ننھی مچھلی ۔ الف نگر

ننھی مچھلی

عنیقہ محمد بیگ

مچھیرے کی قید سے بچنے کے لیے چھوٹی مچھلیوں نے کیا منصوبہ بنایا؟ پڑھیے ایک دلچسپ کہانی!

سمندر کے نیل گوں پانی میں تیرتے ہوئے اُسے بہت مزا آرہا تھا۔ ننھی مچھلی کو گہرے پانی میں تیرنے اور خود سے خوراک تلاش کرکے کھانے کا بہت شوق تھا لیکن وہ ابھی زیادہ بڑی نہیں تھی۔ اُس کی ماں نے اسے زیادہ دور جانے سے منع کررکھا تھا۔ آج وہ اپنی ماں یعنی سنہری مچھلی سے اجازت لے کر اپنی تینوں سہیلیوں کی طرف جانے لگی۔ ننھی مچھلی کی سہیلیاں یعنی کالی مچھلی، جامنی، پیلی اور گلابی مچھلیاں پانی کے اندر ایک قریبی پارک میںرہتی تھیں۔ وہاں جاکر اُسے معلوم ہوا کہ وہ سب سبز پارک میں جانے کی تیاری کررہی ہیں۔ ننھی مچھلی حیران ہوکر کہنے لگی:

”پیاری سہیلیو! مجھے ڈر ہے کہ تم کسی مصیبت میں نہ پھنس جائو کیوں کہ وہاں انسانوں نے جال بچھا رکھے ہیں۔”

”مگر ہمیں تو پیلی مچھلی کی سال گرہ کے لیے وہاں سے پھل، کیک اورمٹھائیاں لانی ہیں۔” گلابی مچھلی نے کہا توننھی مچھلی سوچ میں پڑگئی۔ ابھی صبح ہی اُس کی ماں یعنی سنہری مچھلی نے اُس سے وعدہ لیا تھاکہ وہ سبز پارک میں نہیں جائے گی۔

”اگر تم نہیں جانا چاہتی تونہ جاؤ مگر ہم ضرور جائیں گے۔” کالی مچھلی نے کہا تو ننھی مچھلی نے اپنی تمام سہیلیوں کی طرف دیکھا پھر ان سب کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوگئی۔ اب یہ تمام سہیلیاں سبز پارک کی طرف تیرنے لگیں۔

سبز پارک میں بہت سی کھانے پینے کی چیزیں پڑی ہوئی تھیں۔ ساتھ ہی کچھ جال بھی بچھے ہوئے تھے۔

”پیاری سہیلیو! ذرا احتیاط سے …میری امی بتاتی ہیں کہ نانی اماں اسی طرح کے ایک جال میں پھنس گئی تھیں اور پھر واپس نہیں آئیں۔” ننھی مچھلی نے بات مکمل کی مگر کسی نے بھی اس کی بات پر توجہ نہیں دی۔ وہ سبھی میٹھی چیزوں کو دیکھ کر خوش ہورہی تھیں۔ اب سب نے مل کر فیصلہ کیا کہ باری باری ہر مچھلی کُنڈیوں اور جال سے بچ کر مٹھائیاں اور کیک لائے گی۔

سب سے پہلے ننھی مچھلی اور جامنی مچھلی نے ایک دوسرے کاہاتھ پکڑا اور آگے بڑھنے لگیں۔ میٹھے پھل، کیک اور سینڈوچ پاکر وہ بے حدخوش تھیں۔ تیرتے ہوئے اچانک جامنی مچھلی کو ایک جھٹکا لگا۔کوئی سخت چیز اس کے جسم سے ٹکرائی تھی۔جلد ہی اسے احساس ہوگیا کہ وہ ایک جال میں پھنس چکی ہے۔ وہ زور زور سے چیخنے لگی:

”بچاؤ! بچاؤ!” جامنی مچھلی کی چیخ و پکار سن کر ننھی مچھلی نے سب چیزیں پھینک دیں۔ اب وہ جامنی مچھلی کو بچانے کے لیے جال توڑنے کی کوشش کرنے لگی مگر ناکام رہی۔ جامنی مچھلی کو مصیبت میں دیکھ کر دور کھڑی باقی مچھلیوں نے بھی رونا شروع کردیا مگرننھی مچھلی نے ہمت نہ ہاری۔ اُس نے چیخ کر جامنی مچھلی کو مخاطب کیا:

”جامنی مچھلی! جامنی مچھلی ! جیسے ہی مچھیرا یہ جال کھولے ، تم اُچھل کر سمندر میںکود جانا۔”

جامنی مچھلی روتے ہوئے بولی: ”نہیں ننھی مچھلی! مجھے لگتا ہے میں مرجاؤں گی۔”

جال تیزی سے کنارے کی طرف جارہا تھا۔ باہر سے ننھی مچھلی نے جال کے اندر موجود جامنی مچھلی کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس طرح جامنی مچھلی کے ساتھ ننھی مچھلی بھی اوپر جانے لگی۔ جب جال پانی کی اوپر والی سطح پہنچا تو ننھی مچھلی التجا بھری نظروں سے مچھیرے کی طرف دیکھتے ہوئے مِنت کرنے لگی: ”اے نیک دل انسان! میری سہیلی جامنی مچھلی کو چھوڑ دو۔” ادھر مچھیرے نے جال پانی سے باہر نکالا تووہ ننھی مچھلی کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ جامنی مچھلی اب مچھیرے کی قید میں تھی۔ ننھی مچھلی پانی کی سطح پر آکر بار بار مچھیرے کو پکا ررہی تھی : ”اے انسان! میری سہیلی کو چھوڑ دو۔” مچھیرا ننھی مچھلی سے بے خبر تھا۔ اُس نے ایک کے بعد دوسری مچھلی اپنے بیگ میں ڈالنا شروع کی۔ یہ دیکھ کر ننھی مچھلی کا دل گھبرانے لگا۔ ایسے میں اُسے جامنی مچھلی کی کانپتی ہوئی آواز سنائی دی: ”خدا حافظ ننھی مچھلی! یہ انسان اب مجھے نہیں چھوڑے گا۔” یہ کہتے ہوئے وہ رونے لگی۔

مچھیرے نے باقی مچھلیوں کو تھیلے میں ڈالا۔ اب وہ جامنی مچھلی کو ہاتھ میں اُٹھا چکا تھا۔ وہ مچھیرے کے ہاتھ پر تڑپنے لگی ۔یہ منظر دیکھ ننھی مچھلی روتے ہوئے مچھیرے کو پکارنے لگی: ”اے نیک انسان! میری سہیلی کو چھوڑ دو۔ بھلے اُس کے بدلے میں تم مجھے پکڑ لو۔ تمہارا بڑا احسان ہوگا۔”

مچھیرا ننھی مچھلی کی آواز سے بے خبر جامنی مچھلی کوغور سے دیکھ رہا تھا پھر اُسے جامنی مچھلی کی چھوٹی سی جسامت پر ترس آگیا۔ چناں چہ اُس نے پیار سے اُسے واپس سمندر میں پھینک دیا۔ پانی میں پہنچتے ہی جامنی مچھلی کی جان میں جان آگئی۔ ننھی مچھلی خوشی سے مچھیرے کا شکریہ ادا کرنے لگی۔ پانی میں جاتے ہی جامنی مچھلی نے ننھی مچھلی کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا اور اب وہ واپس اپنے سہیلیوں کے پاس جانے لگیں۔ اچانک مچھیرے کا پاؤں پھِسلا اوراُس کا بٹوہ سمندر میں گرگیا۔ وہ پریشانی سے پانی میں ہاتھ مارنے لگا مگر اُس کا بٹوہ گہرے پانی میں جاچکا تھا۔

اِدھر کالی، گلابی اور پیلی مچھلی تیزی سے جامنی کے پاس آگئیں جب کہ ننھی مچھلی اُس مچھیرے کا افسردہ چہرہ دیکھ رہی تھی۔ وہ بے چارا اپنا بٹوہ حاصل کرنے کے لیے بار بارپانی میں جال پھینک رہا تھا۔

”بھاگو ننھی مچھلی بھاگو! یہاں سے چلو ورنہ ہم سب پکڑی جائیں گی۔” کالی نے چیخ کر کہا مگر ننھی مچھیرے کے بٹوے کی طرف بڑھنے لگی۔ گلابی مچھلی بولی: ”ننھی دوست! واپس آؤ، یہاںبہت خطرہ ہے۔”

”نہیں دوست! میں یہ بٹوہ مچھیرے کو لوٹانا چاہتی ہوں کیوں کہ اُس نے جامنی مچھلی کو آزاد کیا ہے۔” ننھی مچھلی نے جواب دیا۔ جامنی مچھلی نے ننھی مچھلی کا ہاتھ تھام لیا اور پیار سے بولی: ”ٹھیک ہے ننھی دوست! میں اِس کام میں تمہاری مدد کروں گی۔”

ان دونوں کی ہمت دیکھ کر باقی سہیلیاں بھی اُن کی مدد کے لیے آگے بڑھیں۔ آخر فیصلہ یہ ہواکہ بٹوہ مل جُل کر سمندر سے باہر پھینکا جائے۔اس کام میں ساری سہیلیوں نے ننھی مچھلی کا ساتھ دیا۔ ہمت کرکے تمام سہیلیاں مچھیرے کا بٹوہ سمندر سے باہر لے آئیں۔ سب کی سانس پھول رہی تھی۔ مچھیرا اپنا بٹوہ پانی پر تیرتا دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اُس نے وہاں موجود انسانوں کو چیخ چیخ کر اپنی طرف متوجہ کیا:

”دیکھو! وہ دیکھو! کس طرح چھوٹی مچھلیاں میرا بٹوہ سمندر سے نکال لائی ہیں۔” یہ کہہ کر مچھیرے نے اپنا بٹوہ پکڑ لیا۔ آس پاس کھڑے لوگ یہ منظر دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ انہوں نے دل کھول کر مچھلیوں کو داد دی۔ مچھیرے نے پیاری پیاری مچھلیوں کا شکریہ ادا کیا پھر تمام سہیلیاں ہنسی خوشی اپنے گھر کی طرف تیرنے لگیں۔

٭…٭…٭

Loading

Read Previous

کی میکر ۔ الف نگر

Read Next

ٹیپو کا روزہ ۔ الف نگر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!