نجات دہندہ — ردا کنول (تیسرا اور آخری حصّہ)

عالم تیزی سے کمرے میں داخل ہوا ،غصے سے اُس کے نتھنے پھول رہے تھے اور سانس بے ترتیب طریقے سے آ جا رہا تھا،ضو فشاں چو نکی اور حیرت سے عالم کو اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھنے لگی۔مالا والا ہاتھ خود بخود اُس کے پہلو میں گر گیا ۔مغلظات کے ڈھیر کے ساتھ عالم نے ایک تھپڑ کھینچ کر اُس کے گال پر رسید کیا۔حملہ اُس کی تو قع کے بر خلا ف تھا ،کھڑ کی کا پٹ اُس کے ماتھے پر ایک لکیر کھینچ گیا جس سے پھر خون رسنے لگا۔
” کون تھا وہ جس کے ساتھ تو عیا شیاں کر کے آ رہی ہے؟” ضوفشاں کا جھکا سر اُٹھ نہ سکا اور درد اپنے اندر اور باہر لیے وہ اسی طر ح کھڑی رہی۔ہا جرہ اورعلیم ، عالم کے زور زور سے بولنے کی آوازوں کو سنتے ہوئے اندر آ گئے۔دونوں کے لیے یہ ایک پریشان اور اس سے کہیں زیادہ حیران کُن صورتحال تھی مگر شاید اُن تینوں کے لیے ،علیم ،ہاجرہ اور ضو فشاں کے لیے۔۔
” کیا ہوا ہے کیوں مار رہا ہے اسے؟” ہاجرہ نے اپنے دونوں بازو کھولے اور ضوفشاں کو خود میں سمیٹنے کی کوشش کی ،ماؤں والی ایک بے سود کوشش جو بیرونی تھپیڑوں سے بچانے کے لیے کی جاتی ہے ۔فیرو زی ما لائیں ابھی بھی اُس کے ہا تھ میں دبی تھی ، عالم نے ایک جھٹکے سے اُسے ضوفشاں کے ہاتھوں سے جھپٹا اور زمین پر پٹیخ دیا۔
”اماں اس سے پوچھ یہ تحفے تحائف کس سے لاتی پھرتی ہے؟” وہ بڑا بھا ئی تھا جو چیخ چلا رہا تھا اور بار بار ہاتھ اُٹھا نے سے بھی باز نہیں آرہا تھا تو چھو ٹا کیونکر پیچھے رہتا ،اب تک تو کچھ کچھ صورتحال علیم کی سمجھ میں آنے لگی تھی۔” تو بے غیرت۔۔یہ گُل کھلا تی پھر رہی ہے ؟ تجھے تو میں زندہ نہیں چھو ڑوں گا۔” کسی بہت ہی خطرناک خیال کے ساتھ علیم آگے بڑھا مگر ہاجرہ نے اُسے کسی طرح رُوک دیا اور ڈھال بن کر ضوفشاں کے سامنے کھڑی ہو گئی۔
” کیوں اُس کی جان کے درپے ہو گئے ہو؟دفع ہو جاؤ دونوں یہاں سے۔” ہاجرہ کی آواز بیٹھ گئی تھی اور وہ گالیاں دیتے ہوئے اُنہیں کمرے سے نکال رہی تھی۔وہ باہر تو نکل گئے مگر مسلسل ضوفشاں کو زودوکوب کرتے رہے وہ جو کبھی اُن کی ‘ کوکو’ ہوا کرتی تھی اورجس کی آواز اُنہیں کوئل سے مشابہ لگتی تھی اب اُس کی زبان ہی کھینچ کر نکال دینا چاہتے تھے۔
” خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے میں نے اس منحوس کو ایک لڑکے کے ساتھ۔۔چھو ڑوں گا نہیں میں اسے۔۔” عالم ہاتھ چلا چلا کر کہہ رہا تھا۔
ہاجرہ نے اُنہیں نکالا اور دروازہ سختی سے بند کر دیا خود وہ پسینے سے شرا بور ہو گئی تھی اور ہانپ رہی تھی۔ضو فشاں ابھی تک خود سے بھی شرمندہ نظریں جھکا ئے کھڑی تھی اور فیرو زی سیپیوں کو گھور رہی تھی۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

” خواب بننا ابھی شروع نہیں ہوئے تھے مگر ما تم شروع ہو گیا تھا خود اُس کے خوا بوں پر۔۔”
ہاجرہ اپنا سر پکڑے بیٹھی رو رہی تھی روتے ہوئے ہی یکدم اُس نے سوال کیا ۔” کس سے لے کے آئی ہے تو یہ؟” اشارہ فیروزی سیپیوں کی طرف تھا۔” اماں سالگرہ ہے آج میری۔۔ہچکیوں کے ساتھ وہ بتانے لگی، ہو ٹل کا مالک ہے نا وہ کالاش سے ہے وہاں سے لا یا تھا اُس نے بس مجھے دے دی ۔اماں میری طرف سے کچھ نہیں ہے ،میں کیسے اتنے جھمیلوں کے ساتھ کچھ کر سکتی ہوں۔” ہاجرہ کے گھٹنوں پر سر رکھے وہ سسکتی رہی۔مگر اپنے دل میں اُس نے تھو ڑی گلٹ محسوس کی ،جو وہ کہہ رہی تھی اتنا سچ بھی نہیں تھا۔اُس نے کاوش کو اتنا آگے بڑھ جانے دیا تبھی تو اُس نے۔۔۔” بس اب میں کو ئی مثبت رسپانس نہیں دوں گی کاوش کو۔” اپنے دل میں تہیہ کرتے ہوئے وہ ہاجرہ کی سنتی رہی جو اب کہہ رہی تھی۔” دما غ خراب ہو گیا ہے دونوں کا ،گھر بیٹھے بیٹھے خرافات سوچتے ہیں بس۔۔زنگ لگے دما غ۔” ہاجرہ نے اُس کاسر تھپکا وہ تسلیاں دیتی رہی۔اس بات سے انجان کے باہر وہ کتنے بپھرے بیٹھے تھے۔
()٭٭٭()
” جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔”عالم اور علیم وہ دونوں خوب جی بھر کر گرجے مگر صرف تب تک جب تک کہ اُنہیں اس بات کا علم نہ ہو گیا کہ ضو فشاں جس کے ساتھ اُسے نظر آ گئی تھی وہ درا صل ہے کون تھا؟اُس کی حیثیت کیا تھی؟
مگر یہ خیال غلط تھا کہ ضو فشاں اُسے’ اچا نک ‘ نظر آ گئی تھی۔عالم نے با قا عدہ اُس کا پیچھا کیا تھا ،وہ اُسی دن کھٹک گیا تھا جب ضو فشاں پہلی بار کاوش سے ملنے مارکیٹ گئی تھی۔بہت سالوں سے وہ گھر سے باہر جا رہی تھی ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ اُس کی اُداس آنکھوں میں کوئی رو شنی چمکی تھی او ر عجلت اُس کے پیروں میں محسو س کی جانے لگی تھی اور یہ چمک اور عجلت عالم کی نظروں سے اوجھل نہ رہ سکی تھی۔
ضو فشاں کے ذریعے وہ یہ اگلوا چکے تھے کہ وہ اُس ہو ٹل کا مالک ہے اور پیسے والا انسان ہے۔یہاں تک تو ٹھیک تھا مگر ایک غلطی جو ضوفشاں نے کی وہ یہ بتانے کی تھی کہ ہو ٹل کا مالک اُس سے شادی کرنا چاہتا ہے ۔
” مگر میں اُس سے شادی کرنا نہیں چاہتی ۔اور میں اُسے نکار کر دوں گی۔” التجا سے زیادہ یقین دلانے والے انداز میں وہ اُنہیں بتا تی رہی۔مگر جو ردعمل اُسے دیکھنے کو ملا وہ بڑا غیر یقینی تھا۔” نہیں ۔۔تم انکار نہیں کرو گی، پتہ ہے تمہیں کتنے پیسے والا آدمی ہے وہ ۔۔ہماری زندگیاں بن جا ئیں گی۔” ضو فشاں حیرانی سے عالم کا منہ تکتی رہی۔اور خود کو یہ یقین دلانے لگی کہ عالم یقینا پاگل ہو گیا تھا بھلا اُس کی شادی سے اُن سب کی زندگیاں کیسے بدل جاتیں؟
” تم اُس سے ملو گی اُسے یہ احساس دلاؤگی کہ تم بھی وہی سوچتی ہو جو وہ سوچتا ہے۔” ضو فشاں کے کان تک سرخ ہو گئے،کو ئی بھا ئی اپنی ہی بہن کو ایسا مشورہ کیسے دے سکتا ہے؟
پستی سے بھی کہیں بہت نیچے کو ئی ایسی حد تھی جہا ں اُس کے بھا ئی گر چکے تھے اور جہاں وہ خود گرنے والی تھی۔اپنی مرضی کے خلاف کام کرنا اور کام بھی وہ جو غلط ہو وہ پستی میں دھنسنے جیسا ہی ہے۔
خود کو مار پیٹ سے بچانے کے لیے وہ اُن کے کہنے میں آ گئی۔ اور یہیں سے اُن دنوں کا آغا ز ہوا جب وہ کا وش کے قریب ہونے لگی تیزی سے ، اُسے یہ احساس دلاتے ہوئے وہ بھی اُس کی محبت میں مبتلا ہو گئی ہے۔
کاوش سے ملتے ہوئے اُس سے باتیں کرتے ہوئے وہ ہمیشہ گلٹ میں مبتلا رہتی۔اُس کے دل میں بے چینی کروٹ لیتی رہتی مگر وہ اُسے عیاں ہونے سے رُوکے رکھتی۔
اور پھر وہ دن بھی آ پہنچا جب وہ کا وش کو ہاں کہنے والی تھی مگر اُس دن سے پہلے رات کے اندھیرے میں وہ شدید قسم کے احساس جرم کا شکار ہوئی ۔” میں کاوش کو اپنی اور اپنے گھر والوں کی حالت سدھارنے کے لیے کیسے استعمال کر لوں؟ ” انگلیاں مروڑتے ہوئے وہ سوچتی رہی۔سیپیاں ۔۔جو اُس دن چپکے سے اُس نے اکٹھی کر لیں تھیں اُس کے سامنے بستر پر پڑیں تھیں۔
” کا وش اچھا انسان ہے اور اچھے انسانوں کے ساتھ دھوکے نہیں ہونے چاہیے۔” وہ تیزی سے اُٹھی اور سیپیاں باسکٹ میں پھینک دیں۔
()٭٭٭()
اُس تیز دھوپ والے دن میں جب پرندے بھی اپنے اپنے گھونسلوں میں دُبکے بیٹھے تھے ضوفشاں نے کاوش کو فون کیا اور ڈھکے چھپے الفاظ میں انکار کر دیا۔وہ اس چیز کا مستحق نہیں تھا ضوفشاں جانتی تھی مگر وہ اُسے مزید کسی بڑے دکھ سے بچانے کے لیے وہ سب کہہ گئی جو کاوش پر بڑا بھا ری گزرا۔
عالم جا نتا تھا وہ اُس سے ملنے جانے والی تھی اور نہ جانے کی جو وجہ اُس نے بتا ئی وہ عالم کو مزید غصہ دلا گئی۔مگر اب وہ اتنی مضبوط نظر آ تی تھی کہ ہاجرہ کی ڈھال کی بھی اُسے ضرورت نہیں رہی تھی۔
” میں اُس معصوم انسان کو دھوکہ نہیں دے سکتی۔۔” ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا گیا۔
” تجھے اُس سے شادی کرنی پڑی گی۔” عالم نے بھی دانت پیس کر جواب دیا۔” کسی صورت نہیں ۔۔اُس کی دولت میں کسی صورت آپ لوگوں کو لا لا کر نہیں دینے والی۔یہ سوچ آ پ اپنے ذہن سے نکال دیں۔”
” کیوں ترس آ رہا ہے تجھے اُس پر؟ ” علیم ہمیشہ عالم کے نقش قدم پر چلتا تھا حتی کہ الفاظ کے چناؤ میں بھی۔” ترس تو مجھے آپ لوگوں پر آتا ہے، پیسہ چاہیے تو خود کما لیں میرے کندھوں پر کیوں بندوق رکھ کر چلا نا چاہتے ہیں؟” ضو فشاں نے آج تہیہ کر لیا تھا وہ پیچھے نہیں ہٹے گی۔اب تو ہاجرہ بھی اُنہیں آمنے سامنے کھڑے ایک دوسرے پر وار کرتے دیکھ کر خاموشی سے کھڑی آنسو بہا رہی تھی۔
” میں اب ایک پیسہ نہیں آپ لوگوں کو کما کر لا کر دینے والی۔خود باہر نکلیں محنت کریں اور کما ئیں ، اگر اتنی ہی غیرت ہے تو۔۔” آخر ی الفا ظ اُس نے رُک رُک کر برا ہ راست آنکھوں میں دیکھ کر ادا کیے اور اندر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
پانی سر سے گزر چکا تھا اب وہ کچھ کرنا بھی چاہتے تو نہیں کر سکتے تھے۔ضو فشاں کی آنکھیں بتا تی تھیں وہ مزید اُن کے ساتھ کو ئی ہمدردی نہیں رکھنے والی ۔
” زندگی یوں ہی نہیں گزر جاتی اس کو گزارنے کے لیے جتن کرنے پڑتے ہیں۔کھٹنا ئیوں سے گزرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر کو ئی ایک خوش کُن لمحہ ہاتھ لگتا ہے اور پھر وہ ساری زندگی کا حا صل بن جا تا ہے۔”
ضو فشاں نے اُس دن کے بعد جانا کہ احساس دلا ئے جانا کس قدر اہمیت کا حامل ہے ،وہ اگر ہی پہلے اُن دونوں کو یہ بات باور کروا دیتی کے اُن کی سربراہ وہ نہیں ہے بلکہ وہ دونوں خود ہیں تو آج حالا ت شاید مختلف ہوتے۔تکلیف ۔۔اس قدر نا ہوتی اُن سب کو ہی جو وہ آج اُٹھا رہے تھے۔گھر چلا نے کا کام اُن کا تھا ضو فشاں کا نہیں۔وہ دو جوان مرد تھے کیسے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے ۔گر کر اُٹھنا کسے کہتے ہیں وہ اس راز سے واقف ہی نہ ہو پائے۔
ایک دوسرے سے نظریں چرا نا بھی احساس جرم کی علا مت ہے اور وہ سب ، ہاجرہ ، عالم ،علیم ایک دوسرے کے پاس بیٹھنے پر مجبور تھے مگر عین اُسی لمحے ایک دوسرے سے نظریں چرا نے کے بھی پابند تھے۔غلطیاں سب سے ہوئیں ، ما ضی میں بھی اور حال میں بھی، اب وقت تھا کہ وہ مستقبل کو غلطیوں سے پاک رکھ پاتے۔
()٭٭٭()
” محبت پیچھا کرتی ہے، سر حدوں کے بند تو ڑتے ہوئے، روا یتوں کو پار کرتے ہوئے، زبانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، مجبوریوں کو جڑ سے اُکھا ڑتے ہوئے، اور مذہبوں میں ڈھل جاتے ہوئے۔۔۔”
ضو فی کی محبت بھی پیچھا کرتی کہاں آنکلی تھی ،وہاں جہاں خود اُسے اپنے ہونے پر گمان ہو تا تھا۔چند سال پہلے اگر وہ اپنے مستقبل میں جھانک سکتی تو یقینا حیرانی اُس پر اس قدر غالب آ جاتی کہ وہ پتھر کے مجسمے کی طرح ساکت کھڑی رہ جاتی۔اسی لیے حالات و واقعات اپنے وقت پر ہی اچھے لگتے ہیں گو وہ اب بھی حیران کُن ہوتے مگر ایسے نہیں جن تک پہنچنے کے لیے حد سے زیادہ عجلت کی ضرورت ہوتی یا جن کے وقو ع پذیر ہونے کے خوف سے جینے سے منہ مو ڑ لیا جاتا۔
ویسٹ لیک ہا نگجو(west lake hangzhou) کے پُل پر وہ ہاتھ باندھے کا فی دیر سے کھڑی تھی۔ایک ہی نکتے پر نگا ہیں جما ئے، ہوا کے خوشگوار جھونکوں کو پورے دل سے محسوس کرتے ہوئے ،اپنے پچھلے بہت سے اُن دنوں کی روٹین کو بر قرا ر رکھتے ہوئے جن میں وہ اپنی شفٹ ختم ہونے کے بعد آیا کرتی تھی۔پُل پر چڑھنے کے بعد وہ چند قدم اُٹھا تی اور بیچ راستے میں جا کر رُک جاتی ،خو د بخود ۔۔جیسے کسی مجبوری کے تحت اور جھکتے ہوئے پہلے جھیل کو گھو رتی چار اطراف سے یوں جیسے ایک ایک قطرے تک اُس کی نظر کا پہنچنا ضروری ہو اُس کے بعد وہ دُور جھیل کے کنارے گھنے درختوں پر نظریں دوڑاتی۔بعض دفعہ وہ فیصلہ نا کرپا تی کہ جھیل کی سطح پر تیرتے کنول کے پھول اُسے زیادہ پسند تھے یا لمبی جھالر دار درخت۔۔وہ دونوں ہی اُسے اپنی طرف متوجہ کیے رکھتے اور وہ اُن کے بے پنا ہ حُسن میں مگن رہتی مگر آج۔۔آج وہ مگن سے کہیں زیادہ بے چین تھی۔
اُس بوجھل سہ پہرکے بعد کا وش مسلسل اُس کے ہوٹل آتا رہا ،وہ وہاں بیٹھا رہتا بے مقصد ، تھو ڑ ی تھو ڑی دیربعد کچھ نہ کچھ آرڈر کرتے ہوئے مگر وہ ضو فی کو خود مخا طب نہ کرتا اور نہ ہی بار بار دیکھنے جیسی کو ئی زحمت اُٹھا تا مگر ۔۔اس پورے عرصے میں وہ کو ئی ایک ایسی نظر ضرور اُٹھا تا جوضو فی پر بار بن کر گرتی۔
” تمہیں جو کہنا ہے وہ تم اب کہہ کیوں نہیں دیتے؟” ایک سر د آہ منہ سے برآمد ہوئی ۔بے چینی سے ایک اور رُخ بدل کر وہ جھیل کی دائیں طرف دیکھنے لگی اور ایسا وہ دوتین بار پہلے بھی کر چکی تھی۔
” وہ مجھ تک کیسے پہنچا ؟ کیا اتفا قی طور پر میں اُسے نظر آ گئی ؟ مگر اگر ایسا ہوتا تو اُس کا رویہ۔۔وہ ایسا نہ ہوتا ۔پھر کیسے۔۔؟” گتھیاں سلجھنے میں اتنی آسان نہیں ہو تیں جتنی کہ اُلجھنے میں۔اُس کے ہاتھ کو ئی ایک بھی سرا نہ لگا اور تھک کر وہ کل کی گفتگو کے بارے میں سوچنے لگی جو ہاجرہ کے ساتھ ہوئی تھی کہ شاید ہاجرہ نے اُسے یہاں کا پتہ دے دیا تھا۔
” ضو فی اب تو بھی شادی کر لے۔تو سمجھتی ہے تو پردیس چلی گئی تو میں تیری فکر کرنا چھو ڑ دوں گی؟ مجھے تو تیری پہلے سے بھی زیادہ فکر ہو تی ہے۔” وہ فون پر بھی جان گئی ہا جرہ کس قدر افسردہ تھی۔مگر خود کو اپنے لہجے کو اس کڑواہٹ سے دُور نا رکھ پائی۔” میری فکر ہو تی ہے آپ کو۔” اتنی بے رُخی۔۔ہا جرہ رو ہی پڑی۔” ضو فی میں کیا کرتی ماں تھی میں۔۔میں نے تو اپنے بچوں کا بھلا ہی چاہا ۔تجھے تب کمانے کے لیے گھر سے باہر نہ نکالتی تو بیٹوں کو تباہی سے نہ روک سکتی۔” ماں کی بے بسی سے بڑھ کر خو ف ناک چیز کیا ہو گی۔ضو فی خا موش رہی شاید اپنے لہجے اور الفاظ کو اب مکمل طور پر محسوس کرتے ہوئے۔
” جو ہو گیا اب اُس پر کیا ما تم کرنا ۔۔عالم، علیم نے کمانا تو شروع کر دیا تھا نہ جب۔۔۔” شاید آنسو پو نچھتے ہوئے ہاجرہ نے کہا تھا،ضو فی نے اُس کی بات کا ٹی۔” اماں میں احساس نہ دلا تی تو وہ ساری زندگی یو نہی پڑے رہتے۔”
” مگر اب تو سب ٹھیک ہے نہ براوقت گزر گیا، دونوں کمانے کھانے لگے ،شادیاں کر چکے بال بچوں والے ہو گئے اب تو بھی اپنی زندگی کے بارے میں سوچ۔” اپنے نا خن دیکھتے فون کان سے لگا ئے وہ ہاجرہ کی باتیں سنتی رہی۔” تو نے اب خو شیوں سے منہ نہیں مو ڑنا ہے کو ئی اچھا موقع آیا تو اُس سے فا ئدہ اُٹھائیں۔سمجھ آ ئی میری بات۔” تنبیہہ سے زیادہ سمجھانے والے انداز میں ہاجرہ نے اُس سے کہا۔
” مجھے کچھ سمجھ نہیں آ ئی اماں۔اچھا میں فون رکھ رہی ہوں میری شفٹ کا وقت ہونے والا ہے۔خدا خا فظ۔” اُس وقت تو عجلت میں کہہ کر اُس نے فون بند کر دیا تھا مگر اب پر سکون ما حول میں کھڑے ہوئے گتھیا ں سلجھاتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی۔
” اماں یہاں کا وش کو نہیں بھیج سکتیں ۔۔اور اگر بالفرض ایسا ہے بھی تو کا وش اماں تک کیسے پہنچا ،اُس کے پاس تو پرانے گھر کا ایڈریس تھا۔ اماں نہیں ہو سکتیں۔۔پھر؟” اور و ہ ایک بار پھر اُلجھ گئی۔
” میں آج بھی اُس سوال کے جواب کے لیے بھٹک رہا ہوں ضوفشاں۔” وہ اس قدر زور سے چو نکی کہ دل کی دھڑکن وہ خود اپنے کانوں سے سُن سکتی تھی۔کاوش اُس کے بالکل ساتھ کھڑ اتھا مگر اُس کی طرف متوجہ نہیں وہ سامنے دیکھ رہا تھا کنول کے خو بصورت پھولوں کو۔ضو فشاں دیر تک اُس کے اُس بھورے تل پر نظریں جمائے کھڑی رہی۔
” تو وہ وقت آ گیا جب۔۔” ایک سوچ جو تیزی سے اُس کے ذہن میں اُبھری۔” جب ۔۔۔بلآخر مجھے اس کے سوالوں کے جواب دینے ہیں۔”
()٭٭٭()

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

عکس —عمیرہ احمد (قسط نمبر ۱)

Read Next

غرورِ عشق کا بانکپن — سارہ قیوم (پہلا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!