نجات دہندہ — ردا کنول (تیسرا اور آخری حصّہ)

” یو نیورسٹی میں جہاں تم لڑکا لڑکی کو اکٹھے بیٹھے دیکھو تو تمہارے پر اس تنظیم کا حصہ ہونے کے ناتے لا زم ہے کہ اُن کی دھلا ئی کرنے میں کو ئی کسر نا چھوڑو۔تم کھوج لگاؤ ،اپنی اپنی کلا س کے لڑکو ں کے ساتھ اُٹھو بیٹھو تا کہ تمہیں پتہ چل سکے کہ کس کا کس کے ساتھ چکر چل رہا ہے۔اسی طرح لڑکیاں بھی یہی حکمت عملی اپنا ئیں۔” وہ گیا رہ لڑکے یو نیورسٹی کے گراؤنڈ میں گول دائرے کی صورت میں بیٹھے تھے اور اُن کا لیڈر دائرے کے شروع میں چونکڑی مارے کندھے اکڑے بیٹھا تھا۔ہدا یات دینے سے پہلے تلا وت کی گئی اور پھر چند منٹ کی خا موشی کے بعد مونچھو ں کو تاؤ دیتے ہوئے کا لی شلوار قمیض پہنے لیڈر نے بولنا شروع کیا۔
اُن سب کے ارد گرد طلباء اپنے اپنے کا موں میں مشغول تھے۔کچھ ٹولے کھانے پینے میں اور کچھ کمبا ئن سٹدی میں۔۔ یوں کہنا چاہیے کہ وہ سب اُن سے انجان نظر آتے تھے یا آنے کی کوشش کرتے تھے یہ دائرے کی صورت بیٹھا گرو ہ اُن کی آنکھوں کے لیے کو ئی نیا نہیں تھا۔گروہ کی آواز دھیمی تھی اور کبھی کبھی کی کو ئی او نچی آواز کے علا وہ کو ئی آواز با قی سٹو ڈ نٹس کے کا نوں میں نا پڑتی تھی۔
” یہ سب لڑکے اور لڑکیا ں یو نیو رسٹی آتے ہی اس لیے ہیں ،اپنے ماں باپ کا سر شرم سے جھکانے کے لیے۔ان میں حیا باقی نہیں رہتی اوریہ کھلے عام بے حیا ئی پھیلاتے ہیں تو تم لو گوں کو یہ حق حاصل ہے کہ یو نیو رسٹی کو گندگی سے پاک رکھو اور جہاں ان کو گندگی پھیلا تے دیکھو ان کو جان سے مارنے سے بھی گریز نہ کرو۔” کا ویر غور سے اُن کی باتیں سن رہا تھا ،وہ پہلی بار ایسی کسی میٹنگ کا حصہ بنا تھا۔اُس دن کے بعد سے جب وہ یو نیورسٹی میں آیا اور ‘اس ‘ تنظیم کا بغور مشاہدہ کرنے لگا جو یو نیو رسٹی کے ہر ڈیپا ٹمنٹ میں اپنا وجود رکھتی تھی مگر اس کے ڈ پا ٹمنٹ میں با قی سب کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی۔۔۔وہ سب اُس کے لیے بڑی دلچسپی کا با عث تھے ۔لڑکے شلوار قمیض پہنتے ،با جما عت نما ز ادا کرتے اور لڑکیوں سے دور رہتے ۔کا ویر کے لیے یہ بڑی حیرانی کی بات تھی کہ وہ بغیر کسی بدلے کے یو نی ورسٹی سے ‘گندگی ‘ کو دور کررہے تھے ، اور یہ سب وہ اسلام کے نام پر کرتے تھے۔چنا نچہ کا ویر نے ایک اہم فیصلہ کیا ۔۔وہ اس قدر متا ثر ہوا کہ اسلام کے بارے میں جاننے کے لیے متجسس رہنے لگا۔اُس کا خاندان مسلمان تھا مگر پابند نہیں تھے اسلام کے احکامات کے سوائے باباخان کے جو با قاعدگی سے نماز پڑھتے تھے مگر اُنہوں نے کبھی اُن سب کو مجبور نہیں کیا کہ وہ سب بھی اُنہی کی طرح اسلام کی پابندی کرتے ۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

کا ویر اُن کے لیڈر سے ملا اور اُس سے اپنے فیصلے کے بارے میں بات کی ۔لیڈر خوش نظر آتا تھا اور اُسی دن اُس نے کا ویر کا تعا رف باقی سب سے کروایا اور وہ خا موشی سے اُن کے گرو ہ میں شامل ہو گیا۔
کا ویر کے لیے یہ بات بڑی حیران کُن تھی کہ وہ لوگ جو اُس تنظیم کا حصہ نہیں تھے وہ اس تنظیم کے مو ٹو سے کہیں زیادہ اس تنظیم کے لوگوں سے نفرت کرتے تھے،اور وہ جو اس تنظیم کا حصہ تھے وہ بھی اپنے اندر شدید قسم کی نفرت رکھتے تھے با قی سب کے لیے اُن کے لیے اپنے علا وہ باقی سب گندے اور بُرے کاموں میں ملوث لڑکے اور لڑکیاں تھے۔
پہلا سبق جو کا ویر کو ملا وہ یہی تھا کہ با قی سب خصو صا ً لڑکیوں سے دُور رہنا ہے اور لڑکوں کے قریب لیکن اپنے دل میں اُن کے لیے بغض رکھتے ہوئے مگر معلو مات کے حصول کے لیے دوستی کو نبھاتے رکھناہے۔
کا ویر نے بالکل اندھوں کی طرح اُن کی ہر بات پر عمل کیا ،ایک ساتھ بیٹھے ہوئے ہر لڑکا اور لڑکی پر اچانک ہلا بولتے ہوئے اور لا ٹھیوں اور مکوں سے لڑکے کا بھرکس نکالتے ہوئے ،احتجاج کرتے ہوئے،نعرے لگا تے ہوئے وہ اُن کا ہر طرح سے ساتھ دیتا رہا مگر اُس دن کا ویر نے ساتھ دینا چھو ڑ دیا اور الگ تھلگ ہو گیا۔
لیڈر جو ابھی ابھی جیل سے چھو ڑ کر آیا تھا ،یو نیو رسٹی میں دنگا فساد کرنے کے جرم میں اُسے گر فتار کیا گیا تھا، مگر وہ فخر سے سینہ پھلا ئے ہوا تھا جیسے جیل جانا کو ئی بہت ہی قابل فخر کام تھا ، مگر شاید اُن کے لیے تھا کیونکہ اُن سب کے مطابق وہ’ اسلام ‘ کے لیے جیل تک سے ہو آیا تھا،کاویر نے اُسے دوسرے لڑکوں سے کہتے سُنا۔” وہ لڑ کی ملنے آرہی ہے آج تمہارے دوست کو،پینے شینے اور جگہ کا بندوبست کر لینا۔” مونچھے مڑوڑتے ہوئے وہ ہنس کر کہتا باہر نکل گیا۔کا ویر کو ایک جھٹکا لگا۔وہ سب ارشادات اُس کے ذہن میں گونج گئے جو لیڈر لڑکے لڑکیوں کے تعلقات کے بارے میں دیا کرتا تھا۔
” کو ن لڑکی؟اور یہ پینا کیا؟” ہکا بکا کا ویر اپنے ساتھی لڑکے سے بس اتنا ہی پو چھ سکا ۔” ارے با سط بھا ئی کی گرل فرینڈ اور کون۔۔اور پینا شینا تم تو جیسے جانتے نہیں ،اُس نے تمسخر اُڑایا ،تمہا رے کالاش میں تو بڑی شراب ہوتی ہے اور وہ بھی اچھی والی کبھی لاؤ نا مو ج مستی کریں گے۔” کا ویر کے کندھے پہ ہاتھ رکھے وہ مزے سے کہتا رہا۔اس بات سے انجان کہ اُس کی سب باتیں کا ویر پر پہاڑ بن کر ٹو ٹ رہی تھیں۔
وہ سب وہ نہیں تھے جو وہ نظر آنے کی کوشش کرتے تھے۔جو چیزیں وہ دوسروں پر لا گو کرتے تھے خود اُن پر عمل نہیں کرتے تھے۔یہ چیز کا ویر کے لیے بڑی تکلیف دہ تھی۔وہ متا ثر ہو کر اُن تک پہنچا تھا مگر اب اُن سب سے علیحدہ ہو نا اُس کے لیے بڑا مشکل تھا۔وہ اُن کی بہت سی باتیں جان گیا تھا اب وہ کیسے اُسے اپنے گروہ میں سے نکلنے دیتے۔”جو آگیا ہے وہ آسا نی سے جا نہیں سکتا۔”لیڈر نے اپنی گھنی مو نچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا۔چنا نچہ کا ویر نے خا مو شی اختیار کیے رکھی ،آہستہ آہستہ وہ اُن کی میٹنگز میں جانے سے پر ہیز کرنے لگا،مارنے پیٹنے میں وہ ہمیشہ پیچھے رہا اور پھر بلآخر بالکل الگ تھلگ ہو گیا اس طرح کہ لیڈر کو یقین ہو گیا وہ کبھی کسی کو اُن کے کر تو توں کے بارے میں نہیں بتا ئے گا چاہے وہ سب پہلے سے ہی وہ سب کیوں نا جا نتے ہوں۔
کاویر ابھی بھی متجسس تھا اسلام کو جاننے کے لیے،اس واقعے کے بعد سے کچھ زیادہ ہی۔۔۔
وہ یو نی ورسٹی کی مین لا ئبریری کے اسلامک سیکشن میں با قا عدگی سے جانے لگا اور اسلا می کتب کا مطا لعہ کرنے لگا ۔وہ بہت بار یاد کرتا بابا خان قرآن پاک کی تلا وت کرتے تھے بالکل صبح کے آغاز سے بھی پہلے۔۔وہ کتاب جو اُس کی سب بہنوں نے اور خود اُس نے بچپن میں ایک بار پڑھنے کے بعد پھر نہیں پڑھی تھی ،اب کاوش اُسے ایک بار پھر سے پڑھ رہا تھا اس بار سمجھتے ہوئے۔
وہ بابا خان کا کاوش خان تھا اور جو اب با قاعدگی سے نماز ادا کرتاتھا، بہت جلد وہ اُنہیں یہ خوش خبری سنانے والا تھا۔
()٭٭٭()
” ام وہاں اتنی دور بیٹھا بی جان گیا تھا کہ تم پریشان اے اور ہمیں بتا تا نہیں۔” باباخان کے جھریوں زدہ بو ڑھے مگر شفقت سے بھرپور چہرے پر ایک ہلکی سی مسکرا ہٹ اُبھری۔وہ آج ہی لا ہور پہنچے تھے اور بالکل اچانک۔کا وش کے لیے یہ ایک خو شگوار سر پرا ئز تھا مگر اس سے زیادہ وہ اس بات سے پریشان ہو گیا جب یہاں پہنچتے ہی باباخان کی طبیعت خراب ہونے لگی۔ڈاکٹر کو فلیٹ میں بلوا کر ہی باباخان کا چیک اپ کروایا گیا اور دوائیاں کھلا نے کے بعد وہ باباخان کی ٹانگوں پر اچھی طرح کمبل اوڑھنے کے بعد وہاں سے اُٹھنے لگا مگر ہاتھ پکڑ کراُ نہوں نے اُسے اپنے پاس بٹھا لیا۔وہ اُس کے لیے پریشان تھے اُن کا ہر انداز اس بات کی گواہی دیتا تھا۔
” باباخان میں بہت شرمندہ ہوں۔میری وجہ سے آپ کو اتنی تکلیف اُٹھا نی پڑی۔” سر جھکا ئے اُن کا ہاتھ پکڑے وہ بولا۔باباخان اُسے عزیز تھے بے حد۔۔اپنے ماں باپ کو وہ نہیں دیکھ پایا تھا مگر باباخان نے اُسے باپ سے بڑھ کر پالا تھا ۔کا وش جانتا تھا واحد پریشانی جو باباخان کو اُس کی طرف سے کچھ عرصہ پہلے تھی وہ بھی اب ختم ہو چکی تھی۔اسلام پر عمل پیرا ہو کر کا وش باباخان کو مزید عزیز ہو گیا تھا۔اور خوشی اور اطمینا ن تو اس چیز کا تھا کہ اُس نے خود اپنی مر ضی سے ایسا کیا تھا ،اُن کے یا کسی بھی اور انسان کے دباؤ میں آئے بغیر ۔۔مگر بہت سی باتوں سے سیکھتے ہوئے۔اور یہ بات باباخان کو تب پتہ چلی تھی جب وہ گلگت میں تھے۔
” باباخان آپ ام کو شہر میں ہو ٹل کھولنے کی اجازت دے دیں پھر ام آ پ کو خو ش خبری سنا ئے گا۔” وہ اُن سے اجازت طلب کر رہا تھا اور اُن کے ہاتھ تھامے ہوئے تھا۔” نہیں تم پہلے ام کو خوش خبری سناؤ۔اتنے دن ہو گئے کو ئی اچھی خبر نہیں سننے کو ملی۔” باباخان دکھ بھرے لہجے کے ساتھ بعضد رہے۔” باباخان ام بی اب صبح صبح قرآن پاک پڑھتا ہے، اُن کا آہستہ آہستہ حیران ہوتا چہرہ دیکھتے ہوئے کاوش نے بات مکمل کی، اور نماز قائم کرتا اے۔”باباخان بے حد خوش نظر آتے تھے اور آنسو اُن کی آنکھوں میں جمع ہونا شروع ہو گئے تھے اور اُنہوں نے فورا ً سے پیشتر کاوش کو لاہور میں ہو ٹل کھولنے کی اجازت دے د ی تھی۔
وہ کاوش سے بے حد خوش تھے ،اب بھی وہ اُس کی پریشانی کا کو ئی حل نکالنا چاہتے تھے تبھی وہ بول اُٹھے۔
” تم ام کو پریشانی بتاؤ ۔۔ام اُس کا حل بتا ئے گا۔” کا وش بے ساختہ مسکرا اُٹھا۔” کو ئی کھو جائے تو اُسے ڈھونڈتے کیسے ہیں باباخان۔” بہت دلگرفتہ انداز میں کاوش بلآخر پریشانی زبان تک لے آیا۔باباخان کے چہرے پر حیرت کے ساتھ سوچ کی بہت سی لکیریں اُبھریں۔
” دما غ سے۔۔اور اگر کھو جانے والے کا تعلق دل سے ہے تو دما غ کے ساتھ ساتھ دل سے۔اگر ایسا نہیں کرو گے تو ہمیشہ کے لیے کھو دو گے۔” اور اس بات پر کا وش کا سانس اٹک گیا۔ہمیشہ کے لیے کھو دینے کا تو وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔
” ام نہیں پوچھے گا کہ وہ کون اے پر ام دعا کرتا اے کہ اﷲتمہیں پا لینے کی خو شی عطا کر دے۔” اُس کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کی مضبوطی بڑھاتے ہوئے وہ جیسے اُ س کے دل کو مرہم پہنچا گئے۔ ” آمین ۔”اپنے دل میں اُس نے کہا اور باباخان کا ہاتھ آرام سے بستر پر رکھتے ہوئے اُن کا تکیہ ٹھیک کرتے اُنہیں آرام کرنے کی تلقین کرتا کمرے سے باہر نکل گیا۔
وہ اُسے کہاں ڈھونڈتا ہر جگہ تو ڈھونڈ لیا تھا دماغ لڑا کر بھی دیکھ لیا تھا مگر کہیں کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔کاوش کے دن رنجیدگی سے سرکتے جارہے تھے اور وقت تھا کہ پر لگا کر اُڑ رہا تھا۔
()٭٭٭()
انڈین ثقافت کا بھر پور مظا ہرہ کرتے ہو ٹل میں آج رش معمول سے کچھ زیادہ تھا۔پا کستا نی اور انڈین سیاحوں کے علا وہ اکا دُکا کچھ ایسے انگریز سیاح بھی نظر آتے تھے جو یا تو انڈین کھانوں کے عادی ہو گئے تھے یا پھر سراسر تفریح کی غرض سے آئے تھے جو واپس اپنے اپنے ملکوں میں جا کر یہ بتا نے والے تھے کہ وہ چائنا میں ہی انڈیا دیکھ آئے ہیں۔
بھرا ہوا چہرہ ،کٹاؤ ہو نٹ،بڑے بڑے جھمکے ،دونوں بھنووں کے درمیان تھو ڑا اُوپر سرخ گول دائرہ اور چہرے کے دائیں جانب گری ہو ئی ایک گھنگھریالی لٹ۔۔۔اسی قسم کے چہروں والی بے شمار پینٹنگز ہو ٹل کی دیواروں پر آویزاں تھیں۔
پینٹنگ کے عین نیچے گروپ میں آئے ہوئے سیا حوں کا ٹولہ بیٹھا تھا۔” ایک پالک پنیر، دو دال مکھنی،ایک ملا ئی چکن اور دو پنیر کری،ایک توا چکن اور ایک گجراتی تھالی۔” وہ سب انڈین سیاح شکل سے ہی ترسے ہو ئے لگ رہے تھے اپنے کھا نوں کے اور چائنا جیسا ملک جہاں کھانے کے نام پر گھوڑوں ،کتوں ،چوہوں اور سانپوں کی بھرمار تھی وہاں کسی انڈین ہو ٹل کا مل جانا کسی خزانے سے کم نہیں تھا چنا نچہ اُنہوں نے خوب جی بھر کر بھڑاس نکالی۔ایک خیر مقدمی والی مسکرا ہٹ لیے اُس نے آرڈر لیا اور سنجیدگی سے اندر کچن میں قدم بڑھا دیے مگر بہت تیزی کے ساتھ۔آرڈر لگانے کے بعد وہ ایک اور میز کی طرف بڑھی اور اُسی طرح آرڈر لینے کے بعد کچن کے راستے میں پڑتے ایک اور میز تک بڑھ گئی۔
وہ ایک دُبلا پتلا غیر ملکی سیا ح لگتا تھا مگر پاکستا ن یا انڈیا کا نہیں بلکہ ویسٹ میں سے کسی ملک کا،وہ اُسکی بس پیٹھ ہی دیکھ پائی تھی اور آدھے نظر آتے چہرے سے وہ کچھ ایسا ہی اندازہ لگا سکی تھی۔
اُسے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی ویٹر ز جب کسی کے سر پر جا کر کھڑے ہوتے ہیں تو اُنہیں بولنے کی ضرورت نہیں ہوتی وہ بس اپنے ہاتھ میں موجود پین سے آرڈر لکھنے کے منتظر ہوتے ہیں۔
” اسپیگٹی تو ہوں گی نا یہاں؟ وہ کو ئی جواب نہ دے سکی،لیکن وہ تازہ بنی ہونی چاہیے، اور وہ قیمہ بھری کچوریاں کیا کہتے ہیں اُنہیں انڈینز ؟ اس بار بھی وہ خا موش رہی اور یک ٹک اُس کی شکل دیکھتی رہی، ہاں مومو۔۔اور میٹھے میں،وہ سوچتے ہوئے بول رہا تھا،انڈین کے علا وہ رشین ڈشز نہیں ہوتی ہیں کیا یہاں؟ اُس بار برا ہ راست اُس کی اُداس آنکھوں میں دیکھ کر پو چھ رہا تھا۔ضو فشاں جتنی تیزی سے ہو سکا وہاں سے بھا گتے ہوئے واپس کچن میں غا ئب ہو گئی۔آرڈر لگانے کے بعد وہ کچن میں چیختے چلاتے اُس انڈین آدمی کی طرف بڑھی جو ہو ٹل کا مالک تھا ۔” میری طبیعت یکدم بہت خراب ہو گئی ہے میں جا رہی ہوں۔” خود کو زودو کوب کرتے اُس انسان کی ایک نہ سنتے ہوئے وہ وہاں سے نکل گئی۔
()٭٭٭()
اُس غمگین، حیرت انگیز سہ پہر کے بعد وہ اس قدر افسردہ تھی کہ تقریبا ً خود سے نظریں نہیں ملا پاتی تھی۔اپنے آپ پر غصہ ہوتے ہوئے وہ یہ سوچتی تھی کہ اُس دن بہادری کا مظاہر ہ کیوں نہ کر سکی۔” وہ یکدم سامنے آگیا تھا تو کیا مطلب تھا کہ میں خود وہاں سے بھاگ کھڑی ہوتی۔”اپنے آپ سے ہی ایسے کئی قسم کے سوال وہ وقتا ً فو وقتا ً پو چھتی ۔
” میں حق بجانب تھی اپنے ہر فیصلے پر۔۔” تنگ و تاریک کمرہ جسے وہ ایک انڈین لڑکی کے ساتھ شیئر کرتی تھی، جس کے دونوں کو نوں میں دو سنگل بیڈ لگے تھے اور جن میں سے ایک پر وہ بیٹھی تھی سمٹی ہو ئی۔۔ اپنے آپ میں گم ۔۔آنسوؤں کو اپنے گالوں پر آزادی سے بہنے دیتی ہوئی ایک بزدل لڑکی کی طر ح ۔۔جو باہر ہمہ وقت اس کوشش میں رہتی تھی کو ئی بھی اُسے کمزور نہ سمجھے اور وہ اس بات کا ثبوت بھی دیتی رہتی تھی مگر صرف ضرورت پڑنے پر اور آج ایک ایسا دن تھا جس کی سہ پہر وہ بے انتہا کمزوری کا مظاہرہ کر آئی تھی ضو فی اس بات کا جتنا غم منا تی کم تھا۔
” کا وش ۔۔اتنے سالوں بعد تم کیوں یہاں تک آ گئے ؟ اور اگر آہی گئے تھے تو کیوں مجھ سے اپنے اُس پُرانے تعلق کے حوالے سے ملے؟”
ضو فی کے پاس یہاں آنے کے بعد کچھ اچھی یادیں نہیں تھیں اور جو تھیں وہ صرف کا وش کے حوالے سے تھیں۔اُس نے ہر ایک یاد پر آنسو بہائے اور اُسے دفن کرنا چاہا مگر ۔۔۔یہ نا ممکنا ت میں سے تھا۔وہ صرف اپنے دل میں یہ خوش فہمی ہی پیدا کر سکی کہ وہ کاوش اور اُس کی یادوں کو بھلارہی ہے در حقیقت ایسا کچھ نہیں تھا۔ پندرہ سالوں میں وہ اُس کے نام کو بھی اپنی زبان پر لانے سے روکتی تھی،مشکل سے ہی سہی مگر وہ ایسا کر تی رہی تھی۔
” اچھے لوگ ہمیشہ اچھی یادیں چھو ڑ جاتے ہیں اور وہ یادیں پھر ہمیشہ ساتھ رہتی ہیں ، کبھی رُلا نے کے لیے کبھی تڑ پانے کے لیے اور کبھی۔۔۔روتے روتے ہنسانے کے لیے۔” کاوش بھی اُس کے لیے ایک ایسی ہی یاد تھا۔
ضو فی بیڈ سے اُٹھی اور کمرے میں موجو د چھو ٹی سی کھڑکی سے لگ کر کھڑی ہو گئی۔
” میں اپنے اور تمہا رے فائدے کے لیے ہی تمہیں چھوڑ آئی تھی،لیکن اپنے سے بھی زیادہ تمہارے لیے۔۔میں نے تمہیں چھو ڑ دیا مگر اب لگتا ہے نقصان تو دونوں طرف ہوا ۔” ایک اور آنسو اُس نے اپنے گا لوں پر بہہ جانے دیا۔اُس کے سامنے کھڑکی سے باہر چو تھی سے منزل سے وہ دیکھ سکتی تھی ،چند چینی ،بنگلا دیشی اور انڈین بچے کھیلنے میں مصروف تھے۔وہ سب ایک دوسرے کے اتنا قریب رہتے تھے کہ ایک دوسرے کی زبانیں سمجھنے لگے تھے۔ضو فشاں بھی” کھوار” زبان سیکھنے لگی تھی ۔کا وش کی زبان۔۔۔
ایک اور آنسو اُس کی آنکھ سے ٹپکا اور سیپیاں گرنے کی آواز پیدا ہو ئی ،کہیں بہت پیچھے ۔۔ما ضی میں،پندرہ سال قبل۔۔۔
()٭٭٭()

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

عکس —عمیرہ احمد (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!