نجات دہندہ — ردا کنول (تیسرا اور آخری حصّہ)

” یادیں۔۔ہمیشہ اپنے ساتھ خوشبو رکھتی ہیں ،اُس لمحے کی جب وہ رونما ہو ئی تھیں۔”
کا وش کے ارد گرد بھی خوشبو بکھری تھی ۔اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی وہ ضو فشاں کی یادوں سے پیچھا نہ چھڑا سکا تھا۔وہ ہر لمحہ اُس کے پاس ہوتی ،اپنی آواز کے سحر کے ساتھ ،اپنی دھیمے سروں والی ہنسی کے ساتھ، اپنے اضطراب بھرے وجود کے ساتھ اور اپنی اُداسی سے بھر پور آنکھوں کے ساتھ۔۔۔
” شاید وہ اب تک شادی کر چکی ہو اور اپنی زندگی میں خو ش وخرم ہو۔” بارہا وہ اس بارے میں سوچتا ۔مگر اس تکلیف سے زیادہ وہ اس سوچ کے ساتھ اپنے آپ کو پرسکون محسوس کرتا کہ وہ جہاں بھی ہوگی خوش ہو گی۔
ضو فشاں کے غائب ہوجانے کے بعد وہ کہاں کہاں نا ڈھونڈتا پھرا تھا اُسے ، حتی کہ وہ ایک دن اُس کی ماں تک پہنچ گیا تھا ،اور اس سوچ کے ساتھ ہی کاوش کے چہرے پر ایک تلخ مسکرا ہٹ رینگ گئی۔
” کو ئی ماں اپنی ہی بیٹی سے لا تعلقی کا اظہار کس طرح کر سکتی ہے؟” اُس لمحے میں کاوش جان گیا کہ ضوفشاں سمیت اُس کے گھر والے بھی نہیں چاہتے کہ وہ کاوش سے ملے ۔اُس دن کے بعد کاوش نے اُس کی تلا ش بند کر دی۔” وہ کھو جانا چاہتی ہے تو میں اُسے اجازت دیتا ہوں۔۔کھو جانے کی۔” کاوش نے اپنے دل میں عہد کیا ۔مگر وہ اپنے دل سے کبھی بھی ضو فشاں کو نہ نکال سکا حتی کہ باباخان اور زر مستہ کے بار بار سمجھانے پر بھی نہیں ،یہ کام خود اُس کے بس میں نہیں تھا۔
” محبت دھڑلے سے دل میں داخل ہو تی ہے اوراپنے تعین کیے ہوئے وقت تک وہ وہیں قبضہ جمائے بیٹھی رہتی ہے۔ کبھی تو ساری زندگی کے لیے۔۔’ ‘
Chitral Cuisine کی پر سکون ٹیبل پر وہ بے دھیانی کے عالم میں بیٹھا تھا اور یہ سب سوچیں اُس کے دماغ میں اودھم مچا رہی تھیں ۔اُس کے سامنےTroq چائے سے بھرا کپ بھاپ اُڑا رہا تھا اور وہ اُس کے کناروں پر انگلیاں چلا رہا تھا۔” آخری بار چائے ہی تو پی کے گئی تھی وہ میرے ساتھ۔آہ۔۔الوادع کوئی ایسے بھی کہتا ہے ضوفشاں؟” وہ اُس کے خیالوں میں رہتی تھی ،سوال بھی خیال سے ہی کیا گیا تھا۔
” شیف کو ئی ملنے آیا ہے آپ سے۔” کاوش چونکا۔ایک ویٹر اُس کے سر پرکھڑا تھا اور اب ا شارے سے اُس طرف اشارہ کر رہا تھا جہاں ملاقاتی براجمان تھا۔ہاتھ میں پکڑے مگ سے تھو ڑی سی چائے چھلکی اور اُس کا ہاتھ جلا گئی۔” اس قدر مشابہت بھی ہو تی ہے انسانوں کی ایک دوسرے کے ساتھ؟ ” اُس شخص کی طرف دیکھتے ہوئے کاوش نے اپنے دل میں سوچا۔وہ بے اختیار اُس انسان کی طرف قدم بڑھانے لگا،بے قابو ہوتے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ، اُس پر نظریں جمائے ہوئے۔
” السلا م و علیکم سر۔کیا کو ئی مسئلہ ہے سر؟” یہ جانتے ہوئے بھی کہ کو ئی مسئلہ نہیں تھا کاوش نے اُس کے سامنے خالی ٹیبل پر ایک نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔عالم فورا ً اُٹھ کھڑا ہوا،بلآخر وہ کاوش کے سامنے کھڑا تھا کچھ جھجھک کچھ شرمندگی کچھ پریشانی اپنے اندر لیے ہوئے۔
” میں عالم شریف ہوں۔ کاوش خان سے ملنا چاہتا ہوں میں۔” عالم یہ بات بخوبی جا نتا تھا کہ اس وقت وہ جس کے سامنے کھڑا ہے بلا شبہ وہ کاوش ہی ہے اُس نے بس بات شروع کرنے کی غرض سے کہا۔اُن دونوں نے آپس میں مصافحہ کیا جس میں واضح طور پر جھجک نما یاں تھی۔کاوش نے اُس کی یقین دہانی کروائی کہ وہ ہی کاوش خان ہے اور وہ اپنے آنے کا مقصد بتا سکتا ہے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

” میں۔۔میں ضوفشاں کا بھا ئی ہوں۔” مزید ادھر اُدھر کی باتوں میں وقت ضا ئع کیے بغیر اُس نے صاف بات کرنے کا فیصلہ کیا اور اچانک کہہ دیا۔عالم نہیں جانتا تھا اُس کے بالکل مقابل بیٹھا شخص کس طرح کا ردعمل دکھانے والا تھا مگر وہ بولتا رہا۔” ضوفشاں کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں میں اور۔۔” نظریں نیچی کیے وہ کہہ رہا تھا مگر یکدم کاوش نے اُسے ٹوک دیا ۔عالم کا دل ڈوب کے اُبھرا۔
” میرا خیال ہے یہ جگہ منا سب نہیں ہو گی ، اُس کا اشارہ ہو ٹل میں موجود رش اور ردھم میں بجتے چترالی میوزک کی طرف تھا، کچن کے ساتھ میرا آفس ہے وہاں شور نہیں آئے گا اور ہم آرام سے بات کر سکیں گے۔” کچن کی طرف اشارہ کیے اُس نے عالم سے کہا۔
اپنے دل میں بے شمار خدشات لیے عالم اُس کے ساتھ چلنے لگا ،کچن میں سے گزرتے ہوئے اپنے اُوپر پڑتی باورچیوں کی حیران نظروں کو محسوس کرتے ہوئے وہ کاوش کے ساتھ آفس میں داخل ہو گیا۔وہ واقعی پر سکون جگہ تھی۔” پلیز بیٹھیے۔” کاوش نے اُسے پہلے بیٹھنے کو کہا۔وہ اُس کا احترام کر رہا تھا یہی وجہ تھی کہ عالم نے اپنے آپ کو کچھ پر سکون محسوس کیا۔
” ضوفشاں چائنہ میں ہے اور وہاں ایک انڈین ہوٹل میں کام کر رہی ہے۔” اپنے ہاتھ آپس میںرگڑتے ہوئے کہنے لگا۔” اگر میں کہوں کہ آپ اب اُس سے مل لیں تو ۔۔” عالم شدید اضطراب کا شکار تھا اور اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کہاں سے بات شروع کرے اور اُس کے منہ سے شادی کی بجائے مل لینے کے الفاظ ادا ہوئے حالانکہ وہ ان میں سے دونوں الفاظ کو کہنا نہیں چاہتا تھا اور کسی بہتر جملے کی تلا ش کا وقت نہیں تھا۔کا وش نے اپنے گلے میں کچھ اٹکتا ہوا محسوس کیا مگر کچھ بھی بولے بغیر وہ عالم کو سننا چاہتا تھا اور اُس نے ایسا ہی کیا۔
” میرا خیال ہے میں پہلے آپ کو پچھلی ساری صورتحال کے بارے میں آگاہ کر دوں۔ آپ کا جاننا ضروری ہے۔” اور عالم اُسے سب بتا تا گیا پندرہ سال پہلے ہوئے واقعات کے بارے میں۔کاوش دل میں شدید چبھن لیے سنتا رہا وہ حیران تھا ایک انسان نادم ہو کہ اُس کے پاس آیا بھی تو کب۔۔ جب وہ دونوں اپنی زندگی کے اتنے قیمتی سال ضا ئع کر چکے تھے۔
” ضو فشاں آپ کو کبھی بھی دھوکا نہیں دینا چاہتی تھی تبھی وہ انکار کر کے چھپ کر بیٹھ گئی ۔آپ سے معافی مانگ کر اگر میں ضوفشاں کے لیے خوشیاں خرید سکتا ہوں تو میں یہ بھی کر لیتا ہوں۔” عالم نے اپنے ہاتھ جو ڑ دئیے۔کا وش بے ساختہ اپنی جگہ سے اُٹھا ۔” مجھے شرمندہ نہیں کریں آپ۔۔غلطیاں تو سب سے ہو جاتی ہیں۔” اُس کے ہاتھ پکڑے ہوئے وہ اُس کے سامنے بیٹھ گیا۔کچھ دیر خا مو شی رہی ،عالم اُسے سوالیہ انداز میں دیکھتا رہا۔کچھ اُمید بھرے انداز میں۔بلا آخر کاوش نے بس اتنا کہا۔
” ضو فشاں کا ا یڈریس دے سکتے ہیں آپ مجھے؟”
()٭٭٭()
کا وش نے اُسے دیکھا ،بے شک وہ دونوں جوانی کی حدود سے کچھ آگے نکل آئے تھے مگر ضوفشاں جیسے پہلے سے زیادہ پر کشش نظر آتی تھی ،وہ خود کو یہ سوچنے سے روک نہ پایا۔ما ضی میں اُس کے بھورے بال جو کانوں کی لوؤں تک کٹے تھے اب اُس کے کندھوں سے کچھ نیچے تک جھول رہے تھے۔اُس کی پھرتی آج بھی بر قرار تھی ، اُس کا لا پرواہ انداز ۔۔ہاں وہ بھی قائم تھا ،اور اُس کی آنکھیں۔۔کا وش نے غور سے اُس کی آنکھوں میں دیکھا ، وہ آج بھی اُداسی بھری تھیں۔
اپنے ہاتھوں میں کافی کے کپ پکڑے وہ سڑک کے ساتھ ساتھ درختوں کی چھاؤں میں چل رہے تھے اور ضوفشاں کو اُس سے کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی ۔کاوش نے ہاتھ اُٹھا کر اُسے کسی بھی قسم کی وضاحت دینے سے منع کر دیا تھا۔” میرے لیے بس یہی اہم ہے کہ تم اس وقت میرے سامنے بیٹھی ہو۔” ضوفشاں نے نظر بھرکر اُسے دیکھا۔جینز کے ساتھ ایک سیاہ جیکٹ میں ملبوس وہ آج بھی مردانہ وجاہت کا شاہکار تھا ،ضو فشاں نے اپنی نظریں جھکا لیں ۔اس شخص کو اُس نے بے انتہا چاہا تھا اپنے دن و رات ہر ایک لمحے میں وہ اُس کے ساتھ ساتھ رہا تھا۔اور شاید کاوش بھی یہی کرتا رہا تھا ضوفشاں کو اب اُسے اپنے سامنے دیکھ کر یقین آ گیا تھا۔
ویسٹ لیک سے واپسی پر وہ زیادہ دیر خامو ش ہی رہے تھے ایک دوسرے کے ساتھ کو محسوس کرتے ہوئے وہ ساتھ ساتھ چلتے رہے تھے مگر جب مزید خاموش رہنا مشکل ہو گیا تب کاوش نے اُس سے کہا تھا۔” میں آج بھی تمہیں کالاش دکھانا چاہتا ہوں،اب خدا کے لیے خاموش مت رہنا میں مزید پندرہ سال تمہارے جواب کا انتظار نہیں کر سکتا۔” اُس کی طرف رُخ موڑے وہ بے بسی سے کہہ رہا تھا۔” تو کیا اگر میں جواب نہیں دوں گی تو اب انتظار نہیں کریں گے آپ میرا؟” ضوفشاں نے تقریبا ً خفگی سے کہا۔” یار دیکھو انتظار کرنے میں کو ئی ایشو نہیں ہے مگر مزید پندرہ سال بعد ہم پہاڑوں پر کیسے چڑھ سکے گے یہ نہ ہو کہ میں تمہا را ہاتھ پکڑے دوسرے سے اپنی لاٹھی ٹیکتا پہاڑ پر چڑھ رہا ہوں اور اسی طرح تم ایک بڑا سا چشمہ لگا ئے گرتی پڑتی چل رہی ہو ۔” ضوفشاں بے اختیار کھلکھلا کر ہنس پڑی۔” تو پلیز تم کچھ رحم کرو اور ہمارے اگلے بارہ سال بچا لو۔” کاوش نے مزید اضافہ کیا۔” اس وقت کو ئی رنگ تو نہیں ہے میرے پاس مگر تم میرا ہاتھ تھام سکتی ہو۔” کاوش خوش دلی سے کہتا وہیں اُس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ضوفشاں حیران رہ گئی اور اُسے ارد گرد چلتے لوگوں کا احساس دلانے لگی جو اپنے چہروں پر شرارت بھری مسکان لیے اُنہیں مڑ مڑ کر دیکھنے لگے تھے ۔” شادی کرو گی مجھ سے؟” ضوفشاں جو اپنے ارد گرد کھڑے ہوتے لوگوں سے کچھ کنفیوژ سی ہو رہی تھی اس بات پر کچھ مزید سرخ ہوئی مگر پھر مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ کاوش کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
()٭٭٭()
ضو فشاں اپنے اردگرد نظر آتے خوب صورت منا ظر سے نظریں نا ہٹا پاتی تھی مگر یہ کاوش کی نظروں کا ارتکاز تھا کہ وہ گردن مو ڑ کر اُسے دیکھنے لگی۔” کیا ہوا ایسے کیوں دیکھ رہے آپ؟” ضو فشاں کے گالوں پر سرخی چھلک پڑی اور وہ کچھ جھینپ سی گئی۔کا وش مسکرا اُٹھا ۔کچھ عرصہ پہلے جو لڑکی بہادری سے منہ مو ڑ لیا کرتی تھی اب کیسے شرم سے گلابی پڑ رہی تھی۔کیسا معجزا ہو گیا تھا۔کاوش دل ہی دل میں خوش ہوا۔” دیکھ رہا ہوں میری بیوی کی یہ آنکھوں کی اُداسی کب تک جائے گی؟ ہمم؟؟” ضوفشاں حیران ہوئی۔” آنکھوں کی اُداسی؟ میری آنکھوں میں اُداسی دکھتی ہے کیا؟” وہ خود انجان تھی اور اب روایتی لڑکیوں کی طرح پریشان ہو رہی تھی اور ہاتھ لگا لگا کر اُس سے پوچھ رہی تھی۔
وہ دونوں کالاش جا رہے تھے ، اپنی شادی کے چوتھے روز۔۔
کاوش اُسے چائنہ سے لے آیا اور وہ آ گئی۔محبت سے منہ مو ڑ لینا آسان نہیں ہوتا اور وہ بھی بغیر کسی وجہ کے سو ضوفشاں نے بہادری کا مظاہرہ کیا اور بلآخرخو شیوں کی پہلی سیڑھی پر اپنی مرضی سے قدم رکھا۔
ضو فشاں کا اسرار تھا کہ جہاز میں چترال تک جانے کی بجائے با ئی روڈ سفر کیا جائے۔برسوں سے پہاڑوں اور خو بصورت گُل بو ٹوں کو دیکھنے کی جو خواہش اُس کے دل میں موجو دتھی وہ اب پوری ہو رہی تھی۔وہ چائنہ کے پُر افضا ء مقامات دیکھ آئی تھی مگر ان جگہوں کو دیکھتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی درا صل دیکھ تو وہ اب رہی تھی۔
کا وش اُس کی تشویش کو دیکھتے ہوئے اب اُسے چھیڑ رہا تھا۔” ارے تمہیں نہیں پتہ ؟؟ تمہا ری آنکھوں میں اُداسی کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔” شرارتی لہجہ ضو فشاں نے فورا ً محسوس کیا۔” تو میں نے کب کہا میری غزالی آنکھیں ہیں۔” چڑتے ہوئے منہ پھلا کر بیٹھ گئی۔” نہیں غزالی تو نہیں۔۔غزالی آنکھیں بھی بہت پیچھے رہ جائیں تمہاری آنکھوں کے مقابلے میں۔” کا وش نے اُس کے کان میں سر گوشی کی۔ضو فشاں کے ہونٹوں کے کناروں پرایک مسکرا ہٹ اُبلنے کو بے تاب ہوئی مگر وہ چھپا گئی اور کچھ جھک کر ننھے خوبصورت پھول کو ہاتھ لگا کر اشتیاق سے دیکھنے لگی۔” جیسے جیسے ہم آگے بڑھ رہے ہر نئی وادی کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے یہ سب سے خوبصورت ہے اور جو پیچھے ہم چھو ڑ آئے ہیں وہ تو کچھ بھی نہیں تھا۔” ضوفشاں کا لہجہ پُر فسوں تھا اور اُس کے ارد گرد پھیلی وادی جسے وہ نظر بھر بھر کر دیکھ رہی تھی۔
جیپ میں وہ رُک رُک کر سفر کر رہے تھے اور یہ بھی ضو فشاں کی فرمائش تھی ۔وہ ہر ہر وادی دیکھ لینا چاہتی تھی ،اور یہی وجہ تھی کہ وہ ابھی چترال میں بھی داخل نا ہو سکے تھے ۔
” آگے آگے دیکھو ہوتا ہے کیا۔” کاوش ہنس کر بس اتنا ہی کہہ سکا۔وہ اُس بڑے پتھر اُٹھ گئی جہاں وہ بیٹھے تھے اور اپنے دائیں طرف پھیلی اُس حسین جھیل کی طرف بڑھی جس کے سامنے کھڑے ہونے سے اپنا عکس بھی ساکت نظر آتا تھا۔اپنے پیچھے اُسے کاوش کی آواز سنا ئی دی۔” مجھے ڈر ہے تم واپس لا ہور جا کر کیسے رہو گی۔ہاں؟ دیکھو میں تمہیں کالاش چھو ڑ کر نہیں جانے والا۔” وہ اُس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا اور نا راضی اور لہجے میں چھپی شرارت سے کہتا جا رہا تھا۔ضو فشاں مسکرا تی رہی اور جھیل کی سطح پر نظر آتے اپنے عکس کو دیکھتی رہی۔” میں نے کبھی نہیں سو چا تھا کے میں زندگی میں اتنا کھل کر بھی ہنس سکتی ہوں۔” جھیل آئینہ بن گئی اور وہ اُس میں نظر آتا ایک عکس ،جس کے چہرے کی مسکرا ہٹ یہ وادی سدا یاد رکھنے والی تھی جہاں کو ئی بھولے بھٹکے ہی آ دھمکتا تھا اور وہ آج کی تاریخ کے بھولے بھٹکے انسان رہے مگرساتھ ساتھ۔۔اپنی مرضی سے راستے سے بھٹک جانے والے ۔اور اُس مر ضی سے بڑھ کر کیا ہے جو خوشی دے ؟
” رب کی مر ضی۔۔۔” اور بلا شبہ رب کی مر ضی شامل تھی ۔
” کاوش ادر رات اُتر جائے تو جن بھوت اُتر آتا اے ۔تجھے تو پتہ ای اے۔” وہ دونوں بے ساختہ مڑے اُن کے پیچھے بہادر کھڑا تھا جو جیپ چلا رہا تھا اورپہلی بات اُس نے ضوفشاں کی طرف دیکھ کر کہی اور دوسری کاوش کی طرف دیکھ کر۔
واپس جیپ کی طرف بڑھتے چلتے ہوئے ضو فشاں آگے تھی جب کاوش نے بہادرکے کندھے پر ہاتھ کر ہنس کر کہا۔” آں ام کو تو پتہ اے یاں کتنے جن بھوت ایں۔” شرارت سے آنکھ مار کر خا لصتا ً پٹھا نوں کا سالہجہ بنا کر کہتاوہ جیپ میں سوار ہو گیا۔صاف لگ رہا تھا یہ بات صرف ضوفشاں کے لیے کہی تھی جو اب واقعی فورا ً سے جیپ میں آ کر بیٹھ گئی تھی۔وہ اگر سمجھے تھے کہ ضوفشاں ڈر کر بیٹھی تھی تو یہ بات سراسر غلط ثابت ہوئی۔
” جن بھوت دیکھنے میں کو ئی حرج تو نہیں ہے ۔میرا خیال ہے اگلی جو وادی آئے گی اُدھر ہم ٹینٹ لگا لیں گے ۔کیوں ٹینٹ تو ہے نا ہمارے پاس؟ ” بہادر اور کاوش دونوں نے گردنیں مو ڑ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور دل میں آئی بات کو آنکھوں سے کہا۔” پھنس گئے یاررر۔۔۔”
()٭٭٭()
جیپ کی کھڑکیوں سے باہر نظر آتی وادیاں کالاش کی تھیں، ایک گماں سا تھا جو ضوفشاں کے دل سے گزرا۔وہ اپنے دل میں ڈر محسوس کرنے لگی حالانکہ اس سے پہلے وہ صرف پر جوش تھی ۔
اب تک کاوش اُسے ان وادیوں سے جڑے بیشمار قصے سنا چکا تھا اور وہ دلچسپی سے سنتی رہی تھی۔کچھ ایسے قصے جو حقیقت میں رونما ہوئے تھے اور وادی در وادی سفر کرتے لوگوں کی زبانوں تک پہنچے تھے اور وہ اُن سے سُنتا رہا تھا، کچھ ایسے جو کبھی رونما نہیں ہوئے تھے مگر وہ مشہور تھے نجانے اُن میں ایسی کیا بات تھی کہ لوگ جو جانتے تھے کہ ایسا کبھی کچھ نہیں ہوا ہو گا وہ اُس کے بارے میں بات کرنا پسند کرتے اور اُس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے نسلوں میں منتقل کرتے تھے، کچھ ایسے قصے بھی تھے جو خود کاوش نے صرف کتا بوں میں پڑھے تھے مگر وہ اُنہیں بھی ضوفی کے گوش گزار کرتا رہا شاید اُسے وہ حزن بھا گیا تھاجو سنتے ہوئے ضوفشاں کے چہرے پر چھا جاتا ، وہ اگر کسی المنا ک سانحے کا ذکر کرتا تو اُس کی آنکھیں پھیل جاتیں ، اگر کو ئی لطف سے بھرپور واقع ہوتا تو تبسم اُس کے ہونٹوں پر بکھر جا تا، اور اگر واقعے میں کو ئی پہاڑ سے گر جا تا یا جدائی تاعمر کے لیے مقدر بن جاتی تو تا سف اُس کے چہرے پر رقم ہو جاتا۔کاوش کے لیے اُ س کا ہر ایک تا ثر قیمتی تھا اور وہ اُنہیں اپنے دل پر نقش کرتا رہا۔
وہ وادی بمبوریت میں اُتر گئے۔یہاں سے اُنہیں پیدل رنمبور جانا تھا۔ضو فشاں ابھی جیپ میں سے اُتری نہیں تھی اور واضح طور پر گھبراہٹ اُس کے چہرے پر رقم تھی کاوش ایک لمحے میں جان گیا تبھی باہر نکل کر اُس نے ضوفشاں کا ہاتھ پکڑا اور اُسے نیچے اُترنے میں مدد دی۔” وہ سب تم سے بہت پیار سے پیش آئیں گے ضو فشاں۔” تسلی آمیز یقینی دہانی کروائی تھی۔
اب تک جیپ کے ارد گرد وادی کے بے شمار لوگ جمع ہو چکے تھے۔کالے خوبصورت گُل بوٹوں سے مزین لبا سوں میں ملبوس عورتیں،ضوفشاں پہلی بار اُنہیں اپنی حقیقی کھُلی آنکھوں کے ساتھ دیکھ رہی تھی۔
کالاش کی وادیوں کی خوبصورتی تو وہاں کے لوگ ہیں،ضوفشاں کو اُس لمحے اس بات پر پورا یقین آگیا جو ایک بار کاوش نے اُس سے کہی تھی۔وہ جو وادیاں راستے میں دیکھ آئی تھی وہ شاید ان وادیوں سے زیادہ خوبصورت ہوں اپنے پہاڑوں ،پھولوں اور ندیوں کے اعتبار سے مگر یہاں کے لوگ۔۔یہ لوگ تھے اتنی محبت سے ملتے تھے اور اُس کا ہاتھ پیار بھرے لمس سے دباتے تھے اور آنکھوں میں خوشی اور استقبال سمو ئے ہوئے اُسے تکتے تھے۔یہ خوب صورت لبا سوں میں ملبوس لوگ جن کے درمیان ہوتے ہوئے لگتا تھا کہ باقی دنیا کہیں غائب ہو گئی تھی اور صرف ایک یہ دنیا تھی جہاں رنگ تھے ،خو شبو تھی ، حقیقی محبت تھی ،اور جہاں سادگی تھی بنا وٹ نہیں تھی ملمع چڑھے لوگ نہیں تھے۔یہ واقعی کو ئی اور دُنیا تھی۔۔۔
()٭٭٭()
” ہو ہو۔۔ہے ہے۔۔”آگ کا الاؤ جلا تھا اور ڈھول کی تھاپ تھی اور بے شمار خو ب صورت دل والے لوگ تھے جو نا چتے تھے مستی بھرے انداز میں بنا تھکن محسوس کرتے ہوئے۔۔
وہ چاروں گُل مکئی، پشمینہ ، دیوہ اور زرمستہ رقص کرتے ہوئے اُنہوں نے اُسے بھی کھینچ کر اپنے ساتھ رقص میں شامل کر لیا تھا۔ضو فشاں نے اپنے برابر میں کھڑی زرمستہ اور گُل مکئی کی کمر کے گرد بازو حما ئل کیے اور وہ چاروں آدھا گول چکر کاٹنے لگیں اپنے گلے میں سے نکلتی آوازوں کے ساتھ ، ڈھول کی تھاپ کو دل پر محسوس کرتے ہوئے۔
یہاں آنے پر ضو فشاں کو ایک ایک کر کے اُن چاروں سے ملنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی ،وہ سب بہنیں خود پیار سے اُس کے گلے لگی تھیں اور کا وش کو اُس کی پسند پر داد دینے لگی تھیں۔ضو فشاں اُن کی زبان نہیں سمجھتی تھی تبھی بس مسکراتے ہوئے سنتی رہی۔جب زرمستہ نے اُس سے کہا جو گلگت میں رہتی تھی اور خاص آج کے دن کے لیے کالاش میں آئی تھی وہ تھو ڑی بہت اُردو بھی جانتی تھی۔” تم برار (بھا ئی) کی پسند او ر برار کی پسند سب سے اچھی ہے۔” وہ بس مسکرا دی۔اُسے وہ چاروں بے حد پسند آئیں تھیں اور بابا خان بھی۔۔۔جو اب اتنے بو ڑھے ہو چکے تھے کہ ٹھیک سے دیکھ بھی نہیں پاتے تھے مگر جب ضو فشاں اُن سے ملنے آئی تو وہ مشکل سے ہی سہی مگر اپنے لکڑی کے تختے سے اُٹھے اور اپنے نخیف ہاتھوں سے اُس کے سر پر پیار دینے لگے ،” سدا سکھی و سلامت رہو خوش رہو، ” ضو فشاں اُن کا ہاتھ خلا میں دیکھ کر خود جھک گئی ، اپنی تقریبا ً ختم ہو چکی بینا ئی کے ساتھ وہ دیکھ نہیں پائے تھے کہ ضوفشاں کا جھکا سر کہاں ہے تبھی ضو فشاں نے خود اُن کی مدد کی۔
وہ سب اُن کے نکاح میں شریک نہیں ہو سکے تھے ،بابا خان اپنی بیما ری کے باعث اور سب بہنیں بھی اپنی کچھ وجو ہات کی بنا پر مگر اب وہ اس وادی میں شادی کی دعوت کا انتظام کیے ہوئے تھے۔نا چتے گاتے کھاتے پیتے اور بہت سارا بناؤ سنگھا ر کیے ہوئے۔
کا وش نے اپنے سے کچھ دُور اپنی بہنوں کے ساتھ ضوفشاں کو خو شی سے بھرپور مسکرا تا چہرہ لیے رقص کرتے دیکھا ۔کا وش کو وہ کا لاشیوں کے روایتی لبا س میں ملبوس نظر آ رہی تھی، کالے لمبے چغے میں بے شمار زیورات اور سرمیں گوندی مینڈیوں کے ساتھ ۔۔اُس کے دل میں کچھ ایسی خواہشات کے ساتھ جو وہ اپنی وادی کے حوالے سے رکھتا تھا ایک یہ خواہش بھی رکھتا تھا کہ ضو فشاں کو اس لبا س میں دیکھے اور آج خواہش اُس کے سامنے حقیقت کا رُوپ دھارے کھڑی تھی۔ ایک خوبصورت مسکرا ہٹ نے اُس کے لبوں کو چھوا۔
بمشکل ضوفشاں سے نظریں ہٹاتے ہوئے اُس نے پوری وادی پر ایک نظر گھما ئی، بے اختیار وہاں جہاں اُس کا بچپن گزرا تھا، جہاں اُس کی حسین اور کچھ تلخ یادیں وابستہ تھیں۔با ئیں طرف اُونچے پہاڑ پر اب کو ئی گھر نہیں تھا اور کو ئی اخرو ٹ کا گھنا درخت بھی نہیں تھامگر دریا ایک ڈیم کی صورت میں ڈھل چکا تھا ۔” چلو قربانی کا کچھ حاصل وصول تو ہوا۔” ایک اُداس مسکرا ہٹ اُس کے ہو نٹوں پر رینگی۔
” رقص کرنا بھول گیا اے کیا تم ؟چلو آؤ امارے ساتھ۔” بہادر نے اُسے زبر دستی وہاں سے اُٹھا یا اور اپنے ساتھ لے گیا ، اب وہ رقص کر رہا تھا اپنے ہاتھوں کے مخصوص بہاؤ کے ساتھ۔۔ڈھول کی تھاپ کے ساتھ بہتے ہوئے۔۔مگن ۔۔خو ش و مطمئن۔
کا وش اور ضو فشاں ۔۔۔اُن دونوں کے چہرے پُر سکون تھے اور اپنی ‘ آج ‘ کی خو شی پر شاداں اور فرحاں تھے کہ وہ جانتے تھے اگر ‘ کل ‘ کو ئی غم بھی اُن کی زندگی میں آیا تو وہ اُسے اسی طرح جھیل جانے کا ہنر جان گئے تھے، صبر اور اطمینان کے ساتھ۔۔اﷲ کی رضا جانتے ہوئے۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

عکس —عمیرہ احمد (قسط نمبر ۱)

Read Next

غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (پہلا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!