ملک سے تعلق رکھتے ہو؟“ پروفیسر نے پوچھا۔
”ہاں! میں یہیں پیدا ہوا، پلا بڑھا، جوان ہوا، کیوں تم نے یہ کیوں پوچھا؟“
”اس لیے کہ تم اس ملک سے غداری کررہے ہو۔“
”میں ایک ڈاکو ہوں۔“
”جانتا ہوں۔ پھر بھی ڈاکو اپنے وطن کے لوگوں کا دشمن ہوتا ہے۔ وطن کا نہیں۔“
”کیا مطلب؟“
”یہ لوگ ہمارے وطن کے دشمن ہیں۔“
”مجھے اس سے کیا۔ مجھے تو ان سے پچیس ہزار روپے تمہارے اغوا کے لیے ملے ہیں لہٰذا جب تک میں تمہیں ان کے گھر تک نہ پہنچا دوں۔ اس وقت تک میں ان کا زر خرید غلام ہوں۔“
”مجھے یہ سن کر حیرت ہوئی کہ ڈاکو بھی کسی کے زر خرید غلام بن سکتے ہیں۔“ پروفیسر نے طنزیہ لہجہ میں کہا۔
”اس قسم کا کام میں نے پہلی مرتبہ کیا ہے۔“
”اور ساری عمر پچھتاﺅ گے۔“
”یہ کام مجھے نہیں آتا۔“ بہزاد ڈاکو نے ہنس کر کہا۔
”تم انسان نہیں پتھر ہو۔“
”پتھر میرے آگے کیا چیز ہے۔ میں تو اس سے بھی سخت ہوں۔“
”ہاں! میرا بھی یہی خیال ہے۔ لیکن کاش تم محب وطن شہری ہوتے۔“
”ڈاکو محب وطن بھی ہوتے ہیں۔“ بہزاد نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”ہوتے ہیں۔ کچھ ہوتے ہیں مگر تم نہیں ہو۔“
”مجھے محب وطن بننے کا شوق نہیں۔“
”لعنت ہے تم پر۔“ پروفیسر نے غصے سے سر کو جھٹکا۔
تینوں کاریں اسی طرح برق رفتاری سے دوڑتی رہیں پھر اچانک اگلی کار کی رفتار کم ہوتی محسوس ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی پچھلی کاروں کی رفتاری بھی سست پڑتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ تینوں کاریں ایک سفید رنگ کی بڑی سی عمارت کے سامنے رک گئیں۔
وہ سب کاروں سے اترے۔
”سر!“ سبز کار کے ڈرائیور نے کچھ کہنا چاہا۔یہ بھی غیر ملکی تھا۔
”کیا بات ہے ڈرائیور؟“ ایک غیرملکی نے پوچھا۔
”میں کچھ کہنا چاہتاہوں۔“
”اس وقت نہیں۔ دیکھ نہیں رہے ہو ہم پروفیسر کو پکڑ لائے ہیں اور ہمارے لیے اس سے زیادہ ضروری کوئی کام نہیں کہ پہلے پروفیسر کو اصل جگہ پہنچا دیں۔“
”میں بھی اسی سلسلے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔“
”کہو۔ کیا کہنا ہے۔“
”سر! ایک بات مجھے الجھن میں ڈال رہی ہے۔“
”بس کیا یہی کہنا تھا۔ بے وقوف کہیں کے ہمارا وقت بہت قیمتی ہے ہٹو پیچھے۔“
”سنیے تو سہی۔ میں نے ایک لڑکے کو سفید کار کا نمبر نوٹ کرتے دیکھا تھا۔“ ڈرائیور نے اس ڈر سے جلدی سے کہا جیسے اگر اس نے ایک سکینڈ کی بھی دیر لگائی تو اسے کہنے کا موقع نہیں ملے گا۔
”کیا کہا؟ سفید کار کا نمبر نوٹ کررہا تھا؟ یہ کیا بکواس ہے؟“
”انسپکٹر جمشید کے گھر کے ساتھ والے مکان سے وہ لڑکا نکلا تھا اور اس نے جھک کر سفید کار کا نمبر نوٹ کرلیا تھا۔ پھر جب میں نے اسے ڈانٹا تو وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ یہ کہتا ہوا کہ یہ اس کا مشغلہ ہے۔ ویسے کاغذ میں نے اس سے چھین لیا تھا۔“
”کیا بکواس کرتے ہو۔ وہ لڑکا کون تھا؟“
”یہ مجھے کیا معلوم؟“
”ہوسکتا ہے وہ انسپکٹر جمشید کا لڑکا ہو؟“ دوسرے غیرملکی نے ڈرائیور کی بات پر سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
”اوہ! اگر یہ بات ہے تو ہم سب خطرے میں ہیں۔ الو کہیں کے تم نے یہ بات ہمیں پہلے کیوں نہیں بتائی تھی۔“ غیرملکی نے غصے سے کہا۔
”اس وقت میں نے اس بات کو اہمیت نہیںدی تھی لیکن پھر جوں جوں میں نے اس پر سوچا میرا ذہن الجھتا چلا گیا۔“
”اگر کوئی مصیبت آئی تو ہم تمہارے ذہن کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سلا دیں گے سُور۔“ غیرملکی غصے سے لال بھبوکا ہورہا تھا۔
”کیوں کہ تم سے زیادہ بے وقوف کوئی نہیں ہوسکتا۔“
”اس پر بعد میں ناراض ہو لینا۔ پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ اب ہم کیا کریں گے۔ کہیں ہم گھیر نہ لیے جائیں۔“دوسرے غیرملکی نے کہا۔
”ہاں! یہ ٹھیک ہے۔ خیر فی الحال اندر لے چلو اسے۔“
وہ پروفیسر کو لے کر اندر آئے۔ یہ ایک بہت عالی شان عمارت تھی۔ انہوں نے پروفیسر داﺅد کو ایک کرسی پر بٹھا دیا۔ اس کے بعد ایک غیرملکی نے ایک الماری میں سے وائرلیس نکالا اور اس کا بٹن دبا کر کہنے لگا۔
”ہیلو…. ہیلو….“
دفعتہ وائرلیس سیٹ پر ایک سرخ بلب جلنے بجھنے لگا۔ پھر دوسری طرف کی آواز آئی۔
”ہیلو! کون بول رہا ہے۔“
”سفارت خانے سے۔ نمبر تین۔“
”کیا بات ہے؟“
”پروفیسر داﺅد کو اغوا کرلیا گیا ہے۔“
”بہت اچھے! تم نے بہت بڑی خوش خبری سنائی ہے۔“
”لیکن….“ غیرملکی کہتے کہتے رک گیا۔
”لیکن کیا؟“ دوسری طرف سے پوچھا گیا۔
”پولیس ہمارے پیچھے ہے۔ شاید جلد ہی سفارت خانے کو گھیر لیا جائے۔“
”پروا نہ کرو اور پل پل کی خبر دیتے رہو۔ ہم ابھی کچھ پروگرام بناتے ہیں۔“
”جی! بہتر۔“ اس نے کہا۔
سرخ بلب جلنا بجھنا بند ہوگیا۔ اس نے بھی وائر لیس سیٹ بند کرکے الماری میں رکھ کر الماری کو تالا لگا دیا۔
”عمارت کی چھت پر پہنچ جاﺅ۔ چاروں کونوں پر ایک ایک آدمی موجود رہے۔ اگر عمارت کو گھیرے میں لیا جائے تو فوراً نیچے آکر بتا دینا۔“ غیرملکی نے بہزاد اور اس کے ساتھیوں سے کہا۔
”بہت اچھا۔“ بہزاد ڈاکو کمرے سے نکلنے کے لیے مڑا۔
”کیا تم چاروں کے پاس پستول ہیں؟“
”تین کے پاس ہیں۔“
”چوتھے کو ہم دے دیتے ہیں۔“
بہزاد ڈاکو کے ساتھی کو پستول مل گیا تو وہ عمارت کے زینے چڑھتے ہوئے چھت پر پہنچ گئے۔
٭……..٭
وہ سفارت خانے کی عمارت سے کافی فاصلے پر ہی جیپ سے اتر گئے۔
”کیا خیال ہے کیا اس وقت تک عمارت کو گھیرے میں لیا جاچکا ہوگا۔“ انسپکٹر جمشید نے اکرام سے پوچھا۔
”خیال تو یہی ہے۔“
”مجھے تو کوئی آثار نظر نہیں آتے۔“
”اندھیرے میں گھیرے کا اندازہ لگانا اتنا آسان بھی نہیں۔“
”تو آﺅ۔ آگے چلتے ہیں۔“ انسپکٹر جمشید نے کہا۔
وہ سب آگے بڑھنے لگے۔ ایک جگہ انہیں ایک جیپ کھڑی نظر آئی۔ وہ اسے دیکھ کر رک گئے۔ پھر انسپکٹر جمشید اور اکرام اٹنشن ہوگئے کیوں کہ جیپ میں ڈی آئی جی صاحب موجود تھے۔
”تم پہنچ گئے۔“ انہوں نے پوچھا۔
”جی ہاں! آپ نے کیوں تکلیف کی۔ ہم دیکھ لیتے۔“انسپکٹر جمشید نے کہا۔
”نئی بھئی! معاملہ دوست ملک کے سفارت خانے کا ہے۔“
”کیا عمارت کو گھیرے میں لیا جاچکا ہے؟“
”ہاں! مکمل طور پر۔ کوئی شخص عمارت سے نکل کر نہیں جاسکتا۔“
”ٹھیک ہے۔ اب میں سفارت خانے کی تلاشی لینا چاہتا ہوں۔“
”یہ بہت مشکل کام ہے۔ اگر عمارت سے پروفیسر برآمد نہ ہو سکے تو کیا ہوگا۔ دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہو جائیں گے۔“
”مجھے یقین ہے۔ یہ ملک ہمارا دوست نہیں ہے۔“
”حکومت ہماری بات پر بلاوجہ تو یقین کرے گی نہیں۔ثبوت بھی تو ہونا چاہیے۔ ہاں اگر پروفیسر یہاں سے برآمد ہو جائیں تو بات دوسری ہے۔“ ڈی آئی جی صاحب بولے۔
”مجھے جب تک یہ یقین نہیں ہو جاتا کہ پروفیسر عمارت میں موجود ہیں، اس وقت تک عمارت کی تلاشی نہیں لی جائے گی۔“
”تم کیسے یقین کرو گے۔“ ڈی آئی جی نے پوچھا۔
”اس کے لیے میرے ذہن میں ایک تجویز ہے۔“
”وہ کیا؟“
”میرے ساتھ آئیے۔“
یہ کہہ کر انسپکٹر جمشید عمارت کے دروازے کی طرف بڑھے۔
”ابا جان کیا ہم بھی آئیں؟“ فاروق نے پوچھا۔
”ابھی نہیں۔ اکرام تم ساتھ آﺅ۔“
”جی اچھا!“
”تینوں عمارت کے دروازے پر پہنچ گئے۔ پھاٹک پر چوکیدار موجود تھا۔
”خان صاحب! ہمارا تعلق پولیس سے ہے۔“ انسپکٹر جمشید نے کہا۔ کیوں کہ وہ تینوں اس وقت سادہ لباس میں تھے۔
”خوچہ…. تمہارا وردی کِدر ہے۔“ پٹھان چوکیدار نے پوچھا۔ جس پر انہیں ہنسی آگئی۔ اکرام نے ہلکی سی سیٹی بجائی جس کے جواب میں فوراً پانچ کانسٹیبل وہاں آکھڑے ہوئے۔
”کیوں؟ اب یقین آگیا؟“ اکرام نے پوچھا۔
”بالکل بالکل۔ ام سے غلطی ہوگیا۔ معافی دیو ساب۔“
”اچھا معاف کیا۔ ذرا اندر سے ڈرائیور کو بلا لاﺅ۔“
”کون سے ڈرائیور کو۔“ پٹھان نے پوچھا۔
”اندر کتنے ڈرائیور موجود ہیں۔“
”دو ساب جی۔“
”دونوں کو بلا کر لے آﺅ جلدی۔“
”اچھا ساب جی۔“ پٹھان اندر دوڑا گیا۔
”آخر تم ڈرائیوروں سے کیا معلوم کرو گے۔“ ڈی آئی جی صاحب نے بے چین ہوکر پوچھا۔
”بس دیکھتے جائیے۔“
”تمہاری ہر بات عجیب ہوتی ہے۔“ انہوں نے جھنجھلا کر کہا۔
اتنے میں پٹھان دو نوجوان غیرملکیوں کے ساتھ برآمد ہوا۔
”کیا تم دونوں سفارت خانے کی کاروں کے ڈرائیور ہو؟“ انسپکٹر جمشید نے انگیریز میں پوچھا۔
”جی ہاں! فرمائیے۔“ ان میںسے ایک نے کہا۔
”ہمارا تعلق پولیس سے ہے۔ ابھی ابھی ہمیں ایک فون موصول ہوا تھا۔ کسی نے کہا تھا کہ سفارت خانے کی دو کاریں چوری کر لی گئیں۔“
”ارے۔ نہیں تو۔ کاریں تو اندر موجود ہیں۔“
”اچھا! حیرت ہے۔“
”کسی نے یونہی اڑائی ہوگی۔“
”لیکن ہم اپنا اطمینان کرنا چاہتے ہیں۔“
”آئیے! آپ کو کاریں دکھا دیں۔“
وہ دونوں انہیں لے کر کاروں کے پاس آئے۔ انہوں نے گیراج کے بلب کی روشنی میں کاروں کے نمبر پڑھے۔ دونوں کے نمبر وہی تھے جو محمود نے نوٹ کیے تھے۔
بہزاد ڈاکو تیزی سے سیڑھیاں اترتا ہوا غیرملکیوں کے کمرے میں پہنچا۔ وہ تینوں وائرلیس میز پر رکھے بیٹھے تھے وائرلیس کا سوئچ آن تھا۔
”کیا خبر ہے؟“ ان میں سے ایک نے بہزاد سے اُردو میں پوچھا۔
”عمارت کو چاروں طرف سے گھیرا جاچکا ہے۔ دروازے پر انسپکٹر جمشید اور پولیس والے موجودہیں۔“
”آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ یہ سب کچھ اس نامعقول ڈرائیور کی وجہ سے ہوا۔“
”ہاں! اسے اس لڑکے کو کاروں کے نمبر نوٹ نہیں کرنے دینے چاہئیں تھے اور اگر اس نے نوٹ کر ہی لیے تھے تو اس کو پکڑ لینا چاہیے تھا۔“
”اس پر گرم بعد میں ہو لینا۔ فی الحال یہ خبر آگے پہنچاﺅ۔“
”اچھا!“ اس نے کہا اور وائرلیس کے قریب منہ لے جا کر کہنے لگا۔
”ہیلو…. ہیلو….“ جونہی اس نے ہیلو ہیلو کہا، سُرخ بلب جلنے بجھنے لگا۔
”ہیلو…. نمبر تین۔ کیا خبر ہے؟“ دوسری طرف سے پوچھا گیا۔
”عمارت کو چاروں طرف سے گھیرا جاچکا ہے۔“
”اوہ!“
”اب ہم حکم کے منتظر ہیں۔“
”پروفیسر یہاں سے برآمد نہ ہو۔“ دوسری طرف سے حکم دیا گیا۔
”اس کے لیے ہم کیا کریں؟“
”یہ سوچنا تمہارا کام ہے۔“
”بہت اچھا! میرے ذہن میں ایک بہت شان دار ترکیب آئی ہے۔ میں فوراً اس پر عمل کرتا ہوں۔“
”میں یہ نہیں پوچھوں گا کہ وہ ترکیب کیا ہے؟ نہ ہی مجھے اس سے غرض ہے۔ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ ہمارے دفتر سے پروفیسر کو برآمد نہ کیا جاسکے۔“
”ایسا ہی ہوگا۔ آپ مطمئن رہیں۔“
”تب پھر میں تمہاری طرف سے خوش خبری سننے کا منتظر رہوں گا۔“ آواز آنی بند ہوگئی۔ سرخ بلب جلنا بجھنا بند ہوگیا۔
”آپ نے کیا سوچا ہے؟“ بہزاد ڈاکو نے پوچھا۔
”تم اوپر چھت پر جاﺅ اور حالات کا جائزہ لیتے رہو۔ ہمیں باخبر رکھو۔“
”اچھا!“
ڈاکو چلا گیا تو دوسرے غیرملکی نے پوچھا۔
”تم کیا کرنا چاہتے ہو؟ جو کچھ کرنا ہے جلدی کرو۔ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔“
”ہاں! میرے ساتھ آﺅ۔“
تینوں اٹھ کر پروفیسر داﺅد والے کمرے کی طرف بڑھے۔ اسی وقت پٹھان چوکیدار اندر داخل ہوا۔
”ساب جی! کچھ پولیس والا منا مانگتا ہے۔“ اس نے کہا۔
”تم انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھاﺅ۔ ہم آتے ہیں۔“
”اچا۔ ساب جی۔“ پٹھان نے کہا اور باہر چلا گیا۔
”جلدی کرو۔“ دوسرے غیرملکی نے کہا۔
٭……..٭
”کہیے؟ کیا خیال ہے۔“ انسپکٹر جمشید نے سیدھے ہوتے کہا۔
”دونوں کاریں وہی ہیں۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے یہ میرے گھر کے پاس موجود تھیں۔“
”ہوں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پروفیسر اندر موجود ہیں۔“
”اور کیا کہا جاسکتا ہے۔“
”آپ کس پروفیسر کی بات کررہے ہیں۔“ ایک ڈرائیور نے انجان بن کر کہا۔
وہ اس کا جملہ سن کر چونک اُٹھے۔
”اکرام ان دونوں کو حراست میں لے لو۔ پستول کے نشانے پر انہیں جیپ تک لے چلو اور انہیں کانسٹیبلوں کی نگرانی میں دے آﺅ۔“
”اوکے سر!“ اکرام نے پستول نکال لیا۔
”چلو۔“
”آخر ہم نے کیا کیا ہے؟“ ایک ڈرائیور نے حیران ہوکر کہا۔ یہ وہی سبز کار کا ڈرائیور تھا۔
”چلو ورنہ بُری طرح پیش آﺅں گا۔“
دونوں اس کے آگے آگے چلتے ہوئے عمارت کے دروازے سے باہر نکل گئے۔ جلد ہی اکرام واپس آگیا۔
”اب کیا کریں؟“ ڈی آئی جی نے پوچھا۔
”اندر کی تلاشی لینے کے سوا کیا کرسکتے ہیں؟“
”ہاں! اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔“
”تو پھر آئیے۔“
وہ پانچ چھ کانسٹیبلوں سمیت ایک بار پھر دروازے پر آئے۔ اس بار محمود،فاروق اور فرزانہ بھی ان کے ساتھ تھے۔ یہاں چوکیدار موجود تھا۔
”اندر جا کر کہو ہم ملنا چاہتے ہیں۔“
”اچھا ساب۔“ وہ بھی گھبرایا ہوا تھا کیوں کہ اس نے ابھی ابھی دونوں ڈرائیوروںکو پستول کے نشانے پر آگے آگے چلتے دیکھا تھا۔ فوراً اندر دوڑا گیا۔
واپس آکر بولا۔
”چلیے ساب جی۔“ وہ انہیں لیے ڈرائنگ روم میں لے آیا اور انہیں بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
”آپ لوگ بیٹھیں۔ ساب لوگ ابی آتا ہے۔“ یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گیا۔
”اکرام تم دروازے پر ٹھہرو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی چال چل جائیں۔“
”جی بہتر۔“ اکرام اٹھا اور پہرے داروں کی طرح ڈرائنگ روم کے دروازے پر جاکھڑا ہوا۔
”کہیں ہم پروفیسر کو کھو نہ دیں۔“ اچانک انسپکٹر جمشید نے کہا۔
”کیا مطلب؟“ ڈی آئی جی چونکے۔
”یہ لوگ بہت چالاک ہیں۔ ہمارا وقت ضائع کررہے ہیں۔ ہمیں اٹھ کر تلاشی شروع کردینی چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم یہاں بیٹھے رہ جائیں اور وہ لوگ کوئی کام دکھا جائیں۔“
”تو پھر اٹھو۔ سوچتے کیا ہو؟ پروفیسر کی زندگی ملک کے لیے بہت قیمتی ہے۔“
وہ اٹھے ہی تھے کہ تینوں غیرملکی اندر داخل ہوئے۔ انسپکٹر جمشید چونک اٹھے۔ یہ تینوں وہ نہیں تھے جو ان کے گھر سے پروفیسر کو اغوا کرکے لائے تھے۔ ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔
”کیا بات ہے جناب! آپ لوگ کیسے تشریف لائے۔“ ایک غیرملکی نے پوچھا۔
”ہمیں سفارت خانے کی تلاشی لینی ہے۔“
”کیا مطلب؟ تلاشی لینی ہے لیکن کیوں؟“
”ہمیں شک ہے کہ یہاں ایک شخص پروفیسر داﺅد نامی کو اغوا کرکے لایا گیا ہے۔“
”ناممکن۔ یہ سراسر الزام ہے۔ ہم آپ کی حکومت سے احتجاج کریں گے۔ ویسے بھی آپ وارنٹ کے بغیر تلاشی نہیں لے سکتے۔“
”یہ ٹھیک ہے مگر ہم تلاشی لیں گے۔“
”کیا مطلب؟“
”مطلب یہ۔“ انسپکٹر جمشید نے پستول نکال لیا۔
”یہ کیا۔ معلوم ہوتا ہے تم اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا چاہتے ہو۔ کون ہو تم؟“
”انسپکٹر جمشید!“
”تم کوئی بھی ہو۔ ہم تلاشی نہیں دیں گے۔“
”اکرام۔ اپنے آدمیوں کے ساتھ پوری عمارت چھان مارو۔“
”اوکے سر!“
”خبردار! تلاشی مت لینا۔“ ایک غیرملکی نے دھمکی دینے والے انداز میں کہا۔
”اپنے ہاتھ اوپر اٹھا دو۔ اگر تم نے ہلنے کی کوشش کی تو میں گولی مار دوں گا۔ اکرام تم اپنا کام کرو۔“
ان دونوں کے ہاتھ اوپر اٹھ گئے۔ اکرام اور اس کے ساتھی کمرے سے نکل گئے۔ اب ڈی آئی جی صاحب بھی پستول نکالے کھڑے تھے۔
اسی وقت بہزاد دوڑتا ہوا کمرے میں داخل ہوا اور بولا۔
”جناب! پولیس کا گھیرا تنگ….“ اس کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے کیوں کہ اس کی نظر انسپکٹر جمشید اور ڈی آئی جی کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پستولوں پر پڑ گئی تھی۔
”بہت خوب! یہ رہا جناب بہزاد ڈاکو۔ تم بھی ہاتھ اوپر اٹھا دو۔“
بہزاد کے ہاتھ بھی اوپر اُٹھ گئے۔
٭……..٭
سب انسپکٹر اکرام اندر داخل ہوا۔
”پروفیسر داﺅد عمارت میں موجود نہیں ہیں۔“
”کیا کہتے ہو۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟“ انسپکٹر جمشید نے غصے سے کہا۔
”میں نے پوری عمارت دیکھ ڈالی ہے۔“
”کیا عمارت میں کوئی اور بھی موجود ہ ہے؟“
”سوائے ایک بوڑھے شخص کے کوئی نہیں۔ وہ سو رہا ہے۔“
”بوڑھا؟ سو رہا ہے؟“ انسپکٹر جمشید نے حیران ہوکر کہا۔
”جی ہاں! میں نے اسے جگانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ نہیں جاگا۔“
”چلو۔ میں چل کر دیکھتا ہوں۔“ انسپکٹر جمشید نے کہا۔
”آپ یہیں موجود رہیں اور کانسٹیبلوں کو بھی یہیں رکھیں۔“
”ٹھیک ہے۔ تم بے فکر ہو کر جاﺅ۔ میں انہیں سنبھال لوں گا۔“
”انسپکٹر جمشید اکرام کے ساتھ باہر نکلنے لگے تو محمود بول اٹھا۔
”ابا جان! ہم بھی ساتھ چلیں گے۔“
”آجاﺅ!“ انہوں نے فکرمند ہوکر کہا۔
وہ سب اس غیرملکی بوڑھے کے بستر کے قریب آئے۔ بوڑھا گہری نیند سورہا تھا۔
”یہ تو کوئی انگریز بوڑھا ہے۔“ انسپکٹر جمشید بولے۔
”لیکن سوال تو یہ ہے کہ یہ جاگتا کیوں نہیں؟ یہ کیسی نیند ہے کہ اسے جھنجھوڑنے پر بھی نہیں ٹوٹی۔“ اکرام نے کہا۔
”ہوں۔ اسے جگانا چاہیے۔“ یہ کہہ کر انسپکٹر جمشید نے اس کے جسم سے چادر اتار دی اور اس کو ہلانے لگے مگر بوڑھا ٹس سے مس نہیں ہوا۔
”حیرت ہے۔“ فاروق کے منہ سے نکلا۔
”کیا بات ہے؟ تمہیں کس بات پر حیرت ہورہی ہے؟“
”بوڑھے کو دیکھ کر ہورہی ہوگی۔“ فرزانہ بولی۔
”جی نہیں۔ میں تو بوڑھے کے ہاتھوں کو دیکھ کر حیران ہورہا ہوں یہ ہاتھ کسی انگریز کے نہیں ہوسکتے۔“
وہ چونک اُٹھے۔ ان کا دھیان ابھی تک بوڑھے کے ہاتھوں پر نہیں گیا تھا۔ اب انہوں نے غور سے دیکھا تو حیران رہ گئے۔ بوڑھے کے ہاتھ تو پروفیسر داﺅد کے تھے۔
”انکل کی انگوٹھی بھی دیکھ لیں۔“ فاروق نے کہا۔
”انہیں اسی طرح ڈرائنگ روم میں لے چلو۔“ انسپکٹر جمشید نے کہا۔
اکرام نے چار کانسٹیبلوں کو بلایا۔ انہوں نے چارپائی اٹھائی اور ڈرائنگ روم میں لے آئے۔ ڈرائنگ روم میں موجود سب لوگ چونک اٹھے۔
”یہ بوڑھا کون ہے؟“ انسپکٹر جمشید نے غیرملکیوں سے پوچھا۔
”یہ میرے والد ہیں۔“ ایک غیرملکی نے غصے سے کہا۔
”اسے کیا ہوا؟“
”یہ بیمار ہیں۔“ اس نے کہا۔
”لیکن یہ جاگتا کیوں نہیں؟“
”ایک گھنٹے پہلے ڈاکٹر نے انہیں نیند کا انجکشن دیا ہے۔“
”اوہ! تو یہ بات ہے لیکن اس کے ہاتھوں کو کیا ہوا۔ یہ اتنے سفید کیوں نہیں جتنا اس کا چہرہ؟“
غیرملکی سے کوائی جواب نہ بن پڑا۔ وہ خاموش رہا۔
”لیجیے جناب!“ انسپکٹر جمشید ڈی آئی جی صاحب سے بولے۔
”پروفیسر داﺅد حاضر ہیں۔“
”کیا مطلب؟“ ڈی آئی جی چونکے۔
”جی ہاں! یہ پروفیسر داﺅد ہیں۔“
”یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ تو بالکل کوئی انگریز معلوم ہوتا ہے۔“
”یہ میک اپ کا کمال ہے۔ دیکھیے میں ابھی انہیں پروفیسر داﺅد میں تبدیل کیے دیتا ہوں۔“
انہوں نے یہ کہہ کر بوڑھے کے چہرے پر سے کوئی چیز جھٹکے سے اتار دی۔ یہ ایک جھلی تھی۔ اس کے اترتے ہی پروفیسر داﺅد کا چہرہ نظر آنے لگا۔
”حیرت ہے۔ اتنا زبردست میک اپ۔“
”یہ اس فن میں ماہر ہیں۔ ہمارے دوست ملک نے جوکہ دراصل دشمن ہے، چن کر آدمی بھیجے ہیں، یہ وہی تینوں ہیں، جنہوں نے میرے مکان سے پروفیسر صاحب کو اغواکیا تھا۔ انہوں نے اپنی شکلیں بھی تبدیل کرلی ہیں۔“
”مگر ابا جان! بہزاد ڈاکو کے ساتھی یہاں نظر نہیں آرہے ہیں۔“
”وہ بھی مل جائیں گے۔ اکرام ان کو تلاش کرو۔ وہ شاید چھت پر ہوں گے۔ کیوں بہزاد تمہارے ساتھی چھت پر ہیں نا؟“ انسپکٹر جمشید نے پوچھا۔
بہزاد ڈاکو نے کوئی جواب نہ دیا۔ اکرام کمرے سے نکل گیا۔
”ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔“ ڈی آئی جی صاحب نے پوچھا۔
”جی۔ وہ کیا؟“
”یہ پروفیسر کو کیوں اغوا کرنا چاہتے تھے؟“
”اپنے ملک لے جانا چاہتے ہوں گے کیوں کہ ان کی ایجادات کی وجہ سے ہمارا ملک بہت مضبوط ہوچکا ہے۔ یہ چاہتے تھے کہ پروفیسر ان کے ملک میں جا کر ان کے لیے ایجادات کریں۔“
”ہوں! اب اس ملک سے ہمارے دوستانہ تعلقات نہیں رہیں گے۔“
”ابا جان! اب ہمیں جلدی چلنا چاہیے۔“ فرزانہ نے کہا۔
”کیوں بیٹا؟“
اسی وقت اکرام تینوں ڈاکوﺅں کو ہتھکڑیاں پہنائے اندر داخل ہوا۔
”لیجیے جناب یہ بھی مل گئے۔“
”بہت اچھے۔ اب ہمیں چلنے کی تیری کرنی چاہیے۔“ ڈی آئی جی بولے۔
”ہاں فرزانہ تم کیا کہہ رہی تھیں؟“
”یہی کہ شائستہ پریشان ہورہی ہوگی۔“
”ہاں ٹھیک ہے، بس چلتے ہیں۔“
”لیکن ابا جان! انکل ہوش میں کیسے آئیں گے؟“
”خود بہ خود ہوش میں آجائیں گے۔ انہیں بے ہوشی کا انجکشن لگایا گیا ہے۔“
”اور کمال تو یہ ہے کہ انہوں نے انکل کو کپڑے بھی دوسرے پہنا دیے۔“ محمود بولا۔
”اگر یہ ایسا نہ کرتے تو اکرام ہی پہچان لیتا کہ یہ پروفیسر ہیں۔“
”ابا جان!“ فرزانہ بولی۔
”کیا بات ہے بیٹی؟“
”اگر محمود کاروں کے نمبر نہ نوٹ کرتا تو اس وقت ہم سب کس قدر پریشان ہورہے ہوتے۔“
”ہاں واقعی! یہ محمود کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔“ ڈی آئی جی نے محمود کے شانے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا۔
”جی ہاں! جیسے ہم نے تو کچھ کیا ہی نہیں۔“ فرزانہ بُرا سا منہ بنا کر بولی۔
”اور نہ ہی میں نے کچھ کیا ہے۔“ فاروق مسمسی صورت بنا کر بولا۔
ان کی اس انداز پر ان سب کو ہنسی آگئی۔
٭……..٭
3 Comments
These stories of Ishtiaaq Ahmed (Inspector Jamshed series ) are amazing
Sir ishtiaq ahmd k or b Novel post krain
!Thank you for the effort. marvelous