زبیدہ کو زینی کی ماڈلنگ کا پتا چلنے کے بعد یہ بات زیادہ دیر تک راز نہیں رہی۔ آہستہ آہستہ پورے خاندان اور محلے کو اس بارے میں پتا چل گیا تھا۔ محلے میں پہلے ہی زینی کے روزانہ گاڑی میں جانے اور آنے کی وجہ سے چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں۔
اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ زینی کو اپنے محلے کے کسی لڑکے نے تنگ کیا ہو مگر اس کی ماڈلنگ کا پتہ چلنے کے بعد اب اکثر ایسا ہونے لگا تھا کہ وہ اس گاڑی میں آنے اور جانے کے دوران کسی نہ کسی سے، کوئی نہ کوئی جملہ سن لیتی۔ عجیب بات تھی۔ اسے اب کسی، نظر، کسی ہنسی، کسی بات سے خوف نہیں آتا تھا۔ وہ خوف جو تب تک اسے اپنے حصار میں لیے رہے تھے، جب تک وہ نظر جھکا کر سر نیچا کر کے چلتی رہی تھی۔
وہ اب مردوں کے ساتھ کام کرتی تھی۔ ان سے گلے ملتی تھی۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر ہنسی مذاق کرتی تھی۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر کر کھانا کھاتی تھی۔ ان کے سامنے قابل اعتراض کپڑے پہن کر فوٹو شوٹس کرواتی تھی۔ اسے آخر اب کس چیز سے جھجک محسوس ہوتی۔
زینب ضیاء کی تصویر زندگی کے کینوس پر نئے رنگوں سے پینٹ کی جا رہی تھی۔
وہ لڑکا بہت لمبے عرصے تک دوبارہ اسے نظر نہیں آیا۔ شاید وہ بہت دنوں تک زینب کا انتظار کرنے کے بعد مایوس ہو کر کہیں اور چلا گیا تھا مگر زینی نے اس کا انتظار نہیں چھوڑا۔ شعوری اور لاشعوری طور پر ہر روز گاڑی سے اترتے ہوئے وہ ایک نظر اطراف میں ڈالتی تھی۔ وہ ایک بار اس لڑکے سے دوبارہ سامنا چاہتی تھی اور یہ موقع اسے بہت جلد مل گیا تھا۔
ایک لمبے عرصے کے بعد اس نے بالآخر گھر واپس آتے ہوئے اسے اس دن وہیں دیکھا تھا، جہاں وہ ہمیشہ اس کا انتظار کیا کرتا تھا۔ وہ گاڑی میں تھی اور اس نے اپنے اندر جیسے لاوا پھوٹتے محسوس کیا تھا۔
ڈرائیور نے گاڑی روک دی۔ زینی نے اپنا بیگ کھول کر چند نوٹ نکالے اور ڈرائیور کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔
”یہ لڑکا دیکھ رہے ہو؟” زینی نے اس لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔
”جی۔” ڈرائیور نے کچھ چونک کر اس لڑکے کو دیکھا جو خود بھی اب اس گاڑی کی طرف متوجہ تھا اور شاید اس نے زینی کو بھی دیکھ لیا تھا۔
”یہ تنگ کرتا ہے مجھے۔ ابھی میں اتروں گی تو یہ میرے پیچھے آئے گا۔ میں چاہتی ہوں، تم اس کی اتنی پٹائی لگاؤ کہ یہ دوبارہ اس محلے میں آنے کی جرأت نہ کرے۔” اس نے ڈرائیور کو ہدایت کی اور گاڑی سے اتر گئی۔
وہاں گلی میں کچھ اور لڑکے بھی کھڑے تھے اور انہوں نے ہمیشہ کی طرح زینی کو دیکھ کر ہلکی سی سٹیاں بجائیں اور ہنستے ہوئے کچھ جملے کسے۔ روز یہاں سے گزرتے ہوئے اب اس کا استقبال اسی طرح ہوتا تھا۔ پہلے ان میں سے کوئی زینی کو نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا۔ وہ ضیاء صاحب کی بیٹی تھی اور اس کی عزت کرنے کے لیے یہ حوالہ کافی تھا۔ اس کی شیراز کے ساتھ منگنی ہو جانے کے بعد وہ اس محلے میں اور بھی قابل احترام ہو گئی تھی۔
وہ محلے کے ہی ایک دوسرے ایسے لڑکے سے منسوب تھی جو صرف اپنے خاندان کا نہیں، اس محلے کا سب سے قابل لڑکا تھا جس کی تعلیمی کامیابیوں کی وجہ سے پانچویں جماعت کے وظیفے کے امتحان سے اس کی تصویریں اخباروں میں سب دیکھ چکے تھے اور سب جانتے تھے کہ وہ افسر بننے والا تھا یا بالآخر بن جاتا اور پھر کون تھا جو زینب ضیاء کی طرف نظر اٹھا کر بھی دیکھتا۔ اس کے باوجود کہ سب اسے محلے کی حسین ترین لڑکی سمجھتے تھے اور بہت سے شیراز پر صرف اسی ایک وجہ سے رشک کرتے تھے۔
اور اب… اب وہ ضیاء صاحب کی بیٹی تو تھی لیکن اپنے منگیتر کا متروکہ اثاثہ جسے کسی لڑکے کے ساتھ پکڑا گیا تھا اور جس کا حسن بہت جلد اخباروں اور ٹی وی کی زینت بننے والا تھا۔ وہ اب کسی کی عزت نہیں تھی، صرف ایک ماڈل تھی اور زینی کو یقین تھا، آج وہ لڑکے اس لڑکے کو اس کے پیچھے گلی میں جاتا دیکھتے تو آج نہ سہی کل سہی مگر شبے کا شکار ضرور ہوتے اور پھر اس کے پیچھے صرف ایک لڑکا نہیں آتا کوئی بھی کبھی اٹھ کر اس کے پیچھے چل پڑتا۔
اس کا اندازہ بالکل ٹھیک تھا۔ اس لڑکے نے اس کا تعاقب کیا تھا۔ وہ خاموشی سے چلتی رہی۔ وہ لڑکا بھی بڑے اطمینان سے اس کے پیچھے چلتا رہا۔ زینی اب لڑکوں کے اس گروپ کے پاس پہنچنے والی تھی اور وہ لڑکا پہلی بار کچھ کنفیوز ہوا۔ اس نے اس سے پہلے گلی میں اس جگہ لڑکوں کا اتنا جمگھٹا نہیں دیکھا تھا، نہ ہی اس سے پہلے یہاں کھڑے اکا دکا لڑکوں کو کبھی زینی پر آوازے کستے سنا تھا۔ آج وہ واضح طور پر زینی پر ہی قہقہے لگاتے ہوئے آوازیں کس رہے تھے۔ وہ دور سے بھی یہ بے حد آسانی سے دیکھ اور سمجھ رہا تھا اور یہ چیز اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔
زینی لڑکوں کے اس گروپ کے سامنے سے روز کی طرح نہیں گزری، وہ یک دم ان کے سامنے کھڑی ہو گئی اور یک دم پلٹ کر اس لڑکے کے بالمقابل آگئی۔ لڑکوں کے گروپ کا شور اچانک تھم گیا۔ وہ بھی کچھ کنفیوز ہوئے تھے۔ وہ ان کے سامنے کیوں رکی تھی مگر ابھی انہیں مزید حیران ہونا تھا۔ زینی کے پیچھے آتا وہ لڑکا بری طرح گڑبڑایا تھا۔ اس کے تو فرشتوں نے بھی کبھی یہ نہیں سوچا ہو گا کہ سنسان گلی میں گھبراتی، ہکلاتی وہ لڑکی اتنے لوگوں کے بیچ میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی ہو جائے گی۔ اس کے ہاتھوں کے توتے نہ اڑتے تو کیا ہوتا۔
”کیا کام ہے آج تمہیں مجھ سے؟ سلام کرنا ہے؟ ہاتھ پکڑنا ہے؟ اظہار محبت کرنا ہے؟ خط پکڑانا ہے؟ یا یہ خبر سنانی ہے کہ تم اپنی ماں کو میرے گھر رشتے کے لیے بھیجنا چاہتے ہو؟”
اس کی آواز اتنی بلند تھی کہ آس پاس موجود ہر لڑکے نے سنی تھی اور اس لڑکے کے ہی نہیں اوسان خطا ہو گئے تھے وہاں موجود دوسرے لڑکوں کے بھی کچھ دیر کے لئے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے تھے۔
”وہ جس نے پچھلی بار تمہارا خط پکڑا تھا نا، وہ منگیتر تھا میرا۔ منگنی توڑ گیا وہ اور یہ جو کتے بھونک رہے ہیں نا، یہ تمہاری وجہ سے بھونکنا شروع ہوئے ہیں۔”
اس نے لڑکوں کے گروپ کی طرف اشارہ کیا۔ وہ لڑکا کچھ کہنے کے بجائے یک دم بھاگنے کے لیے وہاں سے پلٹا مگر ڈرائیور تب تک اس کے سر پر پہنچ چکا تھا۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اس لڑکے کی پٹائی شروع کر دی۔ وہ اسے بڑی بے رحمی اور بے دردی سے پیٹ رہا تھا۔ لڑکا مزاحمت کی کوشش کر رہا تھا مگر لحیم شحیم ڈرائیور کے سامنے اس کا منحنی سا وجود کتنی مزاحمت کر سکتا تھا۔
گلی میں اب مکمل سکتہ تھا جسے اس لڑکے کی چیخوں اور پٹائی کی آوازوں کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں توڑ رہی تھی۔ لڑکوں کا وہ پورا گروپ سانس روکے اس لڑکے کو دیکھ رہا تھا جس کی ناک اور منہ سے اب خون بہنا شروع ہو گیا تھا۔
وہ معافی مانگتے ہوئے زینی کو اپنی بہن بنانے کا اعلان کر رہا تھا۔ زینی مزید وہاں نہیں رکی۔ اس نے پلٹ کر ایک نظر لڑکوں کے اس گروپ کو بے حد چیلنج کرتی ہوئی نظروں سے تنفر آمیز انداز میں دیکھا پھر وہاں سے چلی گئی۔
اس گلی میں دوبارہ زینی پر کسی نے جملہ کسا تھا نہ کوئی اس کے پیچھے آیا تھا۔
٭٭٭
شیراز اب CTP کے بعد STP کی ٹریننگ کر رہا تھا۔ اکیڈمی میں کسی کو شیراز کی منگنی کا پتا نہیں تھا۔ سعید نواز نے اسے سختی سے منع کیا تھا کہ وہ شادی ہونے سے پہلے کسی سے بھی اس بات کا ذکر نہ کرے کہ وہ سعید نواز کا داماد بننے والا ہے۔ شیراز یقینا ان کی حکم عدولی کر کے خود کو مستقبل میں ملنے والا اعزاز سب کو دکھاتا۔ اگر جواد اس کے کامن میں نہ ہوتا جو وقتاً فوقتاً سعید نواز کی ہدایات شیراز کے گوش گزار کر کے جیسے اس کے جذبات پر بند باندھتا رہتا تھا اور کسی انکشاف کی صورت میں سعید نواز کے ممکنہ رد عمل سے بھی اسے ڈراتا رہتا تھا اور یہ دھمکیاں شیراز کے لیے کافی کار گر ثابت ہوئی تھیں۔
سعید نواز یقینا اس کے بیک گراؤنڈ کی وجہ سے اتنے محتاط تھے۔ یقینا ان کے نزدیک یہ بات شرمندگی کا باعث ہوتی کہ وہ اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی شیراز جیسے خاندان میں کر رہے تھے اور وہ اپنے حلقہ احباب کے بے جا اعتراضات سے بچنے کے لیے ہی اتنی احتیاط کر رہے ہوں گے۔ شیراز نے سعید نواز کی اتنی احتیاط کی یہی توجیہہ سوچ کر خود کو اطمینان دلایا تھا۔
شادی کی تاریخ بھی اتنی ہی سادگی سے طے ہوئی تھی، جتنی سادگی سے منگنی ہوئی تھی۔ اس بار شیراز نے پورے خاندان کو لے جانے کی حماقت نہیں کی تھی۔ اس بار وہ صرف اکبر اور نسیم کو ہی لے گیا تھا اور لے جانے سے پہلے وہ انہیں تین چار مرتبہ ایک ہوٹل میں لے جا کر کھانے کے برتنوں اور کھانے کے آداب کے بارے میں سمجھاتا رہا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ حالات میں کچھ زیادہ بہتری نہیں آئی تو اس نے انہیں صرف ایک ہدایت کی۔
”کم سے کم کھائیں۔”
اکبر اور نسیم نے اس بار قابل رشک پرفارمنس کا مظاہرہ کیا تھا انہوں نے سوپ لینے سے انکار کیا تھا۔ چاول لینے کی حماقت نہیں کی تھی۔ صرف قورمہ لیا تھا اور اسے نان کے ساتھ کھاتے رہے۔ وقتاً فوقتاً وہ شیراز کو دیکھتے رہے جو انہیں آنکھوں ہی آنکھوں میں مختلف ہدایات دیتا رہا۔
اکبر اور نسیم نے بے حد جی للچانے کے باوجود ٹیبل پر موجود دوسری کسی ڈش کو نہیں لیا۔ حتیٰ کہ کبابوں کو بھی نہیں کیونکہ انہیں کانٹے سے کھانا پڑتا۔ کسی نے ان سے اصرار کیا بھی نہیں شیراز کی ہدایات کے مطابق انہوں نے آخر میں گرین ٹی پینے سے بھی انکار کر دیا۔
اور ان کے اس انکار کے ساتھ ہی ڈنر ختم ہو گیا۔ شیراز نے جیب سے رومال نکال کر اپنے ماتھے کا پسینہ صاف کیا۔
شینا اس بار بالآخر ان کے سامنے شلوار قمیص میں آئی تھی مگر شیراز نے اپنے دل میں اعتراف کیا کہ اس شلوار قمیص کے مقابلے میں وہ جینز اور ٹاپ زیادہ مہذب تھے۔ سیلولیس قمیص کا گلا صرف آگے سے ہی نہیں پیچھے سے بھی بے حد نیچا تھا۔ وہ تقریباً کمر تک آرہا تھا اور اس پر قیامت یہ تھی کہ شینا آج بالوں کو بنانا کلپ کے ساتھ گردن سے کچھ اوپر لپیٹے ہوئے تھی۔ نتیجہ صاف ظاہر تھا۔
رہی سہی کسر اس کی قمیص کے لمبے چاکوں نے پوری کر دی تھی جس کے دونوں اطراف سے اس کی خوبصورت سفید کمر نظر آرہی تھی۔
اس کے شلوار نما پاجامہ کے پائنچے اوپر چڑھ گئے تھے۔ وہ اکبر کے بالکل سامنے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھی ہوئی تھی اور اکبر کو پسینہ آرہا تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں پہلی بار کسی لڑکی کو اس طرح کے لباس میں ملبوس دیکھا تھا اور وہ بھی وہ لڑکی تھی جو اس کی بہو بننے والی تھی۔
”لیکن یہ تو ماڈرن زمانے کی بچی ہے۔ اونچے خاندان کی لڑکی ہے۔ امیر خاندانوں میں اسی طرح کے پہناوے ہوتے ہیں۔ اب اس کا باپ بھی تو پاس بیٹھا ہے۔ اسے کوئی اعتراض ہوتا تو شینا کیوں ایسے کپڑے پہن کر آتی۔ شادی ہو جائے گی تو شیراز خود ہی اسے سمجھا دے گا۔”
اکبر اپنے آپ کو خود ہی سمجھانے میں مصروف تھا۔ جبکہ نسیم نے ان ساری چیزوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا تھا۔ ”جب بہو اتنی دولت لا رہی ہے تو خوا مخواہ میں اس طرح کی چھوٹی موٹی باتوں پر کیا اعتراض کرنا۔ ویسے بھی اب ہم کوئی محلے والے تو نہیں رہے۔ بنگلوں میں رہنا ہے انہوں نے۔” وہ اپنے آپ کو تاویلات دے رہی تھیں۔
اور شیراز شینا کے سامنے بیٹھا اس پر مکمل طور پر قربان ہو رہا تھا۔ شینا اسے مکمل طور پر نظر انداز کیے بیٹھی تھی۔ وہ صرف سعید نواز اور سنیعہ کی باتیں سن اور انہیں دیکھ رہی تھی۔ اس نے ایک بار بھی نظر اٹھا کر شیراز کو نہیں دیکھا تھا۔
جبکہ شیراز کو اس کی خود اعتمادی مار رہی تھی۔ اسے صرف یہ اندازہ نہیں تھا کہ شینا میں اور بھی بہت کچھ تھا جو اسے مارنے والا تھا۔
One Comment
Nice story dear 🥰 ALLAH Pak bless you dear