نجات دہندہ — ردا کنول (تیسرا اور آخری حصّہ)

” تم لوگ آج بھی زیادتی کر رہے ہو ضو فی کے ساتھ۔” عالم، علیم اپنا جھکا سر اُٹھا ہی نہ سکے۔دل میں کہیں چھپے وہ اس پچھتا وے سے خوب واقف تھے۔دونوں کے بچے اور بیویاں اپنے میکے گئی ہوئیں تھیں تبھی ہاجرہ نے مو قعے کا فائدہ اُٹھا تے ہوئے دونوں کو اپنے سامنے بٹھا لیا تھا اور اب وہ اُنہیں زودو کوب کرنے کے ساتھ ساتھ غلطیاں سد ھارنے کو بھی کہہ رہی تھی۔
” اب کیا کر سکتے ہیں ،علیم نے ایک سرد آہ بھری، کتنے ہی اچھے رشتے تو دیکھائے تھے مگر اُس کی نا ں ہاں میں نہ بدلی۔” کتنے ہی سفید بال اس بات کے غما ز تھے کہ وقت۔۔اُنہیں اچھی خا صی دھول چٹا کر گیا تھا۔
” شادی کے ڈر سے ہی تو وہاں چائنہ جا کر بیٹھ گئی کہ ہم پھر سے اُس کے ساتھ کو ئی زبردستی نہ کردیں۔” عالم کے لہجے میں افسوس ہی افسوس تھا۔” تو تم نہ کرو زبردستی۔” ہاجرہ کا انداز صلاح دینے جیسا تھا مگر کچھ تھا ، کچھ سمجھانے والا جیسا ، وہ دونوں اپنی اپنی نشستوں سے آگے کو کھسک آئے اور سوالیہ انداز سے ہاجرہ کی طرف دیکھنے لگے۔
” ماں ہوں میں اُس کی، اُس کے دل کا حال اُس سے بھی اچھے طریقے سے سمجھ سکتی ہوں۔” ہاجرہ مو جود تو وہیں تھی مگر درا صل وہاں نہیں تھی۔پٹھا نوں کا سا لہجہ لیے کو ئی اُس کے کان میں بول رہا تھا۔
” ضو فشاں کی ماں ہیں نا آپ؟ ”وہ ایک بازار میں کھڑی تھی جب ایک دراز قد خو برو لڑکا اُس کے برابر میں آ کھڑا ہوا اور برا ہ راست کچھ بے چینی سے پو چھنے لگا۔اُس لمحے کا وش کشمکش کا شکار نظر آتا تھا آیا کہ اُسے ضو فشاں کے بارے میں سوال کرنا چاہیے یا نہیں؟ مگر بے قراری اس قدر تھی کہ وہ بے اختیار پو چھ بیٹھا ۔ضو فشاں کے گھر والوں کا ڈیٹا وہ بڑی مشکل سے ڈھو نڈ پایا تھا اور ہاجرہ کا چہر نظر آنے پر اُسے وہ تصویر یاد آ گئی جو بہادر نے اُسے دکھا ئی تھی جو کہ ضوفشاں کی ماں کی تھی۔اور وہ اُس کے مقابل پہنچ گیا۔
” نہیں۔” ہاجرہ سبزیوں کے تھیلے تھامے یک لفظی جواب دیتی فوراً وہاں سے غا ئب ہو گئی۔وہ ایسا نا کرتی تو یقینا ضو فشاں کی مزید نا را ضی مول لے لیتی جو آجکل شدید غصے میں رہتی تھی اور کسی بھی بات کا ٹھیک سے جواب نہیں دیتی تھی۔عالم ، علیم کی طبیعت ٹھکانے لگانے کے بعد وہ خود چترال کوزین سے بغیر کچھ بتائے علیحدہ ہو گئی اور ایک ہو ٹل میں بطور ایک بار پھر سے ڈش واشر کے طور پر کام کرنے لگی ۔وہ اس یقین کے ساتھ ہوٹل میں کام کرنے پر رضا مند ہوئی کہ اُس کے بارے میں کسی کو بھی کو ئی معلومات نہیں دی جائیں گی اور ویٹر کی بجائے ڈش واشر کے طور پر کام کرنے کے پیچھے بھی یہی وجہ تھی تا کہ اُسے کچن سے باہر نہ نکلنا پڑے او ر وہاں دیکھ کر کاوش اُس سے کو ئی باز پرس نا کرے۔وہ یہ بھی جانتی تھی کہ کا وش خود یا اُس کے کسی جاننے والے کو ضرور اُس کے گھر بھیجے گا اور اُس نے ہاجرہ کو پہلے ہی متنبہ کر دیا تھا کہ اُس کے بارے میں مکمل لا علمی کا اظہار کرے۔ اور وہ ایسا ہی کرتی رہی حتی کہ آج بھی اُس نے ایسا ہی کیا ،جب وہ اچانک اُس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا تھا اور جواب طلب کر رہا تھا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ہا جرہ کو آج بھی ملال تھا ،کاش وہ کا وش کو ضو فی کے بارے میں بتا دیتی،مگر وہ اپنے دل میںڈر محسوس کرتی تھی اپنے سب بچوں سے ڈروہ ہمیشہ اپنے اندر پالتی رہی۔
” ایک وقت آتا ہے جب ماں باپ بچوں کے طا بع ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ اُن کا کھاتے ہیں اُن کے دیے ہوئے پیسوں سے تن ڈھانپتے ہیں ،پھر وہ اُن سے کو ئی شکا یت اپنی زبان پر نہیں لاتے اور اپنے تجربے کی نصیحت کو پرے اُٹھا کر رکھ دیتے ہیں مگر بچوں تک پہنچانے کی غلطی نہیں کرتے کیونکہ وہ بچوں کے نزدیک صرف خا لی خولی نصیحت ہی ہوتی ہے اُنہیں لگتا ہے ماں باپ کچھ نہیں جانتے ۔اور وہ وقت سب وقتوں میں سب سے تکلیف دہ سب سے گھٹن اور سب سے زیادہ خوف ناک ہوتا ہے۔”
ایک طرف تو وہ ملال محسوس کرتی مگر پھر دوسری ہی طرف وہ سوچتی اگر وہ اُس وقت کا وش اور ضو فشاں کو ملنے دیتی تو بھی کو ئی خا ص فا ئدہ نہیں تھا۔ضو فشاں کبھی نہ مانتی اور جو کچھ اُس کے بھا ئی کر چکے تھے وہ اُنہیں ہمیشہ شک کی نگاہ سے ہی دیکھتی۔مگر آج جب سب ٹھیک تھا ضو فشاں کے دونوں بھا ئی ایک دودھ دہی کی دوکان کھول چکے تھے اور دو بھینسیں اُن کے پاس مو جو دتھیں تو یقینا حالات اب ضو فشاں کے لیے بہتر ی لا سکتے تھے۔یہ ایک ماں کی سوچ تھی ،جہاں وہ عالم، علیم اور حتی کہ عادل جو کہ نجانے کہاں تھا اور یقینا اپنی زندگی میں بہت خوش و خرم تھا ،کہ لیے اپنے دل میں پریشانی محسوس کرتی وہیں وہ ضو فشاں کے لیے فکر مند رہتی۔وہ اُس کو ہنستا ہوا دیکھنا چاہتی تھی بالکل ویسے جیسے وہ اپنے بچپن میں کھلکھلا یا کرتی تھی اور جو ہنسی پھر جوانی میں کبھی اُس کے چہرے پر نہ آ سکی۔
ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے وہ حال میں واپس آ ئی اور اُن دونوں سے کہنے لگی۔” اُس لڑکے کا پتہ کرو ۔” دونوں کے چہروں پر پہلے حیرت اتری اور پھر وہ سر جھٹک گئے۔اُن کے جھکے سر بتا تے تھے لڑکے کے بارے میں بتانے کی ضرورت نہیں تھی وہ جان گئے تھے وہ ایک ہی انسان ہو سکتا تھا۔
()٭٭٭()
”حقیقت۔۔۔بعض حقیقتیں اتنی تلخ ہو تی ہیں کہ جس سمے اُن کو بیان کیا جا رہا ہو کڑواہٹ ما حول میں گھلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔وہ سمے آنسوؤں کا ہوتا ہے ۔۔۔اُس وقت میں لازم ہو جاتا ہے کہ آنکھیں اُجا ڑ لگنی لگیں۔۔۔اُس سمے گھڑی کی سوئیاں تک جامد ہو جاتی ہیں بالکل بے جان جسم کی طرح۔۔۔اُس سمے میں آگہی کے در کھلتے ہیں۔۔۔اور آگہی یقینا وقت سے پہلے اچھی نہیں لگتی۔یقینا حقیقتوں کا ‘جان’ جانے کا سمے بڑا زہریلا ہوتا ہے۔”
وہ کا فی دیر سے یونہی بیٹھی تھی ، تصویر کو یک ٹک دیکھتے ہوئے ،آنسو بہاتے ہوئے بے شمار باتیں اُس کے ذہن میں گردش کرتی رہیں مگر اُن سے کہیں زیادہ سوالات۔۔ایسے سوال جو معاشرے کے متعلق تھے جو اُس کے خاندان کے بارے میں تھے اور ایسے سوال جن کا تعلق ان دونوں چیزوں سے نہیں تھا مگر وہ اُس کے ذہن میں سر اُٹھا تے رہے اور جن کے جواب وقت دینے والا تھا کہ بعض چیزیں وقت کے ذمے ہوتی ہیں۔
وہ ما ضی کے بارے میں جان گئی تھی، وہ ماضی جو اُس کے باپ ،چچا ، دادی اور پھوپھو کا تھا۔
” ما ضی میں کون زیادہ ظالم رہا؟” تصویر میں موجود خو بصورت خدو حال والی لڑکی اپنے لمبے بالوں کی چو ٹی کو دائیں طرف کاندھے پر لٹکائے ہوئے تھی اور پورے دل سے ہنس رہی تھی۔مائدہ نے اُس کی چوٹی پر ہاتھ پھیرا۔
” بچپن میں اُسے اپنے بال بڑے پسند تھے ،بڑا خیال رکھتی تھی اُن کا۔” ہاجرہ کب اُس کے پاس آ کر بیٹھی اُسے پتہ ہی نہیں چلا۔ہاجرہ کے منہ سے نکلی ٹھنڈی آہ نے پورے کمرے کو سرد کر دیا اور ہوا بوجھل سی لگنے لگی۔وہ خا مو شی سے ہاجرہ کی باتیں سننے لگی جو اب ایک افسردہ ہنسی کے سا تھ کہہ رہی تھی۔” اور خود سے تو زیادہ وہ ہم سب سے خیال رکھواتی تھی اپنے بالوں کا،یہ تمہا را باپ اُس کے بالوں کی کنگھی تک کیا کرتا تھا۔آہ۔۔” ہا جرہ نے ہاتھ بڑھا کر تصویر اُس کے ہاتھوں سے تھام لی اور پانی بھری آنکھوں سے اُسے یکھتی رہی ۔
” وقت وقت کی بات ہوتی ہے نا دادو۔انسان کی زندگی میں کیسا کیسا وقت آتا ہے ،کیا کچھ دیکھ لیتا ہے انسان۔” وہ ہاجرہ کے مزید قریب کھسک آئی اور دلا سہ دینے لگی۔” ہمم۔۔اور کیا کیا سہہ بھی لیتا ہے۔” ہاجرہ نے نہکارہ بھرا اور خود کو کہنے سے نا روک پائی۔
” پھوپھو جرات مند تھیں اپنے ما ضی میں ۔مگر اب۔۔وہ بزدلی دکھا رہی ہیں۔” وہ ضوفی کے لیے ہمدردی اور پیار دونوں اپنے دل میں رکھتی تھی تبھی اُس کے لیے فکر مندی اُس کے لہجے سے عیاں تھی۔” کیا کرے بیچاری ۔۔روگ ہی لگا لیا ہے اُس نے خود کو۔” ہاجرہ کی دھیمی آواز بھی اُس تک پہنچ گئی۔” دادو کیا نام ہے اُس کا؟” ہاجرہ نے اُسے شکا یتی نظروں سے دیکھا۔” دادو پلیز ۔۔پھوپھو کے لیے پوچھ رہی ہوں۔” اب کی بار ہاجرہ نے ہار مان لی۔” کاوش نام تھا اُس کا۔” نام لیتے ہی جیسے دل میں ہوک سی اُٹھی۔” اوں ہوں۔۔پورا نام بتا ئیں نہ۔” مائدہ بستر سے اُٹھ کر اب اپنا فون تلاش کر رہی تھی۔” ارے پورا نام مجھے کیا پتا ۔ اور تم کیا کرو گی پورا نام جان کر؟” ہاجرہ کو کوفت ہوئی اُس کی اتنی تفتیش پر۔” اچھا ہو ٹل کا نام ہی بتا دیں وہ تو پتہ ہی ہو گا، آخر پھوپھونے اتنے مہینے کام کیا تھا وہاں ،کبھی تو نام لیا ہو گا ؟” تکیے کے نیچے اُسے فون مل گیا اور وہ واپس ہاجرہ کے سامنے آکر بیٹھ گئی۔
” ہاں لیتی تو تھی نام۔۔ارے وہ جو پہا ڑوں والی جگہ ہے کیا نام ہے اُس کا؟” بہت زور دینے پر بھی نام یاد نہیں آرہا تھا۔ ہاجرہ ماتھے پہ ہاتھ مارنے لگی۔” ارے وہ۔۔چترال۔” ہاجرہ نے یوں اُسے دیکھا جیسے کو ئی معرکہ سر کر لیا ہو مگر اُس کے سامنے ما ئدہ ابھی بھی ویسے ہی بیٹھی تھی سوالیہ انداز میں ابرو اچکا ئے ہوئے۔” ہاں وہ چترال کے آگے بھی کچھ لگتا تھا ۔اﷲ جانے کیا عجیب نام لیتی تھی۔” ہاجرہ کھسیانی سی ہو کر بستر پر درا ز ہو گئی۔” افوہ او دادو۔۔۔اب کیسے ڈھو نڈو ں بھلا۔” ما ئدہ اچھل کے وہاں سے اُٹھ گئی۔باہر نکلنے سے پہلے ہاجرہ کی آواز اُس کے کانوں میں پڑی۔” لے بھلا تو نے کیا ڈھونڈنا ہے۔” غنو دگی اُس پر طاری ہونے لگی تھی اور تصویر اپنے ہاتھ کے نیچے رکھے وہ گہری نیند میں چلی گئی۔
()٭٭٭()
گہری سرد رات میں ما ضی کتنی ہی بار اُس کی آنکھوں کے سامنے سے گزرا۔وہ لمحے بھی جو خو شی سے بھر پور تھے اور وہ بھی جن میں درد اور تکلیف کو ٹ کو ٹ کر بھرے تھے ،مگر اُن دونوں میں ایک قدر مشترک تھی کہ وہ ‘ گزر گئے۔’
عالم نے ہاجرہ کی اُس دن کی باتوں کے بعد بے انتہا بار سوچا Chitral Cuisine میں جانے کا مگر ہمت نا کرسکا ۔اور آج تو وہ ہو ٹل کے باہر تک پہنچ گیا مگر اندر نہ جا سکا۔” ہو سکتا ہے اُس نے شادی کر لی ہو ۔” یہ سوچ اُسے واپس مڑ جانے پر مجبور کر گئی۔” مگر ہو سکتا ہے ایسا نہ ہو ،ایک دفعہ مل لینے میں پتہ کر لینے میں کیا حرج ہے؟” اگلے ہی لمحے وہ سوچتا رہا مگر دوبا رہ نہ مڑ سکا۔” کیا پتہ وہ اب شادی نہ کرنا چاہتا ہو ضوفشاں سے اب اتنے سال جو گزر چکے ہیں۔” ایسی کئی سوچیں اُسے باندھے رکھتیں اور نیند اُس سے رو ٹھی رہتی۔
ما ئدہ نے بر آمدے میں کھڑے اپنے باپ کو دیکھا جو دُور سے دیکھنے پر بھی پریشان حال اور اُلجھنوں میں گھرا ہو ا لگتا تھا۔اُس نے مو بائل کی سکرین اپنے چہرے کے سامنے کی۔اور ایک چمک اُس کی آنکھوں میں صاف دکھنے لگی۔وہ تیرہ چودہ سال کی لڑکی تھی اور اب مو بائل ہاتھ میں لیے وہ اپنے باپ کی آدھی پریشانی دُور کرنے جا رہی تھی۔
اندھیرے میں رو شنی عالم کی آنکھوں میں پڑی تو آنکھیں جھپکنے لگا۔” یہ دیکھیں ابو ۔۔” Chitral Cuisine کا ما لک اُس کی آنکھوں کے سامنے تھا مگر وہ پہچان نہ پا یا۔” کیا ؟ کون ہے یہ؟ ” ما ئدہ عالم کو بہت عزیز تھی اُس میں ضو فشاں کی جھلک تھی ۔عالم کے اطمینان کو یہ چیز کافی تھی کہ اب ۔۔ ایک اور ضو فشاں اُس کی زندگی میں تھی مگر اس بار وہ اُس کی زندگی سے کھیلنے والا بالکل نہیں تھا۔
” پھو پھا ۔۔مطلب Chitral Cuisineکا مالک ،کا وش خان۔” زبان دانتوں تل دبائے اُس نے کہا۔وہ آج کی لڑکی تھی گوگل سے اُس کا سارا بائیو ڈیٹا نکال لا ئی۔ عالم کا وش کوپہلی بار دیکھ رہا تھا۔” ابو آپ نے اچھا نہیں کیا پھوپھو کے ساتھ۔” عالم کا سر مزید جھک گیا۔”آپ قصور وار ہیں ،بڑے تھے گھر کو سنبھالنا چاہیے تھا آپ کو۔” عالم اسی لمحے سے ڈرتا تھا ۔کسی باپ کے لیے اس سے بڑھ کر خو ف ناک چیز کو ئی نہیں ہو سکتی جب اُس کی اولاد اُسے الزام دے۔اور اس لمحے وہ پھٹ پڑ ا اپنی سب سے پیاری بیٹی کے سامنے ۔” میں قصور وار تھا؟ میں نہیں تھا قصور وار ۔۔۔قصور تھا تو حالات کا ۔۔قصور تھا تو اُس ۔۔اُس پراجیکٹ کا جس کی وجہ سے ہمارا گھر ہما را کا رو بار اور ۔۔اور ہمارا آپس کا پیار تک چھن گیا۔سب ختم کر دیا اُس نے۔ہمیں کہیں کا نہیں چھو ڑا ، بر باد کر کے رکھ دیا ہمیں۔” اُس کی آنکھوں میں پانی تھا اور اُس کی آواز پھٹ پڑی تھی۔ما ئدہ پہلی بار اپنے باپ کو اس حالت میں دیکھ رہی تھی بھاگ کر وہ اندر سے پانی کا گلاس لے آئی ۔
جب اُس کی حالت کچھ سنبھلی اور عالم کو لگا جیسے وہ خود پر پڑا سارا بوجھ اُتار گیا تھا تب اُس کے کانوں کے پاس مائدہ کی آواز گونجی۔” ابو گھر تو آتے جاتے رہتے ہیں کا رو بار بھی بنتے بگڑرتے رہتے ہیں مگر رشتو ں میں پیار یو نہی یکدم ختم نہیں ہو جاتا۔آپ ایک دفعہ خود بڑے بن جاتے اور عقلمندی کے ساتھ حالات کا سامنا کرتے تو کبھی بھی پچھتا وے آپ کا مقدر نا بنتے ۔” عالم سُن سا بیٹھا اپنی اُس بیٹی کی باتیں سن رہا تھا جو عمر کے لحاظ سے ابھی بہت چھو ٹی تھی مگر لگتا تھا جیسے وہ آگہی کے بہت سے در پار کر آئی ہو۔
” کیا جن کے گھر اور کاروبار نہیں رہتے پھر وہ کبھی کچھ نہیں کر پاتے؟ ایک بار گر کر دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے والے بہادر انسان ہوتے ہیں ابو۔” ما ئدہ اُس کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی تھی ۔اُس نے سچائی کہی تھی مگر نرم لہجے میں ، باور کرواتے ہوئے کہ قصور دوسروں پر اور حالات پر نہیں ڈالے جاتے بلکہ خود بھی اُن کی کچھ ذمہ داری قبول کرنی پڑتی ہے۔
” کاوش خان نے شادی نہیں کی ابھی تک ۔۔اپنی غلطیاں سدھار لیں ابو۔” ایک آخری الفا ظ کہتی ہوئی وہ وہاں سے اُٹھ کر اندر چلی گئی۔اور اُس کے پیچھے عالم ابھی بھی گنگ سا بیٹھا تھا ،اُس کی بیٹی اُسے آئینہ دکھا گئی تھی ۔
‘ ‘ اور حقیقتیں واقعی بڑی جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔”
()٭٭٭()

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

عکس —عمیرہ احمد (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!