من و سلویٰ — قسط نمبر ۴

شادی کی تاریخ طے ہونے کے کچھ دنوں بعد سعید نواز نے شادی کی تیاریوں کے لیے پانچ لاکھ روپے کا چیک دیتے ہوئے اسے یہ ہدایت دی کہ وہ بے حد سادگی سے شادی چاہتے ہیں۔ وہ خاندان کے قریبی لوگوں کے علاوہ شادی میں کسی دوسرے کی شرکت نہیں چاہتے۔ نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ شیراز کی طرف سے بھی۔ انہوں نے شیراز تک شینا کا یہ مطالبہ بھی پہنچایا کہ شادی کا صرف ایک مشترکہ فنکشن ہونا چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہہ رہے تھے کہ شیراز ولیمے کا اہتمام نہ کرے۔
پانچ لاکھ کا چیک ہاتھ میں لے کر سعید نواز کو ”نہ” کہنا نا ممکن تھا۔ شیراز بے حد سعادت مندی سے انہیں ”ہاں” کہہ کر آگیا تھا مگر اس کے گھر والوں کو پہلی بار کچھ اعتراض ہوا۔
ان کا اکلوتا بیٹا تھا اور وہ اس کا بھی ولیمہ نہ کرتے جس کا صاف صاف مطلب یہ تھا کہ محلے اور خاندان کے لوگوں کو یہ پتہ ہی نہ چلتا کہ وہ کیسے امیر گھرانے سے بہو لا رہے ہیں۔ کیسے اونچے خاندان سے ان کی رشتہ داری ہو رہی ہے اور خاندان اور محلے کے لوگوں کو یہ پتا ہی نہیں چلتا کہ ”وہ امیر ہو گئے ہیں” تو یہ ان کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کامقام تھا۔
شیراز کی بہنوں کو یہ غم تھا کہ ان کی سہیلیاں ان کی خوبصورت، ماڈرن اور امیر بھابھی کے ڈھیر سارے زیورات کیسے دیکھیں گی۔
شیراز خود بھی کچھ رنجیدہ تھا کیونکہ وہ خود بھی اپنے پورے کامن کو اپنی شادی میں بلا کر افسروں کاایک جمگھٹا اکٹھا کر کے اس میں راجہ اندر کی طرح پھرنا چاہتا تھا۔ زندگی میں دوبارہ ایسا موقع اسے کہاں ملنے والا تھا لیکن اب… خیر…
اس نے ماں باپ اور بہنوں کوپانچ لاکھ کا چیک دکھاتے ہوئے انہیں سادگی کے فوائد اور اس کی اہمیت پر ایک لیکچر دیا جس میں اس نے حسب ضرورت کچھ اسلامی حوالے اور حدیثیں بھی استعمال کیں۔
نتیجہ حسب توقع اور حسب سابق رہا۔ گھر والوں پر فوری اثر ہوا تھا البتہ اس ”اثر” کو مزید ”موثر” کرنے کے لئے اس نے اس رقم سے ان سب کے کچھ مطالبوں کو پورا کرنے کا وعدہ کیا۔
٭٭٭




”اگلے مہینے کی ”پندرہ” تاریخ کو شادی ہو رہی ہے شیراز کی۔” کسی نے زینی کے دل پر گھونسہ مارا تھا، وہ سانس لینا بھول گئی تھی۔
”نسیم اور اکبر جا رہے ہیں گھر چھوڑ کر۔ شیراز کو گھر بھی ملا ہے جہیز میں۔ نسیم بتا رہی تھی۔ بہت بڑا بنگلہ ہے ڈیفنس میں۔ اس گھر کو تو ابھی بند کر رہے ہیں۔ کہہ رہے تھے کہ اچھے داموں بیچ دیں گے اور نہ بھی بکے تو پڑا رہے گا۔ اب انہیں کوئی ضرورت نہیں اس گھر کی۔ شادی بڑی سادگی سے کر رہے ہیں۔ خاندان اور محلے میں سے کسی کو نہیں بلا رہے۔ نسیم کہہ رہی تھی کہ بیٹے کے سسرال والے بھی زیادہ لوگ نہیں بلا رہے اور یہ لوگ ولیمہ بھی نہیں کر رہے۔ ہاں بھئی، اب بیٹابڑا افسر بن گیا ہے۔ اب کہاں ہم جیسے لوگوں کو منہ لگائیں گے یہ لوگ۔ تم نے زینی کے لیے کیا سوچا؟”
صحن میں بیٹھی محلے کی کوئی عورت نفیسہ کو شیراز کی شادی کے بارے میں بتانے کے بعد اب زینی کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔
اندر بستر پر لیٹی ہوئی زینی یک دم اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس نے یہ کیوں سوچا تھا کہ اب شیراز کے بارے میں کچھ بھی سن کر اسے تکلیف نہیں ہو گی۔ منگنی ہو گئی تھی تو شادی تو ہونا ہی تھی پھر اسے یہ کیوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی اس کا گلا گھونٹنے لگا تھا۔ اتنی جلدی وہ کسی دوسری عورت کا ہو جانے والا تھا۔
اس نے بے یقینی سے اپنی انگلیوں کی پوروں پر دن گنے تھے۔
کوئی اور عورت اس کی زندگی میں آنے والی تھی اس کی جگہ لینے والی تھی۔ ”تکلیف” تو اب ”محسوس” ہونا شروع ہوئی تھی۔ اس نے ساری زندگی شیراز کے نام کو اپنی ملکیت سمجھا تھا۔ اب وہ نام کسی دوسری کے نام کے ساتھ منسلک ہونے والا تھا۔
اس نے بہت بار اپنے نام کے ساتھ زینب ضیاء نہیں، زینب شیراز لکھا تھا اور ہر بار اس نام پر نظر ڈالتے وہ ایک عجیب سی سرشاری محسوس کرتی اور اب کتنے آرام سے کوئی اور اس نام کو اپنے نام کے ساتھ لگا لینے والا تھا۔ قانونی، مذہبی، معاشرتی اور اخلاقی استحقاق کے ساتھ۔ نیند تو اب ”اڑنے” والی تھی۔
پتا نہیں اسے کیا ہوا، وہ چادر اوڑھ کر بیگ پکڑ کر باہر نکل گئی۔ نفیسہ نے اسے پیچھے کتنی آوازیں دیں ، اس نے نہیں سنیں۔ وہ اس سہ پہر پیدل ہر جگہ بے مقصد پھرتی رہی۔ کبھی کوئی دن ایسا نہیں گیا تھا جب اس نے شیراز کے بارے میں نہ سوچا ہو مگر کوئی دن ایسا نہیں گیا تھا جب اس نے شیراز کے ساتھ کسی دوسری عورت کے بارے میں سوچا ہو۔ اسے کبھی اس کی منگیتر کا ”جسمانی وجود” ہونے کا احساس ہی نہیں ہوا تھا۔ وہ ہمیشہ نوٹوں کی گڈیوں، بنگلے اور چیزوں کی شکل میں اس کے سامنے آتی رہی تھی۔
آج پہلی بار اس نے اس منگیتر کے جسمانی وجود کے بارے میں سوچا تھا۔ پہلی بار اسے ”عورت” سمجھ کر اس کے بارے میں سوچا تھا اور یہ تکلیف پچھلی تکلیف سے زیادہ تھی۔ ساری دنیا کی عورتیں اس وقت اس کے سامنے صرف ایک عورت بن کر آئی تھیں۔
وہ اس سے اسی طرح بات کرتا ہو گا جس طرح مجھ سے کرتا تھا۔ اس کو اسی طر ح دیکھتا ہو گا جس طرح مجھے دیکھتا تھا۔ اس کو دیکھ کر مسکراتا ہو گا، اس سے ملتا ہو گا، اسے باہر لے جاتا ہو گا اور اس کا ہاتھ پکڑ لیتا ہو گا۔ میرے خدا…
ایسا غم و غصہ تو اس نے تب بھی محسوس نہیں کیا تھا، جب اس کی منگنی ٹوٹی تھی پھر اب کیوں…؟ اتنے دن بعد کیوں؟
وہ نہیں جانتی، وہ کب ہر جگہ سے پھرتے پھرتے سول سروسز اکیڈمی کے سامنے پہنچ گئی تھی۔ اسے یہ پتا نہیں تھا کہ وہ STP کرنے کے لیے اب وہاں سے جا چکا تھا۔ اندر جانے کی کوشش کرنے کے بجائے وہ باہر ایک فٹ پاتھ پر بیٹھ گئی تھی۔ اسے یقین تھا وہاں سے گزرنے والے اسے پاگل سمجھ رہے ہوں گے یا کوئی آوارہ لڑکی۔ اسے پروا نہیں تھی کہ لوگ اسے کیا سمجھ رہے تھے۔
سول سروسز اکیڈمی کے دروازے کو دیکھتے ہوئے اسے یاد آیا۔ وہ شیراز کے کہنے پر کس طرح خشوع و خضوع سے اس کے وہاں جانے کی دعائیں مانگتی تھی۔ اس نے تو تہجد بھی صرف شیراز کا مقدر بدلنے کے لیے پڑھنا شروع کی تھی۔ اسے نہیں پتا تھا، وہ صرف شیراز کا مقدر نہیں بدل رہی، وہ اپنامقدر بھی بدل رہی تھی۔ کوئی یوں کسی کو اپنی زندگی سے گندگی کی طرح نکال پھینکتا ہے؟ اسے وہاں بیٹھے اکیڈمی کا دروازہ دیکھتے اپنا وجود گندگی ہی محسوس ہو رہا تھا۔
”تم پاگل ہو رہی ہو زینی!” اس نے اپنے آپ سے کہا۔
”ہاں، میں پاگل ہو رہی ہوں۔ نہیں میں پاگل ہو چکی ہوں، ورنہ اس وقت اس حالت میں یہاں بیٹھی ہوتی۔” اس نے اپنے آپ سے کہا۔
٭٭٭
”زینی! کہاں ہے؟” ضیاء نے ہمیشہ کی طرح گھر میں داخل ہوتے ہی پوچھا تھا۔ آمنا سامنا تو ان کا اب زینی سے شاذ و نادر ہی ہوتا لیکن اس کے باوجود گھر میں آتے ہوئے ضیاء کا پہلا سوال اب بھی اس کے بارے میں ہوتا تھا۔
”پتا نہیں کہاں ہے۔ آج تو جلدی گھر آگئی تھی مگر پھر پتا نہیں کہاں نکل گئی۔ میں تو پہلے ہی پریشان ہو رہی ہوں۔ شام ہو گئی ہے مگر ابھی تک واپس نہیں آئی۔”
ضیاء کے پیروں تلے سے جیسے زمین نکل گئی تھی۔ آج سے پہلے وہ شام تک تو کبھی باہر نہیں رہی تھی۔
”تمہیں کچھ بتا کر گئی۔ کہاں جا رہی ہے یا کب آئے گی؟”
”کچھ بتا کر کہاں جاتی ہے۔ محلے کی ایک عورت آئی ہوئی تھی۔ میں اس کے ساتھ صحن میں بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔ وہ مجھے شیراز کی شادی طے ہونے کے بارے میں بتا رہی تھی۔ بس یہ یک دم کمرے سے باہر آئی اور باہر نکل گئی۔ پیچھے مڑ کر میری آواز تک نہیں سنی۔” نفیسہ نے ضیاء کو بتایا۔
”شیراز کے گھر تو نہیں گئی؟” ضیاء کو یک دم خدشہ ہوا۔
”نہیں، وہاں نہیں گئی۔ میں پیچھے گئی تھی اس کے ۔ وہ بس گلی پار کر گئی۔”
ضیاء چپ چاپ نسیم کو دیکھتے رہے پھر سائیکل کھڑی کر کے تھکے ہوئے انداز میں باہر نکل گئے۔
انہیں یقین نہیں تھا کہ وہ اس وقت وہاں گئی ہو گی لیکن پتا نہیں کیوں انہیں خدشہ تھا، وہ وہیں گئی ہو گی۔ اگر وہ شیراز کی شادی کی خبر سن کر گئی تھی تو اسے وہیں ہونا چاہیے تھا۔
اور وہ وہیں تھی، وہ رکشہ پر وہاں آئے تھے پھر رکشہ سے اترنے سے پہلے ہی انہوں نے زینی کو فٹ پاتھ پر بیٹھا دیکھ لیا تھا۔ وہ ان کی اولاد تھی سب سے خوبصورت، سب سے چہیتی اولاد جسے انہوں نے بچپن میں کبھی گود سے اتار کر پیدل نہیں چلایا۔ فٹ پاتھ پر بٹھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اور وہ اس وقت اس گرد اور دھول سے اٹی فٹ پاتھ پر بھکاریوں کی طرح بیٹھی تھی۔
انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں رکشے والے کو اس کے قریب رکشہ لے جانے اور روکنے کے لیے کہا۔
زینی رکشہ کی آواز پر چونکی اور پھر اس نے حیرت سے اسے اپنے پاس رکتے دیکھا۔ ضیاء نے دروازہ کھول کر اس سے کہا۔
”آجاؤ زینی!” زینی کچھ دیر وہیں بیٹھی خالی نظروں سے باپ کو دیکھتی رہی پھر اٹھ کر رکشہ میں آبیٹھی۔
رکشہ چلنے لگا تھا۔ ضیاء پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ زینی نے ایک نظر باپ کو دیکھا، وہ زندگی میں کبھی اس طرح پھوٹ پھوٹ کر نہیں روئے تھے۔ وہ آج رو رہے تھے۔ اسے پتا تھا وہ کس لیے رو رہے ہیں۔ پوری دنیا میں صرف وہی تھے جو آج زینی کے دل کی حالت کو سمجھ سکتے تھے۔
ضیاء نے زندگی میں ہمیشہ بڑے بھائی کو باپ کی جگہ سمجھا تھا۔ کبھی ان کے سامنے اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی۔ کبھی ان کی حکم عدولی نہیں کی تھی۔ آج پہلی بار اپنی بیٹی کو وہاں فٹ پاتھ پراس حالت میں بیٹھا دیکھ کر انہیں بھائی سے شدید نفرت محسوس ہوئی تھی۔
”تباہ ہو جائیں گے یہ سب لوگ زینی! تباہ ہو جائیں گے۔ ان کا پیسہ، ان کا غرور سب مٹی میں مل جائے گا۔ کچھ نہیں رہے گا ان میں سے کسی کے پاس۔ کوئی افسری… کوئی رتبہ… کچھ نہیں۔ یہ دنیا میں بھی رسوا ہوں گے۔ یہ آخرت میں بھی دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔”
زندگی میں پہلی بار زینی نے اپنے باپ کو کسی کے لیے بدعا کرتے سنا تھا اور وہ بھی اپنے خونی رشتے کے لیے، اپنے بڑے بھائی اور اس خاندان کے لیے۔ اس کا دل چاہ رہا تھا، وہ باپ سے کہے بد دعاؤں سے کسی کا کچھ نہیں بگڑتا۔ بد دعا صرف وہ کرتے ہیں جو کچھ اور نہیں کر سکتے۔
پورا راستہ ضیاء اسی طرح روتے رہے تھے اور وہ چپ چاپ رکشے کی پشت سے ٹیک لگائے سڑک پر چلتی ٹریفک کی جلتی بجھتی روشنیوں کو دیکھتی رہی۔
ضیاء رکشہ والے کوکرایہ دے رہے تھے، وہ ان کا انتظار کیے بغیر گھر میں داخل ہوگئی۔ نفیسہ، ربیعہ اور سلمان تینوں نے دروازے پر اس کا استقبال کیا تھا مگر اس کے چہرے کے تاثرات نے کسی کو کچھ کہنے نہیں دیا۔ وہ چپ چاپ صحن کے تخت پر آکر سر جھکا کر بیٹھ گئی تھی۔
نفیسہ نے اس سے کچھ پوچھا تھا جو اس کی سمجھ میں نہیں آیا ۔ اس نے سر نہیں اٹھایا۔ ضیاء چند منٹوں کے بعد گھر آگئے تھے۔ ان کی متورم اور سرخ آنکھیں دیکھ کرنفیسہ کو احساس ہو گیا تھا کہ زینی کس کے ساتھ آئی ہے۔
ضیاء بھی اندر جانے کے بجائے اس کے پاس آکر تخت پر بیٹھ گئے۔
”اسے دل سے نکال دو زینی! وہ اور اس کا خاندان تمہارے لائق نہیں تھا۔”
انہوں نے بے حد رنجیدگی سے کہا۔ زینی سر جھکائے نفی میں سر ہلانے لگی۔
”وہ میرے دل سے نہیں نکلتا، میں نے بہت کوشش کر کے دیکھا ہے۔ میں نہیں بھول سکتی اسے۔”




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۳

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

One Comment

  • Nice story dear 🥰 ALLAH Pak bless you dear

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!