”زینب! کہاں تھیں یار! میں کب سے ڈھونڈ رہا ہوں تمہیں۔”
فاران اسے دیکھتے ہی تیر کی طرح اس کی طرف آیا اور پھر اس نے زینی کو اپنے ساتھ لپٹا لیا۔
”We cut the deal” اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے زینی کو مبارک باد دی۔ زینی نے حیرانی سے اس سے الگ ہوتے ہوئے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”کون سی ڈیل؟”
”تم بہت لکی ثابت ہوئی ہو میرے لیے۔”
وہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ زینی کو کچھ چبھا۔ وہ اب اسے اس انٹرنیشنل برانڈ کے بارے میں بتا رہا تھا جس کی کمپین کے لئے اس نے دو دن پہلے اسے چند لوگوں سے ملوایا تھا۔ کاسمیٹکس کا وہ برانڈ پہلی بار کسی ملک میں کسی اسٹیبلش ماڈل یا ایکٹریس کو لینے کے بجائے ایک نئے چہرے کو لے رہا تھا۔ ان کا اس کمپین کے لئے ابتدائی بجٹ ایک کروڑ تھا۔ فاران کو ملنے والی یہ اب تک کی سب سے بڑی کمپین تھی۔
”تم کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ برانڈ کو انٹروڈیوس کروانے کے لئے کون کون مر رہا تھا۔ یہ کمپین تم کو لائف اسٹائل دے گی۔ ایک بہت شان دار لائف اسٹائل۔ ایک بار یہ کمپین لانچ ہو جائے تو تم ایک کیٹ واک کے لیے اتنے پیسے لو گی، جتنی ٹاپ کی ماڈلز اتنے سالوں سے لے رہی ہیں۔ یہ برانڈ تمہاری ایک ایک چیز کا خیال رکھے گا۔” فاران اسے تفصیل بتا رہا تھا۔ وہ اب اس کے آفس میں داخل ہو گئے تھے۔
”تمہاری وارڈ روب، تمہارا اسٹائلسٹ، تمہارا ہیئر اسٹائلسٹ، تمہاری ڈریس ڈیزائنز، تمہاری Accessories تمہاری بیوٹیشن سب وہ ہائر کریں گے۔ تم صرف ان کو رپریذنٹ کرو گی۔”
”کافی ملے گی؟” زینب نے کہا۔ وہ صوفہ پر بیٹھ گئی تھی۔
”ہاں ہاں، آج سب کچھ ملے گا۔” فاران نے انٹر کام اٹھا کر اپنی سیکرٹری کو کافی کے ساتھ ریسٹورنٹ سے کچھ دوسرے اسنیکس منگوا کر بھجوانے کے لیے کہا۔ زینی بیگ سے ہیر برش نکال کر اپنے بالوں میں برش کرنے لگی۔
”نہ صرف یہ بلکہ پورا ایک سال تمہاری ساری کاسمیٹکس وہی دیں گے اور اس کی مالیت بھی لاکھوں میں ہے۔”
فاران نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے سلسلہ کلام جوڑا۔
”لنچ کہاں سے منگوا رہے ہو آج؟” زینب نے اس کو ایک بار پھر ٹوکا۔
”تم بتا دو۔” فاران نے فوراً کہا۔ ”یا ایسا کرتے ہیں، کہیں چلتے ہیں۔”
”یہ ٹھیک ہے۔” زینی نے سر ہلایا اور دوبارہ برش کرنے لگی۔
”یہی نہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی کمپین کے دوران تم شوز یا شوٹس میں جتنی بھی وارڈ روب استعمال کرو گی، وہ استعمال کے بعد تمہاری ملکیت ہو گی۔” فاران اسے ایک ایک چیز بتا دینا چاہ رہا تھا۔
”تم کوئی سلیپنگ پلز لیتے ہو؟” زینب نے ایک بار پھر مداخلت کی وہ جیسے اس کی گفتگو سے بالکل لاتعلق تھی۔
”ہاں۔” فاران نے چونک کر اسے نام بتایا۔
”مجھے بھی منگوا دو۔”
”میں دیکھتا ہوں۔ شاید میری دراز میں پڑی ہو۔ نہ ہوئی تو میں سائرہ سے کہتا ہوں۔”
فاران نے دراز کھولتے ہوئے دیکھا۔ اسے سلیپنگ پلز مل گئی تھیں۔
and guess what “پہلا کمرشل کہاں شوٹ کرنا ہے۔ ملائیشیا میں۔” اس نے سلیپنگ پلز زینی کو تھمائیں۔ جنہیں اس نے اپنے بیگ میں رکھ لیا۔
وہ اب نیل فائل نکال کر اپنے ناخنوں کو رگڑ رہی تھی۔ فاران یک دم چپ ہو گیا۔
”تمہیں خوشی نہیں ہو رہی؟”
”کس بات کی؟”
وہ اس کا منہ دیکھ کر رہ گیا۔ ”زینب ضیاء یہ Once in a lifetime chance ہے جو تمہیں ملاہے یا یہ سمجھو، تم نے جیک پاٹ ہٹ کیا ہے۔ ہماری سپر ماڈلز ترستی ہیں ایسے چانسز کے لیے۔” وہ اسے اس کمپین کی اہمیت کا احساس دلا رہا تھا۔
”ایک رات، ایک ایڈ اور اگلے دن پورا پاکستان پہچان رہاہو گا تمہیں۔ ہر ایک کے ہونٹوں پر ایک ہی نام ہو گا۔ زینب ضیائ… زینب ضیائ۔۔۔۔”
وہ بے اختیار چونکی۔ ”زینب ضیاء کیوں؟ خالی زینب کیوں نہیں؟”
”کیوں کیا ہوا؟ زینب نام کی تو اور بھی لڑکیاں ہیں۔ خالی زینب تو نہیں دے سکتے۔”
”پھر نام بدل دو میرا۔”
”گڈ آئیڈیا… کیا نام رکھیں؟” فاران بے اختیار محظوظ ہوا۔
”کوئی بھی نام جس میں میرے باپ کا نام نہ آئے۔ اس کالک میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہونا چاہیے۔” اس نے آخری جملہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے کہا تھا۔
٭٭٭
”تمہیں کیا ہوا؟” زینی نے کمرے میں داخل ہوئے ہی ربیعہ کی سرخ اور متورم آنکھیں دیکھ لی تھیں۔ وہ ابھی چند لمحے پہلے ہی باہر سے آئی تھی۔ ربیعہ اپنے بستر پر گم صم بیٹھی ہوئی تھی۔
”چھوٹی خالہ آئی تھیں۔” زینی اپنا بیگ رکھتے رکھتے ٹھٹک گئی۔ ان کا اتنی جلدی دوبارہ آنا کوئی اچھا شگون نہیں تھا۔
”پھر؟ ” زینی یک دم بے حد سنجیدہ ہو گئی۔
”پھر یہ کہ وہ بتا گئی ہیں کہ اگر تم نے ماڈلنگ نہ چھوڑی تو وہ عمران کے ساتھ میری منگنی توڑ دیں گی بلکہ وہ کہہ رہی تھیں کہ عمران تو اصرار کر رہا ہے کہ رشتہ ختم کر دیں۔”
”تو ختم کر دیں۔” زینی نے بے حد سرد مہری سے کہا۔
”تم کتنی خودغرض ہو گئی ہو زینی!” ربیعہ اس کی بات پر جیسے تڑپ گئی۔
”منگنی توڑنے کی بات وہ کر رہی ہیں اور خود غرض میں ہو گئی ہوں۔” اس نے سلگ کر کہا۔
”وہ تمہاری وجہ سے منگنی توڑنا چاہتی ہیں۔” ربیعہ نے اس کی بات کاٹی۔
”میری وجہ سے نہیں، ان کو بھی کہیں مال نظر آنا شروع ہو گیا ہو گا۔” زینی نے تلخی سے کہا۔
ربیعہ اپنے بستر سے اٹھ کر اس کے بستر پر آگئی اور اس نے زینی کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے۔
”زینی پلیز، چھوڑ دو یہ سب کچھ۔ اس میں بڑی بے عزتی ہے۔” اس نے جیسے منت کرنے والے انداز میں زینی سے کہا۔
”پیسے کے بغیر دنیا میں ویسے ہی بڑی بے عزتی ہے۔” اس نے بے حد ٹھنڈے انداز میں کہا۔ ”یہ بے عزتی مجھے دنیا میں بے عزتی سے بچا لے گی۔”
”اور جب تک یہ ہو گا، آپا کا گھر تباہ ہو چکا ہو گا۔ میری منگنی ٹوٹ چکی ہو گی۔” ربیعہ نے اس کی بات کاٹی۔
”شادی کے پانچ سالوں میں پچیس بار آپا کا گھر ٹوٹتے ٹوٹتے رہ گیا۔ اس میں میرا ہاتھ تو نہیں تھا اور جہاں تک تمہاری منگنی ہے تو ٹوٹنے دو اس منگنی کو۔ جو رشتے محبت کے بجائے بلیک میلنگ کی وجہ سے جڑے ہوں، ان کو ختم کر دینا چاہیے۔ عمران تم سے شادی کر رہا ہے، مجھ سے تو نہیں کر رہا پھر اس کو کیا تکلیف ہے۔ میں جو چاہے کروں۔” اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”مرد بے عزتی محسوس کرتے ہیں ایسے خاندانوں میں رشتہ کرتے ہوئے جہاں۔۔۔۔” اس نے ربیعہ کو بات مکمل کرنے نہیں دی۔
”سالی ماڈلنگ کرے گی تو وہ کسی کو منہ نہیں دکھا سکے گا۔ سسر پیٹ کاٹ کر جہیز کا سامان دے گا تو اس کو لیتے ہوئے اس کی عزت کو کچھ نہیں ہو گا۔” وہ بے اختیار ہنسی۔
”زینی۔۔۔۔” ربیعہ نے ایک بار پھر کہنا چاہا۔
”مردوں کی بے عزتی کے معیار کتنے جھوٹے ہیں ہمارے معاشرے میں۔ ایک آپا کے شوہر ہیں، جنہیں بیوی کے باپ کے دیے ہوئے بستر میں سو کر، بیوی کے لائے ہوئے برتنوں میں کھا کر بیوی کو گالی دیتے ہوئے، ہاتھ اٹھاتے ہوئے شرم محسوس نہیں ہوتی۔ ہاں بے عزتی محسوس ہوتی ہے، جب بیوی کی بہن ماڈلنگ کرنے لگے۔ ایک تمہارا منگیتر ہے جو بالکل آپا کے شوہر کی طرح میرے باپ سے بیٹی کے ساتھ ساتھ جہیز کی صورت میں ان کی باقی جمع پونجی بھی ہتھیائے گا اور پھر ایک لمبی فہرست بھی تھمائے گا، ان تمام کاموں کی جن سے اس کی ممکنہ بے عزتی ہو سکتی ہے اور اس میں سر فہرست ہو گی بیوی کی بہن کی ماڈلنگ۔”
وہ کھکھلا کر ہنس رہی تھی یوں جیسے اپنی بات سے خود بے حد محظوظ ہوئی ہو۔
”ان کو ابو کی عزت کا احساس نہیں ہے۔ تم کو ہے تو تم چھوڑ کیوں نہیں دیتیں یہ کام۔”
ربیعہ کو اس کی ہنسی بہت بری لگی۔ اس کے باوجود کہ آج کئی مہینوں بعد اس نے زینی کو ہنستے دیکھا تھا مگر زینی اس طرح کبھی ہنستی بھی تو نہیں تھی۔
”میں اپنے باپ کی نافرمان اولاد ہوں لیکن اپنے باپ کے علاوہ اس دنیا میں فی الحال میں کسی دوسرے مرد کی عزت نہیں کرتی۔” وہ یک دم سنجیدہ ہو گئی۔
”چھوڑ دو زینی! یہ سب چھوڑ دو۔” ربیعہ نے ایک بار پھر اس کی منت کی۔
”اور چھوڑنے کے بعد کیا کروں، آپا کی طرح کسی مرد سے شادی کر کے اس کے تلوے چاٹوں، گالیاں کھاؤں اور جہیز کے نام پر مار کھا کر دوبارہ یہاں آبیٹھوں۔” اس کے لہجے میں زہر کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
”تمہیں کیا ہو گیا ہے زینی! کیوں ہر ایک کو تم ایک جیسا سمجھنے لگی ہو؟ ساری دنیا بری نہیں ہوتی۔” ربیعہ زچ ہو گئی تھی۔
”جب مجھے دنیا میں کوئی اچھا نظر آیا نا تو میں تمہاری بات پر یقین کر لوں گی۔ فی الحال دنیا بری ہی ہے میرے لیے۔”
وہ اس کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ چھڑاتے ہوئے اٹھ کر کمرے سے نکل گئی۔
٭٭٭
One Comment
Nice story dear 🥰 ALLAH Pak bless you dear