نجات دہندہ — ردا کنول (تیسرا اور آخری حصّہ)

آف وائٹ چادر سے اپنے سر کو ڈ ھانپے ہوئے ضوفی کچن کا دروازہ کھولے باہر نکلی تھی۔ابھی وہ کچھ قدم ہی چل پائی تھی جب کا وش اُس کے بالکل برا بر میں چلنے لگا۔کچھ بھی کہے اور سُنے بغیر وہ دونوں خا مو شی سے چلتے رہے ۔چلتے ہوئے ضو فشاں نے گردن مو ڑ کر اپنے دائیں جانب اُسی فلا ور شاپ کو دیکھا اور ایسا اُس نے بالکل غیر ارادی طور پر کیا۔اور جی بھر شرمندہ ہوئی ،کا وش کے ساتھ چلتے ہوئے مجھے وہاں نہیں دیکھنا چاہیے تھا مگر یہ عادتیں۔۔، ایسا دیکھنا اُس کی عادت بن چُکا تھا ہر روز یہاں سے گزرتے ہوئے وہ اُس جانب ضرور دیکھتی،کیوں؟ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔
” اُس فلا ور شاپ کے بالکل ساتھ ایک کافی شاپ بھی ہے،ضو فشاں میں بس آپ کو کچھ دینا چاہتا ہوں۔” پتا نہیں کس خیال کے تخت مگر وہ اُس کے ساتھ چلنے لگی۔پہلے کی ہی طرح وہ خا مو شی سے چلتے رہے مگر کچھ تیزی سے۔
کا فی شاپ میں بیٹھے ہوئے ابھی اُنہیں کچھ دیر گزری تھی اور کا فی سے بھرے مگ اُن کے سامنے رکھے جا چُکے تھے جب کا وش نے اپنی جیب کو کھنگالتے ہوئے کچھ ما لا ئیں برآمد کیں۔وہ سیپیوں سے بنی ما لا ئیں بلا شبہ خو بصورت تھیں ضو فی نے یہ سوچنے میں کو ئی عار محسوس نہیں کی۔
” یہ تمہارے لیے۔۔کا لاش کی چند خو بصورت چیزوں میں سے ایک۔۔”اپنے ہاتھ میں اُس مالا کو تھامنے کی شدید خواہش اپنے اندر رکھتے ہوئے بھی وہ اُسے قبول نہ کر پائی۔” مجھے تحفے لینے کی عادت نہیں ہے۔” بے رُخی صرف اُس کے لہجے سے عیا ں ہو ئی مگر دل سے نہیں۔اُس نے ما یو سی کو کا وش کے چہرے پر پھیلتے دیکھا، فورا ً سے پیشتر اُس کا دل چاہا وہ ہاتھ بڑھا کر مالا قبول کر لے مگر وہ اُن لوگوں میں سے تھی جو دل کی بہت کم سنتے ہیں۔
” ضو فشاں۔۔” جیسے کچھ تہیہ کرتے ہوئے کا وش نے بولنا شروع کیا،مالا اُس نے میز پر رکھ دی تھی ۔” میں کالا ش سے ہوں جیسا کہ تم جا نتی ہو ،وہاں کالاش میں میں اپنی چار بہنوں اور دادا دا دی کے ساتھ رہتا تھا ،ماں باپ کا میرے بچپن میں انتقال ہو گیا تھا،بابا خان۔۔میرے دادا نے ہم سب کی پرورش۔۔۔” اور پھر وہ اُسے سب کچھ بتا تا رہا ۔
ضو فشاں کے لیے یہ حقیقت بڑی افسردہ تھی کہ وہ دونوں تقریبا ً ایک جیسا ہی بیک گراؤنڈ رکھتے تھے وہ دونوں ایک بار اپنا گھر کھو چکے تھے اور ان سب کے بعد کی بے شمار تکلیفوں سے گزر چکے تھے۔گر کر دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی وہ دونوں مثال تھے۔
” اپنے بارے میں کچھ ایسا نہیں ہے جو میں نے تمہیں نہ بتا یا ہو۔میں بابا خان کو تمہا رے گھر بھیجنا چاہتا ہوں۔میں شادی کرنا چاہتا ہوں تم سے۔” اس بار انجان بننے کا کو ئی مو قع نہیں تھا ،الفا ظ بخوبی اُس کے کانوں میں پہنچے تھے۔
” یہ مالا برتھ ڈے گفٹ ہے نا؟” اُس کے سوال کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے ضو فی نے ایک الگ بات کی۔اُس کے اثبات میں ہلتے سر کو دیکھتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر وہ ما لا تھام لی۔” اگر ایسا ہے تو میں اس کو قبول کر لیتی ہوں۔”اور وہ وہاں سے باہر نکل گئی اپنے پیچھے کاوش کو جواب سننے کی انتظار کے ساتھ۔
()٭٭٭()

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

” کا ش کہ میں بھی اُتنا ہی سچ بول سکتی مگر میں چاہتے ہوئے بھی ایسا نہیں کر سکتی ۔میں کیسے اپنے سے جڑے سگے رشتوں کے بارے میں کسی غیر کے سامنے سب سچ کہہ دوں۔” اپنے ہاتھ میں اُس فیروزی مالا کو تھامے دیکھتے ہوئے وہ مسلسل سوچ رہی تھی۔کھڑ کی میں سے اُس نے عالم کو گھر کی دہلیز پارکرتے دیکھا۔” جب اپنے اتنے پیارے رشتے بدل جاتے ہیں تو کسی دوسرے انسان سے کیا اُمید رکھنا، جو آپ سے شادی کا خواں ہو اورجو پہلے تو بڑے بڑے وعدے کرے مگر کون جانتا ہے کہ بعد میں وہ کیسا رویہ رکھے۔”
” مگر میں ان سب باتوں کے با وجود تمہارے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوں۔”
” کیا ہماری کڑیاں ایک ہی سرے سے جا ملتی ہیں؟ تمہارا گھر چھنا اور تم اپنے آپ کو اپنے سے جڑے رشتوں کو سمیٹتے ہوئے پھر سے گھر بنانے میں لگ گئے۔میں نے بھی تو یہی کیا اور آج تک کر رہی ہوں۔” آنسو صرف اُس کے آنکھوں سے نہیں نکلے مگر دل میںضرور گرے،اب اتنی مضبوط تو وہ ہو چکی تھی کہ آنسوؤں کو اپنے قابو میں رکھتی اور اپنے گالوں پر بہنے سے رُو ک دیتی۔
” تمہارے ساتھ چلنا ضرور خوش کُن ہو گا مگر میں تمہارے ساتھ چلنا ہی نہیں چاہتی ،تم یقینا ًمجھ سے بہتر ایک خوش باش لڑکی ڈیزور کرتے ہو۔”
خو بصورت ردھم کے ساتھ کچھ سیپیاں نیچے گریں ،ایک دوسرے سے ٹکرا تے ہوئے ،دُور تک،پیروں تلے آتے ہوئے وہ ہر طرف لڑھک گئیں۔
()٭٭٭()
اُس دن کے بعد سے کا وش کو لگا کہ ضو فشاں اُس کے بے حد قریب آئی تھی۔وہ اُس سے باتیں کرنے لگی، اپنی طبیعت کے بالکل خلا ف وہ اُس کے ساتھ بولتے رہنے کو تر جیح دیتی۔آئس کریم پا رلز،کا فی شاپس،عجائب گھر،سینما ز اور ایسی بہت سی جگہوں کے علا وہ جہاں وہ اب جانے لگے تھے اس کہ علا وہ وہChitral Cuisine میں ایک ساتھ کھڑے ہو کر کھانے پکانے لگے۔ضو فی نے اُس سے بہت سے چترالی اور کالاشا کھانے سیکھ لیے ، حالانکہ بالکل شروع میں جب وہ اُنہیں کھا تی تو بہت زیادہ خو شی محسوس نہیں کرتی تھی مگر پھر آہستہ آہستہ وہ اُنہیں پسند کرنے لگی۔ وہ ذائقے یقینا اُس کی زبان کو لگ گئے تھے۔مگر ہمیشہ وہ فرما ئش کرتی کہ کھانے میں مرچ معمول سے کچھ زیادہ ہونی چاہیے۔
اُس دو پہر بھی وہ دونوں وہاں موجود تھے Chitral Cuisine کے خو بصورت کچن میں۔۔۔اچھی خو شبو کی لپیٹ میں،اور اپنے دل میں چھپے ہو ئے مگر قدرے عیاں اُس میٹھے جذبے کے ہمراہ۔۔۔
کا وش نے اپنی سب سے پسندیدہ ڈش Mantuکے لیے قیمہ بھونتے ہو ئے اُسے چو لہے سے نیچے اُتارنے سے پہلے کا ویر کے چند بیج ڈالے،ضو فشاں نے اپنا چہرہ مٹی کے برتن پر جھکا یا اور ہاتھ سے دھواں اپنے ناک میں گھسانے لگی،کا ویر کی خو شبو اُسے ہمیشہ مزہ دیتی تھی اور بھو ک کچھ مزید بڑ ھا دیتی تھی۔
” بس بہت ہو گیا ۔تم ساری خو شبو اپنے اندر اُتار لو گی تو اس کھانے کا کیا بنے گا۔” اُسے پیچھے کرتے ہوئے کا وش نے کہا ۔ضوفی مسکرا تے ہوئے پھر سے کٹنگ بو رڈ پر رکھی لمبی گہری رنگت والی سبز مرچیں کا ٹنے لگی۔کا وش وہاں سے ہٹا اور فریج میں سے کچھ کھنگا لنے لگا ،ضو فی نے تیزی سے وہ سب مرچیں اُبلتے شوربے میں ڈال دیں۔” کر دیا تم نے اپنا کام اب میں آ جاؤں؟” اپنا منہ فریج میں دئیے ہوئے ہی اُس نے پو چھا۔کچھ کھسیاتے ہوئے وہ پیچھے ہٹ گئی۔” مرچیں تمہیں پسند کیوں ہیں تیکھی مرچ؟” Troq چائے کپوں میں انڈیلتے ہوئے کا وش اُس سے پو چھنے لگا ،ایک جلا نے والی مسکرا ہٹ اپنے چہرے پر سجائے۔” مجھے تو مچھلی بھی بہت پسند ہے،پتہ ہے بچپن میں امی میرے لیے ہفتے میں دو دن تو لا زمی بنا یا کرتی تھیں ،اُنہوں نے کہیں سُن رکھا تھا مچھلی سے بال بے حد لمبے اور گھنے ہو جاتے ہیں اور ایسا ہو ا بھی میرے بال بے تحا شہ لمبے تھے۔” کسی یاد کو یاد کرتے ہوئے وہ ایک اُداس مسکرا ہٹ کے ساتھ کھڑی تھی۔” تو پھر اب کیا ہوا ؟ تم نے اپنے بال کٹوا دیے کیا؟” چائے پیتے ہوئے کا وش کے ذہن میں بھی ایک یاد لہرا گئی۔زرمستہ ۔۔۔اُس کی سب سے پیاری بہن، جو اُس سے سب سے زیادہ پیار کرتی تھی۔سوچتے ہوئے وہ ضو فی کو دیکھ رہا تھا۔” پتہ نہیں تمہیں ضو فی کیسی لگے گی مگر مجھے یقین ہے تم میری محبت کو محبت سے ہی ملو گی کیو نکہ تمہیں مجھ سے محبت ہے۔”
” کٹوانے پڑے۔۔۔” ضو فی نے خود کو بمشکل مزید بولنے سے روکا اور یادوں کے بھنور وں سے چھٹکا را پاتے ہو ئے بات کو بدلنے کی کوشش کرنے لگی۔” مچھلی تو مجھے اب بھی بہت پسند ہے مگر سبز مر چوں کے نیچے چُھپی ہو ئی۔” اُس نے شرارت سے کہا اور وہ دونوں ہنس پڑے مگر اگلے ہی لمحے خا مو شی سے چائے کے سپ لینے لگے۔
” میں تمہا رے سوال کا جواب دینا چاہتی ہوں۔” یہ جانتے ہوئے بھی خا موشی کبھی اُن کے درمیان مسئلہ نہیں بنی تھی ضو فشاں نے یکدم بات شروع کی،شاید وہ ایسا پہلے سے سوچے ہوئے تھی۔کا وش کے لیے یہ جاننا کو ئی مشکل بات نہیں تھی کہ وہ کس ‘ سوال’ کی بات کر رہی تھی۔” مگر میں چاہتا ہوں کہ تم ابھی اُس کا جواب نہ دو۔” ضوفشاں نے کچھ اُلجھن کے ساتھ اُسے دیکھا۔اُس کے ابرو سوالیہ انداز میں اُٹھے۔” میں اہتمام کرنا چاہتا ہوں اُس لمحے کویاد گار بنانے کے لیے پھر چاہے وہ انکار کا لمحہ ہو یا اقرار کا۔۔۔مگر وہ یاد گار رہے گا۔” ضو فی نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا ۔
تو پھر کل ۔۔شام میں یہیں ،لیکن کل تم مین انٹرس سے آؤگی یہاں کچن کے دروازے سے نہیں۔” کچن کے دروازے میں کھڑے اُسے رُخصت کرنے سے پہلے وہ مسکرا کر کہہ رہا تھا۔اپنا سر ہاں میں ہلا تے ہوئے وہ ووہاں سے نکل گئی کل پھر سے آنے کے لیے۔۔۔
()٭٭٭()
محبت۔۔۔۔کاوش کے دل میں اچانک اُمڈی تھی ضوفشاں کے لیے تب جب وہ اُس کو بالکل نہیں جانتا تھا اور ایک نظر دیکھنے پر ہی وہ سیدھی اُس کے دل میں اُتر گئی تھی۔ یہ کاوش کی محبت ہی تو تھی جو ضوفشاں کے دل تک بھی پہنچ گئی تھی اور یہی تو محبت ہے جو محبوب کو بھی محبت کرنا سکھا دے۔اوراُس کی محبت نے اپنا آپ منوا لیاتھا۔
کاوش نے اپنے دل میں یہ سب باتیں سوچیں اور ایک مسکرا ہٹ اُس کے لبوں پر رینگ گئی۔
” محبت گر مخلص ہو تو آنکھوں کے رستے دل میں گھر کر لے۔” ان سب باتوں پر اُس کا اعتقاد کچھ اور بڑھا تھا۔
اگلے دن کچن میں ضو فشاں کے لیے اور اپنی محبت کے لیے اہتمام کرتے ہوئے کا وش کے دل میں یہ باتیں گونج رہی تھیں۔وہ ہر چیز پرفیکٹ چاہتا تھا خا ص آج کے دن کے لیے۔
Kalli ….میدے کی لڑیوں اور ایک قسم کی نو ڈلزجو گا ڑھے شوربے میں بنتی تھی ،کیا وہ اسے پسند کرے گی؟ اپنے آپ سے سوال کرتے ہو ئے اور کسی حد تک خوش فہم ہوتے ہوئے وہ اُس کی تیاری میں لگا رہا۔
ٹراؤٹ مچھلی پر کٹس لگا تے ہو ئے وہ مسکرا دیا ۔” مچھلی بالوں کے لیے فا ئدہ مند ہو تی ہے۔” خا صی گر لش بات تھی جو اُس دن ضو فشاں نے اُس سے کہی تھی ،اپنی اُن بہت سی باتوں کے بر عکس جو وہ کہتی تھی اپنے خاصے مر دانہ انداز و اطوار کے ساتھ۔۔اُس لمحے کا وش کو لگا جیسے وہ بہت سے غلاف خود پر چڑھا ئے ہو ئے تھی ،وہ جو دُنیا کا مقا بلہ کرتی تھی مردانہ انداز اپنا کر وہ سب فریب تھا اور وہ اندر سے بالکل نازک لڑکی تھی۔اور یہی وہ چیز تھی جو اُس کے چہرے پر ایک اُداس مسکرا ہٹ سجا دیتی تھی اب بھی کا وش بالکل اُسی طرح مسکرا رہا تھا۔
ان سب باتوں کو سوچتے ہوئے بھی وہ خو ش تھا کہ بلآخر وہ اُس کی زندگی میں شامل ہونے والی تھی۔اور خو شی اُس کے رقص کرتے وجود سے ٹپک رہی تھی۔مگر یہ سب اس قدر عارضی ثابت ہوا کہ وہ خود پریشانی سے کہیں زیادہ حیرانی سے کھڑا رہا ۔
اپنے ہاتھ میں کیک کی پلیٹ تھامے وہ کھڑا تھا جب فون تھرتھرا یا۔
” میں نہیں آؤں گی کا وش۔۔ تم میرا انتظار مت کرنا، اب کبھی بھی نہیں۔تم میرے جیسی لڑکی کے قابل نہیں ہو ۔میں نے تم سے بہت کچھ چھپایا ہے یہ بھی کہ۔۔میں تم سے محبت نہیں کرتی ہوں،مجھے تم سے محبت کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔میں تمہیں نہیں بتاؤگی کس نے کیونکہ وہ میرا راز ہے ،اب میں تمہیں کبھی نظر نہیں آؤں گی،تمہیں دھوکے میں رکھنے کے لیے میں تم سے معافی ما نگتی ہوں ۔خدا خا فظ۔”
کیا یہ ضو فی تھی ؟ جو پہلا خیال اُس کے ذہن میں آیا وہ یہی تھا۔آواز وہی تھی مگر اتنا زہر تو اُس کے لہجے میں کبھی نہیں ہوا۔۔
اور مجبور ی ؟؟ وہ مجبور کی گئی تھی مجھ سے محبت کرنے کے لیے۔۔۔اپنا سر پکڑے وہ نیچے بیٹھ گیا اور آنسو اُس کے آنکھ کے کونے میں ٹھہر گیا۔
()٭٭٭()
اپنے ٹیرس پر کھڑے وہ گھنٹوں ایک ہی نکتے پر نظریں جما ئے رکھتا ،بہت کچھ سوچتے ہوئے۔کچھ ایسی نا قا بل فہم باتوں کے متعلق بھی جن کے وقو ع پذیر نا ہونے کے بارے میںوہ خود بھی پر یقین تھا مگر وہ سوچتا رہتا کسی سرے کے ہاتھ لگ جانے کے یقین کے ساتھ۔۔۔
ضو فشاں جب اُس کی نظروں میں آئی تو وہ ایک ڈری سہمی لڑکی بالکل نہیں تھی بلکہ وہ کا وش کو ایک جرات مند اور اس سے کہیں زیادہ ایک حوصلہ مند لڑکی لگی مگر اُس کی آنکھیں۔۔۔بھورے بالوں اور بھوری رنگت والی آنکھوں کے ساتھ وہ ایک مختلف لڑکی نظر آتی ۔اُداسی۔۔خو د بخود اُس کی آنکھوں سے چھلکتی اور بعض دفعہ وہ اُسے چھپا نے کی بھی کو شش کرتی مگر نا کام رہتی ،اُداسی جیسے اُس کے وجود کا حصہ تھی۔
پہلی چند ملا قا توں کے ساتھ ہی کا وش دیکھ سکتا تھا کہ وہ اُس سے ملنا نہیں چاہتی مگر اُسی لمحے وہ یہ بھی دیکھ سکتا تھا کہ وہ درا صل اُس سے ملنا چاہتی تھی۔وہ بے یک وقت دو مختلف صورتحال کا شکار تھی۔مگر اُن سب کے بعد جب وہ فیصلہ کرنے کے درمیان پھنسی تھی ،کا وش نے محسوس کیا وہ کچھ بہت غیر محسوس طریقے سے اُس کے قریب ہو تی گئی ۔کا وش نے خیال کیا کہ یہ چیز اُس کی رضا مندی کو ظاہر کرتی تھی۔بہت جلد وہ بابا خان سے بات کرنے والا تھا مگر اُس دن سے پہلے نہیں جب ضو فشاں خو د اُس کے پر پوزل کا جواب دے دیتی۔اور اُس دن ۔۔وہ چلی گئی اُس کی زندگی سے ،اُس کے ہو ٹل سے حتی کہ شاید اپنے گھر سے بھی۔۔۔
” ضو فشاں شریف کا گھر ہے یہ؟” دروازہ کھلنے پر ایک عورت باہر نکلی جس نے اپنے سر پر ایک دوپٹہ باندھ رکھا تھا اور جو پریشانیوں میں گھری ہوئی سی لگتی تھی اور یہ چیز اُس کے چہرے پر لکھی تھی۔” کون ضو فشاں ؟ یہاں کو ئی ضو فشاں نہیں رہتی۔” عورت نے اطمینان سے جواب دیا اور دروازہ بند کیے واپس اندر چلی گئی۔
ایسا کا وش کو اُس شیف نے بتا یا جو ضو فشاں کی واحد دوست تھی۔ شیف کو کا وش نے وہاں بھیجا تھا وہ خود چاہنے کے با وجود بھی نا جا سکا تھا ۔وہ جانتا تھا ضو فشاں کہاں رہتی ہے اور اسی لیے وہ اس بات سے بھی واقف تھا کہ ضو فشاں کے پیچھے خود کا وش کا جانا اُس کے لیے بدنا می کا باعث بن سکتا تھا چنا نچہ اُس نے اپنی خواہش کو دبا ئے رکھا اور اُس کی دوست کو بھیجا اس بہا نے کے ساتھ کہ وہ ہوٹل نہیں آ رہی اتنے دنوں سے اور اُس کا فون بھی بند ہے ،وہ اُس کا پو چھنے آ ئی ہے وہ خیریت سے تو ہے ؟ مگر ان سب با توں کے پو چھنے کی ضرورت پیش نا آئی اور وہ اُسی طرح واپس آ گئی اس سوچ کے ساتھ کہ شاید ضو فشاں نے اس جاب کے حصول کے دوران اپنے گھر کا ایڈریس ہی غلط بتا یا تھا۔
کا وش نے اپنے کندھوں پر کسی کے ہاتھ کا لمس محسوس کیا ۔مڑ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی وہ جانتا تھا بہادر ہو گا۔” کچھ پتہ چلا ؟” ایک ہی سوال جس کا جواب وہ آجکل بہادر سے ما نگا کرتا تھا۔کا وش نے بہت سے ہو ٹلوں میں چیک کیا کہ شاید ضو فشاں وہاں کام کر رہی ہو اور اس چیز میں بہادر نے اُس کا بھر پور ساتھ دے رہا تھا۔” شاید وہ شہر چھو ڑ کر چلی گئی ہے اگر یہاں ہوتی تو کسی ہو ٹل میں تو اُس کا سرا غ مل جاتا۔” بہادر کے لہجے کی ما یو سی نے کا وش کو مزید بو جھل کر دیا۔” مگر وہ ایسا کیوں کرے گی؟” سوال جو خود اُس کے دل میں چھپا تھا بہادر کے لبوں سے ادا ہوا۔” یہی تو مجھے سمجھ نہیں آتا۔” ریلنگ پر جھکے ہوئے کچھ کچھ ما یوسی کو اپنے اندر سر اُٹھا تے ہوئے محسوس کرتے ہوئے وہ مزید سر جھکا گیا۔بہا در نے ایک بار پھر سے اُس کے کندھے کو تھپکتے ہوئے تسلی والے انداز کے ساتھ اندر بڑھ گیا حا لانکہ وہ تسلی کے کچھ الفاظ اپنے منہ سے ادا کرنا چاہتا تھا مگر کر نا سکا اور واپس مڑ گیا۔
” کا لاش؟ کا فرستان؟” کا وش کے ذہن میں ضو فشاں کی آواز لہرا ئی۔جب پہلی بار اُس نے ضوفشاں کو اپنے کا لاشا ہونے کا بتا یا تھا تب اُس کا ردعمل کچھ ایسا ہی تھا۔” ہو سکتا ہے وہ مجھے کا فر سمجھ رہی ہو۔” ایک نئی سو چ نے سر اُٹھا یا۔
کچھ بہت سے پُرانے دن اُس کے ذہن میں یاد بن کر گھو منے لگے۔
()٭٭٭()

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

عکس —عمیرہ احمد (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!