نجات دہندہ — ردا کنول (تیسرا اور آخری حصّہ)

کا وش کو انتظار کی کو فت سے نہیں گزرنا پڑا ۔حا لا نکہ اُسے کو ئی خو ش فہمی نہیں تھی ، کم از کم کل کی باتوں کے بعد سے تو نہیں۔مگر اُس کی تو قع کے بر عکس اُسے ضو فشاں کچن کا دروازہ دھکیل کر اندر آتی ہو ئی نظر آئی تھی۔
جب دل میں خو شی کی لہر دو ڑتی ہے تو کیسا محسوس ہوتا ہو گا؟ یہ کاوش نے اُس ایک لمحے میں جان لیا۔
ضو فشاں نے اُسے دیکھا اور اُس کے پاس اندر جانے کی بجا ئے وہیں کھڑی رہی۔کا وش نے کچھ جلدی میں چیزیں سمیٹیں اور باہر نکل کر اپنے چہرے پر ایک مسکرا ہٹ سجا ئے صرف شکر یہ ہی کہہ سکا جسے ضو فشاں نے سر جھکا کر قبول کیا ۔باہر نکلنے سے پہلے ہمیشہ کی طر ح کا وش نے اُسے پہلے جانے دیا۔کا وش نہیں جانتا تھا اُس کا یہ عمل ضو فشاں کے دل میں اُس کے لیے کتنا احترام پیدا کر تا تھا،بہت سے دوسرے مر دوں سے بر عکس ضو فشاں کے لیے وہ ایک تمیز اور لحا ظ رکھنے والا مرد تھااور شاید یہی وجہ تھی کہ وہ اُس کے قریب آتی جا رہی تھی۔
” آپ کو کیسا پتہ چلا کہ میں اس وقت ما رکیٹ جا تا ہوں؟” سوال بے تکا تھا مگر بات کے آغا ز کے لیے مو زوں تھا۔” عمدہ اور تا زہ پھل سبزیاں لینے کے لیے شاید اسی وقت ما رکیٹ جا یا جا تا ہے۔” وہ اپنے آپ کو یہ کہنے سے رو ک نا پا ئی۔کاوش کے لبوں پر ایک مسکرا ہٹ رینگ گئی۔گا ڑی میں اُس کے برابر بیٹھتے ہوئے ضو فی نے کچھ ہچکچا ہٹ محسوس کی مگر کمال مہا رت کے ساتھ اپنے اُس احساس کو چھپا گئی۔
” اپنی کمزو ریوں کا کبھی دوسروں کو پتہ نہیں لگنے دینا چا ہیے۔”
”مارکیٹ بس یہاں سے کچھ ہی دور ہے۔’ ‘ ضو فی نے چو نک کر اُسے دیکھا ۔وہ بھول گئی تھی کہ اُس کے مد مقا بل وہ انسان ہے جو کمال مہارت سے آنکھیں پڑھ لیتا تھا۔” ہو ں۔۔ٹھیک ہے۔” گردن مو ڑے وہ بس اتنا ہی کہہ سکی۔
اُن دونوں میں سے ایک چھپا جانے کا فن جانتا تھا اور دوسرا بھید جان جانے میں ما ہر تھا۔
خا مو شی سے گھبرا کر بات کرنے کی غرض سے ضو فشاں نے اُس سے پو چھا۔” کو کنگ کا شوق کیسے پیدا ہو اآ پ میں؟” وہ دھیان سے ڈرا ئیو کر رہا تھا اور ہمیشہ کی طرح کچھ نر وس تھا۔” پتہ نہیں یاد نہیں ۔۔سوچتے ہوئے وہ کہہ رہا تھا، بچپن سے ہی بہنو ں کو دیکھا تو خو د بھی دل چاہا کہ کچھ بناؤں۔”
” اچھا ۔۔ایسا کیا بنا تی تھیں آپ کی بہنیں کہ صرف دیکھنے سے ہی شو ق ہو گیا۔” ضو فشاں نے کچھ تو صیفی مسکرا ہٹ کے ساتھ اُس سے پوچھا۔” آپ کو دیکھنے میں عجیب لگا ہو گا کہ ایک مرد کو کنگ رینج پہ جھکا فرا ئنگ پینز میں چمچے ہلا رہا ہے۔” ضو فشاں کو لگا وہ بات گول کر گیا ہے۔تبھی اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اُس نے جیسے کچھ کھو جنے کی کو شش کی،مگر وہ نا کام رہی ۔”نہیں عجیب نہیں لگا بہت سالوں سے دیکھ رہی ہوں اب تو۔” اُس کی آنکھیں جو ہمہ وقت اُدا سی سے بھری رہتی تھیں کچھ مزید اُداسی سے بھر گئیں۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

کا وش اُس کا پچھلا ریکا رڈ جا نتا تھا تبھی اُسے کو ئی پریشا نی نہیں ہو ئی اُس کی بات سمجھنے میں۔مارکیٹ آ گئی تھی وہ دونوں گا ڑی میں سے اُتر گئے۔”یہ سب اس ہی کی طر ح شیفس ہوں گے، جو اتنی صبح یہاں آئے ہیں ۔” ضو فشاں نے اکا دُکا چلتے لوگوں پر ڈالی جو خریدا ری کرنے میں مصروف تھے۔چلتے ہوئے کا وش تا زہ انگو روں کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔” یہ انگور چترال سے آتے ہیں۔” ضو فشاں نے غور سے اُس کا چہرہ دیکھا۔ایک گھچا ہاتھ میں پکڑے وہ مسکرا رہا تھا اور یقینا کہیں اور تھا۔” چترال بہت خو بصورت ہو گا نا؟” ضو فشاں نے یو نہی اُس سے پو چھ لیا۔” ہاں۔۔ مگر کا لا ش سے زیادہ نہیں۔” وہ اب انگور وں کے گچھے اُٹھا اُٹھا کر با سکٹ میں رکھ رہا تھا۔” کا لاش؟ مطلب کافرستان۔۔وہاں عورتیں کالے لباس پہنتی ہیں نا اور اُن کا رقص۔۔وہ کتنا زبر دست ہوتا ہے نا؟” ضو فشاں یکدم پُر جوش سی نظر آنے لگی۔” ہاں وہ تو ہوتا ہے؟” کاوش کے ذہن میں بہت ساری یادیں جھلملا ئیں۔” میں نے بہت سی جگہوں پر اُن کی تصویریں دیکھی ہیں۔کاش میں بھی وہاں جا سکتی۔”
” تو چلی جا ئیں کس نے رو کا ہے۔” اُس کی کچھ ایسی پر یشا نیوں سے با لکل انجان اُس نے مسکرا تے ہوئے کہا۔” مگر میں نے سُنا ہے وہاں کہ لوگ نہا تے نہیں ہیں ،کا وش نے اُسے دیکھا مگر وہ بولتی رہی،کتنے کتنے مہینوں تک،اس بار آنکھیں باہر نکالے اُس نے جیسے اُس کی معلو مات میں اضا فہ کیا، اور اُن سے بہت بو آتی ہے،میں نے بہت سے لو گوں سے سُنا ہے۔کا وش ابھی بھی اُسے دیکھ رہا تھا گردن مو ڑے،اُس کی بات کے اختتام پر وہ سیدھا ہو کر اُس کے عین سامنے کھڑا ہو گیا۔” تو کیا مجھ سے بھی بُو آ رہی ہے آپ کو؟ آئی مین میں آپ سے کچھ ہٹ کر کھڑا ہو جا تا ہوں،وہ اُلٹے قدموں تھو ڑا پیچھے ہوا اور پھر سے کہنے لگا، اب ٹھیک ہے؟ ” ضو فشاں نے شدید حیرا نی کے عالم میں اُسے دیکھا اور اُس کی غلط فہمی دُور کرنا چا ہی۔” نہیں چترال والوں سے تو نہیں آتی وہ تو کا لاش کے لوگوں کے بارے میں سُنا تھا کہ وہ۔۔۔” کا وش نے بیچ میں ہی اُس کی بات کا ٹی ۔” میں کالاش سے ہی ہوں۔” ضو فشاں کی تو جیسے سیٹی گم ہو گئی،کا وش وہاں سے ہٹا اور کچھ اور پھل دیکھنے لگا۔وہ جب مڑا ضو فشاں کی طرف سے تو ایک دبی دبی مسکرا ہٹ اُس کے لبوں پر تھی۔وہ لطف اندو ز ہوتا رہا اُس کے اس ہکا بکا انداز کو دیکھ کر۔
” آ ئی ایم سوری۔مجھے پتہ نہیں تھا کہ آپ کا لاش سے ہیں۔” وہ اُس کے پیچھے آ گئی تھی اور اب کچھ پریشانی سے اُس سے کہہ رہی تھی۔” کو ئی بات نہیں ، با تیں ہی کچھ ایسی مشہو ر ہیں وہاں کے لوگوں بارے میں۔” اُس کی طرف د یکھ کر مسکرا کر کہا۔” و اقعی لو گ اگر کسی ایسی جگہ کو دریافت کر لیں جہاں زیادہ لوگ نہیں جاتے تو وہ یو نہی وہاں کے بارے میں باتیں مشہور کرنے میں کو ئی عار محسوس نہیں کرتے۔” کا وش کو اچھا لگا اُس کی یہ بات سن کر۔
” آپ کہہ رہی تھیں آپ کا لاش دیکھنا چا ہتی ہیں؟” واپس گا ڑ ی میں آ کر بیٹھتے ہو ئے کا وش نے اُس سے پوچھا۔” ہاں بہت خوبصورت ہے کیا وہ؟” بہت سے دوسروں لوگوں کی طر ح ضو فی کو بھی خو ب صورتی اپنی طرف ما ئل کرتی تھی۔” بے انتہا۔” کاوش نے کہا۔
” مگر مجھے وہاں کی عورتوں سے ملنے کی زیادہ خواہش ہے۔” اُس کے لہجے میں اشتیا ق تھا۔کا وش کو لگا وہ وہاں کی عورتوں کے لباس اور زیور وغیرہ سے متا ثر ہو گی مگر وہ نہیں جان پا یا ضو فی نے کا لاش کے بارے میں اور بہت سی باتوں کی طر ح یہ بھی سُن رکھا تھا کہ وہاں پر women empowerment بہت زیادہ تھی اور یہی وہ وجہ تھی جو اُسے سب سے زیادہ اپنی طرف کھینچتی تھی۔
ہو ٹل کے عقب میں جہاں کچن کا دروازہ کھلتا تھا کا وش نے اپنی گا ڑی رُوکی ،ضوفشاں ابھی تک کالاش کو ہی سوچے چلے جا رہی تھی وہ چو نکی جب کا وش نے اُس سے کہا۔” کا لاش دکھانا چاہتا ہوں تمہیں ،دیکھو گی؟” ضو فشاں نے اُس سے کچھ نہیں کہا کل کی ہی طر ح وہ خا موشی سے باہر نکل گئی اپنے ساتھ ایک اُلجھن کو لیے ہوئے ،وہ سوال اپنے اندر ہی لیے ہوئے وہ دروازہ کھولے باہر نکل گئی ،جو تب سے اُس کے ذہن میں کلبلا رہا تھا جب اُس نے کا وش کا کالاش سے ہونے کے متعلق سُنا تھا۔
کا وش نے اُسے خا مو شی کے ساتھ کچن کا دروازہ دھکیل کر اندر بڑھتے دیکھا ،پریشانی نے کہیں اُس کے اندر سر اُٹھا یا لیکن پھر ایک گہر ی سانس بھرتے ہوئے وہ گاڑی میں سے چیزیں نکالنے لگا۔
()٭٭٭()
Chitral Cuisine میں خوب دوپہر چڑھنے سے پہلے رش کچھ کم ہوتا تھا اور ویٹرز کچھ سکون محسوس کرتے ہوئے اپنے ہلکے پھلکے انداز میں کھڑے رہتے تھے، مگر وہیں تمام شیفس دوپہر کے کھانے کی تیاری میں لگے رہتے۔ضوفی وقت بتانے کی غرض سے کہیں زیادہ اپنے اندر جواب جاننے کی خواہش میں اپنی دوست شیف کے پاس کھڑی سبزیاں کا ٹنے لگی۔” ضو فشاں یہ تمہارا کام نہیں ہے میں کر لوں گی۔” تیزی سے چلتے ہاتھوں کے ساتھ شیف نے اُس سے کہا یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ فا رغ کھڑے رہنے والے لو گوں میں سے نہیں ہے اور اُس کی ایک نہیں سُنے گی، اُس نے کہا۔
” یہاں کالاش کی ڈشز بھی بنتی ہیں کیا؟” سرسری لہجے میں اُس نے بات کا آغاز کیا۔” ہاں بالکل بنتی ہیں ۔باس کالاش کے ہیں نا ،تمہیں نہیں پتہ کیا؟” وہ ابھی جلدی جلدی اپنا کام کر رہی تھی مگر اُتنی ہی تیزی سے بول بھی رہی تھی۔” پہلے نہیں پتہ تھا۔” پالک کے پتے کاٹتے ہوئے اُس نے اپنے آپ کو بمشکل کہنے سے روکا کے کل تک نہیں پتہ تھا۔
” عجیب ہو تم بھی دو ماہ ہو گئے ہیں تمہیں یہاں کام کرتے ہوئے اور ابھی تک یہ بھی نہیں پتہ تھا۔” شیف افسوس سے اُس سے کہہ رہی تھی۔ضوفشاں بس اُسے سُنتی رہی۔” ہر اُس جگہ کے بارے میں پہلے بہت اچھی طرح نہیں تو تھو ڑی بہت چھان بین ضرور کر لو جہاں تم کچھ عرصہ کام کرنے والی ہو۔” شیف اُسے ایک اچھی نصیحت کر گئی یقینا اپنے تجربے کی روشنی میں۔
” کالا ش میں تو کا فر لوگ نہیں رہتے؟” کل سے جوبات اُسے تنگ کر رہی تھی وہ سوال بن کر بلا آخر اُس کی زبان پر آ گئی۔” ہاں رہتے تو ہیں۔” شیف نے بغیر گہرا ئی میں جائے اُسے جواب دیا وہ اس وقت بے انتہا مصروف تھی۔تبھی ضو فی کی نظر بالکل غیر ارادی طور پر وہاں اُٹھی جہاں کاوش کھڑا تھا کچھ بناتے ہوئے وہ اُس کی طرف متو جہ نہیں تھا۔
” شیف کاوش بھی کا فر ہیں کیا ؟ مطلب وہ بھی تو کالاش سے ہیں۔” ہاتھ روکے وہ اپنے ساتھ کھڑی شیف کی طرف گھوم گئی تھی اور اُس کے چہرے سے سرا سیمگی چھلکتی تھی۔وہ جواب سننے کو بے تاب تھی۔ہاں یا ناں اُس نے دونوں جواب سننے کے لیے خود کو تیار کر لیا۔
” نہیں ۔” شیف اُس کی بے چینی کو نا سمجھ سکی اور مختصر جواب دے کر پھر سے کام میں غرق ہو گئی۔” کیا نہیں؟” جواب اُسے مطمئن نہ کر سکا اور وہ پھر پو چھ بیٹھی۔” نہیں شیف کاوش کا فر نہیں ہیں ، مسلمان ہیں۔” ضو فشاں نے بے اختیار کھل کر سانس لیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس چیز کا کوئی فا ئدہ نہیں تھا۔اُس کی نظریں ایک بار پھر سے کا وش کی طر ف اُٹھیں ،شاید یہ اُس کی نظروں کا ارتکاز تھا کہ کاوش نے بے اختیار نظریں اُٹھا کر ضو فشاں کی جانب دیکھا ،بالکل غیر ارادی طور پر۔۔اور اُسے اپنی جانب دیکھتا پا کر وہ مسکرا دیا ،ضو فی کچھ شرمندگی یا شا ید کچھ اور جسے وہ خود بھی سمجھ نہیں پاتی تھی ،کو محسوس کرتے ہوئے نظریں جھکا گئی۔” کا وش کچھ بھی ہو اس چیز سے اُسے کیا فرق پڑتا تھا ۔” ضو فی نے سوچابالکل اُسی لمحے کاوش کے پاس ایک ویٹر آ کر کھڑا ہوااور اُس کے کان میں کچھ کہنے لگا جسے سن کر وہ کچن کے دروازے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اور دروازے کی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ضوفشاں نے اُسے دیکھا لمبے گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے اور پھر وہ باہر نکل گیا۔ضوفشاں کو وہ کچھ پریشان لگا اور اس خیال کے ساتھ کہ باہر رش بڑھنے لگا ہو گا وہ بھی کچن سے باہر نکل آئی۔
()٭٭٭()
وہ جو آدمی دیوار پر ٹنگی تصویر کے سا منے کھڑا تھا کاوش بس اُس کی پشت ہی دیکھ پایا تھا۔مگر کاوش کو جاننے کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ انسان تھا کون؟ وہ اُس کا چہرہ دیکھے بغیر بھی جان گیا ،صرف ایک انسان ہی وہاں آ کر یوں تصویر کے سامنے جم سکتا تھا۔” تو وہ لمحہ آ گیا جس کا میں نے بے صبری سے انتظار کیا تھا۔” کاوش رواں قدموں سے چلتا ہوا اُس کے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا۔قدموں کی آہٹ سن کر وہ آدمی مڑا۔” کاوش؟”پرا نی شنا سائی آنکھوں سے چھلکی۔” کاوش تم کیسے ہو بیٹے؟اور کتنے بڑے ہو گئے تھے۔” کاوش کے سامنے کھڑا وہ انسا ن جو اب قدرے بوڑھا ہو چکا تھا مگر اُس کی شاندار شخصیت جیسے مزید نکھر آ ئی تھی اور بالکل اُسی انداز میں جیسے وہ پہلے کاوش کو مخاطب کیا کر تا تھا اُس نے کہا۔” جی میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں۔” کاوش کے انداز نے اُسے باور کروا دیا کہ وہ اُ س کے ساتھ زیادہ بے تکلف ہونے کی کوشش نہ کرے اور اس کے ساتھ ہی اُسے پچھلا بہت کچھ یاد آ یا حتی کہ اپنے الفاظ بھی جو اُس نے خط میں لکھے تھے۔وہ ایک ٹھنڈی سانس لے کر رہ گیا ۔
وہ دونوں ایک قسم کی راہداری میں کھڑے تھے جہاں ستار ،بانسری ،ڈھول جیسے موسیقی کے آلات چترالی ٹوپیوں میں ملبوس پٹھان ہوٹل کی میزوں سے کچھ فاصلے پر دھیمے سروں میں بجانے میں مصروف تھے۔مینیجر کے لیے یہ بڑا حیران کن تھا۔یہ ایسا ہوٹل جہاں چترالی ثقافت دکھائی دیتی تھی اور وہ کھانے بکتے تھے جن کے بارے میں وہ کبھی بڑی تضحیک سے بات کر گیا تھا۔وہ تو ایک تجسس کے ساتھ یہاں آیا تھا کہ دیکھے یہاں ایسا کیا تھا جو لوگوں میں اتنا مقبول تھا اور وہ دیکھ رہا تھا یہاں سب برعکس تھا باقی سب ہوٹلوں سے مگر اُسے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کے وہاں اُسے کیسا دھچکا لگنے والا تھا۔بہت سال پہلے ایک بچے کے ساتھ کھنچوائی ہوئی تصویر اُسے یہاں نظر آ گئی تھی اور وہ بے اختیار اپنی ٹیبل سے اُٹھ کر اُس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا تھا۔اور اب وہ بچہ اُس کے سامنے کھڑا تھا مگر اب وہ بچہ نہیں رہا تھا وہ اچھا خاصا بڑا ہو گیا تھا ۔وہ جو بچپن میں شرمیلا جھجکا ہوا رہتا تھا اب اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اُس سے بات کر رہا تھا۔” آپ چترالی یا کالاش کے کھانوں میں سے تو کچھ کھانا پسند نہیں کریں گے ۔۔اس لیے کیا آرڈر کریں گے آپ؟” کاوش کو خود اپنے الفاظ پر حیرت ہوئی وہ کیسے اُس پر طنز کر رہا تھا۔مینیجر نے بے ساختہ اُس کے چہرے سے نظریں ہٹا کر اپنے ارد گرد نظریں دوڑائیں۔” میں شرمندہ ہو کاوش مگر میری مجبوری تھی وہ سب کہنا۔” ” ہماری تضحیک کرنا مجبوری تھی آپ کی؟” کاوش جتنا حیران ہوتا کم تھا۔مینیجر سر جھکا گیا۔کاوش کو لگا مزید بات کرنا بیکار تھا ۔
”کچھ لوگ ساری زندگی اپنے آپ کو قصور وار نہیں گردانتے چاہے وہ کتنی ہی غلطیاں کیوں نا کر چکے ہو ں مگر وہ ہمیشہ یہی کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ ایسا کرنا مجبوری تھی اُن کی۔۔اور ایسے لوگ بڑے خود غرض ہوتے ہیں۔” کاوش نے اُس سے رُخ موڑا اور واپس اندر چلا گیا مینیجر کچھ دیر مزید وہیں تصویر کو گھورتے ہوئے کھڑا رہا مگر پھر وہ وہاں سے چلا گیا ۔اُس کا چلے جانا ہی بنتا تھا کیونکہ وہ شرمسار ہوتے ہوئے بھی معافی مانگ لینے کی ہمت اپنے اندر نہیں رکھتا تھا اور مزید دکھ دینے کا موجب بن رہا تھا۔
()٭٭٭()
وہ شامChitral Cuisine میں ہلکے سے جشن کے سے سماں کے ساتھ اُتری۔بڑا سا سٹرابری چیز کیک اپنے کا ٹے جانے کا منتظر تھا، اور اُس کے ارد گرد کھڑے وہ تما م باورچی اور ویٹرزجو خوشی سے تالیاں پیٹتے تھے۔
Chitral Cuisine میں ہر ایک کی سالگرہ اسی طرح منا ئی جاتی تھی۔معمول کے آرڈرز کے علا وہ ہر اُس دن ایک خو بصورت کیک بیک ہوتا جب کسی کی سالگرہ ہوتی۔وہ سب خو شی سے چلا تے ہوئے برتھ ڈے گرل یا بوائے کو پکڑ لیتے اور اُس کے کانوں میں خو ف ناک آوازیں نکالتے ہوئے کیک تک لے آتے۔کیک کٹتا وہ اپنے منہ بھرتے اور پھر سے اپنے اپنے کا موں میں مگن ہو جاتے۔
اُس شام ضو فشاں کی سالگرہ تھی، سب کے گھیرے میں وہ کچھ گھبرائی ہوئی سی کیک تک آ گئی حا لانکہ اپنے اندر کہیں وہ خو شی محسوس کر رہی تھی۔سالگرہ کے مخصوص گیت کے سا تھ اُس نے کیک کا ٹا اور پھر وہ سب اپنے اپنے کا موں میں بری طرح غرق ہو گئے۔ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے وہ وہاں کچن میں سے باہر نکلنے والی تھی ، کا وش ابھی تک وہیں مو جود تھا بظاہر ہاتھ پیچھے باندھے چیزوں کا جائزہ لیتے ہو ئے مگر اُ س کا سارا دھیان ضوفشاں کی طرف تھا ، ضو فی یہ بات جان گئی۔اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کا و ش نے اُس سے کچھ کہنا چاہا مگر وہ کچھ دیکھنا اور سننا نہیں چا ہتی تھی تبھی تیزی سے باہر نکل گئی۔
پریشانی۔۔جس کا شکار وہ کل سے تھا کچھ مزید بڑھ گئی۔” آخر ایسا رویہ کیوں اختیار کیے ہوئے ہے یہ۔” گھبرا ہٹ سے اُس کا دم گھٹنے لگا۔”مزید کسی اُلجھن کا شکار ہونے سے بہتر ہے کہ صاف صاف بات کی جائے۔”بے دھیانی میں چکر کاٹتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا۔
()٭٭٭()

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

عکس —عمیرہ احمد (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!