من و سلویٰ — قسط نمبر ۴

”پتہ نہیں، میں نے تاریخ تو لکھ کر نہیں رکھی۔” اس نے چادر تہہ کی اور چار پائی پر بیٹھتے ہوئے قدرے سرد مہری سے کہا زبیدہ نے اس کے انداز کو محسوس کیا۔
انہوں نے زندگی میں پہلی بار زینی سے اس انداز میں کوئی بات سنی تھی۔ انہیں جیسے کرنٹ لگا تھا۔
”میں نے تو ایسے ہی پوچھا۔ تم بڑی نمازیں اور تہجد پڑھتی ہو۔ اسلام میں بال کٹوانا جائز نہیں ہے۔” انہوں نے اگلے ہی جملے میں حساب صاف کرنے کی کوشش کی تھی۔
”اللہ معاف کرنے والا ہے خالہ! اللہ معاف کر دیتا ہے۔”
اس نے بے حد عجیب مسکراہٹ کے ساتھ زبیدہ سے کہا۔ وہ چند لمحوں کے لئے کچھ نہیں بول سکیں۔ کم از کم وہ زینی کے منہ سے اس بات کے جواب میں اس جملے کو سننے کی توقع نہیں کر رہی تھیں۔ زینی کے بدلے ہوئے حلیے کو انہوں نے محسوس کیا تھا مگر ان کا ذہن ماڈلنگ کی طرف نہیں گیا۔
”کیا کام کر رہی ہو تم؟” انہوں نے بالآخر موضوع بدلاتے ہوئے کہا۔
”ماڈلنگ۔” اس نے اپنے لمبے ناخنوں پر نظر ڈالتے ہوئے ان کے سر پر بم پھوڑا اور ایسا کرتے ہوئے اس نے دور کھڑی ربیعہ کو مسکراتے ہوئے بے حد معنی خیز نظروں سے دیکھا جو بالکل ساکت اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
زبیدہ نے ہونٹوں سے لگایا کپ دوبارہ پرچ میں رکھ لیا۔ انہوں نے گردن موڑ کر زینی کو دیکھا جو اب اپنے برش نکال کر بالوں میں پھیر رہی تھی۔
”تم ماڈلنگ کر رہی ہو؟ لیکن آپا تو کہہ رہی تھیں، تم آفس میں کام کر رہی ہو۔” زبیدہ نے نفیسہ کو دیکھا جو اس وقت شرم سے پانی پانی ہو رہی تھیں۔
”پتا نہیں، یہ تو آپ امی سے پوچھیں۔”
اس نے بڑے اطمینان سے کہا۔ زبیدہ نے نفیسہ سے کچھ پوچھنے کے بجائے اپنا پرس کھولا اور اس میں سے کچھ نوٹ نکال کر بے حد سرد انداز میں زینی کی گود میں رکھ دیے۔
”میں شیراز کی طرف گئی تھی آج، وہ آیا ہوا تھا۔ اس نے مجھے یہ رقم دی کہ تمہیں دے دوں۔ یہ پندرہ ہزار ہیں۔ وہ کہہ رہا تھا کہ تمہاری چوڑیوں کی قیمت سے کچھ زیادہ ہی رقم ہے یہ۔”
بالوں میں برش کرتے ہوئے زینی کا ہاتھ رک گیا۔
”تم نے اپنی چوڑیاں اس کو کیوں دیں؟”




نفیسہ اپنا غصہ بھول کر یک دم بولیں۔ زینی ہزار ہزار کے ان نوٹوں کو دیکھنے لگی۔ وہ چند لمحوں کے لئے ماضی میں لوٹ گئی تھی۔ شیراز نے آخری ادھار لوٹانا فرض سمجھا تھا۔ اسے باقی چار سالوں میں لیے گئے ان گنت چھوٹے بڑے ادھار یاد نہیں آئے۔
”کہہ رہا تھا، اس سے دو چوڑیاں آرام سے بن جائیں گی۔ نہ بنیں تو اسے بتا دوں، وہ مزید رقم بھیج دے گا۔” زبیدہ نے مزید کہا۔
”جب شادی نہیں ہونی تو چوڑیاں بنوا کر کیا کرنا ہے مجھے۔” زینی نے نوٹ اٹھاتے ہوئے کہا۔
نفیسہ نے بے اختیار ہو کر اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ ”کیوں شادی نہیں ہونی۔ دونوں وقت مل رہے ہیں، بری بات منہ سے مت نکالو۔”
زینی نے کوئی جواب دینے کے بجائے ان نوٹوں کو زبیدہ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ ”ان چوڑیوں کی قیمت اتنی نہیں تھی خالہ! کسی چیز کی قیمت ”ضرورت” طے کرتی ہے ”پیسہ” نہیں اور ان چوڑیوں کی قیمت کتنی ہے، یہ شیراز کو وقت آنے پر بتاؤں گی۔ قیمت تو ادا کرے گا وہ مگر میری مرضی کی ادا کرے گا۔ ابھی اس سے کہیں، رکھے اپنے پاس۔”
اس نے نوٹوں کو ان کی ہتھیلی پر رکھ کر مٹھی بند کرتے ہوئے سرد مہری سے کہا اور اپنی چادر اور بیگ اٹھاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
٭٭٭
شیراز چند لمحے چپ چاپ خالہ زبیدہ کو دیکھتا رہا پھر اس نے ان کے ہاتھ سے نوٹ لے لیے اور اپنا والٹ نکال کر بے حد ناراضی کے عالم میں نوٹ اس میں رکھتے ہوئے بولا۔
”ٹھیک ہے۔ اسے یہ پیسے نہیں چاہئیں تو نہ سہی، میں نے پہلے ہی اسے زیادہ رقم بھجوائی تھی لیکن اب اگر وہ چاہتی ہے کہ میں دو سستی سی چوڑیوں کے لیے اسے لاکھوں روپے بھجواؤں تو میں یہ تو نہیں کر سکتا لیکن بہر حال خالہ! آپ گواہ رہیے گا کہ میں نے چوڑیوں کے پیسے بھجوائے تھے۔”
”بالکل زبیدہ! یاد رکھنا یہ بات۔ یہ اتنے کمینے لوگ ہیں کہ ان دو چوڑیوں کو ہزار جگہ دہرائیں گے۔” نسیم نے بے حد غصے کے عالم میں کہا۔ ”اور تم نے زبان دیکھی اس کی۔ کیسے دھمکی دے رہی ہے ہمیں کہ قیمت لے گی میرے بیٹے سے۔ ارے اس کے باپ نے کون سی جائیداد دے دی میرے بیٹے کو کہ اب قیمت لینے نکلی ہے وہ۔”
نسیم کو بے حد غصہ آرہا تھا۔ زبیدہ نے ان کے گھر آکر حرف بہ حرف زینی کی بات دہرا دی تھی۔
”آپا! میں تو خود اس کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر حیران رہ گئی ہوں۔ وہ تو پہلے والی زینی لگ ہی نہیں رہی تھی بال کٹوا لیے ہیں۔ میک اپ کیا ہوا ہے۔ ماں کہتی ہے، آفس میں کام کر رہی ہے۔ بیٹی کہتی ہے، ماڈلنگ کر رہی ہوں۔ میں تو آج خود پریشان ہو گئی ہوں۔” زبیدہ واقعی پریشان تھیں۔
”ماڈلنگ!” شیراز بے اختیار چونکا۔
یہ آخری چیز تھی جو کوئی زینی سے توقع کر سکتا تھا۔
”ہاں، یہی کہا اس نے مجھ سے۔”
”اب یقین آگیا نا تمہیں کہ میرے بیٹے کو کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی تھی۔ اس لڑکی کے لڑکوں کے ساتھ واقعی چکر تھے۔ اب تو پتا چل گیا تمہیں۔” نسیم کا جیسے سیروں خون بڑھ گیا تھا۔ خاندان بھر میں یہ زبیدہ ہی تھیں جو ڈھکے چھپے لفظوں میں زینی کی حمایت کرتی تھیں اور ان کاخیال تھا کہ شیراز کو کوئی غلط فہمی ہو گئی تھی۔
”نہیں آپا! آپ ٹھیک کہتی ہیں، میں ہی غلط تھی۔ زینی کے طور اطوار واقعی خراب ہیں۔ میں تو بس منگنی ٹوٹنے کے بعد اس کی حالت دیکھ کر پسیجتی رہی۔ اس وقت بڑی خراب حالت تھی اس کی۔”
شیراز نے باقی باتیں نہیں سنیں، وہ اٹھ کر دوسرے کمرے میں آگیا۔ کچھ دیر کے لئے ضمیر جاگا تھا اس کا، کچھ دیر کے لئے وہ پریشان ہوا تھا۔ اسے زینی کی کسی بات نے پریشان نہیں کیا تھا۔ نہ پیسے واپس کرنے نے، نہ اپنی مرضی کی قیمت کی دھمکی نے۔ وہ جانتا تھا، زینی کچھ نہیں کر سکتی۔ یہ سب غصے میں کہے ہوئے چند جملوں سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ اسے صرف ایک جملہ چبھا تھا۔
”جب شادی نہیں ہونی تو چوڑیاں بنوا کر کیا کروں گی۔” آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ زینی کی شادی نہ ہو۔ وہ اتنی خوبصورت ہے۔ خاندان میں کتنے لڑکے اس سے شادی کرنا چاہتے ہیں اور خاندان نہیں تو محلے میں یا چچا کے جاننے والوں میں۔ ٹھیک ہے، میرے جیسا رشتہ نہیں ملے گا اسے لیکن کوئی نہ کوئی رشتہ تو مل جائے گا اسے۔ منگنیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔ لڑکیاں رو دھو کر ٹھیک ہو جاتی ہیں پھر شادی کے بعد سب کچھ بھول جاتی ہیں۔ آخر میں بھی تو زینی کو بھول گیا ہوں پھر زینی مجھے کیوں نہیں بھولے گی۔”
شیراز نے اپنے بستر پر بیٹھتے ہوئے اپنے ضمیر کو دوبارہ تھپکیاں دے کر سلانا شروع کیا۔اسے اس وقت ایک لمحے کے لیے لگا کہ وہ بھی ابھی تک زینی کو نہیں بھولا تھا۔ کچھ نہ کچھ تھا جو کبھی نہ کبھی اسے بے چین کرتا تھا مگر وہ کبھی یہ ماننے پر تیار نہیں تھا کہ یہ محبت تھی۔ وہ اب صرف اور صرف شینا سعید نواز سے محبت کرتا تھا۔
اس نے جیسے خود کو یاد دلایا اور ایک عجیب سی خوشی محسوس کی۔ ”دیکھا میں کہتا تھا نا کہ میں زینی سے اب محبت نہیں کرتا، اب شینا سے محبت کرتاہوں۔ محبت تو خوشی دیتی ہے جیسے میں شینا کے بارے میں سوچ کر ہوتا ہوں۔ محبت بے چین تھوڑی کرتی ہے جس طرح میں زینی کے بارے میں سوچ کر ہوتا ہوں۔”
شیراز نے جیسے اطمینان کا سانس لیا اور شکر کا بھی۔ اس نے زینی کے بارے میں اتنے ہمدردانہ انداز میں سوچتے ہوئے ایک بار بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اس نے اور اس کے گھر والوں نے زینی کے کردار کے بارے میں شرمناک انداز میں کیچڑ اچھالی تھی۔ شاید اسے یہ لگا تھا کہ کسی لڑکی کو کسی لڑکے کے ساتھ دیکھ لینے کے بعد اس کے ساتھ یہی کیا جا سکتا تھا اور اس کے بارے میں یہی کچھ کہا جا سکتا تھا۔
ایسا نہیں تھا کہ شیراز نے اس لڑکے کے خط دینے کی کوشش پر زینی کے چہرے کا خوف نہ دیکھا ہو یا زینی کا اس خط لینے سے انکار نہ سنا ہو۔ وہ ان دونوں چیزوں سے بھی آگاہ تھا لیکن وہ آگاہی اس وقت اس کے کام نہ آتی۔
اسے چند لمحوں کے لیے اندھا بن جانا تھا اور پھر اس کی قسمت بدل جاتی۔ رشتے کی اس ڈور کو وہ خود پر کوئی حرف آئے بغیر اور کوئی سوالیہ نشان بنے بغیر توڑ پاتا۔
اسے صرف یہ اندازہ نہیں ہوا تھا کہ اس ڈور کو توڑنے کی کوشش میں اس نے زینی کی انگلیاں کاٹ ڈالی تھیں۔
٭٭٭
سوئی ہوئی زینی کی آنکھ بچوں کے شور سے کھلی تھی۔ اس نے کچھ دیر آنکھیں کھلی رکھ کر شور کا ماخذ سمجھنے کی کوشش کی۔ یقینا زہرہ آپا آئی تھیں۔ اس نے کروٹ لے کر دوبارہ سونے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔ زہرہ صحن میں نفیسہ کے پاس بیٹھی روتے ہوئے کچھ کہہ رہی تھی۔
زینی اٹھ کر بیٹھ گئی۔ یہ اندازہ لگانا اس کے لئے مشکل نہیں تھا کہ اب کیا مسئلہ ہو گا پھر کوئی نیا جھگڑا، کوئی نیا مطالبہ۔ اس بار کافی مہینے گزر گئے تھے خیریت سے اور اسے خود حیرانی تھی کہ اتنے مہینے نعیم بھائی کی طرف سے کسی مطالبے کے بغیر کیسے گزر گئے تھے۔
وہ اٹھ کر باہر آگئی اور اسے دیکھتے ہی نفیسہ کی برہمی اور زہرہ کے آنسوؤں میں اضافہ ہو گیا تھا۔
”پھر نکال دیا سسرال والوں نے یا کسی نئے مطالبے کے ساتھ بھیجا ہے آپ کو؟”
”یہ سب تمہاری وجہ سے ہو رہا ہے۔ تم سے بار بار کہہ رہی تھی کہ چھوڑ دو یہ سارے کام لیکن نہیں۔ تم بہنوں کے گھر تباہ کروا کر چھوڑو گی۔” نفیسہ نے طیش میں اس کو مخاطب کر کے کہا۔
”اچھا، یعنی اس بار میری ماڈلنگ کا بہانا بنا کر آپ کو نکالا ہے۔” اس نے اطمینان سے صحن میں کھیلتی بچیوں کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
”اب دوبارہ آپ واپس اس گھر میں مت جائیں۔ کیا ہے وہاں پر جس کے لیے اتنی ذلت اٹھا رہی ہیں۔ آٹھ سو روپیہ ماہانہ؟ وہ میں آپ کو دے دوں گی۔ آپ یہیں رہیں۔”
”میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں زینی! چھوڑ دو یہ سب کچھ۔ ابھی انہوں نے مجھے گھر سے نہیں نکالا صرف دھمکایا ہے لیکن وہ نکال دیں گے مجھے۔ میری بیٹیوں کی زندگی خراب ہو جائے گی۔” زہرہ آپا نے روتے ہوئے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے۔
”آپ میرے سامنے ہاتھ نہ جوڑیں۔ میں نے اپنے باپ کی نہیں مانی تو آپ کی کیسے مانوں گی۔” اس نے بے حد صاف اور دو ٹوک لفظوں میں کہا۔ ”لیکن آپ سے یہ ضرور کہتی ہوں کہ آپ کی بیٹیوں کی زندگی کو کچھ نہیں ہو گا۔” اس نے پلٹ کر زہرہ آپا سے کہا۔
”امی! آپ کیوں نہیں سمجھاتیں اسے؟” زہرہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ”یہ شیراز کا بدلہ ہم سے کیوں لینے لگی ہے۔ پہلے شیراز کی وجہ سے اس کا دماغ ساتویں آسمان پر تھا کہ اس کا منگیتر تو سرکاری افسر بننے والا ہے یہ سرکاری افسر کی بیوی بنے گی۔”
زینی نے پلٹ کر بہن کو تعجب سے دیکھا۔ یہ کب ہوا تھا کہ اس کے انداز میں اس کی اپنی بہن کو غرور کا شائبہ ہوا تھا۔ ایسا غرور جس کا وہ آج حوالہ دے رہی تھی۔ سرکاری افسر کی بیوی…؟ اس نے تو زندگی میں کبھی اس چیز کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا۔ وہ تو شیراز کی بیوی بننا چاہتی تھی۔ چاہے شیراز جو مرضی ہوتا وہ عہدے کے پیچھے پاگل نہیں ہوئی تھی، وہ محبت میں خوار ہو رہی تھی۔
”اور اب اگر منگنی ٹوٹ گئی ہے تو اس نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے۔ اتنی خود سر ہو گئی ہے یہ اور آپ اور ابو اس کو روک نہیں رہے۔ میرے گھر کو کچھ ہوا نا امی تو یہ سب کچھ زینی کی وجہ سے ہو گا۔ میں ساری عمر اسے معاف نہیں کروں گی۔”
زینی نے جواب میں کچھ نہیں کہا، وہ پلٹ کر کمرے میں چلی گئی تھی۔
اپنے بستر پر جا کر دوبارہ لیٹتے ہوئے اسے یاد آیا۔ پہلے ہمیشہ زہرہ آپا کے اس طرح گھر آنے پر وہ بھی ان کے ساتھ رونا دھونا شروع کر دیتی تھی پھر نمازوں کے ساتھ وظیفے شروع ہو جاتے تھے۔ آج ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ وہ اطمینان سے اندر آکر بستر پر لیٹ کر سونے کی کوشش کرنے لگی تھی۔
”کیا میں واقعی بے حس ہو گئی ہوں؟” اس نے بے اختیار اپنے آپ سے پوچھا۔
”شاید۔” اس نے جیسے خود ہی جواب دیا اور آنکھیں بند کر لیں۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۳

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

One Comment

  • Nice story dear 🥰 ALLAH Pak bless you dear

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!