یہ نوکری والٹ ڈزنی کے لئے ایک نئی درس گاہ ثابت ہوئی۔ اس مختصر مدت کی ملازمت کے دوران والٹ نے نہ صرف اشتہارات کے لئے خیالات خود دینے شروع کر دیئے بلکہ نوکری سے فراغت کے بعد اینیمیشن کی مشق بھی شروع کر دی۔ گھر کے پچھواڑے میں واقع ایک چھوٹے سے گیراج کو والٹ نے سٹوڈیو کا درجہ دے دیا اور اپنی کمپنی سے ادھار مانگے کیمرے اور لائبریری سے اینیمیشن سے متعلقہ ادھار لی گئی کتاب کے ساتھ وہ اینیمیشن کی مشق کرنے لگا۔ بچپن سے ہی مرتکز خیالات کے مالک والٹ نے اس سٹوڈیو میں راتیں جاگ جاگ کر اپنے ہنر میں مہارت حاصل کرنے کی کامیاب سعی کی۔
والٹ کا خاندان اس بات سے قطعی لاعلم تھا کہ بچپن سے اخبار میں کارٹونسٹ بننے کا بے کار خواب دیکھنے والا والٹ پہلے سے بھی زیادہ بے کار اور فضول قسم کا شوق پال رہا ہے جس میں کسی بھی قسم کے منافع یا روزگار کے مواقع سرے سے ہی مفقود ہیں۔ صرف والٹ جانتا تھا کہ اینیمیٹر بننا اس کا جنون بن چکا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب اینیمیشن کا محض آغاز تھا اور اس سلائیڈز کے ذریعے بنائی گئی ابتدائی اینیمیشن کا کام صرف اشتہارات یا فلم اور ڈرامہ کے درمیان کچھ وقفے کی خانہ پری کے لئے استعمال کیا جانا تھا۔
والٹ کے باقاعدہ اینیمیٹر بن جانے کا آغاز اس کے ایک منٹ کے پراجیکٹ نیومین لاف و گرام سے ہوا۔ نیومین کنساس کا سب سے بڑا تھیٹر تھا جس کا مالک بلاشبہ اس شہر کے میڈیا کا بے تاج بادشاہ تھا۔ نیومین تھیٹرمیں ہال کی کرسیوں پر بیٹھے جب والٹ کی ریل (Reel) پروجیکٹر پر چلائی گئی تو نیومین کے پیچھے والٹ ایک دبکی ہوئی بلی کی طرح خوف زدہ اور تیزی سے دھک دھک کرتا دل لیے بیٹھا تھا۔ ریل ختم ہوتے ہی نیومین والٹ کی طرف مڑا اور اس نے فلم کی تعریف کی اور ساتھ ہی اس کے بجٹ کے بارے میں استفسار کیا۔ گھبراہٹ میں والٹ کے منہ سے تیس سنٹ ایک فٹ کے لئے نکلا اور نیومین نے موقع پر ہی یہ ڈیل طے کر لی۔ ہواﺅں میں اُڑتے والٹ کو کم و بیش ایک گھنٹے بعد اندازہ ہوا کہ وہ اس بجٹ میں اپنا منافع شمار کرنا بھول گیا تھا۔ نتیجتاً اس پراجیکٹ میں اسے ایک پائی کا بھی منافع ملنے کی امید نہ تھی مگر اپنے شوق اور خوشی کے تعاقب میں نکلنے والے والٹ کے لیے یہ بہت بڑا مسئلہ نہ تھا۔ پیسہ اس کے لئے ایک ضمنی حیثیت رکھتا تھا۔ سب سے بڑی خوشی اور کامیابی یہ تھی کہ بالآخر وہ ایک اینیمیٹر کے طور پر کنساس کی چھوٹی سے دنیا میں شناخت حاصل کرنے کے لئے تیار تھا۔ لافوگرام نے ایک چھوٹی سی کمپنی کے طور پر کام شروع کیا تو والٹ نے رضاکارانہ بنیادوں پر کچھ سٹاف بھی بھرتی کیا جن کا معاوضہ صرف ان کا تجربہ تھا۔ اگرچہ ان کی تفصیلات کے بارے میں مختلف سوانح عمریوں میں کچھ اختلافات ہیں۔
دس لاکھ لوگوں کا حوصلہ اور خواہش رکھنے والا والٹ اپنی زندگی کے سب سے پہلے کنٹریکٹ میں ہی پائی پائی کا محتاج تھا۔ ستمبر 1922ءمیں بالآخر لاف گرام کو سکول اور کالجز کے لیے فلمیں بنانے والی ایک کمپنی Pictorial Club کے ساتھ صرف ایک سو ڈالر کی پیشگی ادائیگی کے ساتھ کنٹریکٹ پر دستخط کیے گئے جب کہ باقی تمام رقم چھے کارٹون فلمیں بنا کر جمع کروانے کے بعد وصول ہونی تھیں۔ والٹ کے پاس ان فلموں کو بنانے کے لئے سوائے حوصلے، ہمت، شوق اور جذبے کی اڑانوں کے اور کچھ نہ تھا۔ پراجیکٹ کی تکمیل کے لئے کئی قسم کے ادھار اور قرضے لئے گئے۔ بجٹ پوراکرنے کے لیے لاف او گرام نے پورٹریٹ فوٹوگرافی کا آغاز بھی کیا اس کے باوجود کہ بیسویں صدی کے آغاز میں بہت کم لوگ اپنے بچوں کی معصوم مُسکراہٹوں اور بے ساختہ لمحوں کو تصاویر کی صورت محفوظ کرنے میں دل چسپی رکھتے تھے۔ بجٹ پورا کرنے کے لیے کارٹون سازی کے خطوط کتابت کے کورس بھی متعارف کروائے گئے جس کے اشتہارات میں والٹ ڈزنی کا نام جنرل مینیجر کے طور پر لیا گیا۔ اشتہار کی عبارت میں جعلی حروف میں لکھا گیا: “اس تربیت کو حاصل کرنے کے بعد ملنے والا معاوضہ آپ کو حیران کر دے گا۔”
اس کے علاوہ بھی والٹ نے بہت حوصلہ اور بے شرمی سے چھوٹے چھوٹے پراجیکٹ اور کام کیے تاکہ اس کی یہ چھوٹی سی فلم ساز کمپنی چلتی رہے۔ جب کمپنی کے تھوڑے سے عملے کابال بال قرضے میں جکڑا تھا اور وہ مستقبل اور حال کے اندیشوں میں گُم اور اور ناکامی کے وسوسے سے گھبرانے میں مگن تھے والٹ کی آنکھوں میں اُمید کے ستارے جھلملاتے تھے۔ ہنستا، مُسکراتا، لطیفے سُناتا اور چٹکلے چھوڑ تا سترہ سالہ والٹ کسی قیمت پر اپنے خوابوں اور ان کو پانے کی کوششوں سے دست بردار ہونے کو تیار نہ تھا۔
پہلا پراجیکٹ ابھی تکمیل کے مراحل میں تھا کہ والٹ نے نیویارک کے ڈسٹری بیوٹر سے رابطوں کا آغاز کیا اگرچہ وہاں سے کامیابی کی نوید تو نہ آئی مگر حوصلہ افزائی کے خاصے پیغامات آئے جنہوں نے والٹ کے نہ ٹوٹنے والے عزم اور چٹان سے ارادوں کو مزید طاقت بخشی۔
پہلے پراجیکٹ کے درمیان ہی والٹ نے ایلس ان ونڈر لینڈ پر کام شروع کر دیا اور اس پراجیکٹ کے لیے جس چار سالہ بچی کو ایلس کے کردار کے لیے بھرتی کیا گیا اس کو کوئی معاوضہ دینے کی بہ جائے آنے والے ممکنہ منافع میں سے چار فی صد ادا کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ والٹ فلموں پر فلمیں بنائے جاتا تاکہ ان کو بیچ کرکچھ رقم حاصل کر سکے مگر اکثر اپنی اس کوشش میں ناکا م ٹھہرتا۔ کتنے ہی دنوں اور ہفتوں تک اسے تین وقت کا کھانا نصیب نہ ہوا۔ ایلس ان ونڈر لینڈ مکمل کرنے سے پہلے معاشی ابتری کے تحت اس کی آدھی سے زیادہ ٹیم والٹ کو بیچ میدان میں چھوڑ کر جا چکی تھی۔ والٹ کا پراجیکٹ اپنی قیمت حاصل کرنے کو ابھی مکمل نہ ہوا تھا کہ لاف و گرام کے پاس اپنا کوئی اثاثہ نہ رہ گیا۔ والٹ کو آفس میں میز کرسی پر کاغذات اور کینوس کے ڈھیر کے درمیان سونا پڑا چوں کہ اس کے پاس ایک مناسب کمرے کے کرایہ تک کے پیسے نہ تھے۔ وہ کسی معمولی سے ہوٹل سے کھانا کھاتا اور معاوضہ کی ادائیگی ہوٹل کے مالک کے بچوں کے فوٹو بنا کرکر تا۔ نہانے کے لیے ہفتہ میں ایک بار کنساس سٹی کی نئے یونین آفس جا کر نہاتا۔ فاقہ کشی سے اس کی حالت ٹی بی کے مریض جیسی ناتواں ہو گئی تھی۔
مگر ستم یہ کہ اس سے پہلے کہ چھے فلمیں بنا کر والٹ اپنا معاوضہ وصول کرے اور قرضوں کی ادائیگی کرے پکٹوریل کمپنی کا کاروبار بند ہو گیا اور والٹ کا کہہ منافع اور اثاثہ اپنے ساتھ لے ڈوبا۔ اب والٹ کے پاس کنساس سٹی میں رہنے کی کوئی وجہ نہ رہ گئی تھی۔
ناکامیوں کا بوجھ کاندھے پر لادے والٹ نے کنساس کو اوداع کہہ کر کیلی فورنیا کی جانب رخت سفر باندھا۔ “میں ہار چکا ہوں۔میرا خیال ہے کہ یہ اچھا ہے کہ آپ جوانی میں ہی مشکل اور ناکامی دیکھ لیں۔ میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا۔”
ایلس ان ونڈرلینڈ کی چھے فلمیں والٹ قرضوں کی ادائیگی میں ہار چکا تھا۔ کنساس کی ہار سے والٹ بہت حد تک ٹوٹ چکا تھا۔ کیلی فورنیا میں والٹ کے سامنے کچھ اور رستے کُھلے اور Winklers سے ایلس سیریز کی چھے فلموں کا معاہدہ ہوا۔ ایک چھوٹے پیمانے پر والٹ ڈزنی برادرز سٹوڈیو کی بنیاد رکھی گئی اور روے اور والٹ نے مل کر ان فلموں کے لیے کام شروع کیا۔ انتہائی نچلے درجے سے شروع کیا گیا یہ سٹوڈیو ایلس سیریز کی کامیابی سے صوفوں، پردوں اور لیمپ سے سجتا والٹ ڈزنی پروڈکشن کی صورت اختیار کر گیا۔ عمدہ منافع اور کارٹون کے بڑھتا ہوا معاوضہ نے جلد ہی والٹ اور روے کو ایک الگ گھر اور گاڑی کے قابل کر دیا 1926 ءتک والٹ ڈزنی نے چالیس ایلس کامیڈیز بنائیں جو اپنی ڈرائنگ کردار نگاری اور اینیمیشن کے حساب سے پہلے سے کہیں زیادہ بہتر اور مکمل تھیں۔
ایلس سیریز کے بعد اسولڈ دی ریبٹ (Oswald the rabbit) کا معاہدہ والٹ نے اسی ڈسٹری بیوٹر سے کیا اور بہت مقبول کارٹون بنائے مگر جلد ہی والٹ اور ڈسٹربیوٹرز کے تعلقات میں سختی آتی چلی گئی۔ دوسری طرف سٹوڈیو بڑھ جانے اور عملہ میں اضافہ ہونے کی بنا پر والٹ کا رویہ خاصا مالکانہ ہوچلا تھا، جس سے اس کے مشکل وقت کے دوست جو اب بھی اس کی ٹیم کا ایک اہم حصّہ تھے خاصے خائف تھے۔ نتیجتاً ڈسٹری بیوٹر نے اپنے معاہدے کی تجدیدنہ کی بلکہ والٹ کی ٹیم کے کچھ بہت اہم لوگ خرید کر اسولڈ کارٹون اپنے سٹوڈیو میں بنانے کے کام کا آغاز کر دیا۔ سادہ الفاظ میں والٹ کی ٹیم کے اہم لوگ والٹ کی کمر میں چھرا گھونپ کر دشمن سے جا ملے.. والٹ دوستوں اور دشمنوں کے ہاتھوں ایک برُا زخم کھائے واپسی کے سفر میں اپنے لئے ایک نئے کردار کی تخلیق کے بارے میں سوچتا آیا اور یہ نیا کردار ایک چھوٹے سے نٹ کھٹ چوہے مکی ماوس کا تھا اور والٹ کی کنساس کی یادوں کا ایک حصہ تھا۔
مکی ماﺅس کے ساتھ ہی والٹ نے ساونڈ کے ساتھ کارٹون کا آغاز کیا اور مکی ماﺅس کے کردار نے والٹ ڈزنی کے نام کو صرف امریکا میں نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی پہچان دی۔
اگرچہ مکی ماﺅس کی تخلیق سے والٹ کی زندگی کا پہیہ پھر سے کامیابی کی طرف مُڑنے لگا مگر اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ والٹ کی زندگی سے دوستوں اور دشمنوں کی دشمنی اور سازش، اس کی سماجی مشکلات یا اس کی زندگی میں جدوجہد کا نام ختم ہو چکا تھا۔ دوستوں اور دشمنوں کے وار اور قسمت کے جھٹکے والٹ کو ہر موڑ پر کھڑے ملے۔ اگر ان کی تفصیل میں جایا جائے تو والٹ کی زندگی کی ہر دہائی پر ایک الگ مضمون تحریر کیا جا سکتا ہے۔ لیونارڈو کے بعد گرافک آرٹس میں سب سے اہم شخصیت گردان جانے والے والٹ ڈزنی کی زندگی کی جدوجہد کی کہانی محض چند صفحات یا چند سالوں پر محیط نہیں نہ ہی والٹ کی محنت اور کامیابی کی داستان چند ہزار الفاظ میں بیان ہی کی جا سکتی ہے۔ اس لئے اس مضمون کو محض اس کی پہلی کامیابی تک محدود رکھا گیا ہے۔
تیس سال کی عمر میں والٹ امریکا کی مشہور شخصیت اور چالیس سال کی عمر میں (ذہین ترین شخص( جو ہارورڈ سمیت کئی یونیورسٹیوں سے اعزازی ڈگریاں حاصل کر چکا تھا۔ والٹ نے امریکا اور دنیا بھر کی سب سے بڑی انٹرٹینر کمپنی کی نہ صرف بنیاد رکھی بلکہ اسے ایک انڈسٹری، ایک شعبہ اور ایک روایت بنا کر چھوڑا اور ڈزنی ورلڈ کی صورت امریکا کے سیّاحتی مقامات میں ایک اہم سنگِ میل کا اضافہ کیا۔ ایک فلم پروڈیوسر کے طور پر والٹ اکیڈمی ایوارڈ کے لئے چنا گیا، جن میں سے بے شمار ایوارڈ اس نے حاصل کیے۔ دو بار گولڈن گلوب اور ایک ایمی ایوارڈ بھی حاصل کیا۔
آرٹ شاپ سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والے والٹ نے کارٹون کو خانہ پرُی سے فیچر فلموں، کارٹون و سکرین سے نکال کر ڈزنی لینڈ، ڈزنی ورلڈ اور ڈزنی ہوٹلز تک پھیلا دیا۔ آج کی دنیا کے تھیم پارکس کا بانی بھی والٹ ڈزنی ہی ٹھہرا۔
“اگر تم اس کا خواب دیکھ سکتے ہو، تو تم یہ کر سکتے ہو!”
والٹ نے ہزاروں لاکھوں لوگوں اور کئی نسلوں کو یہ یقین دیا کہ خواب سچے بھی ہوتے ہیں۔ والٹ کا صرف ایک ہی روپ نہ تھا وہ کارٹونسٹ کے روپ میں ایک تخیل کا موجیں مارتا سمندر، ایک کامیاب بزنس مین، ایک خواب دینے والا دکان دار، ایک موجد، ایک بانی اورایک زرخیز اور ایسا تُند دماغ تھاجو وقت کے ہاتھوں سے کم کم تخلیق پاتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
One Comment
bht achi story hai but prhnay mei msla hota ha i bht bareek likha hua hai or writing mazy ke nahe lagti ,,,,,,,,,,, writing style thora bold hona chaye, ya jis trh main hai apke web ka stories bhi usy mei hona chaye